Topics

دیوانہ


                میں کھڑکی کھول کر قبرستان کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ ایک کڑک دار آواز سنائی دی……شمیم تم کہاں ہو……کہاں ہو تم۔ بستر پر سونے سے قبل مجھے یہ آواز پھر سنائی دی۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آواز دینے والا قبرستان کے آخری کنارے پر پہنچ گیا ہے……یہ آواز کیسی ہے……آواز دینے والا کون ہے۔ میرے ذہن میں اس شخص کے بارے میں جستجو پیدا ہوئی۔ اور اس جستجو کے نتیجہ میں ……میں نے کھڑکی بند کی۔ اور دروازہ پر پہنچ گیا……میرا ارادہ تھا کہ دروازہ کھول کر باہر نکلوں اور قبرستان میں جا کر اس شخص کو تلاش کروں……جو شمیم کی خاطر بے چین تھا……مضطرب تھا……میں اس کی بے چینی کا سبب جاننا چاہتا تھا……ابھی میں نے دروازہ کی چٹخنی کھولی ہی تھی کہ کمرہ میں ایک آواز گونجی……ٹھہرو۔ میں نے اس آواز کے ساتھ ہی گھوم کر دیکھا وہی چاق و چوبند نوجوان ڈرائنگ روم کی جانب کھلنے والے دروازہ کے درمیان میں کھڑا تھا۔

                خان……وہ میری جانب بڑھتے ہوئے بولا ……اس آواز کے تعاقب میں جانا بیکار ہے۔

                کیوں……

                یہ آواز ایک دیوانہ کی ہے……اس نے بتایا۔

                لیکن……لیکن……یہ دیوانہ قبرستان میں کیوں آوازیں دیتا پھرتا ہے……میں نے پوچھا۔

                ادھر آئو۔ بتاتا ہوں……اس نے اشارہ سے اپنے قریب بلایا۔ اور جب میں مسہری پر بیٹھ گیا۔ تو وہ سنجیدگی سے بولا……اصل بات تو خدا ہی بہتر جانتا ہے……مجھے صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ شمیم نام کی کوئی عورت اس کی محبوبہ تھی۔ جس سے یہ شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شادی سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا……وہ یہیں کہیں دفن ہے۔ اور یہ عشق کا مارا……اسے راتوں کو آوازیں دیتا پھرتا ہے۔

                اللہ رکھی’ اس کا علاج کیوں نہیں کر دیتی……میں نے طنزیہ کہا۔

                وہ ہر کام‘‘وقت’’ پر کرتی ہے……نوجوان نے جواب دیا۔ پھر وہ تسلی آمیز لہجہ سے بولا۔ اب تم آرام کرو۔ اور اس کے آواز کے چکر میں نہ پڑو۔

                اس کی بات سن کر مجھے سکون سا آ گیا۔ اور پھر……میں بستر پر سونے کی خاطر لیٹ گیا۔

                دوسرے دن……جب میں بیدار ہوا تو سورج سر پر چڑھ آیا تھا……میں بستر سے اٹھا۔ اور ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد نہانے کے لئے غسل خانہ میں چلا گیا……غسل سے فارغ ہو کر جونہی میں اپنے کمرہ میں داخل ہوا تو اللہ رکھی کا چاق و چوبند نوجوان نوکر ناشتا ٹرے میں لئے ہوئے داخل ہوا۔ اس نے ناشتا ایک چھوٹی سی میز پر رکھ دیا اور ادب سے کھڑا ہو گیا……میں نے سنگھار میز کے سامنے جا کر پہلے اپنے بالوں کو خشک کیا۔ پھر ان میں خوشبو دار تیل ڈالا اور کنگھا کر کے ناشتا کے لئے بیٹھ گیا۔

                میں نے کیتلی سے چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے پوچھا……اللہ رکھی نے ناشتا کر لیا۔

                جی ہاں……اس نے مختصر سا جواب دیا۔

                اور تم نے……میں نے دوبارہ پوچھا۔

                میں بھی کر چکا ہوں۔

                اچھا بیٹھ جائو۔ کھڑے کیوں ہو……میں نے پوچھا۔

                وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا……اس کے بیٹھتے ہی میری رگ شرارت پھڑکی۔ اور میں نے توس چائے کے ساتھ کھاتے ہوئے پوچھا……یار ایک بات تو بتائو……یہ اللہ رکھی سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ وہی جو ایک ‘‘آقا’’ اور ‘‘غلام’’ کا ہوتا ہے……اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

                چھوڑو یار……میں نے مزاحیہ لہجہ سے کہا……اس صدی میں ‘‘آقا’’ اور ‘‘غلام’’ کہاں۔

                جی……وہ چونکا۔

                سچ……سچ……بتائو……میں نے شرارت سے دائیں آنکھ دبا کر پوچھا……تمہارا اس سے کیا رشتہ ہے۔

                اجی۔ کیا بات کرتے ہیں……اس کے چہرہ پر پہلے سے زیادہ سنجیدگی پھیل گئی……اس کے بارے میں تو میرے ذہن میں کوئی غلط بات آ ہی نہیں سکتی۔

                اس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے مجھے شک گزرا کہ ضرور کوئی بات ہے۔ لہٰذا اسے کریدنے کی خاطر بولا……بھئی تم اتنے خوبصورت ہو اور اللہ رکھی بھی خوبصورت ہے۔ پھر شادی کیوں نہیں کر لیتے۔

                خوبصورت تو وہ ہے……نوجوان نے شرما کر نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا……میں اس کے حسن پر ہی عاشق ہو گیا تھا۔

                پھر……میں نے تجسس سے پوچھا۔

                پھر کیا……وہ مسکرایا……اس کا ‘‘باطن’’ اس کے ظاہر سے زیادہ حسین ہے۔ لہٰذا میں غلام بن کر رہ گیا۔

                اس کی یہ بات سن کر مجھے برسوں پہلے……اللہ رکھی کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی……جب کہ میں نے اس خوبصورت نوجوان کے بارے میں پوچھا تھا……اور ……اس نے بتایا تھا ……کہ یہ جن ہے۔ اس نوجوان کی شخصیت کے یاد آتے ہی مجھے……اس کا اللہ رکھی پر عاشق ہونا صحیح معلوم ہوا ……کیونکہ اللہ رکھی نے بھی شروع میں اس کا تعارف کراتے ہوئے یہی بتایا تھا……کہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے کئی انسان لڑکیاں اس پر عاشق ہو جاتی تھیں……اور یہ اپنی خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر انہیں خوب ستاتا تھا……لیکن اب……جب سے یہ اللہ رکھی کا عاشق ہوا تھا۔ سدھر گیا تھا۔

                میرے سامنے اس وقت کوئی خوبصورت نوجوان‘‘انسان’’ نہیں بیٹھا تھا……بلکہ ایک خوبصورت‘‘جن’’ بیٹھا ہوا تھا……میرے جسم میں خوف کی ایک لہر سی اٹھی……لیکن پھر اس خیال کے ساتھ ہی ختم ہو گئی کہ یہ جن ہے تو کیا ہوا……ہے تو اللہ رکھی کے قبضہ میں۔

                میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے پوچھا……تمہارا نام کیا ہے۔

                شمرال……اس نے اپنا نام بتایا۔

                تم رہنے والے کہاں کے ہو……میں نے اس طرح پوچھا’ جیسے کسی انسان سے اس کا وطن مالوف پوچھا جاتا ہے۔

                مجھے بتانے کی اجازت نہیں ہے……اس نے جواب دیا۔

                میں سمجھ گیا کہ جن ہونے کے ناطے اللہ رکھی نے اسے ٹھکانہ بتانے سے منع کر دیا ہو گا……ناشتا ختم کر کے میں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا……اللہ رکھی کہاں ہے۔

                وہ لوگوں سے مل رہی ہے……اس نے برتن سمیٹتے ہوئے جواب دیا……جب تک حاجتمند رخصت نہیں ہو جاتے۔ تمہارا ملنا مشکل ہے۔

                ٹھیک ہے……میں نے کہا……جب سب لوگ چل جائیں تو مجھے بتا دینا۔

                بہت اچھا……اس نے جواب دیا۔ اور ٹرے اٹھا کر میرے کمرہ سے باہر چلا گیا……اب میں کمرہ میں اکیلا تھا……تنہائی سے اکتا کر……میں نے سوچا……کہ قبرستان ہی کی سیر کر لی جائے۔ یہ سوچ کر میں نے دروازہ کھولا۔ اور باہر آ گیا……یہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا……جس میں قبروں کے درمیان جا بجا‘‘پیلو’’ بیری اور نیم کے درخت قبروں کے آس پاس اور سرہانے کھڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ قبرستان کے درمیان میں ایک بڑے سے بیری کے درخت کے نیچے لوگوں کا مجمع لگا ہوا ہے……میں نے سوچا کہ شاید یہ کوئی میت ہے۔ اور لوگ اسے دفنانے کے لئے آئے ہیں……یہ سوچ کر میں بھی قبروں کو پھلانگتا ہوا اس مجمع کی جانب چل دیا۔

                میں قریب پہنچا تو عجیب منظر دیکھا……ایک شخص پھٹے پرانے لباس میں بیری کے درخت سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا۔ اس شخص کے سر اور داڑھی کے بال اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ اس کے خدوخال اور عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس شخص کی نگاہیں فضا میں مرکوز تھیں۔ اور وہ دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے فضا میں کچھ لکھتا تھا۔ اور پھر اسے مٹا دیتا تھا……اور پھر……لکھتا تھا۔ لوگوں کی نگاہیں اس کی انگشت شہادت کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھیں اور مجمع میں موجود جو بھی شخص اس عبارت میں اپنا حل سمجھ لیتا تھا……وہ عقیدت سے اس کے پائوں کو چھوتا تھا۔ اور پھر پھل، مٹھائی یا نقدی کی صورت میں نذرانہ پیش کر کے خوشی خوشی لوٹ جاتا تھا……اس شخص کے قریب ہی ایک اور عمر رسیدہ شخص بیٹھا تھا……جو کہ……کبھی کبھی……فضا میں لکھی ہوئی عبارت پڑھ دیتا تھا……اور حاجت پوری ہونے والے کا نذرانہ وصول کر کے ایک جانب رکھ دیتا تھا……میں دیر تک کھڑا اسے دیکھتا رہا……آہستہ آہستہ مجمع کم ہونے لگا……اب صرف گنتی کے چند لوگ ہی رہ گئے تھے۔ کہ اس کے قریب بیٹھا وہا عمر رسیدہ شخص مجھ سے مخاطب ہوا۔ بچہ! جو کچھ مانگنا ہے بابا جی سے مانگ لے……میں یہ سن کر خاموش رہا……کیونکہ میری کوئی خواہش ، کوئی تمنا نہیں تھی……مجھے خاموش دیکھ کر وہی شخص دوبارہ بولا……بچہ تو نہیں جانتا……بابا بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں……ہر وقت اللہ سے لو لگائے رکھتے ہیں۔

                میں پھر کچھ نہیں بولا۔ مجھے خاموش دیکھ کر دوسرے حاجت مند آگے بڑھے۔ اور اس شخص کے پیر دبانے لگے……اس حواس باختہ شخص نے چند منٹ کے بعد دوبارہ فضا میں انگشت شہادت سے لکھنا شروع کر دیا……جب سب لوگ چلے گئے تو وہ شخص آنکھیں بند کر کے استغراق میں ڈوب گیا۔ اور میں نے ا س کے ساتھی سے پوچھا……یہ بابا جی’ فضا میں کیالکھتے ہیں۔

                تو نہیں سمجھا بچہ……اس شخص نے اپنی لال لال آنکھوں سے مجھے گھورا……میں نے انکار کے انداز میں سرہلا دیا……میری اندانی پر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا……بچہ! بابا جی……اللہ سے باتیں کرتے ہیں۔ اور جس مسئلہ کا حل انہیں بتا دیا جاتا ہے۔ وہ انگشت شہادت سے فضا میں لکھ لیتے ہیں اور اس طرح سائل کو اپنے مسئلہ کا حل مل جاتا ہے۔ یہ سن کر میں نے سوچا……کہ یہ شخص کوئی بہت بڑا ‘‘ولی اللہ’’ ہے……اور اس سے بھی کچھ علم حاصل کیا جانا چاہئے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے اس عمر رسیدہ شخص سے کہا……تم بابا جی سے کہہ کر مجھے بھی کوئی علم دلوا دو……اس شخص نے مٹھائیوں کے ڈبے، پھل اور نقدی ایک گٹھری میں باندھتے ہوئے جواب دیا……بچہ! یہ تو بڑا ہی مشکل کام ہے۔

                پھر بھی تم سفارش تو کر کے دیکھو……میں نے اصرار کیا۔

                اس شخص نے نذرانوں کی گٹھری ایک ہاتھ میں پکڑ ی اور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا……اچھا بچہ! تو کہتا ہے تو سفارش کر دوں گا……باقی فقیر کی مرضی۔

                اس کے بعد ……اس شخص نے قریب پڑا ہوا کمبل اٹھایا اور ‘‘بابا جی’’ کے اوپر ڈال دیا۔ بابا جی بیری کے درخت سے کمر لگائے……گردن جھکائے حالت مراقبہ میں تھے……وہ شخص قبرستان کے باہر جانے والی پگڈنڈی کی طرف جاتے ہوئے بولا……بچہ! اب تم بھی جائو……بابا جی ‘‘مراقبہ’’ میں چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص قبرستان کے باہر کی جانب چل دیا……اور میں بھی واپس اپنے کمرہ میں آ گیا۔

 

                مجھے ‘‘اللہ رکھی’’ کے ساتھ رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔ اس عرصہ میں میری اس سے بہت کم ملاقات ہوتی تھی……لوگ صبح سے اس کے پاس اپنے مسائل کا حل معلوم کرنے آ جاتے تھے……دوپہر تک وہ لوگوں کے ‘‘مسائل’’ حل کرتی تھی……اس کے بعد……اگر اس کا دل چاہتا۔ تو مجھ سے ملنے چلی آتی۔ یا۔پھر اپنے ملازم کے ذریعہ ڈرائنگ روم میں بلا لیتی تھی……مجھے ایک بات کھٹکتی تھی……اللہ رکھی نے کبھی مجھے اس ڈرائنگ روم سے آگے نہیں بڑھنے دیا……حالانکہ اس بنگلہ نما مکان میں کئی کمرے تھے۔ اس کے باوجود اس نے کبھی اپنی خواب گاہ۔یا۔کسی اور کمرہ میں نہیں بلایا……اور اگر اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر میں اندرونی کمروں کی جانب جانے کی کوشش کرتا تو شمرال یا اللہ رکھی اسی کمرہ کے دروازہ سے مسکراتے ہوئے نمودار ہو جاتے۔ اور مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر باتیں کرنے لگتے تھے……میں نے کئی دفعہ اس شخص کا بھی ذکر کیا، جو کہ قبرستان میں قیام پذیر تھا۔ اور لوگ اسے ‘‘ولی اللہ’’ سمجھتے تھے……میں نے جب بھی اس شخص کا ذکر کیا……اللہ رکھی سنی ان سنی کر دیتی۔یا۔پھر اسے ‘‘دیوانہ’’ کہہ کر بات کا رخ موڑ دیتی تھی۔

                میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ……قبرستان میں مقیم اس شخص کے گرد ہر وقت عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اس کے ذریعہ لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں……اور جن لوگوں کی مرادیں پوری ہو جاتی تھیں۔ وہ اس کے حضور میں نذرانے پیش کرتے تھے……دنیا کے پریشان حال لوگ……اس کے گرد ادب سے گردن جھکائے بیٹھے رہتے تھے……اور اسے بہت پہنچا ہوا ‘‘ولی’’ سمجھتے تھے……لیکن اللہ رکھی اسے ایک دیوانہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی۔

                پھر مجھے خیال ہوا کہ یہ کہیں ‘‘روحانی’’ رقابت تو نہیں ہے……میں سمجھتا تھا کہ جس طرح ہم پیشہ لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں……اسی طرح اللہ رکھی بھی قبرستان میں مقیم ولی اللہ سے حسد کرتی ہے اور اسے ‘‘دیوانہ’’ کہتی ہے ……اللہ رکھی کے ان حاسدانہ جذبات۔ یا۔ رویہ کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ یہاں رہ کر وقت خراب کرنے سے تو بہتر ہے کہ اس ولی کے قدموں میں وقت گزارا جائے۔

 

                وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ……میرے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوتا چلا گیا……میرے دل میں……قبرستان والے ولی کی محبت و عقیدت بڑھنے لگی……مجھے اللہ رکھی نے نماز پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ اور اسے ‘‘مراقبہ’’ کا بہترین ذریعہ قرار دیا تھا……لیکن دلچسپ بات یہ تھی……کہ میں جب بھی نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوتا تھا……دنیاوی خیالات کا ایک طوفان ہوتا تھا جو کہ میرے ذہن پر چھایا رہتا تھا……میں بار بار ذات الٰہی کی جانب متوجہ ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن خیالات کی یلغار اتنی شدید ہوتی تھی کہ ذہن بھٹک جاتا تھا۔

                بالآخر……میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا……کہ اگر نماز ‘‘مراقبہ’’ ہے تو یہ بڑا ہی مشکل مراقبہ ہے۔ جو کہ میرے بس کا نہیں ہے……اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک خیال اور آیا……کہ کہیں اس طرح اللہ رکھی مجھ سے پیچھا تو نہیں چھڑانا چاہتی ہے……اس طرح میرا دل نماز سے اچاٹ ہونے لگا……میں کبھی کبھی نماز پڑھنے لگا……اور سوچتا تھا کہ……قبرستان والا ولی اچھا ہے کہ نہ خود نماز پڑھتا ہے اور نہ ہی اپنے عقیدت مندوں کو نماز کی تلقین کرتا ہے……اور پھر بھی اللہ کا محبوب ہے……اللہ اس کی سنتا ہے……انہی سفلی خیالات نے مجھے اللہ رکھی سے بدظن کرنا شروع کر دیا ۔ اور میں اس موقع کی تلاش میں رہنے لگا……کہ اللہ رکھی سے دل کی بات کہوں اور اس سے رخصت ہو کر قبرستان والے‘‘ولی اللہ’ کے پاس جا بیٹھوں۔ لیکن اس کا موقع ہی نہیں آیا۔

 

                ایک شام……جب کہ سورج نے مغرب کی سمت اپنا سفر شروع کر دیا تھا……نیلے آسمان پر کالی گھٹائوں نے امنڈنا شروع کر دیا……ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور میں نے اس بھیگی ہوئی ہوا سے لطف اندوز ہونے کی خاطر قبرستان کی جانب کھلنے والا دروازہ کھول دیا……میرے سامنے ہی پرانی جگہ پر……بیری کے درخت کے نیچے وہی ‘‘ولی اللہ’’ بیٹھا تھا۔ اور لوگ اس کے گرد حلقہ بنائے ادب سے بیٹھے تھے……اس شخص کی انگشت شہادت متواتر……فضا میں تحریر لکھنے میں مصروف تھی……میں بڑی ہی حسرت و یاس سے اسے دیکھ رہا تھا……کہ اچانک اللہ رکھی کمرہ میں داخل ہوئی……اور مجھ سے بولی۔ کیا دیکھ رہے ہو خان۔

                میں اس کی آواز پر چونکا۔ اور اس کی طرف پلٹ کر بولا……موسم دیکھ رہا تھا۔

                جھوٹ کیوں بولتے ہو خان……اس نے میری مسہری پر بیٹھتے ہوئے کہا……اس دیوانہ کو دیکھ رہے تھے میں نے اقرار میں سر ہلایا۔

                اللہ رکھی نے مسکراتے ہوئے کہا……تم اسے کوئی بہت پہنچا ہوا بزرگ سمجھتے ہو……تمہارے دل میں اس کے لئے محبت ہے……عقیدت ہے……حالانکہ وہ صرف اور صرف دیوانہ ہے۔

                تم یہ بات کس طرح کہہ سکتی ہو……میں نے اعتراض کیا……اگر یہ محض دیوانہ ہوتا تو لوگ اس کے گرد جمع نہ ہوتے۔

                لوگوں کا کیا ہے……اللہ رکھی نے تمسخر سے کہا……لوگ تو دیوانوں کو……ولی اللہ ……قطب……ابدال……اور……مجذوب سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ انہیں خود اپنی خبر نہیں ہوتی۔

                بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ رکھی نے ان خیالات کا اظہار عوام الناس کے بارے میں کیا ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس نے مجھے کہا ہے……میں نے اپنا شک دور کرنے کی خاطر کہا……اگر یہ صرف دیوانہ ہے تو اس کی دعا کیوں قبول ہو جاتی ہے……یہ لوگوں کے مسائل کس طرح حل کر دیتا ہے۔

                یہ کسی کے مسائل نہیں حل کرتا……اللہ رکھی نے بتایا……یہ تو اپنی محبوبہ کے عشق میں اس قدر دیوانہ ہے کہ فضا میں اسے خط لکھتا رہتا ہے۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے مسائل کا حل بتا رہا ہے۔ پھر وہ اس کی تحریر سے اپنے مطلب کی بات نکالتے ہیں۔ اور خوش خوش لوٹ جاتے ہیں۔

                یہ تم کیا کہہ رہی ہو……میں نے قدرے تعجب سے کہا……تمہارا خیال غلط بھی ہو سکتا ہے۔

                میرا خیال غلط نہیں ہو سکتا……اللہ رکھی نے مجھے گھورا……تمہارے ذہن میں اب بھی شک و شبہ رہتا ہے؟

                یہ تم نے بات ہی ایسی کہی ہے……میں نے اصرار آمیز لہجہ سے کہا……تم ایسے شخص کو دیوانہ……

                اللہ رکھی نے میری بات کاٹی……اور دیوانہ کو دیوانہ ہی کہنا چاہئے اگر یہ دیوانہ ہے تو……

                تم سے زیادہ اس شخص کے بارے میں جانتی ہوں……اللہ رکھی نے ایک بار پھر میری بات کاٹی۔ اور پھر دائیں ہاتھ کی کہنی بستر پر ٹکا کر بولی……سچا عاشق ہے۔ اور اپنی محبوبہ کی تلاش میں عرصہ سے ان ویرانوں میں بھٹکتا پھر رہا ہے۔

                اچھا……میں نے قدرے حیرانگی سے کہا۔

                میری بات کے جواب میں اللہ رکھی نے بستر پر سرٹکا دیا۔ اور دروازہ کے باہر آسمان پر نظریں دوڑانے لگی۔

                باہر آسمان پر کالے بادل جمع ہو چکے تھے۔ اور وہ اتنے زیادہ گہرے تھے……کہ ان کی وجہ سے زمین پر اندھیرا سا پھیل گیا تھا……گہرے بادلوں کے درمیان کبھی کبھی آسمانی بجلی بھی چمک جاتی تھی……جو کہ بارش کا پیش خیمہ تھی۔

                میں نے اللہ رکھی کو خاموش دیکھ کرکہا……تم چپ کیوں ہو گئی……تم تو اس شخص کے بارے میں بتا رہی تھی۔

                ہاں……تو میں بتا رہی تھی……اللہ رکھی نے ایک گہری سانس لے کر کہا……میں عرصہ سے اس شخص کو اس قبرستان میں بھٹکتا ہوا دیکھ رہی ہوں……یہ شخص راتوں کو اپنی محبوبہ کا نام لے کر بھی پکارتا ہے۔

                میں نے راتوں کو اس کی آواز سنی ہے……میں نے تائید کی۔

                جب یہ بھٹکتے بھٹکتے تھک جاتا ہے……اللہ رکھی نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا……تو کسی شکستہ قبر کے سرہانے لیٹ کر سو جاا تھا……کوئی راہ گیر ادھر سے گزرتا تو اسے رحم کی نگاہوں سے دیکھتا اور بیدار کر کے کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کرتا……وہ نہ تو کسی سے سوال کرتا تھا۔ اور نہ ہی کسی کے گھر جاتا تھا۔

                کمال ہے……میں نے تعجب سے کہا۔

                اس سے بھی زیادہ کمال کی بات یہ ہے ……اللہ رکھی نے مسکراتے ہوئے کہا……کہ قبرستان میں آنے والے لوگ اسے ‘‘ولی اللہ’’ سمجھنے لگے۔

                بے اختیار میرے منہ سے نکلا……یہ کس طرح ممکن ہے۔

                سنتے رہو……اللہ رکھی نے مجھے ٹوکا……جہاں کم علم لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں ایسے ہی دنیا کے ستائے ہوئے لوگوں کو پہنچا ہوا فقیر……یا……مجذوب مشہور کر دیتے ہیں……دنیاوی خواہشوں کے مارے ہوئے لوگوں نے اس کے گرد جمع ہونا شروع کر دیا……اور یہ دیوانہ جسے اپنا ہی ہوش نہیں ہے……اپنی دھن میں انگشت شہادت سے فضا میں لکھتا رہتا ہے۔

                لیکن اس کی تحریروں کا کچھ مطلب تو ہو گا……میں نے پوچھا۔

                کیا مطلب ہو گا……اللہ رکھی نے جیسے الٹا مجھ سے ہی پوچھا۔ پھر سمجھانے والے لہجہ میں بولی……جس شخص کو اپنا ہی ہوش نہیں وہ دنیا کے لوگوں کے مسائل کا کیا حل کرے گا……پھر وہ حسب معمول مسکرا کر بولی۔ تم نے اس کا حلیہ دیکھا ہے……داڑھی، مونچھوں اور سر کے بال ایک ہو گئے ہیں……ہاتھ پیروں میں دھول اٹی رہتی ہے۔

                لیکن اس کے چہرے پر تو جلال کی وہ کیفیت رہتی ہے۔ جو پیروں اور فقیروں کے چہروں پر رہتی ہے……میں نے یہ کہہ کر گویا اس کی تمام باتوں کی تردید کر دی۔

                یہ جلال نہیں ہے……اللہ رکھی نے بتایا……وہ اپنی محبوبہ کی گمشدگی سے پریشان ہے……اس کے چہرہ پر غم و غصہ کے تاثرات ہیں۔ اور یہ ان تاثرات کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ اپنی محبوبہ سے خیالوں میں باتیں کرتا رہتا ہے……اور فضا میں پیغام لکھتا رہتا ہے۔

                اگر تمہاری باتوں کو سچ مان لیا جائے……توتم اس دیوانہ کا علاج کیوں نہیں کرتی۔

                اللہ نے ہر کام کا وقت مقرر کر دیا ہے۔ اللہ رکھی نے جواب دیا۔ اور اب……وقت آ گیا ہے……کہ اس کا علاج کر دیا جائے۔

                اللہ رکھی نے آخری الفاظ کے ساتھ ہی آسمان پر اس زور سے بجلی کڑکی کہ ہم دونوں ہی اپنی جگہ پر اچھل گئے۔

                اللہ رکھی مسہری پر اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ اور مسلسل باہر کی طرف دیکھ رہی تھی……آسمان پر بجلی زور زور سے کڑک رہی تھی۔ اور اس کی بازگشت اتنی دیر تک رہتی تھی کہ بات نہیں کی جا سکتی تھی……اب ہر طرف تاریکی پھیلنا شروع ہو گئی تھی……کہ اچانک وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس نے بوسیدہ سا کمبل بدن پر لپیٹا۔ اور ایک جانب چل دیا۔ اس کے معتقدوں نے پیچھے آنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے اپنی دبنگ آواز میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا……اللہ رکھی کی نگاہیں بدستور اس پر جمی ہوئی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا……کہ کوئی غیر مرئی طاقت اسے کہیں لیے جا رہی ہے……آسمان پر بجلی پہلے سے زیادہ زور سے چمکنے لگی……جس سے تھوڑی دیر کے لئے تاریکی میں روشنی پھیل جاتی تھی۔ مغرب کی جانب سے تیز ہوا کے جھکڑ بھی چلنا شروع ہو گئے……وہ دیوانہ وار قبرستان کے آخری سرے کی طرف جا رہا تھا اور اللہ رکھی کی نگاہیں بدستور اس کے تعاقب میں تھیں……میں نے دیکھا کہ وہ پلکیں جھکائے بغیر اسے تکے جا رہی تھی۔ اور اس وقت اس کی آنکھیں پہلے سے کہیں زیادہ روشن تھیں۔

                دیوانہ قبرستان کے آخری سرے پر پہنچ کر اس طرح رک گیا، جیسے اسے کسی نے پکڑ لیا ہو……وہ چند منٹ کھڑا سوچتا رہا……اس کے ساتھ ہی آسمان کے سوتے کھل گئے……اور وہ قبرستان میں اندر کی طرف بھاگا۔ رات بے حد تاریک اور سرد ہو گئی تھی۔ اور بارش بھی موسلادھار ہونے لگی تھی……مجھے تاریکی کی وجہ سے باہر قبرستان میں کچھ بھی نہیں نظر آ رہا تھا……لیکن اللہ رکھی کی نظریں اب بھی اسی طرح قبرستان کی طرف لگی ہوئی تھیں جیسے اسے سب کچھ نظر آ رہا ہو……جب آسمان پر بجلی چمکتی تو مجھے لمحہ بھر کے لئے وہ دیوانہ نظر آ جاتا……وہ کبھی دوڑتا ہوا کسی پیلو کے درخت کی آڑ میں کھڑا ہو جاتا اور کبھی بیری کے……بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بارش کے پانی سے بچنے کی خاطر پناہ کی تلاش میں ہے……حالانکہ اس کی یہ بے چینی اور اضطراب کسی اور وجہ سے تھا……بارش اتنی تیز اور موسلا دھار ہو رہی تھی کہ چند منٹوں میں ہی قبرستان جل تھل ہو گیا۔ اور اس دیوانہ کی پانی میں بھاگنے کی آواز سنائی دے رہی تھی……وہ پانی میں بھیگتا ہوا اور ٹھنڈ سے کانپتا ہوا پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتا رہا……نجانے کتنی بار وہ ٹھوکریں کھا کر زمین پر گرا……پھر دوڑنے لگا۔

                آخر کار……اللہ رکھی نے مجھ سے کہا……خان! کمرہ کا بلب جلا دو۔

                میں اس کے حکم کی تعمیل میں اٹھا۔ اور اندازہ سے دیوار کے پاس پہنچ کر بجلی کا سوئچ دبا دیا……سوئچ دباتے ہی کمرہ میں روشنی پھیل گئی۔ ابھی میں کرسی پر بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ کیچڑ میں لت پت اس دیوانہ کو دروازہ پر کھڑا دیکھا۔

                دیوانہ کو دیکھتے ہی اللہ رکھی نے نہایت ہی دلکش آواز میں کہا……اندر آ جائو نجم خان۔

                دیوانہ نے گھور کر اللہ رکھی کو دیکھا۔ اور اس کی آنکھوں میں خوف جھلکنے لگا……اللہ رکھی اس سے دوبارہ مخاطب ہوئی……ڈرو نہیں نجم خان!……بے خوف ہو کر اندر چلے آئو۔

                اس آواز کو سن کر نجانے اس دیوانہ نجم کو کیا ہوا۔ وہ تیزی سے کمرہ میں داخل ہوا اور اللہ رکھی کے قدموں میں سر رکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رو رو کر اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کر رہا ہو۔


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء