Topics

پراسرار ڈاکٹر


                گلابو کمرے میں داخل ہوئی تو میں اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا……وہ حسن اور جوانی کا ایسا حسین امتزاج تھی جسے کوئی بھی شخص دیکھنے کے بعد اپنے دل و دماغ پر قابو نہیں رکھ سکتا تھا……وہ بڑی ہی خوش خرامی سے چلتی ہوئی میز کے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ بوڑھا ڈیوڈ اس سے مخاطب ہوا……گلابو یہ ہمارا نیا مہمان ہے اور تم اس کی میزبان ہو۔

                یہ سن کر اس حسین دوشیزہ نے مجھ پر ایک نظر ڈالی۔ اور دوسرے ہی لمحہ ڈاکٹر ڈیوڈ سے بولی۔ باس یہ میری خوش قسمتی ہے۔

                اس کا نام گلابو تھا……جب کہ وہ مجسم گلاب تھی۔ قدرت نے اس کو بنانے میں اپنی تمام تر صناعی کو استعمال کیا تھا۔

                گلابو نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اور دروازے کی طرف چل دی……میں بھی اشارہ پاتے ہی اس کے پیچھے چل دیا۔

                میں اپنے لیے مخصوص کیے گئے کمرے میں سنگھار میز کے سامنے کھڑا تھا……گلابو نے پوری توجہ سے نہ صرف میرا حلیہ تبدیل کر دیا تھا بلکہ میری زیبائش کا بھی انتظام کر دیا تھا……میں اس وقت جس کمرے میں موجود تھا اس میں آسائش زندگی کی ہر چیز موجود تھی۔ میرے دائیں جانب الماری قیمتی کپڑے کے سوٹوں سے بھری ہوئی تھی……ابھی میں کمرے کا جائزہ لے ہی رہا تھا’ میری سماعت سے گلابو کی مترنم آواز ٹکرائی……مسٹر خان! کیا آپ کسی چیز کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔

                نہیں……نہیں……آپ نے توقع سے بڑھ کر میزبانی کا فرض ادا کیا ہے……میں نے جواب دیا۔

                شکریہ مسٹر خان! مجھے خوشی ہوئی کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی……گلابو نے مجھے شوخ نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

                اب میرے لیے کیا حکم ہے……میں نے اس کی نگاہوں کے سحر سے بچنے کے لئے سنجیدگی سے پوچھا۔

                حکم……گلابو نے حیرت سے کہا۔ آپ شاید بھول رہے ہیں کہ ڈاکٹر ڈیوڈ نے آپ کو ہر طرح کی مکمل آزادی دی ہے اور مجھے آپ کی میزبانی پر مامور کیا ہے……آپ مجھے جو چاہیں حکم دے سکتے ہیں۔

                اس کی بات سن کر میں نے خود کو دل ہی دل میں سرزنش کی اور اپنی مردانگی کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا……کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں چند لمحوں کے لئے ڈاکٹر ڈیوڈ سے ملوں۔

                اگر آپ چاہیں تو میں ڈاکٹر تک آپ کا یہ پیغام پہنچا دوں گی……گلابو نے بڑے ادب سے جواب دیا۔ ٹھیک ہے۔ تم ڈاکٹر تک میرا پیغام پہنچا دو……میں نے کہا۔ اور آئینہ کے سامنے سے ہٹ گیا……میرا حکم سنتے ہی گلابو کمرے سے نکل گئی اور ٹھیک پانچ منٹ بعد اجازت لے کر واپس آ گئی۔

 

                جب میں دوبارہ ڈاکٹر ڈیوڈ کے کمرہ میں داخل ہوا تو یہ وہ کمرہ نہیں تھا۔ جہا ں میں چند گھنٹے پہلے اس سے ملا تھا……یہ ڈاکٹر ڈیوڈ کی خواب گاہ تھی……اور وہ ایک شاندار مسہری پر نیم دراز تھا……اس نے اپنی چمکیلی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھا……اور مسکراتے ہوئے بولا……تم نے میرا پہلا مشورہ مان کر اپنی وفاداری کا ثبوت دے دیا ہے۔ اب تمہاری شخصیت بھی کافی نکھر گئی ہے۔

                میں نے کہا تھا نا……میں نے سنجیدگی سے جواب دیا……کہ خود کو نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کروں گا۔

                اسی میں تمہاری بہتری ہے مسٹر خان!……ڈاکٹر ڈیوڈ نے دھمکی آمیز لہجہ میں کہا۔

                آپ کے گروہ میں میری کیا حیثیت ہو گی……میں نے ڈاکٹر ڈیوڈ کے لہجہ کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

                یہ تمہاری اپنی صلاحیتوں پر منحصر ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے زیر لب مسکرا کر کہا۔

                میں خود میں تو کوئی ایسی صلاحیت نہیں پاتا جو میری حیثیت کو نمایاں کر سکے۔ میں نے جواب دیا۔

                دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچان لیتے ہیں……ڈاکٹر ڈیوڈ نے وضاحت کی……انسان کی صلاحیتوں کو ہمیشہ دوسرے ہی پہچانتے ہیں۔

                اس کا مطلب ہے……میں نے خوش ہو کر کہا……مجھ میں ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے آپ نے مجھے اپنے گروہ میں شامل کیا ہے۔

                ہاں۔ یہی سمجھ لو……ڈاکٹر ڈیوڈ نے مسہری پر بیٹھے ہوئے کہا……تم کمزور ذہن کے آدمی ہو۔ کیا مطلب……میں چونکا۔

                میر امطلب ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے بات بنائی……کہ ابھی تمہارا ذہن سادہ کاغذ کی مانند ہے……یہی وجہ ہے کہ تم جلد حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہو۔ اور مجھے عرصہ سے ایسے ہی صاف ذہن کے شخص کی ضرورت تھی۔

                میں آپ کی بات سمجھا نہیں……میں نے وضاحتی لہجہ میں کہا۔

                ڈاکٹرڈیوڈ نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ اور مسہری پر پہلو بدل کر بولا……میں تمہارے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کر کے تمہیں ایک عظیم انسان بنا دوں گا۔ میں تمہیں ایسی پر اسرار طاقتوں کا مالک بنا دوں گا جن کا توڑ اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔

                یہ……یہ……آپ کیا کہہ رہے ہیں……میں نے حیرت و استعجاب سے کہا۔

                مسٹر خان……ڈاکٹر ڈیوڈ نے سمجھایا۔ انسان کے دو پرت ہوتے ہیں……ایک ظاہر اور دوسرا باطن……اور اگر انسان اپنے باطن پر غالب آ جائے تو وہ ناقابل تسخیر ہو جاتا ہے۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا……میں نے وضاحتی لہجہ میں کہا……کہ آپ مجھے میرے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں پر غالب کر دیں گے۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ نے میری بات کا جواب اثبات میں سر ہلا کر دیا۔

                میرے اندر کونسی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں……میں نے پوچھا۔

                میرے اس غیر متوقع سوال پر ڈاکٹر ڈیوڈ نے گھور کر مجھے دیکھا۔ اور پھر دوسرے ہی لمحہ مسکراتے ہوئے بولا……میں نے تمہیں بتایا تھا کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ مجھے بھی اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا علم نہیں تھا۔

                پھر آپ کو کیسے علم ہوا……میں نے ازراہ مذاق پوچھا۔

                یہ میری جوانی کی بات ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے بتایا……جب کہ میں اپنے والدین کے ہمراہ ہفتہ کی عبادت کرنے چرچ جایا کرتا تھا۔ پھر وہاں ایک دن……فادر مجھے ‘‘یسوع’’ کے مجسمے کے سامنے لے گیا۔ اور وہاں……اس نے مجھے ‘‘بپتسمہ’’دی……اسی رات یسوع خواب میں آیا۔ اور اس نے مجھے دکھی انسانوں کی خدمت کے لئے چن لیا……اب میں ‘‘دکھی انسانوں’’ کی خدمت پر مامور ہوں۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ کی یہ بات سن کر میں بے حد متاثر ہوا۔ اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے میری حیرانگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا……مسٹر خان……یسوع خدا کا بیٹا تھا یا نہیں……لیکن وہ اس دنیا میں دکھی لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے آیا تھا……وہ کوڑھیوں اور اندھوں کو تندرست کر دیتا تھا……دنیا میں کونسی ایسی بیماری تھی جس کا علاج اس کے پاس نہیں تھا۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ کی بات سن کر مجھے کئی برس قبل ‘‘اللہ رکھی’’ کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی……اس نے بتایا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرندے بناتے تھے……اور ان پر ‘‘پھونک’’ مارتے تھے جس سے ان کے جسم میں جان پڑ جاتی تھی۔ اور وہ اڑ جاتے تھے۔

                جس نے بھی تمہیں یہ بات بتائی ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے کہا……بالکل صحیح بتائی ہے۔ یسوع اس سے بھی زیادہ تھا۔

                یہ سن کر حیرت سے میں ساکت ہو گیا……مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ اسے میرے دل کی بات کا علم کس طرح ہو گیا۔

                تم یسوع کا دیدار کرو گے……اس نے پوچھا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

                ‘‘یسوع’’ اپنے چاہنے والوں کو دیدار ضرور کراتا ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے کہا۔ کل صبح میرے پاس آ جانا……پھر وہ گلابو سے مخاطب ہوا……اپنے مہمان کو لے جائو۔ اور صبح لے آنا۔

                اس کی بات سن کر گلابو میرے قریب آ گئی۔ اور میں اس بوڑھے ڈاکٹر ڈیوڈ کو دیکھتا ہوا کمرہ سے نکل گیا۔

 

اسی رات جب کہ میں اپنی خواب گاہ میں مسہری پر لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا……تو گلابو آ گئی وہ اس وقت بہت خوش تھی……وہ اٹھلاتی ہوئی میری مسہری کے قریب آئی……اوربولی میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔ اگر کوئی ضرورت ہو تو مسہری کے ساتھ لگا ہوا سرخ بٹن دبا دینا۔

                کیا نیند آ رہی ہے……میں نے پوچھا۔

                جی نہیں……اس نے شوخی سے جواب دیا۔

                بیٹھ جائو……میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں……میں نے گلابو سے کہا۔

                جیسی تمہاری مرضی ……اس نے جواب دیا……اور مسہری پر بیٹھ گئی۔ اور میں نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا۔ یہ ڈاکٹر ڈیوڈ ہے کیا چیز……

                یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے شانے اچکائے ……اصل چیز تو ہیرا لال ہے ۔

                ہیرا لال……میں چونکا…… یہ کونسی بلا ہے؟

                تمہیں ڈاکٹر خود ہی بتادے گا……گلابو نے مختصر سا جواب دیا……اور پھر اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا ذہن خالی ہو گیا ہو۔

                میری اس کیفیت کو گلابو نے غور سے دیکھا اور مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔

 

                ابھی صبح کی پہلی کرن پھوٹی ہی تھی کہ گلابو میرے کمرہ میں شب خوابی کے بجائے دوسرے لباس میں داخل ہوئی۔ اور مجھے ڈاکٹر ڈیوڈ کے پاس چلنے کے لئے تیار ہونے کا کہنے لگی۔

                چلو جلدی سے تیار ہو جائو……اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا……ڈاکٹر ڈیوڈ تمہارا منتظر ہو گا۔

                یہ سنتے ہی میں مسہری سے اٹھ گیا……اور چند منٹوں کے اندر ہی اندر ڈاکٹر ڈیوڈ سے ملنے کے لئے تیار ہو گیا۔

                گلابو کے ساتھ میں ایک ایسے کمرہ میں داخل ہوا جو دوسرے تمام کمروں سے مختلف تھا……یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ جس کی آخری دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا اسٹیج بنا ہوا تھا۔ اور اس اسٹیج کے پیچھے سطح زمین سے کافی بلندی پر ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی۔ اس اسٹیج یا چبوترہ کے سامنے چند سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں……اور آخری سیڑھی پر ڈاکٹر ڈیوڈ کھڑکی کی جانب منہ کیے کھڑا تھا۔

                جب میں گلابو کے ہمراہ ہال نما کمرہ میں داخل ہوا۔ تو شاید ڈاکٹر ڈیوڈ انجیل مقدس کا کوئی باب پڑھ رہا تھا……ہمارے داخل ہوتے ہی وہ خاموش ہو گیا۔ گلابو مجھے ساتھ لیے ہوئی سیدھی ڈاکٹر ڈیوڈ کے پاس آئی۔

                آئو میرے بچے آئو……ڈاکٹر ڈیوڈ نے نہایت ہی میٹھے لہجہ میں مجھے مخاطب کیا۔

                گلابو تو نیچے والی سیڑھی پر ٹھہر گئی اور میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا ڈاکٹر کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ ڈاکٹر سینہ پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا……اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر نہایت ہی دلکش لہجہ میں بولا……میرے بچے دنیا میں صرف گنتی کے چند لوگ ہی ہیں جنہیں ‘‘یسوع’’ نے اپنا دیدار کرایا ہے۔ اور آج ‘‘مسیح موعود’’ تجھے بھی یہ شرف بخش رہا تھا۔ اس کے آخری الفاظ کے ساتھ ہی کھڑکی کھل گئی ۔ اور آسمان پر پھیلی ہوئی ‘‘صبح صادق’’ کی روشنی نظر آنے لگی۔ ڈاکٹرڈیوڈ کہہ رہا تھا……جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے۔ آسمان سے نور برس رہا ہے۔ جس نے اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ مجھے اس کی آواز کنویں کی تہہ سے سنائی دے رہی تھی کیونکہ میری نگاہوں کے سامنے جو منظر تھا۔ وہ ناقابل دید تھا……دیوار میں واقع کھڑکی سے آسمان صاف نظر آ رہا تھا……آسمان سے ہلکے نیلے رنگ کی نورانی کرنیں پھوٹ رہی تھیں……یہ کرنیں کھڑکی کے ذریعے کمرہ میں داخل ہو رہی تھیں۔ اور میں کھلی آنکھوں سے صاف دیکھ رہا تھا کہ پورا کمرہ ان کرنوں کی وجہ سے بقعۂ نور بنا ہوا ہے……پھر……ان کرنوں میں کچھ اور نورانی کرنیں بھی شامل ہو گئیں۔ اور دوسرے ہی لمحہ ان کرنوں نے ایک معصوم صورت اختیار کر لی……یہ وجود اس قدر معصوم تھا کہ میرے دل اور دماغ میں ایک دم یہ خیال آیا کہ یہ ‘‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام’’ ہیں……اس وقت ان کے جسم پر ایک سفید قبا تھی۔ جس پر جگہ جگہ خون کے سرخ دھبے تھے۔ آپ کی رنگت سرخ و سفید تھی اور سنہری گیسو اس قدر دراز تھے کہ شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ آپ کے مبارک ہونٹوں پر دعائیہ کلمہ تھا۔ جسے میں تو سمجھ رہا تھا لیکن بیان نہیں کر سکتا۔ آپ کے جسم اطہر سے بھی نور پھوٹ رہا تھا۔ چند ثانیہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نورانی وجود میری نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا……ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے نور’نور میں ضم ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نے میرے سر پر سے ہاتھ ہٹا لیا۔ اور اس کے ساتھ ہی آسمان سے پھوٹتی ہوئی نور کی کرنیں بھی سمٹ گئیں……اب وہاں کچھ بھی نہ تھا……کھڑکی سے نیلا آسمان نظر آ رہا تھا جس پر سورج ابھرنے سے قبل شفق کی لالی پھیل رہی تھی۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آ گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دیدار کے بعد میرا پورا جسم ہلکا ہو چکا تھا……میں خود کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت انسان سمجھ رہا تھا جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دیدار کیا تھا……مجھے اس وقت ایسا روحانی سکون حاصل ہوا تھا جو شاید پھر کبھی حاصل نہ ہو۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ مجھے لیے ہوئے کرسیوں کے پاس آیا۔ یہاں متعدد کرسیاں نیم دائرہ میں پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور خود دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا‘‘مسیح موعود’’ کا دیدار کرنے کے بعد تمہارے کیا تاثرات ہیں۔

                میں ابھی تک حیران ہوں……میں نے جواب دیا……کہ اس جلیل القدر پیغمبر کا دیدار کس طرح ہو گیا۔

                اس میں حیرانگی کی کیا بات ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

                میں……میں……تو بہت گنہگار انسان ہوں……میں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔

                مسیح موعود……ڈاکٹر ڈیوڈ نے سنجیدگی سے کہا……تمام انسانوں کے دوست تھے۔ میں نے اس کی بات کاٹ کر عقیدت سے کہا……وہ واقعی محسن انسانیت تھے۔

                ایسے محسن کے لیے کیا ہم اپنی جان کا نذرانہ نہیں پیش کر سکتے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے پوچھا۔

                بالکل……بالکل……میں نے عقیدت و احترام سے گردن جھکا کر کہا……میں حاضر ہوں۔

                یہ خوشی کی بات ہے کہ تم مسیح موعود کے مشن میں شامل ہونے کے لئے خوشی سے تیار ہو گئے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے میرے کاندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا……اس مقصد کے لئے تمہیں ‘‘ہیرالال’’ کی سرپرستی میں تربیت حاصل کرنا ہو گی۔

                یہ تربیت کس قسم کی ہو گی……میں نے اچانک پوچھا۔

                تمہیں یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے……ڈاکٹرڈیوڈ نے قدرے سخت لہجہ میں کہا……ہیرا لال ہر فن مولا ہے۔ وہ جیسا مناسب سمجھے گا۔ تمہیں تربیت دے گا۔

                آخری جملے کے ساتھ ہی ڈاکٹر ڈیوڈ اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا۔ پھر وہ دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے گلابو سے مخاطب ہوا……میں‘‘ہیرالال’’ کو بھیجتا ہوں۔

                 اس کے بعد ……وہ دروازہ کی جانب چل دیا……میری نگاہیں اس کے تعاقب میں تھیں۔ نجانے کیوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دیدار کرنے کے بعد میرے دل میں اس کے لئے بھی عقیدت و احترام پیدا ہو گیا تھا……میں نے دیکھا کہ ڈاکٹرڈیوڈ دروازہ کی اوٹ میں ہو گیا لیکن اس کے شانہ کا تھوڑا سا حصہ نظر آ رہا تھا۔ پھر وہ مڑا……اور چند سیکنڈ کے لئے میری نظروں سے غائب ہو گیا……دوسرے ہی لمحہ ڈاکٹر ڈیوڈ کی جگہ……ایک چاق و چوبند ادھیڑ عمر کا گنجا شخص داخل ہوا۔ وہ شخص وہی لباس پہنے ہوئے تھا جو کہ ڈاکٹر ڈیوڈ نے پہن رکھا تھا۔ فرق تھا تو صرف شکل و شباہت کا۔ یہ شخص جو کمرہ میں داخل ہو رہا تھا۔ بڑے ہی نپے تلے قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کا سر گنجا تھا او رپیشانی کے اوپر سے درمیان میں بالوں کی لمبی سی چوٹی تھی۔

                گلابو نے سرگوشی کی……یہ ہیرا لال ہے……اس سے ذرا سنبھل کہ بات کرنا……سانپ کے کاٹے کا علاج ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ جس کا دشمن ہو جائے۔ اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ذرا سنبھل کر بات کرنا۔ سانپ کے کاٹے کا علاج ہو سکتا ہے۔

                گلابو نے جیسے ہی سرگوشی ختم کی ہیرا لال بھی قریب آ گیا۔ میں نے استقبالیہ انداز میں اٹھ کر اس کی جانب مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا……ہیرا لال نے پہلے تو ایک نظر میرے ہاتھ پر ڈالی۔ اور مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا……میر اہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے شکنجہ میں جکڑ دیا ہو۔

                مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی……اس نے اپنی گھن گرج والی آواز سے کہا……کہ تم خوشی سے ہمارے گروہ میں شامل ہوئے ہو۔

                باس نے تو شروع میں ہی کہہ دیا تھا۔ اس مرتبہ گلابو نے جواب دیا……کہ یہ شخص ہمارے لیے کارآمد ہو گا۔

                باس کا خیال کبھی غلط نہیں ہو سکتا……اس نے یہ کہہ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور میرے سامنے کرسی کھینچ کر اس پر جم کر بیٹھ گیا۔

                ڈاکٹر نے……ابھی میں نے صرف یہی کہا تھا……کہ وہ ہاتھ اٹھا کر مجھے خاموش کراتے ہوئے بولا۔ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں……میں اپنا فرض خوب سمجھتا ہوں۔

                تو پھر آپ میری تربیت کا آغاز کس طرح سے کریں گے ۔ میں نے پوچھا۔

                یہی تو میں سوچ رہا ہوں……ہیرا لال نے میرے جسم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا……کہ تمہاری تربیت کا آغاز جسمانی ہونا چاہئے یا روحانی۔

                میں سمجھتا ہوں……میں نے اپنی رائے ظاہر کی……کہ میری تربیت کا آغاز‘‘روحانی’’ ہو تو اچھا ہے۔

                تمہاری خواہش قابل قدر ہے……ہیرا لال مسکرایا۔ لیکن اس کے لئے سخت محنت کرنا ہو گی اور وہ جسمانی قوت کے بغیر ممکن نہیں۔

                آپ نے کس طرح سے یہ قوت حاصل کی……میں نے سوال کیا۔

                میری بات سن کر ہیرا لال نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ اور پھر مجھے گھورتے ہوئے بولا۔میری کیا بات پوچھتے ہو……میرے گرو نے……میری جسمانی اور روحانی تربیت ایک ساتھ کی تھی۔

                آپ کا گرو کون تھا؟……میں نے بالکل غیر متوقع سوال کر دیا۔

                میرا گرو……اس نے پلکیں جھپکائیں۔ اور پھر اطمینان سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بولا……یہ سوال تم نے قبل از وقت کر دیا ہے۔

                اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں……میں نے خفگی سے کہا۔

                نہیں……نہیں……ایسی کوئی بات نہیں۔ ہیرا لال نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔ تمہیں کچھ معلوم کرنے کا حق ہے اچھا تو پھر بتایئے……میں نے حوصلہ سے کہا۔

                یہ میری جوانی کی بات ہے……ہیرا لال نے اطمینان سے بتانا شروع کیا……جبکہ میں سیاحت کرتا ہوا تبت پہنچا تھا۔ اور وہاں میری ملاقات ایک ‘‘لاما’’سے ہوئی تھی۔

                تبت کا ‘‘لاما’’ میں چونکا کیونکہ میں نے پڑھا ہوا تھا کہ تبت کے لاما ایسی پراسرار طاقتوں کے مالک ہوتے ہیں جن کا توڑ ہندوستان اور افریقہ کے جادوگروں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔

                اس لاما نے ……ہیرالال میری حیرانگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ دیا تھا……میرے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دیکھا اور پھر مجھے ایسی لازوال صلاحیتوں کا مالک بنا دیا جن کا مقابلہ اس دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔

                تو پھر آپ مجھے بھی ایسی ہی طاقتوں کا مالک بنا دیجئے گا۔ میں نے التجا آمیز لہجہ میں کہا۔

                ڈاکٹر کی بھی یہی خواہش ہے……اس نے مختصر سا جواب دیا۔

                میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے کافی باتیں کر لی ہیں۔ ہیرا لال نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا……اب کچھ کام کی باتیں بھی ہو جائیں……پھر وہ گلابو سے مخاطب ہوا……تم انہیں لے کر مرکزی ہال میں پہنچو……اس کے بعد وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اس ہال نما کمرہ سے باہر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی میرے ذہن میں جو شک تھا……اس کا اظہار گلابو سے کیا……یہ ہیرا لال کہیں ڈاکٹر ڈیوڈ تو نہیں۔

                میری بات سن کر گلابو نے اس طرح دیکھا جیسے میں پاگل ہوں۔ پھر وہ ہاتھ پکڑ کر بولی۔ یہ بات تم کس طرح کہہ سکتے ہو۔

                میں نے ڈاکٹر ڈیوڈ کو دروازہ کے باہر دیکھا تھا……میں نے بتایا……لیکن ابھی وہ پوری طرح نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوا تھا کہ ہیرا لال آ گیا۔

                میں نہیں جانتی گلابو نے میرا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی طرف چلتے ہوئے کہا……تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ ڈاکٹر ڈیوڈ اور ہیرا لال کہیں ایک ہی انسان تو نہیں……میں نے سرگوشی کی۔

                یہ دونوں شخصیتیں نہایت ہی پر اسرار اور عجیب الخلقت ہیں……گلابو نے بتایا……میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ تم اتنی جلدی کیسے سمجھ سکتے ہو۔

                میں خاموش ہو گیا۔ گلابو میرا ہاتھ پکڑے ہوئے دروازہ کے باہر آ گئی اور پھر ایک راہداری میں چلنے لگی اور راہداری کے آخری سرے پر بالکل سامنے کی جانب محراب نما دروازہ تھا۔ شاید یہی ہیرا لال کی مرکزی تربیت گاہ کا دروازہ تھا۔

 

 


 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء