Topics

ماضی میں سفر


                ماسٹر کہہ رہا تھا……یہ تین ہزار سال قبل مسیح کا دور ہے۔ جبکہ پیغمبر موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر صحرائے سینا میں آباد ہو گئے تھے……پھر خدا نے انہیں کوہ طور پر بلایا تو سامری نے بنی اسرائیل کی عورتوں سے زیور لے کر ان کے لئے گائے کا یہ بچھڑا بنایا۔

                دلچسپ بات یہ تھی کہ ماسٹر جو کچھ بھی کہہ رہا تھا وہ سب چوکھٹ میں ظاہر ہوتا جا رہا تھا۔ سامری کے بنائے ہوئے سونے کے بچھڑے کے گرد لوگ خوشی سے رقص کر رہے تھے۔ اور ماسٹر قاسم سے کہہ رہا تھا……سائیں……اب آپ……اس زمانہ میں داخل ہو جائیں اور بچھڑا اٹھا لائیں……جلدی کریں……نہیں تو موسیٰ واپس آئیں گے اور بچھڑا ضائع ہو جائے گا۔

                ماسٹر کی بات سنتے ہی قاسم نے اجرک کرسی پر رکھی اور تیزی سے بھاگتا ہوا چوکھٹے میں داخل ہو گیا……سامری اور بنی اسرائیل اپنے درمیان ایک اجنبی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے……وہ پھٹی پھٹی نظروں سے قاسم کو دیکھ رہے تھے

                میرے لیے یہ سب کچھ انتہائی تعجب خیز تھا……سائنس کی ایجادات حیرت انگیز تھی۔ میری نگاہوں کے سامنے تین ہزار سال پرانا ماضی تھا……اس ماضی میں ‘‘حال’’ کا بھی ایک انسان موجود تھا۔ قاسم نے دو تین بار پوری طاقت لگا کر بچھڑا اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اس قدر وزنی تھا کہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ قاسم نے آخری بار اسے پھر اٹھانے کی کوشش کی۔ اور ابھی وہ یہ کوشش کر ہی رہا تھا کہ فضا میں گولیاں چلنے کی آواز بلند ہوئی۔

                میں نے دیکھاکہ ڈیش بورڈ کے سامنے کھڑے ہوئے دونوں انگریز خون میں نہا گئے۔ لیکن انہوں نے گرتے گرتے تمام سوئچ آف کر دیئے……اور اس طرح میرا دوست قاسم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو گیا……میں نے وقت کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے دروازہ کی جانب چھلانگ لگائی……اور ابھی میں دروازہ تک پہنچنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا……اور پوری عمارت بیٹھ گئی۔ میں نے جلدی سے بھاگ کر ایک میز کے نیچے پناہ لی۔ ورنہ گرنے والی اینٹیں میرا قیمہ بنا دیتیں۔ میرے چاروں جانب تاریکی ہی تاریکی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہر چیز دھندلا گئی ہو……پھر مجھے ان گنت ہاتھوں کا احساس ہوا……یہ ہاتھ آس پاس بکھری ہوئی اینٹوں کو ہٹا رہے تھے……گویا مجھے اینٹوں کے ملبہ کے نیچے سے نکالا جا رہا تھا……پھر ایک شخص کی مدھم سی آواز سنائی دی۔ اسے اٹھائو گاڑی آ گئی ہے۔

                اس کے بعد مجھے متعدد ہاتھوں نے اٹھایا۔ اور ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔ میں نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ لیکن چہرہ گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا۔ سیمنٹ اور ریت کے ذرات پلکوں میں پیوست تھے……میری پلکیں اتنی بھاری ہو گئی تھیں کہ انہیں اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ اگرچہ میں کچھ دیکھ نہیں سکتا تھا اس کے باوجود سماعت پوری طرح بیدار تھی……مجھے احساس ہو چلا تھا کہ میرے گرد ایک ہجوم موجود ہے……پھر گاڑی اسٹارٹ ہوئی……اور ایک دھکے کے ساتھ چل پڑی۔ گاڑی کے ہچکولوں سے میری پلکوں پر جما ہوا گرد و غبار ہٹ گیا۔ اور پھر میں نے پہلی بار آنکھیں کھول کر دیکھا۔

                موت کے تصور سے انسان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ لیکن میں پرسکون تھا۔ مجھے اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ پولیس کی دسترس میں نہیں ہوں……بلکہ کچھ دوسرے لوگوں نے قیدی بنا لیا ہے……لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ میرے اغوا سے ان کا مقصد کیا ہے……کیا قاسم سے ان لوگوں کی دشمنی ہے……ایک بار قاسم نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ اس کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کہیں یہ لوگ وہی تو نہیں۔ میں انہی خیالات میں گم تھا کہ کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے نیم آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سب شلوار قمیض میں ملبوس اسٹین گنوں سے مسلح تھے اور کسی منظم گروہ کے افراد نظر آتے تھے۔ ان کے اطوار سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سب موت کا کھیل کھیلنا جانتے ہیں……ایک بار تو میرے دل میں فرار ہونے کا خیال آیا۔ لیکن سامنے والی سیٹ پر چار مسلح جوانوں کو دیکھ کر حوصلہ پست ہو گیا۔

                آنے والے لمحات میرے مستقبل کا نیا باب تھے۔ لیکن میں اس کی تمہید جاننے سے بھی قاصر تھا۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔ اور طے کر لیا……کہ……اب جو بھی حالات پیش آئیں گے میں ان سے مفاہمت کرنے کی کوشش کروں گا۔

 

                گاڑی بدستور تیزی سے چل رہی تھی۔ اور خاموشی سے لیٹا ہوا ان مسلح آدمیوں کو دیکھے جا رہا تھا۔ ایک مسلح شخص اشاروں سے کسی کو کچھ بتا رہا تھا۔ وہ جیسے اشارے کر رہا تھا۔ وہ میری نگاہوں کے سامنے نہیں تھا……وہ شخص جو اشارے کر رہا تھا، اچانک اپنی جگہ سے اٹھا۔ اور بالکل فوجی انداز میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا……میں ابھی اس کا مقصد سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ میرے بالکل سامنے ایک اور شخص نمودار ہوا۔ یہ نووارد ادھیڑ عمر تھا۔ اس کا قد لمبا اور بدن چھریرہ تھا اس کے اعضاء بظاہر کمزور نظر آ رہے تھے۔ لیکن آنکھوں میں چمک درندوں جیسی تھی……میں بدستور لیٹا رہا میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ جب تک مجھے کوئی حکم نہیں دیا جائے گا اپنی جگہ سے حرکت نہیں کروں گا……نووارد چند لمحہ مجھے تیز نظروں سے گھورتا رہا۔ پھر خلاف توقع نرم لہجہ میں بولا……نوجوان تمہارا نام کیا ہے۔

                میں نے اپنا نام بتایا۔ تو دوبارہ پوچھا گیا……تمہار ا رئیس سے کیا تعلق ہے۔

                میں ابھی جواب دینے کی سوچ ہی رہا تھا کہ نووارد بولا……کوئی بات نہیں ۔ اگر تم نہیں بتانا چاہتے تو……نہ بتائو۔ لیکن خیال رہے۔ ڈاکٹر ایمی کے سامنے صاف کوئی سے کام لینا……ورنہ……ورنہ کیا ہو گا……اچانک میرا لہجہ سخت ہو گیا۔

                ورنہ……کچھ نہ ہو گا……نووارد نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ گویا اس نے میرا چیلنج رد کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ لاپرواہی سے خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی اب ہموار سڑک پر چل رہی تھی۔ اور ہر شخص اپنی جگہ پر خاموش تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی رک گئی۔ اس کا بڑا سا گیٹ کھولا گیا۔ اور چاروں مسلح اشخاص نیچے اتر آئے……وہ نووارد بھی نیچے اتر آیا۔ اور گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر بولا……اتروخان۔

                میں حکم ملتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور نیچے اتر آیا۔ اب میرے سامنے ایک نہایت ہی عالیشان عمارت تھی……اس عمارت کے صدر دروازہ تک جانے کے لئے سیڑھیاں تھیں۔ اور سیڑھیوں کے دونوں جانب خوشبودار پھولوں کے درخت لہلہا رہے تھے۔ عمارت کے چاروں جانب سبز گھاس کا میدان تھا۔ جس کے درمیان رنگین پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں……میں ابھی عمارت کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھا کہ نووارد مخاطب ہوا……میرے ساتھ آئو……میں کچھ پوچھے بغیر ہی اس کے ساتھ چل دیا۔ چاروں مسلح اشخاص بھی ہمارے پیچھے ہی چل رہے تھے عمارت کے صدر دروازہ پر پہنچ کر دو محافظ تو وہیں رک گئے اور وہ ہمارے ساتھ ہی اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک لمبی سی راہداری تھی جس کے دونوں جانب کمرے بنے ہوئے تھے۔ راہداری اور کمروں کی آرائش قابل دید تھی۔ فرش پر دبیز قالین کی وجہ سے قدموں کی آہٹ بھی نہیں سنائی دے رہی تھی……میں کمروں پر طائرانہ نظر ڈالتا ہوا چلتا رہا……دونوں محافظ ہم سے چار قدم پیچھے چل رہے تھے۔ راستے میں ہماری کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پوری عمارت ویران پڑی ہوئی ہے۔ نووارد مجھے مختلف کمروں اور راہداریوں سے گزارتا ہوا ایک کمرے کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ اس کمرے کا دروازہ بند تھا۔ مجھے خیال آیا کہ وہ دروازے پر دستک دے کر اپنی آمد کا اعلان کرے گا۔ اور دروازہ کھلنے تک مجھے انتظار کرنے کو کہتا ہوا اندر چلا جائے گا۔لیکن ایسا نہیں ہوا……دروازے کے سامنے وہ کمر پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ مجھے اس کی یہ حرکت گراں گزر رہی تھی اور ابھی میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ دروازے کے اوپر لگے ہوئے خفیہ مائیک سے ایک بھاری آواز ابھری۔

                مسٹر راما……میں تمہاری شاندار کارگزاری سے خوش ہوں۔

                شکریہ ڈاکٹر! نووارد نے ادب سے گردن جھکا کر جواب دیا……آپ کے اعتماد نے ہمیشہ میرا حوصلہ بلند کیا ہے۔

                کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارا مشن کامیاب رہا ہے۔ مائیک کے ذریعے پوچھا گیا۔ مجھے پورا یقین ہے۔ راما نے اعتماد سے جواب دیا……میں نے نہ صرف رئیس کے ٹھکانے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا بلکہ اس کے آدمی بھی ختم ہو گئے ہیں اب رئیس کہاں ہے۔

                اس کی بجائے ملبے کے ڈھیر سے مسٹر خان زندہ ملا ہے۔ راما نے ٹھہرے ہوئے لہجہ میں بتایا……اور اسے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

                ٹھیک ہے……وہی آواز پھر سنائی دی۔ پھر اس نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔ اور مسلح آدمیوں کے ہمراہ واپس چلا گیا۔

                میں نے تعجب خیز نظروں سے دروازے کی چوکھٹ کا جائزہ لیا……لیکن مجھے وہاں کچھ بھی نہیں دکھائی دیا۔ مائیکروفون چوکھٹ کے اندر اس طرح نصب کیا گیا تھا کہ باہر سے نظر نہیں آ رہا تھا……راما نے مجھے خاموش کھڑے رہنے کی ہدایت کی تھی……اور ابھی مشکل سے ساٹھ سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ خفیہ مائیک میں آواز ابھری……مسٹر خان……اندر آ جائو۔

                آواز کے ساتھ ہی میں نے دروازے کو دھکا دیا……دروازہ بغیر کسی رکاوٹ کے کھل گیا……دروازہ کھولنے کے بعد کمرے کے اندر کا ماحول قابل دید تھا……اس کمرے کی بناوٹ سجاوٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ خودبخود بند ہو گیا……کمرے کے وسط میں ایک بیضوی شکل کی بڑی سی میز پڑی ہوئی تھی اور اس کے پیچھے گھومنے والی کرسی پر ایک بوڑھا بیٹھا تیز نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں اس کی عمر کا اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔ لیکن مجھے اندازہ تھا کہ وہ چلنے پھرنے سے مجبور ہے۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال نہیں تھے……چہرے کی کھال لٹکی ہوئی تھی اور آنکھوں کے پپوٹے ڈھلک چکے تھے……اس کے جسم پر سفید رنگ کا بے داغ سوٹ تھا اور کرسی پر چاکلیٹی رنگ کا مخمل کا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بے حد اجاگر نظر آ رہا تھا۔

                میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا……قریب پہنچ کر میں نے نہایت ہی خونخوار کتوں کو دیکھا جو کہ اس بوڑھے کی کرسی کے دائیں بائیں بیٹـھے ہوئے تھے۔ ان کی سرخ زبانیں باہر لٹک رہیں تھیں انہیں دیکھ کر مجھے جھرجھری سی آگئی……کتوں نے مجھے دیکھا اور اپنی دم کو شیر کی طرح بل دینے لگے۔ اور اپنے نوکیلے دانت نکال کر غرانے لگے۔ اس بوڑنے نے فورا      ً ہی کتوں کے سروں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔ جس کے ساتھ ہی وہ بلی کی طرح دم دبا کر بیٹھ گئے۔

                مسٹر خان……اس بوڑھے نے مجھے مخاطب کیا۔ اس کی آواز بڑی ہی دبنگ تھی……خوش آمدید شکریہ……میں نے مہذبانہ لہجہ میں جواب دیا۔

                مسٹر خان……وہ دوبارہ مخاطب ہوا……مجھے تمہارے تعارف کی ضرورت نہیں……لیکن کچھ نہ کچھ اپنے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔

                جی ضرور بتایئے ڈاکٹر……میں نے اشتیاق سے کہا۔

                میرا نام ڈاکٹر ‘‘ڈیوڈ’’ ہے۔ بوڑھے نے زیر لب مسکراتے ہوئے بتایا……ڈاکٹر کا کوئی نام نہیں یہ صرف پیشہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

                جی ہاں……میں نے سعادتمندی سے جواب دیا۔

                لیکن میرا پیشہ وہ نہیں ہے……بوڑھے نے قدرے زور سے ہنس کر کہا……جس کی نمائندگی یہ لفظ کرتا ہے۔

                جی……میں سٹپٹا کر رہ گیا……پھر کیا ہے۔

                تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا……بوڑھے ڈاکٹر ڈیوڈ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا……فی الحال اتنا ہی جاننا کافی ہے۔

                میں نے کوئی جواب نہیں دیا……ڈاکٹر ڈیوڈ خالی میز پر رکھے ہوئے ایک چھوٹے سے بلوری پیپر ویٹ سے کھیلتے ہوئے بولا……مجھے افسوس ہے کہ تمہارے دوست کی لیبارٹری تباہ کر دی گئی……اور یہ ضروری تھا۔ کیونکہ وہ ہم پر سبقت حاصل کرنا چاہا تھا۔

                ڈاکٹر کے اس جملے سے میں سمجھ گیا……کہ میرا دوست قاسم شیدی اور وہ……دونوں دولت کے معاملہ میں ایک دوسرے کے رقیب تھے……لیکن……یہ سبقت والی بات میری سمجھ میں نہیں آ سکی……میں سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا وہ مجھے سمجھاتے ہوئے بولا……ہماری ایک کمپنی ہے……ہم سونے کا کاروبار کرتے ہیں……اور نہیں چاہتے کہ اس کاروبار میں کوئی ہمارے مدمقابل آئے……تمہارا دوست بہت ہی چالاک تھا۔ اس نے پہلے تو ‘‘رئیس’’ کا مقام حاصل کیا اور بعد میں سائنسی آلات کی مدد سے ہمارے کاروباری معاملات میں مداخلت کرنے لگا……وہ ماضی میں جا کر سونا لے آتا تھا۔ اور ہمارے مقابلے میں سونا سستے داموں بیچ دیا کرتا تھا۔

                اس کا مطلب ہے آپ کو سب معلوم ہے……میں نے پریشانی سے جواب دیا……لیکن……لیکن میرا دوست تو ماضی میں ہی رہ گیا۔

                اسے ماضی میں ہی رہنا چاہئے……بوڑھے ڈاکٹر ڈیوڈ نے سفاکی سے کہا……وہ ‘‘حال’’ کے قابل نہیں تھا۔

                جی……میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اور میں اسے حیران نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس نے میری حیرانگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا……اب تمہارے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔

                اس کے بعد وہ مسلسل پیپرویٹ کو میز پر گھمانے لگا اور میں سوچنے لگا……کہ آخر یہ کون شخص ہے جو کہ میرے بارے میں فیصلہ کرنا چاہتا ہے……اسے میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا کیا حق ہے……کہیں……کہیں……یہ کوئی خفیہ پولیس کا آدمی تو نہیں ہے لیکن دوسرے ہی لمحہ میں نے خود ہی اس خیال کی تردید کر دی۔ کیونکہ اس بوڑھے نے اپنے بارے میں اب تک جو کچھ بتایا تھا۔ اس سے تو ذرا سا بھی اشارہ نہیں ملتا تھا……کہ وہ پولیس کا آدمی ہے۔

                ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر ڈیوڈ نے پھیکی مسکراہٹ سے پوچھا……تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے۔

                میں نے ابھی تک اپنے بارے میں غور نہیں کیا۔

                کیوں……اس نے پہلے ہی کی طرح پھیکی مسکراہٹ سے کہا……کیا تم کسی خوش فہمی کا شکار ہو۔

                حالات اگر سازگار ہوں تو بلاوجہ ذہن پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے……میں نے جواب دیا۔ بات معقول ہے……ڈاکٹر ڈیوڈ نے مسکرا کر جواب دیا……پھر معنی خیز لہجہ میں بولا……اور اگر حالات ناسازگار ہو جائیں تو؟

                انسان جب ڈوبنے لگتا ہے تو زندگی بچانے کی خاطر ہاتھ پائوں تو چلاتا ہی ہے……میں نے جواب دیا۔ صرف پانی کی حد تک……ڈاکٹر نے خشک لہجہ میں کہا……اور خشکی پر ایسا کیا جائے تو انسان زخمی ہو جاتا ہے۔

                لیکن زندگی بچانے کی کوشش کیے بغیر مرجانا بھی تو بزدلی ہے……میں نے حوصلے سے جواب دیا۔

                اگر موت آ ہی رہی ہے تو……ڈاکٹر ڈیوڈ نے تھوک نگلتے ہوئے کہا……اسے بہادروں کی طرح خوش آمدید کہنا چاہئے۔

                یہ تو……اپنا……اپنا خیال ہے۔

                لیکن تمہیں……اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھ کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا……تمہیں اپنا خیال بدلنا ہو گا……تمہیں میرے تمام نظریات کی پیروی کرنا ہو گی……اس کا لہجہ سخت ہو گیا……تمہیں اشاروں پر چلنا ہو گا……ورنہ……ورنہ……جانتے ہو کیا ہو گا۔

                ان آخری الفاظ کے ساتھ ہی اس کے چہرے اور لہجے میں ایک دم درندگی آ گئی۔ اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اور میز کی دراز کھول کر اس میں سے تازہ گوشت کا بڑا سا لفافہ نکالا۔ اور کتوں کے سامنے ڈال دیا……جانور اور خاص کر کتوں کی تو یہ خاصیت ہوتی ہے کہ گوشت کو دیکھتے ہی جھپٹتے ہیں……لیکن ان دونوں کتوں نے ایک نظر گوشت کی طرف دیکھا غرائے اور اپنی سرخ زبانیں لٹکا کر نیچے دیکھنے لگے۔

                مجھے تعجب تھا کہ یہ گوشت خور جانور اپنی غذا سامنے دیکھ کر اس طرح خاموش کیوں بیٹھا ہے……یہ دونوں جانور اپنی فطرت کے برخلاف خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے……کہ اچانک بوڑھے ڈاکٹر ڈیوڈ نے چٹکی بجائی……اور اس کے ساتھ ہی کتوں نے گوشت کھانا شروع کر دیا……ابھی وہ گوشت حلق سے اتارنے ہی والے تھے کہ ڈاکٹر نے دوبارہ چٹکی بجائی……اس کے ساتھ ہی کتوں کے چلتے ہوئے منہ رک گئے اور انہوں نے حلق کے کناروں پر آیا ہوا گوشت فرش پر اگل دیا۔

                تم نے دیکھا خان……ڈاکٹر ڈیوڈ خوشی بھرے لہجے میں بولا……یہ جانور میرے اشارے کے بغیر اپنی خوراک بھی حلق سے نہیں اتار سکتے۔

                جانور اور انسان میں بہت فرق ہے ڈاکٹر……میں نے حوصلے سے جواب دیا۔

                تمہارے اس جواب کا ‘‘جواب’’ نہیں……ڈاکٹر ڈیوڈ نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہا……انسان ویسے بھی تمام مخلوق میں افضل ہے……مزہ تو جب ہے کہ انسان’انسان کو مطیع بنا لے۔

                میں اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے تعجب سے کتوں کو دیکھ رہا تھا……اور ساتھ ہی خوف کی سرد لہر میرے اعصاب کو جھنجھوڑ رہی تھی۔

                تم جوان ہو……ڈاکٹر ڈیوڈ مجھ سے دوبارہ مخاطب ہوئے……اور میں جوانوں کی قدر کرتا ہوں۔ یہ سن کر میرے ذہن میں متعدد سوالات ابھرنے لگے۔ اور میں نے پوچھا……مجھے یہاں لانے کا مقصد کیا ہے۔

                مسٹر خان……میں کوئی کام بغیر مقصد کے کے نہیں کرتا ہوں……ڈاکٹر ڈیوڈ نے مسکراتے ہوئے کہا……پھر اپنی گھومنے والی کرسی پر جھولتے ہوئے بولا……تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا……فی الحال تم میرے مہمان کی حیثیت سے رہو……اور تمہاری میزبانی کے فرائض مس گلابو انجام دیں گی۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ کے الفاظ ختم ہوتے ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک حسین دوشیزہ ہوا کے جھونکے کی مانند اندر داخل ہوئی……لباس کے اعتبار سے مشرقی تھی……لیکن اس کے خدوخال اور اس کے جسمانی نشیب و فراز میں مغربیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

 

 

 

 


 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء