Topics
باادب بانصیب ممثلّ ِ کائنات سید محمد عظیم برخیاؔ
بے ادب بے نصیب
ابدال ِ حق قلندر بابا اولیاؒ
نوعِ انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیش ِنظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی
ہیں۔
۱۔ مثلاً ساخت الف،
بے، پے، چے وغیرہ وغیرہ۔
۲۔ یہاں زیرِ بحث وہ
ساخت ہے جو قدم قدم چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
مادی مثال : پہلے ہم ایک مادی مثال دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مصور
ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔
اس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ
۱۔ کانوں کی ساخت کے لئے پنسل کے ایک خاص وضع کے
نشانات استعمال ہوں گے۔
۲۔ آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع کے۔
۳۔ بالوں کی ساخت کے لئے تیسری وضع کے۔
مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہرعضو کی ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں
پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پا جاتا ہے۔ اب ہم اس کو مصور کہہ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟
اس کے ذہن میں انسانی
خدوخال کا عکس موجود تھا۔ جب اس عکس کو نقل کرنے کے لئے اس نے پنسل استعمال کرنا
چاہی تو وہ عکس جو اس کے ذہن میں موجود تھا، بار بار اس کی راہ نمائی کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ جس
استاد نے اس کو مصوری کا فن سکھایا، وہ یہ
بتلاتا گیا کہ پنسل اس طرح استعمال کی جاتی ہے اور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا
اس طرح عمل میں آتا ہے۔ استاد کا کام صرف اس ہی قدر تھا لیکن تصویر کا عکس استاد
نے اس کے ذہن میں منتقل نہیں کیا۔ وہ اس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔ دوسرے
الفاظ میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس کی روح کے اندر نوعِ انسانی کے ہزار در
ہزار خدوخال محفوظ تھے۔ جب اس نے ایک استاد کی رہنمائی میں ان خدوخال کو کاغذ پر
نقش کرنا چاہا تو وہ تمام نقوش جو ذہن میں موجود تھے، کاغذ پر منتقل ہو گئے۔
علیٰ ٰہذالقیاس مادی فنون کی اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہو سکتی ہیں جن سے ہم
ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان بالطبع مصور، کاتب، درزی، لوہار،
بڑھئی، فلسفی، طبیب وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اسے کسی خاص فن میں ایک خاص
قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس
طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصور ہوگیا، فلاں شخص فلسفی ہو گیا۔ فی الواقع وہ تمام
صلاحیتیں اور نقوش اس کے ذہن میں موجود تھے۔ اس نے صرف ان کو بیدار کیا۔ استاد نے
جتنا کام کیا، وہ صرف صلاحیت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب ہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔
جس طرح کوئی شخص مصور، کاتب یا
فلسفی ہوتا ہے، اس ہی طرح بالطبع اپنی روح
کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان، ایک ولی، ایک خداشناس، ایک پیغمبر خاص قسم کے
روحانی نقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیتیں لئے ہوتا ہے۔ (یہاں کوئی پیغمبر زیر
ِبحث اس لئے نہیں کہ پیمبری ختم ہو چکی ہے۔ صرف روحانی انسان، اس کا نام کچھ بھی
ہو، ہمارا مطمحِ نظر ہے)۔ اب ہم صلاحیتوں
کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں۔
ایک انسان کیا ہے؟ ہم اس کو کس
طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟
ہمارے سامنے
ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔
طبی نقطۂ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی
شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس
کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا، اونی کپڑے کا یا کسی کھال
وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔
فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس
جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہوکر اس
کو ملی لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضا کی حرکت*ہے۔
جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی
ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس
لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت
اس کے اندر منتقل ہوجاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتارکر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا
کھونٹی پر لٹکادیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقِط ہو جاتی ہیں۔
اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہوسکتی
ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشیں ہوسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مر
گیا۔ مرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے، ٹکڑے کر دیجئے، گھسیٹئے، کچھ کیجئے۔ جسم
کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مردہ جسم کو ایک
طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا کوئی
امکان نہیں ہے۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا، پڑا رہے گا۔
اس کے معنی ٰ یہ ہوئے کہ مرنے کے
بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔ اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔ وہ
اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کر دیا
کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ اصل
انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا؟
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی
شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِ انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں
کر سکتی کہ کسی مردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔اس صورت میں ہم اس انسان کا تجسس
کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہوجاتا ہے۔ اس ہی انسان
کا نام انبیاء کرام کی زبان میں روح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم
ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔