Topics

روحانی تربیت ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔ اکتوبر ۔2019


میں تنہائی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں کیا ہوں___؟ کہاں سے آیا ہوں۔ ہر روز کون سی دنیا میں چُھپ رہا ہوں اوردوسرے دن ظاہر ہو جاتا ہوں۔آخر غیب ہو نا، غیب کا ظاہر ہونا۔۔۔ آخر یہ کھیل کیا ہے؟ تخلیق کا راز بڑے صاحب جانتے ہیں۔

          میں نہیں جانتا۔پیدائش سے پہلے کہاں تھا، پیدائش کے بعد ظاہر کس طرح ہوا؟ قدم بقدم ظاہر ہونے والا میرا جسم بڑھنے کے عمل میں مصروف  ہوگیا۔ایک دن کا بچہ غیب ہوا، دوسرے دن ظاہر ہو گیا۔ دوسرا دن پردہ میں چھپ گیا تو تیسرا دن ظاہر ہوگیا اور غیب و شہودکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایسے مقام پر جا ٹہراکہ غیب کے جس عالم سے میں ظاہر میں آیا تھا دوبارہ غیب میں غائب ہو گیا۔ دنیا میں     آنے سے پہلے غیب میں تھا اور دنیا میں ظاہر ہونے کے بعد پھر غیب میں چلا گیا۔غیب و شہود کا یہ سلسلہ پتہ نہیں کب شروع ہوا اور یہ بھی علم نہیں ہے کہ کب ختم ہوگا۔

          ذہن کے پردوں میں سرسراہٹ کے ساتھ حرکت ہوئی تو تصویر بنی۔ تصویر سامنے آئی تو ایک نہیں تھی۔ تصویر در تصویر ہجوم تھا۔ بالآخر ہجوم بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ کوئی قبر میں جا سویا اور کوئی عالی شان محل میں براجمان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔

          " اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے اور فرماںداروں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔"   (سورۃ النحل :۸۹)

…………………

          روحانی سلسلہ غیب و شہود کا (Institute) ہے۔ اس میں داخل ہونے کے بعد شکوک و شبہات اور مایوسی کے خیالات کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ شیطان کا مشن ہے کہ بندہ ناخوش ہو جائے۔ ناخوشی کے لئے شیطان کا خود کار ہتھیار " انا" کا خول ہے۔

          آدمی انا میں سمٹنے لگتا ہے۔۔ اس کی سوچ اور شخصیت قیاس بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ذرا سا کام ہو جائے تو اسے بہت بڑاکارنامہ قرار دیتا ہے اور اس کم زوری کے سبب اپنے حقوق قائم کر لیتا ہے۔ ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لاشمارنعمتوں سے نوازا ہے۔

          ایک دولت مند شخص نے گلہ کیا کہ میرا دوست اللہ تعالیٰ سے باغی ہوگیا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول نہیں کی۔اس نے باپ کے زندہ رہنے کی دُعا کی تھی۔ لاکھوں روپے علاج پر خرچ کر دیئے مگر باپ مر گیا۔ میں نے جواب دیا کہ اول تو دعا ہی غلط تھی۔ تم نہیں مرو گے تو تمہاری کرسی پر تمہارا بیٹا کیسے بیٹھے گا؟مرنا جینا دونوں کام اس قدر یقینی ہیں کہ ان سے کسی بھی طرح چھٹکارا نہیں۔ تمہارا دوست جس گھر میں رہتا ہے، اس گھر کی زمین کی قیمت اس نے اللہ تعالیٰ کو کتنی دی ہے؟ جو سرمایہ لئے بیٹھا ہے اگر پیدائشی طور پر اس کا ذہن یا جسم مفلوج ہوتا یا مفلوک الحال ہوتا تو۔۔۔؟

…………………

قارئین خواتین وحضرات ! آپ کی روح خوبصورت اور ذہن دل کش ہے۔ یہ دل کشی اور خوبصورتی ہمارا کارنامہ نہیں۔۔

          احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔

          مایوسی اور پریشان خیالی راستہ کا اُتار چڑھاؤ ہیں۔ مسافر سفر کرتا ہے تو اسے طوفان، گرد و غبار اور تکان سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

          حقیقی مسافر وہ ہے جو منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے، اس کا مقصد منزل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور منزل چونکہ سامنے نہیں ہے اس لئے وہ ہر حال چلتا رہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان پریشان کن خیالات سے نکل آئیں گے جو روحانی راستہ میں سب کو پیش آتے ہیں۔

          آپ نے مجھے استاد بنایا ہے، میں نے بھی آپ کو آنکھوں کی روشنی بنا کر قبول کیا ہے۔ میرے اوپر فرض ہے کہ میں آپ کو راستہ کی بھول بھلیوں سے آگاہ کرتا رہوں۔ آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ منزل کے علاوہ چھوٹی بڑی عارضی شئے قبول نہ کریں۔ منزل جب مل جاتی ہے تو ہر شئے منزل رسیدہ شخص کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے۔

                   خوش رہنے والے اللہ تعالیٰ کے دوست ہیںاس لئے میرے تصور میں جب آپ کا ہنستا ہوا مسکراتا چہرہ غم آلود ہوتا ہےتو میں بے چین ہو جاتا ہوں۔ کیا بات آپ کی سمجھ میں آگئی۔۔۔؟

          دنیا میں میرا اور آپ کا کوئی نہیں ہے۔ کوئی ہمیں چھوڑ جائے گا اور زیادہ کو ہم چھوڑ جائیں گے۔ آخری  سرمایہ دو گز قبرہے، وہ بھی اس وقت ہمیں مل جائے۔ ہمارا جسمانی نظام قبر کے اندر کیڑوں کی خوراک ہے۔ہماری انا مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انا کے ذرّات کو آدمی ، کتے، بلیاں،گدھے ، گائے اور بھینس پیروں میں روندتے پھرتے ہیں۔ بڑے بڑےبادشاہوں کے سر اور تاج۔۔۔بڑے بڑے نمرود، فرعون، شداد اور قانون گزرے ہیں ، امین نے انہیں نگل کر مٹی کے ذرّات میں تبدیل کر دیا۔ آج ہم ان لوگوں کی مٹی کے ذرّات پر چل پھر رہے ہیں۔

………………

          کون و مکاں کے اسرار کے امین ۔۔۔۔ ابدالِ حق قلندر بابا اولیاؒ فرماتے ہیں کہ" آدمی اللہ تعالیٰ کے لئے ایک قدم اُٹھاتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے احسان کر دیا ہے، نعوذ بااللہ! وہ کیوں نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے نو مہینے ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کیا، پیدائش کے بعد سوا دو سال تک بلا مشقت غذا  کا اہتمام کیا۔ ہوا،پانی، آکسیجن اور سارے وسائل عطا کئے۔ مخلوق سے ایک پیسہ نہیں لیا۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے نوازا، صحت اور اولاد دی، عزت وقار عطا کیا، کاروبارکرنے کے لئے عقل دی۔ آدمی  80، 70 سال زندہ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زمین پر دندناتاپھرتا ہے۔ سر کشی کرتا ہے۔ وسائل کی قیمت لگاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اسے یاد رکھتا ہے۔

………………

          یہ اس وقت کا ذکر ہے جب تربیت کے دور سے گزر رہا تھا، زندگی شکوک وشبہات، اور وسوسوں کی آماجگاہ تھی۔ یقین کے راستے میں قدم بڑھایا تو بے یقینی کا طوفان حملہ آور ہوا۔ میں نے سوچا کہ طویل عرصہ اللہ تعالیٰ کو پکارا، اللہ تعالیٰ نے جواب کیوں نہیں دیا؟ راتیں آنکھوں میں سمیٹ لیں، کوئی کشف کیوں نہیں ہوا؟ مرشد کے اوپر میرا حق ہے، وہ حق ہے، خدمت میں  رات دن ایک کر دیئے لیکن؟ فلاں آدمی کیوں نواز دیا گیا، مجھے کیوں محروم رکھا گیا؟

          پانی سر سے اونچا ہوا اور شیطان نے اپنا آلہ کار بنا لیا تو مایوسی کے دورے پڑنے لگے۔ایک دن مرشد کریم نے فرمایا:

"خواجہ صاحب بیٹھ جائیں۔"

          پوچھا: "میرا آپ سے کیا رشتہ ہے؟" عرض کیا: "آپ کا غلام ہوں۔"

          فرمایا : "یہ تو ٹھیک ہے، میں تمہارا کیا لگتا ہوں؟"

          ڈرتے ڈرتے کہا : "حضور میرے محبوب ہیں۔"

          مسکرا کر فرمایا : " لیجئے ! یہ تو مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ اب یہ بتائیں کہ جب محبوب پاس ہو تو کیا کوئی اور خیال آتا ہے؟

          اور اگر آتا ہے تو یہ محبوب کی توہین ہے۔ اس لئے کہ محبوب کی ہم آغوشی کے بعد کوئی خیال آتا ہے تو دراصل وہ 

          محبوب ہے جس کا خیال آرہا ہے۔ آپ جنت دیکھنا چاہتے ہیں، آسمانوں میں پرواز کرنا چاہتے ہیں تو آپ کامحبوب میں کس طرح ہوا؟ آپ کا محبوب جنت ہے، پرواز ہے، کشف و کرامات ہیں۔"

          میں لرز گیا۔ آنکھیں بھیگ گئیں۔ دل کی دنیا ماتم کدہ بن گئی۔ تھکے قدموں سے اُٹھا اور مرشد کے قدموں میں سر رکھ دیا۔

          انہوں نے ایک آہ بھری اور مجھے سینے سے لگا لیا۔

…………………

محبوب کی وصل کی لذت آج بھی اندر زندہ ہے اور دن رات بے قرار کئے ہوئے ہے۔ اس لذت کی تلاش میں کہاں کہاں         نہیں پہنچا۔جنت کا ایک ایک گوشہ دیکھا، آسمانوں کی رفعتوں میں فرشتوں کے خوش نما صفاتی پروں کا جمال دیکھا، ملائے اعلیٰ کے قدسی اجسام پر تجلی کا عکس دیکھا، دوزخ کے طبقات میں گھوم آیا، موت سے پنجہ آزمائی کی، وہ کچھ دیکھا جس کے لئےالفاظ نہیں ہیں کہ بیان کر دیا جائے لیکن مرشد کے وصل کی لذت نہیں ملی۔ ہر لمحہ مرنے کے بعد اس لئے جیتا ہوں کہ مرشد سے قربت ملے گی۔ جینے کے بعد ہر آن اس لئے مرتا ہوں کہ مرشد کا وصال نصیب ہو گا۔ اندر جھانکتا ہوں مرشد نظر آتے ہیں۔ باہر دیکھتا ہوں مرشد کی جھلک پڑتی ہے۔

          ہائے! وہ کیسی لذتِ وصل تھی کہ زمانے گزرنے کے بعد بھی روح میں تڑپ ہے، اضطراب ہے، انتظار ہے، اس یقین کےساتھ زندہ ہوں، اس یقین کے ساتھ مروں گا ، اس یقین کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوں گا کہ مرشد کریم قلندر بابا اولیاؒ مجھے ایک بار سینے سےلگائیں گے اور اس طرح اپنے اندر سمیٹ لیں گے کہ وجودنفی ہو جائے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ مرشد اور مرید دو الگ الگ پرت ہیں۔

                                                                                      اللہ حافظ

                                                                             خواجہ شمس الدین عظیمی


Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔