Topics

ساڑھے تین ہزار سال(ہفت اقلیم) ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔اگست 2016



"اگر انسان اپنی ذات (روشنی) سے واقف ہوجائے تو مظاہر (مکانیت) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنے اختیار سے مظاہر میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ یہی عرفان نفس ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میں ایک لاشعور کارفرما ہے جس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کا مفہوم سمجھتی ہے، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ نظام کائنات میں مسلسل غور و فکر سے ذہن کائناتی لاشعور میں تحلیل ہوجاتا ہے اور کائنات کا لاشعور فرد کا شعور بن جاتا ہے۔ مقدس ہستیاں غیب و شہود کے مناظر کو براہِ راست دیکھتی اور سمجھتی ہیں اور دوسروں کو بھی ان کا شعور دیتی ہیں۔ شہنشاہِ ہفت اقلیم، تاج الاولیا والدّین۔۔۔ حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا شمار ان برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے لئے کائنات مسخر ہے۔
نام محمد تاج الدین ہے۔ پیار سے چراغ دین اور عرف عام میں تاج الدین باباؒ کہا جاتا ہے۔
شہنشاہِ ہفت اقلیم۔۔۔ ناناؒ کا لقب ہے۔ مختصر تشریح یوں ہے کہ تمام عالم کو اللہ نے نظام تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا ہے جو سات (ہفت) اقلیم کہلاتے ہیں۔ چناں چہ باعثِ تخلیق کائنات حضور اکرمؐ کا وہ نائب جس کے انتظام و اختیار میں ساتویں اقلیم ہیں، شہنشاہ ہفت اقلیم کہلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حسن مہدی بدر الدینؒ کی اہلیہ مریم بی صاحبہ نے تاثر انگیز خواب دیکھا۔۔۔ چاند آسمان پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اور فضا چاندنی سے معمور ہے۔ یکایک چاند آسمان سے ان کی گود میں آگیا۔۔۔کائنات اس روشنی سے منور ہوگئی۔ خواب کی تعبیر نانا تاج الدینؒ کی صورت میں سامنے آئی۔ عام روایت کے مطابق آپ5 رجب المرجب 1277ھ مطابق 27 جنوری 1861ء کو پیر کے دن فجر کے وقت کا مٹی، ناگپور میں پیدا ہوئے۔ وصال 26 محرم الحرام 1344 ھ مطابق 17 اگست 1925ء کو چونسٹھ سال کی عمر میں ہوا۔ ایک برس کی عمر میں والد اور نو سال کے ہوئے تو والدہ کا انتقال ہوگیا۔ نانا نانی نے سرپرستی میں لے لیا۔ چھ سال کی عمر میں نانا تاج الدینؒ کو مکتب میں داخل کیا گیا۔ ایک روز مکتب میں بیٹھے درس سن رہے تھے کہ اس زمانہ کے ایک ولی اللہ حضرت عبداللہ شاہ قادریؒ مدرسہ میں آئے اور استاد سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔ 
"یہ لڑکا پڑھا پڑھایا ہے، اسے پڑھانے کی ضرورت نہیں۔"
اس بات کاسراغ نہیں ملتا کہ نانا تاج الدینؒ نے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر بھی دو ہستیاں ایسی ہیں جن سے قربت اور نسبت ثابت ہے۔ نوجوانی میں ناناؒ ، حضرت عبداللہ شاہؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ حضرت عبداللہ شاہؒ کے وصال کے قریب آیا تو ان کے سجادہ نشین کے مطابق شاہ صاحبؒ نے چند گھونٹ شربت پی کر باقی بابا تاج الدینؒ کو پلایا۔
نانا تاج الدینؒ کو حضرت عبداللہ شاہؒ کی قربت حاصل ہوئی۔۔۔ نسبتِ چشتیہ بابا داؤد مکیؒ کے مزار پر بطریق اویسیہ منتقل ہوئی جہاں آپ نے تقریباً دو سال ریاضت میں گزارے۔ لیکن ناناؒ کی تعلیم و تربیت خود جناب سرورِ کائنات حضرت محمدؐ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت اویس قرنیؒ نے کی۔ نیز ان کو ہر سلسلہ کے اکابر اولیاء اللہ کی ارواح سے فیض حاصل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نانا تاج الدینؒ جیسی برگزیدہ ہستی ساڑھے تین ہزار سال میں اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم سے پیدا کرتا ہے۔ یہ ساری کائنات چار نورانی آبشاروں پر قائم ہے۔ نانا تاج الدینؒ کی عظمت کا حال یہ ہے کہ نور اور تجلیات کی ان چار آبشاروں کو اپنے اندر اس طرح جذب کرلیتے ہیں کہ ایک قطرہ بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ رسول اللہؐ سے قربت کا عالم یہ ہے کہ حضور رحمت اللعالمینؐ نے اپنے اس فرزند کی کوئی بات نامنظور نہیں فرمائی۔
نانا تاج الدینؒ کے گوالے کا نام گلاب سنگھ تھا۔ وہ سن گیارہ سے یہ خدمت انجام دے رہا تھا۔ آپ کی چائے کے لئے ایک بھینس وقف کررکھی تھی۔ سن سترہ کی برسات میں ایک صبح گلاب سنگھ نہیں آیا۔ ناناؒ نے دن چڑھنے تک انتظار کرنے کے بعد حیات خان سے کہا، کیا آج چائے نہیں ملے گی۔ حیات خان نے عرض کیا، سویرے سے گلاب سنگھ کا انتظار کررہا ہوں۔ حکم ہو تو بازار سے دودھ لے آؤں۔ نانا تاج الدینؒ نے فرمایا، پھر تو نے اس کی خبر کیوں نہیں لی۔۔۔ جاکے آ
گاؤں میں داخل ہوتے ہی حیات خان کی نظرار تھی پر پڑی۔ لوگ کریا کرم کے بندوبست میں لگے ہوئے تھے۔ آواز سنی۔۔۔ بابا صاحبؒ کا گوالا مرگیا۔
حیات خان پریشان الٹے پاؤں دوڑا۔ نانا تاج الدینؒ فرمارہے تھے۔ حیات خان گلوگیر آواز میں بولا، گلاب سنگھ مرگیا۔ ناناؒ یہ سن کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ آنکھوں سے جلال برس رہا تھا۔ ارتھی کے قریب پہنچ کر پکارنا شروع کیا، "گلاب سنگھ! گلاب سنگھ!"
فرمایا: اسے کھول دو یہ زندہ ہے۔ ارتھی کی ڈوریاں کاٹی گئیں اور گلاب سنگھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے دن حسب معمول دودھ لے کر آیا۔
کرامت کا پس منظر یہ ہے کہ نانا تاج الدینؒ نے سیدناحضور پاکؐ سے گلاب سنگھ کی واپسی کی درخواست کی جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قبول فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر سے معذور ایک نوجوان شفا خانہ میں آکر ٹھہرا۔ صبح کھاپی کر شفاخانہ سے چلتا اور نانا تاج الدینؒ کے سامنے آبیٹھتا۔ سلام کرکے لنگڑی ٹانگ پھیلا کر ہاتھ پھیرنے لگتا اور منہ بناتا جیسے بڑی تکلیف میں ہوں۔ ناناؒ "ہوں" کہہ کر چپ ہوجاتے۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے۔ وہ شخص اڑیل تھا، روزانہ حاضر ہوتا۔ ایک روز غصہ میں آیا اور نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا۔"اللہ نے مجھے لنگڑا کردیا۔ جن کی ٹانگیں ہیں وہ احساس نہیں کرتے۔" ناناؒ اس کی باتیں سن کر جھنجھلاگئے۔ گرج دار آواز میں بولے، بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے، جھوٹا کہیں کا۔" یہ کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا۔ اسے یاد ہی نہیں رہا کہ وہ لنگڑا ہے۔
انسان علی شاہؒ ، نانا تاج الدینؒ کے فیض یافتہ تھے۔ سوچنے کی طرزیں ناناؒ سے ملتی تھیں۔ انسان علی شاہؒ فرماتے ہیں، اس واقعہ کی توجیہ مشکل نہیں۔ یہ سمجھنا کہ کائنات ارتقائی مراحل طے کررہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔۔۔ وقت صرف انسان کی اندرونی واردات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شے اندرونی واردات کی حد سے باہر نہیں۔ تغیر اور ارتقا کے مرحلے اندرونی واردات کے اجزا ہیں۔ واردات ہی نوعی سراپا کی نقلیں ہیں جو افراد کی شکل و صورت میں چھپ رہی ہیں۔ چھپائی کی رفتار معین ہے۔ اسی رفتار کا نام وقت ہے۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی ہوجائے تو لنگڑا، لولا۔ اندھا چھپنے لگتا ہے۔ حوادس اسی طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب عارف کا ذہن ایک "آن" کے لئے صدوری کیفیت میں داخل ہوجاتا ہے تو یہ بے اعتدالیاں دور ہوجاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالتِ استغراق میں نانا تاج الدینؒ کی آنکھیں کچھ بند رہتی تھیں۔ حیات خان اکثر ان کی "نیم وا" آنکھیں ذوق و شوق سے دیکھتا۔ ایک مرتبہ استغراق کی حالت میں حیات خان نے مجھے اشارہ سے بلایا اور کہا، اس پتے کو دیکھو۔ میں نے دیکھا کہ پتے میں سے ٹانگیں، چہرہ کے خدوخال رونما ہورہے تھے۔ پتا تقریباً تین انچ طویل ہوگا۔ نظر برابر والے پتے پر پڑی۔ اس میں بھی ویسا ہی تغیر تھا۔ دونوں پتے ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگے۔ ایک دو منٹ میں ان کی ہیئت ا تنی بدلی کی پتوں کی شباہت باقی نہ رہی۔۔۔ درخت کے تنے کی طرف چلے جارہے تھے۔ نانا تاج الدینؒ کی نیم وا آنکھیں پتوں پر جمی ہوئی تھیں۔*
کئی ماہ بعد میں ناناؒ سے توجیہ معلوم کی۔ فرمایا۔۔۔ارے تو سمجھ بھی سکے گا۔ دیکھ یہ درخت ہے، اس کے اندر زندگی کے سارے ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں۔ دیکھنا، سننا، سمجھنا، جنبش کرنا یہ سب ٹکڑے اس درخت کے اندر جھانکنے سے نظر آتے ہیں، اس کے ہر پتے میں سچ مچ کا منہ ہے، سچ مچ کے ہاتھ پیر ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جب تک پتا دوسری زندگی سے ملتا نہیں، اس کے اندر عام لوگ یہ "نیرنگ" نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ اور جب کوئی پتا میری زندگی سے گلے ملتا ہے تو جیتا جاگتا کیڑا بن جاتا ہے۔ یہ سمجھ کہ آنکھ سے بھی گلے ملتے ہیں۔ یاد رکھ۔۔۔ زندگی سے زندگی بنتی ہے اور زندگی زندگی میں سماتی ہے۔
*
اس مہینے کے سرورق پر گہری نظریں ڈالیں، انشاء اللہ وضاحت ہوگی۔
ایک دن ناناؒ واکی شریف کے جنگل میں ساتھیوں کے ہم راہ تھے۔ مسکراتے ہوئے فرمایا، "میاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلاجائے۔ میں یہیں ذرا دیر آرام کروں گا، خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی، تم لوگ خوامخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو، جاؤ کھاؤ پیو مزا کرو۔" بعض لوگ ادھر ادھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔ میں اور حیات خان اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدینؒ کو دیکھتا رہے۔ ناناؒ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے، آنکھیں بند تھیں۔ فضا میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ انتظار تھا ایک درندہ کا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کررہا تھا۔ یکایک ناناؒ کی طرف نگاہیں متوجہ ہوئیں اور دیکھا کہ ایک طویل القامت شیر بڑے ادب کے ساتھ ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا اور ان کے پیروں کے بالکل قریب آگیا۔ ناناؒ گہری نیند میں تھے، شیر زبان سے تلوے چھورہا تھا، چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہوگئیں اور اس نے سرزمین پر رکھ دیا۔ ناناؒ سورہے تھے۔ شیر نے مزید ہمت کرکے تلوے چاٹنا شروع کردیے جس سے ناناؒ کی آنکھ کھل گئی شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: "تو آگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے، تجھے تن درست دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔ اچھا اب جا۔"
شیر نے ممنونیت سے دم ہلائی اور چلاگیا۔ یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ شیر پہلے کبھی ان کے پاس آیا تھا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ناناؒ اور شیر ایک دوسرے سے روشناس تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نانا تاج الدینؒ نے فرمایا
۔انسان پابہ گل ہے، جناب پابہ ہیولیٰ ہیں، فرشتے پابہ نور۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔
 
۔تفکر کے ذریعے ستاروں، ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی ہیں۔ تمام کائنات اس وضع کے تبادلۂ خیال کا ایک خاندان ہے۔
 
۔خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں توہم، تخیل، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔
 
۔مخقق روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کردے۔ البتہ انا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے انا کی لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نانا تاج الدین ناگپوریؒ میں شعر گوئی کی صلاحیت بدرجۂ کمال موجود تھی لیکن بے نیازی اور مزاج میں استغراق کی وجہ سے آپ مروجہ طرزوں میں شاعری کی طرف رجوع نہیں ہوئے۔ جو کچھ ناناؒ نے کہا اس کو نہ خود ضبط تحریر میں لائے اور نہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ کوئی اور سن کر لکھ لیتا۔ صرف چند اشعار ریکارڈ میں آسکے۔ باقی کلام لاعلمی اور عدم دست یابی کے اندھیروں میں گم ہوکر رہ گیا۔ نانا تاج الدینؒ ۔۔۔ داس ملو کا تخلص کرتے تھے جس کے معنی اللہ کا بندہ ہے۔
چند اشعار پیش ہیں۔ فرماتے ہیں
اجگر کریں نہ چاکری، پنچھی کریں نہ کام
داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام
ترجمہ: چوپائے ملازمت نہیں کرتے اور پرندے کاروبار نہیں کرتے پھر بھی رزق ان کو ملتا رہتا ہے۔ داس ملو کا کاکہنا ہے کہ دوستو! سب کی پرورش کرنے والا اللہ ہے۔
مانس ہے سب آتما، مانس ہے سب راکھ
بندی کی گنتی نہیں، بندی میں سو لاکھ
ترجمہ: آدمی سب کا سب آتما (روشنی کا وجود) ہے اور سب کا سب مٹی (راکھ) بھی ہے۔ صفر اگرچہ شمار نہیں کیا جاتا لیکن صفر ہی سے گنتی کی قیمت لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
ناناؒ آدمی کو محض مٹی (گوشت پوست) سے مرکب تسلیم نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آدمی بظاہر مٹی معلوم ہوتا ہے لیکن مٹی کے ساتھ ساتھ وہ روشنیوں کا مجموعہ بھی ہے۔ ایسا مجموعہ جو کائنات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ انسان نے خود کو مظاہر (مٹی) کا پابند بنارکھا ہے۔ اگر انسان اپنی ذات (روشنی) سے واقف ہوجائے تو مظاہر (مکانیت) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنے اختیار سے مظاہر میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ یہی عرفانِ نفس ہے۔
دام و در کی ریس میں رام کرت گن گائے
پربھوکی سوگند ہے، ڈشٹ اسے مل جائے
ترجمہ: ظاہر پرست اللہ کی تسبیح اور عبادات کا د کھاوا کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! اس کو اللہ تو نہیں مل سکتا، البتہ شیطان اسے مل جاتا ہے۔
تن پاپی، من کا ہرا، اُجیارے سب کیس
مندر کا دیپک نہیں، رشیوں کا سا بھیس
ترجمہ: جسم گناہوں سے آلودہ ہے، دل سیاہ ہوچکا ہے مگر ان چیزوں کو سفید بالوں نے چھپارکھا ہے۔ محض اللہ والوں کا حلیہ بنالینے سے یا ان کے جیسا لباس پہن لینے سے دل کے اندر روشنی نہیں ہوتی۔
سائے بن کی رات میں بن باسی بن جائیں
داسی ملو کا ساتھ میں جاگیں اور لہرائیں
ترجمہ: رات کو جنگل میں سائے آدمی بن جاتے ہیں۔ تاج الدین ؒ ان کے ساتھ جاگتے رہتے ہیں اور خوش گپیاں کرتے ہیں۔
یہ "دوہا" اس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جب ناناؒ رات کو ریاضت و مراقبہ کی غرض سے بابا داؤد مکیؒ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔ ناناؒ فرماتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مظاہر بے حس و حرکت ہیں اور ان میں زندگی نہیں ہے لیکن درحقیقت ان میں زندگی کے تمام آثار موجود ہیں۔ شب بیداری سے موجودات کا باطنی رخ سامنے آجاتا ہے اور تاج الدینؒ رات بھر غیبی مشاہدات میں مستغرق رہتے ہیں۔
اللہ حافظ 

خواجہ شمس الدین عظیمی
اگست 2016


Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔