Topics
نجم خان’اللہ رکھی کے
قدموں میں سر رکھے رو رہا تھا۔ اور میں حیرت سے کبھی اسے اور کبھی اللہ رکھی کو
دیکھ رہا تھا۔ اللہ رکھی کی آنکھیں ہیرے کی طرح چمک رہی تھیں اور اس کے چہرہ پر
جلال و جبروت کی بجلیاں سی کوند رہی تھیں……جب اسی طرح اسے روتے ہوئے کافی دیر ہو
گئی تو اللہ رکھی نے بڑی ہی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نجم خان!
کیا تم خدا کی رحمت سے مایوس ہو گئے ہو۔
یہ سن کر نجم خان نے
آنسوئوں سے تراپنا چہرہ اٹھایا۔ اور کپکپاتی آواز سے بولا۔ شاید میرے لئے دررحمت
بند ہو گیا ہے۔
مایوسی۔ کفر ہے نجم خان!
اللہ رکھی نے بڑے ہی میٹھے لہجہ میں کہا۔ اس کی رحمت تو سورج کی مانند ہے جو بغیر
کسی امتیاز کے ہر شے پر پڑتی ہے۔
آپ……آپ……آپپر تو میرا سب
حال روشن ہے حضور! نجم خان نے کہا……میں برسوں سے شمیم کی خاطر اس قبرستان کی خاک
چھان رہا ہوں۔
تم نے اب تک صرف خاک
چھانی ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……اس کے لئے کوشش نہیں کی۔
حضور……نجم خان نے دوبارہ
اس کے قدموں میں جھکتے ہوئے کہا……اس کی خاطر میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں……سب کچھ۔
تم مرد ہو……اللہ رکھی نے
اسے قدموں سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ حوصلہ سے کام لو۔
حضور……آپ کو تو سب علم
ہے……نجم خان نے اس کے پائوں پکڑے پکڑے کہا……میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ لیکن اب کوئی
تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔
ہر کام کے لئے وقت متعین
ہے۔ اللہ رکھی نے سمجھایا……اور اب ‘‘وقت’’ آ گیا ہے……اب تمہاری ہر تدبیر کامیاب ہو
گی۔
تو پھر مجھے بتایئے میں
کیا کروں……نجم خان نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔
ایسے نہیں……اللہ رکھی
مسکرائی……پہلے تم اپنی داستان الم سنائو۔
مجھے کیوں شرمندہ کرتی
ہیں……نجم خان نے اسی طرح ہاتھ جوڑے جوڑے کہا……آپ کو تو سب علم ہے میں اپنی ناپاک
زبان سے کیا بیان کروں۔
نہیں نجم خان……نہیں……اللہ
رکھی نے سنجیدگی سے کہا……ہم عالم غیب نہیں ہیں تم اپنی بپتا خود بیان کرو……ہمیں تو
صرف اللہ نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے مقرر کیاہے۔ اب جب تک تم اپنا مسئلہ
نہیں بتائو گے۔ میں اس کا حل کس طرح بتا سکتی ہوں۔
یہ سن کر نجم خان
سنبھلا……جیسے وہ اپنی بپتا سنانے کے لئے تیا ر ہو……یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے
اٹھا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب والی کرسی پر بٹھا لیا۔
مجھے سب سے زیادہ تعجب اس
بات پر تھا……کہ جسے میں ‘‘ولی اللہ’’ سمجھ رہا تھا’ وہ تو حقیقت میں کچھ بھی نہ
تھا……اللہ رکھی کی بات کس قدر سچی تھی……میں اسے عقیدت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
باہر آسمان پر بادل گرج
رہے تھے۔ اور موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ ایسے ماحول میں نجم خان نے آہوں اور
سسکیوں کے درمیان اپنی کہانی سنائی۔ جو کچھ یوں تھی……یہ آج سے تقریباً پانچ برس
قبل کی بات ہے جب کہ میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک چھوٹے شہر……کے وڈیرہ……کے
گھر میں منشی کی حیثیت سے ملازم تھا……یہ وڈیرہ کوئی غیر نہیں تھا بلکہ میرا سگا
چچا تھا۔
جب میں چھ سات برس کا تھا
تو گائوں میں طاعون پھیلا اور ہر جانب موت کا سایہ چھا گیا۔ طاعون نے میرے ماں باپ
کو بھی نگل لیا……اور پھر……پھر میں اپنے چچا کے پاس آ گیا۔ چچی کا انتقال ہو چکا
تھا۔ اور وہ اپنے پیچھے پانچ سال کی بچی ‘‘شمیم’’ کو بطور نشانی چھوڑ گئی تھی……چچا
کی شہر کے اطراف میں سیکڑوں ایکڑ اراضی تھی۔ اور وہ اس شہر کا سب سے بڑا رئیس مانا
جاتا تھا۔ شہر کے آخری سرے پر اس کی بڑی سی دو منزلہ حویلی تھی۔ جس میں نیچے کے
کمروں میں ملازم رہا کرتے تھے اور اوپر ہم تینوں رہتے تھے۔ یہ حویلی بڑی ہی
خوبصورت تھی۔ اس کے ایک جانب دریا تھا۔ دوسری جانب ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے کھیت تھے
اور تیسری جانب سے پورا شہر نظر آتا تھا۔
میں اور شمیم اس حویلی
میں کھیل کود کر جوان ہوئے۔ اور اسی حویلی کی چار دیواری میں ہماری محبت پروان
چڑھی۔ بچپن سے لے کر جوانی تک، چچا نے مجھے ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ
جتنی محبت اپنی بیٹی سے کرتا تھا اتنی ہی محبت مجھ سے کرتا تھا۔ جوان ہونے کے بعد
اس نے مجھے اپنی تمام زمینوں اور کاروبار کا نگران مقرر کر دیا۔ لیکن میں نے اپنی
حیثیت کبھی بھی منشی سے زیادہ نہیں سمجھی۔
میرے چچا کی عمر ڈھلنے
لگی تھی۔ اور اس عمر میں انہیں دو چیزوں کا بہت زیادہ شوق ہو گیا تھا……ایک تو اچھی
نسل کے گھوڑے پالنے کا……اور دوسرے قیمتی سے قیمتی ہیرے جواہرات جمع کرنے کا……ان کے
شوق کو دیکھتے ہوئے دور دراز سے گھوڑوں کے سوداگر اور جوہری ہر وقت مجمع لگائے
رہتے تھے……اس شوق کے باوجود وہ شمیم کی تعلیم و تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے
تھے……شمیم جوان کیا ہو گئی جیسے قیامت آ گئی۔ نجم خان نے خلاء میں دیکھتے ہوئے
کہا……ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شمیم اس کے سامنے کھڑی ہو……وہ سترہ سال کی نہایت ہی
معصوم اور حور پیکر دوشیزہ تھی۔ نجم خان نے پرنم آنکھوں سے اس کا حلیہ اور حسن
بیان کیا……اس کے کتابی چہرہ پر ہر وقت حیا کی سرخی چھائی رہتی تھی۔ اس کی غزالی
آنکھیں اور گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند تراشے ہوئے ہونٹ اس کے حسن کو اور زیادہ
اجاگر کرتے تھے……وہ جب پلکیں اٹھا کر کسی کو دیکھتی تھی تو پتھر بھی اپنی جگہ پر
موم ہو جاتا تھا……اس کے یاقوتی لبوں سے ایک دلکش نغمہ پھوٹتا تھا……اس کے حسن کی
شہرت پر لگا کر اڑی اور رشتے داروں کے علاوہ قرب و جوار کے بڑے بڑے وڈیرے، رئیس
اور نواب اس کی خواستگاری کرنے لگے……لیکن میرا چچا سمجھتا تھا کہ ابھی اس کی بیٹی
کم عمر ہے……اسے دنیا کی اونچ نیچ کی خبر نہیں ہے۔ وہ ذرا شعوری طور سے پختہ ہو
جائے تو پھر اس کی شادی کے بارے میں سوچا جائے۔ یہی خیال کر کے اس نے ہر پیغام کو
ٹھکرا دیا……لیکن اسے کیا خبر تھی کہ اس کی بیٹی کا دل تو کبھی کا گھائل ہو چکا
تھا……ہم دونوں……نجم خان نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا……روح کی گہرائیوں سے ایک
دوسرے کو چاہتے تھے……شمیم کی گھڑ سواری کی تربیت کا ذمہ دار میں ہی تھا۔ اور ہم
دونوں گھنٹوں دریا کے کنارے گھوڑوں پر بیٹھے سیر کرتے رہتے تھے۔
تم نے کبھی اپنی محبت کے
انجام کے بارے میں سوچا۔ اچانک اللہ رکھی نے پوچھا۔
شروع میں……نجم خان نے بتایا……میں
نے کئی بار کوشش کی کہ دل اس کی طرف مائل نہ ہو……میں نے کئی بار اس کے خیال کو ذہن
سے نکال دینا چاہا لیکن……اس کا حسن……اس کی چاہت……میرے دل میں عشق بن گئی……حالانکہ
میں جانتا تھا کہ میرا……چچا……شہر کا سب سے بڑا رئیس ہے۔ اور وہ اپنی بیٹی کا رشتہ
بھی اپنی ہی جیسی حیثیت والے سے کرے گا……اس حسین لڑکی کے لئے اونچے اور مالدار
گھرانوں کے لڑکوں کی کمی نہ تھی……پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ نازو نعم میں پلی
ہوئی اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیدے گا۔ جبکہ میں اپنی آسائشی زندگی کی ہر
چیز کے لئے چچا کا محتاج تھا……یہ بات الگ تھی کہ وہ مجھ سے باپ کی طرح بے پناہ
پیار کرتا تھا۔
مجھے اپنی حیثیت کا شدت
سے احساس تھا……نجم خان نے سنجیدگی سے بتایا ……لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شمیم کی
محبت زیادہ سے زیادہ میرے دل میں پیدا ہوتی چلی گئی……یہی حال اس کا تھا۔ میرے
سراپا کے اوپر چھا گئی۔ میرا دل اس کی خیالی تصویروں کا بت خانہ بن گیا۔ اور ہم
دونوں نے ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔
یہ عشق صادق تھا……اللہ
رکھی نے مسکرا کر کہا۔
تم ٹھیک کہتی ہو……نجم خان
نے کہا……شمیم میری حیثیت جاننے کے باوجود سچی محبت کرتی تھی……اور میں نے اسے حاصل
کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت و ایمانداری سے کام کرنا شروع کر دیا……میرا خیال
تھا کہ میری خدمت سے چچا خوش ہو جائے گا……اور ممکن ہے کہ وہ مجھے شمیم کے لئے قبول
کر لے۔
وہ ایک طوفانی رات
تھی……آسمان پر شام ہی سے بادل جمع ہونا شروع ہو گئے تھے……اور اندھیرا پھیلنے کے
بعد موسلا دھار بارش ہونے لگی تھی……نجم خان نے اس موسم کا نقشہ بیان کیا ۔ اور پھر
بڑی حسرت سے بولا……یہ طوفانی رات ہم دونوں کے لئے بدبختی کا پیغام لے کر آئی تھی۔
وہ کیسے؟……میں نے بے
اختیار پوچھا۔
اس رات بھی……نجم خان نے
دروازہ کی طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا……ایسا ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا
تھا……میرا چچا وڈیرہ زمینوں پر گیا ہوا تھا……اور موسم کی شدت کو دیکھتے ہوئے میرا
خیال تھا کہ وہ آج رات گھر نہیں آ سکے گا……بارش دیر تک ہونے کی وجہ سے معمولی سی
سردی بڑھ گئی تھی……شمیم سونے کی خاطر جلد ہی اپنی خوابگاہ میں چلی گئی۔ اور میں
چچا کا انتظار کرنے کی خاطر کچھ دیر کے لئے ‘‘اوطاق’’ میں آ کر بیٹھ گیا……یہ اوطاق
اوپر کی منزل پر دریا کے رخ پر بنی ہوئی تھی اور اس کی ایک کھڑکی شہر کی طرف کھلتی
تھی۔
میں وقت گزارنے کی خاطر
ایک ایسی کتاب دیکھنے لگا جو کہ گھوڑوں سے متعلق تھی……اس کتاب میں ان کے خواص کے
ساتھ ساتھ تصویریں بھی تھیں……یہ کتاب میرے چچا کو ان کے کسی غیر ملکی دوست نے دی
تھی۔
ابھی میں اس کتاب میں
گھوڑوں کے چند فوٹو ہی دیکھ پایا تھا کہ اپنے عقب میں ہلکی سی چاپ سن کر چونک
گیا……میرا خیال تھا شاید شمیم کو نیند نہیں آ رہی ہے اور وہ دبے قدموں میرے پاس
چلی آئی ہے اس خیال کے آتے ہی میں نے مڑ کر دیکھا۔ اور ہکا بکا رہ گیا۔
وہ کیوں؟……میں نے پوچھا۔
سنتے رہو……نجم خان نے
کہا……شمیم کے بجائے میرے سامنے ادھیڑ عمر کا ایک قوی ہیکل اور……کھردرے چہرے والا
شخص کھڑا تھا……اس کے ہونٹ موٹے اور آنکھیں سرخ چمکدار تھیں……اس نے سر سے پائوں تک
سفید اجرک لپیٹ رکھی تھی۔ جس پر کہیں کہیں سیاہ دھاریاں بھی تھیں۔ اس شخص کے سر پر
سبز رنگ کی پگڑی تھی۔ جس کی کلغی کے سامنے کی جانب ایک بڑا سا قیمتی ہیرا چمک رہا
تھا۔ اس شخص کے دائیں ہاتھ میں آبنوس کی ایک خوبصورت سی چھڑی بھی تھی جس کی شام
خالص سونے کی بنی ہوئی تھی۔ یہ شخص کون تھا……اس کمرے میں کس طرح آیا……یہ تھے وہ
سوال جو معاً میرے ذہن میں ابھرے۔
اس شخص سے آنکھیں ملاتے
ہی میری کمر میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اوطاق کا
دروازہ بند ہونے کے باوجود یہ شخص اندر کیسے آ گیا……ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس
شخص نے نہایت ہی کرخت آواز میں پوچھا۔
وڈیرہ الن کہاں ہے؟
وہ زمینوں پر گئے ہیں۔
میں نے جواب دیا۔
ہونہہ……اس شخص نے قدرے
سوچ سے کہا……کیا تم انہیں میرا پیغام دے دو گے؟
بالکل جناب……میں نے ادب
سے جواب دیا……وہ میرے چچا ہیں۔ اور آپ کا پیغام من و عن ان تک پہنچانا میرا فرض
ہے۔
ہونہہ……اس شخص نے شعلہ
بار آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اور بڑے ہی غرور سے بولا۔ ان سے کہہ دینا۔ دو آبہ کا
رئیس‘‘سلاسل خان’’ آیا تھا اور کل پھر میں اسی وقت آئوں گا۔ پھر وہ میری طرف چھڑی
اٹھا کر بولا……ان سے کہہ دینا کل کہیں نہ جائیں۔ اور میرا انتظار کریں……آخری جملہ
ادا کرنے کے ساتھ ہی وہ مڑا۔ اور نپے تلے قدموں سے چلتا ہوا……دروازہ کھول کر باہر
نکل گیا۔
ایک خاص بات جو میں نے
محسوس کی……وہ یہ تھی……کہ چلتے وقت مجھے اس کے قدموں کی ذرا سی بھی آہٹ نہیں سنائی
دی……میں چند لمحے تک سکتہ کے عالم میں کھڑا رہا۔ کیونکہ ایسا پر اسرار شخص میں نے
پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اچانک فضا میں شمیم کی
دلخراش چیخ سنائی دی……میں سکتہ سے بیدار ہوا۔ اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر مجھے
شمیم کا خیال آیا……اور میں دوڑتا ہوا اس کی خوابگاہ میں داخل ہوا……میرے وہاں
پہنچنے سے قبل ہی دو بوڑھی ملازمائیں اور ایک خادم وہاں موجود تھے۔ شمیم اپنی
مسہری پر بیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے سخت سردی لگ رہی
ہے۔ دونوں بوڑھی ملازمائیں اسے بازوئوں سے پکڑے بیٹھی تھیں۔ اور مرد ملازم کھڑا
خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
کیا ہوا؟……خوابگاہ میں
داخل ہوتے ہی میں نے پوچھا۔
نجانے بی بی جی کو کیا ہو
گیا ہے۔ ملازم نے اسی طرح خوفزدہ لہجہ میں کہا۔
میں نے یہ سن کر شمیم کی
جانب دیکھا……اس کا چہرہ سرخ انگارہ ہو رہا تھا……آنکھوں کی پتلیاں اوپر کو چڑھی
ہوئی تھیں اور گلے سے خرخر کی آواز آ رہی تھی۔ جیسے اس کی سانس اکھڑ چکی ہو……میں
اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ اور قریب سے پانی سے بھرا ہوا گلاس اٹھا کر اس
کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔ دو تین بار ایسا کرنے سے شمیم نے ایک جھرجھری
سی لی اور آنکھیں بند کر کے گردن لٹکا لی۔ دونوں ملازمائوں نے اسے آہستہ سے بستر
پر لٹایا۔ اور ریشمی لحاف سینہ تک اوڑھا دیا۔ اب اس کی حالت اعتدال پر تھی۔
میں نے ان ملازمائوں سے
پوچھا۔ کیا بات ہوئی تھی؟
ایک ملازمہ نے بتایا……بی
بی جی سو رہی تھیں کہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گئیں اور غصہ سے بولیں……یہ……کون ہے جو
مجھے ستا رہا ہے۔
ابھی ہم ان کی بات سمجھنے
کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ان کا بدن اس طرح کانپنے لگا جیسے سخت سردی لگ رہی
ہو……ان کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں اور گلے سے عجیب طرح کی خرخراہٹ نکلنے لگی۔
اجی۔ یہ تو کوئی خطرناک
قسم کا دورہ تھا……مرد ملازم نے سہمے ہوئے لہجہ سے کہا……اور اس موسم میں تو ڈاکٹر
کا ملنا بھی مشکل ہے۔
ابھی تک ‘‘رئیس’’ بھی
نہیں آیا……ایک ملازمہ نے تشویش سے کہا۔
گھبرانے کی کوئی بات
نہیں……میں نے ان سب کو تسلی دی……اب یہ سو رہی ہے……میرا اشارہ شمیم کی طرف تھا……اگر
یہ جاگ جائے تو مجھے بلا لینا۔
یہ کہہ کر اور ان سب کو
تسلی و تشفی دے کر میں مرد ملازم کو ساتھ لے کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ گیا۔
اب طوفان کا زور کم ہو
چلا تھا……اس ملازم کا پورا نام تو کچھ اور تھا لیکن میں اسے بچپن سے ‘‘مرزا’’ کے
نام سے جانتا تھا……ج ہم دونوں کرسیوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے تو میرے
ذہن میں دوآبہ کے رئیس‘‘سلاسل’’ کا خیال آیا۔ اور میں نے اس سے پوچھا……تم دوآبہ کے
رئیس ‘‘سلاسل’’ کو جانتے ہو۔
نہیں جی……مرزا جواب
دیا……میں اس نام کے کسی رئیس کو نہیں جانتا۔
وہ کچھ دیر قبل یہاں آیا
تھا……میں نے اسے بتایا……وہ کسی کام کے سلسلہ میں چچا سے ملنا چاہتا تھا۔
یہاں آیا تھا……مرزا نے
قدرے تشویش سے کہا……لیکن میں نے تو صدر دروازہ سے کسی کو آتے نہیں دیکھا۔
کیا کہہ رہے ہو……میں نے
پریشانی سے کہا۔
میں سچ کہہ رہا ہوں……اس
نے پیار سے سمجھایا……میں نے حویلی میں نہ تو کسی کو آتے دیکھا اور نہ ہی حویلی کے
باہر جاتے دیکھا۔
یہ کس طرح ممکن ہے……میں
پریشانی سے بڑبڑایا۔
تمہیں وہم ہوا ہے……مرزا
کا لہجہ پہلے ہی جیسا تھا……بھلا سوچو تو……اس طوفانی بارش میں کون اپنے گھر سے
نکلتا ہے۔
لیکن یہ میرا وہم نہیں
ہے……میں نے وثوق سے کہا……دوآبہ کا رئیس یہاں آیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے باتیں کی
ہیں۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ
رہا ہے……مرزا نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا……حویلی کا صدر دروازہ میں نے
بارش کے شروع ہوتے ہی مقفل کر دیا تھا……اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو خود چل کر دیکھ
لو۔
توپھروہ کس طرح یہاں
آیا……میں نے گہری سوچ سے کہا……وہ کون تھا۔
بیٹا……مرزا نے شفقت سے
میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مخاطب کیا……تمہیں وہم ہو گیا ہے……تم جانتے ہو کہ حویلی
کے صدر دروازہ پر میں برسوں سے مامور ہوں اور میری نگاہوں سے بچ کر تو کوئی پرندہ
بھی حویلی میں داخل نہیں ہو سکتا۔
کیا……کیا……اس حویلی میں
کوئی خفیہ راستہ یا دروازہ بھی ہے……میں نے اسی طرح سوچتے ہوئے پوچھا۔ کیسی باتیں
کرتے ہو……مرزا نے میرا مذاق اڑایا……اگر اس حویلی میں کوئی خفیہ راستہ یا دروازہ
ہوتا تو کیا تمہیں اس کا علم نہ ہوتا……تم تو بچپن سے اس حویلی میں موجود ہو۔
تو پھر وہ کون تھا……میں
نے پریشانی سے کہا۔
تم نجانے کس کی باتیں کر
رہے ہو……مرزا نے تشویش سے کہا……یہاں کوئی نہیں آیا تھا……البتہ جب بارش زوروں پر
تھی تو میں نے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنی تھی اور یہ سوچ کر کہ شاید رئیس واپس آ
گیا ہے میں نے صدر دروازہ سے جھانک کر دیکھا……لیکن مجھے کوئی بھی نظر نہیں آیا۔
خیر چھوڑو ان باتوں
کو……میں نے بوڑھے مرزا کی پریشانی ختم کرنے کی خاطر کہا۔ پھر کھڑکی کے قریب آیا
اور باہر فضا میں ہاتھ پھیلا کر بارش کا جائزہ لیتے ہوئے بولا……بارش ختم ہو گئی
ہے۔ اب چچا بھی آنے ہی والے ہوں گے۔
مرزا میری بات کا مطلب
سمجھ گیا۔ لہٰذا کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا……اچھا میں دروازہ پر چلتا ہوں۔
اور پھر……وہ چلا گیا……میں
کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ وہ شخص کون تھا جسے صدر دروازہ پر چوکیدار……مرزا
نے آتے دیکھا اور نہ جاتے دیکھا۔ بہرحال وہ کوئی بھی ہو……مجھے اس کا پیغام اپنے
چچا تک پہنچانا تھا……یہ سوچ کر میں کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا۔
اس رات میرا چچا نہیں
آیا……نجم خان نے مسلسل اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا۔ دوسرے دن وہ عصر کے وقت آیا اور
اس کی وجہ اس نے یہ بتائی ……کہ بارش ہو جانے کی وجہ سے راستہ اس قدر خراب ہو گیا
تھا کہ اس کی گھوڑا گاڑی کا چلنا دشوار تھا۔
بہرحال……میں نے اسے دوآبہ
کے رئیس‘‘سلاسل’’ کے بارے میں بتایا……میرا چچا یہ سن کر ‘‘اوطاق’’ میں ٹہلنے لگا۔
جیسے وہ اس نام کو……اس شخصیت کو یاد کر رہا ہو……
رئیس
دوآبہ‘‘سلاسل’’……میرے چچا نے ٹہلتے ہوئے کوئی پانچویں بار اس نام کو دہرایا۔
جی ہاں……اور میں نے اس
بار بھی اس کے نام کی تصدیق کر دی۔
لیکن میں اس نام کے کسی
رئیس کو نہیں جانتا……چچا نے گہری سوچ سے جواب دیا۔ پھر اس نے ایک لمحہ کے لئے رک
کر پوچھا……کیا حلیہ بتایا تھا تم نے؟
اور میں نے ایک بار پھر
اس شخص کا حلیہ دہرا دیا۔ چچا نے مسلسل اسی طرح سوچ میں گم ٹہلتے ہوئے کہا۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ
کبھی اس حلیہ کے شخص سے ملا ہوں……بالکل یاد نہیں آتا۔
لیکن اس شخص کے انداز سے
تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ آپ سے اچھی طرح واقف ہے۔ میں نے جواب دیا۔
ممکن ہے کہ وہ مجھے جانتا
ہو۔ اور میں اسے نہ جانتا ہوں۔ چچا نے سنبھل کر کہا……وہ کس مقصد کے لئے مجھ سے
ملنا چاہتا تھا۔
ا س نے یہ نہیں
بتایا……میں نے کہا……اس نے آج پھر آپ سے ملنے اور انتظار کرنے کو کہا تھا۔
کل وہ کس وقت آیا
تھا……چچا نے پوچھا۔
شام کو……میں نے اندازاً
کہا……بارش شروع ہو چکی تھی……اور مغرب کا وقت گزر چکا تھا۔
اچھا……اچھا……چچا نے چلا
کر کہا……مغرب کا وقت بھی ہو چکا ہے۔ ابھی ساری بات کھل جائے گی۔ یہ کہہ کر وہ اس
کھڑکی کے قریب چلے گئے جو شہر کی طرف کھلتی تھی۔ اور جھک کر باہر کی جانب دیکھنے
لگا۔
بالآخر سورج مغرب میں چھپ
گیا۔ اور آسمان پر پھیلی ہوئی شفق کی سرخی، سیاہی میں تبدیل ہونے لگی۔ شہر کے وسط
میں بنے ہوئے بڑے سے گھنٹہ گھر نے سات بجائے اور اس کے ساتھ ہی میرے چچا نے کھڑکی
کے پاس سے ہٹتے ہوئے کہا……مغرب کا وقت تو ہو چکا لیکن وہ شخص ابھی تک نہیں آیا۔
اس شخص نے آنے کا تو یہی
وقت بتایا تھا……میں نے اعتماد سے جواب دیا……وہ شخص چال ڈھال اور لباس سے تو معزز
رئیس ہی نظر آتا تھا……اور رئیس کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔
ابھی میں نے اپنی بات ختم
ہی کی تھی کی یکایک‘‘اوطاق’’ کا دروازہ بغیر کسی آواز کے کھل گیا۔ اور دوآبہ کا
رئیس کل والے لباس ہی میں اندر داخل ہوا……میں نے یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس طرف سے
آیا ہے اپنے چچا کو بتایا……جناب!……دوآبہ کے رئیس تشریف لے آئے ہیں۔
میرے یہ کہتے ہی چچا نے
پلٹ کر دیکھا……اور ایک دم گم سم ہو گیا……میں نے قریب کھڑے ہو کر رئیس‘‘سلاسل’’ کو
بتایا……یہ ہیں میرے چچا……اس شہر کے وڈیرہ الن۔
رئیس سلاسل میرے چچا کے
سامنے چند قدم کے فاصلہ پر آ کر کھڑا ہو گیا……اس کی سرخ آنکھیں میرے چچا کے چہرہ
پر جمی ہوئی تھیں……اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے لمحہ بہ لمحہ اس کی آنکھوں
کی سرخی بڑھتی جا رہی ہے……کمرے میں بالکل موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی……ایسی
خاموشی جس میں صرف سانسوں کی آوازیں آ رہی تھیں……قاعدہ کے مطابق آنے والے کو نہ
صرف سلام کرنا چاہئے تھا بلکہ میرے چچا کی خیر و عافیت وغیرہ بھی معلوم کرنا چاہئے
تھی۔ لیکن میں نے سندھی رسم و رواج کو بالائے طاق رکھ دیا اور چچا سے بڑے ہی دبنگ
لہجہ میں بولا……مجھے تم سے ایک بہت ہی ضروری بات کرنی ہے۔
میرا چچا اس کی بات سن کر
اس طرح چونکا جیسے نیند سے بیدار ہوا ہو اور بڑے ہی ادب سے بولا سائیں……آپ بولیں۔
میں ہر بات سننے کے لئے تیار ہوں۔
اس نے ایک نظر مجھے دیکھا
اور بڑے تحکمانہ انداز سے بولا……کیا یہ نوجوان قابل اعتماد ہے۔
بالکل……بالکل……میرے چچا
نے ادب سے گردن جھکا کر جواب دیا……سائیں! کل آپ کی ملاقات اسی سے ہوئی تھی۔ اور
اسی نے مجھے آپ کا پیغام پہنچایا تھا۔
میں نے دیکھا……کہ میرا
چچا جو کہ اس شہر کا سب سے بڑا رئیس تھا اور کسی بھی بڑے سے بڑے وڈیرہ یا نواب کو
خاطر میں نہیں لاتا تھا، دوآبہ کے رئیس کے سامنے ایک غلام کی طرح مؤدب کھڑا تھا۔
چند لمحوں کے اندر اندر
اس کی حالت میں ایک عجیب سا تغیر واقع ہو چکا تھا……خود میری بھی باطنی حالت یہی
تھی……دوآبہ کے رئیس کا رعب میرے اعصاب پر بھی چھا چکا تھا۔
سائیں! تشریف تو
رکھیں……چچا نے ایک کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ بالکل بادشاہوں کے سے
انداز میں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور پھر بڑے ہی رعب سے بولا۔ میں چاہتا تو تمہیں اپنے
علاقہ میں بلا سکتا تھا۔ لیکن بات کچھ ایسی تھی کہ میں نے خود تمہارے پاس آنا
مناسب سمجھا۔
سائیں! یہ میری خوش قسمتی
ہے……چچا نے سندھی رسم کے مطابق ہاتھ جوڑ کر کہا……آپ کی ہر بات پوری کرنا میں اپنا
فرض سمجھتا ہوں۔
تمہاری تابعداری نے مجھے
خوش کر دیا ہے……دوآبہ کے رئیس نے اپنی چھڑی کو انگلیوں سے گھماتے ہوئے بڑے ہی تکبر
سے کہا۔
سائیں! آپ حکم تو
کریں……میرے چچا نے اسی طرح عاجزی سے کہا……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس رئیس کے سامنے
اس کی تمام اکڑ فوں ختم ہو گئی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں……بات
کہاں سے شروع کروں……اس نے بدستور اپنی چھڑی کو گھماتے ہوئے کہا……سنا ہے تمہیں ہیرے
جواہرات کا شوق ہے ……اس نے پوچھا۔
سائیں! آپ نے بالکل صحیح
سنا ہے……میرے چچا نے جواب دیا……وہ ابھی تک اس رئیس کے سامنے گردن جھکائے کھڑا تھا۔
اچھا……دوآبہ کے رئیس
سلاسل نے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنی اجرک کے اندر سے ایک نہایت ہی خوبصور ت
ہاتھی دانت کا ڈبہ نکالا۔ پھر میرے چچا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا……اسے دیکھو
اور……اپنی رائے مجھے بتائو۔
ڈبہ بہت ہی خوبصورت
تھا……میرے چچا نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا……پھر وہ چند ثانیے اس خوبصورت ڈبہ کو
دیکھتا رہا۔
دوآبہ کے رئیس نے اسے حکم
دیا……اسے کھولو……اور اس حکم کے مطابق جب چچا نے ڈبہ کا ڈھکنا کھولا تو حیرت سے اس
کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
محمد مونس خان عظیمی
‘‘اللہ
رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور
نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی
تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی
نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے
تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی
کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔
میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے
میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان
کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
روحانی فرزند: حضرت خواجہ
شمس الدین عظیمی
مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور
فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷
۶۲جنوری
۵۹۹۱ء