Topics

لکشمی دیوی


                سیٹھی اس دلکش اور سریلی آواز کی بازگشت میں کھو گیا۔

                وہ یہ آواز پہلے بھی کئی بار سن چکا تھا۔ وہ اس آواز کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔ اور اس دفعہ جو یہ آواز سنائی دی تو اس نے خوشی کے ملے جلے احساس کے ساتھ اچھا کہا۔ اور مسہری سے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔

                کوشیلا حسن کی تمام رعنائیوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی۔

                تم…………اس وقت…………سیٹھی نے اچھنبے سے پوچھا۔

                کوشیلا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ وہ اٹھلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔

                کیوں…………کیا بات ہے…………کیا کام ہے…………مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہو…………سیٹھی نے گھبرا کر ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔

                تم گھبرا کیوں رہے ہو؟…………کوشیلا نے ایک دلاویز مسکراہٹ سے کہا…………پھر وہ اس کی نشیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔ تم نے شراب پی ہے۔

                نہیں…………میں نے نہیں پی۔ ڈاکٹر سیٹھی نے شرمندگی سے کہا اور مسہری پر بیٹھ گیا۔ اس کے پائوں نیچے لٹکے ہوئے تھے۔

                تم ڈاکٹر ہو…………کوشیلا نے بڑے ہی پیار بھرے لہجہ میں سمجھایا۔ جو دوسروں کا علاج کرتا ہے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے جو زہر کی جگہ امرت پلاتا ہے…………لیکن تم…………تم…………خود تو زہر پی رہے ہو۔

                اس لئے کہ میں مر جانا چاہتا ہوں…………سیٹھی نے بڑے ہی دکھ سے کہا۔ میرے پاس اب کیا رہ گیا ہے۔ میرا دل میرا پریم۔ میری دنیا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ اب میں کس کے لئے زندہ رہوں، مجھے مر جانا چاہئے…………مجھے مر جانا چاہئے۔

                اور اس کے ساتھ ہی اس نے مسہری کے نیچے چھپی ہوئی بوتل اٹھا لی۔

                نہیں سیٹھی نہیں…………کوشیلا نے آگے بڑھ کر بوتل پکڑ لی۔ میں تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔ تم زندہ رہو گے۔ پھر اس نے بوتل اس کے ہاتھ سے لے لی۔ اس کے ساتھ ہی اسے احساس ہوا کہ سیٹھی کا بدن جل رہا ہے۔

                تمہیں بخار ہے…………کوشیلا نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

                نہیں تو…………سیٹھی نے بے پروائی سے کہا۔

                نہیں…………تمہیں بخار ہے۔ کوشیلا نے اپنے الفاظ کو دہرایا اور اسے دونوں کاندھوں سے پکڑ کر مسہری پر لٹا دیا۔ کوشیلا…………سیٹھی نے اسے پیار سے مخاطب کیا۔ پھر لحاف اپنے اوپر کھینچے ہوئے بولا…………تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔

                تو…………تو…………کیا ہو گا۔ کوشیلا نے اس کے قریب بیٹھ کر کہا…………کیا لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ تم ڈاکٹر ہو۔

                یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن سیٹھ موہن لال۔ ڈاکٹر سیٹھی نے تشویش سے کہا۔

                وہ میرا پتی دیوتا…………کوشیلا نے قدرے نفرت سے کہا۔ پھر سیٹھی کے چہرہ پر جھک کر بولی۔ اس بیوقوف نے تو خود تمہیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔

                ہونہہ…………ڈاکٹر سیٹھی نے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا اور دوسری جانب کروٹ لے لی۔

                کوشیلا اس کے بالوں میں انگلیاں پھرانے لگی۔ پھر چند لمحہ بعد۔ وہ نہایت ہی کرب سے بولی۔ تم مجھے بے وفائی کا دوش کیوں دیتے ہو۔ کیا میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے؟ شاید تم سمجھتے ہو کہ میں اس لگن سے خوش ہوں…………تم سمجھتے ہو کہ دولت کے ساتھ ساتھ مجھے پیار بھی مل گیا ہے۔ اتنا کہہ کر کوشیلا کی آواز رندھ گئی۔ اس کے سینہ میں دبا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔

                وہ دبی دبی سسکیوں کے درمیان بولی۔ مجھے کچھ بھی نہیں ملا…………نہ پتی کا پیار، نہ ہی اولاد کی مامتا۔ پھر وہ ساڑھی کے پلو سے اپنی آنکھوں کو خشک کرتے ہوئے بولی۔ تم صرف ڈاکٹر ہو۔ ڈاکٹر جو مریضوں کی نبض دیکھ کر نسخہ بناتا ہے۔ تم۔ تم۔ عورت کے دل کا حال کیا جانو۔

                عورت جو سارا جیون پریم کی ٹھنڈی چھائوں تلے گزارتی ہے۔

                کوشیلا…………ڈاکٹر سیٹھی نے اس کی طرف پیٹھ کئے ہوئے کہا۔ پریم کی متلاشی صرف عورت ہی نہیں ہوتی مرد بھی ہوتا ہے…………میرے دل میں بھی آشائیں مچلتی ہیں۔ میں نے بھی جیون بھر پریم تلاش کیا ہے۔ میں نے بھی کبھی سندر سپنے دیکھے تھے۔ میں ایک ڈاکٹر ضرور ہوں لیکن انسان بھی ہوں۔ ایسا انسان جو عورت کی بے وفائی سے گھائل ہے۔

                میں جانتی ہوں۔ کوشیلا نے اس کا سر اپنی گود میں لے کر بڑے ہی پیار سے کہا۔

                ڈاکٹر سیٹھی اس کی گود میں سر رکھے چھت کو دیکھ رہا تھا۔ کوشیلا اس کے غمگین چہرہ کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک گئے۔ اسے اپنی غلطی کا، اپنی کوتاہی کا شدت سے احساس ہوا۔

                اس کے آنسو سیٹھی کے چہرہ پر گر رہے تھے۔ جیسے یہ آنسو اس کے دل کی آگ بجھا دیں گے لیکن…………

                وہ آگ ہی کیا جو بجھ جائے۔

                وہ راز ہی کیا جو فاش ہو جائے۔

                وہ خوشبو ہی کیا جو ختم ہو جائے۔

                وہ تڑپ ہی کیا جس میں کسک نہ ہو۔

                ڈاکٹر سیٹھی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ اس سنسار میں نجانے کتنے گھائل پریمی بھٹک رہے ہیں۔ وہ محبت ہی کیا جو سماج سے شکست کھا جائے…………لیکن…………ڈاکٹر سیٹھی شکست کھا چکا تھا…………اپنے ضمیر سے، اپنے سماج سے…………وہ ایک خوف سے اٹھا اور پھر پہلے ہی کی طرح کوشیلا کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے بولا۔

                کوشیلا…………میں ڈاکٹر ہوں۔ میں تمہارے شوہر کا ملازم ہوں۔ میں اس کا نمک کھاتا ہوں۔ میں سیٹھ موہن لال کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔

                نہیں سیٹھی نہیں…………کوشیلا نے ایک بار پھر اس کا سر اپنی آغوش میں رکھ کر کہا۔ ایسا نہ کہو۔ سماج کی نظروں میں سیٹھ موہن لال کی بیوی ضرور ہوں لیکن مجھے اس کی دولت سے، اس کے شاندار بنگلہ سے اور زرق برق لباسوں سے کبھی محبت نہیں رہی۔ شادی سے لے کر آج تک میں محبت کے لئے تڑپتی رہی ہوں…………وہ محبت جو تمہارے دل میں ہے جو تم نے مجھ سے کی تھی۔ میری آتما آج بھی تمہیں پکار رہی ہے۔ میری آشائیں آج بھی تمہیں یاد کرتی ہیں۔ میرا دل میری روح، میرا جیون سب کچھ تمہارا ہے سیٹھی۔ سب کچھ۔

                اس کے ساتھ ہی کوشیلا نے اپنا چہرہ اس کے چہرہ پر رکھ دیا۔

                لیکن کوشیلا ڈاکٹر سیٹھی نے دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرہ کو پکڑ کر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ آج تم اپنے پتی دیوتا سے بغاوت کرنے کو تیار ہو۔ جبکہ کل اگر تم چاہتیں اپنے ماتا پتا سے بغاوت کر سکتی تھیں۔ اگر تم ایسا کرتیں تو یہ پریم کے لئے ہوتی لیکن…………تم نے ایسا نہیں کیا۔

                اور آج…………وہ اسے اپنے سے دور کرتے ہوئے بولا…………جبکہ تم کسی اور کی ہو چکی ہو۔ مجھ سے من کی آشائیں چاہتی ہو۔

                نہیں کوشیلا نہیں…………وہ تڑپ کر مسہری سے اٹھتے ہوئے بولا۔ میں پاپ نہیں کر سکتا۔

                میں نے تم سے پریم کیا ہے۔ اور پریم کرتا رہوں گا۔ میں تمہارے شریر کا بھوکا نہیں ہوں۔ بس میں تمہیں دیکھ لیتا ہوں اور میری پریم پیاسی آتما کو آنند مل جاتا ہے۔

                اتنا کہہ کر وہ مسہری سے نیچے اتر آیا۔ کوشیلا کی آنکھوں سے گنگا جمنا بہہ رہی تھی۔ وہ اس کا پریمی تھا لیکن اس کے باوجود نہیں تھا۔

                کوشیلا…………وہ اپنے کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھتے ہوئے بولا…………تم نے مجھے سمجھا نہیں ہے۔ اور اگر سمجھا ہے تو غلط سمجھا ہے۔ میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں کہ پریم کی خاطر سماجی بندشوں کو توڑ دوں۔

                سیٹھی…………تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ کوشیلا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ تم واقعی عظیم ہو لیکن میرا پتی میری مامتا کا دیا جلانے سے قاصر ہے۔

                میں پوری توجہ سے تمہارا اور تمہارے پتی کا علاج کر رہا ہوں اور بھگوان کی کرپا سے ایک نہ ایک دن تم ضرور ماں بن جائو گی۔ اس کے بعد اس نے دیوار میں لگے ہوئے آئینہ میں کنگھا کیا۔ اور باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد کوشیلا بھی باہر آ گئی۔

٭×××××××××××٭

                لکشمی دیوی کے مندر میں پنڈت ہری رام حیران و پریشان بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔

                سیٹھ موہن لال کی قسمت میں اولاد نہیں تھی جبکہ کوشیلا کے پیٹ میں اس نے انسانی ہیولا کو کلبلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟

                سیٹھ موہن لال اور کوشیلا آپس میں میاں بیوی تھے۔ ان کے لگن کو ایک عرصہ بیت چکا تھا پھر اولاد کے معاملہ میں دونوں کی قسمتوں میں اتنا زبردست تضاد کیوں تھا؟ وہ اس معاملہ میں جتنا بھی غور کرتا۔ الجھتا چلا جاتا۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ اللہ کی قدرت کو اور اس کے رازوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔

                پنڈت ہری رام آنکھیں بند کر کے ایک بار پھر گیان کرنے لگا۔ اس نے سیٹھ موہن لال کی پوری جنم کنڈلی دیکھ ڈالی لیکن اس کے بھاگ میں دور تک اولاد کا پتہ نہیں تھا۔

                سیٹھ موہن لال کے بعد اس نے کوشیلا کے حال اور مستقبل کو ٹٹولا۔ اسے ہر بار کوشیلا ماں کے روپ میں نظر آئی۔ اس صورتحال سے پریشان ہو کر اس نے گیان دھیان ختم کر دیا۔ اور سر کو دو تین بار زور زور سے جھٹکے دینے کے بعد آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی اس کی نگاہیں لکشمی دیوی کے چہرہ پر ٹک کر رہ گئیں۔

                اس تراشیدہ مورت کو کسی سنگتراش کا شاہکار تو نہیں کہا جا سکتا تھا…………بہرحال وہ ایک عورت کا چہرہ تھا۔ جس کے تمام خدوخال نہایت متناسب طریقہ سے تراشے گئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پچیس تیس سال کی بھرپور جوان عورت دو زانوں بیٹھی ہوئی ہے۔

                پنڈت ہری رام کی نگاہیں لکشمی دیوی کی گردن سے ہوتی ہوئی نیچے کی طرف آئیں اور اس کے ساتھ ہی اسے کوشیلا یاد آ گئی۔

                کوشیلا اور لکشمی دیوی۔

                ان دونوں میں صرف ایک فرق تھا۔

                لکشمی دیوی پتھر کی بے جان مورتی تھی اور کوشیلا جیتی جاگتی تصویر تھی۔

                پنڈت ہری رام کو یوں محسوس ہوا جیسے پتھر کے اس سینہ میں جان پڑ گئی ہو۔ خون کی نیلی نیلی دھاریاں صاف نظر آنے لگیں۔ اس نے آہستہ سے پتھریلے سینہ پر اس طرح ہاتھ رکھا جیسے یقین کرنا چاہتا ہو…………لیکن پتھر کے لمس نے اس کے خیالات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک جیتی جاگتی حسین صورت کے آگے یہ مورت کیا حیثیت رکھتی تھی۔

                لکشمی دیوی کے برابر ہی کوشیلا کھڑی تھی۔ ڈاکٹر سیٹھی کے سلوک سے نراش ہو کر وہ سیدھی مندر میں چلی آئی تھی وہ لکشمی دیوی کے چرنوں میں بیٹھ کر اپنے پریم کی بھکشا مانگنا چاہتی تھی۔ لیکن یہاں آ کر اس نے پنڈت کو محویت کے عالم میں لکشمی دیوی کے پوتر جسم کو چھوتے ہوئے دیکھا تو ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی۔

                وہ سوچ رہی تھی کہ مہان گیانی پنڈت جن کا سارا جیون بھگوان کی سیوا کرتے گزر جاتا ہے کیا جذبات بھی رکھتے ہیں۔

                ہاں…………وہ ضرور جذبات رکھتے ہونگے۔ اس نے خود ہی جواب دیا۔ آخر کو وہ بھی تو انسان ہیں۔ بالکل ہماری طرح۔ ان کے من میں بھی آشائیں اور تمنائیں ہوں گی۔

                اسے انسان کی اس کم عقلی پر ہنسی آ گئی جو اپنی آشائوں کے لئے جوگی سے رجوع کرتا ہے۔ جوگی پجاری سے اورپجاری مہان پنڈت سے۔ اور پنڈت بھگوان سے پرارتھنا کرتا ہے لیکن انسان جوں جوں ترقی کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔ اس کے عقائد میں بھی تغیر پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ بھگوان تو پتھر کے بنے ہوئے ہٰں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں تو وہ محض سنگ تراش کا شاہکار ہیں تو اس کے عقائد میں بھی لرزہ آ جاتا ہے۔

                وہ سمجھ جاتا ہے کہ پتھر اور انسان میں فرق ہے۔

                وہ جان لیتا ہے کہ پتھر کبھی خدا نہیں ہو سکتا۔ خدا تو اور ہی ہستی ہے…………پھر…………پھر…………وہ احساس کمتری سے بیدار ہو جاتا ہے۔

                اس وقت کوشیلا کی بھی یہی حالت تھی۔ اس کے چہرہ پر معنی خیز مسکراہٹ دوڑ رہی تھی۔

                پنڈت ہری رام اسے دیکھ کر گبھرا گیا۔ اس کے ہاتھ لکشمی دیوی کے بت پر جہاں تھے وہیں رہ گئے۔

                لیکن دوسرے ہی لمحہ وہ سنبھلا۔ اس نے کوشیلا کی پیشانی پر نظریں گاڑ دیں۔ اور تمام خیالات کو جاننے کے بعد نہایت ہی چالاکی سے بولا۔

                یاد رکھ سچا جوگی سچا پجاری اور سچا پنڈت وہی ہے جو انسان کی تشنگی بجھا دے۔ انسان انسان کو نراش کر سکتا ہے لیکن بھگوان کا سیوک کسی کو نراش نہیں کر سکتا۔

                آخری جملہ پر کوشیلا چونک پڑی۔ جیسے پنڈت نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔ ڈاکٹر نے اسے نراش کیا تھا۔ اس کی محبت کے جواب میں مایوس کیا تھا۔ وہ عقیدت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ یہ پنڈت تو واقعی بھگوان کا سچا اوتار ہے۔

                پرنتو تیرے کارن میں نے لکشمی دیوی سے بھکشا مانگی ہے۔ پنڈت ہری رام دوبارہ بولا۔ وہ کوشیلا کے چہرہ سے اندازہ لگا چکا تھا۔ اس کے دل میں عقیدت پیدا ہو چکی ہے۔

                وہ تجھے نراش نہیں کرے گی…………پنڈت ہری رام نے اپنی بات پوری کی۔ پھر نہایت ہی اطمینان سے بولا۔ اب جا اور اس شبھ گھڑی کا انتظار کر جب دیوی تیری آشا پوری کرے گی۔

                کوشیلا نے عقیدت سے جھک کر اس کے چرنوں کو چھوا اور دل میں انجانی خوشی سے باہر آ گئی۔

                دوسرے دن پنڈت ہری رام کافی دن چڑھے اٹھا۔ رات بھر وہ کوشیلا کے خیالات میں کھویا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کوشیلا کے حسن نے اس کے من میں جذبات کی ہلچل کیوں برپا کر دی ہے۔

                کیا وہ مکافات عمل کے تحت کسی امتحان سے گزرنے والا تھا۔

                رات کو دیر تک جاگتے رہنے کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔ وہ مندر سے ملحق غسل خانے میں گیا اور کافی دیر تک نہاتا رہا۔ نہانے کے بعد جب وہ باہر آیا۔ تو کسی حد دماغ ہلکا ہو چکا تھا۔

                ناشتہ سے فارغ ہو کر اس نے لکشمی دیوی کے گلے میں پڑی ہوئی کنٹھ مالا اتاری اور مندر کے دروازہ پر بنی ہوئی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے مالا کے دانوں پر جاپ شروع کر دیا۔ مل کے مزدور دور ہی سے اسے ڈنڈوٹ کر کے گزر جاتے تھے۔ ابھی اسے سیڑھیوں پر بیٹھے کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ مل کے اندر سے سیٹھ موہن لال اپنے دو منیجروں کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ سیٹھ پر نظر پڑتے ہی اسے خیال آیا کہ کتنا بدنصیب ہے یہ شخص کہ اس کے بھاگ میں اولاد نہیں ہے جبکہ اس کی گھرم پتنی کے بھاگ میں اولاد تھی۔ یہ چکر اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

                سیٹھ موہن لال نے اپنے دونوں منیجروں کو چند ہدایات دیں اور پھر…………جونہی اس کی نظر سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے پنڈت ہری رام پر پڑی۔ وہ ان کو چھوڑ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

                پنڈت ہری رام نے آنکھیں بند کر کے کنکھیوں سے سیٹھ کی طرف دیکھا اور جب سیٹھ اس کے سامنے پہنچ کر رکوع کی حالت میں اسے ڈنڈوٹ کر رہا تھا تو اس نے بڑی ہی رعب دار آواز میں کہا۔ آ گئے سیٹھ۔

                ہاں پنڈت جی…………سیٹھ موہن لال نے قدرے کمر سیدھی کرتے ہوئے کہا آپ کو مندر کی سیڑھیوں پر دیکھا تو دل بے چین ہو گیا۔ کیوں نہ بے چین ہو…………پنڈت ہری رام نے بند آنکھوں سے اس ہی طرح کہا۔…………بھگوان تمہاری آشا جو پوری کرنے والا ہے۔

                کیا کہہ رہے ہو پنڈت جی…………سیٹھ موہن لال نے حیرت اور خوشی سے اس کے چرن پکڑتے ہوئے کہا۔

                میں پنڈت ہوں…………ہری رام نے آنکھیں کھول کر کہا…………جھوٹ…………فریب اور دھوکا دینا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ بھگوان کے سچے سیوک کا کام منش کے من کو شانتی دینا ہے۔

                آئو…………اندر چلو…………پنڈت ہری رام نے سیڑھیوں سے اٹھتے ہوئے کہا…………وہ سمجھ چکا تھا…………کہ اولاد کا بھوکا سیٹھ موہن لال پوری طرح اس کے قابو میں ہے اور اب وہ جو بھی کہے گا سیٹھ بلا چوں چرا اس کا حکم بجا لائے گا۔ اندر مندر میں پہنچ کر پنڈت ہری رام لکشمی دیوی کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھوں میں کنٹھ مالا تھمی ہوئی تھی اور دانوں پر تیزی سے انگلیاں چل رہی تھیں۔

                پنڈت بیٹھا رہا۔ اور سیٹھ کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد…………پنڈت ہری رام نے نہایت ہی ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا…………بھگوان نے اس سنسار کو انسانوں سے سجایا۔ اس میں منش بھی ہے اور کنیائیں بھی…………اور عورت کو بھگوان نے اپنی جیسی جنم شکتی دی۔

                عورت جنم دیتی ہے۔ جیون کی سہائتا کرتی ہے۔ اس کے پیٹ سے انسان جنم لیتا ہے اور سینہ سے خون چوس کر جوان ہوتا ہے۔

                پنڈت بولے جا رہا تھا اور سیٹھ بڑے ہی غور سے سن رہا تھا۔

                اور…………مایا بھی اس ہی کے کارن ملتی ہے…………تیری استری کے بھاگ میں دھن بھی ہے اور اولاد بھی۔

                سچ…………سیٹھ موہن لال نے تڑپ کر پوچھا۔

                سنتا رہ…………پنڈت ہری رام نے دھیرے سے ڈانٹا…………تیرے گھر آنگن میں مایا نے ڈیرہ جما لیا ہے۔

                دھن آسمان سے برستا ہے اور لکشمی دیوی کٹیا میں بیٹھی تجھے خوش ہوتا دیکھتی رہتی ہے۔ پرنتو تو نے یہ نہ سوچا کہ جب لکشمی دھن دے سکتی ہے تو اولاد کی مایا سے بھی مالا مال کر سکتی ہے۔

                اس انکشاف سے سیٹھ موہن لال چونک اٹھا۔ اسے کبھی بھی لکشمی دیوی سے اولاد مانگنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ اب جو اسے پنڈت ہری رام نے بتایا تو وہ درزیدہ نگاہوں سے لکشمی دیوی کے چہرہ کو تکنے لگا…………اور پھر…………دوسرے ہی لمحہ وہ اس کے چرنوں میں سر رکھ کر گڑگڑایا۔

                مجھے شما کر دے دیوی…………مجھے شما کر دے …………مجھ سے بھول ہو گئی۔

                ایسے نہیں…………پنڈت ہری رام نے اسے کاندھے سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔ آج رات جب آکاش پر چندا چمک رہا ہو۔ ساری دنیا نیند سے سو رہی ہو تو…………یہاں لکشمی دیوی کے پاس اپنی دھرم پتنی کو بھیج دینا۔

                پنڈت ہری رام نے تیر کمان سے چھوڑ دیا تھا۔ اور یہ دیکھنے کی خاطر کہ وہ نشانہ پر لگا یا نہیں لمحہ بھر کے لئے سیٹھ کے تاثرات کو دیکھنے لگا۔

                سیٹھ کا چہرہ تاثرات سے خالی تھا۔ پھر پنڈت ہری رام نے اسے مطمئن کرنے کی خاطر سمجھایا۔

                تیرے گھر میں لکشمی موجود ہے…………وہ بڑی دیالو ہے…………صرف بھکشا مانگنے کی ضرورت ہے۔ لکشمی بھی استری ہے اور تیری دھرم پتنی بھی استری ہے۔ عورت عورت کو سنتی ہے…………اور جب اس نے تیری دھرم پتنی کو مایا دی ہے تو اولاد بھی دے گی۔ ضرور دے گی۔

                آخری الفاظ اس نے اس طرح ادا کئے جیسے لکشمی دیوی نے اس سے وعدہ کر لیا ہو۔

                سیٹھ موہن لال کے چہرہ پر خوشی کی لہر دوڑنے لگی۔

                من میں کھوٹ نہ لا…………اوش اس کی آشا ضرور پوری ہو گی…………

                پنڈت ہری رام نے اتنا کہہ کر اپنی آنکھیں دوبارہ بند کر لیں۔ اور کنٹھ مالا کے دانوں پر تیزی سے انگلیاں چلانے لگا۔

                سیٹھ موہن لال سے زیادہ اس کی دھرم پتنی کوشیلا پنڈت ہری رام کی معتقد تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب سے اس نے لکشمی دیوی کے چرنوں میں ڈیرہ جمایا تھا۔ کوشیلا نے مندر میں آنا بہت کم کر دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح اس مہاپرش پنڈت کو زیادہ سے زیادہ دھیان گیان کا موقع ملے گا۔ اور پھر ایک دن اس کی تپسیا کے کارن وہ صاحب اولاد ہو جائے گی۔

                اسے پکا یقین تھا کہ یہ مہان گیانی پنڈت ہری رام دنیا کی لذتوں کو تیاگ چکا ہے۔ حالانکہ کوشیلا کو دیکھنے کے بعد اس کی عبادت و ریاضت میں زلزلہ سا آ گیاتھا۔

                جب سیٹھ موہن لال نے کوشیلا کو بتایا کہ آج رات اسے پنڈت نے لکشمی دیوی کے مندر میں بلایا ہے تو وہ بغیر کسی شک و شبہ کے جانے کے لئے تیار ہو گئی۔

                اور پھر رات کو جب آسمان پر ستارے دیوالی کے چراغوں کی مانند ٹمٹما رہے تھے اور چاند نے دھنکی ہوئی روئی کی مانند سفید بادلوں کے پیچھے سے جھانکنا شروع کر دیا تھا تو کوشیلا اپنے کمرہ سے نکلی اور لکشمی دیوی کے مندر میں پہنچ گئی۔

                پنڈت ہری رام لکشمی دیوی کے چرنوں میں آنکھیں بند کئے اس طرح بیٹھا تھا جیسے اسے دنیا کی خبر ہی نہ ہو۔

                جے رام جی کی…………کوشیلا کی مدھ بھری آواز سنائی دی۔ جے لکشمی دیوی کی…………پنڈت ہری رام نے آنکھیں کھول کر جواب دیا۔

                دیوی نے مجھے بتایا ہے کہ دھرم پتنی کا مان پتی دیوتا سے نہیں اولاد سے بڑھتا ہے۔

                دیوی نے سچ کہا ہے مہاراج…………کوشیلا نے قدرے ہی اداسی سے کہا۔ میرے پتی دیوتا اب وہ پریم نہیں کرتے جو پہلے کرتے تھے۔

                اس کا کارن صرف یہی ہے کہ تو اسے اولاد نہ دے سکی…………پنڈت ہری رام نے اس کے جواب سے پورے حالات کو سمجھتے ہوئے کہا…………پھر وہ انگلی اٹھا کر بولا۔ پرنتو یاد رکھ مرد اپنی دھرم پتنی سے اس ہی وقت پریم کرتا ہے جبکہ وہ اس کی سیوا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نسل کو بھی بڑھائے…………اور اگر کوئی استری سیوا تو کرتی ہے لیکن اولاد نہیں دے سکتی…………تو مرد اسے چھوڑ بھی سکتا ہے۔

                میں مہاراج…………کوشیلا نے اس طرح کہا جیسے وہ اپنے انجام سے باخبر ہو گئی ہو۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔