Topics

انکشافات


                اللہ رکھی کیا تھی۔ میں شروع میں اسے نہیں سمجھ سکا……وہ حقیقت میں کیا تھی۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا پہلے میری ملاقات اس سے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی……پھر……اب کافی عرصہ بعد میں اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔ لیکن اب میرا ارادہ اسے قتل کر دینے کا تھا۔ مجھے اس کے قتل پر ان لوگوں نے اکسایا تھا جو کسی تخریبی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے…… اللہ رکھی کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا۔ لیکن میرا سابقہ تو اللہ رکھی سے تھا……اور میں صرف اسے ایک معمولی سا جھاڑ پھونک والی عاملہ سمجھتا تھا۔

                بہرحال……میں اس کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اور اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھا رات ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔

                سورج مغرب میں چھپ چکا تھا۔ اور رات کی سیاہی نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا……صوفہ اتنا آرام دہ تھا کہ بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آ گئی……نجانے کیا وقت ہو گا جبکہ خود بخود میری آنکھ کھل گئی میں نے گھبرا کا آنکھیں کھول دیں اور صوفہ پر سنبھل کر بیٹھ گیا……میں نے دیکھا کہ اللہ رکھی بھی سامنے صوفہ پر‘‘مراقبہ’’ میں بیٹھی ہوئی ہے……مجھے نیند سے بیدار ہو کر صوفہ پر سنبھل کر بیٹھتے دیکھ کر اس نے بھی آنکھیں کھول دیں……مجھے اس وقت……اس کا چہرہ نہایت ہی حسین اور دلکش نظر آ رہا تھا……لیکن یہ حسن نہیں تھا بلکہ نور تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ تابناک ہو رہا تھا۔

                تم بیدار ہو گئے۔

                ہاں مجھے نیند آ گئی تھی……میں نے جواب دیا۔

                اب تو بیدار ہو گئے ہو……اس نے معنی خیز لہجہ میں کہا۔

                میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے اپنی قریبی ٹیبل سے ایک موٹی سی البم اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولی……تم تماشا دیکھنے کے لئے تیار ہو۔

                تماشا……کیسا تماشا……میں نے پوچھا۔

                تم اپنے دوست ڈاکٹر ڈیوڈ’ہیرالال اور الم وانگ کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہو گے……اس نے پوچھا۔

                آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ان تینوں کے نام اللہ رکھی کے منہ سے سن کر میری کیا حالت ہوئی……اس کے پاس نجانے کونسا جادو تھا……یا……جن تھا۔ جس کے ذریعے اسے ان لوگوں کا نام تک معلوم ہو گیا تھا……میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔

                میری باتوں پر حیرت زدہ ہونے کی بجائے سمجھنے کی کوشش کیا کرو……اس نے نرم لہجہ میں کہا……پھر البم میں سے ایک فوٹو نکال کر بولی……میرے پاس آئو۔

                میں صوفہ سے اٹھا۔ اور اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا فوٹو میری نظروں کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا……یہی وہ لوگ ہیں نا۔ جنہوں نے تمہیں مجھے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔

                میں نے دیکھا کہ اس فوٹو میں ڈاکٹر ڈیوڈ، ہیرا لال اور الم وانگ ایک ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے……میں نے سر ہلا کر تصدیق کر دی۔

 

                فوٹو کی تصدیق ہو جانے کے بعد……اللہ رکھی نے مجھے اپنے سامنے والے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور جب میں بیٹھ گیا تو وہ قریب کھسک آئی……اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری پیشانی پر رکھ دیا……اور فوٹو میری نظروں کے سامنے کرتے ہوئے بولی……دیکھو یہ ڈاکٹر ڈیوڈ، ہیرا لال اور الم وانگ ہیں جنہوں نے تمہیں مجھے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔

                میری نگاہیں فوٹو پر جمی ہوئی تھیں……لیکن اب وہاں فوٹو نہیں تھا۔ بلکہ ڈاکٹر ڈیوڈ، ہیرا لال اور الم وانگ کرسیوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ اور اللہ رکھی کی آواز کمرہ میں گونج رہی تھی……ڈیوڈ! تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں……میں اللہ رکھی بول رہی ہوں۔

                میں نے دیکھا کہ وہ تینوں یہ جملہ سنتے ہی گھبرا کر……کرسیوں سے کھڑے ہو گئے اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے……اللہ رکھی کی آواز دوبارہ گونجی……ڈیوڈ! میں نے تمہیں بار بار اللہ کے نظام میں دخل اندازی سے باز رکھنے کی کوشش کی……لیکن……تم ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم سیکھ کر……اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے۔

                تم سامنے کیوں نہیں آتیں……ڈاکٹر ڈیوڈ نے بوکھلا کر کہا۔

                اب میرے سامنے آنے کا وقت گزر چکا ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا۔

                تم سامنے آئو……ڈیوڈ اسی طرح بولا……ہم مصالحانہ گفتگو کر سکتے ہیں۔

                ہر کام کا وقت ہوتا ہے ڈیوڈ……اللہ رکھی نے کہا……میں نے تم سے کہا تھا ……کہ چالاکی اور استدراج چھوڑ دو……لیکن تم نہیں مانے……اب مجھے بڑی سرکار نے اختیار دے دیا ہے کہ تمہیں دوسری دنیا میں منتقل کر دوں۔

                نہیں……نہیں……ڈاکٹر ڈیوڈ چلایا……میں کہیں نہیں جانا چاہتا۔

                تمہارے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے……اللہ رکھی نے ٹھوس لہجہ میں کہا……اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ڈیوڈ نے اپنا سینہ پکڑ لیا۔

                اللہ رکھی نے ایک کنکر اٹھا کر پھینکا تھا جو کہ اس کے سینہ میں لگا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا سینہ پکڑ لیا……اسے دل کا شدید دورہ پڑا تھا……اسے زمین پر گرتا دیکھ کر ہیرا لال اور الم وانگ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائے……اللہ رکھی ہمیں معاف کر دے……ہمیں معاف کر دے۔

                تم دونوں……اللہ رکھی تند و تیز لہجہ میں بولی……کل صبح تک اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جانا۔

                بالکل ایسا ہی ہو گا……ان دونوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔

                آئو خان!……واپس چلتے ہیں……اللہ رکھی نے سرگوشی کی……اور اس کے ساتھ ہی میری پیشانی سے ہاتھ ہٹا لیا……میں کمرہ میں موجود تھا……اور اللہ رکھی فوٹو دوبارہ البم میں لگا رہی تھی۔

 

                میں ابھی تک اس ‘‘کرامت’’ پر حیران تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو گیا……اور……کس طرح ہو گیا۔

                اللہ رکھی……میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا……کیا واقعی ڈاکٹر ڈیوڈ مر گیا ہو گا۔

                تمہیں اپنے ذہن سے شک و شبہ نکال دینا چاہئے……اس نے البم ایک جانب رکھتے ہوئے جواب دیا۔

                یہ……یہ……کونسا علم تھا……میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا……تم……بڑی سرکار کا ذکر کر رہی تھیں۔ یہ کونسا نظام ہے؟

                یہ آسمانی نظام ہے……اس نے جواب دیا……پھر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی……یہ نظام ہمارے دنیاوی دفتروں جیسا ہوتا ہے۔

                کیا تم مجھے اس نظام سے روشناس کرا سکتی ہو……میں نے پوچھا۔

                کیو ں نہیں……پھر وہ ایک الماری کی جانب بڑھتے ہوئے بولی……تم چاہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اس کے اس جواب سے میرا حوصلہ بڑھا۔ اور میں نے کہا ……تم مجھے یہ علم سکھا دو۔

                یہ تمہاری صلاحیتوں اور مجھ سے وفاداری پر منحصر ہے……اس نے میری بات کاٹی……اور الماری میں البم رکھ کر اپنی جگہ پر آ بیٹھی۔

                میں تیار ہوں……میں نے جواب دیا۔

                تم مجھے صرف جھاڑ پھونک والی تو نہیں سمجھو گے۔ اس نے تمسخر سے پوچھا۔

                میں پہلے تو تمہیں یہی کچھ سمجھتا تھا……میں نے حوصلہ سے کہا……لیکن آج کی واردات دیکھنے کے بعد معلوم ہو ا کہ تم وہ نہیں ہو’ جو نظر آتی ہو۔

                پھر کیا ہوں……اس نے شرارت سے پوچھا۔

                تم علم کا بیش بہا خزانہ ہو……میں نے تحسین آمیز لہجہ میں کہا۔

                خدا کا شکر ہے……وہ مسکرائی……تم نے مجھے جلد ہی پہچان لیا……ورنہ تو تم ڈاکٹر ڈیوڈ کے چکر میں پڑے رہتے۔

                ڈاکٹر ڈیوڈ……مجھے جیسے یاد آ گیا……یہ کونسا علم جانتا تھا۔

                کچھ بھی نہیں جانتا تھا……اس نے لاپرواہی سے کہا……اس نے کہیں سے ہپناٹزم اور تھوڑا سا جادو سیکھ لیا تھا……جس کے بل پر لوگوں کو بے وقوف بناتا تھا۔

                لیکن تمہارے پاس یہ کونسا علم ہے……میں نے پوچھا۔

                یہ علم مراقبہ اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ رکھی نے بتایا۔

                مراقبہ……میں نے اچنبھے سے پوچھا۔

                ہاں……مراقبہ……اس نے میرے الفاظ کو دہرایا……اسے ذہنی یکسوئی بھی کہتے ہیں۔

                میں اسے خالی نظروں سے دیکھنے لگا……مراقبہ……ذہنی یکسوئی……یہ الفاظ میرے لیے اجنبی تھے۔

 

                جب اللہ رکھی نے دیکھا کہ میں کچھ بھی نہیں سمجھ پایا ہوں……تو مسکرا کر بولی……تم نے بہت سے لوگوں کے بارے میں سنا ہو گا کہ وہ مافوق الفطرت طاقتوں کے مالک ہوتے ہیں۔

                میں نے اقرار کے انداز میں سر ہلایا……اس نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا……دراصل اس ساری کائنات میں سب سے زیادہ عجیب اور حیرت انگیز چیز یہ انسان ہے۔

                انسان……میں اسے پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔

                تم حیران ہو……اس نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا……حالانکہ انسان خود اپنے وجود پر غور نہیں کرتا……یہ پانچ فٹ لمبا دو پایا لا محدود طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔

                تم کیا کہہ رہی ہو؟

                میری بات غور سے سنو……اللہ رکھی نے پیار سے ڈانٹا……جو لوگ خود کو پہچان لیتے ہیں وہ بے پناہ طاقتوں کے مالک ہو جاتے ہیں۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا……میں نے پوچھا……کہ جادو وغیرہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

                جادو کوئی الگ نہیں ہے……اللہ رکھی نے بتایا……جادو اور دیگر تمام پر اسرار طاقتیں خود انسان کے وجود میں پوشیدہ ہیں۔

                ایں……ایک بار پھر حیرت میں میرے منہ سے نکلا۔

                تم بار بار حیرت زدہ ہو جاتے ہو……اللہ رکھی نے کہا……اگر تم خود اپنے وجود کو پہچان لیتے تو……

                اپنے وجود کو کس طرح پہچانا جا سکتا ہے……میں نے مسکرا کر پوچھا۔

                یہ مشکل کام ہے……اللہ رکھی نے کہا……خود کو پہچان لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں……جو لوگ خود کو پہچان لیتے ہیں اللہ انہیں اپنے نظام میں شامل کر لیتا ہے……اور دنیا والے انہیں ولیوں کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔

                لیکن اگر کوئی خود کو پہچاننا چاہے تو کس طرح پہچان سکتا ہے……میں نے بھولے پن سے پوچھا۔

                اللہ نے انسان کی ہیت سب جانداروں سے جدا بنائی ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……انسان کے یوں تو تمام اعضاء ہی حیرت انگیز ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ حیرت انگیز اس کی کھوپڑی ہے۔

                کھوپڑی……میں ہنسا……کھوپڑی میں کیا حیرت والی بات ہے۔

                یہی تو وہ نادانی ہے……اللہ رکھی نے کہا……جسے ہر شخص کرتا ہے……کوئی شخص اپنی کھوپڑی کی طرف توجہ نہیں دیتا……حالانکہ ہڈیوں کے اس صندوق میں اللہ نے طاقت کا وہ خزانہ محفوظ کر رکھا ہے جسے اگر انسان اپنے تصرف میں لے آئے تو زمین و آسمان اس کی مٹھی میں آ سکتے ہیں۔

                یہ تو تم نے کچھ عجیب سی بات بتائی ہے……میں نے غیر یقینی لہجہ میں کہا۔

                تم سمجھنے کی کوشش کرو……اللہ رکھی نے اپنا آنچل درست کرتے ہوئے کہا……انسان کی تمام پر اسرار طاقتوں کا سرچشمہ‘‘دماغ’’ ہے۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا……میں نے پوچھا……کہ دماغ ہی سب کچھ ہے اور اللہ کچھ بھی نہیں ہے۔

                یہ بھی تم نے خوب کہی……اس نے میری بات پر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ارے یہ دماغ ہی تو ہے جو انسان کو اللہ کی پہچان کراتا ہے۔ اور جب انسان اللہ کو پہچان لیتا ہے تو پھر انسان نہ صرف اللہ کے احکامات وصول کرتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے……اور پھر اس کی ہر جنبش اللہ کے تابع ہوتی ہے۔

                ایسا کس طرح ممکن ہے……میں نے تعجب سے پوچھا۔

                اس کے لئے ذہنی یکسوئی حاصل کرنا ضروری ہے……اللہ رکھی نے جواب دیا……اور ذہنی یکسوئی‘‘مراقبہ’’ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

                تم نے پھر پہلی والی بات کہی ہے۔ میں نے قدرے چڑ کر کہا……لیکن یہ نہیں بتایا کہ مراقبہ ہے کیا۔

                مراقبہ کیا ہے……اللہ رکھی نے صوفہ کی پشت سے کمر لگاتے ہوئے کہا……اللہ تعالیٰ نے اپنی قرب اور اپنا عرفان حاصل کرنے کے لئے ضابطے بنائے ہیں……اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں……اول‘‘قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ’’……قرآنی پروگرام کے یہ دونوں اجزاء ‘‘نماز اور زکوٰۃ’’ روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔

                وظیفہ سے تمہاری کیا مراد ہے……میں نے پوچھا۔

                حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد پاک ہے……اللہ رکھی نے خلاء میں دیکھتے ہوئے کہا……کہ تم نماز میں مشغول ہو’ تو یہ محسوس کرو……کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔یا۔یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔

                اس کا مطلب کیا ہوا۔

                اس ارشاد کی تفصیل پر غور کرنے سے ……اللہ رکھی نے کہا……یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نماز میں اعضاء کی حرکت جسم کا وظیفہ ہے……اور ذہن کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے۔

                روح کا عرفان کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے……میں نے پھر پوچھا۔

                اس کے لئے ضروری ہے ……اللہ رکھی نے جواب دیا……دنیاوی دلچسپیوں میں سے وقت نکال کر ذہن کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی طرف متوجہ رکھا جائے……اس طرح ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام ‘‘مراقبہ ’’ ہے۔

                اس کا مطلب تو یہ ہوا……میں نے قدرے وثوق سے کہا……مراقبہ کرنے والا شخص ہر طرف سے توجہ ہٹا کر ایک ذات اقدس و اکبر سے ذہنی رابطہ قائم کر لے۔

                بالکل……بالکل……اللہ رکھی نے تائید کی……حضور اکرمﷺ نے اعلان نبوت سے بہت پہلے عارضی طور پر دنیاوی دلچسپیوں سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ اور غار حرا میں اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کو ایک ذات ‘‘اللہ’’ کی جانب متوجہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں آپ ‘‘روح’’ سے واقف ہو گئے تھے۔

                اچھا……میں نے تعجب سے کہا۔

                جب کسی بندے کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے……اللہ رکھی نے خلاء میں دیکھتے ہوئے کہا……تو اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اور وہ ‘‘مراقبہ’’ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اس پرکائنات کے راز منکشف ہونے لگتے ہیں۔

                بہت خوب……میں نے تعریف کی……لیکن تم نے ابھی تک اپنے اس علم کی توجیہہ بیان نہیں کی جس کے ذریعہ تم نے……

                ……ڈاکٹر ڈیوڈ اور اس کے ساتھیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا……اللہ رکھی نے جیسے میرے دل کی بات کہہ دی……پھر وہ صوفہ پر پہلو بدل کر بولی……میرے پاس جو کچھ بھی ہے۔ ‘‘مراقبہ’’ کی بدولت ہے۔

                کیا میں مراقبہ سیکھ سکتا ہوں……میں نے بالکل غیر متوقع طور سے پوچھا۔

                تم……اس نے میرے سراپا پر بھرپور نظر ڈالی……تم کیوں نہیں سیکھ سکتے……انسان چاہے تو کیا نہیں کر سکتا۔

                اگر یہ بات ہے تو……میں نے اشتیاق سے کہا……تم مجھے مراقبہ کرنے کا طریقہ بتا دو۔

                بڑا ہی آسان طریقہ ہے……وہ مسکرائی……تم نماز شروع کردو……لیکن شرط یہ ہے……اس نے تنبیہ والے لہجہ سے کہا……کہ تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق نماز اس طرح ادا کرو گے۔ گویا اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

                واہ……واہ……میں نے اس کا مذاق اڑایا……اگر نماز مراقبہ کا طریقہ ہے تو میں نے کئی ایسے اشخاص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے’جن کی پیشانیوں پر سجدہ کے نشان ہوتے ہیں۔

                وہ صرف ‘‘نماز’’ پڑھتے ہیں……اللہ رکھی نے تحمل سے جواب دیا……وہ نماز ادا کر کے اللہ پر احسان جتاتے ہیں……حالانکہ نماز مراقبہ کی بہترین اور افضل شکل ہے……لیکن نمازی’نماز کو صرف فرض سمجھ کر اس طرح ادا کرتا ہے……جس طرح کسی انسان پر بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ اور وہ اسے اتار کر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔

                بات تو تم صحیح کہہ رہی ہو……میں نے تائید کی۔

                جو لوگ اس طرح نماز پڑھتے ہیں……اللہ رکھی نے سنجیدگی سے کہا……وہ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ ضائع کر دیتے ہیں۔

                ضائع کر دیتے ہیں……میں نے پیشانی پر بل ڈال کر پوچھا۔

                ہاں……اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا……میں نے اکثریت ایسے لوگوں کی دیکھی ہے جنہوں نے بالغ ہوتے ہی نماز شروع کر دی۔ اور زندگی کے آخری ایام تک اس کے پابند رہے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے عرفان الٰہی حاصل ہوا ہو۔

                اس کی یہ بات معقول تھی……واقعی میں نے سیکڑوں ایسے لوگوں کو دیکھا تھا جو کہ پابندی سے نمازادا کرتے تھے……لیکن ہمیشہ اس شک و شبہ میں رہتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی نماز قبول کرے گا یا نہیں۔

                اس کے علاوہ……اللہ رکھی نے مجھے خاموش دیکھ کر قدرے غصہ سے کہا……لوگ نماز’جنگ حاصل کرنے کے لالچ میں پڑھتے ہیں……قرب الٰہی کے طلبگار نہیں ہوتے……وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے……جب کہ قرب الٰہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اللہ کا شکر ادا کرے……اور اس کے لئے اسی حدیث نبویﷺ پر عمل کرنا ضروری ہے’ جس میں ارشاد ہے……کہ تم صلوٰۃ قائم کرو۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یا۔یہ……کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو……جب اس خیال کے مطابق بندہ نماز میں مشغول ہو جاتا ہے تو پھر اسے دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی۔ اور وہ خود کو اللہ کے سامنے پاتا ہے……مراقبہ کی یہی وہ حقیقت ہے جسے ‘‘مومن کی معراج’’ کہا جاتا ہے۔

                اللہ رکھی نے بات بڑے ہی پتے کی بتائی تھی……جس حدیث کا اس نے ذکر کیا تھا’ وہ بارہا میری نظروں سے گزری تھی……میں نے کئی مذہبی لوگوں (مولویوں) سے بھی یہ حدیث سنی تھی۔ لیکن وہ اس حدیث کی تشریح کچھ اس طرح کرتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ……کہ جب نماز پڑھنے کھڑے ہوں تو پاک اور باوضو ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس وقت نمازی اللہ کے حضور میں ہوتا ہے……لیکن اللہ رکھی نے جو تشریح بتائی تھی، وہ ان سب سے مختلف تھی۔ اور میرے ذہن نے اسے قبول کر لیا تھا۔

                تم آج ہی سے نماز شروع کر دو……چند ثانیہ بعد اللہ رکھی نے کہا……اور جس طرح میں نے بتایا ہے اسی طرح سے نماز ادا کرو۔

                اتنا کہہ کر وہ صوفہ سے اٹھتے ہوئے بولی……رات کافی گزر چکی ہے۔ مجھے تو خیال نہیں رہا……پھر اس ڈرائنگ روم سے ملحقہ ایک کمرہ کی طرف اشارہ کیا……یہ تمہارا کمرہ ہے۔

                اچھا شب بخیر……اس نے دایاں ہاتھ اٹھا کر بڑے ہی پیار سے الوداع کہا، اور ڈرائنگ کے باہر چلی گئی……اس کے جانے کے کچھ دیر بعد تک میں بیٹھا رہا……پھر میں اپنے کمرہ کی طرف چل دیا……مجھے بھی نیند آ رہی تھی۔

                میرے لیے جو کمرہ مخصوص کیا گیا تھا اس میں ضروریات زندگی کی ہر شے موجود تھی……اس کمرہ میں ایک دروازہ اور ایک کھڑکی بھی تھی۔ کیونکہ رات کافی گزر چکی تھی۔ اس لیے میں نے ہوا کی خاطر کھڑکی کھول دی……باہر چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور اس چاندنی میں تاحد نگاہ قبریں ہی قبریں دکھائی دے رہی تھیں……میں نے اپنا واہمہ سمجھا اور آنکھیں مل کر کھڑکی کے باہر غور سے دیکھنے لگا……یہ واقعی قبرستان تھا۔ جس میں جا بجا بے ترتیبی سے قبریں ہی قبریں تھیں……کوئی کوئی قبر پکی تھی۔ قبروں پر کیے گئے نیلے پیلے اور سفید رنگ صاف نظر آ رہے تھے……بعض قبروں کے سرہانے‘‘پیلو’’ کے درخت بھی اگے ہوئے تھے……اور بعض کے سرہانے سدا بہار کی بیلیں تھیں، جو کہ اب گنجان جھاڑیاں بن چکی تھیں……قبرستان میں پرہول سناٹا چھایا ہوا تھا……البتہ کبھی کبھی کسی پرندہ کے بولنے یا پرپھڑپھڑانے کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔

                میں کھڑکی میں کھڑا سوچ رہا تھا……کہ مضافات کی یہ بستی……شہر کے باہر آباد کی گئی ہے اور اللہ رکھی کا یہ مکان قبرستان کے کنارے پر واقع ہے……ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا اور قبرستان کے پرہول سناٹے سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گرجدار آواز سنائی دی……شمیم تم کہاں ہو……کہاں ہو تم……

                یہ آواز آسمانی بجلی کی طرح کڑکتی ہوئی بلند ہوئی……اور سناٹے کو چیرتی ہوئی اسی میں گم ہو گئی۔

                میں نے سوچا……یہ کون ہے جو قبرستان میں کسی شمیم کو آوا ز دیتا پھر رہا ہے……پہلے تو مجھے خیال آیا کہ یہ کوئی شخص ہے’ جو اپنی گمشدہ شمیم کو آواز دے رہا ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ……قبرستان کے ویرانہ میں یاد دلایا کہ اس شہر خموشاں میں شمیم تو منوں مٹی کے نیچے سو رہی ہو گی۔ اور اس کا یہ محبوب ……یہ دیوانہ……طلب صادق کے جذبہ میں سرشار اسے پکارتا پھر رہا ہے……اس خیال کے بعد……میں نے کھڑکی بند کر دی۔ اور وہاں سے ہٹ کر مسہری کے پاس آ گیا……سونے کی خاطر میں نے لباس تبدیل کیا۔ اور کمرہ کا برقی بلب بجھا کر بستر پر لیٹ گیا……ابھی مجھے بستر پر لیٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک بار پھر وہی کڑک دار آواز سنائی دی……شمیم تم کہاں ہو……کہاں ہو تم……اس دفعہ آواز قریب سے سنائی دی……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص ‘‘شمیم’’ کو آواز دیتا ہوا……میرے کمرہ کی کھڑکی کے قریب سے گزرا ہے……میں اس شخص کو دیکھنے کی خاطر جلدی سے اٹھا اور لپک کر کھڑکی کے قریب پہنچ گیا……میں نے جلدی سے کھڑکی کھولی اور اطراف میں نظریں دوڑانے لگا……لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا……ہر جانب چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اور پرہول سناٹا چھایا ہوا تھا۔

                یہ آواز کیسی تھی……یہ کون ہے جو قبرستان میں آوازیں دیتا پھر رہا ہے……پھر وہ اتنی جلدی کہاں غائب ہو گیا۔

                میں بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتا……لیکن اس وقت……قبرستان میں گونجنے والی اس آواز نے میرے یقین کو متزلزل کرنا شروع کردیا تھا……میں بزدل نہیں ہوں……اور نہ ہی سفلی خیالات کا حامل ہوں……لیکن اس پراسرار آواز نے مجھے پریشان کر دیا تھا……اور ابھی میں اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا……کہ وہی آواز’ دور بہت دور سنائی دی……معلوم ہوتا تھا……کہ آواز دینے والا قبرستان کے آخری کنارے پر پہنچ گیا ہے۔ یا پھر……قبرستان کے باہر چلا گیا ہے۔

 

 

 


 


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء