Topics

نجم خان


                نجم خان نے پہلی رات کی روئیداد سناتے ہوئے بتایا سورج مغرب میں تھال کی مانند نظر آتا رہا……اور پھر……آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ ہر جانب رات کی سیاہی پھیل گئی……وہ رات سخت ڈرائونی اور تاریک تھی……فضا میں ہر جانب ویرانی ہی ویرانی تھی……میں اپنے ٹھکانہ سے نکل کر صدیوں پرانی مسجد کی طرف بڑھ رہا ہوں……میرے آس پاس سخت پتھریلی اور ریتلی زمین پر ناگ منی اور اسی قسم کے سیکڑوں خود رو پودے پھیلے ہوئے ہیں……میں ان پر نگاہ ڈالتا ہوا آگے بڑھ رہا ہوں……رات کی سیاہی میں کبھی کبھی……مجھے یہ پودے بھی بھیانک شکلوں میں نظر آ رہے ہیں……یکایک میں دیکھتا ہوں……کہ میری راہ میں آنے والا ایک پودا پہلے تو سمٹا اور پھر……اوپر اٹھنے لگا……میرے قد کے برابر پہنچ کر سانپ بن گیا اور اپنا چوڑا پھن پھیلا کر سامنے جھومنے لگا۔ میں اپنی جگہ کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا اس کی دو شاخہ زبان بار بار لہرا رہی تھی……اور اس کی سرخ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں……میں نے اس کی پھنکار بھی سنی……پھر جونہی وہ سانپ مجھے ڈسنے کی خاطر بڑھتا ہے ’میں ہمت کر کے خنجر سے اس کا پھن کاٹ ڈالتاہوں……یہ وہی خنجر ہے جو اللہ رکھی نے مجھے دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اس کی نوک سے حصار قائم کروں……وہ ناگ دوبارہ پودے کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سمٹ کر زمین بوس ہو جاتا ہے……میں پھر آگے بڑھتا ہوں۔

                اتنا کہہ کر وہ سانس لینے کو رکا اور پھر بولا……خان! مجھے ان باتوں سے قطعی ڈر نہیں لگا……شمیم کو حاصل کرنے کا جنون میرے ذہن پر سوار تھا……اور اسے حاصل کرنے کی خاطر میں پہاڑ سے بھی ٹکرا جانے کو تیار تھا۔

                میں برابر آگے بڑھتا رہا اور ابھی مسجد سے نصف فاصلہ پر ہی تھا……کہ اچانک ایک جنگلی جھاڑی کے پاس سے شیر خوار بچے کی رونے کی آواز سنائی دی۔ میں یہ آواز سن کر ٹھٹک گیا اور سوچنے لگا کہ اس ویران قبرستان میں رات کے وقت بچہ کی آواز کیسی ہے……ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ……کہ بچہ کے مسلسل رونے کی آواز آنے لگی اور یہ آواز ایک قریبی جھاڑی سے آرہی تھی۔ میں اس……آواز کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا……کہ ایک چھ سات ماہ کا بچہ زمین پر پڑا بلبلا رہا ہے……میں نے جھاڑی کے اطراف میں نظریں دوڑائیں کہ شاید قریب ہی اس کے ماں باپ موجود ہوں……لیکن وہاں دور دور تک کسی ذی روح کا پتا نہ تھا……مجھے خیال آیا……کہ ممکن ہے کوئی شقی القلب ماں اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کی خاطر اس بچہ کو یہاں چھوڑ گئی ہو۔ لہٰذا آگے بڑھا اور اس بچہ کو گود میں اٹھا لیا۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا……کہ اس بچہ کا وزن بڑھنے لگا……میں نے رات کی تاریکی میں دیکھا……کہ وزن کے ساتھ ساتھ اس کا قد بھی بڑھ رہا ہے۔ دہشت زدہ ہونے کی بجائے مجھے غصہ آ گیا……میں نے اسے پھینک دیا اور خنجر سنبھال کر اس پر وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ وہ نظروں سے غائب ہو گیا……اور پھر……اس سناٹے میں ایک بھیانک قہقہہ گونج اٹھا۔ میں اس قہقہہ کو اچھی طرح پہچانتا تھا……وہ قہقہہ دوآبہ کے رئیس‘‘سلاسل’’ کا تھا……میں برابر آگے بڑھتا رہا اور ابھی مسجد کے دروازہ پر قدم رکھا ہی تھا کہ ……زور زور سے ڈھول اور شہنائیوں کی آواز سنائی دی……بس ایک لمحہ کے لئے میں نے یہ آواز سنی……اور مسجد کے اندر داخل ہو گیا۔

                مسجد کے اندر داخل ہوکر سب سے پہلے میں نے خنجر پر اللہ رکھی کی بتائی ہوئی سورہ پڑھ کر دم کیا۔ اور اس کی نوک سے بڑا سا حصار کھینچ لیا……پھر اپنے تھیلے میں سے چراغ اور زیتون کا تیل نکالا اور چراغ روشن کر کے وظیفہ کا ورد شروع کر دیا۔

                حصار کے اندر کا بھی تو حال سنائو……میں نے بڑے ہی اشتیاق سے پوچھا۔

                سناٹا ہوں……اس نے جواب دیا اور پھر راوی کے انداز میں بولا……جب میں خنجر کی نوک سے حصار کھینچ رہا تھا تو مسجد کے صحن سے حشرات الارض کی مسلسل آوازیں آ رہی تھیں……مینڈک ٹرا رہے تھے۔ سانپ اور اسی قبیل کے دوسرے جانور برابر آوازیں نکال رہے تھے۔ حتیٰ کہ فضا میں جھینگروں اور مچھروں کی بھی آواز سنائی دے رہی تھی……لیکن جونہی میں نے اپنے گرد حصار کھینچا تو سب کو چپ سی لگ گئی……جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو……اب میری سماعت سے کسی بھی قسم کی آواز نہیں ٹکرا رہی تھی……یہ حصار کی برکت تھی۔

                ہو سکتا ہے……میں نے بجھے ہوئے لہجہ میں اس کی تائید کی۔              

                حصار کے اندر میں نے ہزار دانوں کی تسبیح پر وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا……نجم خان نے بتایا……ابھی وظیفہ شروع کیے کچھ ہی دیر ہوئی تھی……کہ مجھے اپنے اطراف میں شور سنائی دیا……لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے……ان کا لب و لہجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا……اور مجھے ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کسی بازار میں آ گیا ہوں……میں نے فوراً ہی ان آوازوں سے توجہ ہٹائی۔ اور وظیفہ پڑھنے میں……مشغول ہو گیا……جوں جوں……وقت گزرتا جا رہا تھا……میں ایک نئی صورت حال سے دوچار ہو رہا تھا……اب مجھے آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں……لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چند اشخاص میرے آس پاس ہی موجود ہیں۔ مجھے ان کی سانس لینے کی آوازیں بھی صاف سنائی دے رہی تھیں……میں نے تیزی سے وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا……جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ماحول پر سکون ہو گیا۔

                نجم خان نے پہلی رات کے جو واقعات سنائے……میں انہیں ماننے کے لئے قطعی تیار نہ تھا۔ میرے خیال میں یہ سب شعبدہ بازیاں تھیں……جہاں تک اللہ رکھی کا تعلق ہے اس کی روحانی صلاحیتوں کا مانتا تھا۔ لیکن ابھی تک اس نے کوئی ایسی کرامت نہیں دکھائی تھی جس کی وجہ سے میں دل سے اس کا معتقد ہو جاتا۔

                نجم خان جو کچھ کہہ رہا تھا اس میں اس کی غرض شامل تھی……وہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے کے لئے بے چین تھا اور اس کی خاطر جان تک پر کھیل جانے کو تیار تھا……جبکہ میرا ایسا کوئی کام نہیں تھا……بس حالات نے مجھے ایک بار پھر اس کے سپرد کر دیا تھا……ویسے بھی اس دنیا میں میرا اپنا کوئی نہیں تھا۔ اللہ رکھی میری محسنہ تھی لیکن اس نے کبھی بھی مجھے روحانی تربیت دینے کی کوشش نہیں کی……شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا رجحان بھی روحانیت کی جانب نہیں تھا……روحانیت میں زمان و مکان کی کیا اہمیت ہے۔ مجھے اس کا علم نہیں……تکوینی سسٹم کیا ہوتا ہے……مجھے نہیں معلوم……البتہ اللہ رکھی کا یہ کہنا تھا کہ ہر کام‘‘سسٹم’’ کے تحت ‘‘وقت’’ مقررہ پر کیا جاتا ہے اور انسان‘‘وقت’’کا پابند ہے……نجم خان کی باتیں سننے کے بعد……اس نے بتایا تھا کہ دوآبہ کا رئیس‘‘سلاسل’’ ایک شریر جن ہے جو کہ انسانی ہیت اختیار کر کے عورتوں کو تنگ کرتا رہتا تھا اور اب اس کا وقت آخر نجم خان کے ہاتھوں انجام پانا تھا……اس کے کہنے کے مطابق ‘‘سلاسل’’ ایک عامل جن تھا اور اللہ رکھی نے نجم خان کو تربیت’سلاسل کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے دی تھی……اور اس کے کہنے کے مطابق میں نجم خان کے ہمراہ ‘‘مکلی’’ کے پرانے قبرستان میں آ گیا تھا۔

                بہرحال میں نجم خان کے ہمراہ مکلی کے قبرستان میں مقیم تھا۔ پہلی رات گزرنے کے بعد……نجم خان دوسری رات کا بے چینی سے انظار کرنے لگا……مکلی ایک سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے جس کی پشت پر صدیوں پرانا قبرستان ہے……دن کو اس پہاڑی سے اطراف کا نظارہ بڑا ہی دلکش ہوتا ہے۔

                قومی شاہراہ کراچی سے شروع ہو کر کسی دوشیزہ کی زلف کی طرح بل کھاتی ہوئی حیدر آباد شہر کی طرف چلی جاتی ہے۔ مکلی اسی شاہراہ پر واقع ہے۔ جس سے ذرا پرے ہٹ کر تاریخی شہر ٹھٹھہ آباد ہے۔ جس میں شاہجہاں کی تعمیر کرائی ہوئی مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مکلی کی پہاڑی کے نشیب میں ہر طرف ہرے بھرے کھیت ہیں جنہیں دیکھ کر روح کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔

                دوسری رات……مسجد میں وظیفہ ختم کر کے جب صبح نجم خان واپس آیا تو میں نے پوچھا۔ سنائو آج کی رات کیسی گزری۔

                نجم خان نے بتایا……آج رات جب میں مسجد کی طرف چلا تو کوئی غیر متوقع بات نہیں ہوئی۔ میں نے حصار کھینچا اور ہزار دانوں کی تسبیح نکال کر وظیفہ شروع کر دیا۔ چراغ کی روشنی میں میرا سایہ سامنے والی دیوار پر پڑ رہا تھا اور اگر میں معمولی سی بھی حرکت کرتا تو سایہ بری طرح سے تھرتھرا جاتا تھا……محراب کی دیواریں اونچی ہونے کی وجہ سے ہوا کا دبائو بھی برائے نام ہی تھا۔ چراغ کی لو بالکل سیدھی تھی……جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا……میرے ورد میں بھی تیزی آ تی جا رہی تھی……میں گردن جھکائے وظیفہ پڑھنے میں مشغول تھا……اچانک زور کا دھماکا ہوا……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہیں قریب ہی دھماکہ ہوا ہے……میں نے گھبرا کر گردن اٹھائی تو یہ دیکھ کر……حیران رہ گیا کہ میرا سایہ سامنے والی دیوار کی بجائے بائیں والی دیوار پر پڑ رہا ہے۔

                اس میں تعجب کی کیا بات ہے……میں نے کہا……ہوا کی وجہ سے لَو کا رخ بدل گیا ہو گا۔

                میری بات سن کر اس نے ایک لمحہ کے لئے سنجیدگی سے میری جانب دیکھا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے بولا……دلچسپ بات تو یہی تھی……وہاں ہوا تو نام کی بھی نہیں تھی……اور چراغ کی لو اسی طرح بالکل سیدھی جا رہی تھی……پھر وہ سایہ دائیں جانب کی دیوار سے اترا……سمٹا……اور انسانی شکل اختیار کر گیا……وہ ایک دوسرا نجم خان تھا……یہ ایسا خلاف توقع واقعہ تھا کہ میری زبان گنگ ہو کر رہ گئی……دوسرا نجم خان حصار سے باہر بالکل میرے سامنے آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور مسکرا کر کہتا ہے۔ میرے دوست یہ تم نے راتوں کو کیا پڑھنا شروع کر دیا ہے۔

                ابھی میں اسے جواب دینا ہی چاہتا تھا کہ میری سماعت سے نہایت ہی مترنم آواز ٹکرائی۔

                نجم خان! وظیفہ جاری رکھو……اس آواز کو سنتے ہی مجھے جیسے ہوش آ گیا……یہ مترنم آواز اللہ رکھی کی تھی۔

                تمہیں وہم ہواتھا……میں نے ہنس کر کہا۔

                نجم خان نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ اس نے اپنی بات کو مسلسل جاری رکھتے ہوئے بتایا……اللہ رکھی کی ہدایت ملتے ہی میں نے وظیفہ کا ورد دوبارہ شروع کر دیا۔

                حصار سے باہر بیٹھے ہوئے نجم خان نے بھی جھوم جھوم کر وہی کچھ پڑھنا شروع کر دیا……لیکن چند لمحہ بعد ہی وہ خاموش ہو گیا جیسے تھک گیا ہو……پھر وہ مجھے گھورنے لگا جیسے سخت غصہ میں ہو……اس کی آنکھوں سے شعلے سے نکل رہے تھے……پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت بدل گئی……چار ہاتھ اور چار پائوں کا وہ عجیب الخلقت انسان بن گیا……اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری گردن کی طرف بڑھائے……مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دونوں ہاتھ حصار کے اندر آگئے ہوں……میں نے خنجر اٹھایا اور اس کے ہاتھوں پر وار کر دیا……ایک بار پھر زور دار دھماکا ہوا……دوسرا نجم خان چیختا چلاتا سمٹا اور پھر سایہ بن کر حسب معمول سامنے والی دیوار پر نظر آنے لگا۔ اس کے بعد طلوع سحر تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور میں نے اطمینان سے اپنا وظیفہ ختم کر لیا……اتنا کہہ کر نجم خان تو خاموش ہو گیا اور میں اس کی باتوں کی توجیہہ تلاش کرنے میں کھو گیا۔

                نجم خان جو کچھ بھی بتاتا تھا اس کی کوئی توجیہہ تو میری سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن ذہن کے کسی گوشہ سے یہ خیال ضرور ابھرتا تھا……کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔

                اب تیسری رات……مسجد میں گزارنے کے بعد جب میں نے ناشتا وغیرہ سے فارغ ہو کر ……نجم خان سے معلوم کیا تو اس نے مسکراتے ہوئے بتایا……آج کی رات بڑی ہی پرسکون تھی۔ میں نے مسجد میں داخل ہو کر حسب معمول حصار کھینچا اور چراغ روشن کر کے وظیفہ پڑھنے لگا……ابھی مجھے وظیفہ شروع کئے تین چار منٹ ہی گزرے تھے……کہ اچانک میری بائیں جانب پشت سے ایک لمبا تڑنگا شخص نمودار ہوا اور حصار سے چند فٹ دور کھڑا ہو کر غور سے دیکھنے لگا۔ وہ لباس سے کوئی مقامی دکھائی دیتا تھا……ایک لمحہ کے لئے میرا دھیان اس کی طرف گیا……کہ یہ کون شخص ہے اور مسجد میں کیوں آیا ہے……ابھی میرے ذہن میں یہ خیال ہی آیا تھا کہ وہ شخص کاندھے سے کلہاڑی اتارتے ہوئے بولا……چلو۔ یہاں سے نکلو۔

                ابھی میں جواب دینا ہی چاہتا تھا……کہ اللہ رکھی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی……خبردار وظیفہ جاری رکھو۔

                یار! حصار میں جب بھی تم پر کوئی مصیبت آتی ہے……میں نے اس کا مذاق اڑایا……تمہیں اللہ رکھی کی آواز سنائی دیتی ہے۔

                ہاں۔ یہ حقیقت ہے……نجم خان نے سنجیدگی سے جواب دیا……معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں بھی میری حفاظت کر رہی ہے۔

                چھوڑو یار……میں نے پھر اس کا مذاق اڑایا……میں رات کو یہاں تنہا رہتا ہوں مجھے تو اللہ رکھی کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔

                تم کونسا……کسی کو حاصل کرنے کی خاطر جان جوکھوں کا کام کر رہے ہو……نجم خان نے برجستہ جواب دیا۔

                ہاں یہ بات تو ہے……میں نے قدرے ندامت سے کہا……خیر آگے بتائو کیا ہوا؟

                سنو پھر کیا ہوا……وہ ایک شکستہ دیوار پر پیٹھ لگاتے ہوئے بولا……اللہ رکھی کی بات سنتے ہی میں نے دوبارہ تیزی سے وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا……وہ شخص کلہاڑی زمین پر ٹکا کر بولا……تو اس طرح نہیں مانے گا۔

                میں نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اور برابر ورد کرتا رہا……میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس میں سے ایک شخص نکلا……اب وہ دو ہو گئے تھے……پھر وہ تین ہوئے……تین سے چار……اور چار سے پانچ ہوئے……اس طرح ان کی تعداد بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ ان سب نے حصار کے گرد گھیرا ڈال لیا……ان سب کے ہاتھوں میں چمک دار پھل والی کلہاڑیاں تھیں……پہلے والے شخص نے اپنے ساتھیوں سے کہا……یہ میرے کہنے سے نہیں جاتا۔ لہٰذا……اسے ختم کر دو۔

                آخری الفاظ کے ساتھ ہی ان سب نے اپنی اپنی کلہاڑیاں لیں اور ایک ساتھ مجھ پر وار کر دیا۔ میں نے صرف اتنا دیکھا……کہ ان سب کے کلہاڑیوں والے ہاتھ نیچے آئے اور حصار سے ٹکراتے ہی وہ چیختے چلاتے غائب ہو گئے……صرف پہلا والا شخص اپنی جگہ پر کھڑا رہا……شاید اس نے کلہاڑی مارنے کے لئے نہیں اٹھائی تھی……وہ مجھے گھورتے ہوئے نفرت سے بولا……آج تو۔ تو بچ گیا ہے……لیکن اگر کل تو ادھر آیا تو بچ کر نہیں جا سکے گا۔

                اس کی یہ دھمکی سن کر مجھے ذرا سا بھی خوف نہیں ہوا اور میں برابر وظیفہ پڑھتا رہا……وہ مجھے د ھمکی دے کر غائب ہو گیا۔ اور میں نے اپنا وظیفہ پورا کر لیا۔

                نجم خان کی تیسری رات کی واردات سن کر میں شش و پنج میں پڑ گیا اور سوچنے لگا کہ کیا واقعی کوئی وظیفہ پڑھنے سے اس قسم کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں……میں سوچتا تھا اور آخر میں تمام باتوں کی نفی کر دیتا تھا۔ میرے لئے یہ تمام باتیں ناقابل فہم اور……ناقابل اعتبار تھیں……لیکن پھر بھی میں اس ویران قبرستان میں رہنے پر مجبور تھا۔ کیونکہ یہ اللہ رکھی کا حکم تھا۔

                قارئین! نجم خان کی واردات کے ساتھ ساتھ میں گاہے بگاہے اپنی دلی کیفیات بھی بیان کر دیتا ہوں۔ کیونکہ روحانی سے نابلد لوگوں کے لئے یہ تمام باتیں واہمہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور اس وقت میری بھی یہی حالت تھی۔

                بہرحال مجھے سات دن نجم خان کے ساتھ گزارنے تھے اور اللہ رکھی کے بتائے ہوئے وظیفہ کا نتیجہ دیکھنا تھا۔

                چوتھی رات کی کیفیات بیان کرتے ہوئے صبح کو نجم خان نے بتایا……کہ آج رات جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دور قبرستان کی ایک جانب سے بین کی آواز سنائی دی……چند لمحہ بعد……یہ آواز بتدریج بڑھتی ہوئی قریب آ گئی……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سپیرا مسجد کے قریب ہی بین بجا رہا ہے……وادی مہران کیونکہ سانپوں کی وادی بھی کہلاتی ہے……یہاں بے انتہا قسم قسم کے سانپ ہیں……میں نے سوچا کہ کوئی سپیرا ہے جو کہ سانپ کی تلاش میں یہاں تک آ گیا ہے……میں نے حصار کھینچا اور حسب معمول چراغ روشن کر کے وظیفہ پڑھنے لگا……ابھی وظیفہ شروع کئے کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایسا معلوم ہوا جیسے سپیرا مسجد میں داخل ہو گیا ہو……میں نے گردن اٹھا کر مسجد کے صحن کی طرف دیکھا۔ اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کل والا مقامی دیہاتی……مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار پر بیٹھا بین بجا رہا تھا……مجھے اپنی جانب متوجہ پا کر وہ وہیں سے چلایا……آج تو پھر آ گیا……بول ، جاتا ہے ۔یا۔سانپوں کو بلائوں۔

                اس کی بات سنتے ہی میں سمجھ گیا……کہ یہ سلاسل کا بھیجا ہوا کوئی موکل ہے ۔ لہٰذا میں نے بدستور وظیفہ کا ورد جاری رکھا۔ اس سپیرے نے بھی زور زور سے بین بجانی شروع کر دی……میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان گنت کالے سیاہ اور پیلے رنگ کے سانپ مسجد کی شکستہ دیواروں سے نکلے اور صحن میں جمع ہونے لگے۔ جب مسجد کا پورا صحن ان سانپوں سے بھر گیا تو وہ سپیرا دیوار سے اتر کر ان کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا اور ایک بار پھر مجھ سے مخاطب ہوا……آخری بار تجھ سے کہتا ہوں کہ یہاں سے چلا جا……ورنہ……ان موذی جانوروں کو لے کر آتا ہوں۔

                میں نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے خنجر پر نظر ڈالی اور وظیفہ پڑھنے میں مشغول ہو گیا……وہ سپیرا مسکراتا ہوا میری طرف بڑھا……اس کے ساتھ ہی لاتعداد سانپوں نے بھی رینگنا شروع کر دیا۔ وہ سب انتہائی زہریلے اور خطرناک قسم کے سانپ تھے……حصار کے قریب آ کر اس نے میری جانب ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس کے ساتھ ہی سانپوں کا رخ میری جانب ہو گیا……وہ خوفناک انداز میں پھنکارتے ہوئے میری سمت بڑھ رہے تھے……انہیں دیکھ کر خوف کی سرد لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی……لیکن میں نے حوصلہ سے کام لیا اور وظیفہ کا ورد کرتا رہا……جیسے ہی وہ……سب حصار سے ٹکرائے……دھواں بن کر فضا میں اڑنے لگے……ان میں سے کچھ سانپ واپس پلٹے اور جس طرح مسجد کی شکستہ دیواروں سے چڑھ کر آئے تھے……اسی طرح سرعت سے دیواریں چڑھ کر دوسری جانب اتر گئے……اب میدان صاف تھا اور وہ دیہاتی سپیرا سوچ میں گم مجھے دیکھ رہا تھا……کچھ دیر بعد وہ قدرے تعجب سے بولا……بہت ڈھیٹ……شخص ہے……اچھا۔ کل تجھ سے نبٹوں گا……اس کے بعد وہ بھی مسجد کے صحن کی طرف چلا گیا……اور پھر میں نے اپنا وظیفہ مکمل کر لیا۔

                پانچویں رات کی روئیداد سناتے ہوئے نجم خان نے بتایا……یہ رات پچھلی تمام راتوں سے زیادہ وحشت انگیز اور تاریک تھی……قدم قدم پر یوں لگتا تھا جیسے سیکڑوں ان دیکھے اجسام میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں……میں ان کے قدموں کی آہٹیں سن رہا تھا……لیکن نظر کوئی نہیں آتا تھا……میں جوں جوں مسجد کی طرف بڑھتا رہا ان اجسام کی قربت کا احساس زیادہ ہوتا چلا گیا۔

                اس موقع پر تمہارا خنجر کہاں تھا……میں نے پوچھا۔

                خنجر میرے پاس ہی تھا……نجم خان نے بتایا……اور مسجد تک پہنچتے پہنچتے میں نے اسے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔

                پھر کیا ہوا……میں نے کہا۔

                ہونا کیا تھا……نجم خان نے بتایا……خنجر ہاتھ میں پکڑتے ہی کئی عورتوں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں……ایسا معلوم ہوتا تھا……کہ انہیں کوئی بہت سخت صدمہ پہنچا ہے……یہ رونے کی آوازیں نہیں تھیں بلکہ پگھلا ہوا سیسہ تھا۔ جو میرے کانوں میں انڈیلا جا رہا تھا……میں نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں……لیکن عورتوں کے رونے کی آوازیں برابر آئے چلی جا رہی تھیں۔ میں نے اونچی آواز میں کلام عظیم کی ایک سورہ کی تلاوت شروع کر دی……اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کے رونے کا شور کم ہو گیا……میں اس شور سے بچنے کی خاطر جلد از جلد مسجد میں پہنچنا چاہتا تھا لہٰذا میں نے یہ دیکھنے کی خاطر کہ مسجد کتنی دور رہ گئی ہے گردن اٹھا کر دیکھا……اور یہ دیکھ کر سخت حیران و پریشان ہو گیا کہ مسجد کا کہیں نام و نشان نہیں ہے……بلکہ میں ایک اجنبی اور ویران سی جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔

                اوہ……یہ تو بہت برا ہوا……میں نے پریشانی سے کہا۔

                ہاں شیطانی روحوں اور جنات نے مجھے راہ سے بھٹکا دیا تھا……نجم خان نے قدرے پریشانی سے کہا……اس صورتحال سے مارے دہشت کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے……ایک جگہ رک کر……میں نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ کس جگہ آ گیا ہوں……ابھی میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ……ایک جھاڑی کی اوٹ سے انسانی ہیولا نکلا……اور اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا……پہلے تو میں نے اسے بھی جنوں کی شرارت ہی سمجھا لیکن جب میں نے غور سے دیکھا……تو مجھے معلوم ہوا کہ جیسے یہ اللہ رکھی کا ملازم شمرال ہو۔

                کیا بکتے ہو……میں ایک دم چیخا……شمرال اور یہاں۔

                سنتے رہو……اس نے مجھے دھیرے سے ڈانٹا……گو کہ اندھیرے کی وجہ سے مجھے اس کی شکل صاف نظر نہیں آ رہی تھی……لیکن میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ شمرال ہی ہے۔

                تو پھر تم اس کے پیچھے چل دیئے……میں نے جیسے اس کے دل کی بات کہہ دی۔

                یہ یقین ہونے کے بعد……کہ وہ شمرال ہی ہے……میں اس کے پیچھے چل دیا……نجم خان نے بتایا……جنات میری نظروں سے مسجد اوجھل کر کے بہت آگے لے آئے تھے……وہ ہیولا جو کہ شمرال تھا مجھے واپس لایا اور میرے ساتھ ہی مسجد میں داخل بھی ہوا……لیکن حصار قائم کر کے اور چراغ روشن کر کے جب میں نے دیکھا تو وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا……حالانکہ چراغ کی مدھم روشنی مسجد کے صحن تک پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔

                یہ تو تم نے بڑی ہی عجیب بات بتائی ہے……میں نے تعجب سے کہا……اگر وہ شمرال ہی تھا تو اسے روکنا چاہئے تھا……مجھ سے ملنا چاہئے تھا۔

                یہ ضروری تو نہیں تھا……نجم خان نے روکھے لہجہ سے کہا……ہو سکتا ہے کہ اللہ رکھی نے اسے صرف اسی کام کے لئے بھیجا ہو۔

                اگر یہ بات تھی……میں نے قدرے غصہ سے کہا……تو اسے مجھے تمہارے ساتھ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔

                یہ تو وہی بہتر سمجھ سکتی ہے……نجم خان نے جواب دیا۔

                یار تم اور تمہاری اللہ رکھی میری سمجھ سے تو باہر ہو……میں نے شکست خوردہ لہجہ سے کہا۔

                جو بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے وہ بیکار ہے……اور اپنی اللہ رکھی کی ہدایت پر عمل کرتے رہو۔

                یہ بات معقول تھی۔ لہٰذا میں خاموش ہو گیا مجھے تو صرف ‘‘اللہ رکھی’’ کی ہدایت پر عمل کرنا تھا۔

                چھٹی رات ہم دونوں کے لئے بڑی ہی خطرناک رات تھی……اس رات ایسا عجیب واقعہ پیش آیا کہ میں پریشان اور خوفزدہ ہو گیا۔

                اس رات ہوا……یہ کہ……نجم خان تو وظیفہ پڑھنے مسجد کی طرف چلا گیا اور میں……ایک مقبرہ کے اوپر بنی ہوئی چوبرجی سے ٹیک لگا کر چاند اور ستاروں کا نظارہ کرنے لگا……یہ شروع راتوں کی بات ہے جب کہ چاند صرف اپنی معمولی سی جھلک دکھا کر آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے۔

                یہاں سے مسجد کا اندرونی حصہ بھی نظر آ رہا تھا……ابھی مجھے یہاں کھڑے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی……کہ نجم خان کی آواز سنائی دی……وہ غصہ کے عالم میں اللہ رکھی کو نہایت غلیظ قسم کی گالیاں دے رہا تھا……اس کی آواز سن کر میں چونکا اور مسجد کی طرف دیکھنے لگا……مسجد میں چراغ روشن تھا۔ اور نجم خان خود سے دست و گریبان تھا……میں اسے دیکھتا رہا اور پھر چند لمحہ بعد ہی مجھے خطرہ کا احساس ہوا……نجانے اس وقت میرے ذہن میں یہ بات کس طرح آگئی……کہ نجم خان کا وظیفہ بگڑ گیا ہے اور وہ سخت خطرہ میں ہے……خطرہ کا احساس ہوتے ہی میں مسجد کی طرف دوڑا۔ اور محراب میں پہنچ کر اسے آواز دی……آواز سنتے ہی اس نے میری طرف گھور کر دیکھا۔ اور میں خوف سے کانپ اٹھا ……اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔ اور چہرہ پر اس کے اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی خراشوں سے خون رس رہا تھا……اس نے مجھے دیکھا اور اللہ رکھی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اول فول بکنے لگا……اس کی یہ حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں……اسی پریشانی میں مجھے اللہ رکھی کی ہدایت یاد آئی……اس نے کہا تھا……کہ اگر کبھی نجم خان کی حالت خراب دیکھو تو سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر دینا……میں نے اس ہدایت کے یاد آتے ہی سورہ فاتحہ پڑھی اور نجم خان کی طرف پھونک ماری……اور نجم جو خود سے دست گریبان تھا……جس نے اپنے بال نوچ لئے تھے۔ اور اپنے چہرہ کو مزید تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا……میرے پھونک مارتے ہی ساکت ہو گیا……میں برابر سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر پھونک مارتا رہا۔ وہ چار پانچ منٹ تک تو ساکت گم سم کھڑا رہا……پھر اس نے ایک دلخراش چیخ ماری اور اپنی کمر پر یہ کہہ کر ہاتھ رکھ لئے……ہائے میں مر گیا……میں نے تیزی سے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کرنا شروع کر دیا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ نجم خان پہلے تو گھٹنوں کے بل بیٹھا اور پھر زمین پر اس طرح لوٹنے لگا جیسے کوئی اسے ہنٹر مار رہا ہو……وہ کبھی دائیں کروٹ اور کبھی بائیں کروٹ لیٹتا اور ہر بار یہی کہتا تھا……کہ ہائے مر گیا……چھوڑ دو……مجھے چھوڑ دو۔

                یہ ایک ایسی صورتحال تھی……جسے میں نہیں سمجھ سکتا تھا……میں سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر اس پر دم کرتا رہا لیکن اس پر اس سورہ کا بھی اب کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا……وہ برابر نظر نہ آنے والی اذیت میں مبتلا تھا۔

                اب میں بے بس اور مجبور تھا……اور نجم خان زمین پر لوٹ رہا تھا……اس کا لباس اور چہرہ گرد آلود ہو چکا تھا……اچانک فضا میں گلاب کی خوشبو کی مہک اٹھی۔ میں نے چونک کر اطراف میں نظریں دوڑائیں اور یہ دیکھا کہ ایک نسوانی ہیولا قریب آتا جا رہا تھا۔ اس کے خدوخال نمایاں ہوتے جا رہے تھے وہ اللہ رکھی تھی۔ یقین جانیئے اس وقت اللہ رکھی کو اپنے سامنے دیکھ کر جو حیرت ہوئی تھی وہ شاید کسی فرشتے کو بھی دیکھ کر نہ ہوتی……اللہ رکھی نے میری طرف کوئی توجہ نہیں دی……وہ سیدھی نجم خان کی طرف گئی اور جھک کر اس پر پھونک ماری……پھونک کا مارنا تھا کہ نجم خان کو قرار آ گیا……اس نے بڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھا اور اللہ رکھی پہ نظر پڑتے ہی اس کے قدموں میں جھک گیا۔

                ‘‘نجم خان’’ اٹھو، اللہ رکھی نے شیریں لہجہ میں کہا……اپنے حصار میں فوراً آ جائو۔ اور خواہ کتنی ہی مدت کیوں نہ ہو جائے تم اس حصار سے باہر نہیں نکلو گے……اس دنیا میں تمہاری پناہ گاہ صرف یہ حصار ہی ہے۔

                نجم خان حکم ملتے ہی تیزی سے اٹھا۔ اور حصار میں داخل ہو گیا۔ اسے حصار میں دیکھ کر اللہ رکھی کے چہرہ پر فتح مندی کی جھلک نمایاں ہو گئی……پھر وہ واپس جانے کے لئے اٹھی اور صحن کی جانب چل دی……میں نے اسے آواز دی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے میری آواز سنی ہی نہیں……میں اس کے پیچھے لپکا……لیکن اس کے جسم سے اس قدر تیز روشنی نکل رہی تھی کہ میری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں……میں نے اپنی آنکھوں کو مسلا اور چند ثانیہ کے بعد جب دیکھنے کے قابل ہوا……تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا……محراب کے نیچے نجم خان چراغ کی روشنی میں وظیفہ پڑھ رہا تھا۔

                اس واقعہ سے میں بے حد حیران و پریشان تھا۔ یہ سوچتا ہوا واپس اپنی جگہ کی طرف چل دیا……کہ صبح کو جب نجم خان وظیفہ ختم کر کے آئے گا تو اس سے حقیقت معلوم کروں گا۔

                اس تمام رات میں جاگتا رہا……اور صبح کو جونہی نجم خان آیا……میں نے بے تابی سے رات کا حال پوچھا……اس نے بتایا……کہ آج رات اگر اللہ رکھی بروقت نہ آتی تو وہ مر چکا تھا یا پھر پاگلوں جیسی زندگی گزارتا……میں نے اسے کوئی بات نہیں بتائی……کیوں کہ میں پہلے اس کی روداد سننا چاہتا تھا۔

                کیا ہوا تھا رات کو؟……میں نے انجان بن کر پوچھا۔

                رات کو عجیب واقعہ ہوا……اس نے قدرے خوف سے کہا……ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا تھا……یہ ایسا واقعہ تھا کہ میں اپنے ہوش کھو بیٹھا اور حصار سے باہر آ گیا۔

                آخر ہوا کیا تھا؟……میں نے بے چینی سے پوچھا۔

                ہوا یہ……اس نے بتایا……کہ جب میں حصار کے اندر بیٹھ کر وظیفہ پڑھنے لگا تو وہی دیہاتی نمودار ہوا اور حصار کے قریب کمر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

                تو یہاں آنے سے باز نہیں آتا۔ آخر چاہتا کیا ہے؟

                میں سمجھ گیا……کہ یہ سلاسل کا بھیجا ہوا کوئی موکل ہے اور گذشتہ دو راتوں کی طرح آج پھر مجھے ڈرانے دھمکانے آ گیا ہے لہٰذا حسب معمول خاموش رہا اور وظیفہ پڑھتا رہا……مجھے خاموش دیکھ کر وہ سمجھانے والے لہجہ میں بولا……

                تو یہ کیا وظیفہ پڑھتا ہے اس سے زیادہ اثر والے وظائف تو میں خود جانتا ہوں۔

                میں نے اس بار بھی کوئی جواب نہ دیا اور وظیفہ پڑھتا رہا……میری مسلسل خاموشی سے وہ جھنجھلا اٹھا۔ اور اس نے زور سے تالی بجائی۔ تالی کی آواز سنتے ہی چار قوی ہیکل اشخاص ایک بڑا سے کڑہائو لے کر آئے اور حصار سے کچھ ہی فاصلے پر رکھ دیا……کڑہائو میں تیل تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے آگ جلائی اور کڑہائو کا تیل ابلنے لگا۔ اس شخص نے نفرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔

                تو یہ سمجھتا ہے کہ اس وظیفہ کے ذریعہ اپنا مقصد حاصل کر لے گا۔ آج میں تجھے یہ وظیفہ بتانے والی ہی کا خاتمہ کئے دیتا ہوں۔

                اس بات کے سنتے ہی……میں لمحہ بھر کے لئے چپ ہو گیا……اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی چاروں اللہ رکھی کو پکڑے ہوئے لا رہے ہیں……وہ ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی پوری کوشش کر رہی تھی……لیکن وہ چاروں اسے مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے……وہ اسے پکڑے ہوئے کڑہائو کے پاس لے آئے تو اس شخص نے میری طرف اس طرح دیکھا……جیسے اگر میں نہیں مانا۔ تو وہ اللہ رکھی کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دے گا……یہ ایسا واقعہ تھا……کہ میں وظیفہ چھوڑ کر بولا۔

                میں جاتا ہوں تم اسے چھوڑ دو۔

                تو پھر حصار سے باہر آ جائو اور اپنی چہیتی کو لے جائو۔

                بس مجھ سے یہی غلطی ہو گئی……نجم خان نے سانس لے کر کہا……میں اس بدبخت کے کہنے پر حصار سے باہر آگیا……اب وہاں نہ تو اللہ رکھی تھی اور نہ ہی کڑہائو تھا……بلکہ وہ شخص میرے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا اور جو چاہتا تھا……میری زبان سے کہلواتا تھا۔

                جبھی تم اللہ رکھی کو برا بھلا کہہ رہے تھے……میں نے کہا……تمہاری آواز سن کر ہی میں مسجد کی طرف آیا تھا۔ اور تم پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کی تھی۔

                اچھا……یہ تم تھے۔ نجم خان نے تعجب اور خوشی سے کہا……جبھی اس نے میرے اعصاب کو تو آزاد کر دیا لیکن ہنٹر لے کر پٹائی کرنے لگا۔

                پھر تم کس طرح بچے……میں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔

                بس ایک دم اللہ رکھی آ گئی……نجم خان نے بتایا……اللہ رکھی کو دیکھتے ہی وہ تھوڑا سا خوفزدہ ہو ا لیکن پھر ویسے ہی ہنٹر مارنے لگا……پھر اللہ رکھی کے منہ سے شعلہ نکلا اور وہ جل کر بھسم ہو گیا……میرے حواس بجا ہوئے تو اللہ رکھی سامنے کھڑی تھی۔ اور اس نے مجھے دوبارہ حصار میں جا کر وظیفہ پورا کرنے کا حکم دیا……اور اس طرح میں نے وظیفہ پورا کیا……اب کل آخری رات ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ کل کی رات بھی اللہ رکھی کے وسیلہ سے خیریت سے گزر جائے گی۔

                میں نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی اللہ رکھی کے بارے میں بتایا کہ اس کی زیارت سے میں بھی فیضیاب ہو چکا ہوں۔

                ساتویں رات……آخری رات تھی……اور نجم خان نے جو حالات بتائے تھے ان پہ مجھے کچھ کچھ یقین سا ہونے لگا……کیوں کہ میں نے خود اللہ رکھی کو دیکھا تھا اور جب اللہ رکھی یہاں آ سکتی تھی تو پھر اس کا ملازم شمرال کیوں نہیں آ سکتا تھا……میں اس معاملہ میں اس سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی……کہ میں اس سے اللہ رکھی کے آنے کی بات چھپا گیا تھا۔

                آخری رات میں بھی نجم خان کے ہمراہ……اس مسجد میں گیا۔ پہلے تو نجم خان مجھے اپنے ساتھ لے چلنے پر راضی نہ ہوا……لیکن جب……دوپہر کو سو کر اٹھا تو خود ہی بولا……آج رات تم بھی ساتھ چلنا۔ میں نے کہا……کہ پہلے تو تم مجھے ساتھ لے کر چلنے کیلئے راضی نہیں تھے۔ لیکن سو کر اٹھے تو خود ہی مجھے ساتھ چلنے کو کہہ رہے ہو……میری اس بات کا جواب اس نے یہ دیا……کہ سوتے میں اللہ رکھی نے اسے اجازت دے دی ہے کہ تم بھی میرے ساتھ چل سکتے ہو……لیکن تمہیں حصار کے اندر میرے ساتھ بیٹھنا ہو گا……کیونکہ آج کی رات کامیابی کی رات ہے……اور ممکن ہے سلاسل اپنی شکست سے بچنے کے لئے کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے کہ تمہیں نقصان پہنچ جائے۔

                بات معقول تھی……گذشتہ رات میں اس کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ لہٰذا خوفزدہ بھی تھا……ساتھ ہی مجھے اللہ رکھی سے بھی والہانہ عقیدت ہو چلی تھی اور ہوتی بھی کیوں نہیں اسے اس ویران قبرستان میں بھی میرا کتنا خیال تھا۔

                غرض یہ کہ رات کی سیاہی اچھی طرح پھیلنے کے بعد ہم دونوں وقت مقررہ پر مسجد میں پہنچ گئے اور ابھی……مسجد میں داخل ہی ہوئے تھے……کہ زمین اور زور سے ہلنے لگی جیسے زلزلہ آ گیا ہو……نجم خان نے میرا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے محراب کی طرف دوڑا……اس نے جلدی سے خنجر کی نوک سے حصار کھینچنا شروع کر دیا……آج حصار کا دائرہ بڑا تھا کیونکہ میں اس کے ساتھ تھا……ابھی وہ میری پشت سے دائرہ کھینچتا ہوا تھوڑا سا آگے بڑھا تھا کہ اندھیرے میں ایک شعلہ سا پلکا اور اس کے ساتھ ہی ایک ہیبت ناک شکل کا شخص ہاتھوں اور پائوں میں بیڑیاں پہنے نظر آیا……اس پر نظر پڑتے ہی……میں خوف سے کپکپا گیا……نجم خان بھی حصار چھوڑ کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

                معاف کر دو……مجھے معاف کر دو……وہ ہیبت ناک شخص گڑگڑایا۔

                معاف کردوں……نجم خان نے حیرانگی سے چونکتے ہوئے کہا۔ پھر غصہ سے دانت پیستے ہوئے بولا۔

                تجھے معاف کر دوں ۔ بولو! شمیم کہاں ہے……اس نے پوچھا اور ساتھ ہی خنجر تھام کر اٹھنے لگا……عین اسی وقت اللہ رکھی کی آواز سنائی دی……وہ نجم خان سے کہہ رہی تھی۔

                کیا غضب کرتے ہو جلدی سے حصار پورا کرو……سلاسل وار کرنے ہی والا ہے۔

                اس آواز کو سنتے ہی نجم خان نے جلدی سے حصار پورا کیا اور چراغ جلا کر وظیفہ پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔

 

                وہ شخص چند لمحہ تک گڑگڑاتا رہا……اس کے بعد تاریکی میں غائب ہو گیا……اللہ رکھی کی زبانی مجھے یہ تو معلوم ہو گیا……کہ سلاسل یہی ہے لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اس قدر ڈرائونی شکل والے کے ساتھ شمیم کس طرح رہ رہی ہو گی۔

                میں انہی خیالات میں گم تھا کہ آسمان پر زور سے بجلی گرجی……یہ گرج اتنی زور دار تھی کہ ہم دونوں نے گھبرا کر ایک ساتھ اوپر دیکھا……کیوں کہ ہمیں ایسا محسوس ہوا تھا جیسے بجلی ہمارے سرو ں کے اوپر چھت پر گری ہے……لیکن وہاں چھت تو سلامت تھی البتہ وہی ڈرائونی صورت والا شخص چھت سے الٹا لٹکا ہوا کہہ رہا تھا۔

                نجم خان! میں حصار میں آ رہا ہوں۔

                اس کی بات سنتے ہی ہم دونوں پہ خوف سے لرزا طاری ہو گیا۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ کودتا ایسا معلوم ہوا کہ چھت نے اسے پکڑ لیا ہے……اس نے خود کو چھت سے چھڑانے کے لئے بہت زور لگایا لیکن کامیاب نہیں ہوا……آخر کھسیا کر بولا۔

                ٹھیک ہے میں نیچے آتا ہوں……اس کے ساتھ ہی مسجد کے صحن میں دھم سے کسی کے کودنے کی آواز آئی……ہم دونوں نے ایک بار پھر……ایک ساتھ دیکھا……صحن میں ڈرائونی صورت والا سلاسل بڑے ہی اطمینان سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ہمیں گھو ررہا تھا……پھر یکایک اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا ہنٹر آ گیا……اس ہنٹر کے آخری سرے پر آگ کا معمولی سا شعلہ بلند ہو رہا تھا……سلاسل نے پہلو بدل کر ہنٹر پوری قوت سے فضا میں گھمایا……اور اس سے قبل کے ہنٹر ہم دونوں پہ پڑتا……وہ شعلہ بڑھا اور پورا ہنٹر اس کی زد میں آ گیا……سلاسل نے گھبرا کر ہنٹر پھینک دیا……وہ بڑی پریشانی سے کبھی ہم دونوں کی طرف دیکھتا……اور کبھی زمین پر پڑے ہوئے ہنٹر کو دیکھتا جو کہ چند ہی لمحوں میں جل کر خاکستر ہو چکا تھا……چند ثانیہ بعد ہم نے اس کے ہاتھوں میں ہنڑدیکھا……جس کی انی اندھیرے میں بھی چمک رہی تھی……اس نے نیزہ کو ہاتھ میں پکڑکر تولا……اور ہم دونوں کا نشانہ لینے لگا……اسی وقت مسجد میں ایک سایہ داخل ہوا اور سلاسل کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔

                خبردار کوئی حرکت نہ کرنا۔

                ہم دونوں……اس آواز کو سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑے……اللہ رکھی ایک بار پھر ہماری مدد کو آگئی تھی……سلاسل نے آواز سن کر اچنتی سی نظر اللہ رکھی پر ڈالی اور نیزہ ہماری طرف پھینک دیا……نیزی فضا میں تیرتا ہوا سیدھا ہماری طرف آ رہا تھا……ہم دونوں اس کی زد میں تھے……اور سہم کر اپنی جگہ پہ سمٹ گئے تھے……نیزی ابھی حصار سے دو چار فٹ ہی دور تھا کہ اس میں بھی ہنٹر کی طرح آگ لگ گئی……یہ دیکھ کر سلاسل تلملا گیا اور وہ غصہ میں اللہ رکھی سے بولا۔

                تو یہ تُو ہے جس نے میرے مقابلے کے لئے……اس چھوکرے کو بھیجا ہے۔

                سلاسل!……اللہ رکھی نے اس کی جانب بڑھتے ہوئے کہا……تم اس مخلوق سے تعلق رکھتے ہو……جسے اللہ نے نور سے بنایا اور فرشتوں پر فوقیت دی لیکن تم اس کے خلیفہ الارض کو تنگ کرنے لگے۔

                اللہ رکھی……سلاسل نے دانت پیستے ہوئے کہا……تو جانتی ہے……کہ میں معمولی اجنا میں سے نہیں ہوں۔

                جانتی ہوں……جانتی ہوں……اللہ رکھی نے اس کے سامنے پہنچ کر کہا……لیکن تم شاید یہ بھول گئے ہو……کہ آج تمہیں جس برتری کا احساس ہے ……وہ ان ہی عوامل کی وجہ سے ہے……جنہیں تم نے خلیفتہ الارض سے حاصل کیا۔

                تو کیا ہوا……اس نے غصہ و نفرت سے کہا۔

                تم نے ان علوم کو اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے سیکھا تھا۔ اللہ رکھی نے اسے جتلایا……لیکن تم نے بھی خاکی انسانوں کی طرح ان کا غلط استعمال کیا۔

                اللہ رکھی……سلاسل کا لہجہ پہلے کی نسبت نرم تھا۔ لیکن اللہ رکھی نے اس کی بات سننے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی۔

                تم نے برسہا برس تک……اللہ کی مخلوق کو اذیتیں دیں……اور پھر……تم نے اپنے علوم سے خاکی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا شروع کر دیئے۔

                یہ کوئی غیر فطری عمل نہیں ہے……سلاسل نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔

                ہے……یہ غیر فطری عمل ہے……اللہ رکھی نے الفاظ کو دہرایا……بھلا آگ اور پانی کا میل ہو سکتا ہے؟ تمہارا اور انسانوں کا نسمہ جدا جدا ہے……تمہارا نسمہ آتشیں ہے جب کہ انسان کا نسمہ لطیف ہے۔

                جبھی تو مجھے خاک کا پتلا پسند ہے……اس نے شرارت سے کہا۔

                تم اپنی پسند کو بھول جائو……اللہ رکھی نے قدرے غصہ سے کہا……اور قانون قدرت کو یاد رکھو……تم انسانوں کو اپنی ہوس کا ذریعہ بنا کر یہ تک بھول گئے……کہ اللہ قانون توڑنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔

                اللہ کی فطرت کو تم سے زیادہ جانتا ہوں……سلاسل نے قدرے تمکنت سے کہا۔

                تو پھر تم یہ بھی جانتے ہو گے……اللہ رکھی نے مسکرا کر کہا……کہ اللہ کو ایک ایک ذرے کی حرکت کا علم ہے۔ اور اب تک تم نے جو کچھ کیا ہے اس کی سزا دینے کا وقت آ گیا ہے۔

                کون ہے جو مجھے سزا دے گا؟……سلاسل نے غرور سے کہا۔

                اللہ……جس کے قبضہ قدرت میں جنوں اور انسانوں کی زندگیاں ہیں……اللہ رکھی نے عشق الٰہی میں ڈوبتے ہوئے آنکھیں بند کر دیں……بس عین اسی لمحہ……جب کہ اللہ رکھی نے آنکھیں بند کی تھیں……سلاسل کو موقع مل گیا اور اس نے مسجد کے باہر چھلانگ لگائی۔

 

                اس کے چھلانگ لگاتے ہی اللہ رکھی نے آنکھیں کھول دیں……اور ابھی وہ مسجد کی دیوار کو پھلانگ ہی رہا تھا کہ اللہ رکھی چلائی۔

                سلاسل تم بچ نہیں سکتے……اللہ نے تمہیں کیفر کردار رک پہنچانے کا وسیلہ بنا دیا ہے……آخری الفاظ کے ساتھ ہی وہ مسجد کی دیوار پھلانگ کر غائب ہو گیا……اس کے غائب ہوتے ہی اللہ رکھی نجم خان سے مخاطب ہوئی……

                گھبرائو نہیں……وہ کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا تم اپنا وظیفہ مکمل کر لو۔ اور اگر وہ کہیں نظر آ جائے تو خنجر لے کر اس سے نبرد آزما ہو جانا۔

                لیکن وہ تو بہت ہی طاقت ور ہے……نجم خان نے پریشانی سے کہا۔

                اب وہ کچھ بھی نہیں ہے……اللہ رکھی نے حسب معمول مسکراتے ہوئے کہا……اس وظیفہ سے اس کی تمام صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں۔

                لیکن……لیکن……اللہ رکھی نے سوچتے ہوئے جواب دیا……وظیفہ پورا ہوتے ہی……وہ خود تمہارے سامنے شمیم کو چھوڑ جائے……ورنہ تمہیں اجنہ کی بستی میں جانا ہو گا……

                کس طرح؟……میں نے پوچھا……ہم اجنہ کی بستی میں کیسے جائیں گے؟

                وقت آنے پر یہ بھی بتا دیا جائے گا……اللہ رکھی نے جواب دیا……فی الھال! وظیفہ پورا کرنا ضروری ہے……آخری جملہ اس نے نجم خان کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر وہ مسجد کے باہر چلی گئی۔

 

                اللہ رکھی کے جانے کے بعد ……نجم خان نے وظیفہ شروع کر دیا اور رات کا بقایا بغیر کسی حادثہ کے گزر گیا……نجم خان کا وظیفہ طلوع سحر سے کچھ ہی پہلے ختم ہو جاتا تھا……اس دن بھی ایسا ہی ہوا لیکن نجم خان حصار سے باہر نہیں آیا……اسے یہ امید تھی کہ شاید سلاسل……شمیم کو چھوڑنے آ جائے……مگر ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے……صبح صادق کے وقت جب کہ سورج کی لالی آسمان پر پھیل رہی تھی……وہ دل برداشتہ ہو کر مسجد سے باہر نکلا۔ اور بغیر کچھ کہے سنے ٹھکانہ کی طرف چل دیا……میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چل رہا تھا……ہم دونوں مقررہ راستہ پر چلے جا رہے تھے……ایک ہفتہ کے اندر اندریہ راستہ ہمارا جانا پہچانا ہو گیا۔ نجم خان کو یہ تک علم تھا کہ راستے کے دونوں جانب کس قسم کے خودرو درخت اور پودے ہیں۔

 

               

 

 


 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء