Topics

لالچی چچا


                باہر بارش اور ہوا کا طوفان کم ہو چلا تھا……اللہ رکھی بستر پر دائیں ہاتھ کی کہنی کے بل لیٹی بڑے ہی غور سے نجم خان کی کہانی سن رہی تھی……نجم خان نے گلا صاف کیا اور بولا……ڈھکنا کھولنے کے بعد میرا چچا حیرت سے آنکھیں پھاڑے ڈبہ کو دیکھ رہا تھا……ڈبہ نہایت ہی قیمتی ہیروں اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کسی بادشاہ کا خزانہ ہے……ڈبہ کے اندر موجود نوادرات کی چمک نہ صرف میرے چچا کے چہرہ پر پڑ رہی تھی بلکہ اطراف کا ماحول بھی اس کی زد میں تھا۔ میں چچا کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔ اور اس کے شانوں سے ڈبہ کو دیکھنے لگا۔

                خوب……بہت خوب۔ چچا نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا……بلاشبہ یہ دنیا کے نایاب جواہرات ہیں۔

                کیا تم ان کی قیمت دے سکتے ہو……دوآبہ کے رئیس سلاسل نے پوچھا۔

                نہیں سائیں……چچا نے جواب دیا……میں اپنی ساری جائیداد اور دولت دے کر بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔ پھر اس نے ایک بڑا سا الماس اٹھایا……اور حیرت و خوشی سے بولا……صرف اس الماس کی قیمت ایک کروڑ روپے سے کم نہیں ہو گی۔

                اس کا مطلب یہ ہوا……دوآبہ کے رئیس سلاسل نے تحکمانہ لہجہ میں کہا ……کہ تمہیں ان جواہرات کی قدر و قیمت کا انداز ہ ہے۔

                میرے چچا نے خوشامدانہ لہجہ میں کہا کہ ان کی قیمت کوئی جوہری ہی لگا سکتا ہے۔

                نہیں……اس کی ضرورت نہیں۔ اس نے تکبر سے کہا……ہمارا تمہارے پاس آنے کا مقصد یہی تھا کہ……ہیرے کی قدر بادشاہ جانتا ہے یا جوہری جانتا ہے۔

                میرا چچا خوشی سے ہنستے ہوئے بولا……سائیں میں جوہری نہ بادشاہ ہوں۔

                لیکن……جواہرات کی قدر تو جانتے ہو……دوآبہ کے رئیس سلاسل نے کہا……تم تمہارے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے ہی……تمہارے پاس آئے ہیں۔

                یہ تو آپ کی قد ر دانی ہے……میری عزت افزائی ہے……چچا نے انکساری سے کہا……جو آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔

                میں یہ خزانہ تمہیں دینا چاہتا ہوں……دوآبہ کے رئیس سلاسل نے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے چچا کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں……وہ خوشی سے دیوانوں کی طرح جواہرات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔

                میرا چچا خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا……معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا ہے……دوآبہ کا رئیس سلاسل اپنی سرخ آنکھوں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا……ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کچھ کہنے سے پہلے سوچ رہا ہے……بالآخر……جب اس نے اندازہ لگا لیا کہ میرا چچا ان جواہرات کو پانے کی خوشی میں دیوانہ ہو رہا ہے تو اس نے کہا……تمہیں اس خزانہ کا مالک بننے کے لئے میری ایک شرط پوری کرنا ہو گی۔

                سائیں! میں آپ کی ہر شرط پوری کرنے کو تیار ہوں……میرے چچا نے ڈبہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ تمہیں اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کرنا ہو گا……رئیس سلاسل نے کہا۔

                یہ الفاظ نہیں تھے۔ پگھلا ہوا سیسہ تھا جومیرے کانوں میں انڈیل دیا گیا تھا……ممکن تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گر جاتا لیکن میں سنبھلا اور نفرت بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگا……اس شخص کے چہرے پر رعونت چھائی ہوئی تھی۔ مجھے اس کی سرخ آنکھوں سے چنگاریاں سی نکلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ پھر دوسرے ہی لمحہ میرے ذہن پر خوف نے ڈیرہ جما لیا……دوآبہ کے رئیس سلاسل نے میرے چچا سے پوچھا۔

                بولو۔ تمہیں یہ شرط منظور ہے۔

                سائیں! یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسا رئیس میری بیٹی کی تقدیر کا مالک بنے گا……چچا نے ڈبہ کو سینے سے لگاتے ہوئے جواب دیا۔

 

                چچا کا یہ جواب سن کر مجھے سخت غصہ آیا……اگر میرا بس چلتا تو میں اس رئیس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا……وہ پتھر کے چند چمکدار ٹکڑوں کے عوض میری محبت خریدنے آیا تھا ……کوئی بھی غیر ت مند شخص اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا……میں اسے چچا کے اشارہ کا منتظر تھا……کہ وہ حکم دے اور میں اس خبیث کو حویلی سے باہر نکال دوں۔ لیکن لالچی چچا نے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی تھی……اور اب وہ کہہ رہا تھا……سائیں!اس معاملے میں……

                الن……اس نے بڑے ہی کرخت لہجہ میں چچا کو مخاطب کیا……تم اپنے رسم و رواج کے خلاف بات کر رہے ہو……سندھی معاشرہ میں شادی کے لئے بیٹی سے نہیں پوچھا جاتا۔

                پھر بھی سائیں……میں نے ہمت کر کے کہا۔

                خاموش……اس نے مجھے ڈانٹا……اس کے لہجہ میں کچھ ایسی کرختگی تھی کہ وہ بات پوری کیے بغیر ہی خاموش ہو گیا……وہ کرسی سے اٹھا……اور شاہانہ انداز سے میرے چچا کے سامنے کھڑا ہو کر بولا……وڈیرہ الن……تم مجھ سے کوئی بہانہ نہیں کر سکتے……میں نے تمہیں دولت کا وہ خزانہ دے دیا ہے جس سے کہ تمہاری کئی نسلیں شاہانہ زندگی گزار سکتی ہیں۔

                میں جانتا ہوں سائیں! اور اس کرم نوازی کا شکر گزار ہوں……میرے چچا نے احسان مند نظروں سے گردن جھکا کر جوا ب دیا۔

                باتیں بنانے کی ضرورت نہیں……اس نے رعونت سے کہا……میں تمہاری بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور وہ بھی……کل اسی وقت۔

                کل اسی وقت……میرے چچا نے پریشانی سے الفاظ دہرائے۔

                ہاں۔ میں فضول رسموں کا قائل نہیں ہوں……اس نے چھڑی کی نوک چچا کے سینہ کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا……تم دو چار آدمیوں کو بلا لینا۔ قاضی کو میں ساتھ لے کر آئوں گا۔ اس نے اس طرح کہا جیسے چچا کو حکم دے رہا ہو۔ اور اس وقت میرا چچا بھی اس کی دولت سے اس قدر مرعوب ہو چکا تھا کیونکہ وہ بلا چون و چرا اس کی ہر بات مان رہا تھا۔

                تو پھر ٹھیک ہے……اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر کہا……تم وعدے کے مطابق کل اسی وقت اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو گے۔

                کیا آپ مجھے ایک دن کی مہلت……

                نہیں……اس نے تحکمانہ لہجہ میں چچا کی بات کاٹی……مجھے اپنی جاگیر کی دیکھ بھال میں اتنی فرصت نہیں ملتی کہ تمہیں مزید مہلت دوں……تمہیں ہر حال میں کل اسی وقت نکاح کرنا ہو گا۔

                ٹھیک ہے سائیں!……میرے چچا نے احسان مندی سے جواب دیا……آپ جیسا کہتے ہیں ویسا ہی ہو گا۔

                تو پھر میں چلتا ہوں……اس نے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا……لیکن کل اسی وقت یاد رکھنا۔ اس کے بعد وہ بغیر سلام اور رخصتی کا مصافحہ کئے دروازہ سے نکل گیا……میں اور چچا ایک سحر زدہ انسان کی طرح اپنی جگہ پر کھڑے رہے پھر معاً مجھے خیال آیا کہ دیکھوں یہ رئیس کدھر سے آیا تھا۔ یہ سوچ کر میں شہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہماری حویلی کے قریب سے گھوڑوں کی بگھی گزری۔ جس کا رخ شہر کے باہر جانے والی سڑک کی طرف تھا۔

                میرا چچا ابھی تک گم سم جواہرات کا دبہ لئے کھڑا تھا میں جونہی کھڑکی کے پاس پلٹا……وہ چونکا اور مجھ سے کہنے لگا۔ دوآبہ کا رئیس تو بہت ہی زیادہ دولت مند معلوم ہوتا ہے۔

                جی ہاں……میں نے افسردگی سے کہا……موجودہ دور میں اتنے قیمتی جواہرات کس کے پاس ہوں گے۔ میری بات کے جواب میں چچا نے ایک بار پھر جواہرات کے دبہ کو کھولا اور خوشی سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں……وہ دو چار ہیروں کو ہاتھ میں لے کر تولتا اور ہوا میں اچھال کر دوبارہ پکڑلیتا۔ اسی طرح جواہرات سے کھیلتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا یہ شخص خاندانی معلوم ہوتا ہے……ایسے خاندانی شخص کے ساتھ اپنی بیٹی شمیم کا رشتہ ضرور کروں گا۔

                کاش چچا کو ہم دونوں کی محبت کا حال معلوم ہوتا تو شاید وہ یہ بات نہ کہتے۔ لیکن ہیرے جواہرات کی چمک دمک نے ان کے دل میں لالچ پیدا کر دیا تھا……اور ان کی بات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنا وعدہ نبھائیں گے ۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو ضبط کیا۔ لیکن اس ضبط کے باوجود میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک سرد آہ نکل گئی……مجھے پورا کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے لاکھ سنبھلنے کی کوشش کی لیکن دھڑام سے فرش پر گر گیا۔ میرے گرتے ہی چچا نے اپنا کھیل بند کر دیا اور ڈبہ کو بند کر کے اسے سینے سے لگائے ہوئے میرے قریب آ کر بولا۔

                کیا بات ہے بیٹا! تمہیں کیا ہوا۔

                کچھ نہیں چچا جان……میں نے فرش سے اٹھتے ہوئے جواب دیا……ایسے ہی چکر آ گیا تھا۔        

                تمہیں چکر آنا ہی چاہئے تھا……چچا نے تکبر سے کہا……تم نوجوان ہو ……بھلا تم نے اتنے دھیر سارے ہیرے جواہرات کہاں دیکھے ہوں گے۔

                پھر اس نے دیوانوں کی طرح قہقہہ لگایا اور ڈبہ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے کہنا لگا……اس خزانہ کو جو بھی دیکھے گا چکرا جائے گا۔

                کیا……کیا……آپ کا فیصلہ قطعی ہے……میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

                بالکل……میرا فیصلہ اٹل ہے……چچا نے سنجیدگی سے جواب دیا……میں اپنی بیٹی کے لئے اس سے زیادہ مناسب رشتہ کوئی اور نہیں سمجھتا……وہ اس صاحب دولت شخص کے ساتھ عمر بھر عیش کرے گی۔

                چچا کی بات سن کر مجھے شدید دھچکا لگا اور میں نے ان سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا۔ اب مجھے اجازت دیئے۔ میں اپنے کمرہ میں جانا چاہتا ہوں۔

                اچھا جائو……چچا نے بے رخی سے جواب دیا……میں بھی اس معاملے میں اپنی بیٹی سے بات کر لوں۔ یہ کہہ کر چچا خوشی سے جھومتے ہوئے اپنی بیٹی کے کمرہ کی طرف چلے گئے اور میں اپنی قسمت پر آنسو بہاتا ہوا اپنی خواب گاہ میں آ گیا۔

                میں اپنے کمرہ میں اس وجہ سے بھی آ گیا تھا کہ کہیں ‘‘محبت’’ کے جذبات مجھ پر غالب نہ آ جائیں اور میں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس سے نہ صرف میری محبت کا راز فاش ہو جائے بلکہ چچا بھی ناراض ہو جائیں۔

                میری اور شمیم کی خوابگاہ کے درمیان دیوار میں ایک چھوٹا سا روشندان تھا جس سے وقت ضرورت ہم ایک دوسرے کو مخاطب کر لیا کرتے تھے……چچا سیدھے اپنی بیٹی شمیم کی خواب گاہ میں گئے……اور اب میرے دل میں جستجو پیدا ہوئی کہ دیکھوں باپ اور بیٹی آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں……اور میری محبوبہ شمیم کے شادی کے بارے میں کیا خیالات ہیں……یہ سوچ کر میں نے روشندان کی ایک جھری سے آنکھ لگا دی……اندر شمیم اپنی مسہری پر چت لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔ اس کا سرخ و سفید چہرہ کسی حد تک کملایا ہوا تھا……چچا جونہی خوابگاہ میں داخل ہوئے……وہ بستر سے اٹھ گئی اور سر پر دوپٹہ کو درست کرنے لگی……چچا نے اس کے قریب پہنچ کر ایک نظراس کے چہرہ پر ڈالی اور قدرے تشویش سے بولے……کیا بات ہے……کیا میری بیٹی کی طبیعت خراب ے۔

                جی ہاں! شمیم نے بجھے ہوئے لہجہ سے کہا……کل شام سے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

                اچھا مجھے تو معلوم نہیں تھا۔ چچا نے قدرے تشویش سے کہا۔ میں ابھی کسی ڈاکٹر کو بلواتا ہوں۔ پھر وہ مسہری کے قریب ہی پڑی ہوئی آرام دہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے……بیٹی! میں اس وقت تم سے نہایت ہی اہم بات کرنے آیا ہوں۔

                شمیم نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ ہمہ تن گوش ہو گئی……چچا نے اسے متوجہ پا کر کہا……بیٹی!……ماں باپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے اور وہ اپنی اولاد کے لئے ہر لمحہ بھلائی ہی سوچتا ہے……تم میری بیٹی ہو اور اس دنیا میں مجھے سب سے زیادہ تم سے پیار ہے۔

                میں جانتی ہوں ابا جان……شمیم نے معصومیت سے جواب دیا۔

                بیٹی اب تم جوان ہو چکی ہو……چچا نے مطلب کی بات شروع کی……اور ایک باپ ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ تمہیں ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے ایک اچھا ساتھی مہیا کردوں۔

                یہ سن کر شمیم نے شرم و حیا سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ گردن بھی جھکا لی……چچا اپنی جگہ سے اٹھے اور بڑے ہی پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے……بیٹی ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد عیش و آرام کی زندگی گزارے۔ اسی لیے میں نے ایک صاحب حیثیت شخص کو تمہارا شریک حیات بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ دوآبہ کا رئیس بڑا رئیس ہے۔

                میں نے دیکھا کہ شمیم نے یہ سن کر ایک دم گردن اوپر کو اٹھائی……اپنے باپ کے اس فیصلہ کو رد کرنے کے لئے اس کے ہونٹ کپکپائے……لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی اور اس نے دوبارہ گردن جھکالی۔

                چچا نے اس کی اس حرکت کو رضامندی سمجھا۔ لہٰذا……خوشی سے ہاتھی دانت کا ڈبہ اس کے سامنے کھولتے ہوئے بولا……بیٹی! اس شخص نے صرف تمہاری نسبت طے ہونے پر یہ ہیرے اورجواہرات پیش کئے ہیں۔

                میں نے دیکھا کہ شمیم نے ایک نظر اٹھا کر بھی اس ڈبہ کی طرف نہیں دیکھا……اس کی دلی نفرت کا اظہار اس کے چہرہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا……لیکن چچا اسے سمجھا رہے تھے……بیٹی دوآبہ کا یہ رئیس واقعی رئیس ہے اور مجھے یقین ہے کہ تم ملکہ بن کر زندگی گزارو گی۔

                ابا جان……اس کے ہونٹ کپکپائے……شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ چچا نے اس کے دل کی بات سننے کی بجائے اپنے دل کی بات کہہ دی……وہ رئیس کچھ جلدی میں ہے اس وجہ سے کل شام نکاح کرنا چاہتا ہے اور میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں۔

                ابا جان……شمیم نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا……مجھے چکر آ رہا ہے……آپ کسی ڈاکٹر کو بلوائیں۔

                ہاں……ہاں……کیوں نہیں……چچا نے جلدی سے ڈبہ کا ڈھکنا بند کر کے اٹھاتے ہوئے کہا۔ مجھے باتوں میں یاد ہی نہیں رہا……پھر دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولے……میں ابھی کامدار کو شہر بھیج کر کسی ڈاکٹر کو بلواتا ہوں۔

                چچا خوابگاہ سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی شمیم نے ایک سرد آہ کھینچی اور نڈھال ہو کر بستر پر گر گئی۔ مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ لیکن میں مجبور تھا……میں کیا کر سکتا تھا……میں بھی افسردہ دل کے ساتھ روشندان کے پاس سے ہٹ گیا۔

                میں اداس دل کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا……یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا……کہ چچا نہ صرف میرے جذبات کو کچل دے گا بلکہ اپنی بیٹی کے جسم و جان کا سودا بھی کر لے گا……میرے سارے حسین خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ پھر مجھے خود ہی اپنی مفلسی کا خیال آ گیا۔ میں غریب تھا بہت ہی غریب……میں شمیم کے قابل نہیں تھا……میں تو اسے ایک اچھا سا جوڑا بھی بنوا کر نہیں دے سکتا تھا……لیکن شمیم کو تو کچھ بھی نہیں چاہئے تھا……میں نے سوچا……سونے چاندی کے زیورات……ہیرے جواہرات……بیش قیمت کپڑے یا کسی علاقہ کا نواب، رئیس……اسے ان میں سے کسی سے بھی ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے اپنی محبت پر بھروسہ تھا اور شمیم کی محبت پر یقین تھا……لیکن……لیکن ……چچا نے دولت کی لالچ میں آ کر ہم دونوں کی آرزوئوں اور خواہشوں کاگلا گھونٹ دیا تھا۔

                میں رات بھر اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتا رہا……چچا دوسرے دن بھی اپنی بیٹی کو سمجھاتے رہے اور اسے روشن مستقبل کے سہانے خواب دکھاتے رہے……میری شمیم اشک بہاتی رہی……اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ لیکن چہرہ سے اس کے جذبات صاف عیاں تھے۔ جنہیں صرف میں ہی سمجھ سکتا تھا۔

                ایک ہی دن میں اس کے چہرے کا رنگ و روپ……اور آب و تاب غائب ہو چکی تھی۔ اور وہ اب برسوں کی بیمار دکھائی دے رہی تھی۔ میں دوپہر کو چچا کے سامنے ‘‘اوطاق’’ میں آیا۔ میں اتنا مضمحل اتنا نحیف نظر آ رہا تھا کہ چچا مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئے……میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں……بال بکھرے ہوئے تھے اور ہونٹوں پر پپڑیاں سی جمی ہوئی تھیں۔

                چچا نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا……اور ایک دم پریشانی سے بولے……ارے تمہیں تو بخار ہو رہا ہے۔ میں ابھی ڈاکٹر کو بلواتا ہوں۔

                رہنے دیجئے……میں نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا……بخار تو شام تک اتر ہی جائے گا……آپ نکاح کی تیاری کیجئے……دوآبہ کے رئیس کے آنے کا وقت قریب آ رہا ہے۔

                ٹھیک کہا تم نے……چچا نے خوشی سے جواب دیا……اور میری حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے تم اوطاق کی صفائی وغیرہ کرا کے مہمانوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام کرا دینا……میں عورتوں سے کہہ کر بیٹی کو تیار کراتا ہوں۔

                یہ ہدایات دے کر چچا حویلی کے اندرونی حصہ میں چلے گئے۔ اور میں نوکروں کو ساتھ لے کر اوطاق کی صفائی میں مصروف ہو گیا۔

                میں نے چچا کی ہدایت کی پوری پوری تکمیل کی اور نوکروں کے ساتھ مل کر پورے اوطاق کو چمکا دیا۔ پھر ایک شاندار مسند دولہا کے لئے ایک جانب تیار کرائی ……میں نہیں چاہتا تھا کہ میری ذرا سی کوتاہی سے چچا کو معمولی سا بھی شک ہو جائے……اس تمام کام میں سورج چھپ گیا……اور ہر جانب دھندلی سی تاریکی پھیلنے لگی……اس وقت حویلی میں میرے چچا اور نوکروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا……چچا نے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی مدعو نہیں کیا……شاید ڈر تھا کہ اتنے بڑے دولت مند شخص کوکوئی ان کی بیٹی کے خلاف بہکا نہ دے۔

                شہر کی مسجد سے اللہ اکبر……اللہ اکبر……اذان بلند ہوئی۔ اور اس کے ساتھ ہی میں اور چچا دو ملازموں کے ہمراہ اس کھڑکی میں آ کر کھڑے ہو گئے جس کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ اور جہاں سے صدر دروازہ صاف نظر آتا تھا۔ اذان ختم ہوئی اور ہم سب دم سادھے صدر دروازہ کو تکنے لگے……ابھی اذان ہوئے صرف پانچ دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اچانک بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ لکڑی کے دونوں بھاری دروازے ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ الگ الگ ہو گئے اور ایک سیاہ رنگ کی بگھی جسے دو سفید گھوڑے کھینچ رہے تھے صحن میں داخل ہوئی……اس بگھی کو دیکھتے ہی چچا اور ہم سب سمجھ گئے کہ دوآبہ کا رئیس آ چکاہے……لہٰذا……کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر دروازہ کے قریب استقبالیہ انداز میں کھڑے ہوئے……پھر چند لمحوں بعد ہی دوآبہ کا رئیس اپنی پوری آن بان کے ساتھ اوطاق میں داخل ہوا……آج اس کا لباس دولہا جیسا تھا……اس کے جسم پر نہایت قیمتی ریشم کی سرخ شیروانی تھی……سر پر بھی اسی رنگ کی قیمتی پگڑی تھی جس میں سامنے کی جانب پیشانی کے اوپر ایک بڑا سا ہیرا جگمگا رہا تھا……اس کے گلے میں چڑیا کے انڈوں کے برابر موتیوں کی تین لڑی والی مالا پڑی تھی اور چہرہ پر کل ہی کی طرح رعب و دبدبہ چھایا ہوا تھا……چچا سندھی رسم و رواج کے مطابق استقبالیہ انداز میں آگے بڑھے……لیکن اس نے حسب سابق نہ تو سلام کیا اور نہ ہی مصافحہ کیا۔ بلکہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کو گھماتے ہوئے نہایت ہی رعب سے بولا……

                وڈیرہ الن! کیا تم اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تیار ہو۔

                بالکل سائیں! میں تیار ہوں……چچا نے ادب سے گردن جھکا کر جواب دیا ۔ پھر اس کے لیے تیار کی گئی مخصوص نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا……آپ یہاں تشریف رکھیں۔

                اس نے شعلہ برساتی نگاہوں سے ہم سب کو دیکھا……اور نہایت ہی تمکنت سے چلتا ہوا نشست پر بیٹھ گیا……ا س کے برابر میں ایک سفید باریش شخص بھی بیٹھا ہوا نظر آیا……مجھے تعجب تھا کہ یہ شخص مجھے پہلے کیوں نہیں دکھائی دیا……ممکن ہے کہ یہ شخص دوآبہ کے رئیس کے قد آور ہونے کی وجہ سے مجھے نظر نہ آیا ہو……اس شخص نے اپنی بغل سے ایک رجسٹر نکالا اور بغیر کسی سے کچھ پوچھے لکھنے لگا۔ اسی دوران دوآبہ کے رئیس سلاسل نے چچا سے کہا۔

                آپ خود اور اپنے دو معتمد آدمیوں سے کہیں اس پر دستخط کر دیں……یہ سن کر چچا نے میری طرف دیکھا اور پھر خود آگے بڑھ گیا……اس بوڑھے نے قلم چچا کے ہاتھ میں تھما دیا……ان کے دستخط کرنے کے بعد میں ایک پرانے ملازم کے ہمراہ آگے بڑھا……اور یکے بعد دیگر……رجسٹر پر دستخط کر دیئے۔

                جب ہم سب دستخط کر چکے تو دوآبہ کے رئیس نے چچا سے نہایت ہی رعب دار لہجہ میں کہا……وڈیرہ الن……اب جلد از جلد نکاح کی رسم ادا ہونی چاہئے……میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے لہٰذا ایجاب و قبول کے اذن سے زیادہ کچھ نہیں ہونا چاہئے۔

                بالکل سائیں! ایسا ہی ہو گا……چچا نے زرخرید غلام کی طرح جواب دیا اور حویلی کے اندر شمیم کے پاس چلا گیا۔


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء