Topics

تربیت


 

                ساوتری کی ماں کا انتقال ہو چکا تھا اور دیوان موتی رام اپنے تینوں بیٹوں کو بیاہ کر بہوئیں لے آئے تھے۔ بہوئوں کو جب پتہ چلا کہ ان کی نند ‘‘دیوانی’’ ہے تو اس سے قطع تعلق کر لیا…………اب ساوتری سارا وقت اپنے کمرہ میں گزارتی تھی اور انتہائی ضرورت کے تحت باہر نکلتی تھی…………وہ بھاوجوں سے بہت کم باتی کرتی تھی اس کے باوجود بھاوجیں اس سے روایتی حسد رکھتی تھیں۔ اور اس کی اچھی بات کو بھی برا سمجھتی تھیں۔

                دیوان موتی رام اپنی بیٹی کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنا تمام کاروبار بیٹوں کے سپرد کر دیا تھا۔ اور زیادہ وقت گھر میں دیوانی کی دیکھ بھال میں گزارتے تھے۔ یہ تمام واقعات پیش آنے کے بعد وہ پنڈت ہری رام سے خوفزدہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے کچھ دن تو اس کا انتظار کیا…………کہ شاید وہ پھر ساوتری کو داسی بنانے کے خیال سے آ جائے…………لیکن جب کافی دن گزر گئے تو وہ خود ہی اس کے پاس ملنے مندر میں پہنچ گئے لیکن پجاریوں نے انہیں ہری رام سے نہیں ملنے دیا…………ان سب کا یہی کہنا تھا کہ پنڈت ہری رام اس کی صورت تک نہیں دیکھنا چاہتے ہیں…………ان کا خیال تھا کہ اگر ساوتری شیو بھگوان کی داسی بن جائے گی تو انہیں سکون میسر آ جائے گا…………لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پنڈت ہری رام اور شیو بھگوان دونوں ہی اس سے ناراض تھے۔

٭×××××××××××٭

                ساوتری رات کو اپنے کمرہ کا دروازہ اندر سے بند کر کے سوتی تھی…………اور دیوان موتی رام کا پلنگ باہر اس کے دروازہ پر ہوتا تھا…………جب سے انہوں نے بیٹوں کی شادیاں کی تھیں۔ باہر سونا شروع کر دیا تھا اور وہ کبھی کبھی رات کو بیٹی کے کمرہ میں جھانک بھی لیا کرتے تھے۔

                ایک رات دیوان موتی رام اٹھے اور حسب معمول انہوں نے دروازہ کی دراز سے آنکھ لگا کر جھانکا۔ اندر کمرہ میں طاق میں رکھی ہوئی لالٹین کی روشنی پھیلی ہوئی تھی…………لیکن ساوتری کا پلنگ خالی تھا۔ یہ دیکھ کر ان کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی…………انہوں نے دو تین بار آنکھوں کو خوب زور زور سے مسلا اور ایک بار پھر دراز سے آنکھ لگا دی…………ساوتری کا پلنگ اب بھی خالی تھا…………انہوں نے کواڑوں کو دھکا دے کر کھولنا چاہا لیکن اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی…………اس کمرہ میں کوئی کھڑکی بھی نہیں تھی جس کے ذریعہ وہ باہر جا سکتی۔ البتہ چھت کے ساتھ ایک چھوٹا سا روشندان تھا لیکن وہ اتنی بلندی پر تھا کہ ساوتری وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔

                ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ ساوتری بند کمرے سے کہاں غائب ہو گئی۔ انہوں نے اپنے بیٹوں اور بہوئوں کو اٹھانا چاہا…………لیکن پھر اس ڈر سے ارادہ ترک کر دیا کہ بہوئوں اس بات کو بتنگڑ بنا دیں گی…………اب وہ کیا کریں؟

                یہی سوچتے سوچتے دور مسجد سے اللہ اکبر…………اللہ اکبر، پیر حاضر شاہ کی آواز بلند ہوئی وہ فجر کی اذان دے رہے تھے…………دیوان موتی رام نے اس آواز کے ساتھ ہی ساتھ اپنے دل میں مسلمانوں کے بھگوان سے پرارتھنا کی کہ اس کی بیٹی جس طرح گئی ہے اس ہی طرح رات کی تاریکی میں واپس آ جائے تا کہ کسی کو کچھ خبر نہ ہو۔ پھر ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا…………انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کی دعا قبول کر لی گئی ہو…………انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ ایک بار پھر دراز سے آنکھ لگا کر جھانکا اور یہ دیکھ کر خوشی سے ان کی چیخ نکل گئی کے ساوتری پلنگ پر داہنی کروٹ بے خبر سو رہی ہے۔

                پھر یہ معمول بن گیا کہ رات کو بارہ بجے کے بعد جب بھی موتی رام اس کے کمرہ میں جھانکتے۔ ساوتری اپنے پلنگ پر نہیں ہوتی۔ لیکن فجر کی اذان کے ساتھ ہی وہ پلنگ پر سوتی دکھائی دیتی…………اس بارے میں موتی رام نے بیٹی سے معلوم کرنا چاہا تو اس نے بتایا کہ کوئی نہایت ہی خوبصورت عورت اسے ایک جگہ لے جاتی ہے جہاں نورانی صورت کے بزرگ اسے تعلیم دیتے ہیں اور پھر فجر کے وقت وہ عورت اسے واپس کمرہ میں چھوڑ جاتی ہے…………یہ ایسی انہونی بات تھی جس کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا جا سکتا تھا…………وہ ان سمجھ میں نہ آنے والی باتوں کی وجہ سے تو‘‘دیوانی’’ مشہور ہوئی تھی۔ پھر بھی انہوں نے اپنے بچپن کے دوست خان بہادر سے تذکرہ کرنا مناسب سمجھا…………خان بہادر بھی یہ انہونی بات سن کر حیران و پریشان ہوئے پھر بھی انہوں نے دیوان موتی رام کو تسلی دیتے ہوئے کہا…………کہ وہ اس سلسلہ میں پیر حاضر شاہ سے بات کریں گے اور وہ یقیناً ساوتری کے اس پراسرار طریقہ سے غائب ہونے کی کوئی وجہ بتا دیں گے۔

٭×××××××××××٭

                خان بہادر ایک بار پہلے بھی پیر حاضر شاہ سے تنہائی میں مل چکے تھے…………اس وقت شمشو زندہ تھا اور اس نے کافی حیل و حجت کے بعد انہیں مسجد کی سیڑھیوں تک آنے دیا تھا…………اور اس ہی مسجد میں انہوں نے دوسرے بچوں کے ہمراہ ساوتری کو بھی دیکھا تھا۔ پچھلا پورا واقعہ ان کی نظروں میں گھوم گیا۔ اور ایک بار پھر انہوں نے پیر حاضر شاہ سے تنہائی میں ملنے کا ارادہ کیا۔

                دیوان موتی رام نے ‘‘ساوتری’’ کے غائب ہونے کا وقت رات کے بارہ بجے بتایا تھا…………لہٰذا خان بہادر بھی آدھی رات گزرنے کے بعد پیر حاضر شاہ کی طرف چل دیئے…………پیر حاضر شاہ کے مکان کا صدر دروازہ بند تھا۔ خان بہادر نے جونہی دستک دی دروازہ ان کے ہاتھ کے زور سے کھل گیا…………پیر حاضر شاہ اندر سے کنڈی نہیں لگاتے تھے۔

                خان بہادر نے صحن کو عبور کیا اور کمروں کے سامنے پہنچ گئے…………تمام کمروں میں گھپ اندھیرا تھا۔ البتہ پیر حاضر شاہ کے کمرہ میں روشنی تھی اور بند کواڑوں کی درازوں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی…………وہ پیر حاضر شاہ کے کمرہ کی طرف چل دیئے…………لیکن پھر ایک دم ٹھٹھک کر رہ گئے…………اندر کمرہ سے انہیں زنانی اور مردانی آوازیں باہم سنائی دیں…………نسوانی آواز قدرے بلند تھی…………کمرہ سے درود شریف پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔

                خان بہادر نسوانی آواز سن کر چونک پڑے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پیر حاضر شاہ کے مکان میں عورت کہاں سے آ گئی؟…………پھر ان کے دل میں چور گھس آیا اور انہوں نے دروازہ پر دستک دینے کی بجائے کواڑوں کی دراز سے آنکھیں لگا دیں…………اندر کا ماحول دیکھ کر حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انہوں نے دو تین بار اپنی آنکھوں کو اس طرح جھپکایا جیسے خواب دیکھ رہے ہوں۔

                اندر کمرہ میں نہایت ہی صاف و شفاف روشنی تھی بلکہ روشنی کا ایک ایسا بادل تھا جس نے کمرہ کے فرش کو ڈھانپ رکھا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دونوں نور کے بادل پر بیٹھے درود شریف پڑھ رہے ہیں اور چھت کے شگاف میں سے مختلف رنگ کی روشنیوں کا یہ اتنا حسین…………اتنا خوبصورت…………اتنا دلکش منظر تھا کہ خان بہادر کے جسم میں کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔ قمقموں کے اندر جلتے روشن تار نظر آ رہے تھے۔ ساوتری کے سیاہ ریشم جیسے بال یوں لگتا تھا کہ اس نے روشنی کا لباس پہنا ہوا ہے…………وہ حور سے زیادہ حسین نظر آ رہی تھی۔ پورے کمرہ میں عود و عنبر کی تیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

                کچھ دیر بعد جب خان بہادر کی نظر روشنی کے بادل پر جم گئی تو انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ روشنی کا یہ بادل حرکت کر رہا ہے۔ کچھ دیر بعد…………انہیں کمرہ کی در و دیوار کی جگہ حد نظر صحرا پھیلا ہوا دکھائی دیا…………نیچے ریت کے بڑے بڑے اونچے ٹیلے تھے۔ روشنی کا یہ بادل اس صحرا میں واقع ایک بستی کے اوپر جا کر ٹھہرگیا اور پیر حاضر شاہ ساوتری سے مخاطب ہوئے…………تم اس جگہ پہلے بھی کئی بار آ چکی ہو…………پہچانتی ہو؟ یہ جگہ کونسی ہے؟

                جی ہاں…………یہ مدینہ منورہ ہے…………ساوتری نے روشنی کے بادل سے نیچے جھانک کر جواب دیا۔

                اس کے بعد روشنی کا بادل مسجد نبویﷺ کے ایک مینار کی اوٹ میں آ کر رک گیا…………سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ کی سنہری جالیاں صاف نظر آ رہی تھیں…………روضہ مبارک کی جالیوں پر نظر پڑتے ہی ساوتری مضطرب ہو گئی…………وہ نہایت ہی ملتجیانہ لہجہ میں بولی…………آگے بڑھئے نا۔ صبر کرو…………صبر کرو…………پیر حاضر شاہ نے اسے سمجھایا…………میں تمہیں کئی بار بتا چکا ہوں اس دربار اقدس میں حاضر ہونے کے آداب ہیں…………

                اب صبر نہیں ہوتا…………ساوتری نے مچل کر کہا۔

                یہ تمام مقامات تمہیں اس وجہ سے دکھائے جا رہے ہیں…………پیر حاضر شاہ نے بات کاٹ کر کہا…………تمہیں یہاں حاضر ہونا ہے۔

                تو پھر حاضر کیجئے نا۔ ساوتری نے بڑے ہی اشتیاق سے کہا…………

                ابھی وقت نہیں آیا…………پیر حاضر شاہ نے گہری سوچ سے جواب دیا…………پھر نہایت تسلی اور آرام سے سمجھایا…………پاکیزگی اور حضور سے محبت کے پیش نظر درخواست پیش کر دی گئی ہے…………اور جونہی شرف قبولیت کا پروانہ جاری ہو گا…………تمہیں پیش کر دیا جائے گا۔

                لیکن کب؟…………ساوتری نے اس ہی انداز میں کہا…………کب آخر کب میری سب سے بڑی تمنا پوری ہو گی؟ اے کاش! حضورﷺ مجھے اپنے در کی کنیز بنا لیں۔

                تمہیں رحمت اللعالمین کے در سے کیا ملتا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے…………پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر جواب دیا…………لیکن تمہاری یہ خوش نصیبی ہے کہ تمہیں دربار رسالتﷺ میں حاضر ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔

                یہ سب تمہارا کرم ہے بابا…………ساوتری نے عقیدت و احترام سے سر جھکا کر جواب دیا۔

                میرا نہیں…………یہ اللہ کا کرم ہے…………پیر حاضر شاہ نے کہا۔

                بندہ تو عاجز ہے اور اس کے حضور میں اپنے آقاﷺ کے وسیلہ سے درخواست ہی پیش کر سکتا ہے۔

                اس کے ساتھ ہی روضہ مبارک کی جالیوں کے سامنے ایک دراز قد نورانی بزرگ لمبا سا سفید کرتا پہنے دکھائی دیئے۔ ان کے چہرہ سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں…………ان بزرگ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں بلند کر کے اس طرح سے لہرایا۔ جیسے اس طرف آنے کو منع کر رہے ہوں۔

                ان کے ہاتھ ہلاتے ہی…………روشنی کے بادل نے پھر حرکت شروع کر دی جیسے واپس ہو رہا ہو۔

                پیر حاضر شاہ نے ساوتری سے پوچھا۔ جانتی ہو یہ کون تھے۔

                ساوتری نے نفی میں سر ہلا دیا۔

                پیر حاضر شاہ نے بتایا کہ یہ حضرت رہبر کے منصب پر فائز ہیں اور لوگوں کو راہ بتاتے ہیں۔

                خان بہادر کی پلک جھپکی تو دیکھا…………روشنی کا بادل کمرہ میں ہے…………وہ یہ نظارہ دیکھنے میں ایسے محو ہوئے کہ وقت کا احساس ہی نہ رہا…………انہیں تو ہوش اس وقت آیا جب مسجد کے مینارہ سے فجر کی اذان بلند ہوئی…………انہوں نے اپنی آنکھوں کو ایک بار پھر زور زور سے ملا اور دوبارہ کمرہ میں جھانکنے لگے۔

                اذان کے ساتھ ہی ساوتری نے اپنے آپ کو سمیٹا…………پھر چھت سے آنے والی روشنیوں کی بوچھاڑ میں ایک نہایت ہی حسین و جمیل عورت دونوں ہاتھوں میں شربت کے بلوری گلاس لئے نمودار ہوئی…………اس نے ایک گلاس پیرحاضر شاہ کو دے دیا اور دوسرا گلاس ساوتری کی طرف بڑھا دیا…………شربت پلانے کے بعد…………اس نے ساوتری کا ہاتھ کلائی سے تھاما۔

                پیر حاضر شاہ نے اسے ہاتھ کے اشارہ سے لے جانے کو کہا…………ساوتری فوراً ہی اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔

                پھر…………وہ دونوں ہی روشنیوں کی بوچھاڑ میں اوپر کی جانب اٹھتی چلی گئیں…………دوسرے ہی لمحہ کمرہ میں کچھ بھی نہیں تھا…………پیر حاضر شاہ کمرہ میں چٹائی پر لیٹے خراٹے لے رہے تھے…………اور ان کے سرہانے طاق میں ایک چھوٹا سا دیا ٹمٹما رہا تھا۔

                خان بہادر نے اپنے سر کو دو تین بار زور سے جھٹکا…………جیسے انہوں نے خواب دیکھا ہو۔

                انہوں نے جو کچھ بھی دیکھا…………وہ ان کے شعور سے ان کے ذہن سے بالا تھا۔ اس کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ اپنے گھر واپس چلے آئے۔

٭×××××××××××٭

                شیو بھگوان کا پجاری پنڈت ہری رام ایک بار پھر گوشہ نشین ہوتا جا رہا تھا۔

                وہ اپنی کوٹھری سے ہفتوں بعد نکلتا تھا…………اس کے معتقدین سورج نکلنے سے پہلے مندر کے سامنے درشن حاصل کرنے کی خاطر کھڑے ہو جاتے تھے لیکن وہ سارا دن تہہ خانہ کے فرش پر لیٹا چھت کو تکتا رہتا تھا۔ شب بیداری کے باعث اس کی آنکھیں بوجھل ہو جاتیں۔ اور دماغ سوچ سوچ کر تھک جاتا ایسے میں وہ اپنے بازئوں کے سہارے کروٹ سے لیٹ جاتا اور غنودگی اس کے حواس پر سایہ کی مانند چھانے لگتی اور…………پھر اور پھر…………خواب کی حالت میں اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی روح جسم سے جدا ہو کر اس کے سامنے آ کھڑی ہو جاتی۔ اس کی آنکھیں اپنی روح پر جمی کی جمی رہ جاتیں۔ اس اندھے کی طرح جو بینائی رکھتے ہوئے بھی معذور ہو۔

                وہ اس حالت میں سوتے میں بھی جاگتا رہتا…………سوچتا رہتا…………یہاں تک کہ گیان دھیان نے اس کے ذہن کو کھرچنا شروع کر دیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا نفس گندہ ہے۔ جسے بھگوان نے عالم برزخ میں اپنی ذات سے جدا کر دیا ہو۔

                وہ اپنے نفس کو کہاں پاک کرے؟ کس طریقہ سے پاک کرے؟…………پھر…………پھر پسلیوں کے نیچے سینہ میں اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا جیسے گوشت کی اس قبر سے باہر نکلنا چاہتا ہو۔

                وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتا…………لیکن اس کے دل کی دھڑکن اور تڑپ پھر بھی کم نہ ہوتی…………وہ پنجرہ میں بند پرندہ کی مانند پھڑپھڑاتا رہتا۔ پنڈت ہری رام پریشان ہو کر سینہ پر ہاتھ رکھ لیتا…………ہاتھ کے اس لمس کے ساتھ ہی دل کی حرکت میں کمی ہوتی چلی جاتی…………یہ لمس…………یہ احساس……محبت کا احساس ہوتا۔ محبت جو روح پر ‘‘روح’’ کے اسرار منکشف کر کے انسان کو حقیقت اور مادہ میں تمیز کراتی ہے۔

                محبت…………محبت…………محبت…………پریم…………یہ کیا ہے؟ وہ سوچتا تو اس کے ذہن کے کسی گوشہ میں چھپی ہوئی دور بہت دور سے آواز آتی…………یہ آزمائش کی کسوٹی ہے…………انسان اور انسانیت کی بنیاد ہے…………بھگوان کی ایسی نعمت ہے…………جس کے بغیر انسان حیوان سے بھی بدتر ہے۔

                پریم…………بھگوان کا ترازو ہے جس کے ذریعہ وہ پاک اور ناپاک ہونے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس آواز کے ساتھ ہی وہ تڑپ کر کھڑا ہو جاتا اور بے خیالی میں سینہ کو مسل کر بڑبڑاتا…………یہ آگ کیسی ہے؟ یہ شعلہ کیسا ہے؟ جو میرے سینہ میں بھڑک رہا ہے ، جو میرے شریر کو جلائے دے رہا ہے، جو میرے جذبات کو پگھلائے دے رہا ہے اور میری قوتوں و سلب کر رہا ہے۔ پھر وہ دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ کر کہتا…………یہ سخت مگر ملائم شئے کیا ہے؟ جو تنہائی میں میری روح کو نوچتی اور دل میں ‘‘شراب لذت’’ انڈیلتی ہے پھر اس کے ساتھ ہی اس کا دل پیر حاضر شاہ کی طرف متوجہ ہو جاتا…………پیر حاضر شاہ کی تعلیمات کیسی ہیں کہ وہاں برائی کے بدلہ میں بھلائی ہے۔ پیر حاضر شاہ کا دین، مسلک اور پیغمبرﷺ اس کے ذہن پر چھائے جا رہے تھے۔

                آتما کا صحیح نروان کیا ہے؟ یہ سوچ سوچ کر اس کے ذہن پر کبھی دھند چھا جاتی اور کبھی ذہن پر روشنیوں کے جھماکے ہونے لگتے۔

٭×××××××××××٭

                پیر حاضر شاہ کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ‘‘ساوتری’’ نہایت ہی پاکیزہ مسلمان ‘‘روح’’ تھی اور پیر حاضر شاہ نے اس پر بچپن ہی سے توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ وہ اسے تصوف کی تعلیم بھی دے رہے تھے۔ وہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدہ کو نبھا رہے تھے۔ اب ساوتری کامل ‘‘عارفہ’’ تھی۔

                اسے روحانیت کی باریکیوں کا علم تھا۔

                وہ لاہوتی اسرار کا بحر بیکراں تھی۔

                وہ کبیرہ و صغیرہ گناہوں کی رمز شناس تھی۔

                وہ اعراف اور بہشت کے رازوں کی امین تھی۔

                وہ حسن و جمال میں جنت کی حور تھی۔

                وہ عشق الٰہی کی ایسی آگ تھی جس کے سامنے جنم بھی سرد تھی۔

                خان بہادر پیر حاضر شاہ کے معتقد تو اس ہی دن ہو گئے تھے جس دن ان کی دعا سے اولاد نرینہ ہوئی تھی لیکن وہ انہیں پیر کامل نہیں سمجھتے تھے۔ بس ان کی نظر میں وہ اللہ کے ایسے نیک بندے تھے جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ دعا قبول کر لیتا ہے لیکن یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات نے ان میں مردم شناسی کا جوہر نمایاں کر دیا…………وہ اکثر سوچتے تھے کہ پیر حاضر شاہ کچھ نہ کچھ ضرور ہیں۔

                اور ساوتری کے اس واقعہ نے تو ان کی آنکھیں کھول دیں تھیں…………انہیں پہلی بار شدت سے احساس ہوا پیر حاضر شاہ کوئی اللہ کا دوست ہے۔ یہ گوہر نایاب ہے جو کہ صدیوں میں ہاتھ آتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ کسی دن موقع دیکھ کر ان سے شرف مریدی عطا کرنے کی درخواست کریں گے…………اس ہی جذبہ کی تسکین کے لئے وہ عشاء کی نماز کے بعد ان کے آستانے پر حاضر ہونے لگے۔

                ایک دن جبکہ پیر حاضر شاہ کے گرد محلے کے دو تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے…………خان بہادر بھی پہنچ گئے۔ اس وقت پیر حاضر شاہ سر جھکائے درود شریف کا ورد کر رہے تھے…………خان بہادر نے سوچا…………آج صرف دو تین آدمی ہیں۔ آج پیر حاضر شاہ سے مرید ہونے کی درخواست کریں گے…………پھر جیسے ہی انہوں نے ورد ختم کیا۔ فضا میں ‘‘نمسکار’’ کی پاٹ دار آواز سنائی دی۔ سب نے مڑ کر آواز کی طرف دیکھا اور یہ دیکھ کر چونک پڑے کہ

                ‘‘پنڈت ہری رام سامنے کھڑا ہے۔’’

                پنڈت پر نظر پڑتے ہی پیر حاضر شاہ نے نہایت ہی خوش دلی سے کہا:

                ‘‘آیئے پنڈت جی…………آیئے…………

                پھر وہ اپنی جگہ سے استقبالیہ انداز میں اٹھ کر بولے:

                ‘‘آپ نے بے کار تکلف کی مجھے پیغام بھیج کر بلوا لیا ہوتا۔’’

                مجھے تم سے کوئی کام نہیں تھا…………پنڈت ہری رام نے خندہ پیشانی سے جواب دیا…………بس بہت دنوں سے میرا من بیاکل تھا…………میں نے سوچا…………کچھ سمے اپنے یار کے پاس چل کر بیٹھیں۔ شاید اس ہی کارن شانتی مل جائے۔ آخری جملہ اس نے معنی خیز انداز میں مسکرا کر کہا۔

                آپ کی تشریف آوری میرے لئے باعث مسرت ہے…………پیر حاضر شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔

                پرنتو…………یہ بات نہیں…………پنڈت ہری رام نے انہیں سمجھایا…………لوہا لوہے کو کاٹتا ہے…………ہیرے کو ہیرا۔ اس ہی طرح اگر کسی مہاپرش کو اس ہی جیسی مہاشکتی والا نہ ملے۔ تو جیون میں مزہ نہیں آتا۔

                ہاں زندگی میں اس وقت تک مزہ نہیں آتا۔ جب تک اس کا کوئی مقصد نہ ہو…………پیر حاضر شاہ نے زیر لب مسکرا کر جواب دیا…………اگر انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ …………اس زمین پر انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟

                انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے…………مرزا جی نے جو کہ قدرے اندھیرے میں کھڑے ہوئے تھے کہا…………وہ صاف طور سے دکھائی نہیں دے رہے تھے پھر قدرے ناگواری سے بولے…………زندگی کا مقصد شخصیت پرستی نہیں ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اصول پرست بنے۔

                آپ ذرا آگے…………اجالے میں آ جایئے مرزا جی…………پیر حاضر شاہ نے بظاہر انہیں روشنی میں آنے کو کہا تھا لیکن اس اجالے کا مفہوم کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا اور پھر جب مرزا جی…………لالٹین کی روشنی میں بڑھ آئے تو پیر حاضر شاہ نے سمجھانے والے لہجہ میں کہا…………

                آپ نے جو کچھ بھی کہا ہے درست ہے لیکن…………کیا کوئی اصول شخصیت کے بغیر بھی ہے۔ ‘‘صادق’’ کے بغیر صداقت کا وجود کس طرح ممکن ہے ‘‘امین’’ کے بغیر امانت کس طرح واپس مل سکتی ہے۔‘‘رحیم’’ کے بغیر رحم کہاں مل سکتا ہے؟

                شخصیت بنا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ پنڈت ہری رام نے تحسین آمیز نظروں سے پیر حاضر شاہ کو دیکھتے ہوئے کہا…………پھر فوراً ہی وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر گہری سوچ سے بولا…………زندگی سے موت تک کا سفر بظاہر لمبا بھی ہے اور مختصر بھی…………انسانی زندگی حاصل کرنے سے پہلے نجانے کتنی ‘‘زندگیاں’’ حاصل کرتا ہے اور موت سے پہلے کتنی بار مرتا ہے۔

                پنڈت ہری رام کی یہ بات اس کے ذہنی اضطراب کی عکاسی کرتی تھی…………لیکن کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ صرف پیر حاضر شاہ مسکرا کر رہ گئے…………

                پھر انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا۔ پارسائی اور راستی تلاش کرنے والوں کے لئے زندگی جدوجہد کا نام ہے لیکن اگر دلوں میں تاریکی پھیلی ہو۔ اور دماغ میں دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہوں تو پھر زندگی بڑی ہی دشوار ہو جاتی ہے اور انسان سب کچھ حاصل کر کے بھی سمجھتا ہے کہ وہ خالی ہاتھ ہے…………پھر انہوں نے اپنا چہرہ پنڈت ہری رام کی طرف کرتے ہوئے کہا:

                ‘‘اگر سمجھانے والے برائی سمجھا رہے ہیں، اگر برائی سوچی جا رہی ہے اور کسی کا برا چاہا جا رہا ہے …………تو سمجھ لو…………کہ انسان شیطان بنتا جا رہا ہے اور اس کا مقصد سوائے شر کے کچھ نہیں۔’’

                پیر حاضر شاہ کا یہ ایسا چھپا ہوا طنز تھا جس نے پنڈت ہری رام کے سینہ کو چھلنی کر دیا۔

                اس نے ایک لمحہ کے لئے نظریں جھکا کر سوچا اور پھر بڑی افسردگی سے بولا:

                ‘‘یہاں اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے…………اس دھرتی میں ہر چیز خود اپنی ضد نظر آتی ہے…………یہاں کبھی کبھی جہل علم پر چھا جاتا ہے اور کمزور طاقت ور پر غالب آ جاتا ہے۔’’

                یہ سب وقتی ہوتا ہے…………پیر حاضر شاہ نے اس طرح کہا جیسے اسے تسلی دے رہے ہوں۔ قدرت کے کچھ مظاہر بھی ہیں جنہیں سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں…………انسان جس چیز کو، جس بات کو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے وہی اس کے لئے نقصان دہ بن جاتی ہے اور جس کو وہ اپنے لئے برا سمجھتا ہے وہ اس کے لئے فائدہ مند ہو جاتی ہے۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان ناقص العقل ہے…………اب مرزا جی بولے…………پھر اسے اشرف المخلوقات کیوں کہا گیا ہے؟

                جہاں تک مظاہر قدرت کو سمجھنے کا تعلق ہے انسان ناقص العقل ہے…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا لیکن وہ اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے میں تمام جانداروں سے افضل ہے۔

                کیا مطلب…………خان بہادر نے پوچھا۔

                یہ بات یوں سمجھو…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا…………کہ یہ انسان ہی ہے جو راہ میں پڑے ہوئے پتھر کو تراش کر اسے خدا مانتا ہے…………یہ اس کے ناقص العقل ہونے کا ثبوت ہے اور دوسری طرف…………

                ابھی وہ اپنی بات ختم بھی نہیں کر پائے تھے کہ پنڈت ہری رام نے برجستہ کہا…………اس میں انسان کا کیا قصور…………یہ پتھر بھی تو ان کے من کی آشائوں کو پوری کرتا ہے۔

 

 

 



Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔