Topics

اختر کی واپسی


 

                دیوانی ساوتری لباس کئی کئی دن تک نہیں اتارتی تھی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے چاندی جیسے بدن پر میل جم جاتا تھا۔ بلکہ اس کا ماورائی حسن بھی متاثر ہوتا تھا…………اس کے سر کے بالوں میں گرد و غبار کی تہہ جمع رہتی تھی…………ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے دنیا و مافیا کا ہوش ہی نہیں ہے۔

                بعض دفعہ وہ بیری کے درخت کے نیچے آ کر بیٹھ جاتی۔ جہاں پہلے پیر حاضر شاہ بیٹھا کرتے تھے۔ وہ گھنٹوں اس کے پتوں کو تکتی رہتی…………یا پھر کبھی ‘‘عالم بے خودی’’ میں باہر دروازہ پر آ کر بیٹھ جاتی اور مٹی کے گھروندے بناتی رہتی…………ادھر سے گزرنے والے پوچھتے کہ ‘‘دیوانی’’ کیا بنا رہی ہے؟ وہ بے ساختہ کہتی…………جنت میں گھر بنا رہی ہوں۔ محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس کے ساتھ کھیل میں شامل ہو جاتے اور جب…………ان کا اس کھیل سے دل بھر جاتا اور وہ کوئی دوسرا کھیل کھیلنے کو کہتے تو لہک لہک کر درود شریف پڑھنے لگتی…………بچے بھی اس کی آواز میں آواز ملانے لگتے…………اور اگر کوئی بچہ نہیں پڑھتا تو لات مار کر اس کا گھروندہ توڑ دیتی۔ یا پھر ہلکے سے سر پر چپت لگا دیتی۔

                بچے اس سے خوفزدہ ہو کر دور بھاگ جاتے اور پھر ایک ساتھ آواز ملا کر اسے دیوانی…………دیوانی کہہ کر چڑانے لگتے…………وہ انہیں پکڑنے دوڑتی تو سب اپنے اپنے گھروں میں گھس جاتے…………اور جب مائیں ان سے اس طرح بدحواس ہو کر آنے کی وجہ پوچھتیں تو وہ کہتے کہ دیوانی ہمیں مارتی ہے۔ مائیں سمجھاتیں کہ بیٹا اس کے ساتھ نہ کھیلا کرو۔ وہ پاگل ہے۔

                کبھی کبھی…………وہ حالت جذب و مستی میں خود سے باتیں کرنے لگتی…………اور اگر محلے کی کوئی عورت اس سے پوچھتی کہ وہ کس سے باتیں کر رہی ہے تو ساوتری نہایت ہی سنجیدگی سے کہتی۔ اپنے روحانی باپ سے…………کبھی وہ کہتی کہ…………فرشتے اس کے پاس آتے ہیں۔

                غرض کہ یہ اور اس ہی طرح کی غیر مبہم باتیں سن سن کر لوگ اس کا مذاق اڑاتے اور افسوس سے کہتے کہ…………ہائے! اتنی حسین جوانی کو ‘‘دیوانگی’’ نے مٹی بنا دیا ہے۔

٭×××××××××××٭

                اچانک ہی خان بہادربیمار پڑ گئے اور اختر کو فوری طور سے واپس آنا پڑ گیا…………وہ تقریباً پانچ سال بعد لندن سے واپس آیا تھا…………خان بہادر کی خواہش تھی کہ ان کا اکلوتا بیٹا بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے…………لیکن ضعیف العمری اور بیماری نے بیٹے کو واپس بلوانے پر مجبور کر دیا تھا۔

                اختر…………نہ صرف ماں باپ کا لاڈلا تھا بلکہ بہنوں کا بھی دلارا تھا…………وہ آیا تو تھا باپ کی تیمارداری کے لئے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

                اس کے آنے کے فوراً بعد ہی بیماری نے ایسا زور پکڑا کہ خان بہادر جانبر نہ ہو سکے…………اور سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔

                یہ ایسا غم تھا کہ جس کا سب سے زیادہ افسوس اختر کو تھا۔ ماں کے بعد باپ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا…………بہنیں اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں…………باپ کی موت کا المناک حادثہ اور تنہائی کے احساس نے اسے ادھ مرا کر دیا گو کہ بہنوں نے اپنی شفقت اور محبت اس پر نچھاور کر دی لیکن پھر بھی اسے سنبھلتے سنبھلتے چھ ماہ لگ گئے۔

                بیماری کے دوران ہی اسے ساوتری کے حالات کا علم ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ ساوتری جب کہ تین سال کی تھی دیوانوں جیسی باتیں کرتی تھی…………پھر جب اسے بہنوں نے بتایا کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد بھاوجوں نے اس پر بے انتہا مظالم ڈھائے تو اسے سخت افسوس ہوا…………اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انسان محبت سے خالی کیوں ہو جاتا ہے…………اور یہی سوچتے سوچتے اس کے سینہ میں پیار بھر جاتا اور محبت کی لہروں پر اسے زندگی ہچکولے کھاتی نظر آتی۔

                اس نے لندن میں پانچ سال نہایت ہی رنگین گزارے تھے…………یخ بستہ ہوائوں نے اس کے جس کو اپنی سانسوں سے گرم رکھا اور برف باری کے دوران سلگتے ہوئے جسم کے لمس سے حرارت پہنچائی۔ لیکن جوانی کے اس طوفان میں اسے پیار کا ایک بھی جھونکا نہ ملا۔ اس کا مقولہ تھا کہ:

                ‘‘عورت اور مرد کی تخلیق صرف لذت نفس حاصل کرنے کے لئے کی گئی ہے۔’’

                اس مقولے نے جنسی بے راہ روی کا ایسا سیلاب برپا کیا کہ اس کے ریلے میں ‘‘پیار و محبت’’ خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔

                جب وہ اپنے وطن میں واپس لوٹا اور یہاں کی سرد گرم ہوائیں اس کے جسم سے ٹکرائیں تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ باپ کی شفقت، ماں کا پیار اور بہنوں کی دل گیری انسان کا جوہر ہے…………وہ جس معاشرے سے آیا تھا وہ جس دنیا میں گھوما تھا وہ ایک خواب تھا۔ ایسا خواب جس میں جوانی کی تپش تو تھی لیکن پیار کا کہیں سایہ نہ تھا۔

                اسے اب واپس لندن نہیں جانا تھا۔ اس کا دل اس رنگین دنیا سے اکتا گیا…………پھر بہنوں کی شفقت اور جاگیر کی ذمہ داریوں نے بھی اس کے ارادوں کو زنجیریں پہنا دیں…………اور اس نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔

                طبیعت سنبھلنے کے بعد اس نے شہر کے مضافات میں واقع اپنے باغات میں جانا شروع کر دیا۔

٭×××××××××××٭

                آہستہ آہستہ اختر کی زندگی معمول پر آتی چلی گئی…………اس نے اپنے ماں باپ کے پرانے مکان میں ترمیم و توسیع بھی کرا لی تھی اور اسے اپنی حسب منشاء کسی حد تک ماڈرن بنوا لیا تھا۔ کیونکہ بہنوں نے اس کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ وہ اس کی شادی کے لئے لڑکی تلاش کر رہی ہیں۔

                یوں تو…………اختر کے لئے رشتوں کی کمی نہیں تھی۔ اپنے اور غیر سبھی اس ‘‘لندن پلٹ’’ کو اپنی دامادی میں لینا چاہتے تھے…………لیکن اختر نے انی سب سے بڑی بہن کو اپنا معیار بتا دیا تھا اور اس کی بہن اس کے بتائے ہوئے معیار کو تلاش کرنے میں مصروف تھی۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنی بھابھی ایسی لڑکی کو بنائیں جو ان کے بھائی کی دل پسند ہو۔

                ایک دن اختر کسی کام سے پیر حاضر شاہ کے گھر کی طرف سے گزرا۔ دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے…………وہ آگے بڑھا اور دروازہ پر پہنچ گیا…………اندر صحن میں ساوتری بیری کی ایک شاخ دائیں ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی…………اسے متوجہ کرنے کے لئے اختر کھنکارا۔ لیکن ساوتری نے کوئی توجہ نہیں دی۔

                اختر نے ہمت کی اور دروازہ سے اندر داخل ہو گیا…………ساوتری نہایت ہی صاف و شفاف سفید لباس پہنے کھڑی تھی۔ اس لباس میں اس کا حسن اور بھی نکھر آیا تھا…………اختر نے اسے پانچ سال بعد دیکھا تھا اور اس عرصہ میں وہ بیس سال کا حسین و جمیل مجسمہ بن چکی تھی۔ بیضوی چہرہ، سرخی مائل سفید رنگ، بادام جیسی پلکیں اور ان میں ہرن جیسی سرمگیں آنکھیں مائل بہ پرواز کشادہ سینہ، سفید شانوں کے درمیان گردن…………جیسے مصور نے صراحی کے منہ میں گلدستہ رکھ دیا ہو…………کمر چیتے جیسی غرض اس کا سراپا حسن ہی حسن تھا…………لیکن نہیں وہ تو نور تھا۔ ایسانور جو شاید حوروں کو بھی نصیب نہ ہو۔

                اختر نے اسے دیکھا…………اور دیکھتا ہی رہ گیا۔

                قدرت کی اس صناعی نے اسے سحر زدہ کر دیا تھا…………ساوتری کے جسم سے چنبیلی کی تیز خوشبو اس طرح پھوٹ رہی تھی کہ ساری فضا معطر ہو کر رہ گئی تھی۔ چند ساعت بعد اختر کو قدرے ہوش آیا اور اس نے کپکپاتے ہونٹوں سے پکارا…………ساوتری۔

                ساوتری…………مر گئی…………دیوانی کے حالت استغراق میں جواب دیا۔

                دیکھ ساوتری میں آ گیا ہوں…………اختر نے اس کے حسن سے مرعوب ہو کر ڈرتے ڈرتے کہا۔ میں تیرا بچپن کا دوست۔ تیرا ساتھی…………میں اختر ہوں اختر۔

                ساوتری نے اس کی بات سن کر نہایت ہی آہستگی سے گردن گھما کر دیکھا…………اس کی آنکھوں کی چمک سچے موتی سے زیادہ تابناک تھی…………اختر تاب نہ لا سکا اور نظریں جھکا لیں۔

                ساوتری نے اس ہی لمحہ اپنے سر کو دو بار جھٹکے دیئے…………اور بیری کی شاخ چھوڑ کر نہایت ہی پروقار لہجہ میں بولی:

                ‘‘تم آ گئے۔ تم اختر ہو؟’’

                ہاں…………ہاں……میں اختر ہوں…………اختر ن ے خوش ہو کر جواب دیا۔

                نہیں…………ساوتری نے اس کے چہرہ پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔ اب نہ تم اختر ہو اور نہ میں ساوتری ہوں۔ ساوتری تو اس دن مر گئی تھی جس دن اس نے ہندو دھرم کی عورت کے پیٹ میں جنم لیا تھا۔

                یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟…………اختر نے تعجب سے پوچھا۔

                میں سچ کہہ رہی ہوں دوست…………ساوتری نے قدرے مسکرا کر جواب دیا۔ اس دھرتی پر زندگی کیوں جنم لیتی ہے کوئی نہیں جانتا…………لیکن جوں جوں وہ اندر کی دنیا میں منزلیں طے کرتا ہے ‘‘حیات’’ کروٹیں بدلتی رہتی ہے اور اب میں تمہارے سامنے ساوتری نہیں‘‘دیوانی’’ کھڑی ہوں۔

                نہیں نہیں…………تم دیوانی نہیں ہو…………اختر نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ تمہیں دیوانہ کہنے والے خود پاگل ہیں۔

                نہیں وہ لوگ پاگل نہیں ہیں…………ساوتری نے پیار بھرے لہجہ میں سمجھایا…………دیوانے تو میری طرح ہوتے ہیں۔

                تم بچپن میں ایک خواب دیکھا کرتی تھی…………اختر نے پوچھا۔

                ہاں…………اور وہ خواب میں تمہیں اکثر سنایا کرتی تھی…………ساوتری نے جواب دیا…………اور اس خواب کی تعبیر یعنی ‘‘میں’’ تمہارے سامنے موجود ہوں۔

                کیسا خواب تھا…………وہ…………اختر نے بے خیالی میں افسوس سے کہا۔

                بڑا ہی اچھا خواب تھا۔ بڑا ہی سچا تھا۔ ساوتری نے بے ساختہ جواب دیا۔

                ساوتری…………اختر نے افسوس سے کہا۔ مجھے یہ جان کر سخت رنج ہوا کہ ماتا پتا کے بعد بھاوجوں نے تم پر بے پناہ ظلم کیا اور تمہیں ان کے ظلم کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا۔

                یہاں گھر ہے کسی کا…………ساوتری نے پوچھا…………پھر مسکرا کر بولی…………اصلی گھر تو وہ ہے۔ جہاں سے انسان اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور پھر پلٹ کر اس ہی طرف جاتا ہے۔ یہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے…………اور ایک نہ ایک دن سب ہی کو پلٹ کر اپنے پرانے گھر جانا ہے۔

                اس…………اس گھر میں تو پیر حاضر شاہ رہتے تھے…………اختر نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا۔

                ہاں…………وہ میرا پیر و مرشد تھا۔ میرا روحانی باپ تھا۔ ساوتری نے سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر معنی خیز انداز میں بولی۔ اس کے اس مکان پر میرا حق تھا۔

                بڑا ہی بوسیدہ مکان ہے…………اختر نے مکان کے در و دیوار پر نظر ڈالتے ہوئے ناگواری سے کہا۔ تمہار یہاں دل کس طرح لگتا ہے؟

                دل بھی کوئی لگانے کی چیز ہے؟…………ساوتری نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ انسان تو خود فانی ہے۔ وہ بھلا کیا کسی سے دل لگائے گا۔

                میرے پاس بڑا اور قیمتی مکان ہے…………اختر اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے بولا…………تم

                نہیں…………نہیں…………ساوتری نے فوراً ہی اس کی بات کاٹی۔ تمہارے پاس اس سے بڑا اور قیمتی مکان نہیں ہو سکتا۔

                تم چل کر دیکھو تو سہی…………اختر نے التجا کی…………لندن سے آنے کے بعد میں نے مکان کو نئے ڈیزائن سے بنوایا ہے۔

                ہاں…………ہاں…………تم نے بنوا لیا ہو گا…………ساوتری نے اس کی تائید کی۔ پھر اس کے چہرہ پر نظریں جما کربولی

                کیا تمہارے مکان کی بنیاد انسانیت پر قائم ہے؟

                کیا…………کیا اس کی چنائی ‘‘وحدانیت’’ کی اینٹوں سے کی گئی ہے؟

                کیا…………کیا اس پر ‘‘ایمان’’ کا پلاسٹر کیا گیا ہے؟

                کیا…………کیا اس کی چھت ‘‘تقویٰ’’ پر قائم ہے؟

                تم کیا کہہ رہی ہو؟…………اختر نے تعجب سے پوچھا۔

                میں جو کچھ کہہ رہی ہوں۔ سچ ہے۔ ساوتری نے جواب دیا…………جو لوگ دنیا میں اس طرح کے مکان تعمیر کرتے ہیں وہ ہی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

                تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ اختر نے شش و پنج میں کہا۔

                جب ہی تو لوگ مجھے دیوانی کہتے ہیں…………ساوتری نے رازداری سے کہا…………لوگ میری باتیں نہیں سمجھتے اور میں لوگوں کی بات نہیں سمجھتی۔

                اس کے بعد وہ زور سے ہنستی ہوئی اندر کمرہ میں چلی گئی۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ اختر کچھ دیر کھڑا اس کی بے رخی پر غور کرتا رہا پھر وہ کچھ سوچ کر باہر نکل آیا۔

٭×××××××××××٭

                اس ملاقات کے بعد اختر کو احساس ہو گیا کہ ساوتری دیوانی نہیں ہے بلکہ وہ درویش ہے۔ دنیا سے لاتعلقی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ یہ ایسی صورتحال نہیں تھی جو اختر کے لئے مایوس کن ہو۔

                اس کے دل میں بچپن کا سویا ہوا جذبہ جاگ اٹھا اور ساوتری کے شعلہ حسن نے اسے اور بھی بھڑکا دیا۔ محبت کا وہ جذبہ جو اس کے سینہ میں دفن تھا دفعتاً جاگ پڑا اور…………اور…………اس نے ساوتری کو اپنا شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اس در نایاب کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔

                اس نے اپنی بہنوں سے اس ارادہ کا تذکرہ کیا۔ جس بہن نے بھی اس کی بات سنی حیرانگی سے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اسے سمجھایا کہ کیوں‘‘دیوانی’’ کے پیچھے دیوانہ ہوا ہے۔ اختر کو جب یہ احساس ہوا کہ اس معاملہ میں کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے تو اس نے خود ہی ساوتری سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر ایک رات سورج ڈھلنے کے بعد اس کے گھر پہنچ گیا۔

                اس وقت ساوتری بیری کے درخت کے نیچے بیٹھی سر جھکائے درود شریف پڑھنے میں مشغول تھی۔

                اختر کی آہٹ پاتے ہی اس نے سر اٹھا کر دیکھا…………اور اس کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر معنی خیز تبسم پھیل گیا۔ اس کی یہ مسکراہٹ گویا اختر کے ارادہ کو جان لینے کی بازگشت تھی۔

                آئو…………اس نے نہایت ہی خندہ پیشانی سے کہا…………کہو، کیسے آنا ہوا؟

                ساوتری…………اختر نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا…………تو میرے بچپن کی دوست ہے…………ساتھی ہے۔ میں نے کبھی تیری طرف توجہ نہیں دی۔ کبھی تیری حالت پر غور نہیں کیا۔

                تمہیں اس کی فرصت کہاں تھی؟…………ساوتری نے برجستہ جواب دیا۔

                مجھے اپنی اس کوتاہی کا احساس ہے۔ اختر نے شرمندگی سے کہا۔

                غلطی کا تدارک کرنے کا وقت گزر چکا ہے…………ساوتری نے مصلیٰ سے اٹھ کر جواب دیا۔ اب نہ تو تم اختر ہو اور نہ ہی میں ساوتری ہوں۔

                لیکن…………لیکن…………اختر نے کسی قدر جھجھکتے ہوئے کہا…………میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ سچا پیار۔

                اچھا…………ساوتری نے تعجب سے کہا۔

                ہاں…………لندن سے آنے کے بعد میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے۔ دل کا عجب عالم ہے۔ اختر نے نیم وا آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا…………تمہارے حسن جہاں سوز نے میرے دل میں خوابیدہ محبت کے جذبوں کو جگا دیا ہے اور اب میں تمہیں…………

                جھوٹ کہتے ہو…………ساوتری نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا۔ اگر تمہارے دل میں ‘‘محبت’’ ہوتی تو مجھے چھوڑ کر لندن نہیں جاتے۔

                میں بھی اب اپنے اس عمل کو غلطی سمجھنے لگا ہوں۔ اختر نے اظہار ندامت سے کہا۔ لیکن اب تمہارے حسن کے نور نے میرے اندر کی دنیا میں ہلچل برپا کر دی ہے۔

                خدا خود حسین و جمیل ہے…………ساوتری نے اس کی بات کاٹی…………حسن کو پسند کرتا ہے۔ چاہتا ہے اور تخلیق کرتا ہے یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے تمہارے مزاج میں حسن کی پسندیدگی کی شمع روشن کر دی ہے۔

                میں تمہیں صرف پسند نہیں کرتا ہوں…………بلکہ پیار بھی کرتا ہوں۔ اختر نے اپنی بات کی وضاحت کی…………وہ سمجھ رہا تھا کہ ساوتری اس کی بات سمجھ نہیں پا رہی ہے۔

                یہ تو بڑی ہی اچھی بات ہے…………ساوتری نے خوشی سے جواب دیا۔ اگر تمہیں مجھ سے پیار ہے۔ محبت ہے تو پھر آئو مجھ جیسے بن جائو۔

                کیا مطلب…………اختر نے پوچھا۔

                محبت ایک معرفت ہے۔ ساوتری نے اسے سمجھایا۔ اگر تمہیں مجھ سے پیار ہے، تم مجھے چاہتے ہو تو محبت کے رموز سے بھی آگاہ ہو جائو کہ وہ اللہ کی سب سے اعلیٰ و ارفع صفت ہے۔ پھر والہانہ انداز سے بولی۔

                محبت چاند کی کرن ہے جس سے اللہ انسانوں کے جذبات کو ابھارتا ہے۔

                محبت ایک تجسس ہے۔ جس سے انسان تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتا ہے۔

                محبت بشری کمزوری بھی ہے جو آدم کو ورثہ میں ملی ہے۔

                محبت، وہ راستہ ہے جو بندہ کو خدا تک پہنچا دیتا ہے۔

                اب اگر…………اس نے سنبھل کر کہا۔ واقعی تمہارے دل میں ‘‘محبت’’ پیدا ہو چکی ہے تو سمجھو عشق الٰہی کی راہیں تمہاری منتظر ہیں۔ آگے بڑھو اور محبت کی راہیں طے کرتے ہوئے ‘‘عشق الٰہی’’ کی منزل میں داخل ہو جائو جہاں محبت اور محبوب دونوں ہی باہم مل جاتے ہیں۔ جہاں حسن اور عشق دونوں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

                ہونہہ…………اختر نے اس کی بات سمجھ کر ایک گہری سانس لی اور سوچ کر بولا…………میں تم سے ‘‘عشق طریقت’’ کے بارے میں نہیں ‘‘عشق مجازی’’ کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ میں نے تمہیں دیکھا…………تمہارے حسن نے میرے دل میں عشق کی آگ بھڑکا دی…………اور تمہیں شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

                تم…………کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے…………ساوتری نے تمکنت سے کہا…………فیصلہ کرنے کا حق صرف اس قادر مطلق کو ہے جو حیات و موت کا بانی ہے اور اس نے فیصلہ کر دیا ہے۔

                اس کی بات سن کر اختر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا…………ساوتری نے اپنی پوری بات کی۔ اس نے مجھے حسن عطا کیا ہے اور حسن مظاہر قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ میں اس لئے حسین ہوں کہ لوگ حسن عطا کرنے والے کا شکر ادا کریں۔ مجھے حسن اس لئے دیا گیا ہے کہ لوگ ذات الٰہی کی صفت کے معترف ہو جائیں۔ پھر اس نے ناگواری سے کہا۔ میرا حسن لوگوں کی ہوس نفس کی تسکین دینے کے لئے نہیں ہے۔

                تم…………میرے پیار کو…………میری محبت کو…………میرے خلوص کو ٹھکرا رہی ہو…………اختر نے شکایت آمیز لہجہ میں کہا۔

                نہیں…………میں تمہیں ‘‘حسن و عشق’’ کی حقیقت سمجھا رہی ہوں…………ساوتری نے ٹھنڈے لہجہ میں کہا…………اس کائنات میں ہر طرف قدرت کا ایسا حسن بکھرا ہوا ہے جسے صرف باطنی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

                اختر نے سوچا…………ساوتری ‘‘تصوف’’ کی زبان میں بات کر رہی ہے ممکن ہے اس نے تھوڑی بہت روحانی تعلیم حاصل کر لی ہو۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے شعور کے کسی گوشہ میں چھپی ہوئی ‘‘مادیت’’ بیدار ہو گئی اور اس نے کسی قدر شکوہ آمیز لہجہ میں کہا اور جن لوگوں کے پاس باطنی نگاہ نہ ہو۔ کیا انہیں حسن سے لطف اندوز ہونے کا حق نہیں ہے۔

                سب ہی لوگوں کے لئے اللہ نے حسین صورتیں بنائی ہیں۔ ساوتری نے قدرے مسکرا کر کہا۔

                اور ان حسین صورتوں سے محبت کرنے کو بھی کہا ہے۔ اختر نے فوراً ہی کہا۔

                مجھے اس سے انکار نہیں۔ ساوتری نے جواب دیا۔ لیکن یہ حسین صورتیں صرف طبعی تقاضے پورے کرنے کے لئے تخلیق نہیں کی گئیں۔

                طبعی تقاضے…………تم الفاظ کے پیچ و خم میں الجھا کر مجھے بہلانا چاہتی ہو۔ اخر نے جھنجھلا کر کہا۔

                لیکن یاد رکھو…………میں نے تم سے محبت کی ہے سچی محبت…………

                تمہاری محبت جھوٹی ہے…………ساوتری نے بڑے ہی تحمل سے کہا…………تمہاری چاہت فریب ہے۔ تمہارا پیار دھوکا ہے۔

                اختر چند منٹ خاموش نظروں سے ساوتری کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ یہ کہتا ہوا…………‘‘میں پھر آئوں گا’’ گھر سے باہر نکل گیا۔

 


Peer Hazir Shah

محمد مونس خان عظیمی


یہ کہانی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک جاری رہے گی۔ کہانی ایک ہے۔ کردار مختلف ہیں۔ یہ کردار کبھی عورت اور کبھی مرد بن جاتا ہے آج کی ہر عورت جنت کی اماں حوا ہے۔ آج کا ہر مرد جنت میں رہنے والا آدم ہے۔ عورت اور مرد کے دو روپ ہیں۔ ایک مادی اور دوسرا روحانی۔ مادی جسم مفروضہ حواس کی ایسی فلم ہے جو قید و بند کی اسکرین پر چل رہی ہے۔ روحانی جسم ایسے حواس کا مجموعہ ہے جہاں زمین، آسمان، عرش اور سارے کہکشانی نظام ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔ میرے پیر بھائی محمد مونس عظیمی نے اس رشتے کو اجاگر کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیا اور کرداروں کے تعین سے ہمیں بتایا کہ مادیت کے خول میں بند انسان کی آتما بے چین و بیقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مادیت کے خول سے آزاد انسان بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔