Topics
جسم اور روح زندگی کے دو رخ ہیں جن پر حیات قائم ہے۔ روح، حیات اور جسم کو سمجھے
بغیر آدمی خود کو نہیں پہچانتا۔ جسم کی مثال عمارت کی ہے جس میں متعدد منزلیں اور
گھر ہیں۔۔۔ ہر گھر میں کوئی رہتا ہے۔ ہم مکان بناتے ہیں، نوعیت کے لحاظ سے مکان کو
مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جسم بھی مکان کا نقشہ ہے جس میں منزلیں اور خانے
(کمرے) ہیں۔ کسی خانہ میں ناک تو کسی میں آنکھ ہے، کہیں دل تو کہیں دماغ کی حکم
رانی ہے۔ ایک خانہ معدہ کا ہے جب کہ گردہ اور چھوٹی بڑی آنتوں کے خانے الگ الگ
ہیں۔ آنکھ کی جگہ ناک نہیں اور دماغ کی جگہ دل نہیں ہوتا۔ اگر پیر، ہاتھ اور ہاتھ
پیر کی جگہ لگ جائیں تو ساخت تبدیل ہوجائے گی۔ اسی طرح مکان میں کھڑکیاں اندر اور
کمرے باہر نہیں ہوتے، ہر شے ترتیب کے لحاظ سے تقسیم اور تعمیر کی جاتی ہے۔
ابدال حق قلندر بابا
اولیاؒ فرماتے ہیں:
’’جب اسکولوں میں ڈرائنگ
سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف کہتے ہیں ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا
ہے۔ اس کاغذ میں گراف یعنی چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چوکور خانوں کو
بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ سکھانے والے استاد چیزوں، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں
بنانا سکھاتے ہیں۔ استاد یہ بتاتے ہیں کہ چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد منہ اور اتنی
تعداد سے گردن بنتی ہے۔ خانوں کی ناپ سے وہ مختلف اعضا کی ساخت کا تناسب قائم کرتے
ہیں جس سے تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے۔ دوسرے
الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں، یہ لکیریں (نسمہ) تمام
مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان لکیروں کی ضرب تقسیم، موالید
ثلاثہ کے خدوخال ہیں‘‘۔
جسم ہو یا مکان۔۔۔
تعمیر نقشہ کی مناسبت سے ہوتی ہے۔ کمروں کے لئے دیواریں اور چھت پردہ ہے تو جسم
میں اعضا کھال کے غلاف میں بند ہیں۔ بند غلاف کو جسم کہا جاتا ہے جس کی حیثیت خول
کی ہے۔ خول کے اندر بیک وقت متعدد زندگیاں دور کررہی ہیں۔ سب کا مقصد یک جان ہو کر
خول کو حرکت میں رکھنا ہے۔ یک جان ہونا۔۔۔ مقصد یا توجہ ایک ہونا ہے۔ سر، کان،
ہونٹ، لبلبہ، پیر۔۔۔ ہر عضو اپنی جگہ جسم ہے اور جسم۔۔۔ لباس ہے۔ لباس زندگی نہیں،
لباس کے اندر زندگی ہے جو اعضا کو متحرک رکھتی ہے۔ جس کو ہم اپنا آپ سمجھتے ہیں وہ
اعضا کا مجموعہ ہے۔ اجتماعیت ختم ہوجائے تو جسم تحلیل ہوجاتا ہے۔
مثال: حرکت قلب بند
ہونے سے خون کی گردش رک جاتی ہے۔ قانون ہے کہ تعطل سے شے ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے (ختم
نہیں ہوتی)۔ حرکت قلب بند ہونے سے حرکت میں تعطل نہیں آیا۔۔۔ قلب کی حرکت بند ہوئی
ہے۔ قلب مٹی میں تحلیل ہوجاتا ہے، حرکت باقی رہتی ہے۔ جگر کام کرنا چھوڑ دے تو
نظام میں تعطل موت ہے۔ قلب، جگر، دماغ۔۔۔ سب لباس کے حصے (Parts)ہیں۔ موت۔۔۔ زندگی کا
ختم ہونا نہیں۔۔۔ لباس کا تحلیل
ہونا ہے۔ یعنی جسم خود کچھ نہیں، مرکب ہے بہت ساری چیزوں کا۔ جب وہ مرکب ہے تو اس
کی اپنی حیثیت کیا ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد نے مکتب میں داخل
ہونے والے شاگرد سے پوچھا، تمہارا نام کیا ہے؟
شاگرد نے بتایا کہ ماں
باپ مجھے صوفی اور لوگ زید کہتے ہیں لیکن زید علیحدہ وجود نہیں۔
استاد نے کہا، نام کے
اعتبار سے اگر زید الگ نہیں تو پھر وہ کون ہے جو نیکی اور پرہیز گاری کی زندگی بسر
کرکے معرفت حاصل کرتا ہے؟ اسی طرح وہ کون ہے جو تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اگر زید کو
اصل تسلیم کرلیا جائے تو اچھا اور برائی، سزا اور جزا کی حقیقت کیا ہے۔۔۔؟
استاد نے انسانی جسم کے
مختلف حصوں جیسے ہاتھ، پیر، آنکھیں، دل۔۔۔ پھر حواس اور ذہن وغیرہ کا نام لے کر
پوچھا کہ کیا ان میں سے کوئی زید ہے؟
شاگرد نے کہا ، نہیں۔۔۔
ان میں سے کوئی زید نہیں، یہ سب مل کر زید بنتے ہیں۔
استاد نے کہا، پھر
ہمارے خیال میں زید کی کوئی حقیقت نہیں، یہ محض لفظ ہے جس کے معنی نہیں۔ زید فریب اور مایا ہے۔
بات شاگرد کی سمجھ میں
نہیں آئی۔ استاد نے پھر سمجھایا۔ اپنے شہر سے یہاں تک کا سفر کس طرح کیا؟ شاگرد نے
بتایا کہ گاڑی کے ذریعے۔ استاد نے پوچھا، کیا صرف پہیے کو گاڑی کہا جاسکتا ہے۔۔۔؟
انجن، سیٹ، اسٹیئرنگ یا چھت گاڑی ہے۔۔۔؟ شاگرد بولا۔۔۔ نہیں!
اگر یہ سب چیزیں گاڑی
میں نہ ہو ں تو کیا محض دھات کا خول گاڑی ہے؟
شاگرد کا جواب نفی میں
تھا۔ استاد نے پوچھا، اگر ان چیزوں کو ذہن سے خارج کردیا جائے تو کیا کوئی ایسی
چیز رہ جاتی ہے جسے ہم گاڑی کہہ سکتے ہیں؟ شاگرد نے کہا، گاڑی موجود ہے اور اسی پر
بیٹھ کر آیا ہوں۔ چھت، پہیے، انجن سب چیزوں سے مل کر گاڑی بنتی ہے۔
استاد نے کہا، یہی
معاملہ آدمی کا ہے۔ اعضا اور حواس مل کر جسم بنتا ہے اور اسی بنیاد پر لوگ تمہیں
زید کے نام سے پکارتے ہیں، لیکن زید کیا ہے۔۔۔ یہ ہم نہیں جانتے۔
آدمی شے کو دیکھتا ہے
تو پہلا تاثر ظاہری خدوخال کا بنتا ہے جب کہ خدوخال غلاف ہے۔ ہم مٹی کے غلاف کو
آدمی سمجھتے ہیں، آگے نہیں دیکھتے۔ پھل کو دیکھ کر ذہن، رنگ اور مٹھاس میں گم
ہوجاتا ہے، بیج کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جو پھل کی بنیاد ہے۔ مخلوق پانی سے پیدا
ہوئی ہے لیکن موجودات کو دیکھ کر ذہن میں پانی کا خیال نہیں آتا۔ ہیرا کاربن سے
بنا ہے لیکن ہیرے کی چمک کاربن کی طرف متوجہ نہیں کرتی۔ حواس محدود ہونے سے شے
حصوں میں نظر آتی ہے، جس حصہ پر نظر پڑتی ہے آدمی اسے شے سمجھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم میں ہر عضو کا کام
ہے۔ آنکھ کیمرے کی طرز پر دیکھتی ہے۔ کیمرے کا لینس شے کی شبیہ حساس پلیٹ یا فلم
پر بناتا ہے جب کہ آنکھ کا لینس شبیہ، پردۂ چشم (retina) پر بناتا ہے۔ آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کی مقدار پتلی کے
ذریعے کنٹرول ہوتی ہے۔ یہی کام کیمرے میں شٹر کا ہے۔ آنکھ میں جھلی (آئرس) پتلی کے
سائز کو گھٹاتی یا بڑھاتی ہے۔ تیز روشنی میں پتلی سکڑتی ہے اور مدھم روشنی میں
پھیلتی ہے۔ کیمرے میں شٹر اسپیڈ سے اسی طر زپر روشنی کی مقدار کنٹرول کی جاتی ہے۔
تصویر منعکس کرنے کے لئے کیمرے کے لینس کو فوکس کیا جاتا ہے۔ دور کی اشیا دیکھنے
کے لئے لینس کو زوم ان (Zoom in) اور قریب کی اشیا کے لئے زوم آؤٹ (Zoom Out) کرتے ہیں۔ آنکھ بھی
جب اسی طرح قریب یا دور کی شے دیکھتی ہے تو پٹھوں کی مدد سے لینس کی موٹائی
بالترتیب بڑھتی یا کم ہوجاتی ہے، طول ماسکہ (فوکل لینتھ) کی تبدیلی سے عکس پردۂ
چشم پر نمایاں ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک روشنی آنکھ یا کیمرے میں داخل نہ ہو،
دیکھنے کا عمل شروع نہیں ہوتا، پھر روشنی کیا ہے۔۔۔؟
دانش ور کہتے ہیں کہ
جسم کو مرکزی اعصابی نظام (Central nervous System) کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ اور حرام مغز اس نظام کے دو حصے ہیں۔ حرام
مغز گردن کے قریب دماغ سے جڑی ہوئی دم نما ساخت ہے۔ دماغ سے نکلنے والے اعصاب سر،
چہرہ، کا ن اور گردن کو جب کہ حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب باقی بدن کو کنٹرول
کرتے ہیں۔ اعصاب سفید پٹھے نما رگیں ہیں جن کے ذریعے برقی رو، اطلاعات تقسیم اور
وصول کرتی ہے۔ کسی عضو سے متعلقہ عصب (Nerve) کٹ جائے تو عضو سکڑ جاتا ہے، چاہے خون کی سپلائی اور دیگر چیزیں
ملتی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک برقی رو دماغ میں داخل نہ ہو، دماغ مفلوج ہے۔ پھر
برقی رو کیا ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ دل پمپ
ہے جو موت آنے تک رکے بغیر دھڑکتا ہے۔ پھیلنا اور سکڑنا زندگی کے مراحل ہیں۔ خون
وریدوں (veins) کے ذریعے دل تک پہنچتا
ہے۔ اس میں بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فاضل مادے پائے جاتے ہیں۔ خون
پھیپھڑوں میں جاتا ہے تو آکسیجن شامل ہوکر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، خون
صاف ہو کر واپس دل میں آتا ہے اور وہاں سے تمام اعضا میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ جسم کا
نظام دل کے اور دل خون کی گردش کے تابع ہے۔ سوال یہ ہے کہ خون میں گردش کیا ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ تحقیق کے مطابق
انسانی جسم 37 کھرب خلیات پر مشتمل ہے جس میں دل کے خلیات پانچ ارب اور دماغ کے دو
کھرب ہیں۔ خلیات الگ الگ ہوجائیں تو نہیں بتایا جاسکتا کہ یہ دماغ کے خلیات ہیں یا
دل کے۔ اسی طرح جوان آدمی کے دل کا وزن تقریباً تین سو (300) گرام، دماغ کا چودہ
سو (1400) گرام کےقریب اور آنکھ کا وزن لگ بھگ ساڑھے سات (7.5) گرام ہے۔
اعضا ذرات کا مرکب ہیں۔
ذرّات مرکب ہونے سے شے میں وزن پیدا ہوتا ہے اور تحلیل ہونے سے وزن غائب ہوجاتا
ہے۔ وزن کیا ہے اور کہاں گیا؟ جس طرح اسپرم میں آدمی موجود ہے، اسی طرح تحقیق کے
بغیر ذرّہ میں 37 کھرب خلیات کا ریکارڈ ہے۔ خلیات بکھرنے سے آخر میں کچھ باقی نہیں
رہتا۔ سوچنا یہ ہے کہ آدمی کہاں غائب ہوگیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرّہ لباس کی اکائی ہے،
مقداروں کی مناسبت سے ساخت تبدیل ہوتی ہے۔ بیماری سے بادشاہ بھی متاثر ہوتا ہے اور
رعایا بھی۔ تکلیف کی لہر جسم میں دوڑتی ہے تو نہیں دیکھتی کہ جسم حکم ران کا ہے یا
عام شہری کا۔ دونوں تڑپتے ہیں۔ کھانا پینا، سونا جاگنا، علم حاصل کرنا، شادی اور
افزائش نسل، محبت نفرت کے جذبات مشترک ہیں۔ موت بادشاہوں اور حکم رانوں کے در پر
بھی دستک دیتی ہے۔ ساخت اور تقاضوں کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں۔ اس کے باوجود ایک
بادشاہ اور دوسرا غلام ہے۔
قانون: شے تحلیل ہونے
سے تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ تحلیل ہونا۔۔۔ لامحدودیت میں داخل ہونا ہے اور لامحدودیت
میں امتیاز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد نے شاگرد سے کہا،
سیب لاؤ۔ شاگرد سیب لے کر آیا۔ استاد نے کاٹنے کا حکم دیا، شاگرد نے تعمیل کی۔
انہوں نے پوچھا، اس میں تم کیا دیکھتے ہو؟ عرض کیا، چند چھوٹے بیج ہیں۔ استاد نے
بیج کاٹنے کا حکم دیا۔ شاگرد نے بیج کے دو حصے کئے۔ مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے
کا کہا اور پوچھا، اب تم کیا دیکھتے ہو؟ شاگرد نے عرض کیا، کچھ بھی نہیں۔ استاد نے
فرمایا، بیٹا! یہ نظر نہ آنے والی شے جس کے متعلق تم نے آسانی سے کہہ دیا کہ کچھ
بھی نہیں۔۔۔ سیب کی بنیاد ہے۔ اس غیر مرئی شے سے درخت ظاہر ہوتا ہے اور یہی غیر
مرئی حقیقت کائنات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی، برقی رو اور خون
میں گردش۔۔۔ حرکت ہے اور حرکت نور کے تابع ہے۔ نور کیا ہے۔۔۔؟ خالق کائنات کا
ارشاد ہے:
’’اللہ آسمانوں اور
زمین کا نور ہے۔ اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ، چراغ قندیل میں، قندیل
جیسے بھڑکتا ہوا ستارہ جو روشن ہے زیتون کے مبارک تیل سے۔ اس کا نہ شرق ہے نہ غرب
ہے۔ لگتا ہے کہ سلگ اٹھے چاہے ابھی نہ لگی ہو اس میں آگ۔ اللہ ہدایت دیتا ہے اپنے
نور کی جس کو چاہے اور اللہ مثالوں سے بیان کرتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اللہ ہر چیز
جانتا ہے۔‘‘ (النور 35:)
زمین و آسمان کا باطن
نور پر قائم ہے اور نور اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ سمتوں کی تفریق نہیں۔ نور اور
تخلیقات کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی خود کو جانتا ہو۔ یہ کہنا کہ میں آدمی
ہوں اور یہ پرندہ کبوتر ہے، پہچاننے کا حق پورا نہیں کرتا۔ خالق کائنات کا ارشاد
ہے کہ ’’میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔‘‘ روحانیت یا تصوف کو کم الفاظ میں بیان کیا
جائے تو کہا جائے گا کہ خالق اللہ ہے اور حاضر ناظر ، اوّل آخر، ظاہر باطن اللہ کا
نور (صفات) ہے۔
اللہ کے محبوب حضرت
محمدؐ کا ارشاد ہے کہ جس نے خود کو پہچانا ،اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اللہ حافظ
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔