Topics

محبت


 

                یہی بات تو سوچنے………… اور سمجھنے کی ہے…………پیر حاضر شاہ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے ہی پیار سے کہا:

                ‘‘اگر انسان مظاہر قدرت کو دیوتا سمجھ لیتا ہے تو اس سے زیادہ کم عقل کوئی نہیں۔ جو خالق کو چھوڑ کر اس کی خلق کی ہوئی چیزوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے…………پھر سمجھ لو کہ اس کی عقل و دانش پر پتھر پڑے ہوئے ہیں لیکن جب یہی انسان اس کی خلق کی ہوئی چیزوں سے فیضیاب ہو کر اس کا شکر گزار بندہ بن جائے تو وہ شرف کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔’’

                اس ہی طرح کی باتوں کے بعد نصف شب کے قریب یہ محفل برخاست ہو گئی۔

                اور خان بہادر اپنی خواہش کو سینہ میں دبائے واپس لوٹ گئے۔

                اب پنڈت ہری رام بھی گاہے بگاہے پیر حاضر شاہ کی مجلس میں آ کر بیٹھ جایا کرتا تھا…………پیر حاضر شاہ اس کی عزت کرتے تھے اور بڑے ہی پیار و محبت سے پیش آتے تھے۔

                پنڈت ہری رام فہم و فراست میں کم نہیں تھا…………ہمیشہ محفل کا رنگ دیکھ کر موضوع کو توجہ سے سن کر بڑے ہی غور و غوض کے بعد بات کہتا تھا۔

                درحقیقت وہ پیر حاضر شاہ سے واقف ہونا چاہتا تھا…………وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پیر حاضر شاہ کا ظاہر اور باطن کیا ہے…………اس نے پیر کا ظاہر و باطن یکساں پایا۔ اس کے باوجود پنڈت کے چہرہ سے ایک طرح کی پریشانی اور تجسس ظاہر ہوتا تھا…………جیسے وہ کسی چیز کی تلاش میں ہو۔

٭×××××××××××٭

                انسان میں کوئی بھی ‘‘جذبہ’’ ایک لطیف غنودگی سے پیدا ہوتا ہے اور یہی جذبہ انسان کے صدیوں پر پھیلے ہوئے نقوش کو مٹا دیتا ہے۔ غفلت کے بعد انسان کو ہوش آ جائے تو یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

                پنڈت ہری رام پیدائشی ہندو تھا…………صدیوں سے اس کے آبائو اجداد مظاہر قدرت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے آئے تھے۔ لیکن پیر حاضر شاہ کے رویہ نے اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔

                ایک دن…………صبح کے وقت جبکہ پیر حاضر شاہ مسجد میں بیٹھے جن کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دے رہے تھے کہ اچانک ………… پنڈت ہری رام ایک کونے سے نمودار ہوئے۔

                انہیں دیکھتے ہی پیر حاضر شاہ چونک پڑے اور پریشانی سے بولے:

                ‘‘پنڈت جی آپ یہاں کیا بات ہے؟’’

                آپ کو یہاں میری موجودگی پر اعتراض ہے؟…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                یہ بات نہیں ہے…………پیر حاضر شاہ نے اپنی پریشانی پر قابو پاتے ہوئے کہا…………میں تو آپ کو اچھی طرح سے جانتا ہوں لیکن…………اگر کسی اور مسلمان نے دیکھ لیا تو۔

                آپ اس کی چنتا نہ کریں…………پنڈت ہری رام نے اطمینان سے جواب دیا…………میں آپ کے علاوہ کسی اور کو نظر نہیں آئوں گا۔

                ٹھیک ہے…………ٹھیک ہے…………پیر حاضر شاہ نے مطمئن ہو کر کہا…………بیٹھ جایئے۔

                پنڈت ہری رام نے بیٹھے ہوئے پوچھا…………کیا آپ کو میری اس شکتی پر تعجب نہیں ہوا؟

                خود کو چھپانا کوئی بڑی بات نہیں…………پیر حاضر شاہ نے لاپروائی سے جواب دیا۔ پھر مسکرا کر پوچھا…………تم یہ آوازیں سن رہے ہو۔

                پنڈت ہری رام کو دیکھتے ہی اجنہ کے بچے روپوش ہو گئے تھے لیکن ان کے بولنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

                ابھی بچے یہاں نظر تو آ رہے تھے…………پھر…………اور اس کے ساتھ ہی اس نے شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیں۔

                پیر حاضر شاہ نے اس کی خفت مٹانے کی خاطر موضوع بدلتے ہوئے پوچھا…………مجھ سے کوئی کام تھا؟

                میں آپ سے صرف ایک بات معلوم کرنے آیا ہوں…………پنڈت ہری رام نے نظریں اٹھا کر کہا۔

                اگر میرے علم میں ہوئی تو ضرور بتائوں گا…………پیر حاضر شاہ نے نظریں اٹھا کر کہا۔

                اگر میرے علم میں ہوئی تو ضرور بتائوں گی…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔ پوچھو…………

                مجھے صرف یہ بتا دو…………پنڈت ہری رام نے بے قراری سے پوچھا…………جب دیوان موتی رام کے بھاگ میں اولاد نہیں تھی تو پھر…………اسے اولاد کیسے مل گئی؟

                ہونہہ…………تمہیں یہ معلوم کرنے کا حق ہے…………پیر حاضر شاہ گہری سانس کے ساتھ پہلو بدل کر بولے۔ دیوان موتی رام کی قسمت میں اولاد تو واقعی نہیں تھی…………تم نے اس کی تقدیر کا لکھا پڑھ کر جو کہا تھا…………سچ تھا۔

                مجھے تعجب تو اس ہی بات کا ہے کہ اس کی تقدیر کیسے بدل گئی…………پنڈت ہری رام نے حیرت و پریشانی سے پوچھا۔

                مکافات عمل میں دخل دینا ہم درویشوں کی شان نہیں…………پیر حاضر شاہ نے مسکرا کر کہا۔ کیونکہ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خدشہ رہتا ہے…………لیکن اس سے کسی شئے کے وجود میں لانے کی خواہش تو کر سکتے ہیں وہ ‘‘کن فیکون’’ کا مختار کل ہے۔ ہمارا رب ہے۔ ہم سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر کیوں اس شفیق اور محبت کرنے والی ہستی سے اپنی خواہش کی استدعا نہ کریں۔

                پرارتھنا تو میں نے بھی کی تھی…………پنڈت ہری رام نے گہری سوچ میں کہا۔

                دراصل ہمارے دین میں مانگنے کا فلسفہ الگ ہے…………پیر حاضر شاہ نے بتایا۔

                پیرصاحب! مانگا تو میں نے بھی تھا۔ پنڈت ہری رام نے دوبارہ اپنی بات کو اس ہی انداز سے دہرایا۔

                مانگنے اور دعا کرنے کے بھی دو طریقے ہیں…………پیر حاضر شاہ نے اپنے دائیں ہاتھ کو دکھا کر بتایا۔

                وہ کیا…………پنڈت ہری رام نے مضطرب ہو کر پوچھا۔

                بلواسطہ اور بلاواسطہ…………پیر حاضر شاہ نے کہا…………اول یہ کہ بندہ عجز و انکساری سے اپنی خواہش کو اللہ کے حضور میں پیش کرے۔ دوسرا یہ کہ اللہ سے قریب کسی ہستی کے وسیلہ سے سوال کیا جائے۔

                اس کا مطلب ہے تمہارے نبیﷺ کی بات بھگوان ضرور قبول کرتا ہے…………پنڈت ہری رام نے بہت گہری فکر کے ساتھ کہا۔

                ہاں…………ہم فقیروں کی دعا اس ہی وجہ سے قبول ہوجاتی ہے…………پیر حاضر شاہ نے بتایا…………کہ ہم اپنے نبیﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگتے ہیں۔

                میں نے بھی تمہارے نبیﷺ کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے۔ تم بھی مجھے کچھ بتائو۔

                میری حیثیت ہی کیا ہے کہ میں اپنے آقاﷺ کے بارے میں زبان کھولوں۔ پیر حاضر شاہ نے سوچ کر کہا اور پھر والہانہ انداز سے بولے۔

                مختصراً یوں سمجھ لو کہ روحانیت میں ایک مقام ‘‘سدرۃ المنتہیٰ’’ ہے۔ اس مقام سے آگے جانے کی کسی بھی ہستی کو اجازت نہیں ہے حتیٰ کہ فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ تمام الہامی کتابوں میں اشارہ ملتا ہے کہ یہاں سے ظاہر و باطن کا آغاز ہوتا ہے اور اس حد کو وہی عبور کر سکتا ہے جو اس حد کے پار واقع ہستی سے قریب ہو…………ہماری الہامی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ میرے آقا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس حد کو عبور کر کے بہت آگے تک گئے ہیں…………پیر حاضر شاہ بے خودی میں کہے جا رہے تھے۔

                اور اتنے آگے گئے ہیں کہ وجود الٰہی میں اور ان میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ نہیں رہا۔

                تو پھر وہاں کون تھا؟

                کیا تھا…………پنڈت ہری رام نے اس طرح کہا کہ جیسے کہیں بہت دور سے بول رہا ہے۔

                مجھے کیا معلوم…………پیر حاضر شاہ نے ایک دم سنبھل کر کہا…………مجھے تو صرف معلوم ہے کہ ہم اپنے پیارے نبیﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگتے ہیں تو دعا قبول ہو جاتی ہے۔

                لیکن جو لوگ تمہارے نبیﷺ کو نہیں مانتے ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں…………پنڈت ہری رام نے سوال کیا۔

                اللہ رب العالمین ہے…………پیر حاضر شاہ نے جواب دیا…………اور وہ بلاواسطہ دعا کو بھی قبول کرتا ہے لیکن…………کبھی کبھی اس دعا کا حال وہی ہوتا ہے جو تمہاری دعا کا ہوا ہے۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ وہ بے نیاز ہے اور یہ بھی جانتے ہو کہ دوست، دوست کی دلداری کرتا ہے۔

                کیا مطلب…………پنڈت ہری رام نے اچھنبے سے پوچھا۔

                پیر حاضر شاہ بولے…………جس واسطہ سے دعا مانگی جاتی ہے اللہ کے حضور میں واسطہ کی بھی کوئی حیثیت کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ پھر وہ نہایت ہی سنجیدگی سے بولے…………ہم فقیر…………جب دعا کرتے ہیں تو بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ دعا قبول ہونے کے بعد اس کے نتائج کی تمام تر ذمہ داری دعا کرنے والے پر عائد ہوتی ہے۔

                دیوان موتی رام تو تمہارے دھرم کا نہیں ہے…………پنڈت ہری رام نے کہا…………تمہارے دین کے مطابق وہ شرک ہے اور تمہاری دعا سے جو اولاد ہوئی ہے وہ یقیناً اس ہی دھرم پر ہو گی نتائج کی ذمہ داری کس پر آتی ہے؟

                اللہ کی طرف سے ہم فقیروں کو حکم ہے…………پیر حاضر شاہ نے سکون سے کہا…………اگر کوئی بندہ ہم سے رجوع کرے تو…………ہم اسے مایوس نہیں کریں گے کیونکہ اللہ سب کا ہے اور اللہ کے دوست بھی اس کی مخلوق کے دوست ہیں۔ الہامی کتاب ہمیں درس دیتی ہے کہ اللہ رب العالمین ہے اور اللہ کے دوست ہمارے نبیﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔ تمام عالموں پر رحمت کرنے والے کیسے کسی کو مایوس کر سکتے ہیں؟

                پنڈت ہری رام نے یہ سن کر ایک لمبی سانس لی اور کہا تم سچ کہتے ہو۔

                اب جہاں تک دعا کے نتائج کی ذمہ داری ہے…………پیر حاضر شاہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا۔ تو میں نے موتی رام سے وعدہ لے لیا تھا کہ اس کی نسل سے پہلی اولاد کو میں تربیت دوں گا۔

                ساوتری کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اپنے دھرم کی نہیں ہے…………پنڈت ہری رام نے پراعتماد لہجہ میں کہا۔ میں نے سوچا کے ہندو کے گھر میں مسلمان نے کیسے جنم لے لیا…………یہی وجہ تھی کہ میں نے اسے شیو بھگوان کی داسی بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا…………لیکن اچانک ہی تمہارا شمشو میرے سامنے آ گیا اور…………

                چھوڑا اب پچھلی باتوں کا ذکر کیا کرنا…………پیر حاضر شاہ نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔

                پیر حاضر شاہ…………پنڈت ہری رام نے انہیں پاٹ دار آواز سے مخاطب کیا…………میں نے شیو بھگوان جیسی شکتی حاصل کرنے میں اپنا جیون گزار دیا…………لیکن …………تم کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ…………اس شکتی سے بھی زیادہ ایک اور شکتی ہے۔ اس شکتی کی چنتا تمہارے پریم نے من میں ڈال دی ہے۔

                پریم…………محبت…………پیار…………یہی تو سب بڑی طاقت ہیں…………پیر حاضر شاہ نے بتایا…………یہ اللہ کی وہ صفت ہے جو بندوں میں بہت کم پائی جاتی ہے…………اور جو اس صفت کو اپنا لیتا ہے وہی اس کے حضور میں شرف باریابی پاتا ہے…………پنڈت ہری رام کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ پرماتما کیا کرتا ہے؟…………اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے، اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔

                محبت…………محبت…………پنڈت ہری رام نے بڑبڑایا۔

                جب اللہ مخلوق سے محبت کرتا ہے تو گیان دھیان کرنے والا بندہ بھی اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے تا کہ اللہ سے محبت کا رشتہ قائم ہو جائے…………پیر حاضر شاہ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔ اور اس سے محبت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق کی ہوئی کائنات سے محبت کی جائے۔ کیونکہ جب کسی کو چاہا جاتا ہے…………کسی کی طلب ہوتی ہے تو مطلوب اس کی ہر شئے سے محبت کرنے لگتا ہے۔

                یہ سن کر پنڈت ہری رام نے چند لمحہ پیر حاضر شاہ کے چہرہ کی طرف غور سے دیکھا…………پھر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا…………اب میں جا رہا ہوں اور اس سمے واپس آئوں گا جب تم جیسی شکتی حاصل کر لوں گا۔

                اللہ تمہیں کامیاب کرے…………پیر حاضر شاہ نے دعا دی۔ پھر اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہوئے بولے کائنات اور کائنات کو بنانے والے کو سمجھنے کے لئے قرآن ایسی کتاب ہے جس سے رہنمائی مل سکتی ہے۔

                قرآن…………یہ تو تمہاری دینی کتاب ہے…………پنڈت ہری رام نے چونک کر پوچھا۔

                یاد رکھو…………کسی کو بھی ڈھونڈنے اور حاصل کرنے کے لئے ایسے رہبر کی تلاش ہوتی ہے جو منزل سے آشنا اور اس ہستی سے اچھی طرح واقف ہو…………وہ دونوں ہی آہستہ آہستہ مسجد کے صحن کی طرف چلنے لگے۔

                پنڈت ہری رام نے ایک لمحہ کے لئے رک کر ان کی طرف دیکھا۔ پیر حاضر شاہ نے بغیر کسی توقف کے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا۔ اللہ نے خود اپنی ذات کی پہچان کے لئے قرآن میں طریقے بتائے ہیں اور یہ سب کچھ ایک کامل انسان محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ پوری نوع انسانی تک پہنچا دیئے ہیں۔

                پھر انہوں نے بڑے ہی خلوص سے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا…………اس سلسلہ میں تم چاہو تو میں ہر طرح کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔

                پنڈت ہری رام نے انہیں استفساریہ نظروں سے دیکھا اور پھر ٹھہرے ہوئے لہجہ میں بولا…………اگر مجھے تمہاری سہاتا کی ضرورت پڑی تو ضرور آئوں گا۔

                اس کے بعد وہ نظروں ہی نظروں میں غائب ہو گیا۔

                شیو بھگوان کے مندر کے پیچھے سورج نے اپنا منہ چھپا لیا…………اور شفق کی لال چادر آسمان پر پھیلاتا چلا گیا…………پھر جوں جوں وہ سمندر کی گہرائی میں اترا۔ شفق کی اس چادر کو بیوہ کے آنچل کی طرح کھینچتا چلا گیا۔ جیسے اسے اپنے ننگے سر ہونے کا خوف ہو پھر…………پھر…………اس کے پیچھے ہی رات نے الھڑ دوشیزہ کی طرح انگڑائی لی…………اور اپنی ‘‘سیاہ زلفوں’’ کو اس طرح پھیلایا کہ ہر شئے پر تاریکی چھاتی چلی گئی۔

                تاریکی…………جو روحوں کی پرچھائیوں کو اجاگر کرتی ہے۔

                تاریکی…………جو عشق و حسن اور جوانی کے جذبات کا ابھارتی ہے۔

                تاریکی…………جو قدرت کے رازوں کو افشاں کرتی ہے۔

                تاریکی…………جو آسمانی انوار کا مشاہدہ کراتی ہے۔

                تاریکی…………وہ نور ہے جو زمین کو گھیر لیتا ہے۔

                تاریکی…………روحوں پر اسرار منکشف کرتی ہے۔

                تاریکی…………انسانی لغزشوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔

                تاریکی اس کائنات کی رازدان ہے اور روشنی اس کی ضد ہے۔ رات کی اس تاریکی کے سایہ تلے رونما ہونے والے واقعات کو چاند بڑی ہی دلفریب مسکراہٹ سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے وہ دلوں کی دھڑکنیں سن رہا ہو۔ اور جسموں کے لمس سے محفوظ ہو رہا ہو۔ پیپل اور نیم کے گھنے درختوں کے درمیان…………شیو بھگوان کے مندر کے آس پاس واقع مکانات میں روشنیاں جل اٹھیں…………جیسے کسی دوشیزہ کی آنکھیں جوانی کے خمار سے چمک اٹھی ہوں۔

                ایسے میں جبکہ ہر طرف طلسمی سکوت چھایا ہوا تھا۔ پنڈت ہری رام شیو بھگوان کی ایستادہ مورتی کے سامنے کھڑا تھا۔

                اس نے کانپتے ہاتھ سے زیتون کے تیل میں ڈوبے ہوئے چراغوں کو روشن کیا۔ اور شیو بھگوان کے چرنوں میں دم توڑتی ہوئی آگ میں عود اور لوبان ڈال دیا۔…………ساری فضا خوشبو سے معطر ہو گئی اور عود و لوبان کا دھواں مرغولے بناتا ہوا اوپر کی جانب اس طرح اٹھا جیسے یہ کوئی آرزوئوں اور امیدوں کی چادر میں لپٹا ہوا انسان ہو۔

                پنڈت ہری رام نے دھویں کے ان مرغولوں کے پیچھے شیوبھگوان کی مورتی پر نگاہیں جما دیں۔ چند لمحوں بعد اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی…………وہ نہایت ہی آہستگی سے کہہ رہا تھا۔

                اے بھگوان…………رات کی اس پر سکون تاریکی میں جبکہ انسان حیات کے مزے لوٹنے میں مصروف ہے میں تجھے اپنی درماندگی کا حال سنانے آیا ہوں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے ۔ پھر وہ ملتجی انداز سے بولا۔

                مجھے بتائو…………یہ شعلہ کیسا ہے جو میرے سینہ میں بھڑک رہا ہے اور جس نے میرے شور کو جھلسنا شروع کر دیا ہے…………یوں لگتا ہے کوئی میری روح کو بیدار کر رہا ہے۔ کوئی مجھے نیند سے اٹھا دینا چاہتا ہے اور میں جاگ رہا ہوں بھگوان…………اس انتظار میں جس کا مجھے علم نہیں۔

                میں کان لگائے ہوں۔ اس آواز پر جس کا شناسا نہیں ہوں۔

                میری نگاہیں متلاشی ہیں۔ اس وجود کی جسے میں پہچانتا نہیں۔

                میں سوچتا ہوں اس مسئلہ پر جو میری فہم سے بالا ہے۔

                پھر اس کی آواز بلند ہو گئی اور اونچی آواز میں کہہ رہا تھا۔

                اے بھگوان…………میں اپنی ذات سے نا آشنا ہوں۔ میں جسم سے بیگانہ ہوں۔ میں جب اپنی آواز سنتا ہوں تو یہ اجنبی معلوم ہوتی ہے۔

                میں جب اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو ساری دنیا غیر مانوس لگتی ہے۔

                اور جب کبھی اپنے وجود کو دیکھتا ہوں تو خود مجھ کو تعجب ہوتا ہے۔ میری روح مجھ سے پوچھتی ہے کہ اے اجنبی تو کون ہے؟

                اے بھگوان…………میں نہیں جانتا کہ یہ دھرتی کیا ہے اور منش نے کس کارن جنم لیا ہے…………مجھے تو تیرے مہان پجاری نے تیرا سیوک بنا دیا تھا۔ نجانے یہ کیسی سیوا ہے جس کے کارن برسوں بعد آج من میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔ پھر وہ سانس لینے کے لئے رکا۔ اور دوبارہ نہایت ہی افسردگی سے بولا۔

                میں نے آج تک اپنے جیون کو تیری مرضی کے تابع رکھا ہے۔ تیرے بغیر تو میں نے سانس بھی نہیں لیا۔ اگر تو کچھ ہے تو میرے من میں روشنی ڈال دے…………میری روح کے اس جزو کو زندہ رکھ…………جس کی خاطر میں لطافتیں حاصل کر سکوں اور تیرا ‘‘مہان’’ ہونے کا پرچار کرتا رہوں۔

                اس کے بعد وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا۔

                اے بھگوان…………رات کی اس تاریکی میں تجھ سے تیرے پریم کی بھکشا مانگ رہا ہوں تیرا سیوک ہوں…………مجھے نراش نہ کر…………میں نے اپنا جیون تیرے چرنوں میں تیاگ دیا ہے…………لیکن پریم کی تڑپ نے میری آتما کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میرا دل میرے سینہ میں گم سم ہے۔

                اے دیوتا…………وہ رقت سے مخاطب ہوا۔

                اگر تو مادی لباس پہنے ہوئے ہے تو مجھے اپنا جلوہ دکھا۔

                اگر تو عناصر کی قید سے آزاد ہے تو میری روح کو بھی کھینچ لے۔ تا کہ میں تیرے درشن کر سکوں۔

                اگر تو ‘‘راز’’ ہے تو اس پردہ کو چاک کر دے جو میرے اور تیرے درمیان حائل ہے۔ اور اگر تو میری ذات میں ہے تو اس دیوار کو ڈھا دے جو میرے سامنے کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پنڈت کو مندر میں بادمرمر کی آواز سنائی دی جو جلد ہی نہایت مترنم گھنٹیوں کی آواز میں بدل گئی۔ یہ آواز پنڈت کے لئے غیر مانوس تھی…………لیکن ……وہ صاف سن رہا تھا۔گھنٹیوں کی اس بازگشت میں کوئی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ محبت………محبت………محبت……پریم۔

                پریم…………انسان اور اس کائنات کی حقیقت پریم ہی تو ہے۔

                پریم…………اشرف و اعلیٰ معرفت ہے۔

                پریم…………سے آتما کو نروان حاصل ہوتا ہے ایسا نروان…………جو انسانی بصیرت کو اجاگر کر دیتا ہے اور پھر اسے ہر شئے حقیقت کے روپ میں نظر آنے لگتی ہے…………تمہاری روح، پریم پیاسی ہے۔ تمہاری آتما پیاس سے تڑپ رہی ہے اور تمہارے چاروں جانب معرفت کے چشمے جاری ہیں۔ پھر تم اپنی پیاس کیوں نہیں بجھاتے…………کیوں نہیں بجھاتے۔

                اس کے ساتھ ہی گھنٹیوں کی آواز دور ہوتی جا رہی تھی…………پنڈت ہری رام نے چونک کر اپنے اطراف میں اس طرح سے دیکھا جیسے نیند سے بیدار ہوا ہو۔

                چراغوں کی ٹمٹماتی روشنی میں اس کے چہرہ پر تلاش کی پرچھائیاں چھا گئیں۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں صاف و شفاف فضا میں جمی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن سن رہا تھا اور اس کی روح کروٹ بدل رہی تھی۔ اس کے جذبات…………احساسات و ادراک کی حدود میں منتقل ہو رہے تھے۔

                وہ اپنے غم سے خوش تھا اس کی نمناک نگاہیں فطرت کے حقیقی مناظر کو دیکھ رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ذات روحانی کیفیات اور سرور سے محروم ہے۔ جس طرح آنکھ بصارت کے منبع کو دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔

                وہ اس ہی طرح سوچ میں غرق اپنی کوٹھری کی طرف چل دیا۔

                وقت ساعتوں لمحوں…………منٹوں اور گھنٹوں میں تبدیل ہوتا ہوا سالوں پر محیط ہو گیا۔ پنڈت ہری رام کو پھر کسی نے مندر میں یا اس بستی میں نہیں دیکھا…………لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے ‘‘بن باس’’ لے لیا ہے۔

                اس عرصہ میں دیوان موتی رام کو بھی اجل نے اچک لیا اور پیر حاضر شاہ بھی ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دکھائی دیئے۔

                ان کے گھر کا دروازہ اب بھی ہر وقت کھلا رہتا تھا اور حسین و جمیل ساوتری جو بچپن ہی سے دیوانی کے نام سے مشہور تھی۔ اس ویران گھر میں آتی رہتی ھی اس کے پتا کے مرنے کے بعد بھائیوں نے ‘‘دیوانی بہن’’ پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی اور اس کے دکھ سکھ کا انحصار بھاوجوں پر تھا۔

                بھاوجوں نے اس پر ظلم ڈھانا شروع کر دیا تھا…………وہ کئی کئی دن تک اسے کھانے کو نہیں دیتیں۔ اور جب کبھی وہ حالت استغراق میں ہوتی تو نہ صرف یہ کہ اسے برا بھلا کہتیں…………بلکہ سب مل کر مارنے بھی لگ جاتیں۔ ایسی حالت میں ساوتری کے لئے جائے پناہ پیر حاضر شاہ کا مکان تھا۔

                جب بھاوجیں اس کو مارنے سے باز نہیں آتیں تو وہ اپنے گھر سے نکل کر اس مکان میں آ جاتی۔ ایک دو بار ایسا بھی ہوا کہ ساوتری نے ہلکے سے کسی بچے کے چپت رسید کی تو اس کی ماں ڈنڈا لے کر اس کے تعاقب میں پیر حاضر شاہ کے مکان تک آ گئی…………لیکن…………ساوتری ہمیشہ برق رفتاری سے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا کرتی تھی۔

                پھر جب بھاوجوں کا ظلم حد سے زیادہ بڑھا اور ساوتری کے جسم پر زخم بھی پڑنے لگے تو اس نے اپنے گھر جانا ہی چھوڑ دیا…………اب وہ دن رات اس خالی مکان میں گزارتی تھی…………جب کبھی اس کا دل چاہتا تو اپنے گھر کی طرف چلی جاتی ورنہ دنوں ادھر کا رخ نہ کرتی۔

                خان بہادر زندہ تھے…………وہ بہت زیادہ بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ ساوتری کی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھے لیکن وہ …………اس سلسلہ میں کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ فرقہ وارانہ فساد سے ڈرتے تھے۔ ساوتری بظاہر ہندو تھی پھر وہ دیوانی تھی۔ اس کی اس دیوانگی کی وجہ سے ہندو خاموش تھے پھر بھی وہ…………کئی بار اس بات پر اظہار نفرت کر چکے تھے کہ ساوتری ہندو ہو کر ایک مسلمان پیر کے گھر میں کیوں بسیرا کئے ہوئے ہے…………لیکن انہیں اطمینان تھا کہ وہ ‘‘دیوانی’’ ہے۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔