Topics

ہیرے کی تلاش


 

                ساوتری نے پیر حاضر شاہ کی بات سن کر فوراً ہی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر بولی۔ کل آنا بتا دونگی۔

                کیوں ابھی کیوں نہیں…………پنڈت ہری رام نے ہٹ دھرمی سے کہا۔

                ساوتری نے معنی خیز نظروں سے پیر حاضر شاہ کی طرف دیکھا…………جیسے بتانے کی اجازت طلبی کر رہی ہو…………پیر حاضر شاہ فوراً ہی اس کا مطلب سمجھ گئے لہٰذا…………پنڈت ہری رام کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے بولے۔

                یار تم اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑتے۔ جب اس نے کہہ دیا کہ کل آ جانا۔

                کل میں ضرور آئوں گا…………پنڈت ہری رام نے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا۔

                پھر وہ دونوں ہی مکان کے باہر گلی میں آ گئے۔

                بتا تو وہ ابھی دیتی…………پیر حاضر شاہ نے چلتے چلتے پندٹ ہری رام سے کہا…………لیکن تمہاری طنز بھری باتوں کی وجہ سے نہیں بتایا۔

                کوئی بات نہیں…………پنڈت ہری رام نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں جواب دیا…………کل کونسی دور ہے۔

                پیر حاضر شاہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا…………اور پنڈت ہری رام سوچ رہا تھا کہ کل وہ تنہائی میں ساوتری سے دل کھول کر باتیں کرے گا۔

٭×××××××××××٭

                دوسرے دن

                جب رات کی تاریکی نے ہر شئے کو اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا پنڈت ہری رام حسب وعدہ ساوتری کے گھر پہنچ گیا۔ آج وہ اکیلا ہی تھا۔ اس نے جونہی کل والے کمرے میں قدم رکھا ٹھٹھک کر رہ گیا ساوتری اس کمرے میں موجود نہیں تھی لہٰذا آگے بڑھ گیا۔

                دوسرے کمرے میں ساوتری ایک چھوٹے سے منقش تخت پر گائو تکیہ لگائے شان بے نیازی سے بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے کل والا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اور اس کے چہرہ پر کل والا تقدس نمایاں تھا…………جس نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔

                پنڈت ہری رام کو دیکھتے ہی اس کے یاقوتی ہونٹوں پر ملکوتی تبسم پھیل گیا اور اس نے خوش دلی سے استقبال کرتے ہوئے کہا۔ آئو مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔

                ساوتری۔ یہ سب کیا ہے؟…………پنڈت ہری رام نے قدرے اکتائے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔

                کیا ہے…………ساوتری نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا…………پھر اپنے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی…………بیٹھ جائو۔

                اسے سوچ میں گم دیکھ کر ساوتری نے زیر تبسم کہا…………باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ کچھ کھائو بھی تو اس کی آواز پر پنڈت ہری رام اپنے خیالات سے ایک دم بیدار ہوا۔ اور ایک لڈو پلیٹ میں سے اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے بولا۔

                عورت کوئی معمولی مخلوق نہیں ہے…………ساوتری نے قدرے مسکرا کر کہا…………کائنات میں جو کچھ بھی ہے اس ہی کے دم سے ہے…………کیونکہ خدا کی سب سے نمایاں صفت ‘‘تخلیق’’ میں وہ برابر کی شریک ہے۔

                ایں…………پنڈت ہری رام نے تعجب سے کہا۔

                ذرا سوچو…………ساوتری نے خندہ پیشانی سے کہا…………جب وہ تخلیق میں معاون و مددگار ہے تو پھر خداوند قدوس نے اس میں وہ تمام صفات بھی جمع کر دی ہیں جو اس کائنات میں موجود ہیں۔

                وہ کس طرح پنڈت ہری رام نے تعجب سے پوچھا۔

                سنو…………ساوتری نے تخت پر پہلو بدل کر بولی۔

                جب کائنات وجود میں آئی اور خمیر ختم ہو گیا تو خداوند قدوس نے سوچا کہ اس کائنات سے تھوڑا تھوڑا لے کر کچھ بنائوں۔ لہٰذا خدا نے۔

                سورج سے تپش لے لی

                چناد سے چمک لے لی

                چاندنی سے ٹھنڈک لے لی

                ستاروں سے جھلملاہٹ لے لی

                شبنم سے تراوٹ لے لی

                پانی سے روانی لے لی

                سیماب سے بے قراری لے لی

                پھلوں سے رنگت لے لی

                پھولوں سے خوشبو لے لی

                شہد سے مٹھاس لے لی

                ہرن سے چال لے لی

                خرگوش سے شرم لے لی

                لومڑی سے چالاکی لے لی

                طوطے سے بے رخی لے لی

                سانپ سے زہر لے لیا

                اور جب…………ان تمام چیزوں کو ملا دیا تو ایک عجیب وجود ظاہر ہوا۔ فرشتوں نے پوچھا۔ اے باری تعالیٰ یہ وجود کیا ہے۔

                خدا نے جواب دیا۔

                یہ ‘‘عورت’’ ہے۔

                فرشتوں نے پھر پوچھا…………اے ارض و سما کے مالک…………تو نے کل کائنات کے مجموعہ کا نام عورت تجویز کیا ہے لیکن اسے اپنی جانب سے کیا دیا ہے۔

                ذات الٰہی نے جواب دیا۔

                ‘‘محبت’’

                اور فرشتے یہ سن کر سربسجود ہو گئے۔

                ممکن ہے ایسا نہ ہوا ہو…………ساوتری نے فوراً ہی بات بنائی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا…………کہ اس کائنات میں سب سے دلکش اور حسین وجود عورت ہے۔

                تو نے سچ کہا ہے…………پنڈت ہری رام نے حسرت و یاس سے ٹھنڈی سانس لے کر کہا…………عورت کی سندرتا اور اس کا پریم…………مرد کے لئے زندگی کی ٹھنڈی چھائوں ہے۔

                لیکن مرد…………ساوتری نے قدرے تیز لہجہ میں کہا۔ اس کی چھائوں تلے ایک رہ گزر کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے پھر وہ ایک دم سنبھل کر بولی…………درحقیقت عورت ہمہ گیر صفت کی مالک ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مرد کی فطری کمزوری رہی ہے اور مرد نے ہمیشہ یہ چاہا کہ عورت اس کی تسکین کی خاطر بے نقاب ہو جائے اور اپنے جلوہ حسن سے اس کی درزیدہ نظروں کو سکون بخشے اور اس مقصد کی خاطر اس نے عورت کے حسن و عشق کو ایسی چلچلاتی دھوپ بنا ڈالا ہے جس میں دو گھڑی ٹھہرنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔

                لیکن…………میں ایسا نہیں ہوں…………پنڈت ہری رام نے کہا…………میں تیری سندرتا اور پریم کی چھائوں تلے جیون گزارنا چاہتا ہوں۔

                کیا مطلب…………ساوتری نے انجان بن کر پوچھا۔

                آج سے پندرہ سال پہلے…………پنڈت ہری رام نے پیار و سکون سے کہا…………جب میں نے تجھے تیرے پتا کے گھر دیکھا تھا تب ہی سے تیری سندرتا نے مجھے گھائل کیا ہوا ہے اور میرے من میں پریم کی جوت جل رہی ہے۔

                پھر وہ چند لمحہ کے لئے رکا اور دوبارہ پیار سے بولا…………یاد ہے…………میں نے تجھے شیو بھگوان کی داسی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

                مجھے سب کچھ یاد ہے پنڈت جی…………ساوتری نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔

                تو پھر اب کیا وچار ہے…………پنڈت ہری رام نے تڑپ کر کہا…………تیرے پریم سے آج بھی میرا جیون بیاکل ہے۔ تم پریم کو کیا جانو پنڈت جی…………ساوتری نے بھرپور طنز کیا…………اگر تم پریم کی حقیقت جان لیتے تو آج اس حالت کو نہیں پہنچتے۔

                میں نے تو تیرے گرو پیر حاضر شاہ کا کہا پورا کیا ہے…………پنڈت ہری رام آنکھیں سکیڑ کر بولا۔ اس ہی نے تو کہا تھا کہ انسانوں سے محبت کرو۔

                اگر تم میرے پیر و مرشد کی بات سمجھ لیتے…………ساوتری نے جواب دیا تو آج مہان گیانی ہوتے…………اگر مجھ سے عشق تھا تو مجھ جیسے ہوتے۔

                میں اب بھی تجھ سے کم نہیں ہوں…………پنڈت ہری رام نے جھوٹ کا سہارا لیا۔

                ہونہہ…………ساوتری نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا…………اگر یہ بات تھی تو میرے پاس کیا لینے آئے ہو۔

                اس کی بات سن کر پنڈت ہری رام نے شرم و ندامت سے گردن جھکا لی۔

                پنڈت جی…………ساوتری نے نہایت نرم لہجے میں مخاطب کیا۔ تمہارے پاس شروع سے کچھ نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو تم نے محبت کا غلط مطلب سمجھ کر سب کچھ اپنے نفس پر قربان کر دیا۔ اب تو تم ایک عام سے انسان ہو۔ پھر وہ سمجھاتے ہوئے بولی…………تمہاری بیوی ہے اور تمہیں چاہئے کہ اس کے ساتھ خلوص اور محبت سے زندگی گزار دو۔

                تیری خاطر میں اسے بھی چھوڑ سکتا ہوں…………پنڈت ہری رام نے سوچ کر کہا۔

                جھوٹ، فریب، دغابازی…………سب کچھ تم میں آ گیا ہے۔ ساوتری نے طنزیہ کہا…………میری خاطر تم واقعی سب کچھ کر سکتے ہو…………پھر وہ نفرت سے بولی…………لیکن مجھے تمہاری قطعی ضرورت نہیں ہے۔

                وشواش کر…………پنڈت ہری رام نے ملتجی لہجہ میں کہا…………میں آج بھی تجھ سے سچا پریم کرتا ہوں۔ آج بھی پہلے جیسی مہان شکتی حاصل کر سکتا ہوں۔ لیکن اس کے لئے تیرا ساتھ ہونا ضروری ہے۔

                اس دنیا میں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا…………ساوتری نے تلخ لہجہ میں کہا…………میں جہاں ہوں ٹھیک ہوں تم اپنی فکر کرو۔

                کیا ٹھیک ہے…………پنڈت ہری رام نے سنبھل کر کہا…………تجھے اس جگہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے تو میرے ساتھ چل۔

                نہیں پنڈت جی…………نہیں…………ساوتری نے مسکرا کر جواب دیا…………مجھے تو یہاں ہی رہنا ہے۔

                دیکھ ساوتری…………پنڈت ہری رام نے تیوری پر بل ڈال کر کہا۔ مجھے نہ چلا…………میں بالک نہیں ہوں…………تو جانتی ہے کہ میں بھی بھگوان کا مہا پرش پنڈت رہا ہوں…………اور ان چالوں کو خوب سمجھتا ہوں۔

                یہ تمہارے سفلی جذبات ہیں…………ساوتری نے لاپروائی سے کہا…………لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ۔

                پھر وہی چلتر…………پنڈت ہری رام نے بگڑ کر کہا۔

                ہاں…………تم اپنے ہیرے کے بارے میں معلوم کرنے آئے تھے…………ساوتری نے پوچھا۔

                چھوڑ ہیرے کو…………پنڈت ہری رام نے جذباتی انداز میں کہا…………میرے لئے تو ہی ہیرا ہے تو میری ہو جا…………سمجھ لوں گا کہ سارے جہاں کی دولت مل گئی۔

                اس کے ساتھ ہی پنڈت ہری رام نے بے باکی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن دوسرے ہی لمحہ ‘‘ہائے رام’’ کہہ کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی آگ ہے تیرے شریر میں۔

                یہ عشق حقیقی کی آگ ہے…………ساوتری نے جواب دیا۔ جو قریب آئے گا بھسم ہو کر رہ جائے گا۔ پھر وہ آنکھیں بند کر کے بولی تیرا ہیرا رام لال نائی کے پاس ہے۔

                رام لال نائی…………پنڈت ہری رام نے اچنبھے سے پوچھا…………یہ کون ہے؟

                رام لال نائی کی دریائے سندھ کے کنارے واقع بند روڈ پر دوکان ہے…………ساوتری نے بتایا اور آنکھیں کھول دیں۔

                لیکن…………لیکن…………یہ ہیرا اس کے پاس کیسے پہنچ گیا…………پنڈت ہری رام نے تعجب سے پوچھا۔

                یہ جان کر کیا کرو گے؟…………اگر وہ دے دیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میرے پاس آ جانا۔

                میں تمہارے پاس نہیں آئوں گا…………پنڈت ہری رام نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔

                کیوں …………ساوتری نے پوچھا۔

                اس لئے کہ تم ایسی جگہ رہتی ہو جہاں میرے لئے آنا باعث ہتک ہے…………پنڈت ہری رام نے نفرت سے جواب دیا۔ پھر وہی ضد…………ساوتری نے ٹوکا۔

                ساوتری…………تو یہ جگہ چھوڑ دے۔ پنڈت ہری رام نے پیار سے سمجھایا…………تو اگر میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو کہیں اور چلی جا۔

                کہاں چلی جائوں…………ساوتری نے معصومیت سے پوچھا۔

                میرے ساتھ چل…………پنڈت ہری رام نے کہا۔

                میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی…………ساوتری نے غصہ سے کہا…………میری باتوں سے تمہیں یقین آ جانا چاہئے کہ میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔

                ساوتری…………پنڈت ہری رام نے اسے تیز لہجے میں مخاطب کیا۔

                مجھے تم سے نفرت ہے…………میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی…………ساوتری نے غصہ و نفرت سے کہا۔

                اور اس کی طرف سے منہ پھیر لیا…………ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ الفاظ کہنا نہیں چاہتی تھی۔

                آج پہلی بار کسی نے مجھ سے نفرت کا اظہار کیا ہے…………پنڈت ہری رام نے الفاظ چبا کر کہا…………اگر زندگی رہی تو اس کا بدلہ ضرور لوں گا۔

                آخری الفاظ کے ساتھ ہی وہ تیزی سے مڑا اور دروازہ سے باہر نکل گیا۔ ساوتری اسے افسوس ناک نظروں سے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ پھر اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔ اے اللہ اسے نیک راہ رکھا۔

٭×××××××××××٭

                دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر سکھر شہر آباد ہے اور یہ دریا اس شہر کی تشنگی بجھانے کی خاطر اس کے لبوں کو چھوتا ہوا گزرتا ہے۔

                بندر روڈ ایک لمبی سی سڑک ہے جو کہ بیراج سے شروع ہو کر دریا کے کنارے کنارے ریلوے پل تک چلی جاتی ہے…………آج سے سینکڑوں سال قبل یہ شہر دریا کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑی تجارتی منڈی تھا اور یہ سڑک ایک نہایت خوبصورت و شاندار بندرگاہ تھی۔ جس کے کنارے پر مختلف ممالک کے بادبانی تجارتی جہاز لنگر انداز رہا کرتے تھے۔ ساوتری نے اس طویل سڑک ہی پر رام لال نائی کی دکان بتائی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے کوئی اور نشانی نہیں بتائی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے پہلے تو سوچا کہ…………وہ اس طویل سڑک پر رام لال نائی کو کہاں تلاش کرتا پھرے گا۔ لیکن جب اسے اپنی غربت اور ہیرے کا خیال آیا۔ تو اسے ایک عزم کے ساتھ تلاش کرنے کی خاطر چل پڑا۔

                پنڈت ہری رام بندر روڈ پر نائیوں کی دکانیں دیکھتا جا رہا تھا…………ساتھ ہی وہ سوچ رہا تھا کہ کوشیلا کا منگل سوتر جسے وہ ہر وقت اپنے گلے میں پہنے رہتی تھی۔ رام لال نائی کے پاس کیسے پہنچ گیا اور پھر ساوتری کو کیسے علم ہوا کہ وہ اس ہی کے پاس ہے…………کہیں ایسا تو نہیں کہ ساوتری نے اسے بیوقوف بنایا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو…………تو ساوتری کی ماورائی طاقتوں کا بھرم کھل جائے گا۔

                وہ دل ہی دل میں ہنسا اور پھر سے ایک نائی کی دکان پر پہنچ کر رام لال نائی کے بارے میں پوچھا۔

                نائی جو ایک گاہک کی حجامت بنا رہا تھا۔ اس نے پنڈت ہری رام کو ایک نظر اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر اسے مطلوبہ شخص کا پتہ بتا دیا۔

٭×××××××××××٭

                جس وقت پنڈت ہری رام اس دکان پر پہنچا تو کافی دن چڑھ چکا تھا…………اور گاہک کوئی بھی نہیں تھا۔ البتہ لکڑی کی ایک لمبی سی بینچ پر شلوار قمیض پہنے ایک نہایت موٹا شخص لیٹا ہوا تھا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ سر کے تمام بال سفید تھے اور چہرے پر جھریاں اسی طرح نمایاں ہو رہی تھیں۔ جیسے بڑھاپا دروازہ کے باہر آیا چاہتا ہو۔ ہری رام نے اس کے قریب پہنچ کر رام لال کے بارے میں پوچھا تو وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ بیٹھا اور اسے نظروں سے تولتے ہوئے پوچھا۔

                تم کون ہو؟…………کیا کام ہے اس سے؟

                یہ بات تو میں رام لال ہی کو بتائوں گا…………ہری رام نے جواب دیا…………پھر اس کے قریب ہی بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ مجھے تو تم ہی رام لال دکھائی دیتے ہو۔

                تم…………تم نے ٹھیک پہچانا…………رام لال نے ادھر ادھر سراسیمگی سے دیکھ کر کہا…………لیکن تمہیں کام کیا ہے؟

                کام…………ہری رام نے سوچا…………کہ وہ اس اجنبی سے ساوتری کی بات کہہ دے۔ کیا وہ اس شریف آدمی سے اپنے ہیرے کا مطالبہ کر ڈالے۔ کہیں یہ ساوتری کی کوئی چال تو نہیں ہے۔

                وہ بات کہتے کہتے ٹھٹھک گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں دوسرا خیال ابھرا۔ ساوتری جھوٹ نہیں بول سکتی۔ اس کی سچائی کا ثبوت رام لال نائی کی موجودگی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کی ہمت بڑھی اور اس نے نہایت اعتماد سے کہا مجھے ہیرا چاہئے۔

                ہیرا…………رام لال نائی ہیرے کا نام سنتے ہی اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو…………کونسا ہیرا…………کیسا ہیرا…………

                اس کی بوکھلاہٹ سے ہری رام کو یقین ہو گیا کہ ہیرا اس ہی کے پاس موجود ہے لہٰذا وہ نہایت رعب سے بولا۔

                دیکھو وہ ہیرا میرا ہے اور تم اس سے کوئی فائدہ نہیں حاصل کر سکو گے۔ اگر تم نے ہیرا واپس نہیں کیا تو میں پولیس کی مدد حاصل کروں گا۔

                پولیس کا نام سنتے ہی رام لال کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں چھا گئیں اور اس نے ڈر سے پوچھا۔ تم کو میرا پتہ کس نے بتایا ساوتری نے…………ہری رام نے بلا تامل کہا۔

 

 

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔