Topics

کائناتی سسٹم


                یہ تسخیر‘‘جن’’ کا عمل ہے……اللہ رکھی بولی……اس عمل کے دوران اگر تم سے ذرا سی بھی چوک ہو گئی تو تم شمیم کو نہیں حاصل کر سکو گے۔

                حضرت! آپ مطمئن رہیں……نجم خان نے اعتماد سے کہا……آپ مجھے وہ عمل بتایئے۔

                عمل سیکھنے سے پہلے……اللہ رکھی نے اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا……تمہیں چند باتوں کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔

                میں تمام پابندیوں کے لئے تیار ہوں……نجم خان نے بے چینی سے کہا۔

                سب سے پہلے تو تمہیں ہر وقت پاک و صاف رہنا ہو گا……اللہ رکھی نے ہدایت کی……دوئم جب تک تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتے……تمہیں صرف دودھ پر گزارا کرنا ہو گا۔

                صرف دودھ پر……میں نے تعجب سے پوچھا۔

                چپ رہو تم……اللہ رکھی نے پیار سے ڈانٹا……تم تو کچھ نہیں کر سکتے……پھر وہ نجم خان سے مخاطب ہوئی ۔ بولو تیار ہو۔

                ہاں۔ میں تیار ہوں……نجم خان نے جھٹ سے جواب دیا۔

                تمہیں ‘‘مکلی’’ جانا ہو گا……اللہ رکھی نے جیسے حکم دیا……وہاں دو سو سال پرانا ایک مقبرہ ہے جس کی شکل اس طرح کی ہے۔

                آخری الفاظ کے ساتھ ہی اس نے نجم خان کی طرف ایک کاغذ بڑھا دیا……نجم خان نے جلدی سے سے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا……مجھے تعجب اس بات پر تھا کہ اللہ رکھی تو خالی ہاتھ بیٹھی تھی……پھر یہ ایکا ایکی کا غذ اس کے ہاتھ میں کہاں سے آ گیا؟

                اس کاغذ پر کسی کے مقبرہ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جسے وہ بڑی ہی حیرانگی سے دیکھ رہا تھا……اور میں سوچ رہا تھا……کہ ممکن ہے ’وہ یہ کاغذ اپنے ساتھ ہی لے کر آئی ہو’ اور اپنے قریب ہی صوفہ پر رکھ دیا ہو۔

                یہی ہے……یہی ہے……نجم خان تصویر پر نظریں گاڑے ہوئے بڑبڑایا ……یہی وہ جگہ ہے۔

                کونسی جگہ……اللہ رکھی نے مسکرا کر پوچھا۔

                جہاں شمیم مجھے لے کر گئی تھی……نجم خان نے تصویر پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا……جہاں سلاسل سو رہا تھا۔

                یہی سلاسل کا ٹھکانہ ہے……اللہ رکھی نے بتایا……اس نے تمہاری شمیم کو یہیں قید کر رکھا ہے۔

                تو پھر میں ‘‘مکلی’’جاتا ہوں……نجم خان نے جواب دیا۔ اور غصہ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔

                بیٹھ جائو……اللہ رکھی نے قدرے غصہ سے کہا……تم پھر جذبات میں آگئے ہو……کیا تم اس طرح……اس پر آسانی سے قابو حاصل کر لو گے۔ جب کہ وہ بے انتہا طاقتور ہے……اور تمہیں اس کی طاقت کا بھی اندازہ ہو چکا ہے۔

                یہ سنتے ہی نجم خان دوبارہ اپنی جگہ پر اس طرح بیٹھ گیا جس طرح ابلتا ہوا دودھ آنچ کم کرنے سے بیٹھ جاتا ہے۔

                میں تمہیں بار بار سمجھا چکی ہوں……اللہ رکھی نے اسی طرح غصہ سے کہا……اور اب آخری بار سمجھا رہی ہوں کہ اگر تم نے ہوش کی بجائے جوش سے کام لیا……تو کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔

                میں نادم ہوں……نجم خان نے شرمندگی سے جواب دیا۔

                غلطی کو بار بار نہیں معاف کیا جاتا……اللہ رکھی کا لہجہ پہلے ہی جیسا تھا۔

                میں وعدہ کرتا ہوں’اب ہوش سے کام لوں گا……نجم خان نے ملتجی لہجہ می کہا۔

                لیکن……بہتر ہے……پہلے تمہارا جوش ختم کر دیا جائے……اللہ رکھی نے جواب دیا پھر نرم لہجہ میں بولی ویسے بھی ابھی ‘‘وقت’’ ہے۔

                تو……تو……پھر میں کیا کروں……نجم نے پوچھا۔

                تم آج رات سے روزانہ ایک ہزار بار سورہ فاتحہ پڑھا کرو……اللہ رکھی نے کہا۔ پھر ا س کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولی……وہ تصویر مجھے واپس دے دو۔

                نجم خان نے تصویر واپس دے دی۔ اللہ رکھی نے تصویر لے کر کہا……آج سے تم صرف دودھ پر گزارا کرو گے۔

                اور میں کیا کروں گا……میں نے ازراہ مذاق پوچھا۔

                تم مزے کرو……اس نے کہا اور اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی……پھر بغیر کچھ کہے سنے اپنے کمرے میں چلی گئی۔

 

                اسی رات سے نجم خان نے عشاء کی نماز کے بعد سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کر دی۔ ساتھ ہی اس نے دودھ بھی پینا شروع کر دیا……کھانے کے وقت شمرال میرے لئے تو سبزی اور گوشت وغیرہ لے آتا تھا لیکن نجم خان کے لئے صرف دودھ ہوتا تھا……تین چار دن کے اندر ہی نجم خان میں نمایاں تبدیلی ہونے لگی۔ وہ ہر وقت اپنی شمیم کی یاد میں کھویا رہتا تھا……اب دوسری باتیں بھی کرنے لگا……اسی دوران ایک عجیب انکشاف اور بھی ہوا……جب تک وہ وظیفہ پڑھتا رہتا تھا کسی قسم کا اسے خوف نہیں ہوتا تھا لیکن جونہی وہ وظیفہ ختم کر کے اٹھتا تھا اور سونے کے لئے بستر پر لیٹتا تھا……تو طرح طرح کے وسوسے……وہم اور اضطراب انگیز تصورات اس پر حاوی ہونے لگتے……فضا میں پر اسرار آوازیں سنائی دینے لگتیں اور کبھی کبھی اسے یہ محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی نادیدہ شخص کمرہ کی کھڑکی اور دروازے سے اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ ایسا بے خوف عاشق تھا……کہ صرف چونک کر ادھر ادھر اس طرح سے دیکھتا تھا……جیسے دشمن کو تلاش کر رہا ہو……اس کی کیفیت دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوال ابھرتے تھے……لیکن میں اس سے ……اس لئے زیادہ بات نہیں کرتا تھا کہ کہیں اللہ رکھی ناراض نہ ہو جائے……اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا……اس ایک ہفتہ گزرنے کے بعد……ایک دن جب کہ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی……نجم خان وظیفہ ختم کر کے بستر پر سونے کے لئے لیٹا ہی تھا……کہ شمرال کمرہ میں داخل ہوا۔ اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی……اور نجم خان کو اشارہ سے اپنے قریب بلایا……اس کے خیال کے مطابق میں سو چکا تھا……حالانکہ میں صرف آنکھیں بند کئے لیٹا تھا اور جونہی شمرال……اندر داخل ہوا……میں آدھی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا……نجم خان فوراً بستر سے اٹھا اور شمرال کے قریب پہنچ گیا……شمرال نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا اور پھر……اسے بازو سے پکڑ کر دبے پائوں اندرونی کمرہ میں لے گیا……میں نے ان کے جاتے ہی پوری……آنکھیں کھول دیں……نجم خان واقعی اپنے پلنگ پر موجود نہیں تھا۔ اور اندرونی کمرے کا دروازہ بھی بند تھا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا……کہ شمرال نجم خان کو لے کر اندر کیوں گیا……جب کہ مجھے یہاں رہتے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا……لیکن شمرال نے کبھی بھی اپنی ڈرائنگ روم سے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔ پھر نجم خان تو نیا نیا تھا۔ شمرال اسے اندر کیوں لے گیا……پھر میں نے سوچا……ممکن ہے کہ اسے اللہ رکھی نے بلایا ہو۔ میں نے رات کا پچھلا حصہ اسی انتظار میں گزارا……پھر صبح کاذب کے وقت نیند نے زبردست غلبہ کیا……اور میں سو گیا۔

 

                اس دن……میں نجم خان سے کوئی بات نہ کر سکا……اور نہ ہی یہ معلوم کر سکا کہ آدھی رات کو شمرال اسے لے کر کہاں گیا تھا……میں چاہتا تھا کہ نجم خان خود ہی سب کچھ بتا دے……لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کچھ نہ بتانے کی قسم کھا رکھی ہے۔

                اس رات کے بعد……ہر رات یہی ہوتا تھا……کہ میں اپنے بستر پر آنکھیں بند کئے لیٹا ہوتا تھا اور شمرال آدھی رات گزرنے کے بعد نجم خان کو اٹھا کر لے جاتا تھا……اس طرح ایک ہفتہ سے زیادہ گزر گیا اور میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا……اس دن بھی نجم خان حسب معمول کھڑکی میں کھڑ اقبرستان کا نظارہ کر رہا تھا……سورج غروب ہو چکا تھا اور رات کا دھندلکا پھیلنے کو تھا……شمرال ہم دونوں کے لئے چائے میز پر رکھ کر جا چکا تھا……کہ میں نے نجم خان کو مخاطب کیا……چائے آ گئی ہے پی لو۔ میری آواز سن کر وہ کھڑکی سے ہٹ گیا اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر کیتلی سے چائے کپ میں انڈیلنے لگا……کہ میں نے پوچھا……یہ آدھی رات کے بعد……تم کہاں جاتے ہو……میری بات سن کر اس نے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔

                تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا……میں نے پوچھا۔

                تم اللہ رکھی کو کب سے جانتے ہو……اس نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا۔

                تقریباً ایک سال سے……میں نے جواب دیا۔

                اتنے عرصہ میں تم اسے جانتے ہو……نجم خان نے کہا……اور پھر بھی مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ رات کو کہاں جاتا ہوں۔

                ہاں۔ کیونکہ میں کبھی بھی اس مکان کے اندرونی حصہ میں نہیں گیا……میں نے کہا۔

                ہونہہ۔ مکان کا اندرونی حصہ……وہ زیر لب بڑبڑایا۔ پھر چائے کا گھونٹ لے کر بولا۔ میری خود سمجھ میں نہیں آتا کہ جب اس مکان کے اندرونی حصہ میں داخل ہوتا ہوں……تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پرانے کسی چھوٹے سے محل میں آ گیا ہوں۔

                ہاں تو یہ کہو……میں نے طنزیہ لہجہ میں کہا……کہ اللہ رکھی نے اس مکان کے اندرونی حصے کو ہر آسائش زندگی سے سجا رکھا ہے……ظاہر طور پر وہ خود کو تارک الدنیا اور اللہ والی ثابت کرتی ہے۔

                ہے تو ‘‘اللہ والی’’……نجم خان نے پر اعتماد انداز میں کہا۔

                چھوڑو یار……میں نے پھر طنزیہ کہا……تم مجھ سے زیادہ اسے نہیں جان سکتے۔

                دلچسپ بات تو یہی ہے کہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں اسے تم سے زیادہ جان گیا ہوں……نجم خان نے جواب دیا۔

                اچھا ……میں نے تمسخر سے پوچھا……وہ کیسے……

                میری بات سن کر……اس نے جلدی سے کپ خالی کر کے میز پر رکھ دیا اور اپنی کمر کرسی سے لگائے ہوئے بولا……وہ علم کا بیش بہا خزانہ ہے……وہ علم کا ایک ایسا سمندر ہے جس سے ہر طرز فکر کا شخص اپنی علمی تشنگی دور کر سکتا ہے۔

                بھئی! ایسا کونسا علم ہے اس کے پاس……میرے لہجہ میں بدستور طنز تھا۔

                میں خاک کا ذرہ اس کے علم کا احاطہ تو نہیں کر سکتا……نجم خان نے عقیدتے سے کہا……لیکن اتنا ضرورجانتا ہوں کہ……یہ عورت ظاہری و باطنی علوم سے واقف ہے۔

                وہ کیسے……میں نے ایک بار پھر تمسخر سے پوچھا۔

                اس کی عمر کا بہت بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزرا ہے……نجم خان نے بتایا……اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ آج سے ایک ہزار سال قبل گزرا ہو یا ……آج کا ہو……اللہ رکھی اس کے تما م جزئیات سے واقف ہے۔

                یہ تو کوئی بات نہ ہوئی……میں زور سے ہنسا……تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ماضی کے تمام بڑے اہم واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں۔

                اس کے علاوہ بھی……نجم خان نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا……وہ نہ صرف ‘‘عارف کامل’’ ہے بلکہ بہت بڑی کیمیا گر بھی ہے۔

                ایں……میں چونکا……کیا کہہ رہے ہو……وہ ایک کیمیا گر۔

                سنو تو……اس نے میری حیرانگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا……اس نے ایک رات مجھے ‘‘پیتل’’ کو سونے میں تبدیل کر کے دکھایا بھی ہے۔

                ارے نہیں……میں نے تعجب سے کہا۔

                یہ سوچ ہے……اس نے ٹھوس لہجہ میں کہا……وہ اب اس علم کو مردود قرار دے کر ترک کر چکی ہے۔

                اس لئے کہ ہر شخص کو آسانی سے دھوکا نہیں دے سکتی……میں نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔

                تم بالکل میری ہی طرح ہو……وہ مسکرایا……میرے ذہن پر ہر وقت شمیم چھائی رہتی تھی اور تمہارے ذہن میں شک و شبہ کا غلبہ رہتا ہے۔

                اس کی یہ بات سن کر میں کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔

 

                مجھے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولا……تم اعتبار کرو یا نہ کرو……یہ حقیقت ہے کہ کائناتی سسٹم میں اسے خاص اہمیت ہے……اور وہ کوئی کام‘‘بے وقت’’ نہیں کرتی۔

                یہ تو مجھے معلوم ہے……میں نے اس کی تائید کی……لیکن یہ سونا بنانے والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔

                تم‘‘سونے’’ کی بات کرتے ہو……نجم خان نے عقیدت سے کہا……وہ کیمیا گری کے علاوہ لیمیا……ہیمیا……سیمیا اور ریمیا کے بارے میں بھی جانتی ہے۔

                یہ کون سے ہم قافیہ علوم ہیں……میں نے مذاق اڑایا۔

                ان علوم کی تشریح تو مجھے بھی نہیں معلوم……نجم خان نے بتایا……لیکن اللہ رکھی کا کہنا ہے کہ ان علوم کے ذریعہ دنیا کی کایا پلٹی جا سکتی ہے……لیکن ان علوم کو سیکھنا اور عمل کرنا……ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

                تو پھر اس کے بس میں کیا ہے……میں نے جھنجھلا کر پوچھا۔

                اس کے بس میں بہت کچھ ہے……نجم خان نے برجستہ جواب دیا……انہی علوم میں سے ……ایک ‘‘روح’’کی منتقلی کا علم ہے۔

                یہ ساری سنی سنائی باتیں ہیں……میں نے……اکھڑ لہجہ میں کہا……میں نے آج تک کسی کو ‘‘روح’’ منتقل کرتے نہیں دیکھا۔

                دیکھا تو میں نے بھی نہیں۔

                ‘‘روح’’تو ایک بار ہی منتقل ہوتی ہے……میں نے بات کاٹی……اور انسان قبر میں چلا جاتا ہے۔

                لیکن میں نے روح کو منتقل ہوتے دیکھا ہے……نجم خان نے جواب دیا۔

                ایں……وہ کیسے……میں نے حیرانگی سے پوچھا۔

                ایک رات……وہ خلاء میں دیکھتے ہوئے بولا……اللہ رکھی نے کہا……آج میں تمہیں ‘‘روح’’ کی منتقلی کا عملی مظاہرہ کر کے دکھاتی ہوں……اس کے بعد اس نے اپنے ملازم شمرال کو بلایا……دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے……دونوں کی نگاہیں……ایک دوسرے کی نگاہوں میں پیوست تھیں……پھر کچھ دیر بعد……دونوں نے آنکھیں بند کر لیں اور سانس بھی روک لئے……چند ثانیہ بعد……ان دونوں نے آنکھیں کھول دیں……اب شمرال مجھ سے زنانی آواز میں بات کر رہا تھا……اور اللہ رکھی مردانہ آواز میں۔

                ارے یہ سب شعبدہ بازیاں ہیں……میں نے لاپرواہی سے کہا……دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ دیا ہو گا……تم میری آواز میں بولنا……اور میں تمہاری آواز میں بولوں گی۔

                تم کچھ بھی کہو……نجم نے یقین سے کہا……یہ مظاہرہ دیکھ کر خوف سے میری گھگھی بندھ گئی تھی……اور اگر کچھ دیر بعد اللہ رکھی کلمہ پڑھتے ہوئے اپنے اصل روپ میں نہ آ جاتی……تو میرا دم ہی نکل گیا ہوتا۔

                ہاں……یاد آیا……میں نے چونک کر کہا……یہ اللہ رکھی کا ملازم‘‘شمرال’’ بھی تو ‘‘جن’’ ہے۔

                جب ہی اللہ رکھی کہہ رہی تھی……نجم خان نے سوچتے ہوئے بتایا……کہ جنات کو یہ دسترس حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں کسی کمزور کے جسم میں حلول کر سکتے ہیں……اور اس مظاہرہ کا مقصد بھی یہی بتانا تھا کہ ‘‘سلاسل’’ برسوں سے اسی طریقہ پر انسانی عورتوں کے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔

                اچھا۔ ان تمام باتوں کو چھوڑو……میں نے عدم دلچسپی سے کہا……یہ بتائو……تمہاری شمیم کے لئے وہ کیا کر رہی ہے۔

                اس نے اب تک مجھے ‘‘حصار’’ کھینچے کا طریقہ بتایا ہے……نجم خان نے کہا……شاید ایک دو رات میں کچھ بتائے……اتنا کہہ کر اس نے اپنے اطراف میں نظریں دوڑائیں اور بولا……نماز کا وقت ہو گیا ہے……آخری الفاظ کے ساتھ ہی وہ کرسی سے اٹھ گیا۔ اس کے اٹھتے ہی قبرستان میں واقع مسجد سے اذان بلند ہوئی……مجھے سخت حیرت تھی……کہ نجم خان کو کیسے پتا چل گیا……کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کیونکہ جب ہم نے گفتگو کو آغاز کیا تھا……تو سورج چھپ چکا تھا اور رات کی سیاہی نے پھیلنا شروع ہی کیا تھا……ہم دونوں کی گفتگو کتنی دیر جاری رہی……مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن شاید نجم کو صحیح اندازہ تھا۔یا۔پھر اسے اللہ رکھی نے ‘‘وقت’’ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ بتا دیا تھا۔

                ابھی دو تین راتیں ہی گزری تھیں کہ ایک صبح جب کہ میں اور نجم خان ناشتا کر رہے تھے……تو اللہ رکھی کمرہ میں داخل ہوئی اور ہم دونوں کے درمیان میں پڑی ہوئی تیسری خالی کرسی پر بیٹھ گئی……جب نجم خان دودھ کا پیالہ ختم کر چکا تو اللہ رکھی اس سے مخاطب ہوئی……میں نے تمہیں‘‘وظیفہ’’ بتا دیا ہے ……اور اب یہ تمہارا کام ہے……کہ اس وظیفہ کے ذریعہ ہی اپنی شمیم کو حاصل کر لو۔

                میں آپ کا احسان عمر بھر نہیں بھولوں گا……نجم خان نے عزت و احترام سے کہا۔

                اس میں احسان کی کیا بات ہے……اللہ رکھی نے اطمینان سے جواب دیا……تم مکافات عمل کے مطابق ہر کام انجام دے رہے ہو……اور سلاسل کا خاتمہ تمہارے ہی ذریعہ ہونا ہے۔

                کیوں۔ کیا میں اس کا خاتمہ نہیں کر سکتا……میں نے اس کی بات کی تردید کرنے کی خاطر کہا۔

                ہر کام کا وقت اور وسیلہ ہوتا ہے……اللہ رکھی نے سمجھایا……سلاسل اپنے انجام کو اسی کے ہاتھوں پہنچے گا۔

                یہ ایسی ٹھوس دلیل تھی جس کا میرے پاس جواب نہیں تھا۔ لہٰذا خاموش ہو گیا……وہ دوبارہ نجم خان سے مخاطب ہوئی……تمہیں سات راتوں میں یہ وظیفہ پورا کرنا ہے……ساتویں رات ‘‘سلاسل’’ خود شمیم کو آزا دکردے گا……لیکن اس دوران وہ تمہارا وظیفہ خراب کی ہر ممکن کوشش کرے گا……لیکن خبردار……جب تک وظیفہ کا ورد ختم نہ ہو جائے’ تم کسی بھی حال میں حصار سے باہر نہ نکلنا۔

                نہیں……میں کسی بھی حال میں حصار سے باہر نہیں آئوں گا……نجم خان نے اقرار کیا۔

                تمہیں یہ وظیفہ سلاسل کی جائے رہائش کے باہر واقع ایک شکستہ مسجد کے حجرے میں پڑھنا ہو گا اللہ رکھی نے سمجھایا……تم حصار میرے دیئے ہوئے خنجر کی نوک سے قائم کرو گے……اوروظیفہ کے ورد ختم ہونے کے بعد بلا خوف باہر آ جائو گے۔

                جی بالکل……ایسا ہی ہو گا……نجم خان نے احترام سے کہا۔

                تمہارے ساتھ میرا خان بھی جائے گا……اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

                میں……میں……کیا کروں گا……میں نے بوکھلا کر کہا۔

                تم نجم خان کی حفاظت کرو گے……اس نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔

                میں……میں……کس طرح حفاظت کروں گا……میں نے پریشانی سے کہا۔

                اگر یہ اتفاق سے سلاسل کے بہکانے میں حصار سے باہر آ جائے ……اللہ رکھی نے سنجیدگی سے کہا……تو تم صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر پھونک مار دینا۔

                واہ! یہ بھی خوب رہی……میں نے اعتراض کیا……ایک ہزار بار سورہ فاتحہ پڑھنے کو تو……اسے کہا……اب برے وقت میں مجھ سے کہہ رہی ہو……کہ اس پر دم کر دینا……بھلا سوچو تو جب کہ میں نے ایک بار بھی سورہ فاتحہ نہیں پڑھی……تو پھر اس پر کیا اثر ہو گا۔

                مزہ تو یہی ہے ……اس نے زور سے ہنستے ہوئے کہا……تم جیسے جاہل کی زبان میں صرف ایک بار پڑھنے سے اتنی تاثیر ہے کہ حواس باختہ شخص بھلا چنگا ہو جائے۔

                تمہاری یہ منطق میری سمجھ میں تو نہیں آئی……میں نے روکھے لہجہ سے جواب دیا۔

                میری کوئی بھی بات آج تک تمہاری سمجھ میں آئی ہے……اللہ رکھی نے پیار سے کہا……لیکن یہ بھی اللہ کی مرضی ہے پھر پھرا کر آتے میرے ہی پاس ہو۔

                اگر میرا آنا تمہیں برا لگتا ہے……میں نے قدرے ناراضگی سے کہا……تو چلا جاتا ہوں۔

                اوہو……میرا چاند ناراض ہو گیا……اس نے اپنائیت سے کہا……ارے تم خود تھوڑے آئے ہو……تمہیں تو ڈیوڈ، ہیرالال اور الم وانگ نے یہاں بھیجا ہے۔

                یہ سن کر خاموش ہو گیا……وہ میرا ہاتھ پکڑ کو بولی……ناشتا کے بعد……تم دونوں ٹھٹھہ روانہ ہو جانا۔ وہاں مکلی کے قبرستان میں سیاہ سبز گنبد والی عمارت ڈھونڈنا……اور اس کے اطراف میں ہی شکستہ مسجد بھی واقع ہو گی۔

                اس کے بعد وہ نجم خان سے مخاطب ہوئی……تمہیں……کیا کرنا ہے……سب کچھ بتا چکی ہوں……آخری الفاظ کے ساتھ ہی وہ جانے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی……اس کے کھڑے ہوتے ہی……ہم دونوں بھی کھڑے ہو گئے۔

                نجم خان کی کامیابی کی اطلاع تم مجھے دو گے……اس نے شوخی سے میرے سینہ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

                میری تو یہ تمنا ہے……کہ شمیم کو لے کر آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوں……نجم خان نے عقیدت سے کہا۔

                اس کی ضرورت نہیں……اس نے نجم خان کو منع کیا……تم شمیم کو لے کر اپنے شہر چلے جانا……اور میرے پاس صرف میرا چاند آئے گا۔

                آخری الفاظ اس نے ایک بار پھر مخاطب کر کے کہے……اور پھر……خدا حافظ کہہ کر کمرہ میں چلی گئی۔

                ہم دونوں بس کے ذریعے ٹھٹھہ پہنچ گئے……ہم نے ظہر کی نماز شاہجہانی مسجد میں پڑھی اور مکلی پہاڑی کی طرف روانہ ہو گئے……مکلی کا قبرستان میلوں پھیلا ہوا تھا……نجم نے اپنے تھیلے میں سے ایک کاغذ نکالا……یہ وہی کاغذ تھا جو چند دن پہلے اللہ رکھی نے اسے دکھایا تھا……اس کاغذ پر سلاسل……کی رہائش گاہ کا نقشہ بنا ہوا تھا……میں نے غور سے اس نقشہ کو دیکھا……اس عمارت سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک شکستہ مسجد کے آثار بھی تھے۔

                نجم خان نے نقشہ کو ہاتھ میں تھام لیا……اور پھر……ہم دونوں مقبروں کے گنبد دیکھتے ہوئے بڑھنے لگے……اس شہر خموشاں میں دور دور تک کسی انسان کا پتا نہیں چلتا تھا……یہاں سیکڑوں کچی اور پکی قبریں ہیں جن پر کوئی تکیہ نہیں ہے……کوئی لوح نہیں ہے……بعض قبروں پر عالیشان عمارتیں بنی ہوئی ہیں جن پر سنگتراشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے……اس شہر خموشاں میں کئی تاریخ ساز ہستیاں بھی محو خواب ہیں اور ان کی قبروں پر شاندار مقبرے ہیں……یہاں ان بیرونی حملہ آوروں کی بھی آخری آرام گاہیں ہیں جنہوں نے سندھ کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اسے پنجرہ میں قید کرنا چاہا لیکن خود اس خاک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید ہو گئے۔

                ہم دونوں مطلوبہ مقبرے کو تلاش کرتے ہوئے قبرستان کے بالکل آخری سرے پر آ گئے اور اس کے ساتھ ہی ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ہمارے سامنے سبز اور سیاہ سیاہی والی گنبد کی عالیشان عمارت تھی……نجم خان بار بار……ہاتھ میں پکڑی ہوئی تصویر کو دیکھتا اور پھر اس عمارت کو دیکھنے لگتا……بالآخر جب ……اسے مکمل اطمینان ہو گیا کہ یہی ‘‘سلاسل’’ کی جائے رہائش ہے۔ تو مجھ سے مخاطب ہوا۔

                سلاسل کی جگہ تو یہی ہے……چلو……اندر چل کر دیکھتے ہیں۔

                میں نے اسے منع کرتے ہوئے کہا……اللہ رکھی نے تمہیں اندر جانے کو تو نہیں کہا تھا۔

                میری بات سن کر……وہ میرا چہرہ تکنے لگا……ایک بار پھر اس پر جوش و جذبہ غالب آنے لگا تھا……میں نے اس کے خیالات کا رخ تبدیل کرنے کی خاطر کہا……اب ہمیں وہ مسجد……تلاش کر لینا چاہئے۔

                ہاں……ٹھیک ہے……وہ اپنے جذبات سے چونکا او ر پھر……ہم دونوں مسجد کو تلاش کرنے لگے۔ سلاسل کی رہائش گاہ سے تقریباً پون میل مشرق میں ہمیں وہ شکستہ مسجد بھی مل گئی……اس مسجد کی دیواریں اور مینار زمین بوس ہو چکے تھے……صرف ایک چھوٹا سا گنبد اور محراب باقی تھا……مسجد کا صحن پکا تھا جو کہ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا……اور ان اینٹوں کی درازوں میں سے خود روپودے……جھانک رہے تھے……ایک جانب کنواں تھا جس کی تہہ میں پانی جھلک رہا تھا……ایک جانب چمڑے کا ڈول تھا جس میں گھاس سے بنی ہوئی رسی تھی۔

                ہم دونوں نے مسجد میں داخل ہو کر محراب کو صاف کیا……پھر ڈول سے پانی کھینچ کر چکھا……پانی نہایت ہی صاف اور شیریں تھا……ہم دونوں پھر مسجد سے باہر نکل آئے اور ایسی جگہ تلاش کرنے لگے جہاں میں دن اور رات گزار سکوں……اس سلسلہ میں ہمیں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑی۔ مسجد سے تھوڑے ہی فاصلہ پر……ڈیڑھ سو سال پرانی کسی کی قبر تھی……جس پر پکی چھت تھی……ہم دونوں نے اسی جگہ ڈیرہ جما لیا……یہاں سے مسجد اور سلاسل کی رہائش گاہ صاف دکھائی دیتی تھی……پھر سورج مغرب میں غروب ہو نے لگا……اور اس کے ساتھ ہی نجم خان نے تیاریاں شروع کر دیں۔

 

 

 

 

 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء