Topics
یا بابا تاج الدین ولی ؒ ، تُم زلفِ نبی ، کیسوئے علی ؑ
تم لاڈلے بی بی زہرا ؓ کے ، تم روئے حسینؑ ابروئے علیؑ
پروردۂ نازِ خدا تم ہو ، سر کردہ راز ِ خد ا تم ہو
گُل زار نیازِ خدا تم ہو ، خوشبوئے حسینؑ خوشبوئے علیؑ
اس دور کے اندر جانا ہے، اس دور کے اندر سمجھا ہے
تم سے ہے جمالِ مصطفویؐ، تم سے ہے جلالِ خوئے علیؑ
تم ختم ِ رُسلؐ کا نقشِ قدم، تم شمعِ عرب، تم شمعِ عجم
تم سر خفی و جلی باہم ، مہکی ہے تم سے بوئے علی ؑ
یہ آپ ہی کا نواسہ ہے، دریا پی کر بھی جو پیاسا ہے
جَلوؤں کا سمندر دے دیجئے، اے بادۂ حق اے جوئے علیؑ
……………………………
ایک دن شہنشاہ ہفت اقلیم نانا تاج الدینؒ واکی شریف کے جنگل میں پہاڑی ٹبے پر چند لوگوں کے ہمراہ چڑھتے گئے۔
نانا تاج الدینؒ مسکرا کر کہنے لگے ،
"میاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ یہاں سے چلا جائے۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔
جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی، تم لوگ خوامخوا ہ انتظار میں مبتلا نہ ہو۔ جاؤ ، کھاؤ ، پیو اور مزہ کرو۔" بعض لوگ اِدھر اُدھر چُھپ گئے اور
زیادہ چلے گئے۔
میں نے حیات خان سے کہا، کیا ارادہ ہے؟ پہلے تو حیات سوچتا رہا پھر زیرِ لب مسکرا کے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال
کیا، چلنا ہے یا تماشہ دیکھنا ہے۔۔۔؟
بھلا بابا صاحب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا! حیات خان بولا۔
گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کے طوفان اٹھا رہی تھی۔
تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلہ پر حیات خان اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدین ؒ کو
کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔
اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ فضاء میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ چند منٹ گزرے تھے کہ جنگل بھیانک
محسوس ہونے لگا۔آدھ گھنٹہ، پھر ایک گھنٹہ۔ اس کے بعد کچھ وقفہ ایسے گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو۔یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی ، کسی
ولی، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا۔ جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کر رہا تھا۔ یکایک ناناؒ کی طرف نگاہیں
متوجہ ہوگئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ بڑی آہستہ خرامی سے، بڑے
ادب کے ساتھ۔ شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔نانا تاج ادین ؒ گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا،
اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہوگئیں۔سر زمین پر رکھ دیا۔ نانا تاج الدین ؒ ابھی تک سو رہے تھے۔ شیر نے اب زیادہ جرأت
کر کے تلوے چاٹنا شروع کر دئیے۔ اس حرکت سے نانا تاج الدینؒ کی آنکھ کھل گئی۔ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
کہنے لگے۔
"تو آگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے، میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اچھا اب جا۔" شیر نے بڑی
ممنویت سے دُم ہلائی اور چلا گیا۔
……………………
میں نے ان واقعات پر بہت غور کیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی نانا تاج الدین ؒ کے پاس آیا تھا۔ مجبوراً اس امر کا
یقین کرنا پڑتا ہے کہ نانا تاج الدین ؒ اور شیر پہلے ہی سے ذہنی طور پر روشناس تھے۔روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہو سکتا ہے۔ انا کی
جو لہریں نانا تاج الدین ؒ اور شیر کے درمیان ردو بادل ہوتی تھیں وہ آپس کی اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف
کی عام روش یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں میں بھی کشف اسی طرح ہوتا ہے۔ کشف کے معاملے
میں انسان اور دوسری مخلوقات یکساں ہیں۔
یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں، ان میں بہت
زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ
کہیں موجود ہو۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑ اپنی زندگی سے ملانا
چاہتے ہیں تو ہزار کوشش کے باوجود ناکام رہ جاتے ہیں۔ انا کی لہروں کا ابھی تذکرہ ہو چکا ہے ان کے بارے میں بھی چند باتیں
فکر طلب ہیں۔
سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔البتہ انا کی لہریں لامتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بالفاظ
دیگر یوں کہہ سکتے ہیں ان لہروں کے لئے زمانی مکانی موجود ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں انا کی لہریں
ان فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔ انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آوازکی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جاتے ہیں سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی تبادلے کی نقل ہے جو انا کی لہروں
کے درمیان ہوتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی جنبش سے سب کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔یہ
طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنا حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی انا کی لہریں
کام کرتی ہیں۔درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور یہ گفتگو صرف آنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے
درختوں میں ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی
کے ذرّوں میں من وعن اسی طرح تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔
انبیائے کرام اور روحانی طاقت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں۔ ساری کائنات میں
ایک ہی لاشعور کارفرما ہے۔ اس کے ذریعے غیب وشہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے ، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے
دو کناروں پر واقع ہوں۔ غیب و شہود کی فراست اور معنویت کائنات کی رگِ جاں ہے۔ہم اس رگِ جاں میں جو خود ہماری اپنی
رگِ جاں بھی ہے، تفکر اور توجہ کر کے اپنے سیارہ اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا انکشاف کر سکتے ہیں۔
انسانوں اور حیوانوں کے تصورات، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات، نباتات ، جمادات کی اندرونی تحریکات
معلوم کر سکتے ہیں۔مسلسل توجہ دینے سے ذہن کائناتی لاشعور میں تحلیل ہو جاتا ہے اور ہمارے سراپا کا معین پرت انا کی گرفت
سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا، سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر دیتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظیمی
اور جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(
اللہ تعالیٰ کی مدد اور
اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے
مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ
اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
اس ماہنامہ میں انشاء
اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی
مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی،
ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔
دعا کی درخواست ہے اللہ
تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔