Topics

پنڈت کی کامیابی


                وہ چلتا رہا…………چلتا رہا…………رات ختم ہو گئی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو پار کیا اور ہندوئوں کے شمشان گھاٹ پر پہنچ گیا۔

                یہ سینکڑوں سال پرانا قبرستان تھا۔ جس میں جا بجا چتا کی راکھ بکھری ہوئی تھی اور ان کے نیچے سے ادھ جلی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔

                ہندو نابالغ بچوں کی چتا بنا کر جلاتے نہیں ہیں بلکہ انہیں زمین میں دفن کر دیتے ہیں ان کے نظریہ کے مطابق وہ معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ ان کو نرکھ (دوزخ)) سے بچانے کی خاطر آگ میں نہیں جلایا جاتا۔

                پنڈت ہری رام اپنے منتر کے خیال میں مگن چلا جا رہا تھا…………پھر اس کے قدم خود بخود رک گئے کوئی نادیدہ طاقت اسے کھینچتی ہوئی ایک قبر کے پاس لے آئی تھی وہ چند لمحے کھڑا رہا۔ اور پھر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ منتر اب بھی اس کے لبوں پر تھا۔

                اسے قبر کے پاس بیٹھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ مرگھٹ کے ایک کونے سے بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پنڈت ہری رام نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں لیکن وہ وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔

                پنڈت ہری رام دوبارہ منتر پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔

                اور پھر…………جب صبح کا اجالا پھیلا تو اس نے قبر کے سرہانے دھوئیں کی ایک باریک سی لکیر کو دیکھا۔ پلک جھپکتے میں اس لکیر نے انسانی روپ دھار لیا۔ اب قبر کے پاس ایک کم سن حسین لڑکی اسے جامد نگاہوں سے گھور رہی تھی۔ پنڈت ہری رام نے بھی اپنی نگاہیں اس کے چہرہ پر مرکوز کر دیں۔

                چند سیکنڈ بعد…………لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔

                داسی حاضر ہے مہاراج۔

                کون ہو تم؟…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔

                میں آپ کی داسی کنوتھ ہوں…………معصوم صورت لڑکی نے جواب دیا۔

                کنوتھ…………پنڈت ہری رام خوشی سے چلایا۔

                اس کے وہم و گمان کے برعکس کنوتھ اس کے سامنے حاضر تھی۔ اس نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پوچھا:

                میں جو کہوں گا کرے گی؟

                ضرور کروں گی مہاراج…………کنوتھ نے ادب سے گردن جھکا کر جواب دیا…………پر مہاراج پہلے میری انگلی لا دیجئے۔

                انگلی…………پنڈت ہری رام نے گھبرا کر پوچھا…………کیسی انگلی…………کونسی انگلی۔

                یہ انگلی مہاراج…………کنوتھ نے اپنا دائیاں ہاتھ اوپر اٹھا کر پنجہ دکھایا…………اس کے درمیان کی انگلی جو کہ دوسری انگلیوں سے قدرے لمبی ہوتی ہے اپنی جگہ سے غائب تھی اور اس جگہ سرخ خون کا نشان تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کسی شقی القلب انسان نے تیز دھار آلہ سے اس کی انگلی کاٹ دی ہے۔

                پنڈت ہری رام کے سینہ میں ایک دم جذبہ ہمدردی پیدا ہو گیا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا کنوتھ نے نہایت درد ناک لہجہ میں بتایا۔

                مہاراج۔ یہ حرکت ایک مہا پرش سادھو کی ہے۔ اس کے من میں کھوٹ تھا۔ بھگوان کا سیوک ہو کر اس نے میری آتما کو بیاکل کر دیا۔

                لیکن وہ تیری انگلی کس طرح لے گیا…………پنڈت ہری رام نے بے قراری سے پوچھا۔

                جس منتر کے ذریعے تم مجھ تک پہنچے ہو…………کنوتھ نے جواب دیا۔

                اس ہی کارن اس نے میری آتما کو جگایا اور پھر وہ پاپی میری انگلی کاٹ کر لے گیا۔ بس جب ہی سے میں بیاکل ہوں۔

                تمہاری انگلی لے جانے سے اس کا کیا مطلب تھا؟

                میری انگلی جس کے پاس ہوتی ہے میں اس کی داسی بن جاتی ہوں…………کنوتھ نے افسردگی سے کہا۔ پھر اپنے سیوک کی ہر آگیا کا پالن کرنا میرا دھرم بن جاتا ہے مہاراج۔

                اب وہ انگلی کس کے پاس ہے…………پنڈت ہری رام نے بڑے ہی اشتیاق سے پوچھا۔

                رتنا دیوی کے پاس…………کنوتھ نے مختصراً جواب دیا۔

                یہ کون ہے…………پنڈت ہری رام نے پوچھا۔ پھر سوچ کر بولا…………وہ رام لال نائی کی پتنی تو نہیں۔

                ہاں…………ہاں…………وہی۔ کنوتھ نے جلدی سے جواب دیا۔ پھر ہاتھ جوڑ کر التجا آمیز لہجہ سے بولی میں بنتی کرتی ہوں۔ مجھے وہ واپس لا دو۔ نہیں تومیرا جیون اس ہی کھشٹ میں گزرے گا۔ میری آتما سدا بیاکل رہے گی۔

                ٹھیک ہے…………میں لائے دیتا ہوں۔ پنڈت ہری رام نے ہمدردی سے کہا اور ایک عزم کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔

                جلدی جائو مہاراج…………جلدی…………کنوتھ نے معصومیت سے کہا…………اگر یہ شبھ گھڑی نکل گئی تو پھر کبھی نہیں آئے گی…………کبھی نہیں آئے گی۔

                میں جا رہا ہوں…………پنڈت ہری رام نے آخری الفاظ ادا کئے اور واپس مڑ گیا۔ اب وہ مرگھٹ کے باہر جانے والے راستہ پر چل رہا تھا…………اور دور آسمان کے افق پر صبح صادق کا اجالا آہستہ آہستہ پھیلتا جا رہا تھا۔

٭×××××××××××٭

                جس وقت پنڈت ہری رام…………رام لال نائی کے گھر پہنچا تو سپیدہ سحر نمودار ہو چکا تھا اور آسمانوں پر سورج کی آمد کی بازگشت شفق کی صورت میں دکھائی دے رہی تھی۔ سڑکوں پر اکا دکا آدمی جا رہے تھے اور گھر اور دوکانوں کے دروازے بند تھے اور ان کے مکین صبح نو کے استقبال کے لئے کروٹیں بدل رہے تھے۔

                رام لال نائی کی دکان کا دروازہ بند تھا۔ پنڈت ہری رام نے سوچا کہ یہ لوگ ابھی تک سو رہے ہیں۔ لہٰذا اس نے دروازہ پر دستک دینے کی خاطر زور سے ہاتھ مارا۔

                دروازہ پر ہاتھ پڑتے ہی وہ دھڑکی آواز کے ساتھ ہی کھل گیا…………پنڈت ہری رام نے اندر جھانک کر دیکھا۔ دکان خالی پڑی تھی۔ وہ اندر داخل ہو گیا۔ پھر اس نے دیوار میں بنے ہوئے دروازہ کے قریب کھڑے ہو کر رام لال نائی کو پکارا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔

                پنڈت ہری رام نے سوچا ممکن ہے وہ اندر کمرہ میں اپنی بیوی کے پاس ہو۔ لہٰذا وہ اسے آواز دیتا ہوا کمرہ میں داخل ہو گیا۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ حتیٰ کہ استعمال کی اشیاء تک نہیں تھیں۔ دیواروں اور چھت کے ساتھ مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے لٹک رہے تھے اور بڑی بڑی چھپکلیاں فرش پر رینگ رہی تھیں۔

                آخر یہ سب کہاں چلے گئے…………پنڈت ہری رام نے سوچا پھر اچانک اس کی نظر دیوار میں بنے ہوئے طاق پر پڑی۔ طاق میں پہلے ہی کی طرح دو چراغ رکھے ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک روشن تھا اور دوسرا خالی تھا۔ ان دونوں چراغوں کے پیچھے ایک لفافہ رکھا ہوا تھا۔ پنڈت ہری رام نے قدم بڑھائے اور…………طاق میں سے لفافہ اٹھا لیا۔ اس نے لفافہ کھولا تو اس میں سے رام لال نائی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ملی۔

                اس نے لکھا تھا۔

                پنڈت ہری رام…………میں تمہیں کنوتھ کا جاپ پورا کرنے پر اشیرواد دیتا ہوں۔ تم کنوتھ کا جاپ ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہو۔ جس کا ثبوت میری پتنی رتنا دیوی جو کہ ایک سال سے ایڑیاں رگڑ رہی تھی ختم ہو چکی ہے…………

                میرے دوست…………کنوتھ جس کے قبضہ میں ہوتی ہے موت اس سے روٹھ جاتی ہے اور جیون کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہ سسکتا رہتا ہے…………تم میری پتنی کی حالت دیکھ چکے ہو۔ اسے ایک سال قبل ہی مر جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کے قبضہ میں کنوتھ ہوتی ہے اس کا جیون نہایت ہی شاندار گزرتا ہے…………جیسا کہ تمہیں میں نے بتایا تھا کہ وہ ایک پوتر معصوم آتما ہے۔ دنیا کا کٹھن کام وہ چند سیکنڈ میں کر ڈالتی ہے۔ اس کو پانے والا اس سنسار میں راج کرتا ہے۔ لیکن جب اس کے سیوک کا جنم ختم ہوتا ہے تو یہ بڑا المناک ہوتا ہے۔ انسان زندہ رہ کر مردوں سے بدتر ہوتا ہے…………اور اس وقت تک نزع کا عالم طاری رہتا ہے جب تک کنوتھ کسی اور کے قبضہ میں نہ چلی جائے۔ میری پتنی کنوتھ کو اپنے ساتھ ہی ماتا پتا کے گھر سے لے کر آئی تھی۔ کنوتھ کی بدولت میں نے اپنے جیون کے پچاس سال نہایت ہی سکھ سے گزارے۔ میری کونسی ایسی آشا تھی جسے کنوتھ نے پورا نہیں کیا…………

                میری پتنی…………اس کی سیوک تھی…………اس سے پہلے اس کی ماں سیوک تھی اور اس سے پہلے اس کی ماں سیوک تھی اور اس سے پہلے اس کی ماں…………اور ہر ایک نے موت کے وقت کنوتھ کو عذاب سمجھ کر دوسرے کو دے دیا۔ یہ کنوتھ میرے خاندان کی داسی کس طرح بنی۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے جسے سننا فضول ہے۔ میرے دوست…………اب کنوتھ تمہاری ہے۔ طاق میں رکھے ہوئے دو چراغوں کو اٹھا لو۔ اور اپنے گھر لے جائو۔ جب تمہیں کوئی مصیبت یا پریشانی پڑے تو یہی منتر پڑھ کر چراغ میں رکھی ہوئی اس کی انگلی پر پھونکنا اور زیتون کے جلتے ہوئے چراغ سے روشن کر دینا…………کنوتھ حاضر ہو جائے گی اور پھر تم اسے جو بھی حکم دو گے وہ پورا کرے گی۔

                لیکن خبردار…………یہ انگلی اسے کبھی واپس نہ کرنا…………وہ ہر نئے سیوک کے قابو میں آنے سے قبل اس انگلی کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر تم نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی تو نہ صرف تمہاری یہ کٹھن تپسیا اکارت جائے گی۔ بلکہ تم کنوتھ کے انتقام کا نشانہ بھی بن جائو گے۔ وہ اپنی بے بسی کا برسوں پرانا انتقام تم سے لے گی۔ وہ تم پر ایسی کھٹنائیں لائے گی۔ جس کا توڑ اس سنسار میں نہیں ہے بس۔ کنوتھ کی التجائوں پر کان نہ دھرنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خود ذمہ دار ہو گے۔

                جب تم میرے کان میں چراغ لینے پہنچو گے تو میں اپنی پتنی کے کریا کرم سے فارغ ہو کر یہاں سے ہزاروں میل دور اپنے بیٹوں کے پاس امریکہ جا چکا ہوں گا۔ ایشور تمہیں سدا سکھی رکھے۔

                تمہارا دوست

                رام لال چنا۔

                خط پڑھنے کے بعد وہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ کنوتھ کی معصوم صورت اس کی آنکھوں میں گھومنے لگی۔

                اگر…………اگر…………میں کنوتھ کی انگلی واپس کر دوں تو…………اس نے سوچا…………پھر اس کی نگاہیں رام لال کی تحریر پر پڑ گئیں…………جو کہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔

                اس نے کئی بار خط پڑھا…………اس کی نظروں میں رام لال کی بیوی کا سراپا گھوم گیا۔ اف…………کتنی خوفناک تھی وہ۔ بالکل قبر کا مردہ دکھائی دیتی تھی۔

                اس کے ساتھ ہی اسے یقین ہو گیا کہ رام لال نے کو کچھ بھی لکھا ہے سچ ہے۔ اس نے انگلی واپس نہ کرنے کا تہیہ کر لیا اور دونوں چراغوں کو اٹھا کر باہر نکل آیا۔ دکان سے باہر نکلتے ہی اس نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ کونے میں بیٹھا مسواک کر رہا تھا۔

                اس نے سوچا کہ شاید یہ شخص پڑوسی ہے۔ اس سے معلوم کرنا چاہئے کہ رام لال یہاں سے کب گیا۔

                پنڈت ہری رام اس شخص کے پاس پہنچا اور جب اس سے معلوم کیا کہ رام لال کب یہاں سے گیا۔ تو اس شخص نے بتایا کہ آج سے تقریباً تین ماہ قبل اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا اور اس سانحہ کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ یہاں سے چلا گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد یہ گھر ویران اور ڈرائونا نظر آنے لگا۔ جس کی وجہ سے ابھی تک اس میں رہنے کو کوئی نہیں آیا۔

                تین ماہ گزرنے کا خیال آتے ہی پنڈت ہری رام چونک اٹھا۔ اس کا خیال تھا کہ ابھی صرف ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا لیکن…………جب اسے معلوم ہوا کہ تین ماہ گزر چکے ہیں تو اسے اپنے گھر کا خیال آیا وہ اپنی بیوی سے صرف ایک ہفتے کا کہہ کر آیا تھا اب…………اس کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔

٭×××××××××××٭

                جس وقت پنڈت ہری رام گھر پہنچا تو ویرانی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ مکان میں جا بجا کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا اور اندر کمرہ میں کوشیلا ایک ٹوٹے ہوئے پلنگ پر لیٹی تھی۔ اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے…………معلوم ہوتا تھا وہ عرصہ سے بیمار ہے۔

                ہری رام کو دیکھتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ اس کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکلنے لگیں۔ ہری رام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے آگے بڑھ کر کوشیلا کو سہارا دے کر اٹھایا اور گود میں لیتے ہوئے پوچھا…………تمہاری یہ حالت کیسے ہو گئی ہے؟…………کوشیلا نے دبی دبی سسکیوں کے درمیان شکوہ سے کہا۔

                تم تو صرف ایک ہفتہ کا کہہ کر گئے تھے۔ جب کہ آج تین ماہ بعد آئے ہو۔ میں تو سمجھی تھی کہ بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو گیا ہے۔

                ہری رام نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

                کہ وہ جس مقصد کی خاطر اسے چھوڑ گیا تھا…………وہ حاصل ہو چکا ہے اور اب اسے کسی قسم کی چنتا کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر اس نے کوشیلا کو دوبارہ پلنگ پر لٹا دیا اور دوسرے کمرہ میں اپنی پڑھنت آزمانے کی خاطر چلا گیا۔

                یہ کمرہ بھی مٹی دھول سے اٹا ہوا تھا۔ گرہستی کا جو بھی سامان تھا۔ کوشیلا نے ان تین ماہ کے دوران بیچ دیا تھا۔ پنڈت ہری رام نے کمرہ کا ایک کونہ صاف کیا…………اور دونوں چراغ رکھ دیئے…………پھر…………پھر اس نے زیتون کے تیل والا چراغ جلا دیا…………اور…………اور…………منتر پڑھ کر چراغ میں رکھی ہوئی انگلی پر پھونک مار کر اسے زیتون والے چراغ سے جلا دیا۔

                انگلی نے فوراً ہی آگ پکڑ لی۔

                پنڈت ہری رام کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ اپنی ماورائی طاقتیں کھونے کے بعد یہ پہلا اتفاق تھا کہ وہ کسی غیر مانوس مافوق الفطرت ہستی کے لئے عمل کر رہا تھا۔

                جوں…………جوں…………انگلی پر لو بلند ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے دل میں عجیب طرح کی اضطرابی کیفیت بھی پیدا ہوتی جا رہی تھی…………اور…………پھر جب لو اچھی خاصی بلند ہو کر بالکل سیدھی کھڑی ہو گئی تو کنوتھ اسی انداز سے نمودار ہوئی۔ جس انداز میں وہ رام لال نائی کے مکان میں دیکھ چکا تھا۔

                داسی حاضر ہے مہاراج…………کنوتھ ہاتھ جوڑ کر اس سے کھنکتی ہوئی آواز میں مخاطب ہوئی۔

                پنڈت ہری رام حیرت و استعجاب سے اسے تکے جا رہا تھا…………یہ پہلا اتفاق تھا جب کہ اتنی حسین اتنی سندر کنیا بیر کے روپ میں اس کے سامنے موجود تھی۔

                جب وہ ماورائی طاقت کا مالک تھا تو اس کے قابو میں بڑے بڑے بیر تھے۔ لیکن وہ سب بدصورت، ہیبت ناک اور خوفناک راکھشس قسم کے تھے۔

                کیا وچار کر رہے ہیں مہاراج…………کنوتھ نے اسے خاموش دیکھ کر پیار سے پوچھا۔

                میں…………میں…………میری…………پتنی بیمار ہے…………پنڈت ہری رام نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بمشکل تمام کہا۔

                بس…………اتنی سی بات…………کنوتھ نے مسکرا کر جواب دیا۔

                اور اس کے ساتھ ہی زیتون کے چراغ کے پیچھے ایک چھوٹی سی شیشی نظر آئی۔ بالکل ایسی جیسی ڈسٹل واٹر کی ہوتی ہے۔

                یہ پانی پلا دو…………ٹھیک ہو جائے گی…………کنوتھ نے کہا۔

                پنڈت ہری رام نے ایک بار پھر حیرت سے شیشی پر آنکھیں گاڑ دیں…………جیسے اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر اس نے شیشی کو ہاتھ میں اٹھا لیا اور نہایت ہی حیرانگی سے پوچھا۔

                کنوتھ یہ تم کہاں سے لائیں…………اس میں کیا ہے۔

                اس میں پوتر گنگا جل ہے۔ کنوتھ نے جواب دیا۔ اسے جو پیتا ہے امر ہو جاتا ہے۔ اپنے من میں کھوٹ نہ لائو اور اپنی پتنی کو پلا دو۔

                تم…………تم…………اور کیا کر سکتی ہو؟…………پنڈت ہری رام نے سنبھل کر پوچھا۔

                اپنے سیوک کی آگیا کا پالن کرنا۔ میرا کام ہے…………کنوتھ نے گردن جھکا کر جواب دیا۔

                اچھا…………تم…………تم…………میری مالی مدد کر سکتی ہو؟…………پنڈت ہری رام نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

                کیوں…………نہیں…………کنوتھ نے جواب دیا…………اور ساتھ ہی ایک کونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ وہ دیکھو۔

                پنڈت ہری رام نے اس کونے کی طرف دیکھا۔ سنہرے رنگ کی ایک ڈلی چمک رہی تھی۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیا۔

                کنوتھ…………تم…………تم…………تو بہت ہی اچھی ہو…………اس نے تشکر آمیز لہجہ میں کہا۔

                اب تم میری آشا پوری کر دو…………کنوتھ نے معصومیت سے کہا…………میری انگلی واپس دے دو۔

                انگلی کا نام سنتے ہی پنڈت ہری رام چونک اٹھا۔ اس نے کنوتھ پر نظریں جما دیں۔ یہ چھوکری تو بڑے کام کی ہے…………اب وہ بھی انگلی واپس نہیں کرنا چاہتا تھا…………کئی برس بعد اسے یہ ماورائی ہستی نصیب ہوئی ہے۔

                میں انگلی واپس نہیں کروں گا…………پنڈت ہری رام نے اسے ڈانٹا۔

                پنڈت ہو کر بھی تمہارے من میں کھوٹ ہے۔ تم لالچی ہو…………کنوتھ نے نہایت ہی غمزدہ ہو کر کہا…………نجانے بھگوان کب میرا کھشٹ ختم کرے گا۔

                اس کے ساتھ ہی پنڈت ہری رام نے منہ آگے بڑھا کر جلتے ہوئے چراغ پر پھونک مار دی۔ وہ مزید کنوتھ کی بات نہیں سننا چاہتا تھا۔

                لو…………فوراً ہی بجھ گئی۔ اور اس کی جگہ سفید دھوئیں کی ایک باریک سی لکیر اوپر کو اٹھ کر فضا میں تحلیل ہو گئی۔

                پنڈت ہری رام نے ایک ہاتھ میں سونے کی ڈلی اور دوسرے ہاتھ میں پانی کی شیشی اٹھا لی اور کمرہ کے باہر نکل آیا پھر اس نے کمرہ بند کر کے اوپر کی جانب لٹکی ہوئی زنجیر چڑھا دی اور خوشی سے جھومتا ہوا کوشیلا کی جانب چل دیا۔

                کمرہ میں پہنچ کر اس نے اپنی بیوی کو اٹھایا اور گنگا جل کی پوری شیشی اس کے حلق میں انڈیل دی…………اس نے کوشیلا کو تمام باتیں بتا دیں۔ پھر سونے کی ڈلی ہاتھ میں تولتے ہوئے بولا۔

                یہ کافی وزنی معلوم ہوتی ہے تم کسی قسم کی فکر نہ کرنا۔ میں ابھی آتا ہوں اس کے بعد وہ بازار چلا گیا۔

                سونے کی ڈلی واقعی کافی وزنی تھی۔ اسے فروخت کرنے سے پنڈت ہری رام کو اس کی توقع سے کہیں زیادہ پیسے مل گئے۔ اس نے نہ صرف اپنے مکان میں ضروری زندگی کی ہر چیز ڈال لی۔ بلکہ مکان کو بھی اس زمانے کے لحاظ سے جدید بنوا لیا۔

                اس کے پاس کافی روپیہ بچ رہا۔ اس کی بیوی کوشیلا نے اسے مشورہ دیا کہ اس پیسے سے زمینداری شروع کر دی جائے تا کہ ہمیشہ کے لئے نہ صرف معاش کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ بلکہ کنوتھ کے ذریعہ ملنے والی دولت کا بھی کسی کو نہیں معلوم ہو سکے گا۔

                مشورہ نہایت ہی مفید تھا لہٰذا پنڈت ہری رام نے سکھر سے چند میل دور ہجرت کر کے جانے والے ہندو کا بڑا سا باغ خرید لیا۔ اس باغ میں آم، انار، سنگتروں اور دوسرے بہت سے میوئوں کے درخت لگے ہوئے تھے۔ اس باغ سے تھوڑے فاصلہ پر سکھر بیراج سے جاری ہونے والی ایک نہر گزرتی تھی۔ جس کے کنارے پر ڈیزل موٹر انجن لگا ہوا تھا۔ جس کے ذریعہ باغ کو سیراب کیا جاتا تھا۔

                پوتر گنگا جل پینے کے بعد کوشیلا تندرست ہو چکی تھی۔ پنڈت ہری رام کو اس سے سچا پریم تھا…………محبت تھی وہ ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا۔ خوشحالی نے کوشیلا کا رنگ و روپ نکھار دیا اور وہ پھر پہلے کی طرح جوان و خوبصورت دکھائی دینے لگی۔

                جب دولت کی ریل پیل ہوتی ہے تو لوگ خواہ مخواہ دوست بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی حال پنڈت ہری رام کا تھا لوگ خواہ مخواہ اسے سلام کرتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں اس کے گرد ایسے لوگوں کا حلقہ قائم ہو گیا جو کہ اچھے کردار کے مالک نہیں تھے۔

                پنڈت ہری رام نے کبھی کسی کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ہندو ہے۔ اس کا لباس عام پاکستانی مسلمانوں جیسا تھا اور دولت مند ہونے کی وجہ سے لوگ احتراماً اسے سیٹھ جی یا سائیں کہہ پر پکارتے تھے۔

                وہ شراب کو برا نہیں سمجھتا تھا…………اور جب اس ہی قماش کے دوسرے لوگ بھی مل گئے۔ تو خوب مزے سے شراب و کباب کا لطف اٹھایا جانے لگا…………اس مقصد کی خاطر ہفتہ میں دو بار سب دوست ایک جگہ جمع ہو کر رنگ رلیاں منایا کرتے تھے۔

                پنڈت ہری رام کے پاس کیونکہ پیسہ تھا لہٰذا ایسی پارٹیوں کے تمام اخراجات وہی اٹھاتا تھا اور یار لوگ خوب جی بھر کے اس کی دوستی اور دریا دلی کی تعریف کیا کرتے تھے۔

                پنڈت ہری رام جانتا تھا کہ یہ سب میری دولت کے رسیا ہیں…………اور یہ دولت جسے وہ دوستوں کی خوشنودی کی خاطر دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا تھا بغیر کسی محنت و مشقت کے اسے حاصل ہوئی تھی۔

                پنڈت ہری رام نے اپنے دوستوں کی تفریح و طبع کی خاطر باغ میں آم کے درختوں کے درمیان دو کمروں کا چھوٹا سا پکا مکان بنوا لیا تھا۔

                باغ کے آخری سرے پر گھاس پھوس کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے جن میں وہ کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے جو کہ پنڈت کے باغ میں کام کرتے تھے۔

                پنڈت ہری رام تقریباً ہر روز باغ میں جایا کرتا تھا اور اس مقصد کی خاطر اس نے نہایت ہی خوبصورت گھوڑا گاڑی بنوا لی تھی۔

                اس زمانے میں موٹر گاڑیوں کا عام رواج نہیں تھا۔ اور اندرون سندھ کے بڑے بڑے رئیس تانگوں میں گھوما کرتے تھے جن کی بناوٹ اور سجاوٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ جب بھی باغ میں جاتا تھا ساتھ دو چار دوست ضرور ہوتے تھے۔ ہمارے معاشرہ میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کی تمام عمر دوسروں کے سہارے گزرتی ہے۔

                پنڈت ہری رام کا تانگہ جونہی باغ میں داخل ہوتا کسان سندھی رواج کے مطابق اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے…………اسے باغ کی تفصیل اور اپنی ضرورت بتاتے۔ جب تک پنڈت باغ میں گھومتا رہتا۔ وہ ہاتھ باندھے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے۔

                پھر جب وہ اپنے مکان میں جاتا جسے اوطاق کہا جاتا ہے۔ تو زمینوں کا منشی جو کامدار کہلاتا تھا اس کے ساتھ ہوتا۔ اس کے دوستوں کے لئے شراب کا انتظام کرتا…………اور پھر باہر اینٹوں کے ڈھیر پر اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک وہ سب واپس نہیں چلے جاتے۔

 


 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔