Topics

تربیت


                جب میں گلابو کے ہمراہ اس تربیت گاہ میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا……تربیت گاہ جدید سامان سے آراستہ تھی……یہاں میں نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جنہوں نے مجھے ملبہ سے نکالا تھا۔ ہیرا لال نے تربیت گاہ میں موجود تمام افراد سے میرا تعارف کرایا۔

                تربیت گاہ کے نئے ماحول……اور……نئے چہروں کے درمیان مجھے کچھ کچھ اجنبیت کا احساس ہو رہا تھا۔ لیکن ہیرا لال نے اس احساس کو زیادہ دیر نہیں رہنے دیا۔ تربیت گاہ کے دوسرے افراد مجھ سے اس طرح گھل مل گئے جیسے ہم برسوں سے دوست ہوں……دو تین روز تک مجھے جسمانی ورزشوں تک محدود رکھا گیا پھر جوڈو اور کراٹے کی تربیت شروع ہوئی۔ اس فن میں……میں نے نمایاں دلچسپی کا اظہار کیا۔ جس کی وجہ سے ہیرا لال نے خاص طور سے میری رہنمائی شروع کر دی۔ اس نے بہت جلد مجھے اس فن کے بیشتر پہلوئوں سے روشناس کرادیا۔ اور پھر میں جوڈو کراٹے میں ایسا طاق ہو گیا کہ دوسرے لوگوں پر بھاری پڑنے لگا۔ اس کے بعد نشانے بازی کی مشقیں شروع ہوئیں۔ جس میں تیس سیکنڈ کے اندر پانچ مختلف پوزیشنوں سے صحیح نشانہ لگانا ضروری تھا……میں نے حیرت انگیز طور سے اس فن میں بھی مہارت حاصل کر لی۔

                تربیت کی یہ مدت تقریباً ایک ماہ تھی۔ اس دوران مجھے زیادہ تر جوڈو اور کراٹے ہی سے دلچسپی رہی۔ تربیت گاہ کے دوسرے تمام افراد کو اس بات پر تعجب تھا کہ میں نے اتنی جلدی سب کچھ کیسے سیکھ لیا۔

                ایک روز ہیرا لال میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولا……مسٹر خان!تم نے جس تیزی سے اپنی تربیت مکمل کی ہے۔ اس پر مجھے خوشی بھی ہے۔ اور حیرت بھی۔

                یہ سب کچھ آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے……میں نے عاجزانہ لہجہ میں کہا۔

                نہیں اس نے میری بات کی تردید کی……اس میں تمہاری صلاحیتوں کا بڑا دخل ہے۔

                میں اپنی اس بے مثال کامیابی پر بہت خوش تھا۔ مجھے ہر شخص نے خاص طور پر مبارکباد دی تھی……لیکن ایک شخص ایسا بھی تھا……جس نے کسی قسم کے جذبے کا اظہار نہیں کیا تھا……اور یہ اس گروہ میں شامل چھوٹے سے قد کا جاپان نژاد‘‘الم وانگ ’’ تھا۔ اس نے ہیرا لال کو میری تعریف کرتے سنا تو درمیان میں بولا۔مسٹر خان! تربیت کی اصل حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے۔

                مسٹر وانگ!……میں نے سنجیدگی سے کہا……وقت آنے پر آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔

                گڈ ……اچانک الم وانگ کی آنکھیں چمک اٹھیں……مجھے تمہاری بات پسند آئی۔ لیکن کسی امتحان سے گزرے بغیر خود پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے۔

                خود اعتمادی بڑی چیز ہے۔ میں نے برجستہ جواب دیا۔

                اوہ……الم وانگ پھنکارا……میرے ساتھ آئو……اس نے یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا۔ اور درمیان میں بنے ہوئے رنگ کی جانب چل دیا۔

 

                رنگ میں پہنچ کر میں نے وضاحتی نظروں سے ہیرا لال کی طرف دیکھا۔ اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دیئے……میرے رنگ میں داخل ہوتے ہی الم وانگ نے ایک مشتاق فائٹر کی طرح مجھ سے ہاتھ ملایا اور کونے کی طرف چلا گیا۔

                مسٹر خان……اس نے مجھے مخاطب کیا……کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہمارے درمیان جو مقابلہ ہو……فیصلہ کن ہو۔

                میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں……میں نے نرمی سے جواب دیا۔

                کیوں کیا تمہیں اپنی خود اعتمادی پر اعتبار نہیں رہا……اس نے توہین آمیز لہجہ سے کہا۔

                میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا……میں نے وضاحت کی……اگر آپ میری صلاحیتیں آزمانا چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔

                ٹھیک ہے۔ آئو۔ اس نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔

                پھر ……پھر……ہمارے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا……الم وانگ بلاشبہ پھرتیلا اور طاقتور فائٹر تھا۔ ایک دو بار اس کے حملے اتنے نپے تلے اور شدید تھے کہ اگر میں ذرا سا چوک جاتا تو اپنی ہڈیاں تڑوا چکا ہوتا۔ بس اس کا اچٹتا ہوا ہاتھ میرے جسم سے ٹکرایا تھا۔ اس کے باوجود مجھے دن میں تارے نظر آ گئے تھے۔ ایک مرتبہ الم وانگ میرے روبرو ایسے زاویے سے آگیا تھا کہ اگر میں چاہتا تو ایک ہی وار میں اسے ایک ہاتھ سے محروم کر سکتا تھا۔ لیکن عین اس لمحہ ذہن سے یہ خیال ہوا کی مانند نکل گیا۔ ہیرا لال جو کہ رنگ کے باہر کھڑا تھا۔ یہ مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں سے ایسا کرنے سے منع کیا……اور پھر میرے ذہن میں خود بخود یہ خیال پیدا ہو گیا……کہ مجھے حملہ کرنے کے بجائے صرف اپنا دفاع کرنا چاہئے۔

                الم وانگ نے میری اس حرکت کو اپنی توہین سمجھا……اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے کینوس پر اپنے دونوں ہاتھ جمائے اور دوسرے ہی لمحے مجھ پر جھپٹ پڑا۔ اگر میں اچھل کر دوسری طرف نہ گیا ہوتا تو یقینا اس کی پڑنے والی فلائینگ کک مجھے رنگ کے باہر پھینک دیتی۔ الم وانگ کا یہ حملہ ناکام ہوا تو وہ غصہ سے بھڑک اٹھا۔ اور اس نے تیزی سے حملے کرنے شروع کر دیئے۔ اب میرے لیے دفاع کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ میں بھی پلٹ کر حملہ کرتا اور اسے محتاط رہنے پر مجبور کر دیتا۔ لیکن میں نے ایک مختلف اور انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ اور یہ تھا کہ ایک بار……الم وانگ مجھ پر حملہ کر کے پلٹا تو میں نے جان بوجھ کر لڑکھڑاتے ہوئے خود کو کینوس پر گرالیا۔ اور پھر وہی ہوا جو میں چاہتا تھا۔ الم وانگ نے مجھے کینوس پر پڑے ہوئے دیکھا تو اس نے مجھ چیتے کی طرح جست لگائی۔ وہ مجھے دبوچ لینا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تو اپنی جگہ سے ہٹ کر اسے منہ کے بل گرجانے دیتا۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ جونہی وہ فضا میں اڑتا ہوا میرے اوپر آیا۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھا دیں۔ اور ا س کے ساتھ ہی الم وانگ فٹ بال کی طرح اچھل کر رنگ کے باہر جا پڑا۔ میں نے جس خوبصورتی سے یہ حرکت کی تھی۔ اسے کوئی شخص جوابی حملہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ البتہ اسے بچائو اور حملے کی ملی جلی صورت کہا جا سکتا تھا۔ اور پھر اس سے پہلے کہ الم وانگ رنگ میں دوبارہ آتا۔ میں برق رفتاری سے اٹھا اور رسی پکڑ کر رنگ کے باہر کود گیا۔ رنگ کے باہر آتے ہی میں نے دیکھا کہ گلابو……اور دوسرے لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ سب حیران تھے کہ میں نے ناقابل تسخیر الم وانگ کو نہ صرف رنگ کے باہر پھینک دیا تھا بلکہ اب اس سے نمٹنے کی خاطر رنگ کے باہر بھی آ گیا تھا……اور پھر……اس سے پہلے کہ……میں زمین پر الم وانگ پر کوئی دائو لگاتا۔ میرا ذہن یکسر بدل گیا……مجھے ایک دم خیال آیا کہ نہیں الم وانگ ناقابل تسخیر ہے۔ میں نے جو کچھ کیا ہے۔ اپنی چالاکی سے کیا ہے۔ مجھے اس کی برتری کو تسلیم کرنا چاہئے۔

                ان خیالات کے آتے ہی میں نے اس کے قریب پہنچ کر دونوں ہاتھ سینہ پر باندھے۔ اور پھر جاپانی انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تعظیماً اس کے سامنے جھک گیا……یہ اس بات کی علامت تھی کہ میں نے الم وانگ کو اپنے سے برتر تسلیم کر لیا ہے……میں چونکہ گردن جھکائے ہوئے تھا۔ اس لیے کچھ نہ دیکھ سکا۔ البتہ الم وانگ کی گرفت اپنے بازوئوں پر محسوس کی تو اٹھ کر کھڑا ہو گیا……اور پھر……مجھے اس کے چہرہ اور آنکھوں میں جو کچھ نظر آیا، اس نے میرے پورے جسم میں خوشی کی لہر دوڑا دی……الم وانگ نے میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا……مسٹر خان(خان)ام۔ مبارک باد پیش کرتا ہے۔

                میں اس اعزاز پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں……میں نے ادب سے جواب دیا۔

                اس جواب پر الم وانگ نے مجھے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں دو تین بار سر کو ہلایا۔ اور پھر خاموشی سے ہال کے باہر نکل گیا۔

                اس کے باہر نکلنے کے بعد ہیرالال اور گلابو میرے قریب آ گئے……ہیرا لال نے تعریفی لہجہ میں کہا……مسٹر خان……مجھے یقین ہے۔ تم ہمارے گرو میں ایک شاندار اضافہ ثابت ہو گے۔

                پھر وہ گلابو سے مخاطب ہوا……اسے صبح میرے پاس لے آنا۔

                اس مختصر سے حکم کے بعد وہ بھی پلٹا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر نکل گیا۔اب کمرہ میں صرف میں اور گلابو تھے……گلابو نے بڑے ہی پیار سے میرا ہاتھ پکڑا۔ اور ہم دونوں بھی دروازہ کی جانب چل دیئے۔

                دوسرے روز جب کہ ابھی میں ناشتا سے فارغ ہوا تھا۔ گلابو نے مجھے تیار ہو کر ہیرا لال کے پاس چلنے کو کہا……میں فوراً ہی تیار ہو گیا۔ اور چند منٹوں کے بعد……گلابو کی ہمراہی میں ہیرا لال کے کمرہ میں داخل ہوا۔ اس وقت ہیرا لال کے جسم پر ہلکا نیلے رنگ کا تھری پیس سوٹ تھا۔ اور اس نے قدیم عربوں جیسی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ جس کے درمیان میں سامنے کی جانب سرخ رنگ کا بیضوی نگینہ جگمگا رہا تھا……اندر داخل ہونے کے بعد……جب اس نے میری جانب نگاہ اٹھائی تو اس کی آنکھوں کی تیز چمک مجھے اپنے وجود کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی……وہ آج’ کل سے بہت مختلف تھا……اس کے چہرے کے نقوش نہ صرف دلکش تھے۔ بلکہ اپنے اندر بے پناہ ساحرانہ کشش رکھتے تھے……وہ چند لمحہ تک……مجھے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے قریب آنے کو کہا……گلابو کھڑی رہی اور میں اس کے قریب پہنچ گیا……میں نے دیکھا……کمرہ میں الم وانگ بھی موجود تھا……لیکن وہ کمر پر ہاتھ باندھے سر جھکائے ایک کونہ میں کھڑا تھا۔

                مسٹر خان……ہیرالال نے مجھے مخاطب کیا……میری طرف دیکھو۔ اور میری بات غور سے سنو۔ اس کی بات سنتے ہی میں اس کی جانب متوجہ ہو گیا……اس کے چہرہ پر اس وقت پہلے سے بھی زیادہ ساحرانہ کشش تھی۔ جس کی وجہ سے میں کوشش کے باوجود اس کے چہرہ سے نگاہیں نہ ہٹا سکا……میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں نے تاب نہ لاتے ہوئے آنکھیں جھکا لیں۔

                ماضی کی باتیں بھول جائو……ہیرالال کی آواز ابھری……کل کیا ہوا تھا۔ تمہیں کچھ یاد نہیں۔ اور واقعی اس کے ان الفاظ کے ساتھ ہی میرا ذہن بالکل خالی ہو گیا……مجھے اپنا ماضی یاد نہیں تھا……کل الم وانگ سے میرا مقابلہ ہوا تھا……وہ بھی میرے ذہن سے نکل گیا۔

                تمہیں جس مقصد کی خاطر اس گروہ میں شامل کیا گیا ہے ’اب اس کا وقت آ گیا ہے……ہیرالال کہہ رہا تھا……تم نے اپنی صلاحیتوں سے خود کو اس گروہ کے قابل ثابت کر دیا ہے……اب تمہیں اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر اس گروہ کی بھلائی کے لئے کام کرنا ہے……اس گروہ کے دشمنوں کو ختم کرنا ہے……بولو۔ کیا تم تیار ہو۔

                ہیرا لال جو کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے الفاظ کے ساتھ ہی میرے ذہن میں تغیر و تبدیلی ہوتی جا رہی تھی……اس گروہ سے مجھے ہمدردی ہو گئی تھی۔ کیونکہ اس گروہ کا سربراہ ڈاکٹر ڈیوڈ تھا جو کہ مسیح موعود کی خاطر انسانیت کی خدمت کر رہا تھا……اور جب اس نے پوچھا کہ کیا تم تیار ہو……تو میں نے بے ساختہ کہہ دیا……ہاں میں تیار ہوں۔

                بہت خوب……وہ خوشی سے بولا……خیال رہے کہ اب اس دنیا میں کوئی تمہارا دوست نہیں ہے……دوست بھی تمہارے دشمن ہیں۔

                میں نے ان الفاظ کے ساتھ ہی اقرار کے انداز میں گردن ہلا دی۔

                ٹھیک ہے۔ اسے پہچانتے ہو……ہیرالال نے کہا۔ ار ساتھ ہی پوسٹ کارڈ سائز کا ایک فوٹو میری نظروں کے سامنے کر دیا۔ فوٹو پر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں حیرت کے ساتھ پھیل گئیں……یہ ‘‘اللہ رکھی’’ کا فوٹو تھا۔

                حیران نہ ہو……ہیرا لال نے اطمینان سے کہا……اور ان الفاظ کے ساتھ ہی میری حیرانگی یکلخت ختم ہو گئی۔

                یہ ‘‘اللہ رکھی’’ ہے……ہیرالال کہہ رہا تھا……تمہاری دوست……تم اسے اچھی طرح سے جانتے ہو……لیکن اب یہ نہ صرف تمہاری بلکہ ہم سب کی دشمن ہے……یہ مسیح موعود کے اس انسانی مشن کی دشمن ہے……اور تمہیں اسے ختم کرنا ہے۔

                میں اس کے لیے تیار ہوں……میں نے ٹھوس لہجہ میں جواب دیا۔

                اس مقصد کے لئے ……ہیرا لال پھر مخاطب ہوا……تمہیں کچھ دن اس کے ساتھ رہنا ہو گا اور صرف ایک ہفتہ کے اندر……اندر……اسے ختم کرکے واپس آنا ہو گا……تم رات کو اس کی شہ رگ چاقو سے کاٹو گے……اور بھاگ کر واپس یہاں آ جائو گے۔

                یہ رہتی کہاں ہے……میں نے خوابیدہ لہجہ میں پوچھا۔

                آج سورج چھپنے کے بعد……ہیرالال نے کہا……الم وانگ تمہیں اس کی رہائش گاہ کے دروازہ پر چھوڑ آئے گا……اس کے بعد تم وہی کچھ کرو گے۔ جو میں نے کہا ہے۔

                جی ہاں۔ میں وہی کچھ کروں گا……میں نے بڑے ہی اعتماد سے جواب دیا۔

                یہ کام تمہیں اس وجہ سے سونپا جا رہا ہے……ہیرا لال نے بتایا……کہ تم اس کے پرانے شناسا ہو۔ اس کو تمہارے بارے میں قطعی شک نہیں ہو گا……اور تم سارا کام ختم کرنے کے بعد با آسانی یہاں پہنچ جائو گے۔

                میں نے آخری الفاظ کے ختم ہوتے ہی ایک بار پھر اثبات میں سر ہلایا۔

                اب تم جا سکتے ہو……ہیرا لال نے کہا……اب تمہیں صرف سورج ڈوبنے کا انتظار کرنا ہے……سورج ڈوبتے ہی الم وانگ تمہیں ‘‘اللہ رکھی’’ کے گھر پہنچا دے گا۔ جو ہماری دشمن ہے……اب تم جائو۔

                میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا ہیرالال کے چہرہ پر بڑی ہی دلکش مسکراہٹ تھی۔ اس کی اس مسکراہٹ نے میرے ذہن میں اس خیال کو مزید مضبوط کر دیا……کہ اللہ رکھی کو ختم کر دینا چاہئے……یہ نابکار مسیح موعود کے مشن کے خلاف ہے۔

                اس کے بعد میں اللہ رکھی کے خلاف دماغ میں نفرتیں لیے ہوئے واپس اپنے کمرہ میں آ گیا۔

                سورج غروب ہو چکا تھا۔ آسمان پر شفق کی لالی پھیلی ہوئی تھی……اور میں الم وانگ کے ہمراہ کار میں بیٹھا ایک مضافاتی بستی کی طرف جا رہا تھا……آدھے گھنٹہ بعد ہماری کار ایک ایسی بستی میں داخل ہوئی……جہاں بنگلے نما مکانات تھے……مختلف سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے ہوئے الم وانگ نے ایک بڑی سی شاہراہ پر گاڑی روک لی……اور دائیں جانب کی ایک گلی میں دیکھتے ہوئے بولا……اس گلی میں آخری مکان‘‘اللہ رکھی’’ کا ہے۔ تم ان گلیوں اور سڑکوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو……آدھی رات گزرنے کے بعد میں تمہیں اسی سڑک پر ملوں گا۔ میں اس کی بات سن کر فوراً ہی گیٹ کھول کر کار کے باہر آ گیا سنو۔ اس نے مجھے روکتے ہوئے کہا……تمہیں ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنا کام انجام دینا ہے……میں ہر روز آدھی رات گزرنے کے بعد یہیں ملوں گا۔

                آخری جملہ ادا کرنے کے ساتھ ہی اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اور تیزی سے چلا گیا……میں نے اس کی گاڑی کے پیچھے اڑتی ہوئی دھول پر نظر ڈالی۔ اور گلی میں داخل ہو گیا……اس گلی میں دونوں جانب بہت ہی خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے۔ انہیں مکانات کہنا تا بیجا ہے۔ یہ تو بڑے ہی خوبصورت بنگلے تھے۔ان کے آہنی گیٹوں کے دونوں جانب خوبصورت پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں……میں گلی کے دونوں جانب نظریں ڈالتا ہوا آخری سرے پر پہنچ گیا۔ یہ مکان تھا تو چھوٹا سا۔ لیکن بہت ہی خوبصورت بنا ہو اتھا۔ اس کی خوبصورتی کو اجاگر کرنے میں اس کی تکونی بناوٹ نمایاں تھی……میں قدم اٹھاتا ہوا گیٹ پر پہنچا۔ اور پھر بائیں جانب لگے ہوئے گھنٹی کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیا……اور اندر کہیں چڑیا کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ اور پھر دو منٹ بعد ہی آہنی گیٹ میں بنی ہوئی چھوٹی سی کھڑکی کھل گئی……ایک جھریوں بھرے چہرہ نے جھانکتے ہوئے پوچھا……کون ہے؟

                اس سے پہلے کہ میں اپنے بارے میں کچھ بتاتا۔ اس چہرے نے مجھے پہچان لیا……اور وہ خوش دلی سے بولا……خان……تم۔

                پھر وہ اس چھوٹی سی کھڑکی کے باہر آیا۔ اور مجھ سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے مصافحہ کرتے ہوئے غور سے دیکھا……یہ وہی لاغر شخص تھا۔ جسے میں نے کئی سال قبل اللہ رکھی کے ساتھ دیکھا تھا……مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ یہ شخص ابھی تک زندہ ہے۔ جب کہ اس شخص کی صحت اور عمر کو دیکھتے ہوئے یہی خیال آتا تھا کہ اسے تو اب تک ملک عدم کوسدھار جانا چاہئے تھا……اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اور آہنی گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے بولا……تم کافی عرصہ کے بعد ملے ہو۔

                جی ہاں……میں نے جواب دیا……دراصل مجھے آپ کا پتہ نہیں معلوم تھا۔

                پھر یہاں کیسے پہنچے……اس نے مشکوک نظروں سے دیکھا……اور آہنی گیٹ میں بنی ہوئی کھڑکی کو بند کر دیا……میں اس کے اس غیر متوقع سوال سے بوکھلا گیا……پھر بات بناتے ہوئے بولا۔ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔

                اس نے میری بات کا جواب دیتے کے بجائے پوچھا……اب کیا چاہتے ہو۔

                اللہ رکھی سے ملنا چاہتا ہوں……میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔

                یہ سن کر اس نے کچھ نہیں کہا……بلکہ مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا مکان کے صدر دروازہ کی طرف چل دیا۔

                میں نے اس کے پیچھے چلتے ہوئے اپنے اطراف میں نظریں دوڑائیں……یہ اس وقت کا نہایت ہی ماڈرن بنگلہ تھا……مغربی اور مشرقی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ تھا……بنگلہ کے اطراف میں دور تک گھاس کے لان تھے۔ جن کے درمیان چھوٹی چھوٹی سی پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں اور ان پگڈنڈیوں کے دونوں جانب گلاب اور چنبیلی کے پودے لگے ہوئے تھے……میں تین سیڑھیاں چڑھ کر اس لاغر شخص کے ہمراہ صدر دروازہ پر پہنچ گیا……دروازہ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اور اس پر نہایت ہی خوشنما بیل بوٹے بنے ہوئے تھے……اس لاغر شخص نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ کو دھکا دیا۔ دروازہ میں وہی داخل ہوا۔ اور اس کے بعد میں……اندر داخل ہونے کے بعد اس نے دروازہ بند کر دیا……اب میں ایک بڑے سے ہال میں کھڑا تھا۔ جس کے فرش پر نیلے رنگ کا دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ اور دیواروں کے ساتھ نہایت ہی آرام دہ صوفے لگے ہوئے تھے……بیٹھو۔ اس لاغر شخص نے ایک صوفہ کی جانب اشارہ کیا۔ اور جب میں صوفہ پر بیٹھ گیا۔ تو وہ دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا……اللہ رکھی کو اطلاع کرتا ہوں۔ میں نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا……وہ میرا مطلب سمجھ گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا……یہاں معاملہ دوسرا ہے……یہ ڈرائنگ روم ہے۔ اور وہ یہاں ہی ملاقات کرتی ہے۔ آخری جملہ ادا کرنے کے ساتھ وہ ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ اور یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ ڈرائنگ روم بیش قیمت اشیاء سے سجا ہوا ہے……ابھی میں ان چیزوں کا آنکھوں ہی آنکھوں سے جائزہ لے رہا تھا کہ دروازہ کھلا۔ اور اللہ رکھی ہوا کے جھونکے کی مانند اندر داخل ہوئی……میں اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا……کیونکہ وہ میرے سامنے سیدھی سادھی ‘‘اللہ رکھی’’ نہیں کھڑی تھی……بلکہ ایک نہایت ماڈرن قسم کی اللہ رکھی کھڑی تھی۔ اس نے نہ صرف جدید فیشن کا لباس پہن رکھا تھا’ بلکہ غیر ملکی سینٹ بھی لگا رکھا تھا۔ جس سے پورا کمرہ مہک رہا تھا……اس کے چہرہ پر وہی پہلی والی شادابی تھی……اس نے نہایت ہی بے تکلفی سے دونوں ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا……آچندا……سینہ سے لگ جا۔ تجھے دیکھنے کو تو آنکھیں ترس رہی تھیں۔

                اور پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا……اس نے والہانہ طریقہ سے مجھے سینہ سے لگا لیا۔ اس کے سینہ سے لگتے ہی مجھے ایسا سکون محسوس ہوا۔ جیسے جنت میں آ گیا ہوں……ڈاکٹر ڈیوڈ……ہیرا لال……الم وانگ حتیٰ کہ یہاں آنے کا مقصد تک بھول گیا……اس نے مجھے اپنے سینہ سے اس طرح چمٹا رکھا تھا……جیسے ماں اپنے سہمے ہوئے بچہ کو چمٹا لیتی ہے اور اسے دنیا بھر کے خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ اس وقت یہی کیفیت میری تھی……اس کے سینہ سے لگنے کے بعد میں تمام تفکرات سے بے نیاز ہو گیا تھا……مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ وہ پناہ گاہ ہے جہاں دنیا بھر سے زیادہ سکون ہے۔ جہاں کسی بھی قسم کا خوف یا فکر نہیں ہے……میں ابھی اس کی آغوش ممتا سے سکون حاصل کر ہی رہا تھا کہ اس نے مجھے خود سے جدا کرتے ہوئے پوچھا……تمہیں میرا پتہ کیسے معلوم ہوا۔

                بس کسی نے بتا ہی دیا……میں نے بات ٹالی۔

                وہ سب تو حرامی ہیں……وہ زیرلب بڑبڑائی……اس کا خیال تھا کہ میں نے الفاظ نہیں سنے ہیں……پھر ایک دل آویز مسکراہٹ سے بولی……بیٹھو۔

                میں پہلے والے صوفہ پر دوبارہ بیٹھ گیا……وہ بھی میرے سامنے والے صوفہ پر بیٹھ گئی……اس کے بیٹھتے ہی لاغر شخص اندر داخل ہوا……اسے دیکھتے ہی اللہ رکھی بولی……بھئی میرے خان کی خاطر کچھ تو لائو……لاغر شخص یہ سنتے ہی فوراً واپس چلا گیا۔

 

                مجھے ابھی صوفہ پر بیٹھے ہوئے ایک منٹ بھی نہیں ہوا تھا کہ اللہ رکھی نے پوچھا……سنائو……تمہارا کیا حال ہے۔ اب تو بخار نہیں آتا۔

                نہیں تو……میں نے مختصر جواب دیا۔ اور سوچنے لگا کہ واقعی جب سے اللہ رکھی نے میرا روحانی علاج کیا تھا۔ آج تک مجھے بخار نہیں آیا تھا۔

                مجھے سوچ میں دیکھ کر اس نے پوچھا……کیا سوچنے لگے……پھر قدرے اچنبھے سے بولی……ارے ہاں یاد آیا……گلابو کا کیا حال ہے۔

                یہ سن کر میں اس طرح چونکا۔ جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو……پھر بھی میں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے انجان بن کر کہا……گلابو……کون گلابو۔

                بڑے بھولے بن رہے ہو۔ اس نے میرا مذاق اڑایا……ارے وہی گلابو جو وہاں پر تمہاری میزبانی کرتی رہی اب اللہ رکھی سے کچھ چھپانا بیکار تھا۔ لہٰذا میں نے جھجکتے ہوئے جواب دیا……ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہی منحنی سا شخص ایک ٹرے میں مختلف قسم کے پھل لیے کمرہ میں داخل ہوا……اس نے ہم دونوں کے سامنے رکھی ہوئی ایک چھوٹی سی ٹیبل پر ٹرے رکھی۔ اور خاموشی سے واپس چلا گیا۔

                لو کھائو……اس نے ٹرے میں سے ایک بڑا سا سیب اٹھا کر مجھے دیتے ہوئے کہا۔

                میں اس کے ہاتھ سے سیب لے کر دانتوں سے کاٹنے ہی والا تھا کہ اللہ رکھی نے میرا ہاتھ روکتے ہوئے کہا……چاقو سے کاٹ کر کھائو۔

                چاقو کہاں ہے……میں نے ٹرے میں متلاشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                چاقو تو تمہاری اندرونی جیب میں ہے……اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے اپنی جگہ پر ساکت ہوکر رہ گیا……کیا اللہ رکھی ‘‘روشن ضمیر’’ ہے۔ کیا وہ دلوں کا بھید جانتی ہے……گلابو سے تعلقات کے انکشاف کے بعد……یہ اس کا دوسرا انکشاف تھا……اور میں اس انکشاف سے مبہوت ہو کر رہ گیا تھا۔

                میری گردن کاٹنے سے پہلے یہ سیب تو کاٹ لو……اس نے میرا گل تھپتھپاتے ہوئے پیار سے کہا اللہ رکھی……میں نے ہکلاتے ہوئے کہا……تمہیں……سب……سب……کچھ……معلوم ہے۔ سب کچھ۔

                اے لو……وہ بڑے ہی تعجب خیزا نداز سے ناک پر انگلی رکھ کر بولی……اپنے محبوب کی باتیں مجھے نہیں معلوم ہوں گی تو اور کس کو معلوم ہو ں گی۔

                تو پھر……میں نے حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے پوچھا……تمہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ میرے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے۔

                اے میں تو یہ تک جانتی ہوں کہ ان حرامزادوں کا مقصد کیا ہے……اللہ رکھی نے پیشانی پر بل ڈال کر جواب دیا کون حرامزادے۔

                وہی ڈاکٹر ڈیوڈ……اور اس کے پالتو کتے……اللہ رکھی نے حقارت سے کہا۔

                تم انہیں برا کہہ رہی ہو……میں نے قدرے خفگی سے کہا……جب کہ وہ مسیح موعود کے لیے کام کر رہے ہیں……دکھی انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

                ارے ان کا ظاہر اور باطن دو مختلف روپ ہیں……اللہ رکھی نے حقارت سے کہا……میں ان کی ایک ایک حرکت سے باخبر رہتی ہوں۔

                پھر کیسے ہیں وہ لوگ……میں نے پوچھا۔

                وہ سب غیر ملکی ایجنٹ ہیں……اللہ رکھی نے اسی لہجہ میں کہا……وہ بوڑھا جو خود کو ڈاکٹرڈیوڈ کہلاتا ہے……لوگوں کو ہپناٹائز کر کے اپنے ملک کے مفاد میں کام کراتا ہے۔

                ہپناٹائز کر کے……ہاں مغرب کا یہ شعبدہ باز مشرق کے بھولے بھالے لوگوں کو اپنے جال میں پھانس کر طرح طرح کے کام لیتا ہے۔ اللہ رکھی نے بتایا۔ اس نے تمہیں بھی ہپناٹائز کر کے میرے قتل پر آمادہ کر لیا۔

                ہاں……میں نے اقرار کر لیا۔ لیکن تمہارے قتل سے ان کا مقصد کیا تھا۔ میں نے سوچتے ہوئے پوچھا۔ انہوں نے تو مجھے بتایا تھا کہ تم ان کی دشمن ہو……ان کے دکھی انسانوں کی خدمت کرنے کے خلاف ہو۔

                وہ فریبی کیا دکھی انسانیت کی خدمت کرینگے۔ اللہ رکھی نے تیز و تند لہجہ میں کہا۔ وہ جانتے کیا ہیں۔

                ایسا مت کہو میں نے توکا……ڈاکٹر ڈیوڈ نے مجھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کرائی ہے۔

                بس……اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا……تم جس کی زیارت کرنا چاہو میں زیارت کرا دوں۔

                تم……تم……ایسا کر سکتی ہو۔ میں نے سوچا۔

                اور کہو تو تمہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچا دوں……اللہ رکھی نے سنجیدگی سے کہا……ممکن ہے کہ اسے یہ بھی علم آتا ہو۔ لہٰذا آزما لینا چاہئے……لیکن ابھی نہیں……پھر میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا……لیکن وہ تمہیں کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک میں ہی تو ان کے ناپاک ارادوں میں رکاوٹ ہوں۔ اللہ رکھی نے بتایا۔ وہ مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔

                وہ کس طرح……

                میں تکوینی نظام کے فیصلوں میں ان کے ناپاک ارادوں کو دخل اندازی نہیں کرنے دیتی ہوں۔ اللہ رکھی نے کہا۔

                میں تمہاری بات سمجھا نہیں……میں نے جواب دیا۔

                میرے ساتھ رہو گے تو سب کچھ سمجھ جائو گے……اللہ رکھی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

                جس طرح تمہیں ان کے ارادوں کا علم ہو جاتا ہے میں نے خفگی سے کہا۔ اسی طرح انہیں بھی تمہارے ارادوں کا علم ہو جاتا ہو گا۔

                ابھی نظریں کھلی ہیں کیا۔ اللہ رکھی نے پوچھا۔ اور میں ہونقوں کی طرح اس کا منہ تکنے لگا……کیونکہ اس کا یہ جملہ میری سمجھ سے باہر تھا۔

                اچھا……اللہ رکھی نے میری سادگی پر زور سے ہنستے ہوئے کہا……رات کو تمہیں ان کی حقیقت بتا دوں گی……پھر وہ صوفہ سے اٹھتے ہوئے بولی……اب تم بھی آرام کرو۔

                اس کے بعد وہ تیزی سے ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئی۔ اور میں بھی سیٹر پر لیٹ گیا۔


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء