Topics

وقت کی اہمیت


                اللہ رکھی کا یہ جواب سن کر میں سوچنے لگا کہ کیا جواب دوں۔ چند لمحوں بعد میں نے ڈھٹائی سے کہا۔ ہاں پڑھا ہے……لیکن وہ نبی ؑ تھے……میں نے جواب دیا……اور……اور……تم عورت ہو صرف عورت۔

                ہاں میں عورت ہوں۔ اللہ رکھی نے میرے چہرہ پر نظریں گاڑ کر کہا……لیکن میں اس نبی ؑ کی کنیز ہوں جو رحمت للعالمین ﷺ ہیں۔ جس نے بے جان کنکریوں کو ہاتھ میں لیا تو وہ بولنے لگیں۔ جس نے ایک اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا۔ جس کے صرف چہرہ مبارک کو دیکھ کر قتل کرنے کے ارادہ سے آنے والا فرمانبردار غلام بن گیا۔

                اس کا مطلب یہ ہے کہ تم خود کو روحانیت کا عامل سمجھتی ہو۔ میں نے پوچھا۔

                میں دعویٰ تو نہیں کرتی۔ وہ ایک بار پھر مسکرائی۔ لیکن میری ‘‘پھونک’’ سے تمہارا بخار اتر گیا۔

                یہی بات تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔

                اگر تم یہاں آتے رہے تو سب کچھ سمجھ جائو گے۔ اللہ رکھی نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

                اب میں یہاں نہیں آنا چاہتا۔ میں نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔

                کیوں۔ اس نے پوچھا۔

                اب میں روزگار کی تلاش میں کراچی جانا چاہتا ہوں۔ میں نے بتایا۔

                اللہ رکھی نے غور سے میری طرف دیکھا جیسے پہچان رہی ہو۔ پھر زیر لب بڑبڑائی تم ابھی تک ماضی سے وابستہ ہو۔

                پھر وہ اپنے چہرہ پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولی۔ میری ‘‘پھونک’’ سیکھ لو۔ معاش سے بے فکر ہو جائو گے۔

                کیا مطلب۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔

                مطلب یہ ہے۔ اللہ رکھی نے پیار سے سمجھایا۔ میری طرح ‘‘پھونک’’ سے لوگوں کو تندرست کر دیا کرو لوگ خوشی خوشی بہت کچھ دے جایا کریں گے۔

                مجھے ایسی کمائی نہیں چاہئے۔ میں نے بگڑ کر جواب دیا۔ میں لوگوں کو دھوکا نہیں دینا چاہتا۔

                اور میں دھوکا دیتی ہوں۔ اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

                میں اس کے جواب میں جھینپ سا گیا۔ وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ میں تو کسی سے کچھ نہیں مانگتی۔ لوگ خود ہی خوشی سے جو چاہتے ہیں دے جاتے ہیں۔

                خیر چھوڑو۔ میں نے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے کہا۔ میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ تمہاری ‘‘پھونک’’ سے میں کس طرح تندرست ہو گیا۔

                یہ بڑا ہی تفصیل طلب موضوع ہے۔ اللہ رکھی نے تخت پر پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ یہ زمان و مکان کی بات ہے۔ یہ وقت اور فاصلہ کا راز ہے۔

                تمہاری ‘‘ پھونک’’ سے وقت اور فاصلہ کا کیا تعلق ہے۔ میں نے پوچھا۔

                بڑا تعلق ہے خان ۔ اس نے جواب دیا۔ اس کرہ ارض پر ‘‘وقت’’ ہی تو سب کچھ ہے۔ اور جو لوگ وقت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں وہ نہ صرف مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ ہر قسم کی بیماریوں کا علاج بھی جانتے ہیں۔

                میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔

                اس کرہ ارض پر ہر ساعت’ ہر لمحہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کا وقت متعین کر دیا گیا ہے۔ اس نے جواب دیا اور اگر کوئی شخص اس ٹائم ٹیبل کی حدود سے نکل جائے تو اسے وہ کچھ معلوم ہو جاتا ہے جو سارے نہیں جانتے۔

                میں نے کچھ نہ سمجھے ہوئے پوچھا۔ کیا تم سب کچھ کر سکتی ہو۔

                اللہ رکھی نے مسکرا کر جواب دیا۔ اگلے لمحہ جو کچھ بھی وقوع پذیر ہونے والا ہوتا ہے اس کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتی ہوں۔

                ناممکن۔ قطعی ناممکن۔ میں نے وثوق سے کہا۔ وقت کے گرداب سے نکلنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ تمہیں شاید معلوم نہیں۔ وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولی۔ واقعہ ‘‘معراج’’ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وقت کی حدود کو توڑ دیا تھا اور وہ پلک جھپکتے میں ساتویں آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے سدرۃ المنتہی سے آگے تک پہنچ گئے تھے۔

                میں یہ دلیل سن کر خاموش ہو گیا۔ میں نے سوچ کر کہا۔ وہ تو نبیﷺ تھے لیکن ہر انسان تو وقت کی حد نہیں توڑ سکتا۔

                نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ رکھی نے قدرے جذباتی لہجہ میں کہا۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا۔ انسان کی بھلائی کی خاطر کیا۔ واقعہ ‘‘معراج’’ اس راز کی نشاندہی کرتا ہے۔

                لیکن میں نے آج تک نہیں سنا کہ کبھی کوئی انسان وقت کی حدود سے نکل گیا ہو۔ میں نے تعجب سے کہا۔

                تم نے اولیاء کرام کے واقعات نہیں پڑھے۔ اللہ رکھی نے مسکرا کر جواب دیا۔ جن کے ایک اشارہ پر وقت ٹھہر جاتا تھا۔

                وقت ٹھہر جاتا تھا۔ میں نے ایک بار پھر تعجب سے کہا۔

                وہاں وقت ٹھہر جاتا تھا۔ اس نے جواب دیا۔ اور پھر تخت سے اٹھتے ہوئے بولی۔ اندھیرا پھیل رہا ہے۔ آئو اندر چل کر باتیں کریں گے۔

                میں نے یہ سن کر اپنے اطراف میں ایک نظر ڈالی۔ واقعی سورج چھپ چکا تھا اور اندھیرا تیزی سے پھیل رہا تھا۔ میں اس موضوع کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اللہ رکھی کے ساتھ چل دیا۔

                ہم دروازہ سے جونہی اندر داخل ہوئے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ عمارت جو باہر سے آثار قدیمہ کا کھنڈر معلوم ہوتی تھی۔ بہت ہی عالیشان اور مضبوط ہے۔ چھت اور دیواریں تالپوروں کی شاہی دور کی طرز تعمیر کی منہ بولتی تصویر تھیں۔ مختلف راہداریوں سے گزرتے ہوئے جب اللہ رکھی مجھے لیے ایک کمرہ میں داخل ہوئی تو یوں محسوس ہوا جیسے میں صدیوں پیچھے کسی شاہی محل میں پہنچ گیا ہوں۔

                میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عمارت جو بظاہر نہایت خستہ حال نظر آتی تھی۔ اندر سے اس قدر خوبصورت اور پائیدار کیسے ہو گئی۔ پھرمیرے ذہن میں فوراً یہی خیال آیا کہ اللہ رکھی نے لوگوں پر اپنی سادگی اور دنیا سے بے تعلقی ثابت کرنے کے لئے عمارت کو باہر سے خستہ حال ہی رکھا ہے۔ اور اندر سے اس کی تزئین و آرائش کرتی رہی ہے۔

                ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اللہ رکھی مخاطب ہوئی۔ کیا سوچ رہے ہو۔

                میں اس عمارت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔

                یہ میرے آبائو اجداد کی سینکڑوں سال پرانی عمارت ہے۔ اللہ رکھی نے بتایا۔ پھر اس نے ایک منقش تخت کرسی کی جانب بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اب میں نہ صرف یہاں رہتی ہوں بلکہ اس کی دیکھ بھال بھی کرتی ہوں۔

                اس عمارت کی طرز تعمیر سندھ کے بادشاہوں کے دور کی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے نشست پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

                ہاں یہ تالپوروں اور دوسرے شاہی دور کی عمارت ہے۔ اس نے ایک نہایت ہی عالیشان وجع کی مسہری پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔ اس مسہری پر ریشمی بستر بچھا ہوا تھا۔

                تم یہاں تنہا رہتی ہو۔ میں نے پوچھا۔

                اور کون رہے گا میرے ساتھ۔ اس نے معنی خیز مسکراہٹ سے جواب دیا۔ یہ تو سرائے ہے۔

                سرائے ہے۔ میں نے اسی طرح حیرت سے کہا۔ آج کے دور میں سرائے کا کیا کام۔

                یہ سرائے نہیں ہے تو کیا ہے۔ اللہ رکھی نے جواب دیا۔ یہ عمارت صدیوں پرانی ہے۔ اور یقینا یہ کسی شاہی خاندان کے فرد نے بنوائی ہو گی۔ لیکن جب اس کا وقت زندگی ختم ہو گیا تو پھر اسی کے خاندان کے کسی اور فرد نے اس میں قیام کیا ہو گا۔ پھر کسی اور نے۔ اور اس کے بعد کسی اور نے۔ اب بتائو۔ یہ سرائے نہیں ہے تو کیا ہے۔

                یہ کیا کہہ رہی ہو ۔ میں نے قدرے تعجب سے پوچھا۔

                تم سب کچھ سمجھ جائو گے۔ اس نے اطمینان سے کہا۔ اس سرائے سے ماضی اور حال وابستہ ہے۔ جنہوں نے اسے بنایا تھا وہ ختم ہوگئے……جو اس میں آ آ کر بستے رہے وہ اپنا وقت ختم ہو جانے پر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اب تم ہی بتائو یہ ‘‘سرائے’’ نہیں تو اور کیا ہے۔

                تمہاری یہ بات تو درست ہے…………میں نے جواب دیا پھر سوچ کر بولا۔ لیکن……لیکن……یہ عمارت تو اپنی جگہ قائم ہے۔

                ا س کا ابھی‘‘وقت’’ نہیں آیا…………اس نے مسکرا کر کہا۔

                کیا مطلب؟…………میں نے پوچھا……کیا اس کا بھی کوئی وقت ہے۔

                بالکل…………وہ سنجیدگی سے بولی……جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں انسان نے اپنی عظمت کے اظہار کے لئے بنائیں۔ لیکن جب ان کا وقت ختم ہوا تو اس طرح زمین بوس ہو گئیں کہ آج ان کے نشان بھی نہیں ملتے۔

                سبحان اللہ…………تم نے یہ وقت کی عجیب منطق بیان کی ہے۔ میں نے طنزیہ کہا……یہ تو بے جان عمارتیں ہیں اور زمانے کے موسمی اثرات کی بدولت شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہیں۔

                یہ موسم بھی تو وقت کے پابند ہیں۔ اللہ رکھی نے برجستہ جواب دیا۔

                اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں خیال آیا کہ میں نے درسی کتابوں میں زمین کی گردش کے متعلق پڑھا تھا کہ جب زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تو موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ لہٰذا کچھ سوچ کر بولا۔ یہ تو زمین کی گردش کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

 

                میرا جواب سن کر اللہ رکھی نے نظر بھر کر دیکھا۔ اور نہایت سنجیدگی سے بولی……زمین کی دو گردشیں ہیں……ایک وہ جو سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اور دوسری وہ جو اپنے محور پر گھومتی ہے اور اس کی یہی وہ دونوں گردشیں ہیں جنہوں نے انسان کو وقت کے جال میں قید کیا ہوا ہے۔

                وہ کیسے…………میں نے پوچھا۔

                کیا تم نے یہ نہیں پڑھا کہ زمین پر دن اور رات اس کی محوری گردش کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں……اللہ رکھی نے پوچھا۔

                ہاں……ہاں……پڑھا ہے۔ میں نے جلدی سے جواب دیا۔

                اللہ رکھی نے کہا……جو اس کرہ ارض پر ‘‘وقت’’ کی طویل گھڑیاں ہیں جنہیں انسان نے سیکنڈوں……منٹوں اور گھنٹوں میں تقسیم کر دیا ہے……یہی وہ وقت ہے جسے انسان……ماضی، حال اور مستقبل کہتا ہے۔

                یہ تو ٹھیک ہے……میں نے تائید کی……لیکن روحانیت کا وقت سے کیا تعلق ہے۔

                بڑا گہرا تعلق ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……انبیاء اور اولیاء کرام وقت کے مطابق ہی تو کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ خود ‘‘وقت’’ سے آزاد ہوتے ہیں۔

                واہ! یہ کس طرح ممکن ہے……میں نے پوچھا……وقت تو سب کے لئے ہے۔

                اس نے میری بات سن کر ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا……تمہاری مثال اس بادشاہ کی مانند ہے……جو سب کچھ جانتے ہوئے برہنہ جلوس میں چلتا رہا۔

                کیا مطلب……تم کیا کہنی چاہتی ہو……میں نے قدرے تیز لہجہ سے کہا……اور ابھی اللہ رکھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ فضا میں ایک دلخراش نسوانی چیخ بلند ہوئی……چیخ سنتے ہی ہم دونوں اچھل پڑے……کوئی دروازہ کو زور زور سے پیٹ رہی تھی……اور ساتھ ہی چلا رہی تھی……اللہ رکھی بچا لے……بھگوان کے لئے بچا لے……اللہ رکھی تجھے اپنے اوتار کا واسطہ……بچا لے۔

                یہ وقت کس پر آ پڑا……اللہ رکھی زیر لب مسکرائی……اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے دروازہ کی جانب چل دی۔

                اللہ رکھی نے جونہی دروازہ کھولا……میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت بدحواس ہو کر اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔ اور نہایت ہی دلسوز آواز سے روتے ہوئے بولی……اللہ رکھی! میرے سہاگ کو بچا لے……تجھے بھگوان کا واسطہ میرے پتی کو بچا لے۔

                اللہ رکھی نے جھک کر اس عورت کے دونوں بازو پکڑے اور اٹھاتے ہوئے بولی……اللہ پر بھروسہ رکھ……لیکن مجھے بتا تو سہی تیرے شوہر کو کیا ہوا ہے۔

                اللہ رکھی!……وہ عورت دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی……میرا پتی بالکل ہی بے قصور ہے……اور آج رات اسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ بچا لے بھگوان کے لئے اسے بچا لے……میں اپنی تمام دولت تجھے دے دوں گی۔

                اللہ رکھی نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا……تو کون ہے اور تیرے شوہر کو کیوں پھانسی دی جا رہی ہے۔

                میں کراچی کی رہنے والی ہوں……عورت نے ڈرتے ہوئے بتایا……میرا تعلق ہندو دھرم سے ہے……اسی شہر میں میرے پتی کی سب سے بڑی زیورات کی دوکان تھی۔

                اچھا……اچھا……اللہ رکھی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا……ہاتھ پھیرتے ہی اس عورت کو قرار سا آ گیا۔ اس نے ساڑھی کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا……دو برس قبل میرے پتی کو پولیس نے پڑوسی کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا……حالانکہ جس رات پڑوسی قتل ہوا تھا’ میرا پتی سو رہا تھا……وہ تو کمرہ سے باہر نکلا بھی نہیں تھا……عورت نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا……میں دو سال تک مقدمہ لڑتی رہی……لیکن آخر کو عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم دے دیا۔

                رحم کی درخواست کی تھی تو نے……اللہ رکھی نے خلاء میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                کی تھی……عورت نے جواب دیا……لیکن آج صبح وہ بھی نامنظور ہو گئی۔ اور ساتھ جیل سے اطلاع دی گئی……کہ میں اور بچے آج اپنے پتی گھنشام سے آخری ملاقات کر لیں۔

                گھنشام تیرا پتی ہے……اللہ رکھی نے اچھنبے سے پوچھا۔

                عورت نے اقرار کے انداز میں زور زور سے گردن ہلائی۔

                ہونہہ……اللہ رکھی نے ایک گہری سانس لی۔ جبھی تو میں سوچتی تھی کہ گھنشام اتنے دنوں سے میرے پاس کیوں نہیں آیا……پہلے میرا خیال تھا کہ وہ اپنے نئے وطن‘‘ہندوستان’’ چلا گیا ہو گا۔

                میرا پتی بچ گیا……تو میں اسے لے کر ہندوستان چلی جائوں گی……عورت نے بڑے ہی التجا آمیز لہجہ میں کہا۔

                نہیں نہیں……ایسا نہیں کرنا……اللہ رکھی نے اسے منع کیا……وہ میرا دوست ہے۔ میری اجازت کے بغیر اسے کہیں نہ لے جانا۔

                تو پھر بچا لے……اپنے چیلے کو بچا لے……عورت دوبارہ اللہ رکھی کے قدموں پر گر کر رونے لگی……اللہ رکھی نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن خاموش رہی۔ اور اس نے جھک کر ایک بار پھر اس عورت کو اٹھا لیا۔

                تجھے میرا پتا کس نے بتایا……اللہ رکھی نے پوچھا۔

                عورت نے دوبارہ روتے ہوئے بتایا……میں بدنصیب مندروں اور پنڈتوں کے پیچھے بھاگتی رہی……لیکن وہ کچھ نہ کر سکے……آج جب میں آخری بار جیل میں اپنے پتی سے ملنے گئی تو اس نے تمہارا پتا بتایا……کہ تُو ہی اسے پھانسی سے بچا سکتی ہے۔اس نے پورے وشواش سے کہا۔

                اللہ رکھی نے کوئی جواب نہیں دیا……اس نے آنکھیں بند کر لیں……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں ہے۔ لیکن نہیں……وہ تو ‘‘مراقبہ’’ میں تھی۔

                بچالے اللہ رکھی……میرے سہاگ کو بچا لے……عورت نے دوبارہ ہاتھ جوڑ کر التجا کی……میرا جیون اسے دیدے……میرے بچوں پر رحم کر……میرے پتی کو بچا لے۔

                عورت برابر بین کیے جا رہی تھی……اور اللہ رکھی اس کی گریہ و زاری سے قطعی بے پرواہ آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ عورت کی کوئی بھی بات نہیں سن رہی ہے۔ میں اس صورتحال سے قدرے پریشان سا ہو گیا اور سوچنے لگا……کچھ نہیں تو اللہ رکھی اس عورت کو تسلی ہی دیدے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اللہ رکھی نے اچانک آنکھیں کھول دیں……اس کے چہرے پر خوشی کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں۔ اس نے اس عورت کے چہرے پر ایک زوردار‘‘پھونک’’ ماری اور ایک دلفریب مسکراہٹ سے بولی……جا……ابھی تیرے شوہر کے مرنے کا‘‘وقت’’ نہیں آیا۔

                دیکھ مجھے تسلی نہ دے……عورت نے بے قرار ہو کر کہا……اسے پھانسی ہو جائے گی۔

                اللہ رکھی نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھا پھر تسلی آمیز لہجہ سے بولی……تجھے اپنے سہاگ اجڑنے کا اس قدر خوف ہے کہ میری بات کا یقین نہیں آ رہا ہے……لیکن تو اللہ پر بھروسا رکھ……میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ہو کر رہے گا……تیرے شوہر کی موت کا ابھی ‘‘وقت’’ آیا ہی نہیں ہے۔ تو پھر اسے کس طرح پھانسی دی جا سکتی ہے۔ وہ نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ تیرے ساتھ زندگی بھی گزارے گا۔

                آخری جملے کے ساتھ ہی اس عورت کے چہرے پر آہستہ سے ‘‘پھونک’’ ماری۔ اس پھونک میں نجانے کیا تاثیر تھی کہ پھر عورت کچھ نہ بولی……اسے جیسے اللہ رکھی کی بات پر اعتبار آ گیا۔ اس نے اپنی ساڑھی کو درست کیا اور خاموشی سے باہر جانے کے لئے بڑے دروازہ کی طرف بڑھ گئی۔

 

                جب یہ واقعہ پیش آیا۔ تو آسمان پر آدھی رات کا چاند چمک رہا تھا۔ اور اس زمانے میں آدھی رات گزرنے کے بعد‘‘پھانسی’’ دی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس عورت کے شوہر کی زندگی کے صرف چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے تھے……لیکن اللہ رکھی نے اس کے زندہ بچ جانے کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ اور یہ بات میرے لیے عجیب مضحکہ خیز تھی۔

                کیا سوچ رہے ہو خان؟……اللہ رکھی نے پوچھا۔

                میں سوچ رہا ہوں۔ تم نے اسے صرف تسلی دی ہے……یا……میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اللہ رکھی نے میری بات کاٹ کر کہا……وہ واقعی بچ جائے گا کیونکہ ابھی اس کی موت کا وقت نہیں آیا۔

                تم نے پھر وہی ‘‘وقت’’ کی بات کی ہے……میں نے قدرے جھنجھلا کر کہا……جب کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اور اب گھنشام کو پھانسی دینے میں صرف چند گھنٹے ہی باقی ہیں۔

                دنیا والے ‘‘وقت’’ کو کیا جانیں……اللہ رکھی نے بھرپور طنز کیا……انہوں نے ہمیشہ غلط وقت پر غلط فیصلے کیے ہیں۔

                یہ کیا کہہ رہی ہو……میں نے تعجب سے کہا……کیا عدالت کے فیصلے بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہی ہے……اللہ رکھی نے ہلکا سا قہقہہ لگا یا……اکثر دنیاوی عدالتوں کے فیصلے غلط ہو جاتے ہیں جنہیں اللہ کا سسٹم چلانے والے ٹھیک کر دیتے۔

                میں نے تمسخر سے کہا……یہ تم نے ایک نئی بات کہہ دی ہے۔

                میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کی جانب چلتے ہوئے وہ بولی۔ میں بھی بس یونہی ہوں……نجانے کیا کیا کہہ جاتی ہوں

 

                وہ مجھے ساتھ لیے دوبارہ کمرہ میں آ گئی۔ مجھے ساتھ لیے ہوئے مسہری پر بیٹھ گئی……مسہری پر نہایت ہی ملائم بستر بچھا ہوا تھا۔ وہ تکیوں کو درست کر کے لیٹتے ہوئے بولی……تم آرام کر لو۔

                یہ سنتے ہی فوراً میرے دماغ میں آیا……کہ یہ کیسی اللہ والی ہے جو مجھے اپنے ساتھ ہی آرام کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔

                میں نے سوچا……کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے……اب میں کہاں جا کر آرام کروں۔ کمرہ میں نہ تو دوسرا پلنگ تھا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز تھی جسے زمین پر بچھا کر سو سکوں……ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا……کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ اللہ رکھی جا جسم ساکت ہے میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا جسم میں سانس کی آمد و رفت سے جو معمولی سا ارتعاش ہوتا ہے……وہ بھی نہیں تھا……ایک دم میرے دماغ میں خیال آیا……کہ کہیں‘‘اللہ رکھی’’ مر تو نہیں گئی یہ خیال اس قدر قوی تھا کہ میں کچھ دیر اس کے جسم کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا……

                پھر……رفتہ رفتہ میرے حواس درست ہونے لگے۔

 

 

گھنشام

                میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ یکایک اللہ رکھی مر کیسے گئی……اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اللہ رکھی ایک محترم و مقدس ہستی تھی۔ اور اس کے اس طرح اچانک مر جانے سے کہیں میں کسی مصیبت میں نہ پھنس جائوں۔ اس خیال کے آتے ہی میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی……اور میں نے فوراً ہی یہاں سے بھاگ جانا ہی مناسب سمجھا۔ اور ابھی میں اپنے ارادہ کو عملی جامعہ پہنانا ہی چاہتا تھا……کہ اللہ رکھی جسے جسم میں حرکت پیدا ہوئی……میں ایک بار پھر ٹکٹکی باندھ کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔ چند لمحہ بعد……اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ اس طرح زندہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا۔

                اللہ رکھی نے کلمہ پڑھ کر اٹھتے ہوئے پوچھا۔ کہاں چل دیے۔

                تمہیں کیا سکتے کی بیماری ہے……میں نے حیرت سے پوچھا۔

                نہیں تو……اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا……لیکن……لیکن……تمہاری سانس بھی نہیں چل رہی تھی……میں نے اسی طرح حیرت زدہ لہجہ میں کہا۔

                ایسی تو کوئی بات نہیں تھی……اس نے جواب دیا……میں کوئی مر تو نہیں گئی تھی ۔ خیر……اب میں چلتا ہوں……میں نے کہا۔

                ارے……تم میری پیش گوئی کے متعلق نہیں جاننا چاہو گے……اس نے کہا۔ اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ صبح دیکھا جائے گا……میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ اور پلنگ سے اٹھ گیا۔ لیکن اللہ رکھی نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر ایسا جھٹکا دیا کہ میں مسہری پر چت گر گیا۔

                آدھی رات کو کہاں جائوں گے……اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی میری پیشانی کے عین وسط میں اس زور کی پھونک ماری کہ میری دونوں آنکھیں بند ہو گئیں……اب میں مسہری پر دونوں آنکھیں بند کیے چت لیٹا تھا۔

                میں نے دو تین بار آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن نہ کھول سکا۔ ایسے میں اللہ رکھی کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہی تھی……تم پڑھے لکھے لوگوں کی عقل میں روحانی باتیں آتی ہی نہیں ہیں۔ تم لوگ ہر بات کی مادی توجیہہ چاہتے ہو……تم نے ‘‘وقت’’ کی اہمیت پر شک کیا……میری پیش گوئی پر شبہ کیا……لو……اب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔

                مجھے اس کے آخری جملے دور……بہت دور سے سنائی دیئے۔ اس کے ساتھ ہی میری بند آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھٹنے لگا……اور چاندنی جیسی مسحور کن روشنی پھیل گئی۔

                اس روشنی میں ایک شہر صاف نظر آ رہا تھا۔ اور اس شہر کے ایک محلہ میں ایک ہندو اور ایک مسلمان مونڈھوں پر بیٹھے مصروف گفتگو تھے……مجھے ان کی آواز سنائی دے رہی تھی……لیکن ان کے ہونٹ جس انداز میں ہلتے تھے’ ان کا مفہوم میری سمجھ میں آ جاتا تھا……ہندو کا نام گھنشام تھا اور مسلمان کا نام سلیمان کھوسہ۔

                سلیمان کھوسہ ضلع ‘‘بدین’’ کے ایک گائوں کا رہنے والا تھا۔ اور عرصہ پانچ سال سے کراچی میں ‘‘ٹرام’’ کا ڈرائیور تھا۔

                یہ دونوں نہ صرف آپس میں پڑوسی تھے بلکہ ایک ہی مقام پر ان کا روزگار بھی تھا۔ یعنی گھنشام کی زیورات کی دوکان صدر میں تھی اور سلیمان کھوسہ کا ٹرام ڈپو بھی اسی علاقہ میں تھا۔ سلیمان کھوسہ تنہا اس مکان میں رہتا تھا……گھنشام کا مکان بھی بالکل اس کے سامنے تھا۔ اکثر دوست سلیمان کھوسہ سے پوچھتے تھے کہ وہ تنہا کیوں رہتا ہے۔ کیا اس کی شادی نہیں ہوئی ہے۔

                سلیمان ہنس کر جواب دیتا……کہ اس کی شادی ہو چکی ہے۔ اور وہ تین بچوں کا باپ بھی ہے جس میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں……وہ گائوں میں رہتے ہیں۔ اور انشاء اللہ وہ انہیں جلد ہی لے کر آ جائے گا۔

 

                اس وقت بھی موضوع گفتگو یہی تھا۔اور گھنشام اسے سمجھا رہا تھا……کہ پاکستان بن چکا ہے اور مہاجرین بڑی تعداد میں ہجرت کر کے آ رہے ہیں……کہیں ایسا نہ ہو……کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی مکان خالی سمجھ کر قبضہ ہی کر لے……ایسے حالات میں بیوی بچوں کا ہونا ضروری ہے۔

                یہ بات سلیمان کھوسہ کی بھی سمجھ میں آ گئی۔ اور اس نے اپنے دوست گھنشام سے وعدہ کر لیا کہ صبح وہ اپنے دفتر سے چند دن کی چھٹی لے گا اور وہیں سے سیدھا بدین چلا جائے گا تا کہ بچوں کو لے کر جلد از جلد واپس کراچی چلا آئے۔

                یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد ……سلیمان کھوسہ نے رخصتی کا مصافحہ کیا اور اپنے گھر چلا آیا۔ میری نگاہیں برابر اس کے تعاقب میں تھیں۔ اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد سلیمان کھوسہ نے اندر سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگائی اور اپنے کمرہ میں سونے کے لئے چلا گیا۔

                وقت بہت ہی تیزی سے گزر رہا تھا……میری آنکھوں کے سامنے پھیلی دھوپ چمک رہی تھی۔ اور سات دن گزر چکے تھے۔

                گھنشام اور اس کی بیوی اپنے صحن میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ گھنشام اپنی پتنی کو بتا رہا تھا کہ کھوسہ اپنی بیوی بچوں کو لینے بدین چلا گیا ہے۔

                لیکن جب اس کی بیوی نے بتایا کہ کھوسہ جب اپنی نوکری پر جاتا تھا تو باہر سے تالا ڈال کر جاتا تھا جبکہ وہ صبح سے دیکھ رہی ہے کہ اس کے دروازہ پر تالا نہیں ہے۔

                یہ سن کر پہلے تو گھنشام نے سوچا کہ وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر آگیا ہو گا۔ اور اب آرام کر رہا ہوگا……پھر وہ کچھ سوچ کر باہر آیا اور سلیمان کھوسہ کے دروازہ پر دستک دی۔ اس کا خیال تھا۔ دروازہ فوراً ہی کھل جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ دیر بعد……اس نے پہلے سے زیادہ زور سے دستک دی۔ لیکن اندر سے کوئی نہیں نکلا……پھر وہ مسلسل دروازہ کو زور……زور سے پیٹنے لگا……دروازہ پیٹنے کی آواز سن کر اڑوس پڑوس کے لوگ بھی گھروں سے نکل آئے۔ اور جب گھنشام نے انہیں بتایا……کہ کافی دیر سے دروازہ پر دستک دے رہا ہے لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آ رہا ہے۔ تو لوگوں کو تشویش ہوئی کہ آخر بات کیا ہے۔ ایک دو آدمیوں نے خود بھی آگے بڑھ کر دستک دی۔ لیکن پہلے کی طرح خاموشی رہی۔ بالآخر……طے ہوا کہ کسی شخص کو دیوار پر چڑھا کر جائزہ لیا جائے۔ اس بات پر سب لوگ متفق ہو گئے اور ایک دبلے پتلے شخص سے کہا گیا کہ وہ دیوار پر چڑھ کر جائزہ لے۔

                وہ شخص دو آدمیوں کی مدد سے دیوار پر چڑھا۔ اور اندر صحن سے ذرا فاصلہ پر بنے ہوئے کمرہ میں نظریں دوڑاتے ہوئے بولا……کھوسہ اپنے کمرہ میں فرش پر اوندھا پڑا ہے……باہر کھڑے لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ شخص فوراً ہی اندر کود جائے اور دروازہ کھول دے……لہٰذا……اس شخص نے ایسا ہی کیا۔

                دروازے کے کھلتے ہی لوگ اندر داخل ہو گئے۔ لیکن صحن میں پہنچتے ہی سب نے اپنی اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیے۔ وہ سب سہمے ہوئے قدموں سے اس کمرہ کی طرف بڑھے جس میں کھوسہ رات کو سویا کرتا تھا……اس کے کمرے سے بدبو کے بھبکے اڑ رہے تھے۔

                سلیمان کھوسہ فرش پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ اور اس کے سر میں پیچھے کی جانب سے درخت کاٹنے والی کلہاڑی پیوست تھی۔ خون سر سے نکل کر بہتا ہوا دروازہ کی دہلیز تک چلا گیا تھا جو اب سیاہ ہو چکا تھا……اس کے مردہ جسم پر سرخ چیونٹیاں اور مکھیاں چمٹی ہوئی تھیں……یہ منظر دیکھ کر لوگوں کی دبی دبی چیخیں نکل گئیں……لوگ گھبرا کر فوراً باہر نکل آئے۔ کھوسہ کے قتل کی خبر سارے محلے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اور کچھ ہی دیر بعد پولیس کا ایک افسر دس بارہ سپاہیوں کے ہمارہ وہاں پہنچ گیا۔ اس نے فوری طور پر لاش کو گاڑی میں ڈال کر چند سپاہیوں کے ہمراہ پوسٹ مارٹم کے لئے روانہ کیا۔ اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق موقع پر موجود پڑوسیوں اور محلے کے آدمیوں کے بیانات قلمبند کیے۔

                سلیمان کھوسہ کا کوئی رشتہ دار تو تھا نہیں۔ لیکن محلے کے ہر شخص نے اس کے حسن اخلاق کی تعریف کی……گھنشام کو اپنے دوست کی اچانک موت کا زبردست صدمہ تھا۔ اس نے روتے ہوئے بیان دیا کہ سات دن قبل کھوسہ کو اس نے گائوں سے بیوی بچے لانے کا مشورہ دیا تھا جس پر کھوسہ نے اس سے صبح دفتر سے چھٹی لے کر بدین جانے اور اپنے بچے لانے کا اقرار کیا تھا……اس کے بعد اس نے کھوسہ کے گھر کی طرف توجہ نہیں دی کیونکہ اس کے خیال میں وہ بدین جا چکا تھا……لیکن آج جب اس کی بیوی نے اس کے گھر کی جانب توجہ دلائی تو اس نے دروازہ پر دستک دی……اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب محلے والوں کو معلوم ہے……پولیس افسر گھنشام اور دوسرے لوگوں کا ابتدائی بیان قلمبند کر کے چلا گیا۔

                تیسرے دن……پولیس پارٹی پھر محلے میں آئی……اس نے سلیمان کے مکان کا اندر سے معائنہ کیا ۔ اس کے گھر میں بہت معمولی سا سامان تھا۔ دو جوڑے کپڑے تھے۔ جو دیوار کے ساتھ لٹک رہے تھے۔ ایک پلنگ اور بستر……اور چند کھانے کے برتن تھے۔ گھر کا معائنہ کرنے کے بعد پولیس کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ ‘‘قاتل’’ چوری کی نیت سے نہیں داخل ہوا تھا……بلکہ یہ قتل کسی رقابت کا نتیجہ ہے……پولیس نے ایک بار پھر پڑوسیوں کو جمع کیا اور ان سے کرید……کرید کر سوالات کیے……سب نے یہی بتایا کہ یہ نہایت ہی شریف اور ملنسار شخص تھا۔ اس کا محلہ میں کبھی کسی شخص سے جھگڑا یا تلخ کلامی نہیں ہوئی……اس کا خاندانی پس منظر کسی کو نہیں معلوم تھا……صرف گھنشام ہی ایسا تھا……جسے معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اور ضلع بدین کے کسی گائوں میں اس کے بیوی بچے رہتے ہیں۔ یہ بھی اس کی بدقسمتی تھی کہ اس نے کبھی اپنے دوست سے اس گائوں کے بارے میں نہیں پوچھا پھر یہی نہیں محلے والوں نے بھی ان دونوں کی گہری دوستی کی تصدیق کی۔ ان میں سے بعض نے تو یہاں تک انکشاف کیا کہ اکثر انہوں نے کھوسہ کو گھنشام کے گھر میں آتے جاتے بھی دیکھا ہے۔

                پس پھر کیا تھا……پولیس کو تو ذرا سا بہانہ چاہئے۔ انہوں نے فوراً ہی اسے شک کی بناء پر گرفتار کر لیا وہ ہندو تھا……اس آفت ناگہانی سے خوفزدہ ہو کر بیہوش ہو گیا……اس کی بیوی پولیس افسر کے قدموں پر سر رکھ کر اپنے پتی کے لئے التجائیں کیں……پولیس نے اسے یقین دلایا کہ صرف تفتیش کی خاطر اسے تھانہ لے جایا جا رہا ہے۔ اور وہ شام تک چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر پولیس نے اسے اپنی وین میں ڈالا اور لے کر چل دی۔ محلے کی عورتوں نے اس کی بیوی کو دلاسا دیا تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔ اور وہ شام تک شوہر کے واپس آنے کا یقین کر کے گھر کے اندر چلی گئی۔

                میری آنکھیں دیکھتی تھیں۔ اور میرا‘‘شعور’’ صرف ‘‘وقت’’ کا احساس دلاتا تھا……اللہ رکھی کی ‘‘پھونک’’ نے مجھے ایسے ماحول سے وابستہ کر دیا تھا جو خواب کی مانند نظر آ رہا تھا……جس طرح خواب میں سب کچھ حقیقت نظر آتا ہے۔ اور خواب دیکھنے والا کوئی واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔

                وقت گزرتا رہا……گھنشام گھر نہیں آیا۔ اس کی بیوی نے رات انتظار میں گزار دی۔ اور صبح ہوتے ہی تھانہ میں پہنچ گئی۔ لیکن تھانہ میں اسے شوہر سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی بلکہ اسے ایک بار پھر تسلی دے کر واپس بھیج دیا گیا……گھنشام کے زیادہ تر رشتہ دار ہندوستان جا چکے تھے۔ جو چند ایک رہ گئے تھے وہ اس کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی گھر آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں زیادہ اس کی بیوی کے رشتہ دار تھے۔

                تیسرے دن……پولیس نے سلیمان کھوسہ کے قتل کے جرم میں اس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا اور اسے سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔

                گھنشام کی بیوی اور رشتہ داروں نے کراچی کے ایک مشہور وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ قتل گھنشام نے کیا ہے۔ اور اس کی وجہ ہے……کہ مقتول اس کے گھر آتا جاتا تھا……مقتول کے قاتل کی بیوی سے ناجائز تعلقات تھے……اور وجہ قتل یہی تھی۔

                استغاثہ کا اصرار تھا کہ قاتل ہندو تھا……اور مذہبی تصادم ہونے کی وجہ سے رقابت کی آگ ہی نے اسے قتل جیسے گھنائونے جرم پر آمادہ کر لیا تھا……میں نے کئی بار جیل میں گھنشام کو اپنی بیوی سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا……وہ ہمیشہ اس سے کہا کرتا تھا……کہ ‘‘اللہ رکھی’’ کے پاس جا……اس سے میرے جیون کی پرارتھنا کر۔

                اس کی بیوی ‘‘اللہ رکھی’’ کو نہیں جانتی تھی۔ پھر اسے اللہ رکھی سے زیادہ اپنے دھرم کے سادھوئوں اور پنڈتوں پر اعتبار تھا۔

                پنڈتوں کی پڑھنت اور گنڈوں سے اتنا ضرور ہوا کہ پیشیاں پڑتی رہیں……پولیس گواہ پیش کرتی رہی……اور یہ مقدمہ ایک دو ماہ نہیں پورے ڈیڑھ سال چلتا رہا……ڈیڑھ سال بعد……ایک دن عدالت نے گھنشام کے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا۔ اسے ‘‘سزائے موت’’ کا حکم دے دیا گیا۔ پندرہ دن رحم کی اپیل کے لئے دیئے گئے……گھنشام کی جانب سے ایک ہفتہ کے اندر……اندر رحم کی اپیل دائر کر دی گئی اور اس کی بیوی میر پور خاص کے ایک نامی گرامی پنڈت کے پاس اپنے پتی کے جیون کی پرارتھنا کرنے پہنچ گئی۔

                اس پنڈت نے گھنشام کی جنم کنڈلی بنانے کے بعد اسے یقین دلایا کہ اس کی رحم کی درخواست منظور کر لی جائے گی۔ اس کے عوض اس نے ایک بھاری رقم بھی وصول کر لی……گھنشام کی بیوی اس یقین کے ساتھ واپس آ گئی کہ اس کے پتی کی زندگی بچ جائے گی……اس نے ملاقات والے دن جیل میں جا کر اپنے شوہر کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔ اور وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ جب پنڈتوں نے اس مقدمہ کو اتنا طول دے دیا تھا تو اب……تواس کی بیوی بہت بڑے مہاپرش پنڈت سے پرارتھنا کر کے آئی ہے۔

                اور اس طرح چھ ماہ مزید گزر گئے۔ گھنشام……اس کی بیوی اور رشتہ داروں کو پکا یقین ہو چکا تھا کہ اس کی رحم کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ اور اس کی رہائی یا……قید بامشقت کی خبر آئے گی……اور پھر……ایک دن شام کو وکیل نے گھنشام کی بیوی کو اطلاع دی کہ اس کے شوہر کی رحم کی درخواست نامنظور ہو گئی ہے……اس کو کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ یہ خبر……اس کی بیوی اور رشتہ داروں پر بجلی بن کر گری……اس کی بیوی پر غشی کے دورے پڑنے لگے……بچے رو رو کر نڈھال ہو گئے۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں نے بڑی مشکل سے ان سب کو سنبھال رکھا تھا۔

                وہ رات ان سب نے بڑی ہی بے چینی اور کرب سے گزاری۔ صبح ہوتے ہی رشتہ داروں نے وکیل سے صلاح مشورے شروع کر دیئے……وکیل نے انہیں بتایا کہ اس ملک پاکستان کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں۔ یہاں کا نظام و نسق مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے……مسلمانوں نے یہ ملک اس دعویٰ کے ساتھ حاصل کیا ہے کہ وہ یہاں حق و انصاف قائم کریں گے۔ لہٰذا رحم کی درخواست مسترد ہو جانے کے بعد کوئی ایسا قانونی نقطہ نہیں رہ جاتا ہے جس سے مجرم کو بچایا جا سکے

                وکیل کی بات سننے کے بعد گھنشام کی بیوی نے ‘‘کالی مائی’’ کے مندر میں ڈیرہ جما لیا اور ساتھ دونوں بچے بھی تھے……وہ بس د ن رات ‘‘کالی مائی’’ کے چرنوں میں پڑے’گھنشام کی زندگی کے لئے دعا کرتے رہتے تھے۔ انہیں ابھی مندر میں آئے ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ جیل کے اعلیٰ حکام کی طرف سے اس کے رشتہ داروں کو اطلاع دی گئی کہ گھنشام سے آج کسی بھی وقت بیوی بچوں کے علاوہ اور بھی کوئی چاہے ملاقات کر لے……کیونکہ آج رات کے پچھلے پہر اسے پھانسی دے دی جائے گی۔

                یہ روح فرساں خبر لے کر اس کا ایک قریبی رشتہ دار مندر میں پہنچا اور ڈرتے ڈرتے یہ خبر سنائی……کہ وہ جیل میں اپنے پتی سے جب چاہے ملاقات کر سکتی ہے۔ آدھی رات کے بعد……اس کے جیون کی گھڑیاں ختم ہو جائیں گی۔

                گھنشام کی بیوی نے یہ اطلاع بڑے ہی سکون سے سنی۔ نہ وہ چیخی نہ چلائی……اور نہ ہی اس کے بچوں نے شور مچایا……ان تینوں میں سے کسی ایک کی آنکھ سے آنسو نہ گرا……معلوم ہوتا تھا اللہ تبارک تعالیٰ نے انہیں ایسا صبر عطا کر دیا تھا کہ اب و ہ بڑے سے بڑا حادثہ برداشت کر سکتے تھے……اس نے یہ خبر سنی۔ اور خاموشی کے ساتھ بچوں کے ہمراہ مندر سے نکل آئی۔

                گھر پہنچ کر اس نے سب بچوں کو نہلایا اور انہیں صاف و اجلے کپڑے پہنائے۔ اس کے بعد……وہ خود نہائی۔ اور ایک سفید ساڑھی نکال کر باندھ لی۔ اس نے اپنے بال بنا لیے اور ہلکا سا میک اپ کیا……وہ اپنے پتی کے سامنے اس انداز میں جانا چاہتی تھی کہ وہ اسے دیکھ کر رنجیدہ نہ ہو۔

                جب وہ اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ جیل کے صدر دروازہ پر پہنچی تو سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع کر دیا۔ جیلر نے فوراً ہی رشتہ داروں کو گھنشام سے ملنے کی اجازت دے دی۔ لیکن اس کی بیوی نے اپنے پتی سے سب سے آخر میں ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور جیلر سے درخواست کی……کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت پتی کے ساتھ گزارنے دیا جائے۔

                جیلر سمجھدا رتھا۔ اس نے میاں بیوی کی اس آخری ملاقات کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت دینے کا وعدہ کر لیا۔ جس وقت وہ اپنے شوہر کی کوٹھری میں داخل ہوئی تو رات کا پہلا حصہ شروع ہو چکا تھا……اسے دیکھ کر گھنشام کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ لیکن اس نے مسکراتے ہوئے کہا……اگر مجھے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ ہی ستی ہو جاتی……لیکن میں سوگند کھاتی ہوں کہ تمہارے بعد……نہ تو نیا کپڑا پہنوں گی……نہ ہی سر میں تیل ڈالوں گی……اور نہ ہی کسی مرد کی صورت دیکھوں گی۔

                گھنشام نے یہ سن کر اسے فرط محبت سے چمٹا لیا اور وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا……میں جانتا ہوں تجھے مجھ سے سچا پریم ہے۔ لیکن اب جب کہ میری زندگی کی چند گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں میں تجھے کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا……لیکن تجھ سے صرف ایک شکوہ ہے۔

                وہ کیا……اس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا۔

                تو ‘‘اللہ رکھی’’ سے نہیں ملی……گھنشام نے افسردگی سے کہا……اگر تو اس سے مل لیتی۔ تو مجھے پورا وشواش تھا کہ بھگوان کی کرپا سے ہم اس مصیبت سے بچ جاتے۔

                ہاں تم نے دوبار اس کا نام لیا تھا……اس کی بیوی نے جواب دیا۔ لیکن میں نے ہمیشہ یہی وچار کیا۔ کہ جیسا نام سے ظاہر ہے۔ وہ مسلمان ہے۔ وہ بھلا تمہاری کیا مدد کر سکتی تھی……جب کہ میں نے اپنے دھرم کے مہاپرش پنڈتوں سے تمہارے لیے پرارتھنا کرائیں۔

                تو‘‘اللہ رکھی’’ کو نہیں جانتی……گھنشام نے کہا……پتا جی اس کے پاس چھپ چھپ کر جاتے تھے……اور جب وہ سورگباش ہونے لگے تو انہوں نے مجھے ‘‘اللہ رکھی’’ کا ٹھکانہ بتایا تھا……اور آج جو میں اس شہر کا سب سے بڑا سنار ہوں……تو یہ سب ‘‘اللہ رکھی’’ کی دعائوں کا نتیجہ ہے……وہ اس دھرتی پر بھگوان کی ایسی اوتار ہے جس کے پاس سے کبھی کوئی نامراد نہیں لوٹا۔

                کہاں رہتی ہے وہ……اس کی بیوی نے ایک نئے ولولہ سے پوچھا۔

                گھنشام نے اسے اللہ رکھی کی رہائش بتا دی……لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا……کہ اب وقت بہت ہی تھوڑا رہ گیا ہے اور تیرا……اس کے پاس پہنچنا مشکل ہے کیونکہ وہ دور رہتی ہے۔

                نجانے کیا بات ہے……اس کی بیوی نے جواب دیا……اب میرا ‘‘من’’ اس کے پاس جانے کو کہہ رہا ہے۔ اور میں ہر حال میں اس کے پاس پہنچوں گی۔

                گھنشام اس کی شکل دیکھنے لگا……اس کی بیوی نے آخری الفاظ کے ساتھ ہی اپنے دونوں بچوں کے ہاتھ پکڑ لیے اور کوٹھری سے باہر نکل آئی۔ پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی جیل کے صدر دروازہ پر آئی۔ جیلر اور دوسرا عملہ اسے اتنی جلدی واپس جاتے دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیسی بیوی ہے جس نے پہلے تو ملاقات کے لیے زیادہ وقت کی اجازت لی تھی……اور اب……دو تین منٹ بعد ہی واپس جا رہی ہے۔

                جیل کے صدر دروازہ پر اس نے دونوں بچوں کو رشتہ داروں کے حوالے کیا اور جس گاڑی میں بیٹھ کر وہ سب آئے تھے۔ اس کے ڈرائیور سے بولی جتنی جلدی ہو سکے مجھے منزل تک پہنچا دے……میں تجھے مالا مال کر دوں گی۔

                رشتہ داروں نے اس سے بات کرنا چاہی……بہت کچھ معلوم کرنا چاہا……لیکن اس نے کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا……اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔

                پھر……میری نگاہوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا۔ جب کہ گھنشام کی بیوی نے اللہ رکھی کے دروازہ پر بے تابانہ دستک دی تھی۔ اور اللہ رکھی نے یہ جاننے کے بعد……کہ گھنشام اس عورت کا شوہر ہے۔ مراقبہ کرنے کے بعد……پیش گوئی کی تھی……کہ ابھی گھنشام کے مرنے کا وقت نہیں آیا……ادھر تو اللہ رکھی یہ پیش گوئی کر رہی تھی……اور دوسری جانب……گھنشام غسل سے فارغ ہونے کے بعد پھانسی والے کپڑے پہن رہا تھا۔

                کپڑے پہننے کے بعد……جیل کے ڈاکٹر نے اس کا طبی معائنہ کیا۔ اور جیلر سے بولا……تعجب ہے۔ اس شخص کے دل میں موت کا ذرا سا بھی خوف نہیں ہے۔

                جیلر صرف مسکرا کر رہ گیا۔ پھر اس نے قلم اور کاغذ گھنشام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا……تم چاہو تو اپنی وصیت اس کاغذ پر لکھ دو۔

                گھنشام نے قلم کاغذ لیا……اور مندرجہ ذیل وصیت لکھی۔

                میں گھنشام ولد سیتار ام……جس کا پیشہ سنار تھا۔ وصیت کرتا ہوں کہ میری تمام جائیداد اور روپے پیسے کے دو حصے برابر کیے جائیں۔ ان میں سے ایک حصہ میری بیوی اور بچوں کو اور دوسرا حصہ میری پیر و مرشد‘‘اللہ رکھی’’ کو دے دیا جائے۔

                میں نے اپنی پیر و مرشد کا پتا اپنی بیوی کو بتا دیا ہے۔ اس کے علاوہ میری ارتھی کو نہ جلایا جائے۔ بلکہ مجھے مسلمانوں کی طرح قبر میں دفنا دیا جائے……آج سے کئی برس قبل اپنی پیر و مرشد کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو چکا ہوں۔

                اگر ہو سکے تو میری پیر و مرشد کو میری موت کی اطلاع دے دی جائے۔ میں آخر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں……کہ میں نے اپنے مسلمان دوست سلیمان کھوسہ کو قتل نہیں کیا……بھلا مسلمان……مسلمان کو کس طرح قتل کر سکتا ہے۔ بہرحال۔ میں اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔

                                                                                                                                دستخط۔ قاسم علی……جو پہلے گھنشام تھا۔

 

 

 

 



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء