Topics

گھنشام


                میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ یکایک اللہ رکھی مر کیسے گئی……اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اللہ رکھی ایک محترم و مقدس ہستی تھی۔ اور اس کے اس طرح اچانک مر جانے سے کہیں میں کسی مصیبت میں نہ پھنس جائوں۔ اس خیال کے آتے ہی میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی……اور میں نے فوراً ہی یہاں سے بھاگ جانا ہی مناسب سمجھا۔ اور ابھی میں اپنے ارادہ کو عملی جامعہ پہنانا ہی چاہتا تھا……کہ اللہ رکھی جسے جسم میں حرکت پیدا ہوئی……میں ایک بار پھر ٹکٹکی باندھ کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔ چند لمحہ بعد……اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ اس طرح زندہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا۔

                اللہ رکھی نے کلمہ پڑھ کر اٹھتے ہوئے پوچھا۔ کہاں چل دیے۔

                تمہیں کیا سکتے کی بیماری ہے……میں نے حیرت سے پوچھا۔

                نہیں تو……اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا……لیکن……لیکن……تمہاری سانس بھی نہیں چل رہی تھی……میں نے اسی طرح حیرت زدہ لہجہ میں کہا۔

                ایسی تو کوئی بات نہیں تھی……اس نے جواب دیا……میں کوئی مر تو نہیں گئی تھی ۔ خیر……اب میں چلتا ہوں……میں نے کہا۔

                ارے……تم میری پیش گوئی کے متعلق نہیں جاننا چاہو گے……اس نے کہا۔ اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ صبح دیکھا جائے گا……میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ اور پلنگ سے اٹھ گیا۔ لیکن اللہ رکھی نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر ایسا جھٹکا دیا کہ میں مسہری پر چت گر گیا۔

                آدھی رات کو کہاں جائوں گے……اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی میری پیشانی کے عین وسط میں اس زور کی پھونک ماری کہ میری دونوں آنکھیں بند ہو گئیں……اب میں مسہری پر دونوں آنکھیں بند کیے چت لیٹا تھا۔

                میں نے دو تین بار آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن نہ کھول سکا۔ ایسے میں اللہ رکھی کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہی تھی……تم پڑھے لکھے لوگوں کی عقل میں روحانی باتیں آتی ہی نہیں ہیں۔ تم لوگ ہر بات کی مادی توجیہہ چاہتے ہو……تم نے ‘‘وقت’’ کی اہمیت پر شک کیا……میری پیش گوئی پر شبہ کیا……لو……اب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔

                مجھے اس کے آخری جملے دور……بہت دور سے سنائی دیئے۔ اس کے ساتھ ہی میری بند آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھٹنے لگا……اور چاندنی جیسی مسحور کن روشنی پھیل گئی۔

                اس روشنی میں ایک شہر صاف نظر آ رہا تھا۔ اور اس شہر کے ایک محلہ میں ایک ہندو اور ایک مسلمان مونڈھوں پر بیٹھے مصروف گفتگو تھے……مجھے ان کی آواز سنائی دے رہی تھی……لیکن ان کے ہونٹ جس انداز میں ہلتے تھے’ ان کا مفہوم میری سمجھ میں آ جاتا تھا……ہندو کا نام گھنشام تھا اور مسلمان کا نام سلیمان کھوسہ۔

                سلیمان کھوسہ ضلع ‘‘بدین’’ کے ایک گائوں کا رہنے والا تھا۔ اور عرصہ پانچ سال سے کراچی میں ‘‘ٹرام’’ کا ڈرائیور تھا۔

                یہ دونوں نہ صرف آپس میں پڑوسی تھے بلکہ ایک ہی مقام پر ان کا روزگار بھی تھا۔ یعنی گھنشام کی زیورات کی دوکان صدر میں تھی اور سلیمان کھوسہ کا ٹرام ڈپو بھی اسی علاقہ میں تھا۔ سلیمان کھوسہ تنہا اس مکان میں رہتا تھا……گھنشام کا مکان بھی بالکل اس کے سامنے تھا۔ اکثر دوست سلیمان کھوسہ سے پوچھتے تھے کہ وہ تنہا کیوں رہتا ہے۔ کیا اس کی شادی نہیں ہوئی ہے۔

                سلیمان ہنس کر جواب دیتا……کہ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ اور وہ تین بچوں کا باپ بھی ہے جس میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں……وہ گائوں میں رہتے ہیں۔ اور انشاء اللہ وہ انہیں جلد ہی لے کر آ جائے گا۔

 

                اس وقت بھی موضوع گفتگو یہی تھا۔اور گھنشام اسے سمجھا رہا تھا……کہ پاکستان بن چکا ہے اور مہاجرین بڑی تعداد میں ہجرت کر کے آ رہے ہیں……کہیں ایسا نہ ہو……کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی مکان خالی سمجھ کر قبضہ ہی کر لے……ایسے حالات میں بیوی بچوں کا ہونا ضروری ہے۔

                یہ بات سلیمان کھوسہ کی بھی سمجھ میں آ گئی۔ اور اس نے اپنے دوست گھنشام سے وعدہ کر لیا کہ صبح وہ اپنے دفتر سے چند دن کی چھٹی لے گا اور وہیں سے سیدھا بدین چلا جائے گا تا کہ بچوں کو لے کر جلد از جلد واپس کراچی چلا آئے۔

                یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد ……سلیمان کھوسہ نے رخصتی کا مصافحہ کیا اور اپنے گھر چلا آیا۔ میری نگاہیں برابر اس کے تعاقب میں تھیں۔ اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد سلیمان کھوسہ نے اندر سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگائی اور اپنے کمرہ میں سونے کے لئے چلا گیا۔

                وقت بہت ہی تیزی سے گزر رہا تھا……میری آنکھوں کے سامنے پھیلی دھوپ چمک رہی تھی۔ اور سات دن گزر چکے تھے۔

                گھنشام اور اس کی بیوی اپنے صحن میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ گھنشام اپنی پتنی کو بتا رہا تھا کہ کھوسہ اپنی بیوی بچوں کو لینے بدین چلا گیا ہے۔

                لیکن جب اس کی بیوی نے بتایا کہ کھوسہ جب اپنی نوکری پر جاتا تھا تو باہر سے تالا ڈال کر جاتا تھا جبکہ وہ صبح سے دیکھ رہی ہے کہ اس کے دروازہ پر تالا نہیں ہے۔

                یہ سن کر پہلے تو گھنشام نے سوچا کہ وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر آگیا ہو گا۔ اور اب آرام کر رہا ہوگا……پھر وہ کچھ سوچ کر باہر آیا اور سلیمان کھوسہ کے دروازہ پر دستک دی۔ اس کا خیال تھا۔ دروازہ فوراً ہی کھل جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ دیر بعد……اس نے پہلے سے زیادہ زور سے دستک دی۔ لیکن اندر سے کوئی نہیں نکلا……پھر وہ مسلسل دروازہ کو زور……زور سے پیٹنے لگا……دروازہ پیٹنے کی آواز سن کر اڑوس پڑوس کے لوگ بھی گھروں سے نکل آئے۔ اور جب گھنشام نے انہیں بتایا……کہ کافی دیر سے دروازہ پر دستک دے رہا ہے لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آ رہا ہے۔ تو لوگوں کو تشویش ہوئی کہ آخر بات کیا ہے۔ ایک دو آدمیوں نے خود بھی آگے بڑھ کر دستک دی۔ لیکن پہلے کی طرح خاموشی رہی۔ بالآخر……طے ہوا کہ کسی شخص کو دیوار پر چڑھا کر جائزہ لیا جائے۔ اس بات پر سب لوگ متفق ہو گئے اور ایک دبلے پتلے شخص سے کہا گیا کہ وہ دیوار پر چڑھ کر جائزہ لے۔

                وہ شخص دو آدمیوں کی مدد سے دیوار پر چڑھا۔ اور اندر صحن سے ذرا فاصلہ پر بنے ہوئے کمرہ میں نظریں دوڑاتے ہوئے بولا……کھوسہ اپنے کمرہ میں فرش پر اوندھا پڑا ہے……باہر کھڑے لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ شخص فوراً ہی اندر کود جائے اور دروازہ کھول دے……لہٰذا……اس شخص نے ایسا ہی کیا۔

                دروازے کے کھلتے ہی لوگ اندر داخل ہو گئے۔ لیکن صحن میں پہنچتے ہی سب نے اپنی اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیے۔ وہ سب سہمے ہوئے قدموں سے اس کمرہ کی طرف بڑھے جس میں کھوسہ رات کو سویا کرتا تھا……اس کے کمرے سے بدبو کے بھبکے اڑ رہے تھے۔

                سلیمان کھوسہ فرش پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ اور اس کے سر میں پیچھے کی جانب سے درخت کاٹنے والی کلہاڑی پیوست تھی۔ خون سر سے نکل کر بہتا ہوا دروازہ کی دہلیز تک چلا گیا تھا جو اب سیاہ ہو چکا تھا……اس کے مردہ جسم پر سرخ چیونٹیاں اور مکھیاں چمٹی ہوئی تھیں……یہ منظر دیکھ کر لوگوں کی دبی دبی چیخیں نکل گئیں……لوگ گھبرا کر فوراً باہر نکل آئے۔ کھوسہ کے قتل کی خبر سارے محلے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اور کچھ ہی دیر بعد پولیس کا ایک افسر دس بارہ سپاہیوں کے ہمارہ وہاں پہنچ گیا۔ اس نے فوری طور پر لاش کو گاڑی میں ڈال کر چند سپاہیوں کے ہمراہ پوسٹ مارٹم کے لئے روانہ کیا۔ اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق موقع پر موجود پڑوسیوں اور محلے کے آدمیوں کے بیانات قلمبند کیے۔

                سلیمان کھوسہ کا کوئی رشتہ دار تو تھا نہیں۔ لیکن محلے کے ہر شخص نے اس کے حسن اخلاق کی تعریف کی……گھنشام کو اپنے دوست کی اچانک موت کا زبردست صدمہ تھا۔ اس نے روتے ہوئے بیان دیا کہ سات دن قبل کھوسہ کو اس نے گائوں سے بیوی بچے لانے کا مشورہ دیا تھا جس پر کھوسہ نے اس سے صبح دفتر سے چھٹی لے کر بدین جانے اور اپنے بچے لانے کا اقرار کیا تھا……اس کے بعد اس نے کھوسہ کے گھر کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ اس کے خیال میں وہ بدین جا چکا تھا……لیکن آج جب اس کی بیوی نے اس کے گھر کی جانب توجہ دلائی تو اس نے دروازہ پر دستک دی……اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب محلے والوں کو معلوم ہے……پولیس افسر گھنشام اور دوسرے لوگوں کا ابتدائی بیان قلمبند کر کے چلا گیا۔

                تیسرے دن……پولیس پارٹی پھر محلے میں آئی……اس نے سلیمان کے مکان کا اندر سے معائنہ کیا ۔ اس کے گھر میں بہت معمولی سا سامان تھا۔ دو جوڑے کپڑے تھے۔ جو دیوار کے ساتھ لٹک رہے تھے۔ ایک پلنگ اور بستر……اور چند کھانے کے برتن تھے۔ گھر کا معائنہ کرنے کے بعد پولیس کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ ‘‘قاتل’’ چوری کی نیت سے نہیں داخل ہوا تھا……بلکہ یہ قتل کسی رقابت کا نتیجہ ہے……پولیس نے ایک بار پھر پڑوسیوں کو جمع کیا اور ان سے کرید……کرید کر سوالات کیے……سب نے یہی بتایا کہ یہ نہایت ہی شریف اور ملنسار شخص تھا۔ اس کا محلہ میں کبھی کسی شخص سے جھگڑا یا تلخ کلامی نہیں ہوئی……اس کا خاندانی پس منظر کسی کو نہیں معلوم تھا……صرف گھنشام ہی ایسا تھا……جسے معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اور ضلع بدین کے کسی گائوں میں اس کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ یہ بھی اس کی بدقسمتی تھی کہ اس نے کبھی اپنے دوست سے اس گائوں کے بارے میں نہیں پوچھا پھر یہی نہیں محلے والوں نے بھی ان دونوں کی گہری دوستی کی تصدیق کی۔ ان میں سے بعض نے تو یہاں تک انکشاف کیا کہ اکثر انہوں نے کھوسہ کو گھنشام کے گھر میں آتے جاتے بھی دیکھا ہے۔

                پس پھر کیا تھا……پولیس کو تو ذرا سا بہانہ چاہئے۔ انہوں نے فوراً ہی اسے شک کی بناء پر گرفتار کر لیا وہ ہندو تھا……اس آفت ناگہانی سے خوفزدہ ہو کر بیہوش ہو گیا……اس کی بیوی پولیس افسر کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے پتی کے لئے التجائیں کیں……پولیس نے اسے یقین دلایا کہ صرف تفتیش کی خاطر اسے تھانہ لے جایا جا رہا ہے۔ اور وہ شام تک چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر پولیس نے اسے اپنی وین میں ڈالا اور لے کر چل دی۔ محلے کی عورتوں نے اس کی بیوی کو دلاسا دیا تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔ اور وہ شام تک شوہر کے واپس آنے کا یقین کر کے گھر کے اندر چلی گئی۔

                میری آنکھیں دیکھتی تھیں۔ اور میرا‘‘شعور’’ صرف ‘‘وقت’’ کا احساس دلاتا تھا……اللہ رکھی کی ‘‘پھونک’’ نے مجھے ایسے ماحول سے وابستہ کر دیا تھا جو خواب کی مانند نظر آ رہا تھا……جس طرح خواب میں سب کچھ حقیقت نظر آتا ہے۔ اور خواب دیکھنے والا کوئی واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔

                وقت گزرتا رہا……گھنشام گھر نہیں آیا۔ اس کی بیوی نے رات انتظار میں گزار دی۔ اور صبح ہوتے ہی تھانہ میں پہنچ گئی۔ لیکن تھانہ میں اسے شوہر سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی بلکہ اسے ایک بار پھر تسلی دے کر واپس بھیج دیا گیا……گھنشام کے زیادہ تر رشتہ دار ہندوستان جا چکے تھے۔ جو چند ایک رہ گئے تھے وہ اس کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی گھر آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں زیادہ اس کی بیوی کے رشتہ دار تھے۔

                تیسرے دن……پولیس نے سلیمان کھوسہ کے قتل کے جرم میں اس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا اور اسے سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔

                گھنشام کی بیوی اور رشتہ داروں نے کراچی کے ایک مشہور وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ قتل گھنشام نے کیا ہے۔ اور اس کی وجہ ہے……کہ مقتول اس کے گھر آتا جاتا تھا……مقتول کے قاتل کی بیوی سے ناجائز تعلقات تھے……اور وجہ قتل یہی تھی۔

                استغاثہ کا اصرار تھا کہ قاتل ہندو تھا……اور مذہبی تصادم ہونے کی وجہ سے رقابت کی آگ ہی نے اسے قتل جیسے گھنائونے جرم پر آمادہ کر لیا تھا……میں نے کئی بار جیل میں گھنشام کو اپنی بیوی سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا……وہ ہمیشہ اس سے کہا کرتا تھا……کہ ‘‘اللہ رکھی’’ کے پاس جا……اس سے میرے جیون کی پرارتھنا کر۔

                اس کی بیوی ‘‘اللہ رکھی’’ کو نہیں جانتی تھی۔ پھر اسے اللہ رکھی سے زیادہ اپنے دھرم کے سادھوئوں اور پنڈتوں پر اعتبار تھا۔

                پنڈتوں کی پڑھنت اور گنڈوں سے اتنا ضرور ہوا کہ پیشیاں پڑتی رہیں……پولیس گواہ پیش کرتی رہی……اور یہ مقدمہ ایک دو ماہ نہیں پورے ڈیڑھ سال چلتا رہا……ڈیڑھ سال بعد……ایک دن عدالت نے گھنشام کے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا۔ اسے ‘‘سزائے موت’’ کا حکم دے دیا گیا۔ پندرہ دن رحم کی اپیل کے لئے دیئے گئے……گھنشام کی جانب سے ایک ہفتہ کے اندر……اندر رحم کی اپیل دائر کر دی گئی اور اس کی بیوی میر پور خاص کے ایک نامی گرامی پنڈت کے پاس اپنے پتی کے جیون کی پرارتھنا کرنے پہنچ گئی۔

                اس پنڈت نے گھنشام کی جنم کنڈلی بنانے کے بعد اسے یقین دلایا کہ اس کی رحم کی درخواست منظور کر لی جائے گی۔ اس کے عوض اس نے ایک بھاری رقم بھی وصول کر لی……گھنشام کی بیوی اس یقین کے ساتھ واپس آ گئی کہ اس کے پتی کی زندگی بچ جائے گی……اس نے ملاقات والے دن جیل میں جا کر اپنے شوہر کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔ اور وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ جب پنڈتوں نے اس مقدمہ کو اتنا طول دے دیا تھا تو اب……تواس کی بیوی بہت بڑے مہاپرش پنڈت سے پرارتھنا کر کے آئی ہے۔

                اور اس طرح چھ ماہ مزید گزر گئے۔ گھنشام……اس کی بیوی اور رشتہ داروں کو پکا یقین ہو چکا تھا کہ اس کی رحم کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ اور اس کی رہائی یا……قید بامشقت کی خبر آئے گی……اور پھر……ایک دن شام کو وکیل نے گھنشام کی بیوی کو اطلاع دی کہ اس کے شوہر کی رحم کی درخواست نامنظور ہو گئی ہے……اس کو کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ یہ خبر……اس کی بیوی اور رشتہ داروں پر بجلی بن کر گری……اس کی بیوی پر غشی کے دورے پڑنے لگے……بچے رو رو کر نڈھال ہو گئے۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں نے بڑی مشکل سے ان سب کو سنبھال رکھا تھا۔

                وہ رات ان سب نے بڑی ہی بے چینی اور کرب سے گزاری۔ صبح ہوتے ہی رشتہ داروں نے وکیل سے صلاح مشورے شروع کر دیئے……وکیل نے انہیں بتایا کہ اس ملک پاکستان کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں۔ یہاں کا نظام و نسق مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے……مسلمانوں نے یہ ملک اس دعویٰ کے ساتھ حاصل کیا ہے کہ وہ یہاں حق و انصاف قائم کریں گے۔ لہٰذا رحم کی درخواست مسترد ہو جانے کے بعد کوئی ایسا قانونی نقطہ نہیں رہ جاتا ہے جس سے مجرم کو بچایا جا سکے

                وکیل کی بات سننے کے بعد گھنشام کی بیوی نے ‘‘کالی مائی’’ کے مندر میں ڈیرہ جما لیا اور ساتھ دونوں بچے بھی تھے……وہ بس د ن رات ‘‘کالی مائی’’ کے چرنوں میں پڑے’گھنشام کی زندگی کے لئے دعا کرتے رہتے تھے۔ انہیں ابھی مندر میں آئے ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ جیل کے اعلیٰ حکام کی طرف سے اس کے رشتہ داروں کو اطلاع دی گئی کہ گھنشام سے آج کسی بھی وقت بیوی بچوں کے علاوہ اور بھی کوئی چاہے ملاقات کر لے……کیونکہ آج رات کے پچھلے پہر اسے پھانسی دے دی جائے گی۔

                یہ روح فرساں خبر لے کر اس کا ایک قریبی رشتہ دار مندر میں پہنچا اور ڈرتے ڈرتے یہ خبر سنائی……کہ وہ جیل میں اپنے پتی سے جب چاہے ملاقات کر سکتی ہے۔ آدھی رات کے بعد……اس کے جیون کی گھڑیاں ختم ہو جائیں گی۔

                گھنشام کی بیوی نے یہ اطلاع بڑے ہی سکون سے سنی۔ نہ وہ چیخی نہ چلائی……اور نہ ہی اس کے بچوں نے شور مچایا……ان تینوں میں سے کسی ایک کی آنکھ سے آنسو نہ گرا……معلوم ہوتا تھا اللہ تبارک تعالیٰ نے انہیں ایسا صبر عطا کر دیا تھا کہ اب و ہ بڑے سے بڑا حادثہ برداشت کر سکتے تھے……اس نے یہ خبر سنی۔ اور خاموشی کے ساتھ بچوں کے ہمراہ مندر سے نکل آئی۔

                گھر پہنچ کر اس نے سب بچوں کو نہلایا اور انہیں صاف و اجلے کپڑے پہنائے۔ اس کے بعد……وہ خود نہائی۔ اور ایک سفید ساڑھی نکال کر باندھ لی۔ اس نے اپنے بال بنا لیے اور ہلکا سا میک اپ کیا……وہ اپنے پتی کے سامنے اس انداز میں جانا چاہتی تھی کہ وہ اسے دیکھ کر رنجیدہ نہ ہو۔

                جب وہ اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ جیل کے صدر دروازہ پر پہنچی تو سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع کر دیا۔ جیلر نے فوراً ہی رشتہ داروں کو گھنشام سے ملنے کی اجازت دے دی۔ لیکن اس کی بیوی نے اپنے پتی سے سب سے آخر میں ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور جیلر سے درخواست کی……کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت پتی کے ساتھ گزارنے دیا جائے۔

                جیلر سمجھدا رتھا۔ اس نے میاں بیوی کی اس آخری ملاقات کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت دینے کا وعدہ کر لیا۔ جس وقت وہ اپنے شوہر کی کوٹھری میں داخل ہوئی تو رات کا پہلا حصہ شروع ہو چکا تھا……اسے دیکھ کر گھنشام کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ لیکن اس نے مسکراتے ہوئے کہا……اگر مجھے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ ہی ستی ہو جاتی……لیکن میں سوگند کھاتی ہوں کہ تمہارے بعد……نہ تو نیا کپڑا پہنوں گی……نہ ہی سر میں تیل ڈالوں گی……اور نہ ہی کسی مرد کی صورت دیکھوں گی۔

                گھنشام نے یہ سن کر اسے فرط محبت سے چمٹا لیا اور وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا……میں جانتا ہوں تجھے مجھ سے سچا پریم ہے۔ لیکن اب جب کہ میری زندگی کی چند گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں میں تجھے کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا……لیکن تجھ سے صرف ایک شکوہ ہے۔

                وہ کیا……اس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا۔

                تو ‘‘اللہ رکھی’’ سے نہیں ملی……گھنشام نے افسردگی سے کہا……اگر تو اس سے مل لیتی۔ تو مجھے پورا وشواش تھا کہ بھگوان کی کرپا سے ہم اس مصیبت سے بچ جاتے۔

                ہاں تم نے دوبار اس کا نام لیا تھا……اس کی بیوی نے جواب دیا۔ لیکن میں نے ہمیشہ یہی وچار کیا۔ کہ جیسا نام سے ظاہر ہے۔ وہ مسلمان ہے۔ وہ بھلا تمہاری کیا مدد کر سکتی تھی……جب کہ میں نے اپنے دھرم کے مہاپرش پنڈتوں سے تمہارے لیے پرارتھنا کرائیں۔

                تو‘‘اللہ رکھی’’ کو نہیں جانتی……گھنشام نے کہا……پتا جی اس کے پاس چھپ چھپ کر جاتے تھے……اور جب وہ سورگباش ہونے لگے تو انہوں نے مجھے ‘‘اللہ رکھی’’ کا ٹھکانہ بتایا تھا……اور آج جو میں اس شہر کا سب سے بڑا سنار ہوں……تو یہ سب ‘‘اللہ رکھی’’ کی دعائوں کا نتیجہ ہے……وہ اس دھرتی پر بھگوان کی ایسی اوتار ہے جس کے پاس سے کبھی کوئی نامراد نہیں لوٹا۔

                کہاں رہتی ہے وہ……اس کی بیوی نے ایک نئے ولولہ سے پوچھا۔

                گھنشام نے اسے اللہ رکھی کی رہائش بتا دی……لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا……کہ اب وقت بہت ہی تھوڑا رہ گیا ہے اور تیرا……اس کے پاس پہنچنا مشکل ہے کیونکہ وہ دور رہتی ہے۔

                نجانے کیا بات ہے……اس کی بیوی نے جواب دیا……اب میرا ‘‘من’’ اس کے پاس جانے کو کہہ رہا ہے۔ اور میں ہر حال میں اس کے پاس پہنچوں گی۔

                گھنشام اس کی شکل دیکھنے لگا……اس کی بیوی نے آخری الفاظ کے ساتھ ہی اپنے دونوں بچوں کے ہاتھ پکڑ لیے اور کوٹھری سے باہر نکل آئی۔ پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی جیل کے صدر دروازہ پر آئی۔ جیلر اور دوسرا عملہ اسے اتنی جلدی واپس جاتے دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیسی بیوی ہے جس نے پہلے تو ملاقات کے لیے زیادہ وقت کی اجازت لی تھی……اور اب……دو تین منٹ بعد ہی واپس جا رہی ہے۔

                جیل کے صدر دروازہ پر اس نے دونوں بچوں کو رشتہ داروں کے حوالے کیا اور جس گاڑی میں بیٹھ کر وہ سب آئے تھے۔ اس کے ڈرائیور سے بولی جتنی جلدی ہو سکے مجھے منزل تک پہنچا دے……میں تجھے مالا مال کر دوں گی۔

                رشتہ داروں نے اس سے بات کرنا چاہی……بہت کچھ معلوم کرنا چاہا……لیکن اس نے کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا……اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔

                پھر……میری نگاہوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا۔ جب کہ گھنشام کی بیوی نے اللہ رکھی کے دروازہ پر بے تابانہ دستک دی تھی۔ اور اللہ رکھی نے یہ جاننے کے بعد……کہ گھنشام اس عورت کا شوہر ہے۔ مراقبہ کرنے کے بعد……پیش گوئی کی تھی……کہ ابھی گھنشام کے مرنے کا وقت نہیں آیا……ادھر تو اللہ رکھی یہ پیش گوئی کر رہی تھی……اور دوسری جانب……گھنشام غسل سے فارغ ہونے کے بعد پھانسی والے کپڑے پہن رہا تھا۔

                کپڑے پہننے کے بعد……جیل کے ڈاکٹر نے اس کا طبی معائنہ کیا۔ اور جیلر سے بولا……تعجب ہے۔ اس شخص کے دل میں موت کا ذرا سا بھی خوف نہیں ہے۔

                جیلر صرف مسکرا کر رہ گیا۔ پھر اس نے قلم اور کاغذ گھنشام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا……تم چاہو تو اپنی وصیت اس کاغذ پر لکھ دو۔

                گھنشام نے قلم کاغذ لیا……اور مندرجہ ذیل وصیت لکھی۔

                میں گھنشام ولد سیتار ام……جس کا پیشہ سنار تھا۔ وصیت کرتا ہوں کہ میری تمام جائیداد اور روپے پیسے کے دو حصے برابر کیے جائیں۔ ان میں سے ایک حصہ میری بیوی اور بچوں کو اور دوسرا حصہ میری پیر و مرشد‘‘اللہ رکھی’’ کو دے دیا جائے۔

                میں نے اپنی پیر و مرشد کا پتا اپنی بیوی کو بتا دیا ہے۔ اس کے علاوہ میری ارتھی کو نہ جلایا جائے۔ بلکہ مجھے مسلمانوں کی طرح قبر میں دفنا دیا جائے……آج سے کئی برس قبل اپنی پیر و مرشد کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو چکا ہوں۔

                اگر ہو سکے تو میری پیر و مرشد کو میری موت کی اطلاع دے دی جائے۔ میں آخر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں……کہ میں نے اپنے مسلمان دوست سلیمان کھوسہ کو قتل نہیں کیا……بھلا مسلمان……مسلمان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے۔ بہرحال۔ میں اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔

                                                                                                                                دستخط۔ قاسم علی……جو پہلے گھنشام تھا۔

 

 

 

 



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء