Topics
زندگی بہار
اور خزاں سے آراستہ ہے ۔ بہار میں پھول کھلتے ہیں اور خزاں میں درخت پتوّں سے خالی ہوکر نئے پھول
پتوّں کے استقبال کی تیاری کرتا ہے۔ دونوں موسم
آتے جاتے ہیں لیکن درخت قائم رہتا ہے، پھل لگتےہیں ، ہرپھل میں لاشمار درخت
ہیں جو سب کے سب ایک درخت سے منسلک ہیں۔ یہ ایک درخت — ان تمام درختوں کی زندگی کا
ساز ہے جو بج رہا ہے اور بے آواز
ہے۔
سب نے بانس دیکھا ہے۔ یہ درخت نما گھاس ہے جوشکل میں گول اور اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔ منفرد ساخت کی وجہ سے اس
سے سازینے بنائے جاتے ہیں جن میں سب سے
ممتاز بانسری ہے۔ قدرت نے بانس کے خلا اورگولائی میں ایسی نسبت
قائم کردی ہے کہ جب بانسری نواز اس کے
خلا میں اپنی سانس پھونکتا ہے اور سوراخوں پر مہارت سے انگلیاں رکھتا اور اٹھاتا ہے تو بکھرنے
والے ساز سے اندرمیں دنیا زیر و زبر ہوجاتی ہے۔
بانسری کی آواز بانس کی زندگی کا ساز ہے۔ جب لکڑی سے
بنا ہوا خول اپنے اندر کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ ساز کے تابع ہوتا ہے۔ قارئین! آپ نے بانسری
دیکھی ہے ۔ اس میں triangle اور circle
ہیں۔ تصوف میں ٹرائی اینگل کوتخلیق سے نسبت
دی جاتی ہے جب کہ سرکل کی اصطلاح خالق ِ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفت ِ محیط کوسمجھنےکا روحانی زاویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ محیط نے ہرتخلیق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
بانسری کا
دہانہ *آدھا سرکل یعنی ٹرائی اینگل ہے۔ بانسری
نواز جب اندر میں جذبات کی تصویریں
(تخلیق) ظاہرکرنا چاہتا ہے تو بانسری کے دہانے ( ٹرائی اینگل) میں سانس پھونکتا
ہے۔تخلیق ایسی شے کے ذریعے ظاہر کی جاتی ہے جو خودتخلیق ہو اس لئے وہ تصویروں کو سانس(آواز) کے ذریعے بانسری کے ٹرائی اینگل
(دہانے)میں منتقل کرتا ہے۔یہاں سے دائرے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ سانس تصویروں کی
لہریں لے کر بانس کی گولائی میں سے گزرتا ہے،
ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل
ہوکر آگے بڑھتا ہے اور اس حالت میں بانسری
سے باہر آتا ہے کہ اس پر دائرہ محیط ہوتا ہے۔
بانسری کے بیان سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ شے (ٹرائی اینگل)دائرے کی وجہ سے قائم ہے اور اس کا مظاہرہ ہمیشہ دائرےمیں ہوتا ہے۔ بانسری میں اگر سوراخ نہ ہوں اور ان سوراخوں
میں سانس نشیب و فراز میں ظاہر نہ
ہو تو ساز بجتا ہے لیکن بے آواز ہوتا
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفکر ایک شعار ہے۔ اگر ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے
ہیں اور
اس کا کھوج لگاتے ہیں تو مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہوا کا سانس کے ذریعے اندرمیں داخل ہونا اور
اندرمیں سے مخلوط معنی کے ساتھ باہر آنا
زندگی ہے۔ بانس کے خول کو اگر ہم آدمی سمجھیں اور اس میں وہ نظام داخل
کردیں جس کو بانس کے نظام سے جانتے ہیں تو
معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بانس کی طرح خول ہیں اور یہ سانس کا عمل
ہے جو زندگی کو نشر کرتا ہے ۔
آدمی مٹی سے بنا ہے اور بانسری لکڑی سے بنی ایک فرد
ہے۔لکڑی بھی مٹی کی تخلیق ہے۔
بانسری اور آدمی کی اصل ایک ہے۔ آدمی ایسا جسم ہے جو سوراخوں پرمشتمل ہے۔
بانسری میں بھی سوراخ ہیں۔ جب ان دونوں کے اندر زندگی پھونکی جاتی ہے تو سانس کے نشیب وفراز کے ذریعے آواز باہر آتی
ہے۔یہ ایک ہی سانس ہے جس کے مدّوجزر سے طرح طرح کی آوازیں ظاہر ہورہی ہیں ۔
آواز کیا ہے — ؟ آواز ساز ہے۔ اس کا
اتار چڑھاؤ خوش آئند ہے اور دل میں گداز بھی پیدا کرتا ہے جس سے آنکھیں ہنستی ہیں اور بارش کے قطروں کی طرح برستی بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی تخلیقات ہرطرح سے مکمل ہیں۔تفکر، سوچ
اورعقل مطالبہ کرتی ہے کہ آواز کیا ہے؟ بانسری کی آواز، کویل کی آواز ، چڑیوں کی
چہکار، پتوّں کا سرسرانا، ہوا کی آوازکا مدّوجزر، سمندروں کی موجوں میں تلاطم،
لہروں کا ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا اور ناکامی کے سراب میں لہروں کا منتشر
ہونا سب ساز و آواز ہیں۔ آواز کی base کنُ ہے۔ کنُ میں گونجار ہے اور گونجار مخلوقات کی تخلیق کا
فارمولا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحانی سلسلہ ایک قافلہ ہے۔قافلے میں سینکڑوں یا ہزاروں افراد ہوسکتے ہیں لیکن سالار ِ قافلہ ایک ہوتا ہے۔ جو راستہ وہ اختیار کرتا ہے ، اس پر پورا قافلہ چلتا ہے۔
اس طرح قافلہ — سالار کی راہ نمائی میں یکجائی
پروگرام پرمتحرک ہوتا ہے۔قافلے میں شریک لوگ جب تک سالارِقافلہ کے ذہن کے تابع
ہوتے ہیں،قافلے کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ذہن اِدھر اُدھر ہوجائے پھر وہ منزل رسیدہ نہیں ہوتے بلکہ منزل کھونے والے ہوجاتے ہیں۔ سالارِ قافلہ کو صوفی، استاد ، ٹیچر، گرو اور مرشد
بھی کہتے ہیں۔
صوفی سوچتا ہےکہ زندگی کیا ہے اور انتقال ِ مکانی کیا ہے—؟
تاریخ کے صفحات پر جو روحانی تحریر لکھی ہوئی ہے،
وہ یہ ہے کہ شے شعور کے پردے سے غائب ہوتی
ہے اور دوسرے شعور یعنی لاشعور میں منتقل ہوتی ہے۔ صوفی جب تخلیقات پرغورکرتا ہے
تو لامحالہ ذہن اس نقطہ پرٹھہرجاتا ہے کہ
زندگی دراصل خالق کا تعارف ہے۔ یہ تعارف
ایسا فارمولا ہے جوہرتخلیق میں نمایاں ہے اور اس سے واقف ہونے کے لئے خالق ِ کائنات اللہ نے آدمی کوتقریباً 12
کھرب صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اللہ کے
عطاکردہ علم اور خاتم النبیین حضرت محمد ؐ
کی نسبت سے، صوفی بارہ کھرب میں سے اتنی صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے جن سے عام لوگ
واقف نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز دوستو! مشکور ہوں کہ آپ نے ’’آج کی بات‘‘ کا
مطالعہ کیا۔ اب خلاصہ پڑھئے۔
آدمی
گونگا بہرا ہیولا ہے ۔
اس کی حیثیت بانسری کے خول کی ہے۔
جب تک بانسری میں پھونک داخل نہ
ہو، یہ لکڑی کا ٹکڑا ہے۔ بانسری کی طرح جب آدمی اندر میں بارہ کھرب صلاحیتوں سے واقف
نہیں ہوتا تو اس کی حیثیت مٹی کے
لباس کی ہے۔
بانس سے بانسری بننے کا سفر آسان نہیں۔ بانس
اس وقت تک بانسری نہیں بنتا جب تک چوٹ نہ کھائے اور
داغ دار نہ ہو۔ وہ خود کو مرشد کے
سپرد کرکے ہر ضرب کو خوشی سے قبول کرتا ہے
تو ایسی بانسری بن جاتا ہے جس سے بکھرنے
والے سرُ اندر میں وصال و فراق کا تلاطم پیدا کردیتےہیں۔جس طرح لکڑی کا ٹکڑا بانسری بن کر اور بانسری ماہر استاد کے ہاتھ میں آکر اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوتی ہے، اسی طرح آدمی یعنی
سالک جب
مرشد کے نقش ِ قدم پر چلتا ہے تو مرشد اس کی بانسری میں وہ ساز پھونکتا ہے
جس سے سالک اندر میں صلاحیتوں سے متعارف
ہوکر زندگی کے ساز سے ہم آ واز ہوجاتا ہے۔
شاعر نے کہا،
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
اللہ حافظ
خواجہ
شمس الدین عظیمی
* بانسری کے
دہانے کا میکانزم triangular نظام پر قائم ہے۔
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔