Topics

آسمان ۔زمین ۔ماہنامہ قلندرشعور۔مارچ 2021


تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے تخلیق کیا معین مقداروں (فارمولوں) کے ساتھ اور ان مقداروں کا علم مخلوقات میں انسان کو عطا کیا۔ انسان زمین میں خلیفہ ہے جسے منصب کے مطابق صلاحیت سے نوازا۔

قارئین۔۔۔۔زمین میں خلیفہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟

رحمٰن و رحیم اللہ نے ارادے میں موجود کائناتی پروگرام کو ظاہر ہونے کا حکم دیا، لا شمار عالمین،مخلوقات اور وسائل موجود ہوگئے۔ توجہ طلب ہے کہ کائنات اللہ کے ایک حکم کُن کا مظہر ہے۔ اللہ جب کسی چیز کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے "ہو" وہ ہو جاتی ہے۔ کُن زماں و مکاں (ٹائم اینڈ اسپیس) کا مظاہرہ ہے جس میں وقت اور فاصلے کی پیمائش ممکن نہیں۔

اللہ ذات و صفات میں زمانیت اور مکانیت سے ماوراء ہے مگر مخلوقات کی شعوری سکت اور کائنات کی تشکیل کے لئے زمان و مکاں ضروری ہے۔

ہر دو اشیاء اور مقام میں انفرادیت ہے یعنی ہر مخلوق زمان و مکاں کی وجہ سے ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔

آج کی بات سمجھنے کے لئے مشق یہ ہے:

تین فٹ فاصلے سے قدِآدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوں، پورا قد نظر آئے گا۔ ایک فٹ دور کھڑے ہونے سے نگاہ گھٹنوں سے اوپر تک محدود ہوجائے گی۔ فاصلہ مزید کم کرنے پر صرف چہرہ نظر آئے گا اور ناک کی نوک آئینے سے ٹکرائے تو نظر آنکھوں کے ڈیلوں تک محدود ہوجائے گی۔

تشریح: فاصلے کی وجہ سے آپ کو آئینے میں عکس نظر آیا۔ آدمی اور آئینے کا مادی جسم ایک ہو جائے تو مقداریں ٹوٹنے سے آئینہ ٹوٹے گااور آدمی بکھراہوانظرآئے گا۔دیکھنے کی حس یعنی انفرادیت قائم رکھنےکے لئے ہر مخلوق میں مقداروں کا نظام ہے۔

مقداریں تخلیق کا فارمولا ہیں۔ یہ ہر نوع کے لئے معین ہیں۔ آئینے کی مقداروں سے آئینہ اور آدمی کی مقداروں سے آدمی بنتا ہے۔ زمین کے اندر بیج اُگنے اور رحم میں بچے کے نشوونما کا دورانیہ مختلف ہے۔ ہر مخلوق کی عمر الگ ہے۔ ناک نقشہ،آنکھوں کی ساخت اور آواز میں فرق ہے۔ بہتے ہوئے پانی کا فامولا جمے ہوئے پانی جیسا نہیں۔ بخارات کا فارمولا ان سے مختلف ہے یہ تینوں پانی کی صفات ہیں، خود پانی کیا ہے، اس کا فارمولا یہ ہے،

"اللہ وہ ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے ثمرات پیدا کئے۔" (سورۃ ابراہیم:32)

پانی کا ماخذ آسمان ہے۔ علم مابعدالنفسیات (Parapsychology)میں آسمان لاشعور یعنی ایسی تخلیق کو کہتے ہیں جس میں سمتیں مغلوب ہیں۔ آسمان کے ماحول سے کوئی چیز نکلتی ہے تو مغلوب سمتوں کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ پانی جب تک آسمان میں ہے،صورت اور رنگ مغلوب ہیں۔ جب دوسرےماحول یعنی زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے، طرح طرح کے رنگوں (وسائل) میں ظاہر ہو جاتا ہے۔

رنگ اس لئے لکھا ہے کہ زمین پر کوئی شئے بے رنگ نہیں۔

"اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نےتمہارےلئے زمین میں پیدا کی ہیں، ان میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔" (سورۃ النحل:13)

مثال: انار کا رنگ سرخ ہے۔ انارکھولیں تو اندر موجود خانے زرد ہیں۔ زرد خانوں کے اندر جھلی کی طرح پردہ ہے، اس میں رنگ ہے۔پردے کے نیچے زنگین دانے ہیں۔ دانوں کے اندر رنگ دار پانی ہے۔جما ہوا ہونے کی وجہ سے پانی نظر نہیں آتا۔ درمیان میں بیج ہے اور بیج کی اپنی شکل ہے۔بیج دوپرت کا مجموعہ ہے۔ دونوں پرت کے درمیان میں خلا ہے اورخلامیں دھگا نما سبزشئے ہے۔ انار میں جتنے رنگ ہیں، سب اس دھاگا نماشئے میں ریکارڈ ہیں جس سے انار کی نشوونما ہوتی ہے۔اگر بیج میں دھاگا نما شئے نہ ہو تو تخلیقی عمل آگے۔۔۔؟

ہر تخلیق رنگوں کی وجہ سے ظاہر ہے اور رنگ غائب ہوتے ہی چھپ جاتی ہے۔ رنگوں کی مقداروں کے یکجا ہونے کا نام پہاڑ، مٹی  پھل ،پھول ،پرندے ،جانور، حشرات ،جنات،آدمی اور انسان ہیں۔پانی میں زمین پر موجود ہر تخلیق کا فارمولا ہے۔ ہم نے مخلوقات کے غلاف میں پانی کی صفاتی اشکال دیکھی ہیں،پانی کی اپنی صورت کیا ہے، یہ نہیں دیکھا۔پانی کی اصل صورت جاننے کے لئے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 32 پر غور کیجئے۔

**----------------------------**

ازل سے ابد تک جتنے عالمین و سائل اور نوعیں ہیں، سب کا ریکارڈ کُن میں ہے۔ کسی نوع کو نہیں معلوم کہ زمین پر ان کی تعداد کتنی ہے۔اب تک کتنے لوگ دنیا میں آئے،کتنے جاچکے ہیں اور مزید آنے والوں کی تعداد کیا ہوگی۔بحرو بر اور خشک و تر میں جو کچھ ہے اور ہوگا،سب اللہ کے علم میں ہے۔ اللہ علیم و حکیم ہے، علم اور شئے دونوں اس کی تخلیق ہیں اور ہر تخلیق پر صفتِ علیم غالب ہے۔زمین پر نائب ہونے کی حیثیت سے انسان کا کائنات میں تصرف یہ ہے کہ اللہ نے اسے علم شئے (علم الاسماء) عطا کیا ہے اور تصرف کا اختیار دیا ہے ۔ علیم و حکیم ہستی کا ارشاد ہے،

" پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا معین مقداروں کے ساتھ اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی۔"

(سورۃ الاعلیٰ : 1تا 3)

زمین ایک نہیں ہے ۔ہر عالم میں جہاں مخلوق آباد ہے ۔۔۔۔زمین ہے۔آسمان سات ہیں اور ہر آسمان میں مخلوقات ہیں۔آسمان اپنی بساط پر رہنے والوں کے لئے زمین ہے۔کائنات میں جہاں جہاں زمین ہے،انسان کی حیثیت وہاں خلیفہ کی ہے جس کو اللہ نے کائنات میں تصرف کا اختیار دیاہے۔

**----------------------------**

رائج علوم کو علم حصولی کہا جاتا ہے۔ علمِ حصولی میں الفاظ کا ذخیرہ یاد ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس علمِ حضوری ایسا علم ہے جو مخلوقات میں ایک مخلوق انسان کو عطا ہواہے۔

قرآن کریم میں بیان ہوا۔۔تعلمون، یعلمون،تفکرون،تعقلون،تذکرون، تبصرون،یا اولی الالباب،فبای الاء ربکما تکذبن۔اور یہ بھی ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔۔۔اور اس طرح کی دیگر آیات جن میں اللہ نے اس علم کے بارے میں بتایا ہے جو فی الارض خلیفہ کو سکھائے ہیں۔ مقدس کتاب قرآن کریم میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات وضاحت سے بیان کردی گئی ہے۔اللہ کی آیات(نشانیوں) میں تفکر کرنے والوں پر علم حضوری کے ابواب کھلتے ہیں اور وہ جان لیتے ہیں کہ فی الارض خلیفہ کیا ہے۔۔۔۔انی جاعل فی الارض خلیفہ۔آپ نے آج کی بات میں فی الارض خلیفہ کے بارے میں پڑھا۔

ہر شئے کی طرح آسمان، زمین اور پہاڑ بھی مقداروں پر قائم ہیں جو شعور رکھتے ہیں۔اسی شعور کے تحت انہوں نے امانت قبول کرنے سے معذرت کی مگر انسان نے امانت قبول کرلی۔اللہ نے فرمایا یہ ظالم اور جاہل ہے۔اگر انسان اس امانت سے واقف نہ ہو تو بتائیے اس کی حیثیت کیا ہے؟

اللہ حافظ

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ                                     

        خواجہ شمس الدین عظیمی

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔