Topics

روحانی عورت


                اس کہانی کا آغاز قیام پاکستان کے کئی برس بعد سے ہوتا ہے۔ اور گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ موجودہ دور تک پہنچتا ہے۔ اللہ رکھی کون تھی اور اب کہاں ہے۔ یہ تو آپ کو کہانی پڑھ کر ہی علم ہو گا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ ساری کائنات ایک سسٹم کے تحت قائم ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔ حکم الٰہی کے مطابق ہو رہا ہے اور اس حکم الٰہی کو بجا لانے کے فرائض وہ حضرات انجام دے رہے ہیں جو اس سسٹم کو چلا رہے ہیں۔

                کائناتی سسٹم یا تکوینی نظام کیا ہے۔ تصوف سے وابستہ لوگ بخوبی جانتے ہیں عام قاری کے لئے مختصراً اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ جس طرح کسی منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر محکمہ قائم کیا جاتا ہے۔ جس میں اعلیٰ افسر سے لے کر چپڑاسی تک ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نظام قدرت کو چلانے کے لئے ‘‘تکوینی نظام’’ قائم ہے جس میں اللہ کے بااختیار بندے کام کرتے ہیں۔ ان میں مجذوب بھی شامل ہیں۔

                اس نظام میں شامل لوگوں کا تشخص ان کی ذمہ داریوں کے مطابق ہوتا ہے۔ گویا اس نظام میں شامل ہونے والوں کی ‘‘پہچان’’ ان کے فرائض سے ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھ لیجئے کہ جب تک حضرت موسیٰ کو منصب عطا نہیں ہوا تھا وہ صرف ایک ‘‘شہزادہ’’ کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن منصب نبوت پر فائز ہوتے ہی آپ کی شخصیت نہ صرف قابل احترام ہو گئی بلکہ ہمیشہ کے لئے قائم و دائم ہو گئی۔ اوپر آپ نے اس منصب کے تحت عائد ہونے والے فرائض کو بخیر و خوبی انجام دیا۔

                اس نظام میں انبیاء کرام اور اولیاء عظام کا درجہ نہایت ہی اعلیٰ و ارفع ہوتا ہے اور ان کے تحت کام کرنے والوں میں جن و انس کے علاوہ فرشتے بھی شامل ہوتے ہیں۔

                اس مختصر سی تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین اس ہستی کو پیش نظر رکھیں جو اس کہانی کا مرکزی کردار ہے۔

                میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہو چکی ہے جن کا تعلق ‘‘نظام تکوینی’’ سے تھا اور جنہوں نے اس نظام میں عہدہ پانے کے بعد صدیوں کا سفر طے کیا۔ اور جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر دور میں موجود رہی ہے۔

                یہ خاتون آج سے کئی برس قبل کے دور میں تھی اور ممکن ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی موجود ہو۔ جب کہ ہم ‘‘خلائی دور’’ میں داخل ہو چکے ہیں۔

                اس کہانی کا آغاز یوں تو آج سے کئی سال قبل سے ہوتا ہے لیکن میں چونکہ اس کہانی سے دور جدید سے واقف ہوں لہٰذا اس کا آغاز بھی دور جدید سے کر رہا ہوں۔

                یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا۔ میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کراچی سے دور ایک چھوٹے سے گائوں میں مقیم تھا۔ اس گائوں سے چند فرلانگ دور ایک شاہراہ گزرتی تھی اور اس شاہراہ کے دوسری جانب قدیم طرز تعمیر کی ایک عمارت تھی۔ گو کہ یہ عمارت نہایت ہی شکستہ اور خستہ حال تھی۔ اس کے باوجود گائوں کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور اس کی وجہ ‘‘اللہ رکھی’’ تھی۔

                میں نے صرف اللہ رکھی کا نام سنا تھا۔ محلہ کی اکثر و بیشتر خواتین اپنے مسائل اور بیمار بچوں کو لے کر اس کے پاس جاتی تھیں۔ بیمار بچے جنہیں ڈاکٹروں کی دوا سے فائدہ نہیں ہوتا تھا صبح و شام ‘‘اللہ رکھی’’ کی پھونک سے چند دنوں میں تندرست ہو جایا کرتے تھے۔ محلہ کی خواتین بڑے ہی ادب و احترام سے اس کا نام لیا کرتی تھیں۔ وہ ان کے ہر درد کی دوا تھی۔

                جن خواتین کے گھریلو مسائل اللہ رکھی حل کر چکی تھی اب وہ بڑی ہی خوشحال زندگی بسر کر رہی تھیں اور ان کے دلوں میں اللہ رکھی کے لئے بہت عقیدت تھی۔ وہ اس کے بارے میں طرح طرح کے مافوق الفطرت قصے سنایا کرتی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ گائوں کے بعض مرد بھی اس سے فیض اٹھا چکے تھے اور ان سب کے لئے اللہ رکھی نہ صرف حد درجہ قابل احترام تھی بلکہ اس کی خستہ حال جائے رہائش بھی قابل احترام تھی اور لوگوں نے اس کا نام ‘‘آستانہ اللہ رکھی’’ رکھ دیا تھا۔

                مجھے روحانی لوگوں سے قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ سب ضعیف الاعتقاد قسم کے لوگ ہیں جنہیں اس چالاک عورت نے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ ہمارے گھر میں جب بھی کوئی پڑوسن آتی اور اللہ رکھی کا تذکرہ کرتی تو میں اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ اگر پڑوسن بتاتی کہ اس نے اللہ رکھی کے کمرہ میں چاندنی جیسی روشنی دیکھی ہے تو میں فوراً ہی اس کی مادی توجیہہ پیش کر دیتا اور سمجھاتا کہ اس نے کمرے میں ریڈیم رنگ کرا لیا ہو گا جو اندھیرے میں چمکتا ہے۔

                اگر پڑوسن بتاتی کہ اس نے اللہ رکھی کے صحن میں لگے ہوئے درختوں میں بے موسم کے پھل لگے دیکھے ہیں تو میں ہنستے ہوئے کہتا کہ اس نے مصنوعی پھل لگا دیئے ہوں گے۔ غرض کہ میں اللہ رکھی کی کسی بھی کرامت کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ میرا ذہن ان باتوں کو مانتا ہی نہیں تھا۔

                میں جانتا تھا کہ عورت جس کو ہمارے معاشرے میں ناقص العقل سمجھا جاتا ہے کس طرح ‘‘تصوف’’ کے اس مقام تک پہنچ سکتی ہے جو صرف مردوں کا خاصہ ہے۔ اس معاملے میں میری نظروں میں عورت کا درجہ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ میں اسے ماں، بہن اور بیوی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔

                دن یونہی گزرتے گئے۔ پھر اچانک مجھے بخار آ لیا اور بخار بھی ایسا تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا حالانکہ شہر کے تمام مشہور ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھایا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ دوا پینے سے بخار چار چھ گھنٹے کے لئے تو اتر جاتا لیکن اس کے بعد پھر اسی تیزی سے چڑھ جاتا تھا۔

                میری اس بیماری سے ہمشیرہ اور ان کے شوہر پریشان ہو گئے اور بالآخر تجویز ہوا کہ ایک بار اللہ رکھی کو بھی دکھا دیا جائے میں نے اس تجویز کی زبردست مخالفت کی۔ میں نے بہن اور بہنوئی کو سمجھایا کہ جب ماہر ڈاکٹر اور حکیم علاج نہ کر سکے تو یہ اللہ رکھی کس طرح بخار اتار دے گی۔ اس کے جواب میں ان دونوں نے کہا کہ دکھا دینے میں کیا حرج ہے۔ اور پھر یہ بخار تو تمہارے لیے جان لیوا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ ہوا تو جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔

                پھر میں نے خود بھی اپنی حالت پر غور کیا۔ واقعی اس بخار نے مجھے بے حد لاغر کر دیا تھا اور میں سوکھ کر کانٹا ہوتا جا رہا تھا۔ نقاہت اس قدر تھی کہ دس پندرہ قدم چلنے کے بعد سر چکرانے لگتا اور مجھے مجبوراً بیٹھنا پڑ جاتا۔ پھر مجھے اپنی زندگی بھی عزیز تھی۔ ابھی میں نے صرف زندگی کی پچیس بہاریں ہی دیکھی تھیں۔

                ایک شام جب کہ سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع کر دیا تھا۔ میں بہن کے ہمراہ اللہ رکھی کے آستانہ کی طرف چل دیا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس کا آستانہ آبادی سے دور سڑک کے کنارے واقع تھا۔ کبھی یہ ایک عالیشان عمارت تھی۔ لیکن اب خستہ حال اور شکستہ تھی۔ دور سے یہ عمارت بالکل کھنڈر نظر آتی تھی۔ اس کی برجیوں کے سرے گر چکے تھے اور دیواریں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب گریں کہ جب گریں۔

                یہ عمارت ایک اونچی سی جگہ پر واقع تھی اور صدر دروازہ تک پہنچنے کے لئے دس بارہ سیڑھیاں تھیں۔ ہمشیرہ مجھے آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھا کر اوپر لے گئیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا اور سامنے بڑا سا دالان نظر آ رہا تھا جس میں گلاب اور چنبیلی کے پودے سلیقہ سے لگے ہوئے تھے۔ ان سے ذرا ہٹ کر چیکو اور موسمیوں کے درخت لہلہا رہے تھے۔ اس دالان کے آخری سرے پر سرخ اینٹوں سے ایک سہ دری بنی ہوئی تھی اور اس سہ دری کے درمیان میں ایک بڑا سا تخت بچھا ہوا تھا۔ میں ہمشیرہ کے ہمراہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا دالان سے گزر رہا تھا۔ گلاب، چنبیلی، چیکو اور موسمیوں کی ملی جلی خوشبو نے میرے دماغ کو معطر کرنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا۔ یہ کیسی اللہ رکھی ہے جو باغ لگائے بیٹھی ہے۔ اللہ والے لوگ تو تارک الدنیا ہوتے ہیں۔

                تخت پر ایک بوسیدہ قالین بچھا ہوا تھا جس میں جگہ جگہ سوارخ تھے اور ان سوراخوں سے تخت کی لکڑی جھانک رہی تھی۔ ہمشیرہ نے مجھے تخت پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں جونہی ہاتھ ٹیک کر اس پر بیٹھا چرچراہٹ کی آوازیں اس طرح پیدا ہوئیں جیسے تخت ابھی زمین بوس ہو جائے گا۔ میں نے گھبرا کر اٹھنا چاہا لیکن ہمشیرہ نے تسلی دی اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کو کہا۔ اس کے بعد وہ بھی میرے سامنے بیٹھ گئیں اور تخت ایک بار پھر چرچرا کر خاموش ہو گیا۔

                سہ دری بھی عمارت ہی کی طرح خستہ حال تھی۔ اس کی بعض محرابیں نیچے کو جھک آئی تھیں اور معلوم ہوتا تھا کہ گرنے ہی والی ہیں۔ اینٹیں بھربھری مٹی کی مانند تھیں جو ہاتھ لگاتے ہی ریزہ ریزہ ہو جاتی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سہ دری بھی سینکڑوں سال پرانی ہے۔

                سہ دری کے آخر میں لکڑی کا ایک خوبصورت دروازہ تھا۔ اس کے اوپر بہترین نقش و نگار بنے ہوئے تھے لیکن لکڑی کا یہ دروازہ بھی زبان حال سے اپنی خستہ حالی کا رونا رو رہا تھا۔ میں نے اس اپنے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے ہمشیرہ سے کہا۔ یہ تو بہت ہی پرانا مکان دکھائی دیتا ہے۔

                ہاں۔ ہے تو بہت ہی پرانا۔ ہمشیرہ نے سہ دری پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ پھر قدرے اچنبھے سے بولیں۔ سنتے ہیں یہ تالپور خاندان کے دور کی عمارت ہے۔

                تالپوروں کے دور کی۔ میں نے جملہ دہرایا۔ لیکن اللہ رکھی یہاں کیوں رہتی ہے۔

                وہ اسے اپنی جاگیر کہتی ہے۔ ہمشیرہ نے بتایا۔

                تالپور دور کی عمارت اس کی جاگیر کیسے ہو سکتی ہے۔ میں نے تعجب سے پوچھا۔

                چھوڑو۔ تمہیں اس سے کیا۔ ہمشیرہ نے سمجھایا۔ ویسے گائوں والے سب ہی کہتے ہیں کہ انہوں نے شروع ہی سے اللہ رکھی کو اس عمارت میں رہتے ہوئے دیکھا ہے۔

                گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رکھی ہمیشہ سے یہاں رہ رہی ہے۔ میں نے سوچا۔ ممکن ہے اس کے آبائو اجداد کا تعلق کسی تالپور بادشاہ سے رہا ہو۔ اور انہوں نے یہ عمارت بطور تحفہ اس کے خاندان کے کسی فرد کو دی ہو۔ جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی اللہ رکھی تک پہنچ گئی۔ میں اپنے انہی خیالات میں مگن تھا۔

                چند لمحہ بعد سہ دری کے آخر میں بند دروازہ ایک زبردست چرچراہٹ سے کھلا۔ اوراس کی اوٹ سے نکلنے والے چاند سے میری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ سفید چکن کا سندھی طرز کا بنا ہوا لباس پہنے وہ نہایت ہی خوش اندامی سے چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ اس کا چہرہ بیضوی اور سرخ و سفید تھا۔ ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند، ستواں ناک، ابھرے ہوئے سرخ گال، غزالی آنکھیں جن کے بھاری پپوٹوں پر کمان کی مانند خم کھائی ہوئی باریک بھنویں، کشادہ پیشانی اور سیاہ چمکدار بال، غرض کہ وہ’ قدرت کی صناعی کا بہترین شاہکار تھی۔ میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے چہرہ پر ایسا تقدس آمیز حسن تھا کہ میں کوشش کے باوجود اپنی نگاہیں نہیں ہٹا سکا۔

                اس کے چہرے سے عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کا متناسب جسم دو شیزائوں سے بدرجہا بہتر تھا۔ وہ نہایت ہی پروقار انداز میں چلتی ہوئی تخت کے قریب آئی۔ میری بہن نے نہایت ہی ادب سے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا۔ میرے کانوں میں اس کی آواز رس گھول گئی۔ اس کے تخت پر بیٹھنے کے بعد بہن نے بتایا۔ یہ میرا بھائی ہے۔ ایک مہینے سے بخار میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹروں کو بھی دکھایا لیکن بخار اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

                جس دماغ میں مادہ بھرا ہو۔ اس کا بخار کیسے اترے گا۔ اللہ رکھی نے شیریں لہجہ میں جواب دیا۔ اس نے ایک جملہ میں میری دلی کیفیت بتا دی۔ اور میں نے جھینپ کر نظریں جھکا لیں۔

                اب تمہارے پاس امید لے کر آئی ہوں۔ بہن نے التجا آمیز لہجہ میں کہا۔

                اب آہی گئی ہو تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اللہ رکھی نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی کیوں خان! میرا علاج کرو گے۔

                میں چونکا۔ اسے میرا نام کیسے معلوم ہو گیا۔ پھر میں نے سوچا ممکن ہے کہ کبھی بہن نے اس سے میرا تذکرہ کیا ہو۔ میں نے اقرار میں گردن ہلا دی۔

                اللہ رکھی نے میرے چہرہ پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔ اور اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے بولی۔ اس کے لئے تمہیں چند روز اسی وقت میرے پاس آنا پڑے گا۔

                آجایا کرے گا۔ میری بہن نے جواب دیا۔ اور میں نے بھی بالکل غیر ارادی طور سے اقرار میں گردن ہلا دی۔ مجھے رضا مند دیکھ کر اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری پیشانی پر رکھا اور گردن جھکا کر کچھ پڑھنے لگی۔ اللہ رکھی کا ہاتھ میری پیشانی پر تھا۔ اور اس کا لمس مجھے ایسا سرور بخش رہا تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سکون و اطمینان کی لہریں دماغ میں داخل ہو رہی ہوں۔

                چند لمحہ بعد اس نے میری پیشانی سے ہاتھ ہٹایا اور اس جگہ ‘‘پھونک’’ ماری۔ اس کی پھونک باد نسیم سے بھی زیادہ مسحور کن تھی۔ میں نے مست ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔

                اب جائو۔ اللہ رکھی نے دلکش آواز سے کہا۔ کل پھر اسی وقت بھیج دینا۔

                اس نے آخری جملہ میری بہن سے مخاطب ہو کر کہا۔ میری بہن نے نہایت ہی ادب سے اس کو سلام کیا اور تخت سے اٹھ گئی۔ میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اور پھر بہن میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے روانہ ہو گئی۔

                اللہ رکھی کی پھونک میں نہ جانے کیا تاثیر تھی کہ اس دن کے بعد پھر مجھے بخار نہیں آیا۔ میں ایک ہفتہ تک برابر اس کے پاس وقت مقررہ پر جاتا رہا۔ میں ہمیشہ سہ دری میں پڑے ہوئے تخت پر جا کر بیٹھ جاتا تھا۔ اور اس کے چند لمحہ بعد اللہ رکھی آ جاتی تھی۔

                میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اللہ رکھی کو میری آمد کا علم کس طرح ہو جاتا تھا۔ اس سلسلے میں میری سمجھ میں ایک بات آتی تھی کہ چونکہ میں ایک مقررہ وقت پر اس کے پاس جاتا ہوں اس وجہ سے وہ بھی اس متعین وقت پر برآمد ہوتی ہے۔

                ایک ہفتہ کے اندر اندر نہ صرف میں بالکل تندرست ہو گیا بلکہ میرا رنگ و روپ بھی پہلے سے زیادہ نکھر گیا۔ میری بہن اور بہنوئی اسے اللہ رکھی کا کرشمہ کہتے تھے۔ جب کہ میں اسے ماننے کو قطعی تیار نہیں تھا۔ میں روحانی طریقہ علاج کا قائل ہی نہیں تھا۔ اس بارے میں میرے ذہن میں کئی سوالات تھے جن کی وضاحت اللہ رکھی سے چاہتا تھا۔ لیکن وہ پیشانی پر پھونک مار کر خاموشی سے اٹھ کر چلی جاتی تھی۔ اس ایک ہفتہ کے اندر مجھے اللہ رکھی سے لگائو پیدا ہو گیا۔ یہ محبت کا ایسا جذبہ تھا جس میں نفسانی خواہش کا دخل نہیں ہوتا۔ بس میرا دل چاہتا تھا کہ اس کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں۔

                ایک دن میری طبیعت بہت زیادہ گھبرانے لگی۔ میں نے سوچا گائوں کے باہر ٹہل آئوں۔ لہٰذا اسی خیال سے گھر سے باہر نکلا اور گائوں کی گلیوں سے ہوتا ہوا سڑک کی جانب آ گیا۔ سڑک کے دوسری طرف اللہ رکھی کی بوسیدہ حویلی تھی۔ حویلی پر نظر پڑتے ہی میرے قدم خود بخود اس کی جانب اٹھنے لگے۔ جوں جوں میں حویلی کے قریب ہوتا جا رہا تھا ہوحق کی ملی جلی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اور جب میں حویلی میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ حویلی جو ہمیشہ پرسکون رہتی تھی ہنگامہ خیز بنی ہوئی ہے۔ اللہ رکھی آنکھیں بند کیے تخت پر دوزانو بیٹھی تھی اور تمام صحن اس کے معتقدین سے بھرا ہوا تھا۔ حاجت مندوں کا ایک جم غفیر تھا جو نیاز کے تھال سامنے رکھے، ہاتھ اٹھائے جھولی پھیلائے، اس کی ‘‘پھونک’’ کے منتظر تھے۔ ان میں کچھ خواتین بھی تھیں جو اپنے شوہروں کے روزگار کی دعا کے لئے آتی تھیں۔ ان میں چند ایک نیم ماڈرن قسم کی بھی تھیں جن کے خاوندوں کو اللہ رکھی کی پہلی پھونک سے ترقی مل گئی تھی اور اب وہ مزید ترقی چاہتی تھیں۔

                اس ہجوم میں چند طلباء بھی تھے جنہوں نے سارا سال آوارہ گردی کرتے اور غنڈہ گردی کرتے گزار دیا تھا اور اب امتحان میں کامیابی کی خاطر اللہ رکھی کی پھونک کے منتظر تھے۔ چند بے روزگار گریجویٹ اور گردش افلاک کے ستائے ہوئے نوجوان بھی تھے۔ ذرا فاصلے پر محفل سماع گرم تھی۔ چند تندرست و توانا قوال ہارمونیم کے سروں اور گھنگھروئوں کی جنکار پر سینہ پھلا پھلا کر ایک ہی مصرعہ کو بار بار دہرا رہے تھے۔ قوالوں کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے لوگ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہارمونیم اور ڈھول کے سرپر جھوم رہے تھے۔ شمال کی جانب ایک عمر رسیدہ لاغر سا شخص آسیب اتارنے میں مصروف تھا۔ وہ جھاڑو کو زمین کی مٹی میں لت پت کرتا اور حواس باختہ عورت کے جسم پر پھیر دیتا۔ آسیب زدہ عورت جو کسی خبیث روح کے زیر اثر ہوتی چیخ پکار کر رہی ہوتی۔ جھاڑو کے جسم سے ٹکراتے ہی خاموش ہو جاتی۔

                غرض ‘‘اللہ رکھی’’ ان سب کے دکھوں کا مداوا تھی۔ اس کی ذات روحانی تکلیفوں جسمانی بیماریوں اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کے لئے ‘‘آب کوثر’’ تھی۔

                میں کچھ دیر کھڑا یہ تماشہ دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ رکھی ہر مرض کی دوا کس طرح ہو سکتی ہے مجھے یہ سب کچھ بناوٹ تصنع اور دھوکا دکھائی دے رہا تھا۔

                میں نے اللہ رکھی کو قائل کرنے کی خاطر اس کے قریب جانا چاہا۔ لیکن اس کے تخت کو تو عورتوں اور مردوں نے گھیر رکھا تھا۔ ان عقیدت مندوں نے مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ان کی نظروں میں بھی کوئی حاجتمند تھا۔ اور قاعدہ کے مطابق اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ میں ایک دیوار کے سہارے کھڑا ہو گیا۔

                پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجمع بھی کم ہونے لگا۔ عورتیں اور مرد ایک ایک کر کے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ اللہ رکھی سے اپنا مدعا بیان کرتے۔ وہ ان کی پیشانی پر پھونک مارتی۔ اور وہ شخص یہ جان کر ہنسی خوشی چل دیتا کہ اب اس کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔

                جب میں اس کے قریب پہنچا تو مجمع چھٹ چکا تھا۔ میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا۔ اللہ رکھی نے مجھے نیم وا آنکھوں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی۔ تم آگئے تمہارے آنے کا یہی وقت ہے۔

                پھر اس نے میری پیشانی پر ‘‘پھونک’’ مارنے کے ارادہ سے منہ اٹھایا میں نے اسے ہاتھ کے اشارہ سے روکتے ہوئے کہا۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔

                اچھا اب تم تندرست ہو گئے ہو۔ اس نے جواب دیا۔ پھر اپنے قریب تخت پر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ بیٹھو۔

                میں نے اس کے سامنے تخت پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ یہ سب کیا ہے۔

                کہاں۔ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔

                میں نے ملنگ جیسے لوگوں کی جانب نظر ڈالی اور بولا۔ یہ طرح طرح کے لوگ تمہارے پاس کیسے آنے لگے۔ طرح طرح کے لوگ ہیں۔ اس نے جملہ دہرایا۔ پھر قدرے زور سے ہنستے ہوئے بولی۔ کیسے لوگ آنے چاہئیں۔ اللہ والوں کے پاس یہ خرافات نہیں ہوتیں۔ میں نے بے ساختہ جواب دیا۔

                پھر کہاں ہوتی ہیں۔ اس نے پوچھا۔

                میں کوئی جواب دینے کے بجائے اس کا منہ تکنے لگا۔ اس نے سمجھانے والے لہجہ میں کہا۔ دیا کے ستائے ہوئے۔ معاشرہ کے بگڑے ہوئے لوگوں کا اصل ٹھکانا اللہ والوں کا آستانہ ہی تو ہے۔ یہاں آ کر انہیں سکون ملتا ہے۔ ان کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اگر میں بھی ان کی داد رسی نہ کروں تو پھر یہ لوگ کہاں جائیں گے۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ میں نے کہا۔ پھر میں نے ایک اور بے تکا سوال کیا ، کیا تمہاری ‘‘پھونک’’ ان سب کے دکھوں کا مداوا ہے۔

                اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولی۔ اس پھونک میں بہت تاثیر ہے۔ یہ ‘‘پھونک’’ ہی تو ہے جو اللہ نے گوندھی ہوئی مٹی میں ڈالی تھی جس سے نہ صرف آدمؑ میں جان پڑ گئی تھی بلکہ قیامت تک کے لئے نسل انسانی کا ارتقاء شروع ہو گیا۔

                یہ تو ٹھیک ہے میں نے تائید کی۔ لیکن اس پھونک میں یہ تاثیر کہاں سے آ گئی ۔ کہ…………

                تم یہ کیوں نہیں سوچتے…………اللہ رکھی نے میری بات کاٹ کر کہا کہ روز اول کی پھونک آج تک جسم انسانی کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔ اور اس میں آج بھی نہ صرف زندگی کی تاثیر موجود ہے بلکہ جسم انسانی میں پیدا ہونے والی تمام بیماریوں کا تیر بہدف علاج بھی ہے۔

                میں نہیں مانتا…………میں نے اکھڑے لہجہ میں کہا۔

                تم مادہ پرست ہو۔ اللہ رکھی نے مسکرا کر جواب دیا۔ تم جب تک روح کی بالیدگی سے واقف نہیں ہو گے۔ کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔

                روح اور روحانیت یہ سب ڈھکو سلہ ہے۔ میں نے قدرے غصہ میں کہا۔

                تم یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہو۔ اللہ رکھی نے مسکرا کر پوچھا۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے۔

                یہ ثبوت کیا کم ہے۔ میں نے جواب دیا…………کہ روحانیت کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے اور اس سے صرف ضعیف الاعتقاد لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔

                تو تم اس بات کو مانتے ہو کہ روحانیت لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اللہ رکھی نے پوچھا۔

                نہیں۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں میں اعتماد نہیں ہوتا۔ جن میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہی روحانیت کا سہارا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پلک جھپکتے ہی ان کی حسب منشا کام ہو جائے گا۔

                ……اللہ رکھی نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ ہر حاجتمند ہنسی خوشی یہاں سے گیا ہے۔

                لیکن اس کا ثبوت ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں نے پوچھا۔

                میری ‘‘پھونک’’ ضائع نہیں جاتی۔ اللہ رکھی نے بدستور ہنستے ہوئے کہا۔

                پھر وہی ‘‘پھونک’’ میں نے چڑ کر کہا۔

                تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اللہ رکھی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سمجھایا۔ تم نے قرآن میں ابن مریمؑ کے بارے میں پڑھا ہو گا کہ وہ مٹی کے پرندے بناتے تھے اور ان پر ‘‘پھونک’’ مارتے تھے جس کی وجہ سے ان میں جان پڑ جاتی تھی اور وہ فضا میں اڑ جاتے تھے۔

 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء