Topics

قاسم رئیس


                دیوان خاص میں پہنچ کر رئیس ایک بار پھر اپنی مرصع کرسی پر بیٹھ گیا۔ مجھے ابھی تک دونوں محافظوں بازوئوں سے پکڑے ہوئے تھے کہ مبادا میں پھر کوئی حرکت نہ کر بیٹھوں……رئیس نے ان دونوں کو مجھے چھوڑ دینے کو کہا۔ اور پھر بھاری آواز میں بولا……نوجوان تم اس نقلی رئیس کو دیکھ کر کیوں مشتعل ہو گئے تھے۔

                وہ……وہ……میرا دوست ہے……میں نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔

                تو تم اس شخص کو اچھی طرح جانتے ہو……اس نے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا پھر بڑے ہی کرخت لہجہ میں پوچھا……بتائو تمہاری اس شخص سے کہاں ملاقات ہوئی تھی۔

                میں نے شروع سے لے کر جی ۔ایم بیراج کی تعمیر تک کے واقعات سنا دیئے……رئیس بڑی ہی توجہ سے باتیں سنتا رہا……میری بات ختم ہونے کے بعد وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا……تمہاری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمہارا یہ دوست غریب ہے۔ لیکن اس کے سینہ میں دولت مند بننے کی خواہش تھی اور اپنی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر اس نے ایک نہایت ہی زبردست سازش کی۔

                مجھے اس کی کسی بھی سازش کا علم نہیں……میں نے خوفزدہ ہو کر جواب دیا۔

                 اس کی ‘‘سازش’’ کا کسی کو بھی علم نہیں ہو سکتا……رئیس نے زہریلی مسکراہٹ سے کہا……تمہار ادوست چالاک ہے……بہت ہی چالاک اس نے کسی طرح سے پتہ چلا لیا……کہ میری شکل ہو بہو اس کی طرح ہے۔ لہٰذا اس نے میرے ہاں ملازمت اختیار کر لی۔ اور کئی برس تک میری حرکات کی نقل اتارتا رہا……پھر اگر مجھے بروقت پتا نہ چل جاتا تو یہ مجھے زہر دے کر خود ‘‘رئیس’’ بن جاتا۔

                میں اس کی بات کا کیا جواب دیتا کیونکہ قاسم شیدی ایسا ہی تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر رئیس نے نشست سے پیٹھ لگائی اور نہایت ہی اطمینان سے بولا……میرے سفاکانہ رویے سے تم مجھے ظالم سمجھتے ہو گے……لیکن سوچو۔ اگر میں یہ رویہ نہ رکھوں……تو لوگ مجھے زندہ رہنے دیں گے؟

                میں نے اس کے نرم لہجہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا……میری آپ سے ایک درخواست ہے۔

                بولو……اگر ہو سکا تو ضرورپوری کروں گا……رئیس نے جواب دیا۔

                میں نے ہمت کر کے کہا……میرا دوست بے وقوف ہے اس نے آپ کی شباہت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرکے غلطی کی ہے……آپ اسے رہا کر دیں……میں اسے کبھی بھی ادھر نہیں آنے دوں گا۔

                ناممکن……قطعی ناممکن……رئیس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ میرا ہم شکل ہونے کی وجہ سے وہ میری موت ہے۔

                میں یقین دلاتا ہوں۔

                نوجوان……رئیس نے میری بات کاٹی……تم انسان دوست ہو لیکن میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا……اب تمہارا دوست مر کر ہی باہر جا سکے گا۔

                میں اس بے رحم کی بات کا کیا جواب دیتا……مجھے خاموش دیکھ کر وہ پہلے ہی کی طرح سخت لہجہ میں بولا……میرے ‘‘کوٹ’’ میں اجازت کے بغیر قدم رکھنے والا زندہ واپس نہیں جاتا۔

                اس کی بات سن کر میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی……مجھے اپنا انجام بھی گلفروش ڈنو کے بھائی اور دوست قاسم شیدی جیسا نظر آنے لگا۔ پھر بھی میں نے ہمت کر کے صفائی پیش کی……میں اپنی غلطی پر نادم ہوں لیکن یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے۔

                غلط فہمی……اس نے تمسخر سے کہا……تم اسے غلط فہمی کہتے ہو۔ حالانکہ انسان کو چاہئے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج پر غور کر لے……تمہیں کوٹ میں داخل ہونے سے پہلے سوچ لینا چاہئے تھا……کہ انجام کیا ہو گا۔

                میں اس کی بات سن کر ایک بار پھر لاجواب ہو گیا……کیونکہ کوٹ میں داخل ہو کر واقعی میں نے غلطی کی تھی۔

                میں تمہیں کوئی سزا دینے سے قبل اس کے نتائج پر غور کرنا چاہتا ہوں……اس نے بڑے پر اسرار لہجہ میں کہا……کیونکہ تم مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست بھی ہو۔

                میں اس کے ذومعنی جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکا……پھر اس نے اپنے محافظوں کو جانے کا اشارہ کیا اور دوسرے ہی لمحہ وہاں کوئی بھی نہ تھا……اب رئیس میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا……جیسے پہچان رہا ہو۔یا۔کوئی فیصلہ کرنا چاہتا ہو……کچھ دیر بعد اس کے چہرہ پر بڑی ہی معنی خیز مسکراہٹ دوڑ رہی تھی……پھر وہ ٹھہرے ہوئے لہجہ میں مجھ سے مخاطب ہوا……سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔

                اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجائی۔ اور میں اپنی جگہ سے اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو……کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس طرح چٹکی پوری دنیا میں صرف ایک ہی شخص بجا سکتا ہے۔ اور وہ میرا دوست ‘‘قاسم شیدی’’ تھا۔

                آپ نہیں جان سکتے اس وقت میری کیا حالت ہوئی……اور میرے برے وقت کا ساتھی……میرا دوست قاسم شیدی سامنے کھڑا تھا۔ اسے اس انداز میں دیکھ کر مجھے تعجب بھی تھا اور خوشی بھی……اس نے سرگوشی سے مجھ سے پوچھا……کہو دوست مجھے پہچانا۔

                تم……تم……یہاں……میں نے حیرت و استعجاب سے کہا۔

                میں نے جو کہا تھا’ کر کے دکھادیا……وہ فخر سے بولا……اب میں اپنی ہر خواہش پوری کر سکتا ہوں۔

                تو……تو……پھر اس کوٹھری میں کون تھا……میں نے تعجب سے پوچھا۔

                قاسم نے میری بات پر ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ وہی تو اصلی رئیس ہے۔

                اس مختصر سے جملے کے ساتھ ہی تمام بات میری سمجھ میں آ گئی……دراصل میرے دوست قاسم کو کسی طرح یہ علم ہو گیا……کہ رئیس کی حیرت انگیز حد تک اس سے مشابہت ہے۔ اس قدرتی مشابہت سے قاسم نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اور کسی طرح اصلی رئیس کو دھوکا سے قید کردیا……اس پر الزام عائد کر دیا کہ وہ ہمشکل ہونے کی وجہ سے اسے دھوکا دینا چاہتا تھا۔

                یہ دنیا کا سب سے انوکھا……سب سے نرالا فراڈ تھا۔ یہ دھوکا دہی کی ایسی واردات تھی جس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں مل سکتی تھی……پھر میری غیر ت ایمانی جاگ اٹھی۔ اور میں نے اسے متنبہ کیا……یہ تو تم نے دھوکا دیا ہے۔

                میں نے کسی کو دھوکا نہیں دیا……اس نے بڑے ہی وثوق سے جواب دیا……میں نے عقل کو استعمال کیا ہے اور وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے جس کی مجھے تمنا تھی۔

                تو پھر اب……تمہیں چاہئے کہ واپس اپنی دنیا میں لوٹ جائو……میں نے مشورہ دیا……اور اصلی رئیس کو سب کچھ واپس کر دو۔

                تمہارا مشورہ صحیح بھی ہے اور غلط بھی……قاسم نے قدرے تشویش سے کہا۔

                وہ کس طرح……میں نے حیرانگی سے پوچھا۔

                وہ اس طرح……قاسم شیدی اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجا کر بولا……اگر میں واقعی اصلی رئیس کو قید سے نکال کر سب کچھ اس کے حوالے کر دوں تو وہ میرا شکر گزار ہو گا۔ لیکن زندہ نہیں چھوڑے گا۔

                ہاں یہ بات تو ہے……میں نے اس کی تائید کی……لیکن اس طرح اس کی حق تلفی کب تک کرتے رہو گے۔

                یہ بات قابل غور ہے……اس نے قدرے تفکر سے کہا……پھر میرے قریب آ کر بولا……میں رئیس کو جلد ہی اس کا مقام دے دوں گا……لیکن یہ اسی وقت ہو گا جبکہ ‘‘وقت’’ میرے ہاتھ میں ہو گا۔

                کیا مطلب……میں چونکا۔

                شاید تمہیں یاد ہو……قاسم شیدی نے یاد دلانے والے لہجہ میں کہا……جب کراچی فٹ پاتھ پر میری اور تمہاری ملاقات ہوئی تھی تو تم نے کسی ‘‘اللہ رکھی’’ کے حوالہ سے بتایا تھا……کہ……‘‘وقت’’ نے تمہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

                ہاں بتایا تھا……میں نے اعتماد سے جواب دیا……اور یہ سب کچھ سچ تھا۔

                تمہاری اسی بات نے مجھے ‘‘وقت’’ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا……قاسم شیدی نے جواب دیا……میں سوچتا رہا……سوچتا رہا……اور بالآخر میں نے وقتی طور سے ‘‘وقت’’ کو عقل سے قابو کر لیا……اور آج میں تمہارے سامنے ایک مکینک کے بجائے‘‘رئیس’’ کی حیثیت سے موجود ہوں۔

                اس میں تمہاری چالاکی کو دخل ہے……میں نے جواباً کہا۔

                تم اسے چالاکی کہتے ہو……اس نے منہ بگاڑ کر کہا……حالانکہ اس مقام تک پہنچنے کی خاطر میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی ہے اور ‘‘وقت’’ کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔

                کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔

                میں وقت کو بہت پیچھے چھوڑ دینا چاہتا ہوں……قاسم شیدی نے فلسفیانہ لہجہ میں کہا……اتنا پیچھے کہ کوئی بھی شخص مجھ تک نہ پہنچ سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب کہ میرے پاس بے انتہا دولت ہو۔

                اس کی یہ بات سن کر میں نے سوچا……کہ میرا دوست زیادہ سے زیادہ دولتمند بننے کی فکر میں ہے لیکن وہ کس طرح دولت مند بنے گا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔

 

                مجھے سوچ میں گم دیکھ کر قاسم شیدی قریب آیا۔ اور شانہ پر ہاتھ رکھ کر بولا……وقت کیا ہے……ماضی……حال……مستقبل……وقت کی اس تقسیم کو صرف اور صرف تیز رفتاری سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

                کیا مطلب میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔

                انسان ماضی اور مستقبل میں سفر کر سکتا ہے……اس نے بتایا۔

                ناممکن……قطعی ناممکن……میں نے غیر یقینی کی کیفیت سے کہا۔

                اس سائنسی دور میں سب کچھ ممکن ہے……اس نے سمجھایا……آج جب کہ انسانی شکل کے ساتھ ساتھ اس کی حرکات و سکنات کو ہزاروں میل کے فاصلہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے تو کیا ممکن نہیں کہ اسی طرح اسے بھی منتقل کر دیا جائے۔

                ا س کی بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس نے ایسی کون سی ایجاد دریافت کر لی ہے جس کی بناء پر یہ بات کہہ رہا ہے۔ میں کوئی جواب دینے کی بجائے حیرانگی سے اس کا چہرہ تکے جا رہا تھا……اس نے مجھے حیرت زدہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا……میں نے ٹی وی کی تھیوری میں تھوڑا سا رد و بدل کیا ہے……پھر وہ جتانے والے لہجہ سے بولا……شاید تمہیں علم نہیں ……اس کرہ ارض کے چاروں جانب ‘‘ایتھر’’ لہروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ لہریں ہیں جو نباتات و جمادات کے ساتھ ساتھ دنیا میں موجود ہر شے کو جوں کا توں محفوظ کر لیں۔

                یہ کیا کہہ رہے ہو……میں نے حیرانی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

                میں ایک موٹر مکینک تھا……اس نے کہا……اور مکینک ہونے کی حیثیت سے کئی ایسی باتوں کا علم تھا جو ہر شخص کو نہیں ہو سکتا……رئیس بننے کے بعد……میں نے سائنس کے علم میں سے ‘‘EITHER’’ (ایتھر) لہروں پر زیادہ سے زیادہ کام کیا ہے……اس کے لئے میں نے مغربی ماہرین کی خدمات حاصل کیں اور اس طرح جلد از جلد کامیابی حاصل کر لی۔

                قاسم……میں نے تعریفی لہجہ سے کہا……تم کس قدر ہوشیار ……چالاک اور عقلمند ہو۔

                دراصل عقل ہی سب کچھ ہے……اس نے سنجیدگی سے جواب دیا……اور اس عقل ہی سے کام لے کر میں نے ‘‘وقت’’ کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔

                تمہاری باتوں نے مجھے عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے……میں نے کہا……وقت کو تم نے ‘‘ایتھر’’ لہروں کے ذریعے کس طرح قابو کر لیا۔

                یہ بات تمہاری سمجھ میں آسانی سے نہیں آئے گی……قاسم نے جواب دیا……ویسے یہ کام کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ میں اپنی ایجاد کے ذریعے ماضی میں چلا جاتا ہوں اور بادشاہوں کے زیورات لے کر واپس اپنی دنیا میں آ جاتا ہوں۔

                اب میری سمجھ میں اس کی بات آ گئی……میں نے جملہ پورا کیا……اور ان زیورات کو تم فروخت کر دیتے ہو۔ اس طرح تمہارے پاس بے بہا دولت جمع ہو رہی ہے۔

                تم بالکل صحیح سمجھے……وہ تائیدی لہجہ میں بولا……لیکن میری دولت کی وجہ سے چند لوگ میرے دشمن بھی ہو گئے ہیں۔

                وہ تو ہوں گے……میں نے کہا……بے انتہا دولت دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتی ہے۔

                لیکن……لیکن……تم زیادہ سے زیادہ دولتمند کیوں ہونا چاہتے ہو۔

                اس کی وجہ صرف یہ ہے……اس نے بتایا……کہ میں اصلی رئیس کو قید خانہ سے نکال کر اس کا اعلیٰ مقام واپس دینا چاہتا ہوں……اور خود اتنا بڑا رئیس بن جانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ میرے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہے تو نہ اٹھا سکے۔

                تم بہت ہی شاطر ہو……بہت ہی……میں نے ہنس کر کہا۔

                تم سے ملاقات ہو گئی……یہ بہت ہی اچھا ہوا……اس نے خوش ہو کر کہا……اب تم میرے ساتھ رہ کر میرا تجربہ دیکھنا۔ میں نے اس مقصد کے لئے ایک خفیہ مقام پر لیبارٹری قائم کی ہے۔

                میرے دشمن ہر وقت تاک میں رہتے ہیں……اس نے سرگوشی سے بتایا……وہ سمجھتے ہیں کہ میرے ہاتھ کوئی خفیہ خزانہ لگ گیا ہے’ اسی وجہ سے میں نے اپنی لیبارٹری شہر کے باہر جنگل میں قائم کی ہے۔

                بات ختم کرنے کے ساتھ ہی اس نے تالی بجائی اور اس کے ساتھ ہی ایک حسین ‘‘باندی’’ حاضر ہو گئی اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔ اس نے باندی کو حکم دیا کہ اس شخص کو مہمان خانے میں لے جائو۔ اور جب میں کہوں’ حاضر کر دینا۔

                اور پھر میں بھی خاموشی سے اس نازک اندام باندی کی ہمراہی میں کمرہ سے نکل گیا۔

 

                مجھے جس کمرہ میں ٹھہرایا گیا تھا، وہ قدیم و جدید تہذیب کا حسین امتزاج تھا اس کمرہ میں تمام آسائشیں میسر تھیں۔ میرے ایک اشارہ پر حسین باندیاں حاضر ہو جاتیں تھیں اور پلک جھپکتے میں میری ہر خواہش کی تکمیل کر دی جاتی تھی……میں بڑی ہی پر لطف زندگی گزار رہا تھا……کہ ایک دن……باندی نے کہا کہ رئیس شکار پر جا رہا ہے اور اس نے مجھے بھی بلایا ہے……میں فوراً ہی باندی کے ہمراہ چل دیا……میں نے عالیشان عمارت کے لان میں ایک نئی جیپ کھڑی دیکھی جس میں قاسم پہلے ہی اپنے دو تنومند محافظوں کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے مخصوص انداز میں چٹکی بجائی اور قریبی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا……میرے بیٹھتے ہی جیپ اسٹارٹ ہو گئی۔

                حیدر آباد شہر کے باہرکچھ دیر تک تو ہماری جیپ پکی سڑک پر چلتی رہی۔ پھر جنگل میں ایک پگڈنڈی پر مڑ گئی……کچھ دیر تک……چلنے کے بعد جیپ ایک گھنے جنگل میں داخل ہو گئی……جوں……جوں……ہم آگے بڑھتے جا رہے تھے جنگل گھنا ہوتا جا رہا تھا۔ پھر ایک مقام ایسا بھی آیا جب کہ جیپ روک دی گئی اور ہم سب نیچے اتر آئے……میں نے زندگی میں کبھی شکار نہیں کھیلا تھا اور نہ ہی شکار کے رموز سے واقف تھا۔ جیپ سے اترنے کے بعد دونوں باڈی گارڈ آگے چلنے لگے۔ ان کے پیچھے میں اور قاسم ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے قاسم مجھ سے مخاطب ہوا……دراصل میں تمہیں اپنا تجربہ دکھانے یہاں لایا ہوں……تم تو شکار کرنے آئے تھے۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ بات کاٹ کر بولا……درحقیقت میں جو کچھ بھی کرتا ہوں سب سے چھپ کرکرتا ہوں……میں ہفتہ میں ایک بار اپنی تجربہ گاہ میں آتا ہوں اور بہانہ یہی کرتا ہوں کہ شکار پر جا رہا ہوں۔

                اس کی وجہ……میں نے پوچھا۔

                اس کی وجہ……اس نے میرے الفاظ دہراتے ہوئے کہا……وہی دشمنوں والی بات ہے……اس کے علاوہ اصلی رئیس کو سائنس سے کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی……اب اگر کسی کو معلوم ہو جائے تو یہ شک والی بات ہو گی۔ لہٰذا میں کام کو نہایت ہی خفیہ طریقہ سے کر رہا ہوں۔

                اگر تمہارے یہ محافظ کسی کو بتا دیں تو……میں نے شک و شبہ کا اظہار کیا۔

                یہ کسی کو نہیں بتا سکتے……اس نے اعتماد سے جواب دیا کیونکہ یہ گونگے اور بہرے ہیں۔

                میں اس انکشاف پر تعجب سے ان دونوں باڈی گارڈز کو دیکھنے لگا جو کہ مشینی انداز میں چل رہے تھے۔ کچھ دور چلنے کے بعد درختوں کے جھنڈ میں لال اینٹوں کی بنی ہوئی ایک چوکور عمارت نظر آئی۔ یہ قاسم شیدی کی تجربہ گاہ تھی۔

                جب ہم اس عمارت کے صدر دروازہ پر پہنچے تو دو تنومند نوجوانوں کو دیکھا جو کہ نہایت تیز دھار چمکدار کلہاڑیاں ہاتھ میں تھامے مستعد کھڑے تھے۔ ان دونوں نوجوانوں نے روایتی انداز میں سلام کیا اور باادب گردن جھکا کر کھڑے ہو گئے……عمارت کا دروازہ کوئی خاص بڑا نہ تھا لیکن مضبوط لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ قاسم کا اشارہ پاتے ہی ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا……میں اور قاسم اندر داخل ہو گئے ہمارے ساتھ آئے ہوئے باڈی گارڈز باہر رہ گئے۔ اندر قدرے تاریکی تھی۔ صرف ایک چھوٹا سا بلب چھت کے ساتھ لٹک رہا تھا جس کی مدہم روشنی میں صرف اطراف کے در و دیوار ہی نظر آ رہے تھے۔ کوئی سو قدم چلنے کے بعد قاسم دائیں جانب گھوم گیا۔ یہ ایک پتلی سی گلی تھی جس کے آخری سرے پر ایک درمیانہ سائز کا دروازہ نصب تھا……دروازہ کے قریب پہنچ کر اس نے دیوار میں نصب ایک بٹن دبایا……چند لمحہ بعد دروازہ کھل گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں ایک بڑے سے ہال میں پہنچ گئے۔

                ہال کے وسط میں نیم گول دائرہ میں ایک بڑا سا ڈیش بورڈ ڈیسک نصب تھا اور سامنے کی جانب سطح زمین سے تقریباً چار فٹ بلند چبوترہ تھا۔ اس چبوترہ کے درمیان میں قد آدم فریم نصب تھا جس کے اطراف میں بے شمار تار پھیلے ہوئے تھے……اور ان تمام تاروں کا رابطہ ڈیش بورڈ سے تھا……اس فریم سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب ایک عجیب طرح کا ڈائل نصب تھا……یہ بالکل گھڑی کی طرح کا ڈائل تھا جس میں سوئیاں بھی تھیں……لیکن اس کی بڑی سوئی وقت کی بجائے ……زمانہ اور مقام بتاتی تھی جب کہ چھوٹی سوئی ‘‘وقت’’ بتا رہی تھی۔ اس ڈائل کے اوپر کی جانب ٹی وی کے انٹینا کی مانند کئی پتلی پتلی سلاخیں نصب تھیں……جب ہم ہال میں داخل ہوئے تو دو نہایت ہی بوڑھے انگریز ڈیش بورڈ کے سامنے بیٹھے اونگھ رہے تھے……اندر داخل ہوتے ہی انہیں پتا چل گیا۔ لہٰذا دونوں اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے۔ اور ہماری جانب استقبالیہ انداز میں بڑھے……ان دونوں نے ہم دونوں سے ہاتھ ملایا ۔ پھر قاسم دائیں جانب والے انگریز سے مخاطب ہوا……کیا رپورٹ ہے۔

                انگریز نے جواب دینے سے قبل میری طرف دیکھا……قاسم اس کا مطلب سمجھ گیا۔لہٰذا کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا……ماسٹر یہ میرا دوست ہے۔

                انگریز یہ سن کر مطمئن سا ہو گیا……اور چبوترہ پر نصب ڈائل کی جانب دیکھتے ہوئے بولا……میں نے ٹائم فکس کر دیا ہے۔

                کتنا ٹائم ہے……قاسم نے خالی کرسیوں کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔

                تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح……ماسٹر نے جواب دیا……یہ وہ زمانہ ہے جب کہ موسیٰ بنی اسرائیل کے ساتھ صحرائے سینا میں بھٹک رہے تھے۔ اور سامری نے ان کی عورتوں کے زیور سے گائے کا بچھڑا بنایا تھا۔

                تو میں اس زمانہ میں جائوں گا……قاسم نے خوشی سے پوچھا۔

                ہاں……ماسٹر نے جواب دیا……یہ وقت ہو گا……جب کہ سامری بچھڑا تیار کر چکا ہو گا۔ اور لوگ اس کی پوجا کر رہے ہوں گے……تم سونے کا بنا ہوا یہ بیش بہا تحفہ لے کر واپس اپنی دنیا میں لوٹ آئو گے۔

                ماسٹر کی یہ بات سن کر میں حیران تھا……قاسم نے دونوں ہاتھوں سے میرے شانے پکڑ کر خوشی سے کہا……تم اس تھیوری کو سمجھے۔

                میں نے نفی میں سر ہلا دیا……قاسم بڑے ہی پُرجوش لہجہ میں بولا……تھیوری کچھ یوں ہے کہ روشنی کی لہروں کے ساتھ ساتھ ماضی میں سفر کیا جاتا ہے۔ اور پھر……روشنی کے اس سفر کو ماضی میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

                لیکن کیا ماضی میں رونما ہونے والا کوئی بھی واقعہ جوں کا توں موجود رہتا ہے……میں نے حیرت سے پوچھا۔

                ہاں موجود رہتا ہے……قاسم کی بجائے ماسٹر نے جواب دیا……آسمان سے زمین تک ایسی لہروں کا جال بچھا ہوا ہے جن میں گزرا ہوا زمانہ جوں کا توں محفوظ رہتا ہے ان لہروں کو ‘‘ایتھر’’ کہا جاتا ہے۔

                لو یار قاسم بے تکلفی سے بولا……تم حقیقت کو خود دیکھ لو۔

                یہ کہہ کر اس نے ماسٹر کو اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجا کر اشارہ کیا……اور خود چبوترہ پر چڑھ گیا۔ ماسٹر اپنے انگریز ساتھی کے ہمراہ ڈیش بورڈ کے سامنے چلا گیا……پھر اس نے مختلف بٹن دبائے……چند ثانیہ بعد قد آدم چوکھٹے میں اطراف سے روشنیاں نکلنے لگیں……یہ روشنیاں فریم کے اندر آپس میں گڈ مڈ ہوتی رہیں اور پھر رفتہ رفتہ چوکھٹ کے اندر ایک منظر ابھرنے لگا……یہ حد نگاہ تک صحرا ہی صحرا تھا۔ اور اس صحرا کے ایک جانب ہیبت ناک پہاڑ تھا۔ اس پہاڑ کے دامن میں قدیم لباس میں عورتیں اور مرد ایک بے ہنگم سا شور مچا رہے تھے……شاید یہ بنی اسرائیل تھے کیونکہ ایک قدرے بلند جگہ پر جگمگ کرتا ہوا گائے کا بچھڑا ہی بھی کھڑا تھا یہ سب اس کے گرد رقص کر رہے تھے۔



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء