Topics

دو شیزہ قید میں


                اختر نے ایسے ماحول میں پرورش پائی تھی جہاں روحانیت کو عاملوں سادھوئوں اور پنڈتوں کا شعبدہ سمجھا جاتا تھا یا پھر روحانیت کو رہبانیت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔

                اس داستان کو پڑھنے والوں کو علم ہو گا کہ خان بہادر پیر حاضر شاہ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے کبھی بھی انہیں ولی کامل نہیں سمجھا…………حالانکہ ان کی دعا کی بدولت اختر کی پیدائش ہوئی تھی…………اس کے بعد یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے ان کی حقیقت عیاں ہوتی تھی۔ ممکن ہے انہوں نے ان واقعات سے کوئی تاثر لیا ہو۔ لیکن زبان سے کبھی بھی اظہار خیال نہیں کیا۔ اس میں شاید…………پیر حاضر شاہ کے ضبط نفس کو بھی دخل ہو ۔ کیونکہ انہوں نے کبھی بھی خود کو ولی اللہ ظاہر نہیں کیا۔ ان پر تو ہر وقت جذب و مستی کی ایسی کیفیت طاری رہتی تھی جسے ہر کوئی آسانی سے پہچان بھی نہیں سکتا تھا اور وہ ایسی ہی کیفیت کے دوران ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جنہیں دنیا والے نہیں سمجھ پاتے تھے…………اور ان کا مذاق اڑاتے تھے…………علم معرفت کے اس استاد نے جس خاموشی سے زندگی گزاری تھی وہ موجودہ زمانے کے درویش صفت مشائخ سے قطعی مختلف تھی۔ ‘‘قدرت کی بھی عجیب کرشمہ سازی ہے۔’’

                ان ہی پیر حاضر شاہ کی دعا سے دیوان موتی رام کے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی تھی جو کہ حسن میں یکتا اور معرفت الٰہی کے رازوں سے آگاہ تھی جبکہ ان ہی کی دعا سے خان بہادر کے گھر پیدا ہونے والا بیٹا اختر اولیاء اللہ کسی حد تک مخالف تھا لندن میں قیام کے دوران اس کے ذہن میں مادہ پرستی کے گرد و غبار کی تہہ جم گئی تھی۔

                مغربی ممالک میں مذہب کو عبادت خانوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور انسان کو معاشرہ میں ہر طرح کی آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا گیا ہے اگر وہاں…………روحانیت کی کوئی رمق باقی ہے تو وہ ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی یا ہیلنگ ہے۔

                درحقیقت روحانیت کی بنیاد ارتکاز توجہ ہے…………مراقبہ…………کشف اور اعتکاف وغیرہ اس کے بنیادی اصول ہیں لیکن ان لوگوں نے روحانیت کی اس بنیاد کی بھی ایک حد مقرر کر دی ہے اور باقی سب لوگ مظاہر قدرت کی مادی توجیہہ تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔

                اختر نے لندن میں قیام کے دوران پانچ سال میں جو پڑھا جو دیکھاوہ اس کے ذہن میں محفوظ تھا۔ اسے مادہ پرست تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن وہ روحانیت کا بھی قائل نہیں تھا۔ اس وقت ساوتری کی باتوں نے اسے عجیب ذہنی خلفشار میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ کسی حسین لڑکی نے اس کے پیار کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حسن کا ہر کوئی پرستار ہوتا ہے…………اور…………یہ حسن ہی ہے جو انسان کی پسند کو ‘‘پیار’’ میں بدل دیتا ہے لیکن ساوتری نے اپنے اور اس کے پیار کی جو توجیہہ پیش کی تھی…………اسے اختر کا دماغ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔

                ساوتری کے خلاف اس کے دل میں نفرت یا انتقامی جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ ایسا جذبہ بیدار ہو گیا جس نے اسے ہر حال میں ساوتری کو حاصل کر لینے پر ابھارنا شروع کر دیا۔

                ساوتری سے گفتگو کے دوران اسے اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ وہ روحانیت میں کچھ سوجھ بوجھ رکھتی ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ اللہ کی دیوانی بھی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ساوتری کو خلوص دل سے قائل کیا جائے تو وہ اس کے پیار کو قبول کر لے گی کیونکہ وہ یہ ہی سمجھتا تھا کہ یہ سب ڈھونگ ہے اور ساوتری اس طریقہ سے دنیا سے اپنے بچپن کی ناکامیوں اور محرومیوں کا بدلہ لے رہی ہے۔ اس کی مجذوبانہ روش اور دیوانہ پن صرف اس وجہ سے بھی ہے کہ میں نے اس سے پہلے اسے کبھی لفٹ نہیں دی۔

                ‘‘کتنا غلط خیال تھا اس کا۔’’

                پھر اس نے…………اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا…………اور وہ منصوبہ تھا روحانیت کی تردید کرنا مافوق الفطرت واقعات کی تکذیب کرنا۔

                جب کسی کے سینہ میں آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے تو اس کا ذہنی سکون تہہ و بالا ہو جاتا ہے جب تک وہ اپنے محبوب کو دیکھ نہ لے چین و سکون نہیں ملتا۔ یہی حال اختر کا تھا…………وہ دوسرے دن صبح کے وقت پیر حاضر شاہ کے گھر پہنچ گیا جہاں ساوتری نے رہائش اختیار کر رکھی تھی۔

                اس وقت ساوتری بیری کے درخت سے دور ہٹ کر آلتی پالتی مارے ساکت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے جسم نے ذرا سی بھی حرکت نہیں کی تھی…………وہ بیری کے درخت کو بڑے ہی غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں جھپک نہیں رہی تھیں۔

                وہ جلوہ الٰہی کو دیکھنے میں محو تھی…………اسے بیری کے درخت کی ہر شاخ اور پتہ میں اللہ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ یہ وہ نور تھا…………جسے مومن کی باطنی نگاہ ہی دیکھ سکتی ہے وہ عالم جذب میں بڑبڑا رہی تھی۔

                اے…………میرے دل میں بسنے والی آنکھوں سے دور رہنے والی ہستی…………مجھے خود سے بیگانہ بنانے والی ہستی۔

                ‘‘تو کون ہے؟’’

                کیا تو کسی حور کا نور ہے؟

                کیا تو کسی فرشتہ کا سایہ ہے؟ جو میری بصیرت کو بہکا کر مجھے مالک حقیقی سے دور کر دینا چاہتا ہے جو مجھے عقل و ہوش سے بیگانہ کر کے دیوانی کہلوانا چاہتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟

                کہیں ایسا تو نہیں کہ میں فضائی ذرات کی چمک کو نور الٰہی سمجھ رہی ہوں۔

                کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب بھان متی کے وسوسے ہوں جو حقائق کو چھپا کر میری عقل و خرد کو بہکانا چاہتے ہیں۔ میں…………میں…………کیا ہوں؟ یہ عقل و خرد یہ وسوسے کیا ہیں؟…………یہ بھی تو تُو ہی ہے…………اور جب تُو ہی تُو ہے تو پھر میں کیا ہوں اور میں بھی تُو ہوں۔ تُو مجھ میں ہے…………اور…………اور میں تجھ میں ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ اختر جو کہ دیر سے کھڑا اس کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہا تھا ایک دم گھبرا گیا…………ساوتری کا یہ روپ اس کی سمجھ سے باہر تھا………… اس نے سوچا کہیں وہ واقعی دیوانی تو نہیں ہے۔ ابھی وہ اس ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا…………کہ اچانک اس نے اپنے ایک اڈھیر عمر چچازاد بھائی کو دیکھا۔ وہ ایک بیس بائیس سالہ دوشیزہ کو زنجیروں سے جکڑے ہوئے محلہ کے چند نوجوانوں کے ہمراہ اندر داخل ہوئے۔

                اختر کے ان چچازاد بھائی سے کبھی بھی خان بہادر کے گھر والوں کے تعلقات نہیں رہے…………اور نہ ہی کبھی کسی دوسرے رشتہ دار نے انہیں منہ لگایا…………تمام رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ وہ طوائف کی اولاد ہیں اس لئے قابل نفرت اور باعث ہتک ہیں۔ اختر نے بھی کبھی ان کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اسے توجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن اس وقت انہیں دیکھ کر وہ بھی حیرت زدہ سا رہ گیا۔ خاص کر وہ دوشیزہ اس کی توجہ کا مرکز تھی جسے لوگ زنجیروں سے باندھ کر لائے تھے۔ اس کے چہرہ، بال اور پورے لباس پر مٹی کی ہلکی سی تہہ جمی ہوئی تھی اور لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے وہ کسی سے کشتی لڑتی رہی ہو۔ دروازہ میں داخل ہوتے ہی اس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی زنجیر کو پوری قوت سے جھٹکا دیا اور چلائی…………چھوڑو مجھے…………چھوڑو مجھے۔ میں سلامو کے پاس جائوں گی۔ سلامو میرا ہے۔

                اس کی آواز سن کر دیوانی استغراق سے اس طرح چونکی جیسے خواب سے بیدار ہوئی ہو۔ لوگ دوشیزہ کو کھینچتے ہوئے دیوانی کے قریب لے آئے…………ادھیڑ عمر کے شخص نے جس کے چہرہ سے بیماری اور نقاہت صاف ظاہر ہو رہی تھی آگے بڑھ کر نہایت ہی غمزدہ لہجہ میں کہا۔

                ساوتری………………یہ میری اکلوتی بہن ہے…………اسے بچا لے۔ اسے اس مصیبت سے چھٹکارہ دلا دے۔

                کیا ہوا اسے؟…………ساوتری نے کھوئے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔ جیسے وہ ابھی تک ماحول سے بے گانہ ہو۔

                نجانے کیا ہو گیا ہے اسے…………ایک مہینہ سے اس ہی طرح کی حرکتیں کر رہی ہے…………ادھیڑ عمر شخص نے بتایا…………اسے نہ تو کھانے پینے کا ہوش ہے اور نہ ہی تن بدن کا۔ بس ہر وقت سلامو سلامو کی رٹ لگائے رہتی ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے گھر سے نکل کر بھاگتی ہے…………پھر وہ نہایت ہی عاجزی سے بولا…………بیماری نے مجھے لاغر کر دیا ہے اب یہ مجھ سے نہیں سنبھالی جاتی۔

                ادھیڑ عمر شخص کے خاموش ہوتے ہی ساوتری دیوانی نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت اٹھائی۔

                اس پر پھونکا…………اور زنجیر پکڑے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوئی…………اسے چھوڑ دو۔

                لوگوں نے فوراً ہی زنجیر کے سرے چھوڑ دیئے…………دو شیزہ نے آزاد ہوتے ہی تیزی سے مڑ کر دروازہ کی جانب زقند لگائی۔

                کہاں جاتی ہے؟…………ساوتری نے نہایت ہی رعب سے پوچھا۔

                دو شیزہ نے ایک لمحہ کے لئے رک کر جواب دیا…………اپنے سلامو کے پاس۔

                ٹھہر جا۔ تیرا سلامو یہیں آ جائے گا…………ساوتری دیوانی نے کہا۔

                اری جا۔ تو کیا بلائے گی…………دوشیزہ نے منہ چڑا کر جواب دیا۔ اور دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی۔

                اس ہی لمحہ دیوانی نے اپنی انگشت شہادت کو اوپر سے نیچے کی جانب حرکت دی اور پھر یوں معلوم ہوا جیسے زمین نے دوشیزہ کے پائوں پکڑ لئے ہوں۔

                چھوڑ دے مجھے جانے دے…………دوشیزہ نے اس کی طرف مڑ کر کرخت آواز میں کہا۔

                ساوتری دیوانی نے کوئی جواب دینے کی بجائے انگشت شہادت کو دوبارہ اٹھایا اور دوشیزہ کو اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا…………دوشیزہ ساوتری دیوانی کی طرف دیکھے بغیر اس طرح الٹے پائوں چلتی ہوئی آئی جیسے اسے کوئی آگے سے دھکیل رہا ہو…………پھر وہ دیوانی سے چند قدم پر رک گئی اور اس کی طرف دیکھے بغیر بولی۔ کیوں مجھے تنگ کرتی ہے۔

                تو کیوں اسے تنگ کرتا ہے…………ساوتری دیوانی نے برجستہ پوچھا۔ لیکن اس کا کہجہ نہایت ہی نرم تھا۔

                مجھے اس سے پیار ہے…………دوشیزہ نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا…………مجھے یہ اچھی لگتی ہے۔

                لیکن تو جانتا ہے یہ انسان ہے…………ساوتری نے سرزنش کے لہجہ میں کہا۔

                جب ہی تو یہ مجھے اچھی لگتی ہے…………دوشیزہ نے قدرے تمسخر سے جواب دیا۔

                آگ اور پانی کا میل نہیں ہو سکتا…………ساوتری نے تنبیہہ کی…………اسے چھوڑ دے۔

                میں اسے نہیں چھوڑ سکتا…………مجھے اس پر قدرت حاصل ہے…………دوشیزہ نے سپاٹ لہجہ میں جواب دیا۔

                قدرت کے بچے…………ساوتری نے ڈانٹا…………یہ اشرف المخلوقات ہے۔

                لیکن اس وقت میرے بس میں ہے…………دوشیزہ نے قہقہہ لگا کر کہا۔

                یہ بھی اس کی برتری ہے کہ تجھے برداشت کئے ہوئے ہے…………ساوتری نے سمجھایا…………کوئی اور ہوتا تو تجھے ختم کر چکا ہوتا۔

                کسی میں اتنی طاقت ہے کہ مجھ سے آنکھ ملائے…………دوشیزہ نے اکڑ کر کہا۔

                سلامو…………ساوتری نے غصہ سے ڈانٹا…………تو نہیں جانتا کیا کہہ رہا ہے۔

                میں ہر بات سوچ سمجھ کر کہتا ہوں…………دوشیزہ نے اس ہی طرح اکڑ کر جواب دیا۔

                چلا جا…………چلا جا سلامو…………ساوتری نے ٹھنڈے لہجہ میں ایک بار پھر سمجھایا۔ ورنہ تیرا حشر بہت برا کرونگی۔

                اری جا…………یہ دھمکی کسی اور کو دینا…………دوشیزہ نے غرور سے جواب دیا۔

                تو مجھے جانتا ہے…………ساوتری نے نرم لہجہ سے پوچھا۔

                خوب اچھی طرح سے جانتا ہوں…………دوشیزہ نے مذاق اڑاتے ہوئے ہنس کر کہا…………تو دیوانی ہے۔ دیوانی۔

                تو پھر…………مجھ دیوانی سے آنکھ ملا کر بات کر…………ساوتری نے تمکنت سے کہا۔

                لے۔ دوشیزہ نے بھی اس ہی طرح جواب دیا۔ اور تیزی سے اس کی طرف گھوم کر بولی…………تجھ سے کوئی ڈرتا ہوں کیا…………اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی بڑی بڑی سرخ آنکھیں ساوتری کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔

                ساوتری نے ایک دو بار اپنی آنکھوں کو جھپکایا اور پھر کچھ زیر لب پڑھنے لگی۔

                ارے۔ یہ تو مجھے بھی آتا ہے…………دوشیزہ نے ہنس کر کہا۔ اور زور زور سے درود شریف پڑھنے لگی۔

                ساوتری نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور ایک آیت خاموشی سے پڑھنے لگی…………اس ہی آیت کو دوشیزہ پھر زور زور سے پڑھنے لگی…………پھر…………پھر…………ساوتری جیسے ہی کوئی آیت شروع کرتی۔ دوشیزہ بھی وہی آیت پڑھنے لگتی…………اس صورتحال سے وہاں پر موجود تمام لوگ خوفزدہ اور پریشان ہونے لگے…………ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ بلا کس طرح ٹلے گی۔ اس مصیبت سے کیوں کر چھٹکارہ حاصل ہو سکے گا۔

                کچھ دیر بعد ساوتری نے اچانک آیات ربانی کی تلاوت ختم کر دی۔ اور گردن جھکا کر نگاہیں اپنے سینہ پر جما دیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مراقبہ میں چلی گئی ہے یا پھر تصور شیخ میں گم ہو گئی ہے۔

                پڑھ۔ دیوانی پڑھ…………دوشیزہ نے اسے خاموش دیکھ کر بھرپور طنز کیا…………میں بھی اس ہی استاد کا شاگرد ہوں جس سے تو نے قرآن پڑھا ہے۔

                ساوتری نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اس ہی طرح خاموشی سے گردن جھکائے سینہ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ دھک دھک کرتے دل کا زیروبم سینہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ پھر دل کی یہ دھڑکن تیز ہوتی چلی گئی…………اس کے ذہن پر یہ آواز چھانے لگی………………اور پھر…………اس کے حواس ظاہری نے نقاب الٹنی شروع کر دی…………وہ اپنے وجود ظاہری کو بھول کر وجود معنوی میں گم ہو گئی۔ اس کے سامنے اسرار کی باریکیاں منکشف ہونے لگیں…………اسے اپنے سینہ میں گوشت پوست کے بجائے ایک نقرئی گھنٹی دکھائی دی۔ جس سے ہر جانب نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں لیکن نہیں وہ شعاعیں نہیں تھیں بلکہ وہ تو سوتی آہنگ تھے جن سے دھک…………د…………ھ…………ک…………کے بجائے ح…………ق…………ح…………ق…………ح…………ق…………کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ وحدت الوجود کی اس آگاہی کے ساتھ ہی اس کے سینہ میں آتش عشق بھڑک اٹھی۔ یہ ایسی تپش تھی جس نے اس کی روح کو گرما دیا۔ یہ نور تھا…………عشق کا…………یہ روشنی تھی…………حقیقت کی…………جس کے سامنے کائنات کی کوئی بھی شئے، کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی گردن کو اوپر اٹھایا۔ اور دوشیزہ کو دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائی۔ دوشیزہ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر ایک دم غصہ سے بولی…………دیوانی ہوئی ہے کیا؟ جو پاگلوں کی طرح ہنس رہی ہے۔

                ہاں…………میں دیوانی ہوں…………ساوتری نے زور دار قہقہہ لگا کر کہا۔ پھر دوسرے ہی لمحہ سنجیدگی سے بولی…………تو کیا ہے؟ تیری حیثیت کیا ہے؟

                میں تجھے اپنی حیثیت بتا چکا ہوں…………دوشیزہ نے اکڑ کر جواب دیا۔

                کچھ نہیں…………کچھ نہیں…………ساوتری نے سر ہلا کر کہا…………تو کچھ بھی نہیں ہے…………پھر وہ نہایت ہی جلالی انداز میں بولی۔ جو میں ہوں وہ تو نہیں ہو سکتا…………چلا جا…………چلا جا…………ورنہ خاک کر دوں گی۔

                ارے میں تو خود آگ ہوں…………دوشیزہ نے ہنس کر مذاق اڑاتے ہوئے کہا…………تو مجھے کیسے جلائے گی؟

                اپنے اندر کی روشنی سے بھسم کر دوں گی…………ساوتری نے نہایت ہی جلال میں زمین پر ہاتھ مار کر کہا…………عشق طریقت کی چنگاری سے پھونک ڈالوں گی۔ لے دیکھ…………اس کے ساتھ ہی ساوتری نے بیری کے درخت کی طرف منہ کر کے ہلکے سے پھونک ماری…………اس کے منہ سے آگ کا ایک شعلہ سا لپکا۔ جس نے فوراً ہی درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

                دوشیزہ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ فوراً ہی خوفزدہ ہو کر صحن کے دروازہ کی طرف لپکے۔ ان میں اختر بھی شامل تھا پھر وہ سب کے سب دروازہ کے قریب پہنچ کر رک گئے…………ان کی نگاہیں ساوتری دیوانی اور دوشیزہ پر لگی ہوئی تھیں۔ جن سے چند قدم کے فاصلہ پر بیری کا درخت مشعل کی مانند جل رہا تھا۔

                بول…………کیا کہتا ہے جاتا ہے یا تیرا بھی یہی حشر کروں…………ساوتری نے اسے بڑے ہی پیار بھرے لہجہ میں پوچھا۔

                بڑی آگ ہے تیرے سینہ میں…………دوشیزہ نے دانت چبا کر کہا…………اس آگ کو اس سے کیوں نہیں ٹھنڈا کر لیتی…………دوشیزہ نے آخری جملہ اختر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

                خاموش…………بکواس بند کر…………ساوتری نے غصے سے چیخ کر کہا۔

                دوشیزہ کے ان الفاظ سے وہ مشتعل ہو گئی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی حرکت کرتی…………اندر کوٹھری سے ایک عمر رسیدہ شخص بدحواسی کے عالم میں نمودار ہوا۔ ساوتری نے آہٹ پاتے ہی اس کی طرف دیکھا اور احتراماً کھڑی ہو گئی۔ وہ ضعیف العمر شخص جس کی کمر جھکی ہوئی تھی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا قریب آیا…………اس کے قریب آتے ہی دوشیزہ نے نہایت ہی غصہ کی نظروں سے دیکھا۔

                حضور آپ نے کیوں تکلیف کی…………ساوتری نے نہایت ہی ادب سے پوچھا۔

                یہ میر ابیٹا ہے…………اس شخص نے نہایت ہی آہستگی سے کہا۔

                آپ کا بیٹا…………ساوتری نے حیرانگی سے کہا…………پھر گہری سانس لے کر بولی۔ جب ہی تو میں سوچ رہی تھی یہ مسلمان کہاں سے پیدا ہو گیا۔

                یہ گستاخ ہو گیا ہے…………بوڑھے شخص نے اپنی جھکی ہوئی کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا…………میں…………اسے کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں کہ انسانوں سے چھیڑ چھاڑ کرنا…………اچھا نہیں…………لیکن یہ سمجھتا ہی نہیں…………اس ضعیف العمر شخص کی زبان سے الفاظ بمشکل تمام نکل رہے تھے۔

                اچھا ہوا۔ جو آپ آ گئے…………ساوتری نے خوش دلی سے کہا۔ اس ہی بہانہ آپ کی زیارت تو نصیب ہوئی کیونکہ آپ اپنی نسل کے ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے فخر کائنات رحمت اللعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہے۔

                ہاں…………یہ میری خوش قسمتی ہے…………ضعیف العمر شخص نے جواب دیا…………بلکہ کچھ عرصہ…………حضورﷺ کی غلامی کا بھی شرف حاصل ہوا ہے۔

                ہائے…………ہائے…………قربان جائوں اس غلامی کے میں…………ساوتری نے والہانہ جذبہ محبت سے سرشار ہو کر کہا…………پھر گڑگڑا کر بولی…………خدا کا واسطہ۔ کچھ تو میرے آقاﷺ کا حال بتائے۔

                حال…………ضعیف العمر نے لفظ دہرایا۔ کیا پوچھتی ہو۔ میرے آقاﷺ کے حال کا میرے آقاﷺ…………رات رات بھر حق تعالیٰ کے حضور میں کھڑے رہتے تھے حتیٰ کہ کے پائوں پر ورم آ جاتا تھا۔

                میرے آقاﷺ…………نے کبھی بھی عمر شریف میں تین دن پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔

                میرے آقاﷺ…………نے فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھے۔

                میرے آقاﷺ…………نے بوسیدہ لباس میں پیوند لگا کر پہنے۔ اپنا وطن چھوڑا دکھ سکھ میں راضی برضا رہے۔

                اتنا سن کر ساوتری عالم بے خودی میں درود شریف پڑھنے لگی۔ ضعیف العمر شخص زمین پر بیٹھی ہوئی دوشیزہ کی طرف متوجہ ہوا۔ نہایت ہی کرخت لہجہ میں بولا۔ اے نالائق تجھے بار بار سمجھاتا رہا ہوں کہ مسلمانوں سے دور رہا کر…………یہ اپنے ہی نبیﷺ کے امتی ہیں اور انسان ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زیادہ قریب ہیں۔

                تو میں کیا کروں…………دوشیزہ نے ضعیف العمر شخص کی بات کاٹ کر ناگواری سے کہا۔

                یہ خاک کے پتلے ہیں…………ضعیف العمر شخص نے تنبیہہ سے کہا اور خاک فرش کی چادر ہے۔ خاک کی صفت ہے کہ پانی پر ڈالو تو اسے خشک کر دے…………آگ پر ڈال دو تو اسے ٹھنڈا کر دے۔ سمجھا۔

                دوشیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ اجنبی نظروں سے ضعیف العمر شخص کو دیکھنے لگی۔

                ضعیف العمر شخص نے ایک لمحہ کے لئے توقف کیا اور پھر سمجھاتے ہوئے بولے…………تو ساوتری کو بچپن سے جانتا ہے اس کے ساتھ تو نے قرآن پڑھا ہے۔

                و اسے دیوانی سمجھتا ہے…………لیکن تجھے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دربار میں اس کے رتبہ کا علم نہیں پھر وہ ایک دم خاموش ہو گئے جیسے انہیں یہ بات نہیں کہنا چاہئے تھی۔

                دوسرے ہی لمحہ انہوں نے کہا…………اچھا چل اٹھ…………اور اس کے ساتھ ہی دوشیزہ ایک جانب کو بے ہوش ہو کر لڑھک گئی۔ پھر وہ ضعیف العمر شخص اپنی جھکی ہوئی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے واپس کوٹھری میں چلے گئے…………دوشیزہ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ فوراً اس کی طرف دوڑے۔ اس کے ادھیڑ عمر بھائی نے آگے بڑھ کر گود میں سر رکھ لیا…………اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارے…………کچھ دیر بعد…………دوشیزہ کو ہوش آ گیا…………اس نے اجنبی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا اور پریشانی سے بولی۔‘‘بھیا میں کہاں ہوں؟’’

                بھائی نے فرط محبت سے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا…………گھبرائو نہیں میری بہن۔ گھبرائو نہیں۔

                لے جائو اسے…………اب یہ ٹھیک ہے…………ساوتری اس کے بھائی سے مخاطب ہوئی اور پھر اطمینان سے وہ بھی اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔ دوشیزہ سے نقاہت کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا…………اب وہ پوری طرح سے اپنے ہوش و ہواس میں تھی اور اجنبی لوگوں کو اپنے اطراف دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوئی جا رہی تھی۔ اس کے بھائی نے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کا خلوص دل سے شکریہ ادا کیا اور ان سے نہایت ہی عاجزی سے درخواست کی کہ وہ چلے جائیں تا کہ وہ اپنی بہن کو لے کر گھر جائے۔ لوگ ایک ایک کر کے باہر نکل گئے۔ اختر ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ باہر جائے یا ساوتری کے پاس کوٹھری میں جائے اور اس سے بات کرے کہ اچانک دوشیزہ کے بھائی کی آواز سنائی دی۔ اختر کیا تم میری بہن کو گھر پہنچانے میں میری مدد نہیں کرو گے۔

                جی چلئے…………اختر نے بغیر کسی تردد کے کہا…………پھر اس نے آگے بڑھ کر دوشیزہ کے جسم کے گرد لپٹی ہوئی زنجیر کو کھولنا شروع کر دیا۔ دوشیزہ کے سیمیں بدن سے جونہی ہاتھ چھوتا۔ جسم میں کرنٹ سا دوڑ جاتا۔ پھر جب اس کے جسم کو زنجیر سے آزاد کر دیا گیا تو ایک بازو اس کے بھائی نے خود پکڑ لیا اور دوسرا بازو اختر کو پکڑنے کا اشارہ کیا۔ اختر پہلے تو ہچکچایا لیکن جب دوشیزہ کے بھائی نے یہ کہتے ہوئے اصرار کیا کہ تم کوئی غیر تو ہو نہیں اپنے ہی ہو۔ تو اس نے دوشیزہ کا بازو تھام لیا اور پھر وہ دونوں ہی اسے لے کر ساوتری کے گھر سے باہر آ گئے۔

                دروازہ کے باہر دو تین سیڑھیاں اتارنے کے بعد اختر نے دوشیزہ کا بازو چھوڑ دیا…………دوشیزہ کا بھائی چاہتا تھا کہ اختر گھر تک چلے لیکن اختر نے معذرت کر لی…………وہ اس خوف سے نہیں جانا چاہتا تھا کہ اگر رشتہ داروں میں سے کسی نے دیکھ لیا۔ تو کیا جواب دے گا ان دونوں بہن بھائیوں کو رخصت کرنے کے بعد…………وہ پھر واپس اندر آیا…………وہ ساوتری سے موجودہ حالات اور اپنے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔

 

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔