Topics

مکہ معظمہ میں


                پائیلٹ کے خاموش ہوتے ہی ہر شخص سراسیمگی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگا……جہاز نے ایک غوطہ لگایا۔ اور بادلوں کے نیچے آ گیا……میں نے اپنے قریب والی کھڑکی سے باہر کی جانب دیکھا……ہوائی جہاز دم بدم نیچے آ رہا تھا۔ اور زمین اوپر کو اٹھتی ہوئی معلوم دے رہی تھی۔ ائیر ہوسٹس اور اسٹیورڈ ہر مسافر کو ایک ایک تکیہ دے رہے تھے……جنہیں وہ اپنے سامنے کی جانب رکھ کر اس پر سر رکھ رہے تھے……میں نے اور اللہ رکھی نے بھی تکیوں پر سر ٹکا دیئے……کوئی تین منٹ کے بعد ہی گرد و غبار کا طوفان سا اٹھا اور ہمارا جہاز ریگستان میں دور تک پھسلتا چلا گیا……اسٹیوارڈ نے فوراً ہی ہنگامی دروازہ کھول دیا۔ اور مسافر اس سے کودنے لگے……یہ ایسی صورتحال تھی کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی……میں بھی جہاز سے کود گیا……ریت پر گرتے ہی کسی کی آواز کانوں سے ٹکرائی……جہاز سے دور چلے جائو……اس کے ایک ونگ میں آگ لگ چکی ہے……میں نے کپڑوں سے مٹی جھاری اور بے تحاشا ایک چھوٹے سے ٹیلے کی طرف بھاگتا چلا گیا……ٹیلہ پر پہنچ کر ذرا حواس درست ہوئے تو دیکھا کہ ہوائی جہاز کے ایک بازو میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اور مرد، عورتیں اور بچے اس سے دور بھاگ رہے ہیں……انسانوں کے اس مجمع میں مجھے ‘‘اللہ رکھی’’ کا خیال آیا……لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی……میں نے یونہی ماحول کا جائزہ لینے کی خاطر اپنے اطراف میں نظریں ڈالیں، اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ریت کے اس ٹیلہ کی دوسری جانب ایک ہی سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے۔ اور اس پہاڑی کے دامن میں نہایت ہی صاف ستھری……خوشنما بستی……ہے۔ اس بستی کے وسط میں ‘‘خانہ کعبہ’’ نظر آیا……تو کیا……میں ‘‘مکہ’’ پہنچ گیا ہوں۔ مجھے ایک دم سے خیال آیا۔ اور دوسرے ہی لمحہ میرے قدم خود بخود اس بستی کی طرف اٹھنے لگے……ٹیلہ سے اترتے ہوئے میں نے آسمان کے افق پر نظر نظر ڈالی۔ ستارے دھندلا چکے تھے۔ اور آسمان پر شفق کی لالی سورج کے برآمد ہونے کی خوشخبری دے رہی تھی۔

 

                                میں بستی میں داخل ہو گیا۔ مٹی کے بنے ہوئے مکانوں کی ڈھلوا ن دیواروں کے دامن میں……کہیں کہیں اونٹ بیٹھے جگالی کر رہے تھے۔ اور کبھی کبھی ان کے بلبلانے کی بھی آواز سنائی دیتی تھی……پوری بستی پر سناٹا چھایا ہوا تھا……البتہ سپیدہ سحر کے پھیلتے ہی مختلف مکانوں کے دالانوں سے مویشیوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں……کہیں کہیں مکانوں کے احاطہ سے کھجور کے درخت بھی سرنکالے جھانک رہے تھے……میں اس بستی کی مختلف گلیوں سے گزر رہا تھا……میرا ارادہ مسجد حرام یعنی ‘‘خانہ کعبہ’’ میں جانے کا تھا۔

                یہ ‘‘مکہ’’ کی صبح صادق تھی……آسمان پر پھیلی ہوئی شفق کی لالی دھندلانے لگی تھی……دھندلکا اور اجالا ایک دوسرے میں گھل مل گئے تھے……سورج مشرق کے دریچوں سے جھانکنے ہی والا تھا……مہ و نجم رات کے مسافر درخت سفر باندھ چکے تھے……بساط شب الٹی جا چکی تھی……اس کے مہرے آپ ہی آپ بکھرے جا چکے تھے……ڈھلواں مٹی کی دیواروں کے اندر لوگ ابھی تک باد نسیم کے مزے لے رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ابھی تک اس بستی پر سکوت شب چھایا ہوا تھا……کسی کسی مکان کے اندر سے اونٹوں کے گلے کی گھنٹیاں بجنے کی آواز آ جاتی تھی۔

                اہل مکہ کے گھروں پر ابھی تک نیند کی خاموشی چھائی ہوئی تھی……مجھے کوئی راستہ بتانے والا نہ تھا۔ بس اپنے قیاس کے مطابق ‘‘خانہ کعبہ’’ کی جانب چلا جا رہا تھا۔

 

                اچانک میں ایک ایسی گلی میں داخل ہو گیا……جو کہ قدرے چوڑی تھی۔ اس گلی کے تمام مکانوں کی چھتیں بلند تھیں۔ اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھیں……نہ جانے کیا بات تھی کہ اس گلی میں داخل ہوتے ہی دل میں ایک خوشی سی محسوس ہوئی……ذہن کے کسی گوشہ سے خود بخود یہ آواز بلند ہوئی……یہ قبیلہ قریش کے مکانات ہیں……رحمت عالم ﷺ کے اجداد کے مکانات میری نگاہوں کے سامنے تھے……اف! کتنا خوش نصیب تھا میں……حیرت اور خوشی سے میرے پائوں بھاری ہو گئے۔ اور میں بڑی ہی عقیدت سے ان مکانوں کو دیکھنے لگا۔

                ابھی میں نظر بھر کر ان مکانوں کو دیکھ ہی رہا تھا……کہ دماغ میں ایک دوسرا خیال آیا……کہ یہ قبیلہ قریش ہی کے لوگ تھے جنہوں نے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی دل میں نفرت سی پیدا ہو گئی اور میں آگے بڑھ گیا……گلی کے وسط میں پہنچا۔ تو احساس ہوا……یہ ‘‘بنو ہاشم’’ کے مکانات ہیں……اس احساس کے ہوتے ہی میں عقیدت سے ٹھٹک کر رہ گیا۔ ‘‘بنو ہاشم’’ کے ایک قدرے طویل و عریض مکان کے دروازہ کے پاس ایک باوقار شخص سیاہ کمبل اوڑھے حالت ‘‘استغراق’’ میں بیٹھا تھا……اس کی کمر دیوار سے لگی ہوئی تھی اور نگاہیں آسمان کے افق پر جمی ہوئی تھیں……یہ شخص اپنی سوچ میں اس قدر گم تھا کہ اسے ابھرتے ہوئے سورج تک کا احساس نہیں تھا……اس کے قریب ہی چند……باریش اشخاص بیٹھے ہوئے تھے……اب خوب، دھوپ پھیل چکی تھی پرندے چہچہا رہے تھے……اونٹ بلبلا رہے تھے……بکریاں ممیا رہی تھیں……اور لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو چکی تھی……مگر یہ شخص اپنے خیالات میں مستغرق تھا……غو ر و فکر کی شدت نے اس شخص کو صبح کے ہنگاموں سے بالکل ہی بے خبر کر دیا تھا……خاندان کے باریش لوگ اس کی طرف حیرت و تجسس سے دیکھ رہے تھے۔ اس شخص کو پہلے کبھی اتنا غور و فکر کرتے نہیں دیکھا گیا۔ میرے ذہن میں فوراً ہی خیال آیا……یہ ‘‘عبدالمطلب’’ ہیں ‘‘خاندان بنو ہاشم’’ کا سردار، خانہ کعبہ کا متولی میرے سامنے موجود تھا……تو کیا……میں ماضی میں پہنچ چکا تھا۔ چودہ سو سال کا زمانہ میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ اور میں خود اس زمانے میں موجود تھا……مجھے صرف اس بات کا احساس تھا کہ میں چودہ سو سال بعد کا انسان، چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں موجود تھا۔ میرا شعور پوری طرح سے بیدا رتھا۔ اور میں ہر طرح بات کو سمجھ سکتا تھا۔

                جب سورج اس بستی کے مکانوں پر چڑھ آیا اور عبدالمطلب کا چہرہ اس کی تپش کی شدت سے عرق آلود ہو گیا تو وہ استغراق سے چونکا۔ اس نے اپنی قبا کے دامن سے چہرہ کا پسینہ پونچھا۔ اور متلاشی نگاہوں سے خاندان کے افراد کو دیکھتے ہوئے کہا……اسے بلائو……میں رب کعبہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا۔

                عبدالمطلب ‘‘استغراق’’ سے بیدار ہو گئے ہیں……یہ اطلاع اندرون خانہ پہنچی تو خواتین اور بچے کھچے افراد خاندان بھی دروازہ پر آ گئے۔

                خاندان کے ایک باریش شخص نے ہمت کر کے پوچھا۔ تم نے ‘‘رب کعبہ’’ سے کب اور کیا وعدہ کیا تھا۔

                آج سے بیس سال پہلے کی بات ہے ……عبدالمطلب نے بڑے ہی تحمل سے بتانا شروع کیا……جب کہ مکہ کے تمام کنوئوں کا پانی خشک ہونے لگا تھا……میں نے رب کعبہ سے دعا کی تھی کہ مجھے ‘‘چاہ زم زم’’ بتا دے۔

                وہ تو تمہیں خواب میں بتا دیا گیا تھا……ایک دوسرے باریش نے بات پوری کی۔

                ہاں۔ تم سچ کہتے ہو……لیکن تمہیں یاد ہو گا……عبدالمطلب نے اسے یاد دلایا کہ یہ چشمہ آب گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گیا تھا۔ اور ہم سے پہلے والے لوگوں نے اس جگہ بتوں کی قربان گاہ قائم کر لی تھی اور جب میں رب کعبہ کے اشارہ کے مطابق اس جگہ کو کھودناچاہتا تھا تو سب لوگوں نے میری مخالفت کی تھی۔

                ہاں……ہاں……یہ ہمیں یاد ہے……اسی باریش شخص نے عبدالمطلب کی تائید کی۔

                تو تمہیں یہ بھی یاد ہو گا……عبدالمطلب نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا……اس مخالفت کرنے میں ‘‘صحن کعبہ’’ میں گیا تھا……اور ‘‘رب کعبہ’’ سے دعا کی تھی……کہ اے رب مجھے دس بیٹے عطا کر اور اگر تو نے میری زندگی ہی میں انہیں جوان کر دیا تو میں ایک بیٹا تیرے نام پر قربان کر دوں گا۔

                ہاں۔ تم صحن کعبہ میں تو گئے تھے……ایک دوسرا باریش شخص بولا……ہمیں تمہاری دعا کا بھی علم ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ‘‘رب کعبہ’’ تمہاری دعا ضرور قبول کرتا ہے……تم اس کے محبوب بندے ہو۔

                رب کعبہ نے میری دعا پوری کر دی ہے……عبدالمطلب نے کہا۔ میرے پاس دس بیٹے……میری زندگی ہی میں جوانی کو پہنچ گئے ہیں۔ اب میرا بھی فرض ہے کہ‘‘رب’’ سے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کروں۔

                یہ سن کر تمام افراد خاندان ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے……عبدالمطلب کی بزرگی کو سب جانتے تھے۔ عبدالمطلب نے ان سب کو خاموش دیکھا تو دوبارہ بولے……تین دن ہوئے جب کہ مجھے اشارہ ہوا کہ اپنی ‘‘منت’’ پوری کروں……اور تین دن ہی سے میں اپنے بیٹوں کے نام ‘‘قرعہ’’ ڈال رہا ہوں ۔ جس میں سب سے چھوٹے بیٹے ‘‘عبداللہ’’ ہی کا نام نکل رہا ہے۔ لہٰذا آج میں اپنے بیٹے ‘‘عبداللہ’’ کو ‘‘خانہ کعبہ’’ کے سائے میں قربان کروں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے قریب ہی رکھی ہوئی چھری اٹھائی اور اس کی دھار پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگے۔

                میں عبدالمطلب کو صاف دیکھ رہا تھا۔ ان کی باتیں سن رہا تھا۔ سمجھ رہا تھا لیکن تعجب کی بات یہ تھی ان میں سے کسی بھی میری موجودگی کا احساس تک نہیں تھا۔

                جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر سارے شہر ‘‘مکہ’’ میں پھیل گئی کہ عبدالمطلب اپنے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے ‘‘عبداللہ’’ کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر قربان کرنے والے ہیں……قبیلہ قریش کے لوگ خاص طور سے عبدالمطلب کے گھر کی طرف آنے لگے ……اس کے علاوہ اور بھی جس کسی نے ‘‘عبدالمطلب’’ کی قربانی کا سنا، وہ اسی طرف چل دیا……عبداللہ اپنے دوسرے بھائیوں ‘‘حارث’’ ‘‘ابو طالب’’ وغیرہ کے ہمراہ پہنچ گئے……اتنے میں عبداللہ کے ننھیال والے بھی آ گئے……عبداللہ باپ کے دائیں جانب چپ چاپ کھڑے تھے۔ باپ کے ایک ہاتھ میں چھری تھی اور دوسرے ہاتھ میں پیارے بیٹے کا ہاتھ تھا……سب کی نگاہیں عبداللہ پر جمی ہوئی تھیں۔

                عبدالمطلب نے لوگوں کی ہمدردی کے اس منظر کو دیکھ کر کہا……میری ‘‘منت’’ کا سب کو علم ہے میں تین راتوں سے قرعہ اندازی کر رہا ہوں۔ او ر ہر بار قرعہ عبداللہ ہی کے نام کا نکلتا ہے۔ لہٰذا آج اپنے ‘‘رب’’ کے حضور اس کو قربان کر کے منت پوری کروں گا۔

                یہ سن کر عبداللہ کے ننھیال والے آڑے آ گئے……اور عبدالمطلب کے بڑے بیٹے ‘‘ابو طالب’’ نے آگے بڑھ کر کہا……یہ نہیں ہو سکتا۔ پہلے ہم سب بھائیوں کی گردن پر چھری پھیردو۔ پھر ‘‘عبداللہ’’ کو ‘‘قربان’’ کر دینا۔

                یہ عجیب صورتحال تھی……دونوں طرف سے کوئی بھی اپنی بات سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا……عبدالمطلب کے ہاتھ میں چھری تھی۔ لیکن بھائیوں کے سینے ان کے سامنے سپر بنے ہوئے تھے۔ کچھ جہاندیدہ لوگ عبدالمطلب کو سمجھا رہے تھے کہ اگر انہوں نے اپنا ایک بیٹا قربان کر دیا تو یہ روایت پڑ جائے گی۔

                لوگ ‘‘منت’’ پوری ہونے پر اپنے ایک بیٹے کو قربان کرنے لگیں گے……عبدالمطلب لوگوں کے سمجھانے کے باوجود اپنی ضد پر قائم تھے……ان کا کہنا تھا کہ چاہے دنیا ادھر ہو جائے میں اپنے ‘‘رب’’ سے وعدہ خلافی نہیں کر سکتا……‘‘منت’’ کا پورا کرنا ہر محبت اور تعلق سے بڑھ کر ہے۔

                جب لوگوں نے دیکھا کہ عبدالمطلب اپنی بات سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ اور ممکن ہے کہ یہ تنازعہ سنگین صورت حال اختیار کر لے……ایک ضعیف العمر بوڑھے عرب نے مشورہ دیا……بنو عامر کے محلہ میں ایک کاہنہ رہتی ہے……چلو اس کے پاس چلتے ہیں۔ اور اس بارے میں وہ جو مشورہ دے گی اس پر عمل کریں گے۔

                عبدالمطلب اور ان کے سسرال والے اس بات پر راضی ہو گئے۔ اور پھر یہ دونوں خاندان……دوسرے لوگوں کے ہمراہ اس کاہنہ کے ٹھکانے کی طرف چل دیئے۔

                میں اس جم غفیر میں ایک تماشائی کی حیثیت سے شامل تھا۔ یہ مجمع اس کاہنہ کے ٹھکانے پر پہنچا تو عبدالمطلب اپنے بیٹوں اور سسرال والوں کے ہمراہ اندر چلے گئے اور باقی کے تمام لوگ دروازہ ہی پر رک گئے……مجھے وہ کاہنہ صاف نظر آرہی تھی……وہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی……اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ گرد آلود تھا۔ اس کے جسم پر کپڑے برائے نام تھے۔ جس کے نیچے سے اس کا کالا جسم جھانک رہا تھا……جسم پر میل کی چادر تہہ در تہہ چڑھی ہوئی تھی……اس کے گلے میں بکرے کے سرہار کی صورت میں لٹک رہا تھا……ہاتھوں، بازوئوں اور پیروں پر لوہے کے موٹے موٹے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ اس کے چہرے پر لال پیلی آنکھیں اسے مزید بھیانک بنا رہی تھیں……اس نے اپنی تنی ہوئی بھنوئوں سے ان سب کی طرف دیکھا۔ اور پھر زیتون کی لکڑی سے فرش پر لکیر کھینچ کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا……فرش پر بیٹھنے کے بعد عبدالمطلب کے سسرال والوں نے تمام واقعہ بیان کیا……کاہنہ نے کچھ دیر کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور غور و فکر میں ڈوب گئی……پھر دوسرے ہی لمحہ……اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور بڑے ہی گھمبیر لہجہ میں بولی……منت دوسرے طریقہ سے بھی پوری کی جا سکتی ہے۔

                وہ طریقہ کیا ہے……سب نے یک زبان ہو کر پوچھا۔

                اس کا طریقہ یہ ہے……کاہنہ اسی لہجہ سے بولی……کہ ‘‘عبداللہ’’ کے نام کے ساتھ دس اونٹوں کے نام کا بھی قرعہ ڈالتے جائو اور جب تک اونٹوں کے نام قرعہ نہ نکل آئے ہر بار دس اونٹ بڑھاتے جائو……اور جب جتنے بھی اونٹوں پر قرعہ نکل آئے انہیں ذبح کر دیا جائے۔ منت پوری ہو جائے گی۔

                یہ سن کر سب لوگ خوشی خوشی کاہنہ کے پاس سے چلے آئے۔ اور ایک بار پھر عبدالمطلب کے گھر پر لوگ جمع ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر قبیلہ قریش اور ‘‘بنو ہاشم’’ کے لوگ شامل تھے۔

                عبدالمطلب اپنی منت پوری کرنے کی خاطر بے چین تھے……مضطرب تھے……وہ ‘‘رب کعبہ’’ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تھے……آج سے کئی ہزار سال پہلے بھی اسی سرزمین مکہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ جب کہ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے ……حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا……تاریخ نے کئی ہزار سال پہلے کے زمانہ کوپھر سے دوہرانا شروع کر دیا تھا……قدرت الٰہی مٹی سے بنے ہوئے اس انسان کو ایک بار پھر ‘‘عشق الٰہی’’ کے پیمانہ پر تول رہی تھی……وہ زمین……وہی شہر……وہی نسل……وہی گھرانہ……ان اسرار پر ابھی تک قدرت نے نورانی حجاب ڈال رکھا تھا……جس کے اٹھنے کے لئے مہ و ماہ تک منتظر تھے۔

                واپس گھر آ کر عبدالمطلب نے پھر قرعہ اندازی شروع کی۔قرعہ ہر بار عبداللہ ہی کے نام نکلتا رہا اور عبدالمطلب ہر بار دس اونٹوں کی تعداد بڑھاتے جاتے تھے……تمام خاندان کے افراد سراسیمگی اور حیرت سے قرعہ اندازہ دیکھ رہے تھے۔

                آخر کار جب اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی تو قرعہ عبداللہ کے بجائے اونٹوں کا نکل آیا۔ اور تمام خاندان کے افراد نے سکھ اور چین کا سانس لیا……عبدالمطلب قرعہ نکلنے کے بعد اپنے مویشیوں کے ریوڑ میں آئے اور اپنے نہایت ہی فربہ سو اونٹ الگ کر کے انہیں اللہ کے نام پر قربان کر دیا اور اس طرح آپ کی منت پوری ہو گئی۔

                ایک سیکنڈ سے کم وقفہ کے لئے میری پلکیں جھپکیں۔ اور ایک نیا منظر میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ پلکیں جھپکانے کے بعد……جو منظر میرے سامنے تھا۔ وہ ناقابل بیان تھا……عبداللہ کو نئی زندگی ملی تھی۔ وہ ذبح ہوتے ہوتے رہ گئے تھے……قربانی کی منت دوسری طرح پوری ہو گئی تھی……زمانے نے ایک مرتبہ پھر سے خود کو دوہرایا تھا……آج سے کئی ہزار سال پہلے اسی سرزمین‘‘مکہ’’ میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم کے ساتھ بھی ایسا ہی واقع پیش آیا تھا جب کہ آپ علیہ السلام نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج پھر……اس سرزمین پر……اسی گھرانے میں انسانی جان کی قربانی کو دہرایا گیا تھا۔

 

                عبداللہ کی قربانی کا کیا مطلب تھا……تاریخ کو کیوں دہرایا گیا تھا……میرے ذہن میں سوالات ابھرے……جن کا صرف یہی جواب تھا……کہ اس راز پر ‘‘نوری حجاب’’ کے پردے پڑے رہنے دو۔ انسانی فہم اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔

                عبدالمطلب کے یوں تو دس بیٹے تھے لیکن اس میں حسن و جوانی کا بہترین امتیاز یہی سب سے چھوٹا بیٹا تھا……اس کے بیضوی چہرہ میں بلا کی کشش تھی……وہ مردانہ وجاہت کا ایسا نمونہ تھا کہ جو دیکھتا تھا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا……اللہ نے حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت بھی عطا کی تھی……وہ مکہ کی بہت سی دوشیزائوں کے خواب کا شہزاہ تھا……کئی کی خواہش تھی کہ……عبداللہ ان کی قسمت کا مالک بن جائے……اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے……وہ اپنے حسن و جوانی کے حربے بھی استعمال کرتی تھیں۔

                گو کہ مکہ کا ماحول فواحش اور بدکاریوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ مگر اس خوبرو، حسین و جمیل عبداللہ کی طبیعت کا میلان شروع ہی سے پاکبازی اور نیکی کی طرف تھا……خانہ کعبہ کا……نیم برہنہ عورتیں طواف کرتیں تو وہ آنکھیں بند کر لیتا……حتیٰ کہ جوانان قریش رنگ رلیوں میں مصروف ہوتے تو وہ دامن بچا کر نکل جاتا……اسی طرح ایک رات جب کہ چاند سفید بادلوں سے اٹھکیلیاں کر رہا تھا اور ہر جانب ……پرہول سناٹا چھایا ہوا تھا……مٹی کے بنے ہوئے مکان چاندنی میں چمک رہے تھے……میں نے کسی کے تیز تیز قدموں سے چلنے کی آواز سنی……کیا دیکھتا ہوں……وجیہہ شکل عبداللہ ہاتھوں میں……اونٹوں کے گلے میں باندھنے والی گھنٹیاں اٹھائے چلا آ رہا ہے……ابھی وہ مجھ سے کچھ ہی دور گیا تھا……کہ درمیانہ درجہ کے ایک مکان کا دروازہ کھلا……اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے چاند زمین پر اتر گیا ہو……ایک نہایت ہی حسین و جمیل دوشیزہ نے عبداللہ کو آہستہ سے آواز دی……عبدالمطلب کے بیٹے……میری بات سنو۔ آواز سنتے ہی عبداللہ کے قدم رک گئے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا……آواز دینے والی حسین دوشیزہ اسے اشارہ سے اپنے قریب بلا رہی تھی……عبداللہ نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ جیسے اسے شبہ ہو کہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے……لیکن وہاں کوئی اور موجود نہیں تھا……شاہراہ سونی پڑی تھی۔

                جب عبداللہ کو یقین ہو گیا کہ دوشیزہ اسی سے مخاطب ہے تو دو چار لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا……دروازہ پر اس کے قریب پہنچ گیا……دوشیزہ سر سے لے کر پائوں تک حسن و جوانی کا لاجواب‘‘مرقع’’ تھی۔ عبداللہ نے اسے دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گیا……دوشیزہ کے نازو ادا سے بھرپور اشاروں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنا سراپا اس کے حوالہ کرنا چاہتی ہے……لیکن نیک باطن عبداللہ اس کی ہر پیشکش کو ٹھکر ارہا ہے……کچھ دیر تک دونوں میں کبھی گرما گرمی اور کبھی پیار و محبت کی باتیں ہوتی رہیں……پھر عبداللہ غصہ سے بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ اور اس کے جانے کے چند لمحہ بعد ہی دوشیزہ نے بھی جھنجھلا کر دروازہ بند کر لیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن کا ایک دریچہ اور کھل گیا……یہ ‘‘مکہ’’ کی سب سے حسین دوشیزہ‘‘خشعمہ’’ کی بیٹی تھی۔ اس نے رات کے سناٹے میں ‘‘عبداللہ’’ کو قریب بلا کر اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا……حسن و جوانی خود دعوت عیش دے رہا تھا……عبداللہ کے جسم میں بھی جوان دل تھا……گرم خون دہکتا ہوا……نفس نے ابھارا کہ ایسے حسین مواقع بار بار نہیں آتے……آگے بڑھو اور حسن و جوانی کے اس پیکر کو اپنی آغوش میں سمیٹ لو……لیکن فوراً ہی عبداللہ کے ضمیر نے للکارا……خبردار! جو جنبش بھی کی۔ تو آل ابراہیم علیہ السلام سے ہے، جن کی پاک باطنی اور غیرت و شرم کی قسمیں ‘‘اللہ’’ بھی کھاتا ہے……ضمیر کی اس آواز پر عبداللہ نے لبیک کہا۔ اور دوشیزہ کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا……عبداللہ کا رویہ دوشیزہ کی توقع کے خلاف ظاہر ہو رہا تھا……آخر میں اس نے صرف ایک رات کے عوض سو سرخ اونٹ تک دینے کا وعدہ کیا……لیکن شکیل و وجیہہ عبداللہ کا صرف ایک ہی جواب تھا……‘‘حرام فعل’’ کے ارتکاب سے تو مر جانا بہتر ہے۔ تم مجھے بہکاتی ہو۔ جبکہ میں ‘‘ہاشم’’ کے شریف اور نیک خاندان سے ہوں۔ اور شریف آدمی اپنے دین و عفت کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر عبداللہ چلا گیا۔ اور دوشیزہ اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتی رہ گئی……اس کے بعد میری……نظروں کے سامنے……دھند چھانے لگی……میں نے کئی بار پلکیں جھپکائیں لیکن میری نگاہوں کے سامنے سے سب کچھ اس طرح غائب ہو رہا تھا جیسے فلم کا منظر فیڈ آئوٹ ہوتا ہے۔ میں نے پریشان ہو کر دونوں ہاتھوں سے آنکھیں بند کر لیں۔

 

 

 

 



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء