Topics
زندگی کا ساز بھی کیا
ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز
ہے
آواز تو آپ سنتے ہی
رہتے ہیں جو نہیں سنتے وہ بھی سنتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں وہ ریکارڈ
ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آواز کی لہروں کی ویولینتھ ختم نہیں
ہوتی۔۔۔ برقرار رہتی ہے۔ یہ مرحلہ اظہارِ بیان سے مخفی ہے کہ آوازیں آتی کہاں سے
ہیں اور آوازوں کا ویولینتھ کس قانون کے تحت تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔۔۔؟
جس طرح آواز کی لہروں
اور لہروں کے مدوجزر کا اور مدوجزر کے اتار چڑھاؤ کا ایک ضابطہ ہے اور یہ ضابطہ
ایک مکمل علم ہے۔ جس طرح ہر شے بولتی ہے بانسری بھی آہ و فریاد کرتی ہے۔ بانسری کی
آواز سنئے۔۔۔
سوچئے وہ کیا بول رہی
ہے۔۔۔
بانسری کو جب اس کی
برادری سے جدا کردیا گیا۔۔۔
وہ جگہ جگہ روتی پھرتی
ہے۔۔۔ آہ و فغاں کرتی ہے کہ مجھے ایسا سینہ چاہئے جو زخموں سے پارہ پارہ ہو اور جس
کے ذریعے میں اپنی غم ناک آواز کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرسکوں۔
مولانا رومؒ نے بڑی
خوبصورتی سے بانسری کی تشبیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے اندر فراق کی آگ کو بیان کیا
ہے۔
ظاہری ساز ایک عکس ہے
اور باطنی ساز صوت سرمدی ہے جو اندر کی آواز ہے۔
یہ آواز قلب و جگر کی
انتہائی گہرائی ہے۔
یہ کس کی آواز ہے۔۔۔؟
ضمیر کی آواز ہے۔۔۔ یار
کی آواز ہے۔۔۔
فراق کی آواز ہے۔۔۔ وصل
کے طلب کی آواز ہے۔۔۔
آواز یار کی دید کی
متقاضی ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے
ہیں،
آدمی دید است باقی پوست
است
دیدآں باشد کہ دید دوست
است
یہ پیغام صرف مولانا
رومؒ کا نہیں بلکہ اللہ کے دوستوں کا پیغام ہے۔
بانسری اپنے کنبہ
برادری میں، کنبہ کے افراد کے ساتھ جنگل میں رہتی تھی۔ کھلا آسمان تھا، زمین پر
قطار در قطار درختوں کے قافلے تھے، اودے اودے، نیلے نیلے پیرہن پھولوں سے برات سجی
ہوئی تھی۔ فضا میں عطر بیز خوشبوؤں کے طوفان اٹھتے تھے۔ دن کی روشنی میں پرندوں کے
غول ترانے گاتے ہوئے اڑتے تھے۔ غزال چشم ہرن چوکڑیاں بھرتے ہوئے اِدھر اُدھر محو
رقص تھے۔ ندی، نالے، دریا، سمندر، زمین کی زینت تھے۔ خمار آلود، سبک رفتار ہوائیں
چلتی تھیں، آسمان پر کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ دن چین، رات سکون کا گہوارہ تھی۔
میں اپنے کنبہ برادری
کے ساتھ محوِ استراحت تھی کہ کوئی ابلتی آنکھوں والا خشک چہرہ آیا اور اس نے مجھے
اغوا کرلیا۔۔۔میں قیدی بن کر آگئی پھر یہ ہوا کہ اس خشک چہرہ آدمی نے میرے انگ انگ
میں کسی نوکیلی چیز سے سوراخ کردیئے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میرے چہرے کو
مسخ کرکے مجھے سانپ کا پھن بنادیا۔
میں جو اپنی داستان
بیان کررہی ہوں وہ کنبہ برادری اور اپنے ماحول سے اغوا کی ہوئی ایک جان ہوں۔۔۔
مجھے تو اب یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کس دیس کی باسی ہوں۔۔۔
میں کیا ہوں۔۔۔ میرا
کنبہ،قبیلہ،خاندان کہاں غائب ہوگیا۔۔۔؟
بے رحم آدمی نے اسی پر
اکتفا نہیں کیا بلکہ میرے جسم میں گھاؤ ڈال دیئے۔ جب آدمی میرے منہ کو اپنے ہونٹوں
میں قید کرکے سانس کی دھونکنی سے مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں آہ و زاری کرتی ہوں اور
جدائی کی تڑپ میں فریاد کرتی ہوں۔
میں سوال کرتی ہوں کہ
اگر کسی کو اس کے قبیلہ، خاندان اور اس کے بہن بھائی اور ماں باپ سے جدا کردیا
جائے تو وہ یقیناًکیا میری طرح آہ وزاری نہیں کرتا۔۔۔؟
آدمی جب میرے جسم میں
اپنی توانائی اس لئے داخل کرتا ہے کہ آدم زاد اس سے خوش ہوں متاثر ہوں اور سننے
والے کی دنیا زیروزبر ہوجائے تو میں اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ۔۔۔
اضطراب، بے چینی اور جدائی کا عذاب آدمی کو بھی ملا ہے، جس نے ظلم کرکے میری آزادی
کو سلب کیا ہے اور خاندان میں اضطراب کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔
جب میں دیکھتی ہوں کہ
آدمی خود اپنے کئے پر شرمندہ تو نہیں لیکن اضطراب کی آگ اسے بھی چین سے نہیں
بیٹھنے دیتی تو تکلیف تو کم نہیں ہوتی لیکن یہ بات میرے باطن میں روشن ہوجاتی ہے
کہ جدائی کا اضطراب آدمی کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
اللہ حافظ
ستمبر 2013ء
خواجہ شمس الدین عظیمی
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔