Topics

باندی


                اس ملاقات کے بعد……قاسم سے پھر کبھی میری ملاقات نہ ہو سکی۔ میں کئی بار جام شورو گیا مگر مجھے وہ نظر نہیں آیا……میں نے سوچا……ممکن ہے۔ اس میل بھر لمبے بیراج پر وہ کسی ایسی جگہ کام کر رہا ہو جہاں مجھے جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔

                وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قاسم کی باتیں اور یادیں بھی میرے ذہن سے ختم ہوتی چلی گئیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب کہ میں اپنے اس دوست کو بالکل ہی بھول گیا۔

                جی۔ایم بیراج جسے اب جامشورو بیراج بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی تکمیل کے آخر مراحل میں تھا۔ منہ زور دریائے سندھ کے سینے پر آہنی دروازے نصب کئے جا چکے تھے جس کی وجہ سے غیر ملکی ماہرین نے بھی رفتہ رفتہ اپنے وطن جانا شروع کر دیا تھا۔

                ایک دن مجھے حیدر آباد شہر جانا پڑ گیا۔ وہاں میری ملاقات چند ایسے غیر ملکی دوستوں سے ہو گئی جو عنقریب اپنے وطن واپس جانے والے تھے۔ ان سب کے ساتھ بیویاں تھیں۔ اور وہ یہاں سے ایسی چیزیں ساتھ لے جانا چاہتے تھے جو کہ یادگار قسم کی ہوتی ہیں۔

                میں نے ان سب کے اصرار پر خرید و فروخت کرانے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ کیونکہ مقامی دکاندار نہ تو ان کی بولی سمجھ پاتے تھے اور نہ ہی وہ سمجھا سکتے تھے……پہلے تو کافی دیر تک ہم سب شہر کے مرکزی بازار میں گھومتے پھرتے رہے……خواتین کو جو چیز بھی پسند آ جاتی میں بھائو تائو کرا کر انہیں مناسب داموں میں دلوا دیتا تھا……مرد اس بھائو تائو سے سخت بیزار تھے لیکن میں انہیں بھی بہلائے ہوئے تھا……اسی طرح گھومتے پھرتے اور خریداری کرتے ہوئے ہم زیورات کی دوکانوں کی طرف نکل آئے۔ زیورات کی دوکانوں پر نظر پڑتے ہی خواتین کی‘‘نمائشی’’ فطرت عود کر آئی اور وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھیں……اس دن مجھے معلوم ہوا کہ عورت ‘‘مشرق’’ کی ہو یا ‘‘مغرب’’ کی۔ وہ کسان کی بیوی ہو یا نواب کی……زیورات سے اسے دلی لگائو ہوتا ہے اور اپنی خوبصورتی کو اجاگر کرنے کی خاطر زیورات کا سہارا ضرور لیتی ہے……خواتین کی زیورات میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے……میں یہ بات تو سمجھ گیا کہ اب ڈیڑھ دو گھنٹے کی چھٹی ہو گئی ہے……ان کے مرد بھی اس بات کو سمجھ گئے۔ لہٰذا انہوں نے ساتھ دینے کی بجائے ایک قریبی اچھے سے ہوٹل کا رخ کیا۔ انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا ۔ لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ میرا یہاں رہنا زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ خواتین کو کسی بھی وقت میری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میری بات سن کر انہوں نے اپنے اپنے کاندھے اچکائے اور بیویوں کو زیادہ رقم خرچ نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ہوٹل میں چلے گئے۔

                عورت کی پسند کیا ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا بڑا ہی مشکل ہے۔ دوکاندار نے ان کے سامنے مختلف قسم کے زیورات کا ڈھیر سا لگا دیا تھا جس سے وہ ایک ایک زیور کو اٹھا کر دیکھتیں اور پھر دوسرے کی طرف متوجہ ہو جاتیں۔ ان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے میں نے یونہی دکانوں کے سامنے ٹہلنا شروع کر دیا۔

                زیورات کی دکانوں سے ہٹ کر ایک پتلی سی گلی اور تھی اس گلی میں ہار پھول کے زیورات بنا کر بیچنے والوں کی دکانیں تھیں۔ جن کی وجہ سے اس گلی کی فضا معطر رہا کرتی تھی……اس گلی میں چوتھی دکان مشہور گلفروش ‘‘ڈنو‘‘ کی تھی……حیدر آباد آنے کے بعد غیر ملکیوں کو نہ صرف اس دکان کے پھول پسند تھے بلکہ وہ جس انداز میں پھولوں سے دوسری چیزیں بناتا تھا وہ بھی منفرد ہوتی تھیں……وہ عورت کی زیبائش کی خاطر پھولوں سے پورا زیور تیار کر دیا کرتا تھا۔ اور اس فن میں کوئی بھی اس کا ہم سر نہ تھا……سندھ کے بڑے بڑے امراء نواب اور رئیس اس کے مستقل گاہک تھے یہ قوی الجثہ شخص اکثر اپنی دوکان کے ایک گوشہ میں بیٹھا پھولوں سے نت نئے ڈیزائن تیار کرتا رہتا تھا۔

 

                میں نے سوچا کہ جب ادھر آ ہی گیا ہوں تو کیوں نہ اس سے بھی ملاقات کر لوں۔ یہ سوچ کر جب میں گلی میں داخل ہوا تو سب سے پہلے میری نظر ایک چمکتی ہوئی شیورلے امپالا کار پر پڑی۔ اس کار کے طول و عرض کے سبب گلی تقریباً بند ہو کر رہ گئی تھی اور چلنے والوں کو دقت ہو رہی تھی……گاڑی کی چمک دمک سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ حال ہی میں خریدی گئی ہے……اس گاڑی میں ڈرائیور کی نشست پر ایک بھاری بھر کم شخص سفید یونیفارم پہنے بیٹھا تھا۔ اس کے گلے میں کارتوسوں کی پیٹی لٹک رہی تھی اور کمر میں دونوں طرف ہولسٹر سے ریوالور کے سیاہ دستے جھانک رہے تھے۔ اس پر نظر پڑتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ گاڑی اور اس کا ڈرائیور کسی بہت بڑے رئیس سے تعلق رکھتے ہیں……میں یہی سوچتا ہوا ذرا آگے بڑھا تو میری نظر ایک خوبرو نوجوان پر پڑی جو کہ گاڑی کے پیچھے کھڑا مسلسل ڈنو کو تکے جا رہا تھا……میں نے ایک بار پھر کار کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا……کہ آخر یہ گاڑی کس کی ہے اور ڈرائیور نما گارڈ کیوں موجود ہے اور یہ نوجوان کسے دیکھ رہا ہے۔

                حیدر آباد کے بازاروں میں کبھی کبھی ہی کسی رئیس……یا نواب کی گاڑی نظر آتی تھی۔ اور جب ……نظر آ جاتی تھی تو سمجھا جاتا کہ قریب ہی سندھ کی کوئی بہت ہی معزز ہستی موجود ہے۔ یا پھر اس کی بیوی یا منہ چڑھی ‘‘باندی’’ موجود ہے۔ اور اس کا حسین ہونا بھی ضروری ہے۔ تب ہی تو اس کی حفاظت کے لئے گارڈ موجود ہوتا ہے۔

                میں یہی سوچتا ہوا……اس کی دکان کے قریب پہنچ گیا لیکن فوراً ہی ٹھٹک کر رہ گیا……دکان کے اندر ایک پری وش ڈنو سے پھولوں کا زیور خرید رہی تھی……اس کا پورا جسم ‘‘اجرک’’ سے چھپا ہوا تھا اور اس کے نصف چہرے پر سیاہ ریشمی نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے چاند بادلوں سے جھانک رہا ہو ……اس کے قریب ہی ایک ضعیف العمر عورت بھی کھڑی تھی۔ جو کہ یقینا اس کی خادمہ تھی۔ مجھے پہلی بار شبہ ہوا کہ وہ ‘‘اللہ رکھی’’ ہے۔ میں دکان سے چند قدم دور ہی کھڑا ہو گیا تا کہ اس مہ جبیں کو جی بھر کر دیکھ سکوں……یہ بہت ضروری تھا۔ کیونکہ کوئی بھی رئیس اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی یاباندی کے قریب کوئی غیر مرد کھڑا ہو……میرا خیال تھا کہ ممکن ہے اللہ رکھی نے سندھ کے کسی معزز شخص سے شادی کر لی ہو ۔ میں آڑ میں کھڑا ہو کر غور سے اسے دیکھنے لگا……اس وقت اس کا حسن شعلہ جوالہ ہو رہا تھا……وہ قدرت کی صناعی کا بہترین شاہکار تھی میں اس کے حسن کو دیکھنے میں محو تھا کہ اچانک میں نے اس کی بھنوئوں کی جنبش اور گردن کو مڑتے ہوئے دیکھا……مجھے فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ اس خوبرو نوجوان کو دیکھ رہی ہے جو کہ کار کی پچھلی سمت میں کھڑا مسلسل اسے تکے جا رہا تھا۔

                چند لمحہ بعد قریبی مسجد سے موذن کی آواز بلند ہوئی۔ اور کئی لوگ دکانوں سے نکل نکل کر مسجد کی طرف چل دیئے……اور پھر……وہ بھی اٹھ گئی……اس کی چال مورنی کی مانند تھی……وہ حسن کا ایک ایسا شاہکار تھی جسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے گلاب کی خوشبو……میں نے آگے بڑھ کر اس سے بات کرنی چاہی۔ لیکن مستعد گارڈ کو دیکھ کر ہمت نہ ہوئی۔

                میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ حسین پیکر اپنی خادمہ کے ساتھ لمبی چوڑی کار میں بیٹھ کر چلی گئی……اس کی کار جونہی گلی کے موڑ پر پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہوئی وہ خوبرو نوجوان بھی کہیں غائب ہو گیا اس کے جانے کے بعد میں ڈنو کی طرف بڑھا……مجھے دیکھتے ہی وہ کھل اٹھا اور بڑے ہی پُرتپاک لہجہ میں بولا……آئو……ادا……آئو۔

                میں نے اس کے قریب ہی ایک تپائی پر بیٹھے ہوئے شکریہ ادا کیا……اس نے ذرا بلند آواز سے گلی میں چائے والے کو آواز دی۔ اور مجھے ایک سگریٹ پیش کرنے کے بعد خیر و عافیت دریافت کرنے لگا۔ خیریت وغیرہ بتانے کے بعد میرا سب سے پہلا سوال اس حسین دوشیزہ کے بارے میں تھا۔

                میرا سوال سنتے ہی ڈنو نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر خاموش رہنے کو کہا……اس کی اس حرکت سے میرا تجسس اور بڑھا……میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا……کیونکہ میرا شک پختہ ہوتا جا رہا تھا……کہ وہ ‘‘اللہ رکھی’’ ہے۔

                میری بے قراری کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا……بتاتا ہوں……بتاتا ہوں……پھر گردن موڑ کر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں اور کسی کو قریب نہ پا کر سرگوشی سے بولا۔ اس کا تعلق بڑے ہی معزز خاندان سے ہے۔

                سندھ میں یوں تو کئی معزز خاندان گزرے ہیں جن میں سومرا……کلہوڑا……اور تالپور وغیرہ وغیرہ بڑے قابل ذکر ہیں۔

                میں نے ان کی تفصیل میں جانے کی بجائے پوچھا……یہ حسینہ کون تھی……کیا اس کا نام ‘‘اللہ رکھی’’ ہے۔

                ارے بابا……ڈنو نے اسی طرح سرگوشی سے کہا……تم کس ‘‘اللہ رکھی’’ کی بات کر رہے ہو یہ تو……رئیس کی چہیتی باندی ہے۔

                اس کے جواب سے مجھے قدرے اطمینان ہوا۔ اور میں نے دوسرا سوال کیا……وہ خوبرو نوجوان کون تھا جو کہ کار کی اوٹ میں کھڑا مسلسل اسے تکے جا رہا تھا۔

                میری بات سنتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا۔ اور وہ نہایت ہی خوفزدہ آواز سے بولا……خدا کے لئے آہستہ بولو۔ اگر کسی نے سن لیا تو غضب ہو جائے گا۔

                اس کی خوفزدگی دیکھ کر مجھے تجسس ہوا۔ اور میں نے آہستگی سے پوچھا……آخرایسی کیا بات ہے اتنے میں باہر والا چائے لے کر آ گیا……ڈنو نے کیتلی سے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کہا……یہ نوجوان میرا بھائی ہے۔ اور اس عورت پر عاشق ہو گیا ہے۔ یہ ہفتہ میں ایک بار ضرور میری دوکان پر آتی ہے۔ اور یہ جب بھی آتی ہے میرا بھائی اسے تکنے لگتا ہے……اور خون میرا خشک ہوتا رہتا ہے۔

                تم اس معاملہ میں اس قدر خوفزدہ کیوں ہو……میں نے چائے کا گھونٹ لے کر پوچھا۔

                تم نہیں جانتے……اس نے ہراساں سا جواب دیا……یہ جس رئیس کی باندی ہے وہ بہت ہی سخت مزاج ہے۔ اگر اسے ذرا سا شبہ ہو گیا کہ اس کی دلپسند باندی کو کوئی اور شخص بھی پسند کرتا ہے تو پھر اس کی خیر نہیں۔

                اگر ایسی بات ہے……میں نے چائے ختم کرتے ہوئے کہا……تو تم اپنے بھائی کو سمجھاتے کیوں نہیں۔

                میں اسے کئی بار سمجھا چکا ہوں……اس نے چائے کے برتن سمیٹتے ہوئے جواب دیا……لیکن ا س کی سمجھ ہی میں نہیں آتا……حالانکہ وہ اپنے ایک رشتہ دار کا حشر دیکھ چکا ہے۔

                کیا مطلب……میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔

                اس کے جواب میں اس نے نہایت ہی رازداری سے بتایا……کہ ایک بار ……اس کا ایک رشتہ دار‘‘کوٹ’’ کے اندر داخل ہو گیا تھا……اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ دیوار کی دوسری جانب گونگے بہرے شیدی ہر وقت عذاب دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

                عذاب……میں نے حیرت سے کہا۔

                ہاں ادا……عذاب……ڈنو نے ایک دفعہ پھر خوفزدہ ہو کر کہا……جب میرا رشتہ دار ‘‘کوٹ’’ کے اندر کودا تو فوراً ہی گونگے بہرے شیدی اس پر کتوں کی طرح جھپٹے۔ جیسے وہ اسی کے انتظار میں تھے……پھر وہ اسے گھسیٹتے ہوئے رئیس کے سامنے لے گئے او ررئیس نے……

                اس کے بعد اس نے جو کچھ بتایا وہ اس قدر ہولناک تھا کہ میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ یہ رئیس رہتا کہاں ہے……میں نے بالکل غیر متوقع سوال کیا۔

                تم نے شہر کے باہر واقع‘‘کوٹ’’ تو دیکھا ہو گا۔ ڈانو نے دریافت کیا۔

                میں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ کیونکہ شہر کے باہر میں بارہا اس سڑک سے گزرا ہوں جس پر کچی مٹی کے قلعہ کی طرح اونچی دیواروں کی ایک عمارت کھڑی تھی۔

                ڈنو نے بتایا ……اس کوٹ کے اندر ہی وہ محل نما عمارت ہے جس میں رئیس رہتا ہے……ابھی ہال ہی میں اس نے اپنے محل کی مرمت کرائی ہے۔

                کیا وہ رئیس کوٹ سے باہر بھی آتا ہے……میں نے تجسس سے پوچھا۔

                دو تین سال پہلے تو وہ کبھی کبھی باہر آ جایا کرتا تھا……ڈنو نے بتایا……اس کے محل میں رئیس اور حکومت کے بھی بڑے بڑے لوگ آیا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ بالکل غیر سماجی زندگی گزار رہا ہے۔

                لیکن کیوں……میں نے بے ساختہ پوچھا۔

                وری ہم کو کیامعلوم……ڈنو نے معصومیت سے جواب دیا……ہم کو تو بس اتنا معلوم ے کہ وہ جدید تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ آج بھی اس کے محل میں پرانی روایتوں کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔

                اس بیسویں صدی کے دور میں پرانی روایتوں پر عمل کیا جا سکتا ہے……میں نے سوچا ۔ یہ رئیس کس قسم کا آدمی ہے……ابھی میں اسی طرح سوچ بچار میں مبتلا تھا کہ……ڈنو بولا……وری تم کس سوچ میں گم ہو گیا ہے۔

                کچھ نہیں’کچھ نہیں……میں نے جواب دیا اور سنبھل کر بولا……میں تمہارے بھائی کے بارے میں سوچ رہا تھا……اگر ہو سکا تو میں اسے سمجھائوں گا۔

                اس کے بعد……میں تھوڑی دیر تک اور اس کے پاس بیٹھا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اور پھر یہ سوچ کر اٹھ گیا کہ اب خواتین کے پاس چلنا چاہئے ۔ ہو سکتا ہے۔ انہیں میری ضرورت پڑ جائے۔

 

                ان باتوں سے نجانے کیوں میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ‘‘اللہ رکھی’’ اسی رئیس کے پاس ہے……اور جسے ڈنو نے باندی بتایا تھا……وہ اللہ رکھی ہی تھی……میں جوں جوں اس خیال کو اپنے ذہن سے نکالنا چاہتا تھا……یہ خیال اسی قدر پختہ ہوتا جاتا تھا۔

                پھر ایک رات اچانک مجھے شہر کے باہر جانا پڑ گیا۔ اور جب میں اپنے کام سے فارغ ہو نے کے بعد واپس آ رہا تھا تو درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہوئی یہ عمارت نظر آئی……اس عمارت پر نظر پڑتے ہی ذہن میں اللہ رکھی کی تلاش کا جذبہ ابھر آیا۔ اور میں حالات کی پروا کئے بغیر اس عمارت کی طرف چل دیا……میں ملحقہ قبرستان سے ہوتا ہوا ‘‘کوٹ’’ کی پچھلی جانب چل دیا……یہاں قبروں کے ساتھ ساتھ ان عمارتوں کے بھی کھنڈرات تھے جو کبھی لاثانی رہی ہوں گی۔ لیکن اب ان میں جنگلی کبوتروں اور چمگادڑوں نے بسیرا کر رکھا تھا۔ میں قبروں کے درمیان سے ہوتا ہوا اس دیوار کے پاس پہنچ گیا جو کافی دور تک چلی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ نیم کے درخت کھڑے تھے۔ میں اس دیوار کے قریب کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ اندر کیسے جائوں……اس مقصد کے لئے میرے ذہن میں طرح طرح کی ترکیبیں آ رہی تھیں……اچانک میری نظر برگد کے ایک بہت ہی پرانے درخت پر پڑی جس کی شاخیں کوٹ کی دیواروں کو چھو رہی تھیں……یہ ایک طرح سے قدرتی سیڑھی تھی……میں نے بندر کی طرح پھرتی سے اس درخت کے موٹے سے تنے کو پکڑا اور اوپر چڑھنے لگا۔ جب میں ان شاخوں تک پہنچ گیا جو کہ کوٹ کی دیواروں سے مل رہی تھیں تو میں نے چھلانگ لگا دی……میری یہ چھلانگ بالکل صحیح تھی……میں کوٹ کی دیوار پر بلی کی طرح لیٹا ہوا تھا……میرے سامنے اندھیرے میں ایسی عالیشان عمارت کھڑی تھی جیسے کسی کا محل ہو……عمارت کے چاروں جانب پھولوں کے درخت اور گھاس کے لان پھیلے ہوئے تھے۔ عمارت کی کھڑکیوں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ میں بلی کی طرح دبے پائوں دیوار پر چلتے ہوئے ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں سے باآسانی نیچے اتر سکوں۔

 

                مجھے تعجب اس بات پر تھا کہ اس پوری عمارت میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ یا پھر ہو سکتا ہے دور ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی آہٹ سنائی نہ دے رہی ہو۔ کافی دیر کے بعد مجھے ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں پیر ٹکا کر نیچے اترا جا سکتا تھا۔

                میں نے موقع دیکھ کر دیوار میں اس جگہ پیر ٹکائے اور نیچے کود گیا……نیچے پہنچ کر میں کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھا تو خود کو دوسری ہی دنیا میں پایا۔

                مجھ سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک خوشنما جھیل تھی جس کے چاروں جانب سنگ مر مر کی نشستیں تھیں……جھیل سے محل تک سفید سنگ مر مر کی سیڑھیاں ہی سیڑھیاں تھیں۔ جن میں پچی کاری کا نادر کام تھا……اس خوبصورتی میں مزید اضافہ ان گملوں نے کر رکھا تھا جن میں موتیا، چنبیلی اور گلاب کے درخت لگے ہوئے تھے۔ اوریہ گملے سیڑھیوں کے دونوں جانب بڑے بڑے سنہرے ظروف میں رکھے ہوئے تھے۔

                محل خاصی بلندی پر تھا اور اس کے تین جانب ایسا باغ تھا کہ میں حیرت زدہ رہ گیا……سبز گھاس کی روشوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہرن……مور……اور مچھلی کے مجسمے نصب تھے۔ جن کے منہ سے پانی کی دھاریں فوارے کی شکل میں نکل رہی تھیں……محل کا اندرونی حصہ روشنی کی وجہ سے بقعہ نور بنا ہوا تھا۔

                میں حیرت زدہ نظروں سے اس منظر کو دیکھتا ہوا……درختوں کی آڑ میں آگے بڑھنے لگا اور اس طرح میں محل کے بغلی عمارت کی پشت پر پہنچ گیا……اب میرے سامنے ایک دیوار سینہ تانے کھڑی تھی……اس دیوار کو پار کرنا میرے بس میں نہیں تھا……پھر کچھ ہی فاصلہ پر تعمیراتی سامان بکھرا ہوا دکھائی دیا تو خیال آیا کہ ممکن ہے……ابھی یہ دیوار نامکمل ہو……اس خیال کے آتے ہی میں دبے پائوں آگے بڑھنے لگا۔ اور ابھی کچھ ہی دور چلا ہوں گا کہ یہ دیوار ختم ہو گئی۔

                میں نے پہلے تو چوروں کی طرح دیوار کی اوٹ سے جھانکا اور جب کسی کی آہٹ محسوس نہیں ہوئی تو آگے بڑھ گیا……اب میرے اور محل کے درمیان صرف سبز گھاس کا میدان رہ گیا تھا۔ اور ابھی اس سبز خطہ کو عبور کرنے کی سوچ رہا تھا کہ اچانک رات کے سناٹے میں ایک خوفناک چیخ بلند ہوئی ۔ میں خوف سے اس طرح اچھلا جس طرح مینڈک اچھلتا ہے۔ یہ آواز کہیں قریب ہی سے آئی تھی……میں دبے پائوں اس طرف بڑھا جدھر سے آواز آئی تھی۔ میں جوں جوں آگے بڑھتا جا رہا تھا میرے کانوں میں ‘‘شائیں شائیں’’چابک مارنے کی آواز آ رہی تھی۔ اور ساتھ ہی کوئی ٹھیٹ سندھی زبان میں معاف کر دو……معاف کر دو……چیخ رہا تھا۔ لیکن چابک کی آواز بھی اسی تواتر کے ساتھ آ رہی تھی۔

                میں اس آواز کا تعاقب کرتا ہوا ایک ایسی عمارت تک پہنچ گیا جو یقینا محل کے ملازمین کی رہائش گاہ تھی۔ میں جس دیوار سے ملا ہوا کھڑا تھا……یہ آوازیں اسی دیوار کے پیچھے سے آ رہی تھیں……دیوار سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بہت بڑا سا دروازہ تھا……کچھ دیر بعد چیخیں بند ہو گئیں……لیکن چابک مارنے کی آواز برابر آتی رہی۔

                میں نے سوچا کہ اگر اس وقت دروازہ کھول کر کوئی بھی باہر آ گیا تو میں دیکھ لیا جائوں گا۔ اور پھر خدا جانے میرے ساتھ کیا سلوک ہو……یہ سوچ کر میں نے پناہ کے لئے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں……

                مجھ سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک آم کا درخت کھڑا تھا……میں فوراً ہی آم کے درخت پرچڑھ گیا اور اس کی شاخوں کے درمیان چھپ کر بیٹھ گیا۔

                ابھی مجھے بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دروازہ کھلا ایک لمبا تڑنگا شیدی ہاتھ میں پانی کا جگ لیے ہوئے باہر نکلا۔ اس نے قریب کے فوارے سے جگ بھرا اور دروازہ کے سامنے پڑے ہوئے ننگ دھڑنگ شخص کے منہ پر انڈیل دیا۔ اندر کمرہ میں برقی روشنی اتنی زیادہ تھی کہ مجھے کمرہ کے فرش پر پڑا ہوا شخص صاف نظر آ رہا تھا……اس شخص کا بدن چابک کی ضربوں سے لہولہان تھا……پانی پڑتے ہی زخموں سے چور اس شخص نے کراہ کر کروٹ لی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس پر دوبارہ چابک پڑنے لگے……جب اس شخص نے کروٹ لی میں نے دیکھا تھا وہ گلفروش ڈنو کا خوبرو بھائی تھا جسے میں ایک بار پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔

 

                بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب کہ بزدل سے بزدل شخص بھی بہادر بن جاتا ہے۔ ڈنو کے بھائی کی یہ حالت دیکھ کر میرے ذہن میں خوف کی جگہ بے خوفی اور ہمدردی نے لے لی……اور پھر……میں نے نتائج کی پروا کیے بغیر درخت پر سے چھلانگ لگائی اور دوڑتا ہوا کمرہ کے اندر پہنچ گیا۔ اندر پہنچ کر میں نے چابک برسانے والے شیدی کے منہ پر زوردار مکا مارا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا چند قدم پیچھے ہٹا اور اس کے ساتھ ہی……اس کا دوسرا ساتھی بھی مقابلہ پر آ گیا……اب ایک طرف تو یہ دو قوی ہیکل انسان تھے اور دوسری جانب میں تنہا تھا……اس سے پہلے کہ یہ دونوں ایک ساتھ حملہ کرتے میں نے فضا میں اچھل کر مدمقابل کے لات ماری اور وہ اپنے ساتھی سے جا ٹکرایا……لات مارنے کے بعد میں سنبھلا ہی تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرے دونوں ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لے لئے میں نے ہاتھ چھڑانے کی دو تین بار کوشش کی۔ لیکن گرفت بہت ہی سخت تھی۔ مجھے بے بس دیکھ کر دونوں شیدی تیزی سے آگے بڑھے اور مجھ پر تشدد کرنے کی بجائے ان سب نے مل کر میرے ہاتھ اور پائوں مضبوطی سے پکڑ لئے اور تیزی سے چکر دینے لگے……یہ ایسی صورتحال تھی کہ حواس نے چند منٹ بعد ہی میرا ساتھ چھوڑ دیا……میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اور کچھ ہی دیر بعد……میں تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔

 

 

 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء