Topics

شادی کا وعدہ


 

                ساوتری کے حسن نے اس کے سکون کو تہہ و بالا کر دیا…………محبت کا جذبہ چاہت اور چاہت کے جذبہ نے ‘‘پالینے’’ کی شکل اختیار کر لی۔ اپنا بنانے کی خواہش نے اس کے دماغ میں سازشوں کو جنم دینا شروع کر دیا۔

                ساوتری پیر حاضر شاہ کے مکان میں تنہا رہتی تھی…………وہ حسین تھی جوان تھی…………اس کے باوجود بلاخوف رہتی تھی…………مکان کے اطراف میں اور دوسرے لوگ بھی رہتے تھے…………ان میں جوان اور بوڑھے سب ہی شامل تھے…………سب کو علم تھا کہ حسین ساوتری اس مکان میں تنہا رہتی ہے۔ اس کے باوجود کبھی کسی کا دھیان اس کی طرف نہیں گیا…………یہ صرف اور صرف…………اختر تھا جس نے سوچا کہ رات کی تاریکی میں حسن کی اس دیوانی کو اچک لے…………اور پھر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے من کے مندر میں بسنے کی ترغیب دے…………کتنا گھنائونا خیال تھا اس کا لیکن سچی محبت کرنے والے جب اپنے محبوب کے پیار سے بالکل ہی ناامید ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس نامرادیوں اور ناکامیوں پر فتح پانے کے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ …………محبوب کو حاصل کرنے کے لئے اخلاقی و غیر اخلاقی تمام حربے استعمال کرتے ہیں…………اور یا پھر ناامیدی کی چادر اوڑھ کر اپنی جان دے دیتے ہیں۔

                اختر نے فی الحال اول الذکر راستہ کا انتخاب کیا تھا…………اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کئی ہفتوں تک غور کرتا رہا۔

                اپنے سازشی ذہن کے تحت جب اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ ہر طرح سے کامیاب ہو گا تو پھر ایک رات…………وہ رات یوں تو بڑی سہانی رات تھی…………گھروں میں برقی روشنیاں تھیں جن کے عکس سڑکوں پر پڑ رہے تھے…………راستوں پر آمد و رفت بھی برائے نام تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ رات کا سناٹا آہستہ آہستہ ماحول پر چھاتا جا رہا ہے۔

                اختر اپنے گھر سے منصوبہ کے تحت نکلا۔ اور ساوتری کے مکان کی طرف چل دیا…………ابھی اس نے اپنی گلی کو پار ہی کیا تھا کہ اچانک پیچھے سے کوئی چیز اس کی پیٹھ پر آ کر لگی…………اختر نے فوراً ہی مڑ کر دیکھا۔ گلی کے آخری سرے پر واقع مکان کے کھلے دروازہ پر کوئی کھڑا تھا…………لیکن اس کے مڑتے ہی ہٹ گیا۔

                اختر اس گھر کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اس کے مکینوں کو پہچانتا تھا…………یہ اس کے انہی چچا زاد بھائی کا مکان تھا جو چند ہی دنوں قبل اپنی جواں سال بہن کا جن اتروانے ساوتری کے پاس آئے تھے…………وہ لوگ یہاں برسوں سے رہا کرتے تھے…………لیکن اختر یا کسی بھی اور عزیز یا رشتہ دار نے ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا اور اختر کو تو صحیح طریقہ سے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کا ذریعہ معاش کیا ہے۔

                اس وقت اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اتنا اچانک تھا…………کہ وہ چونک اٹھا…………اس نے قدموں میں پڑا ہوا سفید رنگ کا پرچہ اٹھا لیا۔ جو کہ ایک چھوٹے سے پتھر میں لپیٹ کر مارا گیا تھا…………پرچہ اٹھانے کے بعد…………وہ واپس اپنے گھر چلا آیا…………کمرہ میں پہنچ کر اس نے برقی بلب جلایا۔ اور اس کے نیچے کھڑے ہو کر پرچہ کو پڑھنے لگا۔

                ‘‘پرچہ میں لکھا تھا۔’’

                میرے عزیز برادر اختر

                جب سے میں نے تمہیں دیکھا ہے دل ملنے کو بے تاب ہے…………کئی بار سوچا کہ خود ہی تمہارے گھر آ جائوں لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں آ سکا…………یہ تو تم کو معلوم ہی ہے کہ ہم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں…………لیکن قسمت نے مجھے تمام خاندان والوں سے جدا کر دیا ہے۔ مجھے تو اب خاندان والوں کی شکلیں بھی یاد نہیں رہیں…………یہ بات آج کی نہیں…………بلکہ برسوں پرانی ہے…………اور اب تو میں خود بھی تنہائی پسند ہو چکا ہوں۔

                تم سوچ رہے ہو گے کہ میں تم سے کیوں ملنا چاہتا ہوں۔ تو بس یہ سمجھ لو کہ زندگی جتنی حسین ہے اتنی ہی تلخ بھی ہے…………موت میری زندگی کی دہلیز پر کھڑی دستک دے رہی ہے۔ نجانے کب دروازہ کھل جائے اور جان…………اس قفس عنصری سے پرواز کر جائے۔ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ موت کی دستک سن رہا ہوں اور اس ہی وجہ سے چاہتا ہوں کہ تم جلد از جلد مجھ سے مل لو…………ہو سکے تو آج ہی رات کسی بھی وقت میرے گھر چلے آئو…………مجبوراً یہ پرچہ اپنی بہن عذرا کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

                                                                                                                                                فقط تمہارا چچازاد

                پرچہ پڑھنے کے بعد اختر شش و پنج میں پڑ گیا…………وہ گھر سے کس ارادہ سے نکلا تھا اور اب حالات نے اسے کہاں لا کھڑا کیا تھا…………پرچہ کی تحریر نہایت ہی معنی خیز اور پراسرار سی تھی۔ پھر اس کے سامنے ماضی گھومنے لگا…………اس کے ماں باپ نے ہمیشہ اس چچازاد سے دور رہنے کی تلقین کی تھی۔ اور خاندان کے دوسرے افراد بھی یہی کہا کرتے تھے…………وہ لوگ نہ تو خود اس سے ملتے تھے اور نہ ہی کسی اور کو ملنے دیتے…………طرح طرح کی الزام تراشیوں نے اس کے ذہن کو گندہ کر دیا تھا اور وہ بھی اس چچازاد سے ملنا پسند نہیں کرتا تھا۔ سن بلوغت کو پہنچتے ہی وہ اپنی تعلیم میں مصروف ہو گیا اور پھر زندگی کے حسین جھمیلوں نے اسے اتنی فرصت نہیں دی کہ…………وہ اس گھر کے مکینوں کی طرف متوجہ ہوتا۔

                لیکن…………اب جبکہ اچانک ہی اس بھائی نے اسے یاد کیا تھا…………تو اس نے اپنے مرحوم والدین کی نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے ملنے کا فیصلہ کر لیا…………اور پھر وہ اسی رات…………اسی وقت اپنے چچازاد کے گھر پہنچ گیا۔

                قدرت کی بھی کیا شان ہے کہ ساوتری کے حسن کا دیوانہ جو کئی دنوں اور ہفتوں سے اپنے سفلی مقصد کی تکمیل کے منصوبے بناتا رہا…………اور جو اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر گھر سے چل پڑا تھا…………اب اس وقت اپنے بھائی کے گھر پہنچ گیا تھا۔

                مشیت الٰہی کے سامنے انسان کس قدر بے بس ہے۔

                وہ ایک اونچے سے پلنگ پر نہایت ہی صاف و شفاف بستر پر لیٹے ہوئے تھے…………ان کے سرہانے ٹیبل لیمپ روشن تھا…………قریب ہی ساگوان کی لکڑی کی ایک بڑی سی میز تھی۔ جس پر نہایت ہی قرینے سے کتابیں سجی ہوئی تھیں اور ایک طرف دوائوں کی شیشیوں کا ڈھیر تھا…………قریب ہی دو آرام دہ کرسیاں تھیں جن کی پشت قدرے پیچھے کو جھکی ہوئی تھی…………اختر سلام و دعا کے بعد ان کے پلنگ کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

                میں جانتا تھا کہ تم ضرور آئو گے…………انہوں نے استقبالیہ لہجہ میں کہا…………پھر پلنگ پر اس طرح سے کروٹ لی کہ جسم اور منہ اختر کی طرف ہو گیا اور بولے…………تم ماں باپ کی وصیت فراموش کر کے میرے پاس آئے ہو۔ میں اس کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔

                بھائی جان…………اختر نے قدرے شرمندگی سے کہا…………لندن سے آنے کے بعد میں ضرور آپ سے ملتا لیکن…………کچھ ایسی پریشانیوں میں الجھا رہا کہ…………

                میں جانتا ہوں…………انہوں نے بات کاٹی…………باپ کی علالت اور پھر ان کی المناک موت کے صدمہ نے تمہیں بیحد پریشان کر دیا تھا۔

                ویسے اب میں پرسکون ہوں…………اختر نے جواب دیا…………اس دن ساوتری کے پاس آپ کو اور عذرا کو دیکھ کر مجھے ملنے کا اشتیاق ہوا تھا…………اور…………               

                اس میں تمہارا قصور نہیں ہے…………چچازاد نے اس کی بات کاٹی اور پھر پھیکی مسکراہٹ سے کہا…………جب اپنے ہی بے گانے ہو جائیں…………تو شکوہ کس سے کیا جائے…………ویسے تم میری دعوت پر فوراً چلے آئے یہ تمہاری سعادت ہے جس کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔

                بھائی جان…………آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں…………اختر نے گردن جھکا کر کہا…………آپ کام بتائیں مجھے کیوں بلایا ہے؟

                تم جانتے ہو…………کہ عذرا میری ایک ہی بہن ہے…………انہوں نے بستر سے اٹھ کر تکیہ کے سہارے بیٹھتے ہوئے کہا۔ اور میں نے اس ہی کی خاطر تمہیں بلایا ہے۔

                جی…………کیا مطلب…………اختر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔

                شاید…………تمہیں یہ نہیں معلوم کہ میں خاندان سے الگ کیوں ہوں…………چچازاد نے سوال کیا۔

                میرے ماں باپ اور خاندان کے دوسرے افراد آپ کے والد صاحب اور آپ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے…………اختر نے بتایا۔

                وہ ان کے طوائف زادہ ہونے والی بات کو چھپا گیا تھا۔

                وہ جو کچھ بھی کہتے تھے ٹھیک ہی کہتے تھے…………انہوں نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

                لیکن وہ سب قدامت پسند تھے…………فرسودہ روایات کے حامی…………ظاہری شان و شوکت کے دلدادہ۔ لیکن…………میں ایسا نہیں ہوں…………اختر نے خوش دلی سے کہا۔

                جب ہی تو میں نے تمہیں بلایا ہے…………چچازاد نے بے ساختہ کہا…………میری نگاہ انتخاب غلط نہیں ہو سکتی۔

                آپ مجھے کام تو بتائیں…………اختر نے سعادتمندی سے پوچھا۔ مجھے بلانے کا مقصد تو بتائیں۔

                …………تمہیں بلانے کا مقصد…………وہ چھت کو تکتے ہوئے بڑبڑائے…………میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں۔

                وعدہ…………کیسا وعدہ؟…………اختر نے چونک کر پوچھا۔

                میں اپنی بہن عذرا کی شادی کرنا چاہتا ہوں…………چچازاد نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں جواب دیا۔

                بڑا ہی نیک خیال ہے…………ضرور شادی کیجئے…………اختر نے خوش ہو کر کہا۔ پھر اس نے سوچا کہ ممکن ہے کہ اس کا یہ بھائی مالی مدد چاہتا ہو۔ لہٰذا فراخدلی سے دونوں ہاتھ پھیلا کر بولا۔ اس سلسلہ میں ہر طرح سے خدمت کرنے کو تیار ہوں۔

                مجھے…………تمہاری صرف ایک ہی خدمت کی ضرورت ہے…………انہوں نے چھت پر نظریں جمائے ہوئے کہا…………اور وہ یہ ہے کہ تم…………عذرا سے شادی کر لو۔

                جی…………اختر یہ سن کر بھونچکا رہ گیا۔

                ممکن ہے خاندان والوں نے تمہیں ہمارے بارے میں کچھ بتایا ہو…………انہوں نے کہا…………ہم دونوں طوائف زادے ضرور ہیں لیکن حرام زادے نہیں ہیں…………ہمارے باپ نے ہماری ماں سے نکاح کیا تھا اور ہم دونوں ان کی جائز اولاد ہیں۔

                عذرا پڑھی لکھی اور خوبصورت تھی۔ لیکن اس کے بھائی کی اس اچانک پیشکش پر وہ سوچ میں پڑ گیا…………اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا…………کہ وہ کیا کرے…………اس فیصلہ کو قبول کر لے یا مسترد کر دے۔

                اسے خاموش دیکھ کر چچازاد بھائی نے دوبارہ کہا…………میری بہن ساوتری کی طرح حسین تو نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ بیوی بن کر تمہیں سچا پیار دے گی۔

                اس کا مطلب ہے…………آپ کو سب کچھ معلوم ہے…………اختر نے گھبرا کر کہا۔

                اس کا خیال تھا کہ چچازاد بھائی اس کے اور ساوتری کے پیار سے آگاہ ہے۔

                ہاں…………مجھے سب کچھ معلوم ہے…………انہوں نے قدرے مسکرا کر کہا…………میں نے تمہیں کئی بار ساوتری کے پاس آتے جاتے دیکھا ہے…………اور جس دن میں اپنی بہن کو ٹھیک کرانے اس کے گھر گیا تھا…………اس دن بھی تم وہاں موجود تھے…………تم ساوتری کے حسن سے متاثر ہو کر اس سے محبت کرنے لگے ہو…………لیکن اب وہ تمہارے کام کی نہیں ہے۔

                آپ…………آپ…………یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہیں…………اختر نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

                پیر حاضر شاہ کو تو تم اچھی طرح سے جانتے ہوگے…………انہوں نے سنجیدگی سے کہا…………انہوں نے ساوتری کو عشق الٰہی کی ایسی منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں انسان کے لئے یہ دنیا…………بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب ساوتری کا کام دنیاوی جھمیلوں میں پڑنا نہیں ہے…………بلکہ مخلوق کی خدمت کرنا ہے…………پھر وہ ایک لمبی سانس کھینچ کر بولے…………تمہیں چاہئے کہ ساوتری کا خیال دل سے نکال دو…………تمہیں زندگی گزارنے کے لئے ایک ایسی ساتھی کی ضرورت ہے جو تمہارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔

                آپ…………آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں…………اختر نے شکست خوردہ لہجہ میں کہا…………وہ واقعی دیوانی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے اسے۔

                وہ دیوانی نہیں ہے…………چچازاد بھائی نے ہنس کر کہا روحانی دنیا کی ملکہ ہے تم نے دیکھا نہیں…………اس نے کس طرح میری بہن پر مسلط جن کو اتار دیا تھا۔

                اس کا مطلب ہے کہ آپ ساوتری کو اچھی طرح سے جانتے ہیں…………اختر نے قدرے تعجب سے کہا۔

                ہاں…………اس لئے کہ میں بھی پیر حاضر شاہ کا مرید ہوں…………

                انہوں نے عقیدت سے کہا۔

                آپ…………پیر حاضر شاہ کے مرید ہیں…………اختر نے حیرانی سے پوچھا۔

                پیر حاضر شاہ مفکر کائنات تھے…………چچازاد نے احترام سے کہا…………جس طرح اس دنیا کے لوگ مادی چیزوں پر غور و فکر کر کے فلاسفر ہو جاتے ہیں…………اس ہی طرح کائنات پر غور و فکر کرنے والوں کو صوفیاء کرام کہا جاتا ہے۔

                لیکن آپ کس طرح ان کے مرید بن گئے…………اختر نے پوچھا۔

                ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہوتی ہے جس کی توجیہہ میں وہ سرگرداں رہتا ہے۔ انہوں نے سمجھانے والے لہجہ میں جواب دیا…………اور جب وہ کسی بھی طرح سے نہیں سمجھ پاتا تو اسے بالآخر بزرگان دین کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

                آپ کے ساتھ ایسی کیا بات ہو گئی تھی…………اختر نے اشتیاق سے پوچھا۔

                بتائوں گا…………بتائوں گا…………انہوں نے ہاتھ ہلا کر تسلی دیتے ہوئے کہا…………پہلے تم…………اس بات کا وعدہ کرو کہ میری بہن عذرا سے شادی کرو گے۔

                اختر نے کوئی جواب دینے کے بجائے شرم و حیا سے گردن جھکا لی۔

                اسے اس طرح خاموش گردن جھکائے دیکھ کر وہ نجانے کیا سمجھے…………انہوں نے اختر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھپتھپاتے ہوئے کہا…………میری حالت دیکھ کر شاید تم اس شش و پنج میں پڑ گئے ہو کہ عذرا کے ساتھ گزارہ کیسے ہو گا…………وہ غریب ہے۔

                ان کی یہ بات سن کر اختر کو افسوس ہوا۔ اس نے آج تک دولت کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی…………اس نے اپنے چچازاد بھائی کی غلط فہمی دور کرنے کی خاطر گردن اٹھا کر کچھ کہنا چاہا…………لیکن چچازاد نے یہ سوچ کر کہ کہیں وہ انکار نہ کر دے فوراً ہی کہا…………میری بہن سے شادی کے بعد تم لاکھوں روپے کے مالک بن جائو گے۔

                مجھے دولت کی تمنا نہیں…………اختر نے قدرے ناگواری سے کہا۔

                یہ غلط ہے…………وہ ایک معنی خیز انداز سے بولے…………دولت کی تمنا کس کو نہیں ہوتی…………ممکن ہے آج تمہیں دولت کی تمنا نہ ہو لیکن کل اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

                چچازاد کی یہ بات سن کر اختر حیرانی سے ان کا منہ دیکھنے لگا۔

                بظاہر میں غربت کی زندگی گزار رہا ہوں…………انہوں نے سانس لینے کے بعد بات جاری رکھتے ہوئے کہا…………لیکن کبھی ہم نے بھی اچھے دن دیکھے تھے اور ان ہی دنوں میں نے اپنی بہن کے لئے ایسی چیزیں بچا کر رکھ لیں تھیں جنہیں فروخت کر کے لاکھوں روپے مل جائیں گے۔

                یہ آپ کی دور اندیشی ہے…………اختر نے سعادت مندی سے جواب دیا…………ورنہ آپ جانتے ہیں کہ…………میرے والد مرحوم میوئوں کے باغات چھوڑ گئے تھے جن سے معقول آمدنی ہو جاتی ہے۔

                خاندان والوں نے مجھے چھوڑ دیا…………چچازاد بھائی نے نہایت ہی افسردگی سے کہا…………اور میں نے بھی عرصہ سے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی ہے…………میرے گھر کی چاردیواری کے باہر کیا ہے مجھے اس کا علم نہیں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میرے چچا یعنی تمہارے باپ اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے…………میرے باپ کے چلے جانے کے بعد وہ…………اپنے باپ یعنی ہمارے دادا کی جائیداد کے تنہا وارث تھے۔

                مجھے ان باتوں کا علم نہیں ہے…………اختر نے سوچ کر جواب دیا…………ویسے اگر آپ اس معاملہ میں بات کرنا چاہیں تو میں بڑا ہی فراخدل واقع ہوا ہوں۔ آپ جو کہیں گے ویسا ہی کروں گا۔

                ارے نہیں برادر عزیز…………انہوں نے زور سے ہنس کر کہا…………مجھے اب نہ جائیداد کی تمنا ہے اور نہ ہی دولت کی خواہش…………مجھے تو اب صرف ایک ہی فکر ہے کہ مرنے سے پہلے بہن کی شادی کر دوں۔

                آپ عذرا کے لئے اتنے فکر مند نہ ہوں…………اختر نے انہیں تسلی دی۔

                آہ…………تم نہیں جانتے…………انہوں نے افسردگی سے کہا…………یہ بیماری جان لیوا ہے…………میں نے موت کی آواز سن لی ہے…………اور وہ کسی بھی وقت مجھے لینے آ جائے گی۔

                آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟…………آپ زندگی سے مایوس نہ ہوں…………اختر نے پھر انہیں سمجھایا۔

                تم اس بات کو نہیں سمجھ سکو گے…………انہوں نے مایوسی سے جواب دیا…………موت ہمارے سامنے مجسم بن کر آتی ہے…………اور یہ ہمارے خاندان کی رسم بن گئی ہے۔

                موت مجسم بن کر آتی ہے…………اختر نے حیرانگی سے پوچھا۔

                ہاں…………موت کسی نہ کسی جسمانی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے…………انہوں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا اور میں نے بھی اپنی موت کو دیکھ لیا ہے یہی وجہ ہے کہ عذرا کی شادی جلد از جلد کر دینا چاہتا ہوں…………تا کہ سکون کی موت مر جائوں۔

                عذرا کی شادی تو کہیں نہ کہیں ہو ہی جائے گی…………اختر نے تسلی آمیز لہجہ میں کہا…………لیکن آپ کو زندگی سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

                بات یہ نہیں ہے…………چچازاد نے فکر مندی سے کہا…………سوال کہیں نہ کہیں اس کی شادی ہو جانے کا نہیں ہے۔ درحقیقت موت نے اپنا پیغام بھیجنا شروع کر دیا ہے اور مہلت کے ان لمحوں میں بہن کی شادی کر دینا چاہتا ہوں پھر اس کی طرف غور سے دیکھ کر بولے…………اس عجلت میں میری نگاہ انتخاب تم پر پڑی ہے…………کیونکہ تم نہ صرف تعلیم یافتہ ہو…………بلکہ مغرب میں بھی رہ آئے ہو۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تم فرسودہ خاندانی روایات کے حامی بھی نہیں ہو۔

                یہ توٹھیک ہے…………اختر نے جواب دیا…………میں خاندانی رسم و رواج کا پابند نہیں ہوں…………لیکن شادی کے معاملہ میں سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کرنا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔

                میں جانتا ہوں…………انہوں نے نرم لہجہ میں کہا…………انسان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے تمام پہلوئوں پر اچھی طرح غور کر لینا چاہئے…………لیکن میرے پاس وقت بہت کم ہے…………موت کا فرشتہ سامنے آ چکا ہے۔

                آپ نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے…………اختر نے بے چارگی سے کہا۔

                تم قطعی پریشان نہ ہو…………انہوں نے پیار سے کہا…………میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ عذرا میری بہن تمہاری زندگی کا بہترین ہمسفر ثابت ہو گی…………پھر وہ التجا آمیز لہجہ میں بولے۔ مجھ پر یہ احسان کرو میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دو میری روح تمہارے لئے دعا کرے گی۔

                اختر کا دل نرم پڑ گیا…………لیکن پھر…………اس نے سوچا کہ عذرا کیسی ہو گی…………جوان ہونے کے بعد صرف ایک بار اس نے اسے دیکھا تھا…………وہ بھی اس وقت جبکہ اس کا بھائی جن اتروانے کے لئے اسے ساوتری کے گھر لایا تھا…………اس وقت عذرا کی حالت ‘‘پاگلوں اور دیوانوں’’ جیسی تھی۔ لیکن پھر بھی اس کا حسن و شباب پوری طرح دمک رہا تھا۔

                اختر کو سوچ میں گم دیکھ کر پھر اس کے بیمار بھائی کے دماغ میں مایوسیوں اور نامرادیوں کے غبار اٹھنے لگے۔ اس نے اختر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بار پھر تھپتھپاتے ہوئے سمجھایا۔ میں نے زندگی بھر عذرا کے وجود کو خوشی خوشی برداشت کیا…………لیکن اب یہ سوچ کر کہ میرے بعد اس کا کیا ہو گا…………دل ہول جاتا ہے…………چاہتا ہوں۔

                ابھی وہ اتنا کہہ پائے تھے کہ اختر کی نظر عذرا پر پڑی۔ چوڑی دار سبز پاجامہ اور اسی رنگ کا ریشمی کرتا پہنے وہ دونوں ہاتھوں میں چائے کی ٹرے سنبھالے چلی آ رہی تھی۔

                وہ حسن و جوانی کا مکمل مجسمہ تھی…………اس کا سرخ و سفید چہرہ سبز رنگ کے دوپٹہ میں یوں نظر آ رہا تھا جیسے چاند ہلکے نیلے بادلوں سے جھانک رہا ہو۔ گردن تنی ہوئی اور سینہ کسی مخروطی چٹان کی مانند نظر آ رہا تھا اس کی آہو چشم آنکھیں نیچے کو جھکی ہوئی تھیں۔

                عذرا اتنی حسین ہے…………اختر کو معلوم ہی نہ تھا…………وہ تو اسے معمولی شکل و صورت کی لڑکی سمجھ رہا تھا…………اختر تو اس کے قیامت خیز حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

                اس نے چچازاد بھائی کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر کچھ کہنا چاہا…………لیکن عذرا پہنچ چکی تھی…………اس نے اختر کے سامنے رکھی ہوئی ایک چھوٹی سی میز پر جھک کر چائے کے برتن رکھ دیئے…………اس کے جسم کے اس خم نے اختر کے دل پر بجلی سی گرا دی۔ اور اس نےس وچا۔ حسن کی اس دیوی پر بھلا غیر مرئی مخلوق کیوں عاشق نہ ہو۔

                میز پر چائے کے برتن رکھنے کے بعد وہ اسی طرح واپس نظریں جھکائے ہوئے چلی گئی۔ اس کے واپس جاتے ہی اختر نے نہایت ہی بے تابی سے کہا…………میں…………میں عذرا سے شادی کے لئے تیار ہوں۔

                خوش رہو…………اللہ تمہیں اس نیک کام کا صلہ دے گا۔ اس کے چچازاد نے دعا دی…………تم نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا…………پھر وہ قدرے سنبھل کر پلنگ پرب یٹھتے ہوئے بولے…………اب تمہیں میرے حالات جاننے کا حق ہے…………تم واقعی میرے محسن ہو…………تم نے میری بہن کا ہاتھ پکڑ کر انسان دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

                آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں…………اختر نے انکساری سے کہا۔

                نہیں…………میں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ انہوں نے خوش ہو کر کہا…………اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے…………لوگوں نے خاندانی اساس کو معیار زندگی بنا لیا ہے۔ الٰہی تعلیمات کو چھوڑ کر دنیاوی رسم و رواج کو اپنا لیا ہے۔

                ان باتوں کو چھوڑیئے…………اختر نے چائے دانی سے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کہا…………اگر ہم معاشرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرتے رہیں گے تو جینا حرام ہو جائے گا۔

                اس معاشرہ نے…………چچازاد نے غصہ سے دانت چبا کر کہا…………میرا جینا حرام کر دیا…………اگر اس معاشرہ کی روایات کے خلاف کوئی کام کیا تھا تو میرے باپ نے کیا تھا لیکن زندگی بھر سزا کا مستحق مجھے ٹھہرایا گیا۔

                ہمارا معاشرہ اندھا ہے۔ بھائی جان…………اختر نے ان کی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا لیکن اس اندھے معاشرہ میں چند بصیرت والے موجود ہیں۔

                تم نے بالکل سچ کہا ہے۔ انہوں نے چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوئے جواب دیا اور اس کا ثبوت تم خود ہو کہ تم نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے…………میں اس احسان کا بدلہ بھی نہیں دے سکتا۔


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔