Topics
آنکھ کی
اسپیس چھوٹی جگہ کو بڑا دکھا تی ہے اور فر
د گما ن کر تا ہے کہ دنیا بہت بڑی ہے جب کہ پو ری کائنا ت میں اس دنیا کی حیثیت
گنبد کے اوپر نقطے کی ہے ۔
دریا کی
مچھلی دریا میں خو ش رہتی ہے اور دریا کو
اپنی دنیا سمجھتی ہے ۔ اسی طر ح آدمی کا دل اس دنیا میں الجھا ہوا ہے ۔ وہ یہا ں
سے جا نا نہیں چاہتا کیونکہ اس کا خیا ل ہے کہ اس جیسی اور کو ئی دنیا نہیں ۔ جب
یہا ں سے زیا دہ حسین دنیا ئیں جہا ں حواس کی رفتا ر کئی گنا زیا دہ ہے ، آدمی کی
منتظر ہیں ۔ جس مقا م پر آج نو ع آدم ہے ، آدمی کا مقا م اس سے بہت اونچا ہے ۔
آدمی کو بلندی کی طر ف جا نے والی شئے خیا ل ہے اور پستی کی طر ف لا نے والا عمل
"خیا ل میں دخل اندازی" ہے ۔ بلند ی اور پستی کیا ہے ۔۔۔۔؟
"کیا
تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے پا ک با ت کو کس چیز سے مثا ل دی ہے ؟ اس کی مثال
ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت ، جس کی جڑ زمین میں گہر ی جمی ہو ئی ہے اور شا
خیں آسما ن تک پہنچی ہو ئی ہیں ۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے ۔
اللہ یہ مثا ل لوگوں کے لئے بیا ن کر تا ہے تاکہ وہ اس سے سبق لیں ۔ اور نا پا ک
با ت کی مثا ل ایک بر ی ذات کے درخت کی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جا تا
ہے ۔ اس کے لئے کو ئی استحکا م نہیں ۔" (سورۃ ابراہیم : ۲۴۔۲۶)
خیا ل لا شعو ر کی دنیا ہے ۔ آدمی کو نہیں معلوم کہ خیا ل
کیا ہے ؟ جب تک کہ خیا ل تصویر میں ظا ہر نہ ہو ۔ وہ خیا ل کے بجا ئے تصویر
سے واقف ہے ۔ جب تصویر کے خدوخا ل ذہن کی اسکرین پر بنتے ہیں تو فرد دخل
اندازی کر کے ان کو اپنے خدشات ، تحفظا ت ، توہما ت اور خواہشا ت کا رنگ دینے کی
کو شش کر تا ہے ۔ تصویر مکمل ہو تی ہے مگر
یہ وہ تصویر نہیں جو اصل کا پر تو ہے ، اس میں شک کی ملاوٹ ہو گئی ہے ، جس کو فکشن
کہتے ہیں ۔
ملا وٹ ہو
جا ئے توشئے پا ک یعنی اصل حا لت میں نہیں رہتی ۔ با ہر سے آنے والے عنا صر جن کو
تحقیق و تلا ش (سا ئنس) کی اصطلا ح میں (Foreign Bodies) کہتے ہیں ، اس
میں شا مل ہو گئے ہیں ۔ چو نکہ بیرونی عنا صر اس شئے سے مختلف ہیں ا س لئے شئے کے
اندر داخل نہیں ہو سکتے ۔ یو ں اصل قا ئم رہتی ہے ۔ نظا م میں تسلسل کے لئے اصل کا
قیا م ضروری ہے ورنہ نظا م درہم بر ہم ہو جا ئے گا۔
مشا ہدہ: بر ف کو فریج سے با ہر رکھیں تو اس میں فارن با
ڈیز داخل ہو تی ہیں اور بر ف ما ئع حا لت میں آجا تی ہے ۔ غور کیجیے کہ فارن با
ڈیز بر ف کی اصل میں داخل نہیں ہو ئیں۔ جس کو ہم بر ف سمجھ رہے ہیں ، وہ بر ف کی
اصل کے گر د غلا ف ہے ۔ فا رن باڈیز غلا ف کو متا ثر کر تی ہیں کیونکہ غلا ف فارن
با ڈیز سے بنا ہے ۔ یہی مثا ل گوشت اور تما م اشیا ء کی ہے ۔ اگر فا رن با ڈیر اصل
کی مقداروں میں داخل ہو گئیں تو وجو د ختم ہو جا ئے گا۔ اسی لئے اللہ تعالی ٰ نے
ہر شئے معین مقداروں سے تخلیق کی ہے اور سب کا فارمولہ الگ الگ رکھا ہے تاکہ اس
میں بیرونی عنا صر (فارن با ڈیز) داخل نہ ہوں۔
سمجھنا یہ
کہ با ہر سے آنے والے عنا صر شئے میں داخل نہیں ہو تے بلکہ شئے کی بیرونی
سطح کے گر د جمع ہو تے ہیں یہا ں تک کہ اس
شئے کے گر د غلا ف بن جا تا ہے ۔ § وہ
خواتین و حضرات کی نگا ہ سطح تک محدود ہے ، فارن با ڈیز سے بنے ہو ئے غلا ف کو
دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ اصل ہے ۔ یو ں فکشن پیدا ہوتا ہے اور حقیقت چھپ جا تی ہے
۔
**----------------------------**
جس چیز میں
ملا وٹ نہ ہو، وہ پا ک ہے ۔ اصل حا لت میں قا ئم ہے ۔ اس کی جڑیں زمین جمی ہو ئی
ہیں ۔۔۔۔ وہ جس بساط پر پیدا کی گئی ہے اس پر ثا بت قدم ہے ۔ اس نے بیرونی عنا صر
کا اثر قبو ل نہیں کیا۔ وہ نشوونما کے لئے پا ک شئے اور معطر ما حول کی طر ف رجو ع
کر تی ہے ۔ جب فکر کی پرواز بڑھتی ہے تو آسما ن تک پہنچتی ہے ۔
روحا نی
نصا ب میں آسما ن کو لا شعور سے تشبیہ دی جا تی ہے ۔ ایسی تخلیق جو زمین کے شعو ر
کی حد میں نہ آسکے ۔ زمین ڈا ئی مینشن کو ظا ہر کر نے کا مقا م ہے ، جگہ جگہ حد
بندیا ں ہیں ، پہا ڑ کی اپنی حدود ہیں ، سمندر اپنے کنا روں کے اندر رہتا ہے ،
خشکی کی بھی حد بندی ہے ۔ ہر مخلو ق غلا ف میں ہے ۔ تفکر طلب ہے کہ زمین پر ہر تھو
ڑے فا صلے کے بعد نظر رک جا تی ہے ، آسما ن میں نہیں رکتی ۔ آسما ن لا شعو ر ڈا
ئی مینشن کو مغلوب کر کے سب کو ایک دکھا تا ہے اور نظر کو اس رفتا ر سے آگے لے جا
تا ہے کہ نگا ہ یک لخت کئی عالمین کا سفر طے کر لیتی ہے ۔ جب آسما ن ڈا ئی مینشن
مغلو ب کر کے اندر میں مو جود ہر شئے کو ایک رنگ و روشنی میں دکھا تا ہے تو قریب قریب اور دور دور نہیں ربتا، نگا ہ ہر
جگہ ہی شئے کو دیکھتی ہے ۔ وہ ایک شئے کیا ہے ؟
ارشا د با
ری تعالیٰ ہے ، "اللہ
آسما نو ں اور زمین کا نو ر ہے ۔ "(سورۃ النور :۳۵)
آسما ن
اور زمین بظا ہر دو مقا ما ت ہیں لیکن ان میں نو ر ایک ہے ۔ نو ردیکھنے سے عادی
نگا ہ آسما ن اور زمین کو دیکھتی ہے ۔ جن کو نو ر فراست حا صل ہے ، مقا ما ت ان
کی نگا ہ میں مغلوب ہو جا تے ہیں ۔ وہ ہر جگہ اللہ کا نو ر دیکھتے ہیں ۔
**----------------------------**
آگے پڑھنے
سے پہلے نظر اُٹھا کر آسما ن کی طر ف دیکھئے ۔ وہا ں آبا دیا ں ہیں ، کہکشا نی
نظا م ہیں ۔۔۔۔۔۔ چا ند ، سورج ، ستا رے ہیں ۔ ہر ستا رہ ایک دنیا ہے ، اس دنیا
میں مخلوقا ت اور زندگی کے وسا ئل ہیں ۔فلک پر مو جو د اجرا م اس طر ح نظر آتے
ہیں کہ آسما ن کا با طنی اور ظاہر ی تشخص قا ئم رہتا ہے یعنی آسما ن میں ڈا ئی
مینشن نظر نہیں آتا ۔
روحا نی
حوا س کہتے ہیں کہ نگا ہ ایک حس ہے ۔ یہ با اختیا ر اور سواری کی ذمہ داری انجا م
دیتی ہے ۔ دیگر حوا س کی طر ح نگا ہ کی حس مستقل سفر میں رہتی ہے ، حقیقت یہ کہ فر
د نہیں دیکھتا، وہ شعو ری سکت کے مطا بق حس نگا ہ کا تعاقب کر تا ہے ۔
دیوار کو دیکھتے ہو ئے فر د کی نگا ہ دیوار میں گزرجا تی ہے لیکن شعور بجنی مٹی پر رک جا تا ہے اور فر د
سمجھتا ہے کہ سامنے دیوار ہے ۔ نگا ہ دیوار میں سے گز ر چکی ہے ۔۔۔۔ یہ محدود شعور
ہے جس نے نگا ہ کا ادراک کھو دیا ہے ۔ اسی طر ح آسما ن کو دیکھتے ہو ئے فر د کا
تعاقب کھو دیتا ہے ۔ علم نہیں ہو تا کہ نگا ہ کہاں چلی گئی ۔ جو آخر ی تا ثر یا
درہتا ہے ، وہ اس کو آسما ن سمجھ لیتا ہے ۔ پا کیزگی سے نسبت فر د کا شعو ری طو ر
پر لا شعو ر سے منسلک رہنا ہے ۔ پا کیزہ سوچ ہر آن رب کے حکم سے پھل دیتی ہے ۔۔۔۔
وہ ہر لمحہ خدا ئےذوالجلا ل کی نئی شا ن دیکھتی ہے۔
**----------------------------**
اور نا پا
ک با ت کی مثال ایک بر ی ذات کے درخت کی
ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جا تا ہے ۔ اس کے لئے کو ئی استحکا م
نہیں۔" (سور ۃ
ابراہیم:۲۶)
نا پا ک با
ت میں شک کی ملا وٹ ہو جا تی ہے ، وہ اصل پر قائم نہیں رہتی۔ آدمی اس کی نشوونما
شک کے پا نی سے کر تا ہے ۔ شک ایک شئے کو دواور دو سے زیا دہ دکھا تا ہے ۔ ایک حا
لت میں قا ئم نہ رہنے سے جڑ مسلسل ہلتی ہے اور آخر کا ر اکھڑ جا تی ہے ۔ نشوونما
پھول آنے اور پھل لگنے کے لئے جڑ کا ایک جگہ نصب رہنا ضروری ہے ورنہ نظر یہ آتا
ہے کہ پو دا (فرد) بڑھ رہا ہے جب کہ زمین کے اندر کا منظر یہ ہے کہ وہ لرزرہا ہے ،
تیز ہوا آتی ہے اور جڑ کو اکھاڑ دیتی ہے
کیونکہ اس نے زمین میں اپنی جگہ چھوڑدی ہے ۔ صورت حال ل یہ نظر آتی ہے کہ نا پا ک درخت ، نا پا ک بات اور نا پا ک سوچ کی طر ح آدمی نے بھی زمین میں
اپنی چکہ چھو ڑدی ہے ۔
قارئین ! زمین میں اس کی جگہ کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ زمین
میں اس کا اصل مقا م فی الا رض خلیفہ ہے ۔
قر آ ن
کریم میں ارشا د ہے ، جب تمہا رے رب نے فرشتوں سے فر ما یا کہ میں زمین میں اپنا
نا ئب بنا نے والا ہوں ۔ انہوں نے کہا، کیا تو اس میں ایسے شخص کو نا ئب بنا نا چا
ہتا ہے جو خرا بی کر ے اور کشت و خو ن کر تا پھر ے ۔ ہم تیر ی تعریف کے ساتھ تسبیح
و تقدیس کر تے ہیں ۔اللہ نے فرما یا ، میں وہ جا نتا ہوں جو تم نہیں جا نتے ۔ اور
اللہ نے آدم کو علم الاسما ء سکھا یا ۔ "(سورۃ البقرۃ: ۳۰۔۳۱)
اللہ نے
نوع آدم کو زمین میں اپنا نا ئب بنا یا ہے ۔ تخلیقا ت میں تصر ف کا وصف عطا کیا
ہے ۔ لیکن حا ل یہ ہے کہ شک کی وجہ سے آدمی نے اپنی جگہ چھوڑدی ہے اور وہ نیا بت
کے منصب سے نا واقف ہے ۔ دھو پ کی طر ح روشن مثا ل قر آن کریم کی تعلیما ت سے بے
خبر ہو نا ہے ۔ جب تک آدمی کے ذہن میں شک یعنی نا پا ک با ت رہے گی ، اسے استحکا
م نہیں ۔ استحکا م صر ف اس کو ہے زمین پر اللہ کے عطا کر دہ نیا بت کے منصب سے واقف ہے ۔
اللہ حا فظ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا تہ! خواجہ شمس الدین عظیمی
©
قارئین خواتین
و حضرا ت ! آپ نے تحریر پڑھی۔ اس پو ری عبارت میں قرآن کریم کی آیا ت کی تفہیم
ہے ۔ درخواست ہے کہ "آ ج کی با ت" پڑھ کر بتا ئیے کہ اس میں قرآن کریم
کی کتنی آیا ت کا مفہو م بیا ن کیا گیا ہے ۔ (ادارہ)
§ بزرگ فرما تے ہیں کہ پھل ہمیشہ دھوکر کھا نے چا
ہئیں۔
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔