Topics

تلاش


                دو آبہ کا رئیس میری محبوبہ شمیم سے نکاح کر کے اسے لے گیا اور میں سوچتا ہوا واپس حویلی آ گیا کہ دوآبہ کا رئیس کس علاقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے سے یہی سوال رکھی نے بھی پوچھا تھا کہ تمہیں یا تمہارے چچا کو نکاح سے قبل اس رئیس کے بارے میں تحقیق تو کرنا چاہئے تھی۔ بات دراصل یہ تھی کہ پہلی ملاقات ہی میں اس رئیس کی سحر آفرین شخصیت نے ہم سب کو مرعوب کر دیا تھا۔ پھر دولت نے چچا کو اتنا زیادہ متاثر کر دیا تھا کہ انہوں نے حالات جاننے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔

                بہرحال وقت گزرتا رہا چچا رشتہ داروں اور دوستوں کو گھر بلا بلا کر ہیروں کاڈبہ دکھاتے اور وہ سب عش عش کر اٹھتے۔ چچا نے رئیس سے شادی کر کے میرے ارمانوں کی دنیا میں آگ لگا دی تھی۔ لیکن میں نے ہمیشہ صبر و ضبط اور استقلال سے کام لیا اور کبھی بھی اپنے منہ سے حرف شکایت نہیں نکالا۔ میں اپنی روزمرہ کی مصروفیات ہو گیا۔ میرے چچا کو اس بات کے متعلق احساس نہیں تھا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے میں محبت کی ایسی آگ میں جل رہا تھا جو میری موت کے ساتھ ہی ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔

                ہفتے اور مہینے گزر گئے نجم خان نے بتایا لیکن شمیم کی کوئی خبر نہیں ملی۔ کئی مرتبہ رات کے کھانے پر چچا نے اپنی تشویش کا اظہار ان الفاظ میں کیا بھئی دو آبہ کے رئیس نے نجانے کیوں اب تک اپنی خیریت کا خط نہیں بھیجا۔

                اس طرح چھ ماہ گزر گئے اور شمیم کے بارے میں کوئی خبر نہیں آئی۔ اب تو چچا کافی پریشان رہنے لگے اور آخر کار انہوں نے دو آبہ جانے کا فیصلہ کر لیا اور انہوں نے مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ اور میں اپنی محبوبہ کو ایک نظر دیکھنے کی خاطر فوراً تیار ہو گیا پھر ایک روز ہم دونوں بگھی میں سوار ہو کر دور اور قریب کے دوآبوں میں گئے لیکن ہمیں کسی بھی شہر میں کسی بھی گائوں میں……اور کسی بھی قریہ میں سلاسل نام کا کوئی آدمی نہیں ملا۔

                یہ صورتحال بڑی ہی تشویشناک تھی اور چچا کو پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہوں نے دولت سے مرعوب ہو کر انجانے شخص سے بیٹی کا نکاح کر کے سخت غلطی کی ہے۔ انہیں اپنی بے وقوفی اور ہوس دولت پر غصہ آنے لگا کہ انہوں نے ہیروں اور جواہرات کے ان ٹکڑوں کے عوض اپنی بیٹی کو ایک اجنبی کے حوالہ کر دیا تھا۔

                اس طویل تلاش و جستجو کے بعد آخر ہم اپنے شہر لوٹے اور جب واپس آ رہے تھے تو ایک جگہ ہمارا گزر قدیم کھنڈرات کے قریب ہوا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خستہ مکان کے احاطے میں آگ جل رہی ہے اور ایک جانب دو سفید گھوڑے بندھے چارہ کھا رہے ہیں۔ ان سے کچھ فاصلہ پر ایک بگھی کھڑی تھی۔ میں نے اور چچا نے فوراً پہچان لیا کہ یہ بگھی دو آبہ کے رئیس سلاسل کی ہے۔ ہم نے اپنی بگھی کا رخ مکان کی طرف کر دیا اور شکستہ مکانوں کی بستی میں سے گزرتے ہوئے اس مکان کے قریب پہنچ گئے ہم نے بگھی کو مکان کے صدر دروازے پر روکا۔ اور تیزی سے صحن میں داخل ہوئے۔ ہمارا خیال تھا کہ دوآبہ کا رئیس سلاسل اس شکستہ مکان میں ہو گا۔ ابھی ہم دونوں صحن عبور کر ہی رہے تھے کہ مکان کے اندرونی حصہ سے ساٹھ ستر سال کا ایک بوڑھا باہر آیا۔ اور بولا آپ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ مجھے دوآبہ کے رئیس سے ملنا ہے۔ چچا نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا۔ دوآبہ کا رئیس! بوڑھے نے پلکیں جھپکائیں۔ یہاں کوئی رئیس نہیں رہتا۔ تم جھوٹ بکتے ہو۔ بوڑھے نے ہاتھ جوڑ کر سعادت مندی سے کہا آپ ناراض نہ ہوں۔ اطمینان سے اندر چل کر پہلے میری بات سن لیں۔ چلو چچا نے اسی طرح غصہ میں کہا۔ یہ سن کر بوڑھا آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے چل دیئے۔

                بوڑھا ہمیں لے کر ایک صاف ستھرے کمرہ میں آ گیا۔ جہاں چند مونڈھے رکھے ہوئے تھے اور ایک جانب کھانے پکانے کا سامان رکھا ہوا تھا۔ ہم دونوں کے بیٹھنے کے بعد وہ بوڑھا بھی ایک خالی مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ اور اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بولا ۔ سائیں اس گھوڑے گاڑی کی داستان بھی کچھ عجیب سی ہے۔ میں اس بستی میں گذشتہ پچاس سال سے آباد ہوں۔ میں نے اس بستی میں آنکھ کھولی اور اس کی گلیوں میں کھیل کود کر جوان ہوا اب تو یہ بستی اجڑ چکی ہے۔ لوگ یہاں سے نقل مکانی کر کے سرسبز و شاداب علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔ لیکن میری تمنا یہی ہے کہ جس بستی میں میں نے جنم لیا۔ وہاں دفن بھی ہوں میری کوئی اولاد نہیں ہے ۔ تقریباً دو سال قبل بیوی بھی اس دنیا سے چلی گئی اب میں تنہا ہوں۔ اس بستی میں سورج غروب کا منظر بڑا ہی دلفریب ہوتا ہے اور میں اسے ہمیشہ دیکھنے کا عادی ہوں۔ یہ آج سے تقریباً چھ سات سال قبل کی بات ہے۔ جب کہ دن چھپ رہا تھا اور میں حسب معمول ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ کرنے کی خاطر ٹہلتا ہوا اپنے مکان سے ذرا دور کچی سڑک پر نکل گیا تھا۔ ابھی میں شفق کے سنہری نارنجی اور سرخ رنگوں کو دیکھنے میں محو تھا کہ اچانک کچھ فاصلے پر گھوڑوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو گھوڑا گاڑی اس ہی سڑک پر میری جانب آ رہی تھی۔ اس میں دو سفید رنگ کے بے حد قیمتی گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ گاڑی کا رنگ سیاہ تھا اور شفق کی دھندلائی ہوئی سرخی میں وہ کچھ عجیب سی دکھائی دے رہے تھے۔ میں گھوڑوں کی زد سے بچنے کی خاطر سڑک کے ایک طرف ہو گیا کیونکہ گھوڑے پوری طاقت سے دوڑ رہے تھے اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ کچلتے ہوئے نہ گزر جائیں۔

                اتنا کہہ کر بوڑھا کچھ دیر سانس لینے کو چپ ہوا اورپھر دوبارہ اس طرح بولا۔ سائیں میرا خیال تھا کہ گھوڑا گاڑی آگے شہر کی طرف جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ گاڑی کچھ قدم آگے جا کر رک گئی۔ گھوڑے پسینے سے نہائے ہوئے تھے۔ اور ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ بہت دور سے آ رہے ہیں کوچوان کی نشست پر ایک ہیبت ناک شکل کا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ گھوڑوں کے رکتے ہی وہ چھلانگ لگا کر نیچے اترا اور اس نے پہلے باری باری دونوں گھوڑوں کی پشت پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا گھوڑے خوف سے کانپ رہے تھے۔ ان کی یہ اضطرابی کیفیت دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ یہ بے زبان جانور اپنے مالک سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ خیر اس شخص نے جو وضع قطع سے کسی علاقے کا رئیس معلوم ہوتا تھا کیونکہ اس پگڑی میں ایک بڑا ہیرا لگا ہوا تھا’بگھی کا دروازہ کھولا اور اس کے چند لمحے بعد ایک حسین و جمیل نازنین کو عروسی لباس پہنے ہوئی دیکھا جسے سہارا دے کراس نے باہر نکالا۔ لیکن مجھے دیکھ کر ازحد تعجب ہوا کہ وہ حسین دلہن زار و قطار رو رہی تھی۔

                شمیم……میری بیٹی……چچا ایک دم چلائے وہی میری بیٹی شمیم تھی۔

                وہ آپ کی بیٹی تھی؟ بوڑھے نے تعجب سے پوچھا۔

                ہاں……وہ میری بیٹی تھی۔ چچا نے رندھی ہوئی آواز سے کہا اور جس شخص کو تم نے دیکھا تھا وہ دوآبہ کا رئیس اور میری بیٹی کا شوہر تھا۔ میں انہیں دونوں کو تو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ سائیں!……بوڑھے نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔ مجھے پہلے یہ بات معلوم نہ تھی۔ پھر بھی جب میں نے دیکھا کہ لڑکی اس کے پنجے سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور ساتھ ہی روتی بھی جا رہی ہے تو مجھ سے برداشت نہ ہو سکا……دوڑتا ہوا اس شخص کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ یہ لڑکی کون ہے؟ اسے کہاں سے پکڑ کر لائے ہو۔

                اس شخص نے میری کسی بھی بات کا جواب دینے کی بجائے اس زور سے میرے گال پر طمانچہ مارا کہ سر چکرانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب مجھے ہوش آیا تو آسمان پر ستارے چمک رہے تھے۔ میں نے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھا گھوڑا گاڑی اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی تھی۔ وہ درندہ شخص اس معصوم لڑکی کو لے کر جانے کہاں غائب ہو گیا۔ میں گاڑی کے قریب گیا اور کھلے دروازے سے اندر جھانک کر دیکھا مگر اس میں کوئی نہ تھا۔ پھر میں نے گھوڑوں کی باگ پکڑی اور انہیں گاڑی سمیت اپنے گھر لے آیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہے وہ شخص نہیں آیا۔ جبکہ میں ہر روز اس کا انتظار کرتا ہوں۔ اتنا کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا لیکن ہم دونوں کی عجیب حالت تھی۔ چچا کی آنکھیں پرنم تھیں جب کہ میرا دل رو رہا تھا۔ شمیم صرف چچا کی اولاد تھی جبکہ میری کائنات تھی۔ بوڑھے نے جو واقعات سنائے تھے ان سے تو یہ پتا چلتا تھا کہ دوآبہ کا رئیس سلاسل کوئی بہت ہی ظالم شخص ہے۔ اور میری شمیم اس سے نکاح کر کے خوش نہیں تھی پھر سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ اتنی شاندار اور قیمتی گاڑی چھوڑ کر کہاں چلا گیا۔ اس سلسلہ میں چچا نے کھنڈرات کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن کہیں بھی کسی بھی ذی روح کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکا۔ تھک ہار کر ہم دونوں واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ میں چچا نے کوئی ایسی بستی نہ چھوڑی جہاں انہوں نے دوآبہ کے رئیس سلاسل کے بارے میں نہ معلوم کیا ہو لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں ملا۔ حویلی میں آ کر چچا پر غم و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بیٹی کی جدائی نے ان کونڈھال کر دیا۔ انہیں بیٹی کے نہ ملنے کا شدید غم تھا ۔ وہ زیادہ وقت اپنی حویلی میں گم سم ٹہلتے رہتے۔ انہیں ہر وقت یہی خیال ستائے رکھتا کہ وہ اپنی بیٹی سے مل بھی سکیں گے یا نہیں۔

                جب کہ میری حالت ان سے مختلف تھی مجھے یقین تھا کہ میری شمیم ایک نہ ایک دن ضرور ملے گی۔ میں دل برداشتہ نہیں ہوا تھا بلکہ میں صبح صبح ایک اچھی نسل کے گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی تلاش میں نکل جاتا۔ اور قرب و جوار کے سارے علاقوں میں سارا سارا دن مارا مارا پھرتا رہتا۔ میری اس تلاش اور جستجو سے چچا کو میرے جذبات کا اندازہ ہو گیا۔ اور وہ سمجھ گئے کہ ان کی بیٹی سے سچی محبت کرتا ہوں لیکن اب وقت گزر چکا تھا، وہ اپنے فیصلے پر نادم تھے۔

                اس طرح چند دن اور گزر گئے۔ نجم خان نے مسلسل اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا پھر سردیوں کی ایک رات تھی جب کہ میں اور چچا رات کے کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ اچانک حویلی کے دروازے پر دستک سنائی دی اور پھر مسلسل دروازے پر دستک کی آواز آنے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بدحواس ہو کر دروازے کو پیٹے جا رہا ہے۔ دستک دینے والے کی آواز اتنی زور دار تھی کہ میں اور چچا بھی گھبرا کر کمرے سے نکل آئے۔ بوڑھا چوکیدار تقریباً دوڑتا ہوا گیا اور اس نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ آنے والے پر ہم دونوں کی بیک وقت نظریں پڑیں اور حیرت زدہ رہ گئے۔

                ہمارے سامنے شمیم کھڑی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ کملایا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیمار ہے ۔ اندر آ کر اس نے صرف ابا جی کہا اور دھڑام سے گر پڑی۔ اس کے گرتے ہی ہم دونوں چونکے اور تیزی سے اس کی طرف دوڑے وہ نیم بے ہوش تھی۔ میں اور چچا نے مل کر اسے اٹھایا اور اندر کمرے میں لے جا کر مسہری پر لٹا دیا۔ بس یوں ہی سمجھ لو کہ چچا اسے گود میں لے کر مسہری پر بیٹھ گئے۔ بیٹی کو اتنے عرصے کے بعد اور اس حالت میں دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے اسے سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا ۔میری بیٹی تو اتنے دنوں سے کہاں تھی۔

                ابا جی ،شمیم نے صرف دو الفاظ کہے۔ میں فوراً ہی مٹکوں کے پاس گیا اور پانی لے آیا۔ شمیم نے کپکپاتے ہاتھوں سے پیالہ لیا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ نجانے وہ کب کی پیاسی تھی جب تک پیالہ خالی نہ ہو گیا اس نے ہونٹوں سے نہ ہٹایا۔ پانی پینے کے بعد اس کے حواس کسی حد تک درست ہوئے اور اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں بھوکی ہوں مجھے کھانے کو دو۔ ہم دونوں ابھی کھانے سے فارغ ہوئے تھے اور دسترخوان اٹھایا نہیں تھا۔ لہٰذا میں فوراً ہی دوسرے کمرے میں گیا اور گوشت کا بھرا ہوا پیلا اور دو روٹیاں لے کر آ گیا۔ شمیم نے گوشت کا پیالہ میرے ہاتھ سے لے لیا اور ندیدوں کی طرح کھانے لگی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کئی وقت کی بھوکی ہے۔ جوں جوں غذا اس کے پیٹ میں پہنچتی جاتی تھی۔ اس میں توانائی آتی جاتی تھی۔ مجھے تعجب تھا کہ اس کی یہ حالت کس طرح ہوئی۔

                جب وہ کھانا کھا چکی تو اس کی حالت سنبھلی۔اور اس نے اپنے اطراف نظریں دوڑائیں اور پھر سہم کر چچا کے سینے سے لپٹ گئی۔ چچا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔ بیٹی اتنے عرصے کہاں رہیں۔ ابا جان شمیم نے اس طرح سہمے انداز سے کہا۔ اب آپ مجھے تنہا نہ چھوڑیے گا۔ نہیں بیٹی، نہیں۔ چچا نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن……لیکن تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ ابا جان شمیم نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کہاں رہی ۔ اس کے بعد وہ سسکیاں لے کر رونے لگی۔ چچا اور میں پریشان نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر چند ثانیہ کے بعد چچا نے اس کی پیٹھ تھپتھپا کر تسلی دی اور تشویش سے پوچھا۔ بیٹی تمہارا شوہر دوآبہ کا رئیس سلاسل کہاں ہے۔ وہ انسان نہیں ہے ابا جان۔ شمیم نے سسکیوں کے درمیان بتایا۔

                یہ سنتے ہی ہم دونوں حیران نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ اور میں نے اس سے حیرانگی سے پوچھا۔ وہ……وہ انسان نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ وہ ایک جن ہے ابا جان۔ شمیم نے جواب دیا اور ڈر کر اپنا منہ ان کی آغوش میں چھپا لیا۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ہم دونوں کے منہ سے نکلا۔ میں سچ کہہ رہی ہوں وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ اس نے آپ کو دھوکا دیا ہے۔ اس نے مجھ سے دھوکا دے کر نکاح کیا ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ویرانوں اور قبرستانوں میں لے جا کر پھرتا رہا ہے۔ یہ سن کر چچا کے چہرے پر پریشانی نمودار ہو گئی۔ وہ سمجھے کہ بیٹی کسی پریشانی کی وجہ سے اس طرح کی باتیں کر رہی ہے۔ لہٰذا اسے پیار سے کہا۔ تم اطمینان سے لیٹ جائو میں ابھی ڈاکٹر کو بلواتا ہوں۔ آخری الفاظ کے ساتھ ہی انہوں نے مسہری سے اٹھنا چاہا۔ لیکن شمیم ان کے سینے سے بری طرح چمٹ گئی۔ اور روتے دھوتے بولی۔ نہیں ابا جان نہیں۔ آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر کہیں نہ جائیں۔ آپ ڈاکٹر کی بجائے کسی اللہ والے کو بلوائیں۔ میں اور چچا جنات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اس وقت شمیم جو کہہ رہی تھی وہ کچھ عجیب سی باتیں تھیں۔ چچا جان کا خیال تھا کہ دوآبہ کا رئیس سلاسل یا اس کے گھر والوں نے ایسی اذیتیں دی ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ جب کہ میرے ذہن میں دوآبہ کے رئیس کے ہیبت ناک چہرہ، دروازہ بند ہونے کے باوجود کھلنا اور اس کا کرخت لہجہ گھوم رہا تھا۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا۔ تمہیں یقین ہے کہ وہ انسان نہیں جن ہے۔ آہ تم لوگ میری باتوں پر یقین نہیں کر رہے ہو۔ میں بہت مشکل سے اس سے بچ کر یہاں آئی ہوں۔ لیکن اسے جب میری غیر موجودگی کا علم ہو گا تو وہ پلک جھپکتے میں یہاں آئے گا اور مجھے لے جائے گا۔ اگر یہی بات ہے تووہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ میں نے حوصلے سے کہا۔ تمہاری خاطر میں اس سے ٹکرا جائوں گا۔

                نہیں نجم، نہیں۔ اس نے درد بھرے لہجہ میں کہا۔ تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ وہ بہت طاقتور ہے اس کا مقابلہ کوئی روحانی آدمی ہی کر سکتا ہے۔ چچا نے اسے تسلی دینے کی خاطر مصنوعی غصے سے کہا ۔ پہلے تو دیکھیں وہ یہاں آتا کیسے ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا۔ نجم تم دروازے اور کھڑکیاں بند کر دو۔ میں فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور کمرے کی تمام کھڑکیاں دروازے بند کر دیئے۔ اب شمیم کو کچھ کچھ اطمینان سا ہوا پھر بھی خوف اس پر چھایا ہوا تھا۔ اس نے چچا کے سینے سے چہرہ ہٹایا اور افسردگی سے بولی۔ یہ بند کھڑکیاں اور دروازے اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اس کی یہ بات سن کر مجھے یقین سا ہونے لگا کہ شمیم سچ کہہ رہی ہے۔ یہ میرا جذبہ محبت تھا کہ اس کی دلجوئی اور خوف دور کرنے کی خاطر قرآن لے کر تلاوت کرنے لگا۔ قرآن حکیم کی تلاوت کرنے سے جیسے شمیم کو قرار آ گیا اور وہ بستر پر لیٹ گئی لیکن اس کا سراب بھی باپ کی گود میں تھا۔ اور وقفہ وقفہ سے چونک چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگتی تھی۔

                رات کا پہلا حصہ گزر چکا تھا وہ مسہری پر لیٹی بے خبر سو رہی تھی۔ اس کے ہلکے ہلکے خراٹوں سے پتہ چلتا تھا کہ کئی دن سے نہیں سوئی ہے۔ چچا اس کے سرہانے بیٹھے کوئی وظیفہ پڑھ رہے تھے اور میں برابر قرآن حکیم کی تلاوت میں مشغول تھا کہ شمیم بے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور ایک دم خوفزدہ ہو کر بولی۔ ابا جان اسے روکو وہ حویلی میں آ گیا ہے۔ شمیم کی آواز سن کر میں نے اس کی جانب ایک نظر دیکھا اور زور زور سے تلاوت کرنے لگا۔ چچا نے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا کون آ گیا ہے بیٹی؟ سلاسل آ گیا ہے۔ شمیم نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا۔ وہ۔وہ اس کمرے میں آ گیا ہے لیکن اس کلام کی برکت سے اس کی ہمت نہیں پڑ رہی ہے وہ ضرور کوئی شرارت کرے گا اور مجھے لے جائے گا۔ ابا جان اسے کمرے سے نکالو، نکالو وہ مجھے لے جائے گا۔ وہ خوفزدہ ہو کر ہیجان خیز انداز میں چیخنے لگی اور میں اس کے ساتھ ہی پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں تلاوت کرنے لگا۔

                پھر اس کی چیخوں کے ساتھ ہوا کا شور اٹھا جیسے کمرے میں آندھی آ گئی ہو۔ دروازے کھڑکیاں آپ ہی آپ کھلنے اور بند ہونے لگے۔ دیواروں پر لگی ہوئی تصویریں گر کر ٹوٹ گئیں۔ فرنیچر اور برتن دھماکے کے ساتھ ٹوٹ گئے اور اس کے ساتھ ہی کمرہ میں لٹکا ہوا خوبصورت فانوس بھی بجھ گیا۔ اس اندھیرے میں قرآن کریم نہیں پڑھا جا سکتا تھا۔ میرے خاموش ہوتے ہی شمیم چلائی ابا جان جلدی سے اسے روشن کریں وہ مجھے لے جائے گا۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی نجم تلاوت کرتے رہو۔ وہ دیکھو وہ میرے قریب بستر پر آ گیا ہے۔ چچا جان اندھیرا ہوتے ہی شمیم کی پہلی آواز پر اٹھے اور شمع دان لینے دوسرے کمرے کی طرف دوڑے اس عرصہ میں ، میں نے ایک ہیولہ شمیم کی مسہری کے پاس کھڑا دیکھا۔ خطرہ کا احساس ہوتے ہی میں اس ہیولہ کی طرف لپکا۔ وہ کوئی دیو ہیکل جسم تھا جس نے شمیم کو ایک ہاتھ سے اپنی آغوش میں دبوچ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے روکے ہوئے تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا رخ دروازے کی جانب ہے لہٰذا میں ہاتھ چھوڑ کر اسے روکنے کی خاطر پائوں سے لپٹ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے اس ہیولہ نے ایک معمولی سی جنبش سے اپنے پائوں چھڑا لیے اور کمرہ سے باہر نکل گیا۔ حویلی کے تمام کمروں میں حتیٰ کہ صحن تک میں برقی قمقمے جل رہے تھے۔ میں نے اس روشنی میں دیکھا کہ دوآبہ کا رئیس سلاسل تھا۔ شمیم بے ہوش ہو چکی تھی اور وہ اسے اٹھائے ہوئے صدر دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ میں فوراً ہی اس کی طرف دوڑا لیکن اس سے پہلے کہ میں ایک بار پھر اسے پکڑتا کہ حویلی کا صدر دروازہ خود بخود کھل گیا۔ دروازے کے باہر کی جانب اس کی بگھی کھڑی ہوئی تھی۔ دروازے سے نکلتے ہی وہ خودبخود بند ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ شمیم کو بگھی میں لے کر جائے گا۔ لہٰذا فوراً ہی اصطبل کی طرف گیا۔ اور ایک اچھی نسل کا گھوڑا لے کر اس کے تعاقب کی خاطر صدر دروازے پر پہنچ گیا۔ بوڑھا چوکیدار اس وقت مجھے گھوڑے پر سوار دیکھ کر حیران ہوا۔ اور اس نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن میں نے اس کی کسی بات کا جواب دینے کے بجائے دروازہ کھولنے کو کہا۔ اس نے فوراً ہی دروازہ کھولنا چاہا لیکن بے سود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوت اس دروازے کے پیچھے ہے۔ اس دوران چچا بھی دروازے کے پیچھے پہنچ گئے وہ بھی بے انتہا خوف زدہ تھے اور وہ مجھ سے رو رو کر کہہ رہے تھے کہ بیٹا وہ شمیم کو لے گیا ہے۔ خدا کے لئے میری بیٹی کو اس ظالم سے چھڑا لائو۔ پھر اس سے پہلے کہ میں انہیں تسلی اور تشفی دیتا دروازے کی دوسری جانب گھوڑوں کے دوڑنے اور بگھی کے پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی دروازہ آسانی سے کھل گیا۔ دروازے سے نکل کر میں نے دیکھا کہ مجھ سے سو قدموں کے فاصلہ پر بگھی جا رہی ہے۔ میں نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ تعاقب کے دوران جب بھی بگھی سے میرا فاصلہ کم ہونے لگتا سلاسل پیچھے مڑ کر دیکھتا اور اپنے گھوڑے پر ہنٹر برسانے لگتا۔

                رات بھر اسی طرح تعاقب جاری رہا۔ صبح صادق کے وقت جب کہ آسمان پر سفیدی پھیل رہی تھی راستے میں درختوں کا ایک بہت بڑا جھنڈ نظر آیا۔ سلاسل کی بگھی ان درختوں کی آڑ میں جا کر اوجھل ہو گئی اور جب چند لمحے بعد میں گھوڑا دوڑاتا ہوا ان درختوں کے جھنڈ کی دوسری جانب پہنچا تو راستہ ویران تھا۔ اور بگھی غائب تھی۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ بگھی درختوں کی آڑ میں کہاں غائب ہو گئی۔ میرا گھوڑا پسینہ میں شرابور تھا اور اس کا پیٹ دھوکنی کی طرح چل رہا تھا۔ اس کے باوجود میں نے اسے اطراف میں دوڑایا لیکن بگھی کا کہیں پتا نہ چل سکا۔

                پھر جب صبح صادق کا اجالا ہر شے پر چھا گیا تو مجھے معلوم ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ یہ ایک بہت ہی پرانا قبرستان ہے۔ اس قبرستان کی حدود میں آتے ہی سلاسل غائب ہو گیا تھا۔ یہاں میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہ ظالم میری شمیم کو یہی کہیں چھپائے ہوئے ہے۔ کیا تمہیں پورا یقین ہے اللہ رکھی نے پوچھا۔

                آپ یقین کی بات کرتی ہو۔ نجم خان نے جواب دیا۔ مجھے تو خود میری شمیم نے بتایا ہے کہ اسے سلاسل نے یہیں کہیں چھپا رکھا ہے۔ شمیم نے کس طرح بتادیا ، اللہ رکھی نے مسکرا کر پوچھا۔

               

               

 

عامل جن

                دن نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد میرے گھوڑے نے دم توڑ دیا……نجم خان نے بتایا……اب میں یک و تنہا تھا……قبرستان میں دن بھر ادھر ادھر مارا……مارا پھرتا رہا……لیکن مجھے یہاں بگھی کے نشان تک نہیں ملے……پھر سورج غروب ہو گیا اور شہر خموشاں پر ہولناک تاریکی پھیل گئی……مجھے رات گزارنے کے لئے ٹھکانہ چاہئے تھا……اور اس قبرستان میں جو پکے اور خوشنما مقبرے بنے ہوئے ہیں ان میں چمگادڑوں اور حشرات الارض نے ڈیرہ جما رکھا تھا۔ لہٰذا میں اس قبرستان کے آخری سرے پر بنی ہوئی مسجد میں چلا گیا……مسجد ویران تھی مجھے ایک دم خیال آیا کہ نجانے اللہ کا یہ گھر کب سے ویران ہے……مجھے نماز پڑھنی چاہئے……اس خیال کے آتے ہیں میں نے کنوئیں سے ڈول بھرا……اور خوب جی بھر کرنہایا……نہانے سے جسم میں تروتازگی آ گئی……اس کے بعد میں نے فوراً ہی اذان دی۔ اور نماز پڑھنے لگا……نجانے میں نے کتنی نفلیں پڑھیں ، مجھے تو صرف اس قدر یاد ہے کہ جب میں رکوع اور سجدہ کرتے کرتے تھک گیا تو وہیں فرش پر لیٹ گیا……نماز پڑھنے سے میری روح اور بدن کو تسکین پہنچ رہی تھی……یہ اسی سکون کا نتیجہ تھا کہ میں مسجد کے اس فرش پر لیٹتے ہی سو گیا۔

                ابھی میں اچھی طرح سونے بھی نہیں پایا تھا ……نجم خان نے ایک گہری سانس لے کر رندھی ہوئی آواز سے کہا……کہ کسی نے میرا بازو پکڑ کر جگا دیا……میں نے دیکھا ایک انسانی سایہ قریب ہی کھڑا ہے۔ یہ ایک عورت کا ہیولہ تھا۔ جس نے اپنے جسم کے فرد سفید بے داغ چادر لپیٹ رکھی تھی۔ اس عورت کے دائیں ہاتھ میں سنہری شمع دان تھا جس میں ترتیب سے تین موم بتیاں روشن تھیں……عورت کا چہرہ سیاہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا……اس عورت کو دیکھتے ہی خوف سے میرا دل تیزی کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ اور میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا……کون ہو تم……اور اتنی رات گئے مسجد……میں کیا کرنے……آئی……ہو۔

                عورت نے نقاب کے اوپر سے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کو کہا اور مسجد کے دروازے کی طرف چل دی……دروازہ کے قریب پہنچ کر رکی اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ میں اشارہ پاتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پیچھے چل دیا……عورت مسجد سے نکل کر ایک طرف کو چل دی۔ میں اس کے عقب میں چلتا رہا……وہ عورت بیس پچیس قدم چلنے کے بعد مڑ کر دیکھتی تھی جیسے اطمینان کر رہی ہو……کہ میں آ رہا ہوں یا نہیں……عورت قبروں کے درمیان بنی ہوئی ٹیڑھی میڑھی……پگڈنڈیوں پر چلی جا رہی تھی……کچھ دور چلنے کے بعد……وہ ایک ایسی پگڈنڈی پر ہو گئی جو سیدھی ان قدیم مقبروں کی طرف جاتی تھی جو کہ صدیوں پرانے تھے۔ اور جنہیں کوئی ماہر آثار قدیمہ ہی پہچان سکتا تھا کہ یہ کن ذیشان لوگوں کی ویران آرام گاہیں ہیں۔ چاروں طرف موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی……اور میں قبروں کے درمیان سے مڑتا بل کھاتا اور قبروں کو پھلانگتا ہوا……عورت کے پیچھے چل رہا تھا……دور ایک قدیم عمارت کے کھنڈر دکھائی دیئے جس کے ارد گرد……اونچے اونچے درختوں کا گھنا جنگل تھا۔

                یہ درخت کس قسم کے تھے……اللہ رکھی نے پوچھا۔

                میں پہچان نہ سکا کہ یہ درخت کس قسم کے تھے……نجم خان نے جواب دیا……میں تو عورت کے سراپا پر نظر کئے ہوئے تھا۔

                اللہ رکھی کے اس سوال پر میں چونکا اور اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ لیکن وہ میری جانب توجہ دینے کی بجائے……بڑے ہی غور سے نجم خان کی داستان سن رہی تھی……اور نجم خان کہہ رہا تھا……اس عمارت کے قریب پہنچ کر وہ عورت رک گئی……میں بھی اس عورت کے بالکل قریب پہنچ گیا……اس عورت نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ایک بار پھر مجھے خاموش رہنے کی تلقین کی اور بائیں ہاتھ میں شمع دان لے کر عمارت کے اندرونی حصہ کی جانب چل پڑی……یہ کسی حکمران کی بہت ہی پرانی حویلی تھی……وہ عورت مجھے لئے ہوئے ایک طویل غلام گردش سے گزر کر کھلے صحن کے آخری سرے پر زمین سے تقریباً دو فٹ اونچا سنگ مر مر کا چبوترہ بنا ہوا تھا……چبوترہ کے اوپر پہنچ گئی۔ اور مجھے بھی قریب آنے کا اشارہ کیا……اوپر ایک نہایت ہی شاندار قسم کا چھپڑ کھٹ پڑا ہو اتھا جس کے چاروں جانب گہرے سرخ رنگ کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ عورت نے پردہ کے قریب پہنچ کر اس کا ایک کونا تھوڑا سا اٹھا لیا۔

                اتنا کہہ کر نجم خان سانس لینے کو رکا لیکن میں نے بے تابی سے پوچھا۔ چھپڑ کھٹ کے اندر کون تھا؟

                کون تھا……نجم خان نے قدرے غصہ سے دہرایا……چھپڑ کھٹ کے……اندر……مسہری پر وہ ظالم بے خبر سو رہا تھا جس نے میری دنیا اجاڑ دی تھی۔

                 یعنی ‘‘سلاسل’’……میں نے پوچھا۔

                ہاں……دوآبہ کا رئیس ‘‘سلاسل’’ سو رہا تھا……نجم خان نے کپکپاتے ہوئے جواب دیا……اس بدبخت کی شکل دیکھتے ہی……میرے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی……انتقام کا جذبہ پوری شدت سے ابھر آیا……اگر اس وقت میرے پاس کوئی ہتھیار ہوتا تو اس ظالم کے سینہ کے پار کر دیتا……پھر بھی میں نے اس کا گلہ دبانے کی خاطر اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھا دیئے۔

                پھر کیا ہوا……میں نے بے چینی سے پوچھا۔کیا تم نے اس کا گلا دبا دیا۔

                نہیں……نجم خان نے کہا……اس سے پہلے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا……اس نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے اپنی سرخ آنکھوں سے گھورنے لگا۔

                مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہو……میں سکتہ کے عالم میں آ گیا……اس نے اپنا ایک ہاتھ بڑھایا اور نقاب پوش عورت کو مسہری پر گھسیٹ لیا……وہ عورت بھی اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اور اسی کوشش میں……اس کے چہرے سے نقاب ہٹ گیا……میں نے دیکھا کہ وہ ……میری شمیم تھی……شمیم کو دیکھتے ہی میں چونکا اور ‘‘سلاسل’’ پر جھپٹ پڑا……لیکن……لیکن اس میں بے پناہ طاقت تھی……اس نے ایک ہاتھ سے مجھے دھکا دیا اور ہوا میں اڑتا ہوا چبوترہ سے دور جا پڑا……اور بے ہوش ہو گیا۔ علی اصبح جب مجھے ہوش آیا تو میں مسجد کے باہر قبروں کے درمیان پڑا ہوا تھا……وہ دن……اور آج کا دن ہے……میں اس قبرستان میں اس عمارت کو تلاش کر رہا ہوں۔

                پھر عمارت ملی……اللہ رکھی نے پوچھا۔

                نہیں……نجم خان نے جواب دیا کبھی……کبھی……میری شمیم کا ہیولہ آ کر مجھے اس عمارت کے بارے میں نشاندہی کرتا ہے……میں اس سے اس عمارت کے بارے میں پوچھتا ہوں۔

                اور لوگ سمجھتے ہیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئی شخص ہو……اللہ رکھی نے زیر لب تبسم سے کہا……تم کو ولی اللہ سمجھ کر وہ لوگ ہر وقت تمہیں گھیرے رہتے ہیں۔

                اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ نجم خان نے معذرت سے کہا۔

                واقعی تمہاری کوئی غلطی نہیں……اللہ رکھی نے جواب دیا اور میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی……یہ ہے تمہارے قبرستان کے پیر کی اصل حقیقت۔

                باہر بارش کا طوفان ختم ہو چکا تھا……اور اب صبح کا اجالا پھیل رہا تھا……نجم خان اپنی نشست پر گم سم بیٹھا فرش کو تک رہا تھا……کچھ دیر بعد شمرال نے چھوٹی سی میز پر ناشہ لا کر رکھ دیا۔ اللہ رکھی ہم سب کے پیالوں میں چائے انڈیلتے ہوئے مخاطب ہوئی……خان! اس دنیا میں کوئی بھی شخص کسی کے باطن کو نہیں جان سکتا……یہاں لوگ پاگل اور دیوانوں کو بھی ولی اللہ سمجھنے لگتے ہیں۔

                لیکن میں نے تو سنا ہے ……کہ نجم خان کے منہ سے نکلی ہوئی کئی باتیں درست ہوئی ہیں۔ میں نے جواب دیا۔

                جب کبھی اس کے شعور سے ‘‘عشق مجازی’’ نکل جاتا ہے اللہ رکھی نے بتایا۔ تو اس کا لا شعور بیدار ہو جاتا تھا۔ اور مستقبل کی پیش گوئی کر دیا کرتا تھا۔

                مجھے تو شمیم کے عشق میں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا کہہ رہا ہوں……نجم خان نے جواب دیا یہی حال ‘‘عشق طریقت’’ والوں کا ہوتا ہے……اللہ رکھی نے ایک روغنی روٹی کا نوالہ توڑتے ہوئے کہا۔

                تم کیا کہنی چاہتی ہو……میں نے نوالہ چباتے ہوئے پوچھا۔

                اللہ سے محبت کرنے والے بھی……اللہ رکھی نے کہا……جب اس کے عشق میں ڈوب جاتے ہیں تو پھر کائنات ان کے لئے کھلی کتاب بن جاتی ہے۔

                اللہ کے عشق میں ڈوبنے کا طریقہ کیا ہے۔ میں نے سوال کیا۔

                اس کا ہر وقت‘‘تصور’’ ہونا چاہئے……اللہ رکھی نے بتایا……اور اس کا تصور قائم کرنے کے لئے ‘‘مراقبہ’’ بہترین طریقہ ہے۔

                مراقبہ……میں نے اچنبھے سے پوچھا۔

                ہاں مراقبہ……اللہ رکھی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں نے تمہیں پہلے بھی مراقبہ کی اہمیت و افادیت بتائی تھی……اس ذریعہ سے جب ذہن میں تصور پختہ ہو جاتا ہے تو پھر انسان نہ صرف ‘‘لوح محفوظ’’ کو پڑھنے لگتا ہے بلکہ وہ اللہ سے باتیں بھی کرتا ہے۔

                میں کوئی جواب دینے کے بجائے خاموشی سے ناشتا کرنے لگا……اللہ رکھی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا……پھر اس کی حالت نجم خان جیسی ہو جاتی ہے۔

                نجم خان جو کہ ناشتا کر چکا تھا……بولا……میرے تو دل و دماغ پر صرف اور صرف شمیم چھائی ہوئی ہے۔

                اور تم اسے ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہو……اللہ رکھی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

                تمہارا عشق سچا ہے……اللہ رکھی نے چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے کہا۔

                اگر میری محبت سچی ہے……نجم خان کے لہجہ میں جھنجھلاہٹ تھی……تو پھر اللہ مجھے شمیم سے ملا کیوں نہیں دیتا۔

                اللہ نے انسان کو وقت کا پابند کر دیا ہے……اللہ رکھی نے بتایا یہی وجہ ہے کہ انسان کتنی ہی جلدی کرے کام وقت پر ہوتا ہے۔

                میں وقت کا پابند ہوں……نجم خان نے اسی لہجہ میں کہا……مجھے اگر صرف……اور صرف ایک بار ‘‘سلاسل’’ اور مل جائے تو میں اس سے شمیم چھین لوں گا۔

                آخری جملہ کے ساتھ ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں۔ جیسے اسے غصہ آ گیا ہو۔

                اللہ رکھی اس کے غصہ پر مسکرانے لگی……اسی اثناء میں اس کا ملازم شمرال کمرے میں داخل ہوا اور برتن اٹھا کر خاموشی سے چلا گیا……اس کے جانے کے بعد……اللہ رکھی نجم خان سے مخاطب ہوئی تم جانتے ہو ‘‘سلاسل’’ کتنا طاقتور ہے۔

                نجم نے اثبات میں سر ہلا دیا……اللہ رکھی نے حسب معمول مسکراتے ہوئے کہا……اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ‘‘جن’’ ہے۔

                ‘‘جن’’ ہے……نجم خان نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا……تعجب تو مجھے بھی تھا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ جن ہو کر ایک انسان سے کس طرح شادی کر سکتا ہے۔ اللہ رکھی نے جیسے میرے دل کی بات پڑھ لی……تمکنت سے بولی……انسان اور جنات میں صرف یہ فرق ہے کہ اللہ نے انسان کو جسم عطا کیا ہے جب کہ جن روشنی ہے۔

                صرف روشنی……نجم خان نے حیرانگی سے کہا۔

                انسان کا وجود گوشت پوست کا ہے۔ اللہ رکھی نے کہا……اس کے جسم کے اطراف نور کا ہالہ ہوتا ہے جسے ‘‘نسمہ’’ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ نسمہ ہے جو انسان کی حفاظت کرتا ہے۔

                اور جنات……میں نے پوچھا۔

                وہ بھی روشنی سے بنے ہوئے ہیں، اللہ رکھی نے جواب دیا……ان کی روشنیوں کے جسم آڑے ترچھے……روشنیوں سے مل کر بنے ہیں……یہی آڑی ترچھی روشنیاں ان کے اجسام ہوتے ہیں۔

                لیکن ‘‘سلاسل’’ تو انسانی روپ میں تھا……نجم خان نے اس کی بات کی تردید کی۔

                روشنیوں کے ان اجسام کو محنت اور ریاضت سے کسی بھی روپ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اللہ رکھی نے وضاھت کی……سلاسل ایک عامل جن ہے……اسے یہ دسترس ہے کہ اپنے جسم کو کسی بھی روپ میں ڈھال لے۔

                یہ تو تم نے عجیب بات بتائی ہے ……میں نے عقیدت سے کہا۔

 

                اللہ رکھی نے میری بات سن کر آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے ‘‘مراقبہ’’ میں ہو……پھر اس نے اپنی ناک کی جڑ پر انگشت شہادت رکھی اور بولی……یہ کوئی صدیوں قبل اپنے گھر والوں سے جدا ہو گیا تھا۔ اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی……اور وہ نسخہ کیمیا حاصل کر لیا جس کی بدولت وہ کوئی بھی روپ اختیار کر سکتا ہے۔

                یعنی اس نے اپنے وجود کی آڑی ترچھی روشنی پر عبور حاصل کر لیا ہے……میں نے تائیدی لہجہ میں کہا۔

                ہاں۔ یہی بات ہے……اللہ رکھی نے اقرار کے انداز میں سر ہلا کر کہا……یہ دنیا بڑی ہی حسین ہے اور اس دنیا سے لطف اندوز ہونے کی خاطر انسان ہونا ضروری ہے……سلاسل نے تقریباً ایک صدی قبل انسانی روپ اختیار کر لیا تھا۔

                وہ ایک صدی سے انسان بنا ہوا ہے……نجم خان نے تعجب سے کہا۔

                پہلے وہ کراچی کے نواح میں رہتا تھا……اللہ رکھی نے اپنی بات جاری رکھی……اس دوران اس نے کئی عورتوں سے شادیاں کیں۔

                وہ ……عورتیں کہاں ہیں……میں نے پوچھا۔

                وہ ہمیشہ ایک عورت کے مرنے کے بعد……دوسری عورت سے شادی کرتا ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……لیکن جب ہندوستان تقسیم ہوا تو اس کی شرارتوں میں کمی واقع ہو گئی۔

                اچھا……ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔

                اتنا کہہ کر اللہ رکھی خاموش ہو گئی……ساتھ ہی اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں……ہم دونوں نے ایک ساتھ اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا……جیسے پوچھ رہے ہوں……اب وہ کہاں ہے۔

                اللہ رکھی نے مسکرا کر ہم دونوں کی طرف دیکھا……جیسے بات سمجھ گئی ہو۔ پھر بولی……اب وہ ٹھٹھہ کے گرد و نواح میں رہتا ہے۔

                پھر اس نے نجم خان سے پوچھا……تم نے ٹھٹھہ دیکھا ہے۔

                ہاں۔ میں کئی بار اپنے چچا کے ساتھ ٹھٹھہ شہر گیا ہوں……نجم خان نے جواب دیا۔

                اس شہر سے کچھ فاصلہ پر ‘‘مکلی’’ کا سیکڑوں برس پرانا قبرستان ہے……اللہ رکھی نے بتایا۔

                ہاں ہے……نجم خان نے تائید کی۔

                یہاں بڑے بڑے امراء اور شاہی خاندان کے لوگوں کے عالیشان مقبرے ہیں……اللہ رکھی نے کہا……سلاسل تمہاری شمیم کے ہمراہ انہی میں سے کسی ایک مقبرہ میں رہتا ہے۔

                تو پھر……میں ٹھٹھہ جاتا ہوں……نجم خان نے جواب دیا اور کرسی سے کھڑا ہو گیا۔

                ایسے نہیں……اللہ رکھی نے اسے دوبارہ کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا……وہ ایک عامل جن ہے اور اس سے تم……اس طرح جیت نہ سکو گے۔

ُ             پھر کیا کروں……اس نے اضطراب سے پوچھا۔

                صبر کرو……صبر……اس نے کہا اور مجھ سے مخاطب ہوئی……خان! تم اس کا حلیہ درست کرو……میں ایک دو دن میں اس کی محبوبہ کے لئے کچھ کرتی ہوں۔

                پھر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور تنبیہہ والے لہجہ میں بولی……نجم خان اگر تمہیں اپنی محبوبہ چاہئے تو میرے حکم کی تعمیل کرنا ہو گی۔

                میں تیار ہوں حضرت! نجم خان نے ادب سے ہاتھ باندھ کر جواب دیا۔

                تو بس۔ آج سے تمہارا ٹھکانہ قبرستان نہیں بلکہ یہ کمرہ ہے……اللہ رکھی نے جیسے حکم دیا……تم خان کے ساتھ اسی کمرہ میں رہو گے۔ اور سب سے پہلے اپنا حلیہ درست کرو گے۔

                آخری جملہ ادا کرنے کے بعد وہ مڑی اور اندرونی کمروں میں سے ایک کا دروازہ کھول کر چلی گئی۔

                میں نے اس بستی میں موجود ایک حجام کی دوکان سے نجم خان کی داڑھی، مونچھیں اور سر کے بال ترشوادیئے اور واپس گھر لا کر اسے نہلا دھلا کر شلوار قمیض کا نیا جوڑا پہننے کو دیا……اب وہ ایک نہایت ہی خوبرو نوجوان نظر آتا تھا……میں اپنے کمرہ کی کھڑکی سے دیکھتا تھا کہ جو لوگ اسے ولی سمجھتے تھے’ بیری کے درخت کے پاس آتے’ چند لمحے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے’ اور اسے نہ پا کر مایوسی سے لوٹ جاتے……نجم خان خود بھی ان کی سادہ لوحی پر ہنستا تھا۔

                مجھے اس کمرہ میں نجم خان کے ساتھ رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا۔ اور اس ایک ہفتہ میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ آیا ہو گا جب کہ اس کے دل و دماغ سے شمیم کا خیال نکلا ہو……وہ ہر وقت اپنی شمیم کی یاد میں ڈوبا رہتا تھا……اور وہ ہر وقت اس فکر میں رہتا تھا کہ کسی طرح سے اس جگہ پہنچ جائے جہاں سلاسل نے اس کی محبوبہ کو قید کر رکھا ہے۔

                ایک ہفتہ گزرنے کے بعد……ایک دن……جب کہ میں ڈرائنگ روم میں تنہا بیٹھا ہوا تھا اور نجم خان خوابگاہ کی کھڑکی میں کھڑا قبرستان کا نظارہ کر رہا تھا……اللہ رکھی اندر داخل ہوئی اور میرے سامنے والے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا……نجم خان کہاں ہے۔

                اندر ہے……میں نے جواب دیا۔

                کیسا ہے یہ……اس نے پوچھا۔

                بس۔ہروقت اپنی شمیم کی یاد میں کھویا رہتا ہے……میں نے کہا۔

                اس کا عشق صادق ہے……اللہ رکھی نے کہا۔ اگر یہ چاہتا تو اس عشق کے سہارے معرفت الٰہی حاصل کر سکتا تھا۔

                کیا مطلب……میں نے اچنبھے سے کہا۔

                اللہ کو ‘‘عشق’’ اور عاجزی پسند ہے……اللہ رکھی نے صوفہ کی پشت سے کمر لگاتے ہوئے کہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عورت کو اپنی صفت تخلیق میں شامل کیا ہے۔

                میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکا……میں نے سپاٹ لہجہ میں کہا۔

                انسانی تخلیق کے جتنے بھی مراحل ہیں……اللہ رکھی نے سمجھایا……اس میں عورت اللہ کی معاون و مددگار ہے……بطن مادر سے لے کر شیر خواری تک عورت اس کی تعمیر میں مددگار ہوتی ہے۔

                ہاں یہ بات تو ہے……میں نے اقرار میں سر ہلایا۔

                تم مجھ سے عشق کرو گے……اس نے معنی خیزا نداز میں پوچھا۔

                میں اس کی بات سن کر بوکھلا گیا……میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مذاق کر رہی ہے یا سنجیدہ ہے۔ ابھی میں پریشان نظروں سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ نجم خان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔

 

                اس نے آکر ہم دونوں کو سلام کیا پھر بڑی ہی عقیدت سے اللہ رکھی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اور میرے برابر والے صوفہ پر آ کر بیٹھ گیا……اللہ رکھی نے اس کی خیریت دریافت کی۔ جس کے جواب میں اس نے کہا……حضرت! میری شمیم مل جائے تو دل کو قرار اور ذہن کو سکون مل جائے۔

                ہونہہ……اللہ رکھی نے گہری سانس لے کر کہا……اگر میں تم سے یہ کہوں کہ شمیم کو بھول جائو۔

                یہ میرے بس میں نہیں ہے……نجم خان نے جواب دیا……وہ میری زندگی ہے……اس کے بغیر مجھے اپنی زندگی اجیرن لگتی ہے۔

                تم عجیب آدمی ہو……اللہ رکھی نے کہا۔ پھر میری طرف ایک نظر ڈال کر بولی……تمہیں اپنی محبوبہ کے عشق میں اس کے بغیر اپنی زندگی اجیرن معلوم ہوتی ہے……جب کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے دل عشق سے بالکل ہی نا آشنا ہیں۔

                میں اللہ رکھی کے طنز کو سمجھ گیا……اور ابھی جواب دینے کی سوچ ہی رہا تھا کہ نجم خان بولا……مجھے دنیا کے لوگوں سے کیا غرض مجھے تو……اپنی شمیم چاہئے۔

                بڑے ہی خود غرض ہو تم……اللہ رکھی نے کنکھیوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا……اپنی محبوبہ کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کرتے۔

                حضرت!……نجم خان نے افسردگی سے کہا……میں اپنا دل چیر کر دکھا سکتا ہوں کہ اس کے فراق میں……دل چیر کے دکھانے کی ضرورت نہیں……اللہ رکھی نے اس کی بات کاٹی……تمہاری حالت سے واقف ہوں۔

                توپھر مجھ پر رحم کیجئے حضرت!……وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا……کسی بھی طرح مجھے شمیم سے ملا دیجئے۔

                شمیم سے ملنا کچھ مشکل نہیں ہے……اللہ رکھی نے کہا……لیکن اس کے لئے تمہیں سخت امتحان سے گزرنا ہو گا۔

                میں ہر امتحان کیلئے تیار ہوں ……اس نے اعتماد سے جواب دیا۔

                خوب سوچ لو……اللہ رکھی مسکرائی……اس امتحان میں تمہاری جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔

                میں موت سے نہیں ڈرتا……نجم خان نے کہا……اپنی شمیم کی خاطر تو میں ہزار جانیں بھی قربان کر سکتا ہوں۔

                خوب اچھی طرح سوچ لو……اللہ رکھی نے تنبیہہ والے انداز میں کہا……تمہارا واسطہ ‘‘سلاسل’’ سے ہے اور وہ ایک ‘‘جن’’ ہے۔

                سلاسل جنات کا باپ کیوں نہ ہو……نجم خان نے غصہ سے کہا……میں ہر حال میں شمیم کو اس کے پنجہ سے آزاد کرائوں گا۔

                محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے……اللہ رکھی نے پہلے ہی کی طرح مسکراتے ہوئے کہا……لیکن ان دونوں میدانوں میں کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں۔

                میں آپ کی بات سمجھتا ہوں……نجم خان نے جواب دیا……لیکن کیا کروں ‘‘سلاسل’’ کا نام آتے ہی مجھے خود پر قابو نہیں رہتا۔

                اس کی وجہ یہ ہے کہ تم اسے ایک انسان سمجھتے ہو……اللہ رکھی نے صوفہ پر پہلو بدل کر کہا۔ جب کہ تمہارے دماغ میں یہ بات رہنا چاہئے کہ وہ انسان نہیں بلکہ ‘‘جن ’’ ہے۔

                ہاں……وہ جن ہے……جن……نجم خان نے ٹھوس لہجہ میں کہا……ایک عامل جن۔

                لیکن اب اس کا ‘‘وقت’’ پورا ہو چکا ہے……اللہ رکھی نے نجم خان کے چہرہ پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا……اس نے عرصہ سے خواتین کو تنگ کر رکھا تھا……اور اس کی شرارتوں کا آخری نشانہ تمہاری شمیم بنی ہے۔

                تم یہ کس طرح کہہ سکتی ہو کہ اس کا ‘‘وقت’’ پورا ہو چکا ہے……میں نے سرگوشی سے پوچھا۔

                اس کے انجام کے احکام جاری ہو چکے ہیں……اللہ رکھی نے بھی سرگوشی سے جواب دیا۔

                تو کیا ‘‘جنات’’ کے فیصلے بھی اللہ کے نظام کے تحت ہوتے ہیں……میں نے شک ظاہر کیا۔

                اس دنیا میں جو بھی موجود ہے اللہ کے نظام کا مرہون منت ہے……اللہ رکھی نے بتایا کہ سورہ رحمٰن میں اللہ نے جن و انس کو مخاطب کر کے نہیں کہا کہ تم میری کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔

                یہ سن کر میں خاموش ہو گیا لیکن نجم خان التجا آمیز لہجہ میں بولا……حضرت! مجھے کوئی ایسا طریقہ بتایئے جس پر عمل کر کے مجھے شمیم مل جائے۔

                بتاتی ہوں……بتاتی ہوں……اللہ رکھی نے تسلی و تشفی سے کہا……سلاسل کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں ایک عمل کرنا ہو گا۔

                میں تیار ہوں……نجم خان نے کامل اعتماد سے کہا۔

               

 

 


 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء