Topics

کوشیلا


                اب یہ اس کی عقیدت تھی یا پنڈت ہری رام سے والہانہ لگائو کہ وہ جب کبھی بھی اپنی فیکٹری سے زمینوں کا معائنہ کرنے جاتا تھا۔ تو ایسے راستہ سے گزرتا تھا جس کے بیچ میں شیوبھگوان کا مندر پڑتا تھا۔ اس نے ڈرائیور کو حکم دے رکھا تھا کہ شیوبھگوان کے مندر کے پاس چند لمحوں کے لئے گاڑی روک لیا کرے۔ اور جب ڈرائیور اس کے حکم کے مطابق عمل کرتا تھا تو وہ کار میں بیٹھے ہی بیٹھے شیوبھگوان سے اولاد کے لئے پرارتھنا کرتا تھا۔

                اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

                وہ معمول کے مطابق کار روک کر پرارتھنا کرنا چاہتا تھا کہ اس نے زمین بوس مندر کے احاطہ میں کسی سادھو کو کھڑے دیکھا۔ وہ فوراً ہی کار سے اتر آیا…………سادھو سینہ پر ہاتھ باندھے شیو بھگوان کی شکستہ مورتی کے پاس کھڑا تھا۔ اور وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سادھو اس کا پرانا محسن پنڈت ہری رام تھا۔ اور اس نے فرط عقیدت سے اس کے چرنوں میں ماتھا ٹھیک دیا تھا۔

                ایک بار پھر بھگوان نے اس کی آشا پوری کرنے کے لئے اپنے سیوک کو بھیج دیا تھا۔ اور اس طرح پنڈت ہری رام سے اچانک ملاقات ہونے کے بعد وہ اسے اپنے گھر لے آیا تھا۔

٭×××××××××××٭

                پنڈت ہری رام سیٹھ کے ہمراہ اس کی بڑی سی کوٹھی میں داخل ہوا۔ اور سیٹھ موہن لال اسے لئے ہوئے سیدھا عمارت کے اس حصہ کی طرف چل دیا جہاں اس نے لکشمی دیوی کا مندر بنا رکھا تھا۔ جس وقت وہ اندر داخل ہوا تو یہ دیکھ کر چونک پڑا کہ کوشیلا لکشمی دیوی کے چرنوں میں سر جھکائے بیٹھی ہے۔

                مہان دیوی…………جب سے تو نے ہمیں درشن دیئے ہیں ہمارے پاس دولت کی کمی نہیں رہی لیکن میں ایسی دولت کا کیا کروں۔ جس میں سکھ نہیں۔ میرے من کو سکھ تو صرف اولاد کا پیار ہی دے سکتا ہے۔

                مہان لکشمی…………تو دولت لے لے لیکن مجھے اولاد دے دے…………میری گود بھر دے۔

                سیٹھ موہن لال اور پنڈت ہری رام دروازے پر کھڑے ہو کر اس کے دل کی آواز سن رہے تھے۔ کوشیلا کی پیٹھ ان دونوں کی طرف تھی۔ اس کے سیاہ بال پیٹھ پر مور کے پنکھ کی مانند پھیلے ہوئے تھے۔ کوشیلا…………سیٹھ موہن لال نے اسے بڑے پیار سے پکارا…………دیکھ تو تمہارے دوارے کون آئے ہیں۔ اپنے دھرم پتی کی آواز پر کوشیلا نے لکشمی دیوی کے چرنوں سے سر اٹھایا…………اور بیٹھے بیٹھے ہی گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔

                پنڈت ہری رام کو یوں محسوس ہوا جیسے لکشمی دیوی اس کے سامنے موجود ہو۔ ‘‘ساوتری’’ کے بعد یہ دوسرا حسین چہرہ تھا۔ جس سے وہ متاثر ہوا تھا۔ ساوتری کو شیوبھگوان کی دیوداسی بنا کر وہ اس کا مالک ہو جاتا کیونکہ شیو بھگوان کے مہان پجاری کو یہ اختیار حاصل تھا…………لیکن اس معاملہ میں جو کچھ بھی ہوا بالکل غیر اتفاقی اور اس کے ارادے کے برخلاف ہوا تھا۔

                پریم کا سبق اسے پیر حاضر شاہ نے پڑھایا تھا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ اس نے پریم کا مطلب کچھ اور سمجھا۔ بہرحال…………اس وقت کوشیلا اس کے سامنے ‘‘سیتا’’ کے روپ میں حسن کی دیوی بن کر کھڑی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے چند قدم آگے بڑھائے اور سر و قد کوشیلا کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ کوشیلا نے سفید بے داغ ساڑھی باندھ رکھی تھی۔ اس نے پنڈت کے احترام میں سر کو ساڑھی کے پلو سے چھپایا اور گردن جھکا کر کھڑی ہو گئی۔

                یہ میری دھرم پتنی کوشیلا ہے…………سیٹھ موہن لال نے آگے بڑھ کر پنڈت ہری رام کو بتایا۔

                ہم جانتے ہیں…………پنڈت ہری رام نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ پھر اس کے سر پر اپنا داہنا ہاتھ رکھ کر آشیر واد دے کر بولا…………ہم لوگوں کے من کی آشا کو جانتے ہیں۔ تیری ناری کی کیا آشا ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے…………اور جب تک تیری دھرم پتنی کے من کی اچھا پوری نہیں ہو جاتی…………لکشمی دیوی کے چرن ہمارا استھان ہو گا…………اب تم جائو اور ہمیں گیان دھیان کرنے دو۔

                پنڈت ہری رام کا حکم سنتے ہی دونوں میاں بیوی نے ہاتھ جوڑ کر اسے ڈنڈوت کیا اور کمرہ سے باہر نکل آئے۔

                پنڈت ہری رام کے آرام و آسائش کا جتنا خیال ان دونوں میاں بیوی نے رکھا تھا۔ شاید اپنے ماتا پتا کا بھی اتنا خیال نہیں رکھا ہو گا۔

٭×××××××××××٭

                سیٹھ موہن لال نے کوشیلا کو بتا دیا تھا کہ یہ وہی مہان گیانی پنڈت ہری رام ہے جس کی بھکشا کے کارن وہ نہایت ہی مسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں…………اور کسی نہ کسی دن موقع دیکھ کر ان سے اولاد کی خواہش بھی بیان کر دی جائے گی۔

                کوشیلا کو دیکھنے کے بعد پنڈت ہری رام کو کسی پل قرار نہیں تھا…………وہ حسن کے اس مجسمہ سے اپنے بے چین دل کی تسکین کرنا چاہتا تھا…………لیکن…………حالات کے سامنے مجبور تھا…………کیونکہ وہ نہ تو کنواری کنیا تھی اور نہ ہی بیوہ جسے باآسانی دھرم کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا۔

                لیکن…………لیکن…………یہ موہن لال اسے اپنے گھر کیوں لے آیا…………پنڈت ہری رام نے سوچا…………کیا وہ اس طرح اس کی دعا کا احسان اتارنا چاہتا ہے…………لیکن اس قسم کی دعائیں تو اس نے اور دوسرے لوگوں کو بھی کئی بار دی تھیں پھر…………پھر…………کیا بات ہے کہ سیٹھ موہن لال اسے اپنے گھر لے آیا۔

                لیکن وہ جانتا تھا کہ اس دھرتی پر بلا کسی کارن کے منش کسی کے کام نہیں آتا۔

                اس ہی سوچ و فکر میں کئی دن گزر گئے۔

                پنڈت ہری رام صبح سویرے لکشمی دیوی کی پوجا پاٹ سے فارغ ہونے کے بعد مندر کے باہر آ جاتا تھا…………جہاں ایک طرف اس کی مخصوص گائے کھڑی جگالی کر رہی ہوتی تھی۔

                سیٹھ موہن لال نے پنڈت کے ساتھ ہی ساتھ اس کی خاص گائے کی خوراک کا بھی انتظام کر دیا تھا…………اور پنڈت ہری رام ہر روز صبح و شام اپنے ہاتھ سے اسے کھلاتا تھا اور گائے بھی اس کے ہاتھ سے چارہ کھانے کی ایسی عادی ہو گئی تھی کہ کسی دوسرے کے دیئے ہوئے چارہ کو منہ تک نہیں لگاتی تھی۔

                سیٹھ موہن لال اور اس کی دھرم پتنی کے خیال میں وہ بھی دھرم ماتا تھی۔

٭×××××××××××٭

                سیٹھ موہن لال کے کلب جانے کا وقت ہو گیا تھا…………وہ وائیل کا کرتا اور وائل ہی کی نئی دھوتی باندھے ہوئے اوپر کی منزل سے نہایت تیز رفتاری سے اترا…………اور کوٹھی سے کچھ ہی فاصلہ پر کھڑی ہوئی نئی کار میں جا کر بیٹھ گیا۔ شام کو وہ جب بھی کلب جاتا تھا تو ڈرائیور کو ساتھ نہیں لیتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ملازم لوگ اپنے فائدہ کی خاطر مالکن کو غلط ملط باتیں بتا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

                ابھی اس نے گاڑی اسٹارٹ کر کے گیئر ہی ڈالا تھا کہ لکشمی کے مندر سے پنڈت ہری رام ہاتھ میں موٹے موٹے دانے کی مالا لئے نمودار ہوا۔ اس کی دونوں آنکھیں بند تھیں اور مالا کے دانوں پر تیزی سے انگلیاں چل رہی تھیں۔

                موہن لال…………اس نے اپنی پاٹ دار آواز میں اسے مخاطب کیا۔

                اپنا نام سنتے ہی سیٹھ نے آواز کی طرف دیکھا…………وہ یہ دیکھ کر ٹھٹک گیا کہ پنڈت ہری رام اندھوں کی طرح آنکھیں بند کئے اس کی طرف بالکل ایسے انداز میں آ رہا تھا جیسے دیکھ رہا ہو۔ لکشمی دیوی کے مندر سے لے کر سیٹھ موہن لال کی کار تک ایک طویل راستہ تھا۔ جس میں جابجا درخت لگے ہوئے تھے…………لیکن پنڈت ہری رام اس طرح سے چل رہا تھا جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہو…………اس کے اس کرشمہ سے سیٹھ موہن لال حیرت زدہ رہ گیا۔ پنڈت ہری رام آنکھیں بند کئے ہوئے سیٹھ موہن لال کی کار کے قریب پہنچ کر رک گیا۔

                کیا آ گیا ہے پنڈت جی…………موہن لال نے کار میں بیٹھے بیٹھے ہاتھ جوڑ کر پوچھا۔

                ‘‘موہن لال’’ پنڈت ہری رام نے بند آنکھوں سے کہا…………تو کہاں جا رہا ہے؟ ہم جانتے ہیں لیکن یاد رکھ سنسار میں شانتی اس ہی سمے ملتی ہے جب من میں شانتی ہو…………پھر وہ تھوڑا سا رکا اور دوبارہ بولا…………تیرے من میں ایک آشا انگڑائی لے رہی ہے…………ذرا سوچ تو…………تیرے لگن کو کتنے برس بیت چکے ہیں…………اس نے ہوا میں تیر پھینکا۔

                سیٹھ موہن لال نہایت ہی توجہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ پر تھے اور آنکھوں میں عقیدت کی چمک نمودار ہو گئی تھی۔

                موہن لال…………میں تیری جنم پتری دیکھ رہا ہوں…………پنڈت ہری رام اسی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے بولا۔ لکشمی دیوی تجھ سے خوش ہے اور اس ہی کارن اس نے تجھے مایا سے بھر دیا ہے…………پرنتو۔ یاد رکھ مایا ہی سب کچھ نہیں ہے۔ مایا سے شریر کو تو سکھ مل سکتا ہے مگر…………

                آپ…………آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں…………سیٹھ موہن نے عقیدت بھرے لہجہ میں اس طرح سے کہا۔ جیسے پنڈت نے اس کے دل کی بات جان لی ہو۔ پھر اس نے گاڑی کا انجن بند کیا اور باہر نکل کر بولا۔

                آپ گیانی ہو مہاراج…………آپ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے۔

                پنڈت ہری رام نے جب دیکھا کہ موہن لال اس سے متاثر ہے تو کنٹھ مالا کو ہوا میں لہرا کو بولا۔

                ‘‘اس سمے ہم بھگوان کی آگیا سے تیرے پاس آئے ہیں تا کہ تجھے سیدھا راستہ دکھا دیں۔’’

                یہ سن کر تو موہن لال کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ اس نے فوراً ہی پنڈت ہری رام کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ مہاراج مندر میں چلئے یہاں آپ کو کھڑا دیکھ کر…………

                ہاں…………بھگوان کی باتیں بھگوان کے سامنے ہونا چاہئے۔ پنڈت ہری رام نے اس کی بات کاٹ کر جواب دیا اور پھر آنکھیں کھول کر اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا…………میں اندھا نہیں ہوں۔

                اس کے بعد وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لکشمی دیوی کے مندر کی طرف چل دیا۔ سیٹھ موہن لال کیونکہ بھاری بھر کم جسامت کا تھا۔ لہٰذا اس کا ساتھ نہیں دے سکا۔

                مندر میں پہنچتے ہی پنڈت ہری رام نے لکشمی دیوی کے پائوں کو پکڑ لیا اور اس وقت تک پکڑے رہا جب تک موہن لال دروازہ پر نہیں آ گیا…………دروازہ پر آہٹ پاتے ہی وہ بڑبڑایا…………لکشمی تو بھی دیوی ہے۔ بھگوان کی تو بھی سمپھل ہے…………تیرے دوار سے جو بھی آئے اس کی پرارتھنا سن۔

                پھر وہ موہن لال کی طرف دیکھ کر بولا…………موہن لال لکشمی دیوی کے چرن کو چھوئو سیٹھ موہن لال نے فوراً ہی دونوں ہاتھوں سے لکشمی دیوی کے چرن کو چھوا…………انہیں اپنے ماتھے سے لگایا اور نہایت ہی احترام سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

                پنڈت ہری رام نے کنٹھ مالا کو گلے میں ڈالا۔ اور موہن لال کی پیشانی پر نظریں جما کر بولا…………میں نے تیرا لگن اور مہورت بچار دیکھا ہے…………نیوشبھ گھڑی ہے…………تیرا جیون بڑا ہی سکھی ہے پر زحل اور مشتری گردش میں ہیں اور ان سے بچنا ضروری ہے۔

                وہ کیسے مہاراج؟…………سیٹھ موہن لال نے گھبرا کر پوچھا۔

                چنتا نہ کر…………پنڈت نے اسے تسلی دی۔ تیرے لگن کا ستارہ عقرب ہے…………جو کہ ناگن سے بھی زیادہ شکتی مان ہے۔ تیرے بھاگ کی ریکھائیں بتاتی ہیں کہ…………من کی آشا پوری ہو گی…………بالک کے ساتھ ناری کا بھی مان بڑھے گا۔

                بالک کا نام سنتے ہی سیٹھ موہن لال خوشی و حیرت سے بولا…………سچ۔

                تیری استری…………اپنے روپ انوپ سے من رجھائے۔ دل لبھائے اور اپنی سنورتا سے اس سنسار میں اجالا پھیلائے…………جس منش کے دل میں اس کی سندرتا پریم کا دیپ جلائے۔ چاہئے کہ اس کے بھی من کو لبھائے۔

                پنڈت ہری رام نہایت چالاکی سے اپنے مطلب کی بات کہہ گیا…………سیٹھ موہن لال کو تو کہیں ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ انسان نہیں بھگوان بول رہا ہو…………لیکن آخری جملہ پر وہ ذرا سا چونکا…………شاید وہ اس کے مطلب و معنی جاننا چاہتا تھا لیکن پنڈت ہری رام نے نہایت ہی ہوشیاری سے اس لمحہ پر گرفت کرتے ہوئے کہا…………سن تیری جنم پتری بتاتی ہے کہ یہ شبھ گھڑی تیرے لئے بڑی کٹھن بھی ہے اور اس میں آنند بھی ہے…………رحم کرے گا سکھ پائے گا…………اپنے من کی سندرتا سے لوگوں کا دل لبھائے گا آنند پائے گا…………ظلم کرے گا…………من میں کھوٹ لائے گا…………نرکھ کی اگنی میں جائے گا۔

                اتنا کہہ کر پنڈت ہری رام نے انگلی سے اشارہ کیا اور اپنے الفاظ پر زور دے کر بولا…………راج نیتی کے کام میں بول بالا ہو گا۔ سدا سکھی رہے گا۔ شبھ گھڑیاں تارے گن گن کر نہیں کاٹنی پڑیں گی۔

                چین کی نیند سوئے گا…………پر یاد رکھ…………اس نے اپنی آواز میں خوف پیدا کرتے ہوئے کہا کسی کے من مندر کو ڈھائے گا تو مایا ہاتھ سے جائے گی…………آشائوں پر اوس پڑے گی…………سینچر پائوں پڑے گا۔ در در کے دھکے کھائے گا۔

                سیٹھ موہن لال یہ سن کر ایک دم خوفزدہ ہو گیا۔ پنڈت ہری رام نے جب یہ دیکھا کہ شکار پوری طرح جال میں پھنس گیا ہے تو نہایت ہی مکاری سے بولا۔ اپنی استری کی سندرتا پر گھمنڈ نہ کر…………کالی مائی۔ درگا مائی اور لکشمی دیوی کی سندرتا کو دیکھ…………سیتا اور رامچندر جی کے پریم کو دیکھ…………کہ سیتا کی سندرتا کے گھمنڈ نے اسے جنگل جنگل پھرایا…………پھر بھی اسے چین نہ آیا۔

                اس کے بعد پنڈت ہری رام نے نہایت ہی لاپروائی سے اس کی وائیل کی دھوتی کا لٹکا ہوا آنچل ہوا میں اچھال کر کہا جا…………اب جا…………اپنی استری کی سندرتا کی جگہ من میں پریم کو بسا…………پریم کر…………کسی کو دوش نہ دے…………جب بالک آئے گا۔ ہنستا کھیلتا آئے گا…………جا اب جا۔

                اور اس کے ساتھ ہی پنڈت ہری رام نے اس کی طرف سے منہ موڑ کر لکشمی دیوی کے چرنوں میں سر رکھ دیا۔

                سیٹھ موہن لال سوچ و بچار میں غوطہ زن باہر نکل آیا…………پنڈت ہری رام کی اس گفتگو نے اس کے ذہن میں ہلچل سی مچا دی تھی…………وہ کبھی اپنے دل کو ٹٹولتا جس میں کوشیلا کے لئے محبت تھی پیار تھا۔ اور کبھی پنڈت ہری رام کی باتوں کے پس پشت جھانکنے کی کوشش کرنے لگتا۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ کلب جانے کے بجائے واپس اوپر کی منزل کی طرف چل دیا۔ اوپر پہنچ کر اس کے قدم خودبخود کوشیلا کے کمرہ کی طرف اٹھتے چلے گئے۔

٭×××××××××××٭

                شام کا وقت تھا۔ اور سورج نے مغرب کی سمت جھکنا شروع کر دیا تھا۔

                سیٹھ موہن لال نے کھڑکی کے قریب رک کر اندر جھانکا…………کھڑکی پر ہلکے سبز رنگ کا ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ اوپر نیچے سے ایک اسپرنگ نما تار میں جکڑا ہوا تھا۔

                سیٹھ موہن لال کا خیال تھا کہ اس کی دھرم پتنی ابھی تک سو رہی ہو گی…………وہ اس کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا…………لیکن جب اس نے پردہ کھسکا کر دیکھا تو پلنگ خالی تھا…………اور کوشیلا دائیں جانب دیوار کے ساتھ لگی ہوئی سنگھار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔

                ہاتھی دانت کا بنا ہوا نہایت ہی خوبصورت کنگھا اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ بڑی ہی چابک دستی سے اپنے بال بنا رہی تھی۔ بالوں کو سونے کے کلپ اور چاندی کے کانٹوں سے جکڑنے کے بعد اس نے باقی ماندہ بالوں کو اپنی چھاتی پر بکھیر دیا اور کنگھا میز کی دراز میں رکھ دیا…………پھر اس نے سامنے ٹیبل پر رکھی ہوئی غیر ملکی لپ اسٹک نکالی اور اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے تھوڑی سے زبان نکال کر اوپر نیچے کے ہونٹوں کو تر کیا اور بعد میں لپ اسٹک لگانے لگی…………لپ اسٹک بہت ہی گہری سرخ تھی۔

                لپ اسٹک لگانے کے بعد۔ اس نے میز پر سے ایک خوبصورت چھوٹی سی چپٹی گول ڈبیہ اٹھا لی۔

                ڈبیہ کھولنے کے بعد اس نے اپنے چہرہ پر پائوڈر ملا۔ جب چہرہ پر پائوڈر کی ہلکی سی تہہ جم گئی تو نہایت ہی ملائم رومال سے چہرہ کو صاف کیا…………پھر اس نے گالوں کی سرخی نکال کر آنکھوں کے نیچے واقع ابھار پر اس طرح ملی کہ وہ سیب کی مانند سرخ نظر آنے لگے۔

                اس کے بعد اس نے اپنی ہرن جیسی آنکھوں میں کاجل لگایا۔ اور اس ہی سلائی سے اپنے ماتھے کے بیچوں بیچ کاجل کی بندیا بھی لگائی۔ پھر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ اس نے سینہ پر پڑے ہوئے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور بغل میں دبا کر گردن اور اس کے نچلے حصہ میں نہایت ہی تیز خوشبو کا عطر لگانے لگی۔

                سیٹھ موہن لال کھڑکی کے پاس کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا…………کوشیلا حسین تھی۔ بہت ہی حسین…………اور اس سنگھار کے بعد تو وہ بالکل پری دکھائی دے رہی تھی…………سیٹھ موہن لال کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح سنگھار کرتی رہے اور وہ اسے یونہی ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہے۔ عطر لگانے کے بعد اس نے شیشی دوبارہ میز پر رکھ دی۔ اور پھر عالم بے خودی میں دونوں ہاتھ اٹھا کر بھرپور انگڑائی لی۔

                پھر…………وہ آئینہ میں اپنا سراپا دیکھ کر خود ہی شرما گئی…………اور اس سے پہلے کہ اس کے دونوں ہاتھ نیچے کو آئیں…………دو ہاتھوں نے اسے پیچھے سے اس طرح گرفت میں لے لیا کہ وہ ویسے ہی کھڑی کی کھڑی رہ گئی…………اس نے پیچھے تھوڑی سی گردن گھما کر دیکھا…………یہ اس کا پتی دیوسیٹھ موہن لال تھا۔

                وہ اس کی اس غیر متوقع اامد پر کچھ بوکھلا سی گئی…………اس وقت اسے کلب میں ہونا چاہئے تھا…………کوشیلا نے سوچا…………یہ اچانک کہاں سے آ گیا۔ کوشیلا کے چہرہ کا رنگ متغیر سا ہو گیا۔ جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو…………دراصل اس وقت وہ اپنے ایک دور کے رشتہ دار سے ملنے جا رہی تھی۔ لیکن سیٹھ موہن لال نے غیر متوقع طور سے واپس آ کر اس کے پروگرام کو ملیامیٹ کر دیا تھا…………کوشیلا نے نہایت ہی سمجھ سے کام لیا۔ اس نے اپنے چہرہ سے کسی بھی قسم کا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا۔

٭×××××××××××٭

                دوسرے دن…………    صبح ہی صبح سیٹھ موہن لال اپنی زمینوں پر کپاس کی فصل دیکھنے چلا گیا۔

                پنڈت ہری رام نے اس مرتبہ نہایت ہی احتیاط سے کام لیا تھا۔ اس نے موہن لال سے گفتگو کے دوران یہ تو معلوم کر لیا تھا کہ جیون کی سب سے بڑی تمنا اولاد ہے…………لیکن اسے یہ جان کر سخت افسوس ہوا تھا کہ موہن لال کے بھاگ میں اولاد نہیں ہے…………اس نے گفتگو کے دوران اس کی پوری جنم کنڈلی کھنگالی تھی۔ سیٹھ موہن لال کی قسمت میں اولاد نہیں تھی…………اب وہ صرف کوشیلا کی تقدیر کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے کوشیلا کا انتظار تھا لیکن جب سے وہ مندر میں آیا تھا…………کوشیلا کبھی کبھار ہی ادھر کا رخ کرتی تھی۔

                آج جبکہ صبح ہی صبح سیٹھ موہن لال اپنی زمینوں پر چلا گیا تھا۔ تو پنڈت ہری رام سوچ رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سے کوشیلا کو بھی دیکھ لے اور…………اور پھر وہ اس ہی خیال سے اوپر کی منزل کی طرف چل دیا۔

                جب وہ اپنی دانستگی میں کوشیلا کے کمرہ کی طرف جا رہا تھا تو کسی کے گنگنانے کی آواز سنائی دی…………اس نے آواز کی طرف کان لگا دیئے۔ گانے کی آواز کے ساتھ قریبی غسل خانے سے پانی گرنے کی بھی آواز آ رہی تھی۔

                پنڈت ہری رام کی باطنی نگاہ کوشیلا کے اندر ہونہار بچہ کلبلاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ وہ فوجی انداز میں پلٹا اور مندر کی طرف چل دیا۔

                نہانے کے بعد وہ اپنے کمرہ میں آ گئی…………کمرہ کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر اس نے اپنے پورے سراپا کو تولیہ سے خشک کیا پھر ہلکے نیلے رنگ کی نہایت ہی خوبصورت بنارسی ساڑھی باندھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر سنگھار کرنے لگی۔

                اسے کل شام کو جہاں جانا تھا۔ سیٹھ موہن لال کی غیر متوقع آمد کی وجہ سے نہیں جا سکی تھی۔ لیکن آج…………جبکہ اس کا دھرم پتی زمینوں پر جا چکا تھا۔ اسے موقع مل گیا تھا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ بن ٹھن کر جانا چاہتی تھی۔

٭×××××××××××٭

                ڈاکٹر سیٹھی ایک خوبصورت اور وجیہہ شکل نوجوان تھا۔ کشادہ پیشانی اور قدرے گول چہرہ تھا۔ اس کے خدوخال بھرے ہوئے تھے…………اس کی ناک ستواں تھی جو کہ بھرے ہوئے گالوں پر خوب سجتی تھی۔ اس کے دانت چھوٹے چھوٹے سفید اور چمکیلے تھے جو کہ پتلے پتلے ہونٹوں کے درمیان موتی کی طرح چمکتے تھے۔ وہ ایک صحت مند جسم کا مالک تھا۔ اس کی عمر تیس سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ لیکن وہ ابھی تک کنوارا تھا۔ محبت کے معاملہ وہ شروع ہی سے ناکام رہا۔

                کالج کے زمانے میں اس نے پہلی بار کامنی سے پیار کیا تھا۔ اور ابھی وہ ابتدائی مرحلے ہی میں تھا کہ کامنی اسے چھوڑ کر شنکر داس کی ہو گئی۔ شنکر داس مل مالک کا بیٹا تھا۔ اور وہ ایک معمولی دیوان کا بیٹا تھا۔ کامنی کی بے وفائی کا داغ اپنے پڑوس کی ایک لڑکی سے منسوب ہو کر مٹانا چاہا لیکن وہ بھی کسی اور سے سنجوگ کر بیٹھی۔

                تب اس نے سوچا کہ میں ڈاکٹر کا پیشہ اختیار کروں گا۔ گو کہ اس کے پتا کے پاس اتنا اثاثہ نہیں تھا کہ وہ ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کر سکتا۔ لیکن مسلسل ناکامیوں سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ بڑی ہی مستعدی و محنت سے اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

                کوشیلا اس کے دور کے رشتہ داروں میں سے تھی۔ وہ دہقان کی بیٹی تھی۔ اور گائوں کی کھلی فضا میں اس نے جنم لیا تھا…………سیٹھی جب کبھی اپنے گائوں جاتا اس سے ضرور ملتا تھا۔ اس کے چوٹ کھائے ہوئے دل میں کوشیلا کے لئے پریم کی لہر سی اٹھتی تھی…………لیکن وہ سوچتا تھا کہ کوشیلا تو بالکل ان پڑھ جاہل ہے۔ وہ اس کا کیا ساتھ دے سکے گی۔

                کوشیلا کو بھی اس سے پریم تھا…………وہ چاہتی تھی کہ اپنا جیون سیٹھی کے ساتھ گزار دے۔ شہر میں سیٹھی کا ایک بڑا سا کلینک ہو گا اور وہ شوہر کے ساتھ ساتھ مریضوں کی بھی خدمت کیا کرے گی۔ لیکن ان دونوں کا یہ سپنا پورا نہیں ہوا۔

                ڈاکٹر سیٹھی گورنمنٹ کے خرچہ پر لندن چلا گیا۔ اور کوشیلا موہن لال کی داسی بنا دی گئی۔

٭×××××××××××٭

                جب ڈاکٹر سیٹھی لندن سے واپس آیا تو ایک پرانے دوست کی معرفت اس کی ملاقات سیٹھ موہن لال سے ہو گئی اور سیٹھ موہن لال نے مزدوروں سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر ڈاکٹر سیٹھی سے دس سال کا معاہدہ کر لیا اور یوں ڈاکٹر سیٹھی نہ صرف مل مزدوروں کا بلکہ سیٹھ موہن لال کا بھی فیملی ڈاکٹر بن گیا۔

                سیٹھ موہن لال کو قوی امید تھی کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور صاحب اولاد ہو جائے گا۔ لیکن جب ڈاکٹر سیٹھی کے علاج سے بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تو پھر مندروں اور پنڈتوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

                ڈاکٹر سیٹھی کی رہائش گاہ مل کے احاطہ ہی میں تھی۔ یہ دو کمروں کا ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان تھا جو کہ مل کے ایک غیر آباد کونہ میں واقع تھا۔ اور سیٹھ موہن لال نے اس میں آسائش کی ہر چیز مہیا کر دی تھی۔

٭×××××××××××٭

                ڈاکٹر سیٹھی کو بیدار ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ اور اب تک اسے مل کی ڈسپنسری میں ہونا چاہئے تھا لیکن رات کو وہ دیر سے سویا تھا۔ ماضی کے خیالات نے رات بھر اسے بے چین رکھا۔ اور اس وقت جبکہ وہ سو کر اٹھا تو اس کا سر بھاری ہو رہا تھا…………اس نے اپنی طبیعت بحال کرنے کی خاطر سوچا کہ کچھ پی لے پھر وہ اپنی مسہری سے اٹھ کر اس الماری کے پاس گیا جس میں اس کے کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے الماری کا ایک پٹ کھولا اور اجلے کپڑوں کے درمیان رکھی ہوئی ایک بوتل اٹھا لی۔ بوتل اور گلاس لئے ہوئے دوبارہ مسہری پر آ گیا۔ ابھی وہ گلاس ہونٹوں کو لگانا ہی چاہتا تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ سیٹھی نے ڈر کر گلاس پلنگ کے نیچے چھپا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ڈسپنسری سے کوئی بلانے آیا ہے۔

                ڈاکٹر سیٹھی………… دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ایک دلکش نسوانی آواز بھی سنائی دی۔

                سیٹھی خاموشی سے مسہری پر بیٹھا رہا جیسے وہ آواز پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

                ‘‘سیٹھی’’…………دروازہ کھولو۔


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔