Topics
ہم
جانتے ہیں کہ دن اور رات زندگی کے دو رخ ہیں۔ دو رخ سے مراد یہ ہے
کہ جو کچھ دن میں کیا جاتا ہے ، اثرات رات میں ظاہر ہوتے ہیں اور جو کچھ رات میں
ظاہر ہوتاہے۔ وہ آدمی کے دن رات کا خلاصہ ہے۔ دونوں رخوں میں عمل ایک ہے۔ لیکن
مظاہرے کا طریقِ کار مختلف ہے جس کی وجہ سے زندگی دن اور رات میں تقسیم ہے۔
۱۔
اگر آدمی خوف و غم میں مبتلا اور ذہن الوژن کی آماجگاہ ہے تو خواب الجھے ہوئے نظر
آتے ہیں اور فرد کو واقعات میں تسلسل یاد نہیں رہتا۔ توجہ تیزی سے بدلتی ہے کہ ذہن
کی تقسیم واضح ہوتی ہے۔ یہ ناخوشی کی زندگی کا خواب کی زبان میں مظاہرہ ہے۔
۲۔
آدمی فریبِ نظر سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو خواب میں کائناتی قوانین منکشف ہوتے
ہیں، روشن ذہن ہستیوں سے ملاقات ہوتی ہے، جنت نظیر مقامات کی سیر کرتا ہے، زبان رس
بھرے پھل چکھتی ہے ، ناک پھولوں کی بھینی بھینی خوش بو محسوس کرتی ہے اور وہاں کے
مکین تحائف پیش کرتے ہیں ۔ حقیقت کی جستجو جاری ہے تو خواب میں واقعات کی ترتیب
یاد رہتی ہے۔ یہ اُس دنیا کے ٹائم اور اسپیس سے مانوس ہونے کی نشانی ہے۔
تجزیہ
: ذہن خوف کے جال میں پھنسا ہو تو خواب میں خوف کے نقوش ظاہر ہوتے ہیں اگر حقیقت
کی تلاش ہو تو خواب کی دنیا سفر طے ہونے کی خبر دیتی ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ
زندگی ایک ہے، فرد ایک شے کو دن اور رات
کی وجہ سے دو بار دیکھ رہا ہے۔
رائج
علوم روشنی کو دن اور رات کو اندھیرا کہتے ہیں جب کہ اندھیرے کے غلاف میں چھپی
روشن دھار ان پر توں سے متعارف کرواتی ہے جن سے مکانیت (Space) تسخیر ہوتی ہے اور ” علم الوقت“ حاصل ہوتا ہے۔
روحانی نقطہ نظریہ ہے کہ اندھیرا بھی روشنی ہے یعنی اندھیرا نہیں، صرف روشنی موجود
ہے۔ روشنی جب لطیف حالت میں داخل ہوتی ہے اور آنکھ اسے دیکھتی تو اس کیفیت کو
اندھیرے کا نام دیتی ہے اور اندھیرے کو اپنی لا علمی کے بجائے رات سے منسوب کرتی
ہے۔
اندر
میں آنکھ دیکھتی ہے کہ دن رات روشنی اور اندھیرے کے بجائے حواس کے دو رخ ہیں ۔
حواس سے مراد سننا، دیکھنا، سمجھنا ، محسوس کرنا ، الفاظ کے ذریعے بولنا اور لہروں
کی زبان میں گفتگو کرنا ہے۔ یہ افعال زندگی کی ایک طرز میں اسپیس کے پابند ہیں ،
دوسری طرز میں اسپیس ان کے لیے مسخر ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ،
·
فرد ایک ہے، حالات ایک ہیں اور زندگی بھی ایک ہے پھر دن کے
حواس میں رات کے نقوش اور رات کے حواس میں دن کے نقوش کی تکرار کیا ہے؟
·
نقوش کو دو طرزوں میں دیکھنا کیا ذہن کا تقسیم ہونا نہیں؟
·
ذہن تقسیم کیوں ہے؟ کون سا حصہ صحیح اور کون غلط دیکھ رہا
ہے؟
·
کون سا فارمولا ہے جو دن کے حواس میں زندگی کی رفتار کو کم اور
رات میں بڑھا دیتا ہے؟
·
فرد ایک ہے پھر بیداری میں خواب کی دنیا کی طرح سفر کیوں
نہیں کرتا؟
تصوف انکشاف کرتا ہے کہ انسان ہزاروں پرتوں کا مجموعہ ہے جن
میں گیارہ ہزار معلوم اور باقی غیب ہیں۔ گیارہ ہزار پرتوں سے واقف ہونا، ان پرتوں
کی صلاحیت کا علم ہے ۔ مقرب بار گاہ خواتین و حضرات جانتے ہیں کہ ہر پرت کی حیثیت
جسم کی ہے اور سب میں حرکت کی رفتار مختلف ہے۔ دن کے حواس میں جو پرت غالب ہے وہ
مٹی کی بو قلمونی ہے جس کو آدمی اور آدمی کی دنیا کہا جاتا ہے۔ آدمی سو جاتا ہے تو
اندر موجود دوسرے پرت روشنی کے ذریعے زندگی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ وہ چلتا پھرتا
ہے، کھاتا پیتا ہے، ہنستا بولتا ہے، سنتا
دیکھتا ہے، غورو فکر اور ایجادات کرتا ہے۔ کوئی چیز کاٹ لے تو تکلیف سے
آنکھ کھل جاتی ہے اور اثرات جسم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ مٹی کے لباس کی صلاحیت مشاہدے
میں ہے جب کہ روشنی کی رفتار کا مظاہرہ خواب ، خیال اور تصور میں ہوتا ہے۔ توجہ اس
طرف مبذول کرنی ہے کہ دن ہو یا رات ، زندگی مختلف لباس میں ہر عالم میں جاری ہے۔ سوال
یہ ہے کہ پھر سونے والا کون ہے* ؟
ذہن جب بیداری سے نیند میں داخل ہوتا ہے
تو مٹی کے پرت پر نیند غالب آجاتی ہے۔ فرد واقف نہیں کہ میں پرتوں کا مجموعہ ہوں
اس لئے خود کو صرف مٹی سے منسوب سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں سو رہا ہوں۔ سوچنا
یہ ہے کہ جب وہ سوتا ہے پھر یہ کیوں کہتا ہے کہ میں نے خواب دیکھا، بزرگ آئے، مجھے
ساتھ لے گئے، راستے میں ایک مقام پر ہم نے کھانا کھایا، ذہن میں سوال تھے جو میں
پوچھ نہ سکا مگر جاتے ہوئے انہوں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ آنکھ کھل
گئی۔
آنکھ کھلی تو وہ بستر پر تھا لیکن خواب
کی کیفیات احساس میں شامل ہوگئی تھیں۔ اسے یقین ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات
میرے ساتھ پیش آئے پھر بھی کہتا ہے کہ میں سو رہا تھا۔ اگر وہ سو رہا تھا تو بزرگ
نے کس سے ملاقات کی، کونسے سفر پر لے گئے، کھانا کہاں سے آیا، کس نے کھایا، بیداری
کے مسائل خواب میں کیسے منتقل ہوئے کہ بزرگ نے تسلی دی سب ٹھیک ہو جائے گا ، یہ
باتیں اور مناظر کس نے بتائے۔۔۔ اگر وہ سو رہا تھا؟ غور کیجیے اور بتائیے کہ
جاگنے کے بعد خواب کی دنیا کہاں چلی جاتی ہے اور وہاں کا لباس کیوں غائب ہو جاتا
ہے؟ *) خواتین
و حضرات اس جملےپرتوجہ کیجئے۔)
انسان
جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ جسم تہ در تہ ہزاروں پرت پر مشتمل ہے جب کہ روح ایک ہے۔
روح غالب مغلوب نہیں ہوتی، مقام کے لحاظ سے لباس (جسم ۔ پرت) میں ردّوبدل ہوتا ہے۔
جسم مٹی کا ہو یا روشنی کا، اس کی اپنی کوئی حرکت نہیں۔ حرکت روح کی ہے جو نیند
اور بیداری میں ردّوبدل کے باوجود فرد کا رشتہ ان پرتوں سے برقرار رکھتی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ جاگنے والے کو خواب اور خواب میں بیداری کی دنیا یاد رہتی ہے۔ قدرت
متوجہ کرتی ہے کہ بیداری اور نیند کے جسم کی حیثیت ڈیڈ باڈی کی ہے۔ دونوں عالم
میں حرکت کرنے والی شے کوئی اور ہے جو پرتوں کی صلاحیت کے مطابق اپنی حرکت ظاہر
کرتی ہے۔ ( اس تحریر کو پھر
پڑھیئے)
دوسری بات یہ ہے کہ خواب اور بیداری کی
دنیا میں ایک ہی واقعات کی مختلف انداز سے تکرار فرد کی توجہ اندر میں پرتوں کی
طرف مبذول کرتی ہے کہ وہ جان لے محدود حواس میں زندگی گزارنے والا بھی میں ہوں اور
لامحدود حواس میں داخل ہونے والا بھی میں ہوں۔ لاعلمی کی وجہ سے پرتوں کے درمیان
جو اسپیس ہمارے ذہن میں ہے، اگر وہ ختم ہو جائے تو زندگی دو سے نکل کر ایک میں
داخل ہو جائے گی یعنی نیند اور بیداری میں واقعات کی تکرار نہیں ہوگی بلکہ عالمین
کا سفر طے ہوگا۔
”آج کی بات“ تین مرتبہ پڑھیئے۔ پڑھنے سے
مضمون کے اندر مضامین روشن ہوں گے، ان شاء اللہ۔
اللہ
حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔