Topics

خون کی بھینٹ


                پنڈت ہری رام اس کی بات سن کر اور بھی غمزدہ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ ممکن ہے وہ اس معاملہ میں بے بس ہو…………پھر بھی وہ ملتجی لہجہ سے بولا۔

                کنوتھ قتل کے اس راز کو چھپانا ہے۔

                یہ بھی ہو جائے گا…………کنوتھ نے سپاٹ لہجہ میں جواب دیا…………لیکن تم نے انیائے کر کے میری شکتی کو کمزور کر دیا ہے۔

                کنوتھ کے جواب سے اسے ایک گونا خوشی ہوئی لیکن یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس فعل سے کنوتھ کی شکتی کمزور پڑ گئی ہے۔ اس نے کنوتھ کو دلاسا دیتے ہوئے کہا۔

                نہیں…………نہیں…………تمہیں کمزور نہیں ہونا چاہئے…………مجھے بتائو۔ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔

                تم مجھے خون دے دو…………یہی میری شکتی کا راز ہے یہی میرا بھوجن ہے۔ کنوتھ نے بڑی ہی لاپروائی سے کہا۔

                خون…………پنڈت ہری رام چونک اٹھا۔

                ہاں…………خون…………کنوتھ نے زہر خند سے کہا…………اور وہ بھی انسانی خون…………یہ تم کیا کہہ رہی ہو…………پنڈت ہری رام نے تعجب سے کہا۔

                جب ہی تو میں نے تم سے کہا تھا…………کنوتھ نے اس ہی طرح زہر آلود لہجہ میں جواب دیا…………اگر کسی کی ہتیا کرنا تھی تو مجھ سے کہہ دیا ہوتا…………کیونکہ میری شکتی انسانی خون ہی تو ہے۔

                لیکن…………لیکن…………میں انسانی خون کہاں سے لائوں…………پنڈت ہری رام نے بے چارگی سے کہا۔

                اس کے لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں…………کنوتھ نے اطمینان سے جواب دیا…………تمہاری پتنی موجود ہے۔ کنوتھ…………پنڈت ہری رام خوف و دہشت سے چلایا۔

                ناراض نہ ہو مہاراج…………کنوتھ نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا…………میرے سیوک کو میری شکتی کے بلیدان دینا ہی پڑتا ہے…………اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو میری شکتی ختم ہو جائے گی…………اور پھر…………پھر…………میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گی۔

                میں…………میں…………تمہارے لئے انتظام کروں گا…………پنڈت ہری رام نے سوچ کر کہا۔

                یہ انتظام تو تمہیں بسنتی کی جیون ہتیا کرنے سے قبل کر لینا چاہئے تھا…………کنوتھ نے کہا۔ میرا سیوک انیائے والے کام کرنے سے پہلے میری بھینٹ کا انتظام کر لیتا ہے۔

                مجھے…………مجھے…………معلوم نہیں تھا…………پنڈت ہری رام نے خوشامدانہ لہجہ سے کہا۔

                یہ تمہارا قصور ہے مہاراج…………کنوتھ نے سخت لہجہ میں کہا…………ایسے کام کرنے کے بعد جب میرا سیوک مجھے بلاتا ہے تو میری بھینٹ تیار رکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے کام کرنے سے میری شکتی ختم ہونے لگتی ہے اور آگے کام کرنے کی خاطر مجھے انسانی خون کی ضرورت پڑتی ہے…………اور اب۔

                ٹھیک ہے…………ٹھیک ہے…………پنڈت ہری رام نے ایک بار پھر اسے دلاسا دیا…………میں تمہارے لئے انتظام کر دوں گا۔ میں انتظار نہیں کر سکتی مہاراج…………کنوتھ نے اپنے پپڑی جمے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا…………جب تم نے مجھے بلایا ہے تو بھینٹ دینا ہی ہو گی…………ابھی…………اور اسی وقت…………اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا دایاں پائوں اس طرح اٹھایا جیسے وہ لو کی حدود سے نکلنا چاہتی ہو۔

                ٹھہرو…………پنڈت ہری رام نے ہاتھ کے اشارہ سے روکتے ہوئے کہا۔

                مہاراج جب میں سیوک کا حکم نہیں ٹال سکتی تو سیوک بھی مجھے نہیں روک سکتا…………کنوتھ نے نہایت ہی سنجیدگی سے کہا…………مجھے خون چاہئے…………تمہاری پتنی کا خون۔

                اس کے ساتھ ہی اس نے اٹھا ہوا پائوں مٹی کے چراغ کے کنارے پر رکھ دیا۔

                پنڈت ہری رام کو پہلی بار زبردست خطرہ کا احساس ہوا…………اس نے منہ آگے بڑھا کر زور سے پھونک ماری…………تو لو صرف کپکپا کر رہ گئی۔

                تم مجھے ہیں روک سکتے ہو مہاراج۔ کنوتھ نے نہایت غرور سے کہا اور چراغ کے کنارے سے کود کر طاق میں آ گئی۔

٭×××××××××××٭

                ایک بالشت لمبی کنوتھ کو پکڑنے کی خاطر پنڈت ہری رام نے ہاتھ آگے بڑھایا لیکن وہ نہایت پھرتی سے کود کر فرش پر آ گئی۔ پھر پنڈت ہری رام اور اس کے درمیان چوہے بلی کا کھیل شروع ہو گیا۔ پنڈت ہری رام دیوانوں کی طرح کنوتھ کو پکڑنے کی کوشش میں مصروف تھا۔

                لیکن وہ…………کسی بھی طرح قابو میں نہیں آ رہی تھی…………اس بھاگ دوڑ میں وہ جلد ہی ہانپنے لگا۔ اس کا جسم پسینہ پسینہ ہو گیا سانس دھونکتی کی مانند چلنے لگا۔

                وہ…………ایک دیوار کے سہارے کھڑے ہو کر سستانے لگا۔

                تم آرام کرو مہاراج…………کنوتھ نے اس کا مذاق اڑایا۔ میں چلتی ہوں۔

                پھر وہ…………پھدکتی ہوئی اس کمرہ میں آئی جس میں کوشیلا مسہری پر لیٹی ہوئی سو رہی تھی…………پنڈت ہری رام بھی ہمت کر کے اس کے پیچھے آیا۔ کنوتھ پائے کے ذریعہ مسہری پر چڑھی۔

                پنڈت ہری رام پوری قوت سے چلایا…………کوشیلا خود کو بچائو۔

                لیکن کوشیلا تو بالکل ہی بے خبر سو رہی تھی۔

                کنوتھ اس کے سرہانے پہنچ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی نگاہیں کوشیلا کی سرخ و سفید گردن پر جمی ہوئی تھیں پھر وہ آگے بڑھی اور کوشیلا کے حلقوم سے اس طرح لپٹ گئی جیسے جونک۔

                کوشیلا نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کے گلے سے گھٹی گھٹی آوازیں نکلنے لگیں۔ اس نے دو تین بار کنوتھ کو اپنی حلق سے دور کرنے کی کوشش میں ہاتھ چلائے۔ لیکن وہ چھپکلی کی طرح اس کے حلق سے چمٹی ہوئی تھی۔

                پنڈت ہری رام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ یہ اتنا دہشت ناک منظر تھا کہ وہ اپنی جگہ پر دم بخود ہو کر رہ گیا۔

                اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ کنوتھ اپنے منڈل سے باہر آ سکتی ہے۔ کوشیلا نے دو تین بار اپنی ایڑیوں کو بستر پر زور سے رگڑا اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ ختم ہو گئی۔

                اس کے ختم ہوتے ہی کنوتھ نے بھی گلہ چھوڑ دیا۔ اور بڑے آرام سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بولی۔

                تمہاری پتنی کا خون تو بڑا ہی مزیدار تھا…………میرے سیوک کو اتنا بلیدان تو دینا ہی پڑتا ہے۔

                پھر وہ مسہری سے کود کر فرش پر آئی اور ٹھمک ٹھمک کر چلتی ہوئی اس ہی کمرہ میں آئی۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر اپنی گردن کو جھکایا اور بولی۔

                نمسکار مہاراج۔

                اس کے بعد چراغ کی لو کپکپائی اور بجھ گئی۔

                پنڈت ہری رام کے لئے یہ سب ایک خوفناک منظر تھا۔

٭×××××××××××٭

                چراغ بجھتے ہی پنڈت ہری رام کے اوسان بحال ہو گئے۔ وہ ڈرتے ڈرتے کوشیلا کے قریب آیا۔ کوشیلا مر چکی تھی۔ تڑپنے سے بستر پر سلوٹیں پڑ گئی تھیں لیکن بستر پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا البتہ گردن پر شہہ رگ کی جگہ دو باریک نشان تھے جیسے چیونٹی نے کاٹ لیا ہو۔

                پھر اس نے کوشیلا کے کریا کرم کے بارے میں سوچا۔ محلے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ہندو ہے۔ اس نے کوشیلا کی اس ناگہانی موت کو ہارٹ فیلئر بتایا۔

                پڑوسیوں اور دوستوں کو اس نے یہی بتایا کہ رات کو سوتے میں کوشیلا کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ تمام دوستوں کو یہ جان کر سخت افسوس ہوا۔

                کفن دفن سے فارغ ہونے کے بعد…………پنڈت ہری رام کو احساس ہوا کہ کنوتھ کو معمول بنا کر سخت غلطی کی ہے۔

                رام لال نے اسے کنوتھ کی خون آشامیوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔

                وہ جتنی فائدہ مند تھی اتنی ہی خطرناک بھی۔

                پنڈت ہری رام نے سوچا کہ کنوتھ کو آزاد کر دینا ہی بہتر ہے۔ نہیں تو آئندہ چل کر وہ اور زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے…………کنوتھ کو آزاد کرنے کے خیال سے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چراغوں والے کمرہ میں پہنچ گیا…………اس کی نظروں کے سامنے طاق میں دونوں چراغ رکھے ہوئے تھے لیکن اس کا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا۔

                بسنتی کی موت کو صرف دو دن ہوئے تھے۔ اور پنڈت ہری رام نے کنوتھ سے قتل کے اس راز کو چھپانے کو کہا تھا…………اور کنوتھ نے اقرار کر لیا تھا۔

                لیکن…………اس کے کامدار نے بتایا تھا کہ چند بچوں نے آم کے درخت سے جھولا جھولتے ہوئے بسنتی کو دیکھا تھا۔ اور پھر جب وہ رات کو اوطاق میں آئی تھی تو یقیناً اس کے پائوں کے نشان بھی ہونگے…………وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اندرون سندھ کے لوگ پائوں کے نشانات دیکھ کر چوروں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ اگر بسنتی کے باپ نے کھوجیوں کی مدد حاصل کر لی تو وہ اس کے نشانات دیکھتے ہوئے ضرور طاق تک پہنچ جائینگے۔

                پنڈت ہری رام اس معاملہ پر جتنا بھی غور کرتا۔ خود کو الجھا ہوا پاتا…………جرم کا خوف اس کا خون خشک کئے دے رہا تھا…………اسے اپنے لگہ میں پھانسی کا پھندہ نظر آ رہا تھا…………اور اس جرم سے اس پھانسی کے پھندے سے صرف ایک ہی ہستی بچا سکتی تھی۔ وہ کنوتھ تھی۔

                اس نے کنوتھ کو رہا کرنے کا فیصلہ ملتوی کر دیا…………وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کنوتھ اسے کس طرح سے بچاتی ہے۔ ایسے برے وقت میں صرف کنوتھ ہی اس کی امیدوں کا سہارا تھی۔

                وہ واپس پلٹا اور کمرہ سے باہر نکل آیا۔

٭×××××××××××٭

                دوسرے دن ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد وہ تانگہ میں سوار ہو کر اپنے باغ کی طرف چل دیا۔

                جس وقت…………وہ باغ میں داخل ہوا تو دور سے اس نے آدمیوں کے مجمع کو دیکھا جو کہ نہر کے کنارے پشتے پر جمع تھے…………پنڈت ہری رام کا ماتھا ٹھنکا…………خوف کی سرد لہر اس کی کمر میں دوڑ گئی۔ پھر اوطاق کے سامنے اس نے جونہی تانگہ روکا۔ کامدار ہاتھ جوڑ کر سامنے آ گیا۔ تانگہ پر بیٹھے بیٹھے پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                یہ نہر کے سامنے آدمی کیوں جمع ہیں۔

                سائیں…………کامدار نے نہایت ہی افسردگی سے کہا۔

                بسنتی کی لاش نہر سے مل گئی ہے۔

                بسنتی کی لاش…………پنڈت ہری رام نے حیرت سے کہا۔

                ہاں سائیں…………کامدار نے قدرے خوف سے کہا۔

                وہ پرسوں رات کو غائب ہو گئی تھی نا…………

                کامدار کی بات سن کر پنڈت ہری رام کی جان میں جان آئی اور اسے کہا۔ چلو چل کر دیکھتے ہیں۔

                ابھی وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے سائیں…………کامدار نے سمجھایا…………اس کے رشتہ دار ادھر ہی ہیں اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

                ہونہہ…………پنڈت ہری رام نے قدرے لاپروائی سے کہا اور اوطاق میں جانے کی بجائے درختوں کی طرف چل دیا۔ لامحالہ کامدار کو بھی پیچھے ہی آنا پڑا۔

                پنڈت ہری رام بظاہر تو درختوں کو دیکھتا جا رہا تھا جن میں کچے پھل لٹک رہے تھے لیکن…………اس کا دماغ کنوتھ کی طرف تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کنوتھ نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ اس نے بسنتی کے پائوں کے نشانات کو نہر کی جانب موڑ کر اسے بچا لیا تھا…………کنوتھ عظیم طاقتوں کی مالک…………اس وقت اس کی سب سے بڑی محسنہ تھی۔

                کچھ دیر باغ میں گھومنے کے بعد وہ اپنی اوطاق میں گیا۔

٭×××××××××××٭

                اس واقعہ کو ڈیڑھ دو ماہ گزر گئے۔ پنڈت ہری رام کے دل سے کوشیلا کی یاد بالکل ہی ختم ہو گئی۔ لیکن اب اسے لذت نفس حاصل کرنے کی خاطر ایک ساتھی کی ضرورت تھی…………اس نے کوشیلا سے پریم کیا تھا اور اس کے پتی دیوتا کے سورگباش ہونے کے بعد اسے لے کر پاکستان آ گیا تھا۔ کوشیلا کے ساتھ اس نے زندگی کے نہایت ہی پرکیف دن گزارے تھے۔

                یہ کوشیلا ہی تھی جس کی قربت نے اسے عورت کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔ کوشیلا کنوتھ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ لیکن پنڈت ہری رام کے جسم میں بجلیاں بھر گئیں تھیں۔

                وہ مسہری پر لیٹا…………کوشیلا کے فراق میں کروٹیں بدل رہا تھا۔

                اچانک اسے کنوتھ کا خیال آیا…………وہ کنوتھ سے خوفزدہ تھا لیکن جذبات کی ہیجان خیزی نے اسے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ کنوتھ کا خیال آتے ہی وہ تیزی سے اٹھا اور چراغوں والے کمرہ میں پہنچ گیا۔

                اس نے کنوتھ کی کٹی ہوئی انگلی کو روشن کیا اور اس کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب لو پوری طرح بلند ہو گئی تو کنتھ حسب دستور ہاتھ جوڑے نمودار ہوئی۔

                مجھے اس وقت ایک عورت کی ضرورت ہے…………پنڈت ہری رام نے بے قراری سے کہا۔

                یہ سن کر کنوتھ کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس نے نہایت ہی معصومیت سے پوچھا۔

                کونسی عورت چاہئے مہاراج…………ایسی عورت جو میرے شریر کو سکھ پہنچا سکے…………جو میرے من…………

                میں یہ کام نہیں کر سکتی مہاراج…………کنوتھ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ وہ اس کا مقصد سمجھ چکی تھی۔ کنوتھ کا انکار سن کر پنڈت ہری رام ایک دم غصہ سے بولا…………کیوں نہیں کر سکتی؟

                کسی کی عزت لوٹنا پاپ ہے۔ کنوتھ نے پیشانی پر بل ڈال کر ناگوار لہجہ میں کہا…………اور میں پاپ نہیں کر سکتی۔

                لیکن تو نے بسنتی کو تو میرے پاس بھیج دیا تھا…………پنڈت ہری رام نے اسے یاد دلایا۔

                تمہارے من میں کیا ہے مجھے نہیں معلوم…………کنوتھ نے معصومیت سے جواب دیا…………تم نے بسنتی کو اوطاق میں پہنچانے کو کہا تھا۔ سو میں نے کر دیا…………آگے…………کیا ہوا تم جانو۔

                اس کا مطلب ہے تم خلاف مزاج کام نہیں کر سکتی ہو…………پنڈت ہری رام نے سوچتے ہوئے پوچھا۔

                میرا جنم پوتر تھا مہاراج۔ اسی وجہ سے میری آتما بھی پوتر ہے…………اس نے بتایا…………لیکن بعض دفعہ میرے سیوک سے بھول ہو جاتی ہے اور وہ اپنے من کی شانتی کی خاطر غلط کام کرتا ہے جس کے کارن میری شکتی کمزور ہو جاتی ہے…………اور…………اور…………پھر میرے سیوک کو میری شکتی قائم کرنے کی خاطر جیون کا بلیدان دینا پڑتا ہے۔

                اس کا مطلب ہے کہ تمہارا سیوک تم سے صرف خاص کام ہی لے سکتا ہے…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                اپنے سیوک کی آگیا کا پالن کرنا میرا کام ہے مہاراج…………کنوتھ نے سعادت مندی سے سر جھکا کر جواب دیا…………لیکن میرے سیوک کو مجھ سے کونسا کام لینا چاہئے یہ اسے سوچنا ہے۔ ویسے کسی کی جیون ہتیا کرنا میرے لئے سب سے بڑا دکھ ہے۔

                اچھا…………اچھا…………پنڈت ہری رام نے تسلی آمیز لہجہ سے کہا…………جیون ہتیا کو میں بھی پسند نہیں کرتا بس وہ بسنتی کے معاملہ میں کچھ زیادتی ہو گئی۔ اور اس وقت بھی میں نے تمہیں کسی کی ہتیا کے کارن نہیں بلایا ہے۔ پھر وہ سوچ کر بولا…………رنگیلی کو جانتی ہو۔

                کون ہے وہ بتائو…………کنوتھ نے مختصراً پوچھا۔ وہ بازار حسن کے قریب رہتی ہے۔ ساوتری کی شاگرد ہے…………پنڈت ہری رام نے بتایا۔ آج رات بارہ بجے اسے میرے اس کمرہ میں ہونا چاہئے۔

                جو آگیا مہاراج…………کنوتھ نے سر جھکا کر اسے نمسکار کیا…………اور پھر لو پر سے غائب ہو گئی۔

                پنڈت ہری رام نے پھونک مار کر چراغ بجھا دیا۔

                اب اسے رات کے بارہ بجنے کا انتظار تھا۔

٭×××××××××××٭

                لمحے سیکنڈوں میں، سیکنڈ منٹوں میں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ آسمان کی نیلی چادر پر ستارے کسی دوشیزہ کی مانگ میں بھری ہوئی افشاں کی مانند چمکنے لگے۔ رات کی سیاہی نے پھیل کر انہیں ماند کرنا چاہا…………لیکن وہ اپنی سعی میں ناکام رہی۔

                پنڈت ہری رام اپنے شب خوابی والے کمرہ میں خراماں خراماں ٹہل رہا تھا۔ اور کبھی کبھی دیوار میں لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا…………گھڑی کا پنڈولم اس کے دل کی طرح ٹک ٹک حرکت کر رہا تھا۔ اور سوئیاں کھلنڈرے بچے کی طرح آگے پیچھے چل رہی تھیں۔

                کچھ دیر بعد گھڑی نے بارہ بجنے کا اعلان کیا اور…………اس کے ساتھ ہی…………رنگیلی کمرہ کے فرش پر اس طرح بیٹھی تھی جیسے زمین سے خوف بخود اگ آئی ہو۔

                پنڈت ہری رام کے چہرہ پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی…………کنوتھ ایک بار پھر اس کی توقعات پوری کر رہی تھی۔

                رنگیلی نے فرش سے اٹھ کر اپنی آنکھوں کو اس طرح مسلا جیسے نیند سے بیدار ہوئی ہو پھر اس کی نظر جونہی پنڈت ہری رام پر پڑی۔ گھبرا کر بولی۔

                تم…………تم…………کون ہو…………میں کہاں ہوں؟

                میں انسان ہوں…………پنڈت ہری رام نے فخر سے بتایا…………اور تم میرے گھر میں ہو۔

                رنگیلی نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے دروازہ کی طرف دیکھا اور تیزی سے دوڑی لیکن دروازہ مضبوطی سے بند تھا۔

                بھاگنا فضول ہے…………پنڈت ہری رام نے اس کی بے بسی پر زور سے ہنس کر کہا۔

                مجھے جانے دو…………رنگیلی نے دروازہ سے پیٹھ لگاتے ہوئے التجا کی۔

                چلی جانا اتنی بھی کیا جلدی ہے…………پنڈت ہری رام نے اسی ہی طرح زور سے ہنس کر کہا اور اس کی طرف بڑھنے لگا۔ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ گھگھیا کربولی۔ مجھے ہاتھ نہ لگانا۔

                خوب…………پنڈت ہری رام نے قہقہہ لگا کر کہا۔ بازار حسن میں رہنے والی پارسا بن رہی ہے اور ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

                خدا کے لئے رحم کرو…………رنگیلی نے رندھی ہوئی آواز سے التجا کی۔ میں وہ نہیں ہوں جو تم سمجھ رہے ہو۔

                یہ تو اور بھی اچھی بات ہے…………پنڈت ہری رام نے جواب دیا…………میں تجھے منہ مانگی قیمت دونگا۔ اس کے بعد وہ اسے کھینچتا ہوا مسہری تک لایا اور دھکا دے کر بستر پر گرا دیا۔ رنگیلی کسمسائی اور مسہری کے نیچے لڑھک گئی۔ پنڈت ہری رام نے چیتے جیسی پھرتی کے ساتھ اس کا بازو پکڑ کر اوپر اٹھایا…………اور…………اور…………اسی لمحہ میں کمرہ میں اس طرح بجلی چمکی جس طرح کیمرہ کی فلش گن چمکتی ہے۔

                پنڈت ہری رام کی پلکیں جھپک گئیں…………اور جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ساوتری سفید بے داغ لباس پہنے کمرہ کے وسط میں کھڑی ہے۔

                ساوتری کی اس غیر متوقع آمد سے وہ بوکھلا گیا اور اس کے منہ سے بمشکل تمام نکلا…………تم…………تم…………یہاں۔

                تمہیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا…………ساوتری نے افسردگی سے کہا۔

                تم…………تم…………زندہ ہو…………پنڈت ہری رام نے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                تم زندگی اور موت کے چکر میں نہ پڑو…………ساوتری نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا…………یہ سوچو کہ تم کونسا شیطانی کھیل کھیل رہے ہو۔

                پنڈت ہری رام کے ذہن میں فوراً ہی یہ خیال آیا…………کہ ساوتری ماورائی طاقتوں کی مالک ہے لیکن اب اس کے پاس بھی ایک غیر مرئی طاقت تھی…………انا کا وہ جذبہ جبکہ وہ شیوبھگوان کا پجاری تھا عود کر آیا۔ اور اس نے بڑی تمکنت سے کہا۔

                تم میرے معاملے میں دخل دینے والی کون ہو؟

                پنڈت جی…………ساوتری نے نرم لہجہ میں کہا۔

                میں نے تمہیں رام لال کے پاس ہیرا لینے بھیجا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم جوگیان دھیان کے نشیب و فراز سے گزر چکے ہو۔ کنوتھ کے شیطانی چکر میں پھنس جائو گے۔

                اپنے کام سے کام رکھ چھوکری…………پنڈت ہری رام نے فخر و غرور سے کہا…………تو جانتی ہے کہ میں شیوبھگوان کا مہان پجاری رہ چکا ہوں اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس بہت کچھ ہے۔

                افسوس تو اس ہی بات کا ہے…………ساوتری نے اسی انداز سے کہا۔ کہ تم سب کچھ کھو کر بھی نہ سنبھلے۔ شیطان نے تم…………

                ساوتری…………پنڈت ہری رام دھاڑا…………مجھے نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں…………اور نہ ہی…………

                اب تو تمہیں خصوصاً نصیحت کرنے کی ضرورت ہے…………ساوتری نے اس کی بات کاٹی…………کیونکہ تم پوری طرح شیطان کے قبضہ میں آ چکے ہو۔

                خاموش…………پنڈت ہری رام نے انتہائی غصہ سے کہا…………تمیز سے بات کر…………اب کنوتھ میرے قبضہ میں ہے اور میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔

                اسی کنوتھ پر تمہیں فخر ہے…………ساوتری نے انگلی سے ایک کونہ کی جانب اشارہ کیا، کونہ میں ایک تیرہ سال کی معصوم صورت لڑکی کھڑی تھی۔

                یہ کنوتھ تھی۔

                کنوتھ پر نظر پڑتے ہی پنڈت ہری رام نے اسے حکم دیا۔

                کنوتھ اس دیوانی کو میرے کمرہ سے نکال دو۔ پنڈت ہری رام کا حکم سنتے ہی کنوتھ نے اپنی جگہ سے جنبش کرنا چاہی لیکن ساوتری نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

                خبردار…………اگر اپنی جگہ سے ہلی تو جلا کر خاک کر دوں گی۔ یہ سننے کے ساتھ ہی کنوتھ جہاں تھی وہیں سہم کر رہ گئی۔

                کنوتھ…………تو نے میری بات نہیں سنی…………پنڈت ہری رام غصہ سے چلایا۔

                اب یہ تمہاری بات نہیں سنے گی…………ساوتری نے قدرے تیز لہجہ میں کہا…………اس معصوم روح کو برسوں سے تم جیسے شیطانوں نے اپنا آلہ کار بنا رکھا تھا…………اب یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائے گی۔

                تو کون ہوتی ہے اسے آزاد کرنے والی…………پنڈت ہری رام نے اکڑ کر کہا۔

                میں اللہ کی دیوانی اور اپنے نبیﷺ کی ادنیٰ کنیز ہوں…………ساوتری نے عاجزی سے جواب دیا۔ پھر وہ تمکنت سے بولی…………اب میں اللہ ہی کے حکم سے تمہارا یہ شیطانی کھیل ختم کرتی ہوں۔

                یہ کہہ کر وہ کنوتھ کی طرف مڑی۔ پنڈت ہری رام نے اس کے ارادہ کو بھانپ کر ایک دم ساوتری پر چھلانگ لگا دی اس نے پیچھے سے ساوتری کو اس طرح دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا کہ وہ بے بس ہو کر رہ گئی پھر وہ کنوتھ سے مخاطب ہوا۔

                بھاگ جائو کنوتھ…………بھاگ جائو۔

 

 

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔