Topics

قرآن میں تفکر


 

                اختر جب دوبارہ گھر میں داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا…………بیری کا درخت پہلے ہی کی طرح ہرا بھرا اور تروتازہ کھڑا ہے۔ اب نہ تو اس کی شاخیں جل رہی تھیں اور نہ ہی پتے سلگ رہے تھے۔

                اس نے دو تین بار پلکیں جھپکا کر درخت کو گھورا۔ اور پھر اس کے چہرہ پر طنز سے بھرپور مسکراہٹ دوڑ گئی اس کے ذہن میں فوراً ہی یہ خیال آیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے پھر وہ اندر کی جانب بنی ہوئی دو کوٹھریوں میں سے اس کوٹھری میں داخل ہوا جس میں ساوتری کی موجودگی متوقع تھی۔

                کمرہ کے اندر ساوتری ایک اونچے سے تخت پر دروازہ کی جانب منہ کئے کروٹ سے لیٹی تھی۔ لکڑی کا یہ تخت نہایت ہی خوشنما تھا اس پر ریشم کا نہایت دیدہ زیب قالین بچھا ہوا تھا…………اختر کو دیکھتے ہی اس کے چہرہ پر نہایت ہی معنی خیز مسکراہٹ دوڑ گئی اور اس نے کہا…………تم…………تم پھر آ گئے۔

                ہاں…………اختر نے مختصر سا جواب دیا۔ اور پریشان نظروں سے کمرہ کا جائزہ لینے لگا…………وہ حیران تھا کہ کمرہ میں سوائے اس تخت کے کچھ اور نہیں تھا اور یہ تخت بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ کیا دیکھ رہے ہو…………ساوتری نے تخت پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

                کچھ نہیں…………کچھ نہیں…………اختر نے اپنی پریشانی کو چھپاتے ہوئے جواب دیا۔ پھر سنبھل کر بولا۔ میں تم سے فیصلہ کن بات کرنے آیا ہوں۔

                تم مجھ سے پیار کرتے ہو…………ساوتری نے اپنی غزالی پلکوں کو قدرے جھکا کر پوچھا۔

                اختر نے اقرار کے انداز میں سر ہلا دیا۔

                کیوں پیار کرتے ہو مجھ سے…………ساوتری نے بڑے ہی بھولے پن سے پوچھا۔ پھر خود ہی مسکرا کر بولی…………اس لئے کہ میں حسین ہوں…………لیکن…………اس نے سنجیدگی سے کہا…………مجھے تمہارے اورپر رحم آتا ہے ایک مورتی سے محبت کرتے ہو…………

                ساوتری…………مجھے سمجھانے کی کوشش مت کرو…………اختر نے ناگواری سے کہا۔

                کاش! تم میری بات سمجھ لو…………ساوتری نے ٹھنڈے لہجہ میں کہا…………اور میرے حسن کے دیوانے ہونے کی بجائے مصور کے متوالے بن جائو۔ پھر وہ تخت پر پہلو بدل کر بولی…………تم فانی حسن کا حشر دیکھ چکے ہو۔

                تم اس دوشیزہ کی بات کر رہی ہو؟…………اختر نے پوچھا۔

                ہاں وہ بھی حسین تھی…………ساوتری نے مسکرا کر سمجھایا…………اتنی حسین کہ ایک جن اس کا پرستار بن گیا۔ اور اگر…………اس نے ایک لمحہ توقف کے بعد کہا…………وہ محترم ضعیف العمر صحابی جن نہ آ جاتے تو میں اسے جلا کر خاک کر دیتی۔

                جن…………اختر نے قدرے اچھنبے سے کہا…………اور وہ بھی صحابی جن…………اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

                کیا تمہیں جنات پر یقین نہیں ہے…………ساوتری نے سنجیدگی سے پوچھا۔

                نہیں…………یہ سب بکواس ہے…………اختر نے سپاٹ لہجہ میں کہا۔ یہ سب شعبدہ بازی ہے۔

                تم نہیں سمجھ سکتے…………نہیں سمجھ سکتے…………ساوتری نے اپنی نورانی پیشانی پر بل ڈال کر کہا۔

                مجھے کچھ سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے…………اختر نے تیز وترش لہجہ میں کہا۔ میں تم سے صرف اپنی محبت کا اپنے پیار کا جواب چاہتا ہوں۔

                میں تمہاری اس ہی بات کا، اس ہی خواہش کا جواب دے رہی ہوں…………ساوتری نے نہایت سکون سے کہا…………جن اللہ تعالیٰ کی ماورائی مخلوق ہے اور اس ہی مخلوق کے ایک فرد نے حسین صورت پر قبضہ کر کے اس سے تسکین حاصل کرنا چاہی۔ اسے بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ یہاں ہر صورت فانی ہے…………اگر اس کے والد محترم نہیں آ جاتے تو…………

                تو تم اسے جلا کر ختم کر دیتیں…………اختر نے بات کاٹ کر کہا۔

                ہاں…………میں اسے جلا کر بھسم کر دیتی…………ساوتری رعب دار آواز سے کہا۔

                دیکھو۔ ساوتری…………اختر نے اسے پیار بھرے لہجے میں سمجھایا…………تمہاری یہ بے سرو پا باتیں مجھے قطعی متاثر نہیں کر سکتیں۔ عشق حقیقی، عشق طریقت، جنات یہ سب…………

                میں جھوٹ نہیں بولتی…………ساوتری نے اس کی بات کاٹی…………تمہیں میری بات پر اعتبار کرنا چاہئے جہاں تک جنات کا تعلق ہے۔ قرآن پاک میں اس مخلوق کے بارے میں سورہ جن موجود ہے۔

                تم نے قرآن پڑھا ہے…………اختر نے چونک کر طنزیہ لہجہ میں پوچھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ہندو لڑکی قرآن کو کیا جانے۔

                میں نے نہ صرف پڑھا بلکہ سمجھا بھی ہے…………ساوتری نے مسکرا کر جواب دیا۔ اور میرے اللہ کا کرم ہے کہ میں پیدائشی مسلمان ہوں۔

                پیدائشی مسلمان تو میں بھی ہوں…………اختر نے سینہ پھلا کر کہا۔

                نہیں۔ تم میں اور مجھ میں فرق ہے…………ساوتری نے اس ہی طرح دلفریب مسکراہٹ سے کہا۔

                اور وہ فرق یہ ہے…………اختر نے طنز سے ہنس کر کہا تم ہندو ہو…………اور میں مسلمان۔

                نہیں…………یہ بات نہیں…………پھر اسے یاددہانی کراتے ہوئے بولی۔ جب ہم دونوں بہت چھوٹے تھے تو میں تم سے اکثر اپنے خوابوں کا ذکر کیا کرتی تھی۔

                مجھے یاد ہے…………اختر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

                انہیں خوابوں کی سچی تعبیر ہوں میں…………ساوتری نے کہا۔ پھر ہنس کر بولی…………تم تو میری کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے ہو لیکن…………اب میں ضروری سمجھتی ہوں کہ تمہیں اپنی حقیقت سے آگاہ کر دوں…………پھر اس نے خلاء میں نظریں گاڑتے ہوئے کہا…………میں ان خوابوں میں ایک نورانی ہیولیٰ دیکھا کرتی تھی…………میں نے منشاء الٰہی کے مطابق ایک ہندو کے گھر میں جنم لیا۔ لیکن میری پرورش ایک مومن کی طرح ہوئی۔ میرے پیر و مرشد پیر حاضر شاہ تھے۔

                پیر حاضر شاہ…………اختر نے اس نام کو دہرایا…………میرے باپ کا کہنا تھا کہ میں اور تم انہیں کی دعائوں کی بدولت پیدا ہوئے تھے۔

                یہ بھی غلط ہے…………ساوتری نے زور سے ہنس کر کہا…………صرف میں ان کی دعا کا نتیجہ ہوں…………رہے تم۔ تو تم تو اس کائنات میں موجود تھے صرف چند مادی رکاوٹیں تھیں جنہیں میرے پیر و مرشد نے دور کر دیا تھا۔

                کیا مطلب…………اختر نے قدرے حیرانگی سے پوچھا۔

                برزخ میں میرا وجود نہیں تھا…………ساوتری نے اس کی طرف دیکھ کر کہا…………یہ میرے پیر و مرشد کی کرامت تھی کہ انہوں نے اللہ کے حضور التجا کی اور قدرت نے ان کی دعا قبول کر لی اور میں عدم سے وجود میں آ گئی۔

                تم تو خدا جانے کیسی باتیں کر رہی ہو…………اختر نے منہ بگاڑ کر کہا…………میں نے تولوگوں سے سنا ہے کہ پیر حاضر شاہ سنکی تھے۔

                نہیں…………ساوتری نے برجستہ کہا…………وہ پیر کامل…………تکوین کے ایک کارندے تھے۔ ان کے مرتبے کو پہچاننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

                خیر۔ وہ جو کچھ بھی تھے…………اختر نے بحث سے بچتے ہوئے کہا…………مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم مسلمان ہو اور اس طرح اب ہم دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔

                تمہارا یہ خیال غلط ہے…………ساوتری نے اس کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا…………میری پیدائش کا مقصد اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا ہے اور میں خود کو وقف کر چکی ہوں۔

                اگر تمہاری زندگی کا یہی مقصد ہے تو تم میرے ساتھ کیا بھلائی کر رہی ہو…………اختر نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

                میں تمہارے ساتھ بھلائی کر رہی ہوں…………ساوتری نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا۔ میں اب تمہارے قابل نہیں ہوں۔ میں گوشت پوست کے جسمانی لباس میں تمہارے سامنے موجود ہوں لیکن…………میری روح سفلی جذبات سے پاک ہے یہی وجہ ہے کہ میرا لباس بھی ان جذبات سے خالی ہے۔

                یہ جھوٹ ہے تم مجھے دھوکا دے رہی ہو…………اختر نے غصہ سے کہا۔ تم جوان ہو۔ تمہارے جذبات تمہارے ارمان ختم نہیں ہو سکتے۔

                میرے حسن کی سحر انگیزی نے تمہارے شعور پر ہوس کا ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ تم خود غرض بن گئے ہو…………ساوتری نے ضبط و تحمل سے کہا…………

                ساوتری…………اختر نے اسے سمجھانے والے لہجہ میں مخاطب کیا۔ اگر تم ‘‘راسپوٹین’’ کے حالات زندگی پڑھو گی تو معلوم ہو گا کہ وہ بھی روحانیت کا بادشاہ تھا…………لوگ اسے مسیحا مانتے تھے لیکن اس کے جذبات ختم نہیں ہوئے۔

                تم ٹھیک ہی کہتے ہو…………ساوتری نے اس کی تائید کی…………جسم کے بھی فطری تقاضے ہوتے ہیں اور جس طرح انسان اپنے لباس سے میل کو دور کرتا رہتا ہے۔ اس ہی طرح جسمانی تقاضوں کے میل کچیل کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ پھر بولی شاید تم کو معلوم ہو گا کہ اللہ نے انسان کو اپنی صفت ‘‘تخلیق’’ میں شامل کیا ہے اور اس میں وہ جوہر پوشیدہ کر دیا ہے جسے حیات کا سرچشمہ کہا جاتا ہے اس ‘‘جوہر حیات’’ کو بروئے کار لانے کی خاطر عورت اور مرد دونوں کے جذبات متلاطم رہتے ہیں اور سب سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ نے جسم انسانی سے جوہر حیات کے اخراج کے وقت جو لطف رکھا ہے۔ وہ اس کائنات کے کسی بھی عمل میں نہیں ہے…………اتنا کہہ کر اس نے اپنی آنکھوں کو بند کر کے نہایت ہی لطیف انداز میں کہا…………وہ چند لمحے…………وہ چند ساعتیں۔ جو پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہیں…………ایسا لطف دے جاتی ہیں کہ انسان تمام عمر اس لطف کو حاصل کرنے میں گزار دیتا ہے۔

                جب تم عورت اور مرد کی اس فطرتی لذت سے آشنا ہو تو پھر اس لذت سے کیوں دور رہنا چاہتی ہو…………اختر نے پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔

                کیونکہ اللہ نے ابھی تک مجھے اپنی صفت تخلیق میں شامل نہیں کیا ہے…………ساوتری نے بتایا بلکہ ابھی تک میں اس کی خلق میں شامل ہوں…………پھر اس نے نہایت ہی گہری سوچ سے کہا…………ممکن ہے وہ میرے جوہر حیات سے کچھ اور تخلیق چاہتا ہو۔

                یہی بات راسپوٹین بھی کہا کرتا تھا…………اختر نے مضحکہ خیز لہجہ میں کہا۔ وہ جنسی لذت حاصل کرنے کی خاطر کہا کرتا تھا کہ تخلیق کرو…………کیونکہ خداوند کہتا ہے کہ میں نے تمہیں تخلیق کیا ہے۔

                وہ۔ نفس پرست تھا…………ساوتری نے کہا…………لذت نفس کے لئے اس نے روحانیت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ لیکن اس کا انجام کیا ہوا…………وہ آج بھی انسانی معاشرہ کے لئے ننگ ناموس ہے۔ پھر یہ مثال ایسی تو نہیں جو ہر کسی پر صادق آتی ہو۔

                کیا مطلب…………اختر نے پوچھا۔

                جو لوگ مذہب کا لباس زیب تن کر کے ‘‘تصوف کی دنیا’’ بسا لیتے ہیں۔ ان کا مقابلہ دوسرے لوگوں سے نہیں کیا جا سکتا…………ساوتری نے پہلو بدل کر کہا کہ انسانی روح پاکیزگی کا مظہر ہے یہ دنیا اس کے لئے کھلی کتاب ہوتی ہے اور وہ جلوہ الٰہی دیکھنے میں کھویا رہتا ہے۔

                یعنی اسے دنیا کا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے…………اختر نے ساوتری کا مذاق اڑایا۔

                بالکل…………ساوتری نے کہا…………الٰہی جلوئوں کی لذت…………تمام لذتوں سے افضل ہے جس کی نظر کھل جاتی ہے اسے الٰہی جلوئوں کی لذت میں اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔

                تو پھر یہ جتنے علماء ہیں۔ الٰہی جلوہ دیکھنے میں کیوں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جبکہ یہ تم سے زیادہ دین کے بارے میں جانتے ہیں…………اختر نے کہا۔

                پہلے اس بات کو اچھی طرح سے جان لو کہ عالم کسے کہتے ہیں…………دین کیا ہے…………اور دین میں عالم کا کیا رتبہ ہے…………ساوتری نے سمجھانے والے انداز سے کہا…………دین درحقیقت معرفت الٰہی کا راستہ ہے اور عالم اس راستہ کا رہبر و رہنماہوتا ہے۔ یہ راستہ ظاہری و باطنی دونوں طریقوں سے پیراستہ ہوتا ہے۔ وہ عالم جو باطنی راستہ سے آگاہ ہوتا ہے بغیر کسی دشواری کے ‘‘راہی’’ کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے جبکہ وہ عالم جو صرف ظاہری اعمال سے واقف ہوتا ہے۔ اس بے لگام گھوڑے کی مانند ہوتا ہے جو کہ معرفت الٰہی کے اطراف میں پھیلی ہوئی پگڈنڈیوں پر اس دھوکے میں بھاگ نکلتا ہے کہ شاید یہی راستہ اسے جلد از جلد منزل مقصود تک پہنچا دے گا۔ لیکن وہ لوگ…………اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ جو ظاہری اور باطنی دونوں راستوں سے آگاہ ہوتے ہیں…………سچے عالم دین ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو الٰہی جلوہ سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔

                ساوتری…………اختر نے زچ ہو کر کہا…………دین کی باتوں میں زیادہ نہ پڑو۔ دین نے انسانوں کو آپس میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہر شخص اپنے دین کو سچا جان کر اس کی پیروی میں لگا ہوا ہے جبکہ ہر دین ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتا ہے۔

                معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں رہ کر مادیت کا زہر تمہارے دماغ میں سرایت کر چکا ہے۔ ساوتری نے ہنس کر کہا۔ وہ دین کس کام کا جس میں صرف عبادت ہی کرنے کا حکم ہو…………پھر اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا…………اللہ عبادت کا محتاج نہیں…………ان گنت فرشتے اور پوری کائنات اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔

                تو پھر اللہ کس بات کا محتاج ہے؟…………اختر نے بگڑ کر کہا…………اللہ انسان سے کیا چاہتا ہے؟

                اللہ نے یہ کائنات انسان ہی کے لئے بنائی ہے…………ساوتری نے کہا۔ اور چاہتا ہے کہ انسان اس کی کائنات سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر اس کا شکر گزار بن جائے۔

                تم۔ تم۔ یہ بات کس طرح کہہ سکتی ہو؟ اختر نے اکڑ کر پوچھا۔

                یہ میں نہیں کہتی۔ ساوتری نے سنجیدگی سے کہا…………قرآن کہتا ہے اور ہر مسلمان کا قرآن پر ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

                اللہ کا کلام ہے…………اختر نے چڑ کر کہا…………اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔

                ہم تک جو بھی پہنچا ہے انسانی وسیلہ سے پہنچا ہے۔

                یہ بات کہہ کر تم نے ان لوگوں کی ترجمانی کی ہے جو نبوت پر یقین نہیں رکھتے…………ساوتری نے جواب دیا اور پھر اطمینان سے تخت پر بیٹھ کر بولی۔ جو لوگ کلام الٰہی پر یقین نہیں رکھتے اور منکر نبوت ہیں۔ اگر وہ ٹھنڈے دل سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات سب سے منفرد نظر آئے گی کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جتنے بھی پیغمبر گزرے ہیں کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے اپنے نظریات ہیں۔ بلکہ یہی کہا کہ…………وہ جو پیغام بھی دے رہا ہے…………حکم الٰہی ہے۔

                لیکن…………اس وقت کا معاشرہ اور تھا…………اختر نے تنگ آ کر کہا۔ اس وقت کے معاشرے میں پیغمبروں کی ضرورت تھی۔ جبکہ آج کا انسان باشعور ہے وہ اچھے اور برے کی پہچان رکھتا ہے۔ اب کسی پیغام کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی پیغمبر کی۔

                ہاں۔ اب کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے…………ساوتری نے اس کی تائید کی…………کیونکہ آخری نبیﷺ کے ذریعے پیغام الٰہی کی تکمیل ہو چکی ہے۔

                یہ غلط ہے…………اختر نے جھنجھلا کر کہا…………دین موجودہ دور کا ساتھ نہیں دے سکتا یہ دنیا کا انتہائی ترقی یافتہ دور ہے۔

                تم…………ساوتری نے انگلی سے اس کی جانب اشارہ کر کے کہا…………اور وہ لوگ جو اس دنیا میں رہ کر دین سے فرار چاہتے ہیں۔ نام نہاد ترقی پسند کا لیبل لگا کر برملا یہ کہتے ہیں کہ اسلام جدید دور کا ساتھ نہیں دے سکتا۔

                یہ درست ہے…………اختر نے برجستہ کہا…………چودہ سو سال پہلے اسلام صرف عربوں کے بگڑے ہوئے معاشرہ کو سدھارنے کے لئے آیا تھا۔

                افسوس…………ساوتری نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا…………تم ناعاقبت اندیش لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ہم جس معاشرہ میں زندہ ہیں یہ تو چودہ سو سال پرانے معاشرہ سے زیادہ بدتر ہے۔

                اس معاشرہ میں چند خرابیاں تو ہو سکتی ہیں…………اختر نے تذبذب سے کہا…………لیکن وہ اچھائیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں…………اور اگر…………ہوتی بھی ہیں تو کیا انہیں اسلام کی مدد سے دور کیا جا سکتا ہے۔

                بالکل دور کیا جا سکتا ہے…………ساوتری نے بڑے ہی اعتماد سے جواب دیا۔ لیکن لوگوں کی نظروں میں دین کی قدر و منزلت تو صرف اس حد تک ہے کہ اسلام محض روزہ…………نماز…………زکوٰۃ اور خیرات کی ادائیگی کا نام ہے۔ قرآنب کو وہ ایسی کتاب سمجھتے ہیں جس میں ماضی کی نافرمان قوموں کے حالات اور ان کی تباہی کے تذکرے درج ہیں۔ انسان قیامت تک رہنمائی حاصل کر سکتا ہے اور اس کی دلیل میں خدا خود یہ کہتا ہے کہ:

                ‘‘یہ کتاب غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی ہی حکمت والی ہے۔’’

                میں تمہاری بات سمجھا نہیں…………اختر نے پوچھا…………غور و فکر کرنے والوں سے کیا مطلب ہے۔

                میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اللہ نے یہ کائنات انسان کے لئے بنائی ہے…………ساوتری نے مسکرا کر کہا…………اور انسان اپنے شعور کے مطابق اس سے فیض حاصل کر رہا ہے…………اس کے باوجود یہ کائنات اتنی پر اسرار اور پیچیدہ ہے کہ زیادہ مسائل انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔

                اگر تمہاری بات کو مان لیا جائے تو ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان مسائل کو کون حل کرے گا۔ اختر نے سوال کیا۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغام رسانی کے بعد سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا…………ساوتری نے اس ہی طرح مسکرا کر اعتماد سے جواب دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے ‘‘اولیاء کرام’’ کو دنیا میں بھیجتا رہتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں…………ساوتری نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا…………جو قرآن پر غور و فکر کرتے ہیں احکام الٰہی کو سمجھتے ہیں اور انسانی مسائل حل کرتے ہیں۔

                میں تمہاری بات نہیں مانتا…………اختر نے تردید کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر کہا…………اس کائنات میں انسانوں کی بھلائی کے لئے جو کام سائنس دانوں نے انجام دیئے ہیں…………کسی پیغمبر کسی اولیاء نے انجام نہیں دیئے۔ ٹیلیگراف کا موجد گراہم بیل کوئی ولی نہیں تھا…………لیکن۔

                لیکن…………اس نے رہنمائی اولیاء کرام سے حاصل کی…………ساوتری نے اس کی بات کاٹی…………

                کیا مطلب ہے تمہارا…………اختر نے چونک کر پوچھا۔

                شاید تمہیں نہیں معلوم…………ساوتری نے بتایا کہ اولیاء کرام اپنی دماغی صلاحیتوں کو اتنا زیادہ بیدار کر لیتے ہیں کہ وہ کسی بھی وسیلہ کے بغیر نہ صرف آپس میں گفتگو کر لیتے ہیں بلکہ کائنات میں جاری پیغامات بھی وصول کر لیتے ہیں۔

                غلط…………یہ بالکل غلط ہے…………اختر نے کہا۔

                اگر یہ غلط ہے تو پھر وہ انسانی مسائل کو کس طرح حل کر لیتے ہیں؟ ساوتری نے پوچھا۔

                پھر خود ہی سمجھانے والے انداز میں بولی…………تم گراہم بیل کے فارمولے سے واقف ہو۔ اب ذرا میری پیدائش کے بارے میں غور کر لو۔ جو کہ میرے پیر و مرشد کی دعا کے نتیجہ میں عمل میں آئی۔ کیا گراہم بیل کی ایجاد…………میرے پیر و مرشد کی دعا سے زیادہ بڑی ایجاد ہے۔

                ساوتری کی یہ بات سن کر وہ حیران و پریشان رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کیا جواب دے۔ یہ دیوانی تو جدید علوم میں بھی اس سے دو ہاتھ آگے تھی…………وہ دیر تک سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ پھر اس نے گردن اٹھائی۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتا تھا…………لیکن ساوتری کمرہ میں تخت پر نہیں تھی وہ باہر آ گیا۔ باہر ساوتری بیری کے درخت کے نیچے مصلٰی بچھائے نماز ظہر ادا کر رہی تھی۔ اختر نے اس پر ایک نظر ڈالی اور باہر آ گیا۔

                اس ملاقات میں بھی اختر کو ساوتری سے جو توقعات تھیں پوری نہیں ہوئیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ ساوتری اس کے پیار کے جواب میں مثبت رویہ اختیار کرے گی۔ لیکن اسے یہ جان کر سخت افسوس ہوا کہ وہ اپنی پہلی ہی روش پر قائم ہے۔

                اختر جتنا بھی اس کی باتوں پر غور کرتا الجھتا چلا جاتا…………ٹیلیگراف۔ لاطینی زبان کا لفظ ہے جو سلسلہ ترسیل کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ گفتگو کے دوران اختر نے ٹیلیگراف کا تذکرہ کر کے اسے سائنس کا قائل کرنا چاہا تھا لیکن ساوتری نے اس کی بھی روحانی توجیہہ پیش کر دی تھی اور اسے دعا ہی کا نعم البدل بھی قرار دیا تھا۔ دعا بھی کسی رابطہ کے بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے اس کی قبول ہونے یا نہ ہونے کا جواب بھی بغیر کسی رابطہ کے ملتا ہے۔

                انسان کا ظاہری علم…………جسے صرف دنیاوی علم ہی کہا جا سکتا ہے اتنا ناقص ہے کہ وہ …………اس کائنات میں موجود مادی عناصر ہی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اپنی عقل اپنے شعور سے وہ اس رتی برابر رد و بدل نہیں کر سکتا۔ اللہ نے انسان کو صرف اتنا شعور عطا کیا ہے کہ وہ صرف اس کائنات میں ظاہری عناصر سے فائدہ اٹھا سکے یہ کیسا علم ہے۔

                اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں۔ جن کا ادراک ابھی تک انسانی شعور نہیں کر پایا۔ کائنات میں قدرت الٰہی کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں اور ان نشانیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے قرآن موجود ہے جو لوگ قرآن میں تفکر کرتے ہیں وہی ان نشانیوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

                کائنات کے ان مفکرین کا علم اتنا وسیع و ارفع ہوتا ہے کہ مادی سائنس دان حیران رہ جاتے ہیں۔ پیر حاضر شاہ نے بغیر کسی مادی وسیلہ کے ساوتری کو تعلیم دی تھی۔ روشنیوں کی جو کہکشاں اس دوران نظر آتی تھی۔ پیر حاضر شاہ کو ان میں کمال حاصل تھا۔ آج کے سائنس دان مادہ کی اصلی قوت روشنی یا حرارت قرار دیتے ہیں جبکہ تصوف کی دنیا کے بادشاہ، علم لدنی کے طالب علم اور قرآن حکیم کے مفکر اس راز کو برس ہا برس قبل پا چکے تھے اور یہی علم وہ راز تھا۔ جو سینہ بہ سینہ چلتا ہوا ‘‘پیر حاضر شاہ’’ تک پہنچا۔

                اختر ان باتوں کو سمجھنے کے بجائے ساوتری کے بے مثال حسن میں کھویا ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس کے حسن سے اپنے بے چین نفس کو تسکین دے سکے…………ساوتری کا حسن ایسا حسن تھا جس نے اس کی رگ رگ میں چاہت کا سرور بھر دیا۔ یہ چاہت ایسی تھی جو مخفی انگلیوں سے اس کی دل کو گدگداتی تھی۔ اوروہ محبت کی شدید لہروں میں ڈوبتا جا رہا تھا۔

                اب…………اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ ساوتری کے حسن کی خوشبو سے اپنی دنیا بسا لے۔ لیکن حسن کا یہ مجسمہ اس کی پہنچ سے دور تھا…………بہت ہی دور۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔