Topics

موتی رام


 

                بھئی مجھے خود کچھ نہیں معلوم۔ خان بہادر نے خوش دلی سے جواب دیا۔ بس پیر صاحب کا حکم تھا کہ جب تک ولادت نہ ہو جائے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دوں۔

                اور اس ہی وجہ سے تم نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا۔ دیوان موتی رام نے ایک بار پھر شکوہ کیا۔ اور پھر سرگوشی سے بولے۔ یہ پیر تو کوئی مہان گیانی معلوم ہوتا ہے جس نے تمہاری برسوں کی خواہش اس عمر میں پوری کر دی۔

                بھئی پیر تو ایسا ہی ہے…………خان بہادر نے کہا…………جب تمہاری بھابھی کا پیر بھاری ہوا تھا۔ تب ہی سے مجھے کچھ کچھ یقین سا ہو چلا تھا…………اور اب…………بیٹا ہونے کے بعد مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ یہ پیر کامل اور سچا ہے۔

                یار…………یہ ہے کون؟…………دیوان موتی رام نے بڑے ہی اشتیاق سے پوچھا۔

                ارے۔ اپنے ہی محلے کے پیر حاضر شاہ۔ خان بہادر نے مسکرا کر بتایا۔

                پیر حاضر شاہ…………دیوان موتی رام نے چونک کر پوچھا…………وہ پیپل والے۔

                ہاں…………ہاں…………وہی…………خان بہادر نے جتایا۔

                یار…………وہ تو بچپن سے پیر بنا ہوا ہے…………دیوان موتی رام نے لاپروائی سے کہا۔ تمہیں تو یاد ہو گا کہ جب ہم دونوں اسکول جایا کرتے تھے تو یہ پاگلوں جیسی حرکتیں کیا کرتا تھا۔

                ہاں۔ بات تو یہی ہے ۔ خان بہادر نے جواب دیا۔

                ان کے بارے میں تو سنا ہے کہ اب بھی بے تکی باتیں کرتے ہیں…………دیوان موتی رام نے کہا…………شام کو سورج ڈھلنے کے بعد پیپل کے درخت کے نیچے آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور گپیں لگاتے رہتے ہیں۔

                درحقیقت بات یہ نہیں ہے…………خان بہادر نے سوچتے ہوئے کہا۔ پہلے میں بھی انہیں ایسا ویسا ہی سمجھتا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ سے میں نے شام کا وقت گزارنے کی خاطر ان کے پاس جانا شروع کر دیا تھا…………اور وہاں مجھے معلوم ہوا کہ انہیں نہ صرف قدیم و جدید علوم آتے ہیں بلکہ وہ کئی مخفی علوم کے بھی ماہر ہیں۔ دربار رسالتﷺ میں بھی ان کی رسائی ہے۔

                کیا مطلب…………دیوان موتی رام نے تجسس سے پوچھا۔

                ان کے پاس طرح طرح کے لوگ آتے ہیں…………خان بہادر نے سنبھل کر کہا…………ایک سے ایک قابل۔ اور وہ ایسے ایسے ٹیڑھے سوال کرتے ہیں۔ جنہیں سن کر عقل چکرا جاتی ہے۔ لیکن پیر حاضر شاہ ایسا ترت جواب دیتے ہیں کہ نہ صرف سوال کرنے والا حیران رہ جاتا ہے بلکہ جس تجسس کی بنا پر وہ سوال کرتا ہے۔ اس سے بھی مطمئن ہو جاتا ہے۔

                یہ تو تم عجیب نے عجیب بات بتائی ہے۔ دیوان موتی رام نے تعجب سے کہا۔

                 میری تو خود کچھ سمجھ میں نہیں آتا…………خان بہادر نے تعریف کرتے ہوئے کہا…………کونسا ایسا علم ہے؟ کونسا ایسا مضمون ہے جس کے بارے میں پیر حاضر شاہ کو معلوم نہ ہو۔ نفسیات، اسلامیات، اقتصادیات، فلکیات، روحانیات غرضیکہ کسی بھی علم کے تعلق سے سوال کرو۔ ایسا مدلل جواب دیں گے کہ پھر مزید سوال کی گنجائش نہیں رہتی۔

                لیکن وہ پڑھے لکھے تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ دیوان موتی رام نے تعجب و تجسس سے پوچھا۔

                میں تو خود اس بات پر حیران ہوں۔ خان بہادر نے جواب دیا کہ الف سے ب تک تو پڑھی نہیں۔ لیکن بات کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ علم کا دریا بہہ رہا ہے۔ ایسے ایسے نقطوں کی وضاحت کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

                ہونہہ…………دیوان موتی رام نے گہری سانس لے کر کہا…………سنا ہے کہ کوئی ان کا چیلا یعنی مرید بھی ہے۔

                نہیں۔ خان بہادر نے برجستہ کہا۔ ان کا مرید تو کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک لڑکا ملازم ہے شمشو اس کا نام ہے۔

                وہ کیا کرتا ہے؟…………دیوان موتی رام نے پوچھا۔

                بس کرتا کیا ہے۔ خان بہادر نے جواب دیا۔ کچھ عجیب سا لڑکا ہے۔ عشاء کے بعد جب پیر حاضر شاہ پیپل کے نیچے آ کر بیٹھتے ہیں تو لالٹین ہاتھ میں لئے کھڑا رہتا ہے۔

                سنا ہے…………اس کی آنکھیں بڑی ہی ڈرائونی ہیں۔ دیوان موتی رام نے قدرے خوف سے کہا۔

                ہاں…………سنا تو میں نے بھی یہی ہے…………خان بہادر نے مسکرا کر جواب دیا۔ لیکن وہ تو سارا وقت نظریں نیچے کئے کھڑا رہتا ہے۔

                اس کے ساتھ ہی ملازم ایک ٹرے میں چائے اور مٹھائی لے کر آ گیا۔ پھر اس نے ان دونوں کے درمیان بچھی ہوئی چھوٹی سی میز پر ٹرے رکھ دی اور واپس چلا گیا۔

٭×××××××××××٭

                ملازم کے کمرہ میں آ جانے سے سلسلہ کلام منقطع ہو گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد دیوان موتی رام نے نہایت رازداری سے پوچھا۔ لیکن بھیا…………یہ تو بتائو کہ تمہاری مراد کیسے پوری ہوئی؟

                یہ بھی کچھ عجیب سا واقعہ ہے۔ خان بہادر نے کیتلی سے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے بتایا۔ آج سے دس ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں شام کو ان کے پاس بیٹھا تھا کہ وہ ترنگ میں بولے۔ خان بہادر اس وقت جو مانگنا ہے مانگ لو۔ اتنا کہہ کر خان بہادر چائے کی پیالی دیوان موتی رام کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔ میری اکثر ان سے نوک جھونک اور ہنسی مذاق ہوتا رہتا تھا…………اس وقت بھی میں یہی سمجھا کہ شاید وہ مذاق کر رہے ہیں۔ لہٰذا میں نے بات ٹالنا چاہی۔ لیکن وہ بار بار اصرار کرتے رہے کہ میں جو چاہوں مانگ لوں۔ آج میرے لئے رحمت العالمینﷺ کا در کھلا ہوا ہے…………میرے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے دو آدمیوں نے مشورہ دیا کہ آج پیر صاحب کو آزما کر دیکھ لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ لہٰذا میں نے اپنی سب سے بڑی خواہش کا اظہار کر دیا…………اتنا کہہ کر خان بہادر نے چائے کا ایک گھونٹ پیا۔ اور دوبارہ بولے۔ بس بھئی…………میری خواہش سن کر انہوں نے اپنے ملازم سے کہا۔ پیپل کے دو پتے توڑ دے۔ اور مجھے پتے دے کر بولے۔ کہ ابھی گھر چلا جائوں۔ ایک پتہ خود کھا لوں اور ایک پتہ اپنی بیوی کو دے دوں۔ میں نے ایسا ہی کیا…………پھر انہوں نے چائے کی چسکی لے کر شوخی سے کہا…………پتے کھا کر ہم دونوں کو خوب پسینہ آیا۔ اور آدھی رات گزرے کے بعد تو یوں محسوس ہوا جیسے پھر سے جوان ہو گئے ہیں۔

                سچ…………دیوان موتی رام کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

                اور نہیں تو کیا…………خان بہادر نے اس ہی انداز سے کہا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ مہینہ بھر بعد تمہاری بھابھی کا پیر بھاری ہو گیا اور میری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔

                ہاں بھیا…………دیوان موتی رام نے بڑی ہی عاجزی سے کہا۔ بھگوان کی لیلا ہے۔

                میں یہ خوشخبری سنانے فوراً ہی پیر حاضر شاہ کے پاس پہنچا۔ خان بہادر دوبارہ بولے۔ میری بات سنتے ہی وہ حسب عادت مسکرا کر بولے۔ خبردار! اس بات کا ذکر بچہ کی پیدائش تک کسی سے نہ کرنا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے تمہیں بھی کچھ نہیں بتایا۔

                لیکن یار یہ بات سمجھ میں نہیں آئی…………دیوان موتی رام نے سوچتے ہوئے کہا…………کہ پیپل کے پتے کھانے سے اولاد نرینہ کا کیا تعلق ہے؟

                بھئی یہ بات تو میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ خان بہادر نے جواب دیا۔ لیکن دیکھ لو۔ آج میں ایک بیٹے کا باپ ہوں۔

                دیوان موتی رام نے گھگیا کر کہا۔ تم تو جانتے ہو کہ اولاد کے غم سے میں وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا ہوں۔ پیر صاحب سے میری سفارش بھی کر دو۔

                میں جانتا ہوں…………خان بہادر نے ہمدردی سے کہا۔ تمہارا دکھ مجھے معلوم ہے لیکن میں تم سے کچھ کہتے ہوئے اس وجہ سے ڈرتا ہوں کہ معلوم نہیں تم ہمارے مذہب کے پیروں فقیروں کو مانو گے بھی یا نہیں۔ اور پھر اگر وہ کچھ کھانے پینے کو دیں۔ تو یہ نہ کہہ دو کہ دوستی میں دھرم بھشٹ کر دیا۔

                ارے یار…………دیوان موتی رام نے سرگوشی میں کہا۔ اولاد کی خاطر تو میں سب کچھ کرنے کو تیا رہوں۔ بس بھگوان میری پتنی کو گود بھر دے۔

                سوچ لو۔ خان بہادر نے یقین دہانی والے لہجہ میں کہا۔

                تم تو جانتے ہی ہو اولاد کے کارن میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ دیوان موتی رام نے اداس لہجہ میں کہا۔

                کاشی یاترا کے ساتھ ساتھ کونسا مندر ہو گا جس پر میں نے بھینٹ نہ چڑھائی ہو۔ اپنے دروازے آئے ہوئے ہر پنڈت اور سادھو کا مان رکھا۔

                ہاں۔ یہ تو میں جانتا ہوں۔ خان بہادر نے سوچ کر جواب دیا۔ کسی دن پیر حاضر شاہ سے ذکر کروں گا۔ دیکھیں کیا جواب دیتے ہیں۔

                اگر پیر حاضر شاہ نے میری تمنا پوری کر دی۔ پنڈت ہری رام نے خوشی کے جذبہ سے کہا۔ تو مٹھائی سے منہ بھر دوں گا۔ مسجد کے گنبد پر سونے کا پتر منڈھوا دونگا۔

                بس بس…………خان بہادر نے ہنس کر کہا۔ پہلے مجھے ان سے بات تو کر لینے دو۔ پھر جو دل چاہے کرنا۔

٭×××××××××××٭

                شام کو خان بہادر مٹھائی کا ٹوکرا ایک ملازم کے سر پر رکھوا کر پیر حاضر شاہ کے پاس پہنچ گئے۔ پیر حاضر شاہ حسب معمول عشاء کے بعد پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔

                خان بہادر نے ان کے آگے مٹھائی کا ٹوکرا رکھ دیا۔ پیر حاضر شاہ نے ایک نظر ٹوکرے پر ڈالی اور مسکرا کر بولے۔

                ‘‘اتنی ڈھیر ساری مٹھائی کھائے گا کون؟’’

                یہ مٹھائی تو آپ کو قبول کرنا ہی ہو گی۔ خان بہادر نے اصرار سے کہا۔

                تم کہتے ہو تو قبول کئے لیتے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے جواب دیا۔ پھر ٹوکرے میں سے ایک لڈو نکال کر منہ میں رکھتے ہوئے بولے۔

                خان صاحب! میں مٹھائی والا پیر نہیں ہوں۔

                یہ مٹھائی نہیں۔ اس ناچیز کا ادنیٰ سا نذرانہ ہے۔ خان بہادر نے عاجزی سے کہا۔

                ہم نذرانہ بھی قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے پیپل کے تنے سے کمر لگا کر جواب دیا۔ پھر ایک دم شمشو سے بولے۔

                تو نذرانہ قبول کرے گا۔

                جواب میں شمشو نے نفی کے انداز میں گردن ہلا دی۔

                لو۔ جب یہ نذرانہ نہیں قبول کر سکتا۔ تو پھر…………میں کیسے قبول کروں پیر حاضر شاہ نے ہنس کر کہا۔

٭×××××××××××٭

                خان بہادر نے کئی بار کوشش کی کہ پیر حاضر شاہ سے اپنے دوست دیوان موتی رام کے بارے میں کہیں لیکن نجانے کیا بات تھی کہ وہ پیر حاضر شاہ کے سامنے جاتے ہی ہمت ہار جاتے تھے…………انہیں دیوان موتی رام کے بارے میں کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح ایک دو دن نہیں پورا ایک مہینہ گزر گیا۔

                آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ دیوان موتی رام کو پیر حاضر شاہ کے پاس لے جائیں…………اور دیوان موتی رام خود ہی ان سے اپنا مدعا بیان کریں۔

                دیوان موتی رام بھی یہی چاہتے تھے لیکن وہ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ اگر ان کے کسی ہم مذہب نے پیر حاضر شاہ کے پاس دیکھ لیا تو کیا جواب دیں گے۔ خان بہادر بھی اپنے دوست کی اس کمزوری سے واقف تھے۔ آخر کافی سوچ بچار کے بعد دونوں نے طے کیا کہ رات کو جب محفل ختم ہو جاتی ہے اور سب لوگ چلے جاتے ہیں تو تنہائی میں پیر حاضر شاہ سے بات کی جائے۔

                اور پھر ایک رات جبکہ سب لوگ جا چکے تھے اور پیر حاضر شاہ بھی اٹھنے والے ہی تھے کہ خان بہادر اپنے دوست کے ہمراہ ان کے پاس پہنچ گئے۔ ان دونوں کو دیکھتے ہی پیر حاضر شاہ کے چہرہ پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور انہوں نے خندہ پیشانی سے کہا۔ آئو بھئی! آئو آج تو پرانے دوستوں کی جوڑی آئی ہے۔

                جی ہاں…………یہ میرے بچپن کے دوست دیوان موتی رام ہیں۔ خان بہادر نے تعارف کرایا۔

                میں جانتا ہوں۔ پیر حاضر شاہ نے ہنس کر کہا۔ موتی رام تو میرا بھی دوست تھا۔ بس ہمارا دل پڑھائی میں نہیں لگا۔ اسکول چھوٹا تو یار دوست بھی چھوٹ گئے۔

                پیر صاحب! خان بہادر نے ذرا قریب ہو کرکہا۔ آج اس دوستی کی لاج رکھنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کہو…………کہو…………کیا بات ہے۔ پیر حاضر شاہ نے تسلی سے پوچھا۔ خان بہادر کی ہمت بندھی اور انہوں نے ڈرتے ڈرتے اپنے دوست کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ پیر حاضر شاہ نے یہ سن کر لمحہ بھر کے لئے آنکھیں بند کیں۔ جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں۔ پھر بولے۔ ان کی شادی کو پندرہ سال تو ہو ہی چکے ہوں گے۔

                بالکل مہاراج۔ اتنا ہی عرصہ گزر چکا ہے۔ دیوان موتی رام نے جواب دیا۔

                اور ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔ انہوں نے جملہ پورا کیا اور اچانک آنکھیں کھول کر پوچھا۔ یہ پنڈت ہری رام کیا کہتا ہے؟

                ان کے سوال پر دیوان موتی رام نے پھٹی پھٹی حیران نظروں سے خان بہادر کی طرف دیکھا۔ وہ اولاد کے معاملہ شیو دیوتا کے لئے پجاری پنڈت ہری رام سے بھی رجوع کر چکا تھا۔ اور اس بات کا علم سوائے اس کے کسی اور کو نہیں تھا۔

                پھر وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔ مہاراج پنڈت جی نے مجھے بالکل ہی نراش کر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میری قسمت میں اولاد نہیں ہے۔

                پیرصاحب…………خان بہادر نے التجا کی۔ آپ دعا کیجئے۔ آپ کی دعا میں بڑی تاثیر ہے۔ خدا ضرور سنتا ہے۔ اسے سب قدرت ہے۔

                بھگوان کے لئے میری رکھشا کیجئے مہاراج…………دیوان موتی رام ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا…………بھگوان آپ کی ضرور سنے گا۔ میں بہت دکھی ہوں۔ بہت دکھی ہوں۔ بہت دکھی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا سر پیر حاضر شاہ کے قدموں میں رکھ دیا۔ پیر حاضر شاہ نے فوراً ہی اپنے پائوں سمیٹ لئے اور آنکھیں بند کئے کئے خان بہادر سے بولے۔

                اپنےد وست کو سمجھائو۔ ہمیں کیوں گنہگار کرتا ہے۔

                میں کیا سمجھائوں حضور۔ خان بہادر نے جواب دیا۔ اولاد کی وجہ سے دکھی ہے۔ آپ ہی اس کا دکھ دور کر سکتے ہیں۔

                وہ مارا…………پیر حاضر شاہ نے آنکھیں کئے کئے اس طرح کہا جیسے بچے خوشی سے چلا اٹھتے ہیں۔ پھر سنجیدگی سے بولے۔

                دیکھو بھئی! اگر ہمارے ذریعہ سے اولاد مانگو گے تو ہم ہی جیسی ہو گی۔ پھر کوئی گلہ شکوہ نہ لانا۔

                دیوان موتی رام نے پائوں پکڑ کر کہا۔ اگر کچھ کہوں تو زبان کاٹ ڈالنا۔

                یہ سن کر پیر حاضر شاہ زور سے ہنسے۔ پھر انہوں نے گلے میں پڑے ہوئے رومال کو کونا پکڑ کر شمشو سے کہا۔ ذرا قریب آ جائو۔

                شمشو فوراً ہی لالٹین ہاتھ میں اٹھائے ہوئے قریب آ گیا۔ پیر حاضر شاہ نے دیوان موتی رام کی پیشانی پر نظریں گاڑ دیں اور رومال کے کونہ سے اس کی پیشانی کو اس طرح رگڑنے لگے جیسے کچھ مٹا رہے ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے موتی رام کے چہرہ پر پھونک ماری اور نہایت ہی انکساری سے بولے…………جائو، اولاد ہو جائے گی۔ اللہ نے دعا قبول کر لی ہے۔

                دیوان موتی رام ہاتھ جوڑے جوڑے کھڑا ہو گیا۔ اور سوالیہ انداز میں خان بہادر کی طرف دیکھا۔ وہ فوراً ہی اس کا مطلب سمجھ گئے کہ دیوان موتی رام تبرک چاہتا ہے۔ لہٰذا پیرصاحب سے بولے۔

                حضور اسے بھی کچھ تبرک دیدیجئے۔

                بھئی۔ یہ کوئی گھوڑا تو ہے نہیں۔ پیر حاضر شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔ جو اسے پتے کھانے کو دوں۔ پھر وہ دیوان موتی رام سے بولے۔ اس ٹوکری میں سے جتنے انار نکال سکتے ہو۔ نکال لو۔

                یہ سنتے ہی موتی رام پیپل کی شاخ سے لٹکی ہوئی ٹوکری کی طرف بڑھا اور اس میں ہاتھ ڈال دیا۔ قندھاری انار نکالنا، سرخ والے۔

                پیر حاضر شاہ نے اسے مخاطب کیا۔ دوسرے ہی لمحہ اس کے دونوں ہاتھوں میں چار بڑے بڑے سرخ انار تھے۔

                بس۔ اتنے ہی نکال سکے۔ پیر حاضر شاہ نے پوچھا۔

                اس سے زیادہ تھے ہی نہیں۔ دیوان موتی رام نے ان کی طرف بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔

                منشاء الٰہی یہی ہے۔ انہوں نے خان بہادر کی طرف دیکھ کر کہا۔ پھر اناروں پر پھونک مار کر بولے۔

                جائو خدا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے میری دعا سن لی ہے اور تمہیں چار اولادوں سے نوازا ہے۔

                مہاراج۔ اگر میری تمنا پوری ہو گئی تو جیون بھر غلام رہوں گا۔ دیوان موتی رام نے خوشی سے کہا۔

                ہم تو خود کسی کے غلام ہیں۔ یہ انار نہار منہ صرف تم ہی کھانا۔ انہوں نے سمجھایا۔ اللہ نے اس میں فولاد کی طاقت رکھی ہے۔ جائو، اللہ تمہاری خواہش پوری کرے گا۔ لیکن اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔