Topics

کائنات کی بنیاد اللہ کا ذہن ہے

بسم اللہ الرحمٰن

الحمد للہ رب العالمین…

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تلاوت سورۃ اخلاص…

معزز خواتین وحضرات ،محترم بزرگوں ،دوستوں،پیارے بچوں اور بچیوں میں مرکزی مراقبہ ہال کراچی پاکستان سے آپ سب حضرات سے مخاطب ہوں ، میری طرف سے آپ سب کواسلام وعلیکم …حاضرین مجلس آج کی اس تقریب میں جو تقریب حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کے عرس کے سلسلے میں منقعدکی گئی ہے آپ سب حضرات خلوص نیت سے رسول اللہﷺکی محبت میں اور اللہ کے ولی حضور قلند ر بابا اولیاءؒ کو اخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہو ئے ہیں۔میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اس حاضری کو قبول فرمائے اور ہمیں دین و دنیا کی تمام نعمتیں عطا فرمائے ۔حاضرین مجلس ابھی میں نے آپ حضرات کے سامنے سورۃ اخلاص کی تلاوت کی ہے قرآن پاک میں یہ سورۃ اتنی مبارک سورۃ ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اس سورۃ کو تین دفعہ پڑھ لیا جائے تو ایک قرآن کے برابر ثواب ملتا ہے ۔اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف کر ایا ہے ۔اس کا ترجمہ بہت آسان ہے اور یہ سورۃ تقریبا ہر مسلمان مر د عورت کو یاد ہوتی ہے ۔اس کا ترجمہ یہ ہے قل ھواللہ احد…اے پیغمبر ﷺ آپ لوگوں سے کہہ  دیجئے کہ اللہ ایک ہے ۔اللہ صمد …اللہ بے نیاز ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے لم یلد … نہ اللہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اللہ کسی کا باپ ہے ۔جیسے دنیا میں باپ اور بیٹے ہو تے ہیں ولم یاقل اللہ کفون احد…اور اللہ کا کوئی خاندان نہیں ہے۔اس سورۃ میں پانچ باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ اللہ ایک ہے ۔دوسری بات ہے کہ اللہ محتاج نہیں ہے کسی چیز کا ،  تیسری بات یہ وہ کسی کا بیٹا نہیں ہے اور چوتھی بات یہ وہ کسی کا باپ نہیں ہے اور پانچویں بات یہ ہے کہ اس کی کوئی برادری ،کنبہ،خاندان نہیں ہے ۔ جیسے مخلوق کا ہو تا ہے وہ ا س سے ماورا ہے ان پانچ باتوں پر یا پانچ اوصاف پر یا پانچ ایجنسیوں پر غور کیا جائے تو اس میں اللہ اور مخلوق کے رشتے کے بارے میں بڑا ہی انکشا ف ہو تا ہے بہت پتے کی بات معلوم ہو تی ہے ۔اب ہمیں قرآن پاک میں اللہ کی جو صفات بیان ہو ئی ہیں اس کا بحیثیت خالق، اللہ کے اور بحیثیت مخلوق، بندوں کے تجزیہ کرتے ہیں تو اس کی تفصیل بیان کر تے ہیںروحانی نقطہ نظر سے اللہ ایک ہے، مخلوق ایک نہیں ہو سکتی مخلوق کا مطلب ہے یہ ہے کہ وہ کثرت ہو ،ایک سے زیادہ ہو  ،اربوں کھربوں سنکھوں افراد پر مشتمل ہو ۔لیکن اللہ ایک ہے ۔ یعنی مخلوق کسی بھی طرح اللہ کی صفت احدیت میں شامل نہیں ہو سکتی مخلوق ہمیشہ کثرت ہی رہے گی ۔جب کہ اللہ ہمیشہ احدہے توحید ہے یکتہ ہے اور ایک ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ صمد اللہ کسی بھی شئے کا محتاج نہیں ہے اللہ کو کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور اللہ ہر قسم کی احتیاج سے ماورا ہے ۔جبکہ ہم مخلوق کے بارے میں تفکر کرتے ہیں ۔مخلوق کے بارے میں سوچتے ہیں ۔توہمیں یہ نظر آتا ہے مخلوق محتاجی کے علاوہ کچھ نہیں، کو ئی مخلوق ماں باپ کے علاوہ پیدانہیں ہوتی،کو ئی مخلوق ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہتی، کو ئی مخلوق پانی کے بغیرقائم نہیں رہ سکتی، کوئی مخلوق وسائل کے بغیرنہیں رہ سکتی، مخلوق کے لئے ضروری ہے کہ زمین ہو ،زمین کے اندر کھیتی باڑی ہو پھل فروٹ ہو ،،زمین کے اندر پہاڑ ہو ،زمین کے اندر لوہا ہو ،زمین کے اندر ہر قسم کی وہ ضروریات ہے جن ضروریات کی مخلوق محتاج ہے۔مخلوق چاند کی بھی محتاج ہے ،مخلوق دھوپ کی بھی محتاج ہے ،مخلوق سورج کی بھی محتاج ہے،مخلوق کے اندر وہ خون دوڑ رہا ہے جس خون کو آکسیجن رواں دواں رکھے ہو ئے مخلوق اس کا بھی محتاج ہے ، ہائیڈروجن زیادہ نہ ہو جائے، آدمی مر جائے گا خون زیادہ گاڑہا ہو جائے جب بھی آدمی مر جائے گا ،دماغ کی رگ پھٹ جائے گی آدمی مر جائے گا ۔ بلڈپریشر اتناہائی ہو جائے گا تو ہو سکتا ہے آدمی ایک سیکنڈ بھی زندہ نہ رہے ۔ آکسیجن ختم ہو جائے مخلوق بھی ختم ہوجائے گی ۔ماں باپ کا سلسلہ ختم ہو جائے ماں باپ کی پیدائش ہی ختم ہو جائے گی تو جتناآپ مخلوق کے بارے میں تفکر کریں گے سوچ و بچار کریں گے اتنا ہی آپ کے اوپر یہ انکشاف ہوتا چلا جائے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ مخلوق وسائل کی محتاج ہے اور وسائل کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ  وسائل پیدا کرنے والی کو ئی ہستی ہے تو وسائل بنیں گے ۔  اب زمین اللہ نے بنائی ،پانی اللہ نے بنایا ،آکسیجن اللہ نے بنائی ،دھوپ اللہ نے بنا ئی زمین کے اندر نشوونما دینے کی صلاحیت اور قوت ہے وہ اللہ نے بنائی زمین کے اوپر جو کچھ ہو رہا ہے مثلاًگیہوں ہماری غذا ہے ،چاول ہماری غذا ہے ،دالیں ہماری غذا ہے آپ یہ دیکھئے اگر اللہ تعالیٰ کسی بھی زمانے میں لاکھوں کروڑوں سال پہلے دال کا دانا پیدا نہ کرتے ،زمین کا بیج پیدا نہ کرتے کسی پھل کا درخت نہ اگاتے تو نہ ہم پھل کھا سکتے تھے نہ ہم گندم سے روٹی کھا تے اور نہ ہی ہم زندہ رہے سکتے تھے ۔جب کہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے ۔مخلوق کی تیسری مجبوری یہ ہے لازم وہ کسی کا بیٹا یا بیٹی ہو تی ہے ۔آدم سے لیکر اب تک ساڑھے تین ارب سال زمین کی عمر بتاتے ہیں سائنس کے لوگ،  عمر جتنی بھی ہوں لیکن سائنسدانوں کا یہ قول تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کر لیا جائے تو یہ بات ہمارے سامنے آئی ساڑھے تین ارب سال میں زمین کے اوپر جتنے بھی انسان پیدا ہو ئے وہ کسی کے بیٹے ہوئے یا کسی کی بیٹی ہو ئے ۔اسی صورت سے جب  ا نسان کسی کا بیٹا ہے اور بیٹی تو کسی کا باپ بن جاتا ہے کسی کی ماں بن جاتی ہے تو اب انسان کی ایک مجبوری یہ ہے کہ وہ باپ اور بیٹا دونوں اس کو بننا ہے ۔پانچویں ایجنسی یہ ہے کہ انسان بغیر خاندا ن اور برادری کے نہیں رہتا ۔اب دیکھئے بندروں کا ایک خاندان ہے ،طوطوں کا ایک خاندان ہے ،بکری بھیڑ کا ایک خاندان ہے ، گائے بھینس کا ایک خاندان ہے ،ہاتھی چوہے کا ایک خاندان ہے ،اسی طرح نسانوں کا بھی ایک خاندان ہے ، چیونٹوں کا ایک خاندان ہے ، شہد کی مکھیوںکا ایک الگ خاندان ہے ،تو اب یہ مخلوق جو ہے خاندان کے بغیر اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہو تا مخلوق کا خاندان ہو گا ،مخلوق ہو گی اور مخلوق ہو گی توخاندان بھی ہو گا ۔ تو ا ب آپ دیکھئے ہم نے آپ کے سامنے جو قرآن پاک کی روحانی تشریح کی ہے سورہ اخلاص کی وہ یہ ہے کہ ا للہ تعالیٰ نے اپنی پانچ صفات بیان فرمائی ہیں اور وہ پانچ صفات ایسی ہیں اگر ہم تلاش کر یں تو پانچ میں سے چار صفات تو ایسی ہیں کہ ہم کسی بھی طرح اللہ سے رشتہ قائم نہیں کر سکتے مثلاً ہم بحیثیت انسا ن کے واحد نہیں ہو سکتے یعنی ہم بحیثیت انسا ن کے کثرت سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ہم محتاج جو ہیں وہ محتاجی ختم نہیں کر سکتے ۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی کابیٹا ہو یا بیٹی ہو ہم باپ ہو اورہمارے لئے ضروری ہے بحیثیت مخلوق کا کوئی خاندان ہو ۔اب ان پانچ صفات میں سے ایک صفت کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ بے نیاز ہے ۔اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے۔ منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی تمام ضروریات کو احتیاج کاکفیل اللہ کو سمجھ لے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیتا ہے ۔اور یہ باقی کو ئی ایسی بات بھی نہیں سامنے کی بات ہے کہ انسان جو بھی کچھ استعمال کر تا ہے ۔کھا تا ہے پیتا ہے سوتا ہے جاگتا ہے اس میں دوروبست اللہ ہی طرف سے اس کو وسائل فراہم کئے گئے نیند بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے نیند کے بعد بیدار ہونا وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے ۔اللہ تعالیٰ رات نہ بناتے ہیں دن نہ بناتے ہیں تو نینداور بیداری کا تصور ہی ختم ہو جاتا ۔کھانا پینا بھی اللہ کی طرف سے ہے ۔اللہ تعالیٰ اگر بھوک نہ لگاتے تو آدمی کھا نا نہیں کھا سکتا تھاا اللہ تعالیٰ اگر گندم پیدا نہیں کر تے تو آدمی کو بھوک نہیں لگ سکتی تھی ۔اگر آدمی کو پیاس نہ لگتی تو آدمی پانی نہیں پی سکتا تھا ۔اللہ تعالیٰ پانی کی تخلیق نہ کرتے انسان کو پیاس ہی نہ لگتی تو یہ اب بہت غور طلب بات ہے اس پر توجہ فرمائیں آپ سب حضرات کہ اللہ تعالیٰ کے سورہ اخلاص میں بیان کردہ پانچ صفت ایک صفت کہ اللہ بے نیازہے انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان دروبست اپنا تعلق اسطرح قائم کر لے اپنی ضروریات کا کفیل اللہ کو تسلیم کر ے اور جب یہ صورت واقع ہو جاتی ہے تو ا س کا شمار اولیا ء اللہ میں ہو نے لگتا ہے اور ایسا بندہ اولیا اللہ کی صفت میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے والراسخون  فی العلم…کہ جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی مل جاتی ہے وہ لوگ انبیاء اکرام علیہ اسلام اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرزفکر کو اپنا کر ثابت قدمی کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں انہیں ایک ایسا علم حاصل ہو جاتا ہے جس علم میں یقین وہ رکھتے ہیں اتنا ان کو استحکا م حاصل ہو جاتا ہے ۔یقین ان کا اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ یقولون…وہ کہتے ہیں آمنا بہ ہم اس بات پر یقین لائے کل من عند ربنا …کہ کائنات میں،زمین میں آسمان میں جو کچھ ہو رہا ہے سب کچھ اللہ کی طرف سے ہو رہا ہے۔اللہ کا حکم جاری وساری ہے ۔اللہ نے کن کہا کائنات بن گئی جب تک اللہ نے کن نہیں کہا کائنات بنی ہی نہیں ۔۔إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ …سورہ یسین کی یہ آیت ہے اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں جب اس نے ارادہ کیا کائنات بنانے کا تو کہا’’ کن ‘‘ ہو جا تو کائنات تخلیق ہو گئی تو کائنات کی جو  بنیاد ہے وہ اصل میں کن ہے ۔اللہ نے کہا ہو جا کائنات بن گئی تواب ہو جا کیا چیز ہو جا یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں مخلوق اور مخلوق سے بھری ہوئی پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں پہلے سے موجود تھی اس موجود کائنات میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہو جا جس طریقے سے کائنات کا پروگرام تھااس طریقے سے کائنات تخلیق ہو گئی ۔کائنات بن گئی اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی بنیاد کائنات کی اصل اللہ تعالیٰ کا ذہن ہے یعنی کن کہنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ بات موجودتھی اور جب اللہ تعالیٰ نے کن کہا اللہ تعالیٰ کی ذہن سے نکل کر وہ کائنات جو ہے تخلیق ہو گئی اس کا مشاہدہ ہے ۔تو ہم یوں کہیں گے کہ کائنات کن سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی اور کن کہنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے ۔ تو جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کن سے پہلے بھی موجود تھی کن کے بعد بھی موجود ہے تواب اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن کے علاوہ کچھ نہیں جب کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو ظاہر ہے کائنات اللہ تعالیٰ سے اس طرح ہم رشتہ ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہ حرکت کر سکتی ہے ،نہ ہل سکتی ہے،نہ بندہو سکتی ہے ،نہ ٹوٹ سکتی ہے ،نہ حیات اللہ تعالیٰ سے باہر ہے ،نہ موت اللہ تعالیٰ سے باہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں زندگی کا بھی میں مالک ہوں ، موت کا بھی مالک ہوں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری نظر سے تم دیکھتے ہو ،میری سماعت سے تم سنتے ہو ،میں نے تمہیں قوت گویائی دی میری قوت گویائی سے تم بولتے ہو،میں نے فہم و ادراک دیا تم میرے فہم وادراک سے میری عقل سے سوچتے ہو ،میں نے ماں کے پیٹ میں ایک تصویر تمہاری بنائی اس تصویر کو الٹ پلٹ کر کے نشوونما دی،  نشوونما دینے کے بعد اس کے اندر روح ڈال دی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ھوالذی یصوروکم …دیکھو وہ تمہارا اللہ کتنا خوبصورت ہے ،کتنا صاحب جلال، کتنا صاحب عظمت ،کتنا صاحب قدرت ہے کہ اس نے ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصوریں بنا دیں ۔ابھی اس وقت دنیا میں چھ ارب کی آبادی بتائی جاتی ہے کہ دنیا میں چھ ارب آدمی موجود ہے غور فرمائیے کہ چھ ارب انسان ایک ہی طرح پیدا ہو ئے ۔چھ ارب انسان ماں کے پیٹ میں نشوونما پاکر اس دنیا میں آئے لیکن چھ ارب انسان اس کے باوجود ہر انسان کا باپ بھی ایک ہے ماں بھی ایک ہے لیکن چھ ارب انسان کی صورتیں بھی الگ ہیں ۔چھ ارب انسان کی ہاتھ کے نقوش الگ ہیں ،چھ ارب انسان کے قد بھی الگ ہیں چھ ارب انسانوں کی جسمانی ساخت بھی الگ ہے ،کیسا اللہ ہے والذی یصورکم …کیسا اللہ ہے ،کیسی تصویر بناکر بھیجی طرح طرح کی تصویر اب کیسی عجیب بات ہے کہ پیدائش کا پروسیس ایک ہے نطفہ ایک ہے ماں باپ مرد اور عورت ہیں،پیٹ ایک ہے ،کھا نا پینا ماں باپ کا ایک ہے ،پانی سب ایک پیتے ہیں ،ہوا ایک ہے ،سورج ایک ہے چاند ایک ہے ،روشنی ایک ہے ،ماں کے تصورات اور خیالات تقریباً ایک ہیں۔لیکن اس کے باوجود جو چھ ارب آبادی جو ماں باپ سے پیدا ہو تی ہے سب کے نقوش الگ ہو جاتے ہیں۔سب کی سوچ الگ ہے سب کی طرز فکر الگ ہے ۔سب کی ناک الگ ہے،سب کے کان الگ ہیں،سب کی آنکھ الگ ہے انتہاء یہ ہے کہ انگوٹھے کے نشان بھی الگ الگ ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی صناعی ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم …اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ کتنا بڑا خالق ہے اس نے انسان کو بہترین تخلیق کے ساتھ زمین پر بھیج دیا اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں ثم رددنہ اسفل سافلین…انسان بت پرستی میں ذلت میں اور اسفل سافلین میں پڑا ہوا ہے ۔اب یہ بھی بہت غور طلب نقطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی یعنی کائنات میں انسان سب سے زیادہ خوبصورت اللہ کی صناعی ہے لیکن وہ اسفل سافلین میں پڑا ہواہے ۔اسفل سافلین کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس صناعی کواس طرح سمجھاکے انسان کے اندر دل ہے، پھیپھڑے ہیں،ا نسان کے اندآنتیں ہیں ،انسان کے اندر معدہ ہے،ِتلی ہے ،گردہ ہے ،پتہ ہے وغیرہ وغیرہ لیکن انسان نے یہ نہیں سوچا کہ جس ہستی نے انسان کو بنایا و ہ ہستی کیا ہے ۔وہ ہستی کتنی خوبصورت ہوگی ۔اب دیکھئے اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو دماغ دیا تو بتایا جاتا ہے کہ دو کھرب سیل دماغ کے اندر کام کر تے ہیں اب دو کھرب کے تحت ٹشوز کام کر رہے ہیں باڈی میں تو اس کو بھی اگر سیل سمجھ لیا جائے تو بارہ کھرب ٹشوز یا سیل انسان کے اندر موجود ہو تے ہیں۔اب بارہ کھرب سیل کے بارے میں اب تک دماغی صلاحیت کے اعتبار سے جتنی انسان نے ترقی کی ہے ۔وہ پانچ فیصد ہو ئی ہے یعنی انسان کا ۹۵فیصد جو دماغ ہے وہ سورہا ہے یا رکا ہوا ہے جس سے ابھی تک کام نہیں لیا گیا لیکن جب ہم پیغمبران الصلوٰۃ والسلام کی طرف توجہ کرتے ہیں ان کی تعلیمات پر غور کر تے ہیں قرآن پاک پڑھتے ہیں ۔قرآن پاک سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں ہمیں اس بات کا انکشاف ہو تا ہے یہ حقیقت ہمارے سامنے کھل کر آجاتی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ کے دماغ مبارک میں جتنے سیل ہیں وہ پورے کے پورے چارج ہیں وہ پورے کے پورے کھلے ہو ئے ہیں۔اور یہ سیل کا کھلنا۔معراج شریف کا واقعہ پڑھیں تو معراج شریف میں رسول اللہ  کہاں تک سفر کرآئے۔اللہ تعالیٰ سے باتیں کرآئے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا وکان…کہ میرا بندہ کا دو کمانوں کے درمیان فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم …عربی آیت …وہاں اپنے بندے سے رازو نیاز کیا اپنے بندے کو اپنے خواص بتائے…عربی آیت…اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے محبوب بندے محمد رسول اللہ  ﷺنے جو کچھ دیکھا وہ خواب خیال کی بات نہیں ہے …عربی آیت…جو کچھ دیکھا جو بھی ہے اللہ کی طرف سے رسول اللہ  ﷺ کے سیل دماغی اعتبار سے سب Active ہیں  اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں ،تمہارے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمند ر کی روشنائی بھی ختم ہو جائے گی ، سارا پانی ختم ہو جائے گا پورے درخت ہیں ان کے قلم بھی ختم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی باتیں پھر بھی باقی رہے گیں ۔یعنی اللہ کی باتوں کو ہم موجودہ سائنسی نقطہ نظر سے اللہ کی ایک بات کو ایک سیل کہہ لیں تو اس کی کوئی تعداد ہی شمار نہیں ہے کسی کمپیوٹر کے ذریعے یا کسی بھی ذریعے سے آپ اس کو شمار کر سکیں اس لئے کہ آپ دیکھئے ایک بڑا درخت لے لیں اور اس کا قلم بنائے تو ایک درخت میں کم ازکم پچاس لاکھ قلم بنیں گے ۔ یہ بہت بڑے درخت جو ہیں بڑے بڑے تو ا ب کتنے درخت ہیں یہاں زمین پر تو درختوں کا کو ئی شمار قطارہی نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جتنے درخت ہیں، درخت کے تنے ہیں ، درخت پرشاخیں ہیں ،درخت کی جڑیں ہیں ان سب کو قلم بنا لیں زمین پر اورجتنے سمندر ہیں ان سارے سمندروں سے کو ئی ایسی ترکیب کرو کہ روشنائی بنا کر دوات میں لے لیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سمندر بھی ختم ہو جائیں گے ۔ درخت بھی سارے ختم ہو جائیں گے ختم ہو نے کا کیا مطلب ہے کہ آپ نے ایک قلم بنایا اس سے لکھا پھر وہ گھسِ گیا پھر آپ نے دوبارہ بنا یا پھر وہ گھس گیا پھر آپ نےدو بارہ بنایا پھر وہ گھس گیا یعنی ایک قلم آپ چار انچ کا بھی رکھ لیں تو چار انچ قلم لکھنے سے اس کے گھسنے تک اور گھسنے سے دوبارہ یہی طریقے سے بنانے تک ایک قلم سے آپ لکھنا چاہئے اور مسلسل لکھتے رہے چوبیس گھنٹے تو ایک قلم پورے دن میں ختم نہیں ہو گا آپ بار بار بنانے میں پانچ چھ دن ضرور لگ جائیں گے ۔ تو اب دیکھئے اللہ تعالیٰ کی بات پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زمین پر جتنے بھی درخت ہیں ان سب کے تم قلم بنا لو یعنی درخت کو کاٹ کر پھر چھوٹے چھوٹے قلم بنا ؤ اور سمندر کی روشنائی سے اللہ تعالیٰ کی باتیں ،اللہ تعالیٰ کی صفات ،اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، اللہ تعالیٰ کی نشانیا ں اگر آپ لکھنا شروع کر دیں تو درخت بھی ختم ہو جائیں گے سمندر بھی ختم ہو جائیں گے ۔تو ا س کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنے عظیم ہیں کہ ان کی صفات کا کسی بھی طرح احاطہ کر نا ممکن نہیں ہے ۔ رسول اللہ  ﷺ کا جب ہم ذکر کرتے ہیں تو بلا شبہ یہ ہماری بہت بڑی سعادت ہے ہم بہت زیادہ خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ  ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہم جیسے بھی ہیں گنہگار ہیں ،گندگی اورتعفن میں لپٹے ہو ئے ہیں ہمارا باطن اور ظاہر الگ الگ ہے۔بہت دفعہ ہم سے منافقت بھی ہو جاتی ہے ہم گناہ بھی کرتے ہیں  لیکن الحمد للہ ہمیں یہ سعادت حاصل ہے کہ اللہ کے محبوب بندے محمد رسول اللہ  ﷺکے امتی ہیں ۔ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ  ﷺکے امتی ہیں تو رسول اللہ  ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ الیوم اکملت لکم دینکم …آج کے دن میرے محبوب محمد رسول اللہ  ﷺ آج کے دن میں نے تمہارے اوپر دین کی تکمیل کر دی ۔جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے ،جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کی صفات ہمارے سامنے آتی ہیں ، جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کی  خوشنودی ہمارے سامنے آ تی ہے،دین ایک تکمیل ہے جواللہ تعالیٰ کی پسندیدہ تکمیل ہے تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ  ﷺ پر فرماتے ہیں  کہ آج کے دن میں نے تمہارے اوپر دین کی تکمیل کردی اور میں راضی ہو گیا تمہارے اسلام سے اور تم سے اورایک یہ بھی فرماتے ہیں اتممت  علیکم … اب دیکھئے آپ غورفرمائیں ایک طرف اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں میری باتیں شمار نہیں ہو تی سارے قلم درخت بن جائیں سارے سمندر روشنائی بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں اتممت  علیکم نعمتی …کہ میں نے تمہارے اوپر اپنی تمام نعمتیں پوری کر دی یعنی رسول اللہ  ﷺ اتنی قابل قدراورگرامی ہستی ہیں ایسی محترم ہستی ہیں کہ جن کے اوپر اللہ تعالیٰ اپنی تمام نعمتیں پوری کر دی مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ  ﷺ کی اگر تعریف میں کوئی آدمی تفکر کرے ان کے زندگی کا گہرائی میں مطالعہ کرے اور اس زندگی میں جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  ﷺ پر نعمتیں نازل فرمائیں ہیں۔ان کو لکھے توبھی یہی صورت ہو گی سارے سمندر ختم ہو جائیں گے اور سارے درخت ختم ہو جائیں گے ۔اور رسول اللہ  ﷺ کی سیرت طیبہ کا احاطہ ممکن نہیں ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اتممت  علیکم نعمتی …کہ میرے علاوہ جوکرامات جو ہیں جتنے بھی تھے میں نے آپ کو دے دئیے ۔اب ہم رسول اللہ  ﷺ کے امتی ہیں لہذا جب ہمیں رسول اللہ کی نسبت حاصل ہوئی تو قدرتی طور پر ہمیں بھی ایک عظیم صلاحیت منتقل ہو ئی ۔جس صلاحیت کی بنیاد پر ہم اللہ تعالیٰ کے نعمتوںکو زیادہ سے زیادہ، زیادہ سے زیادہ دیکھ سکتے ہیں سمجھ سکتے ہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو بحیثیت مسلمان کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ پر کیوں کہ نعمتیں پوری ہو چکی ہیں اب جو بندہ بھی رسول اللہ کی تعلیمات پر عمل کرے گا اس بندے کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں منتقل ہو جائیں گیں ۔لیکن یہ کب ہو گی جب انسان رسول اللہ کی طرف اللہ سے ہم رشتہ ہو گا ۔رسول اللہ کی طرح اللہ سے اس کی دوستی ہوگی ۔ رسول اللہ کی طرح بندہ اللہ سے محبت کر ے گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لا یحب ھم اللہ …کہ جو بندے اللہ سے اللہ کے رسول سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کئی زیادہ ان بندوںسے محبت کر تا ہے جنتا بندہ رسول اللہ  ﷺ سے محبت کر تے ہیں ۔ اب اس امید کے بعد آپ یہ غور فرمائیں کہ انسان اور اللہ تعالیٰ کی جو قربت ہے انسان کا اور اللہ تعالیٰ کا جو رشتہ ہے اس رشتے جو تلاش کر نا انتہائی درجے آسان ہے اور وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی پانچ صفات بیان کی ہیں ۔کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اللہ تعالیٰ دو نہیں ہے تین نہیں ہے ہزار نہیں ہے کروڑ نہیں ہے بس اللہ ہے ۔اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے اللہ کسی کے بیٹے نہیں ہیں ۔اللہ کا کوئی خاندان نہیں ہے اب یہ چار جو ایجنسیاں ہیں کہ اللہ ایک ہے مخلوق کبھی ایک نہیں ہو سکتی ۔اللہ کسی کا بیٹا نہیں مخلوق کی مجبوری ہے مخلوق کسی کا بیٹا ہو،للہ کوئی باپ نہیں مخلوق کی مجبوری ہے کہ اس کا باپ ہونا ضروری ہے بغیر باپ کے مخلوق ہو تی ہی نہیں ہے ۔اللہ کوئی خاندان نہیں ہے مخلوق کے لئے یہ بھی ضروری ہے اس کا کوئی خاندان ہو وقبیلہ … اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ہم نے قبیلے بنائے اور یہ قبیلے ان کی پہچان کا ذریعہ ہے ۔اب ایک اللہ تعالیٰ کی صفت رہ گئی اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے انسان اگر اپنی تمام احتیاج چھوڑ کر مخلوق سے توقع قائم نہ کرے اور صرف اللہ سے تو قعات قائم کرے تو اس کا براہ راست اللہ کے ساتھ ایک تعلق قائم ہوجاتا ہے ۔حضور قلندر بابا اولیاءؒ جن کا عرس ہے آپ حضرات اس تقریب میں شریک ہو ئے ہیں تو انہوں نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا یہ مخلوق عجیب ہے ،انسان عجیب ہے اپنے جیسے مجبور لوگوں سے توقعات قائم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ذات اقدس ہے مکرم ہے اللہ تعالیٰ سے روزانہ آپ ایک لاکھ خواہشات کریں اللہ تعالیٰ سے ایک لاکھ روزانہ توقع قائم کریں تو اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ وہ آپ کی ایک لاکھ توقع کو پورا کر دے ۔لیکن آپ خود غور کریں آپ کی ماں ، آپ کا باپ ،آپ کا بھائی ،آپ کا شوہر ،آپ کی بیوی ،آپ کی بہن آپ کتنی توقع کو پوری کرسکتے ہیں ۔اگربچہ آپ سے دن میں دس دفعہ ٹافی کے لئے پیسے مانگے تو آپ ناراض ہو جاتے ہیں اس کوڈانٹ دیتے ہیں کیا تم نے یہ کیا رٹ لگا رکھی ہے ابھی آکر کھڑے ہوہ جاتے ہوایک ڈالر دو مجھے ٹافی لینی ہے ایک ڈالر دو مجھے ٹافی دینی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے آپ ایک لاکھ خواہشات اللہ تعالیٰ سے کریں ایک لاکھ توقع آپ اللہ تعالیٰ سے قائم کیجئے اللہ تعالیٰ پوری کر دیتا ہے ، نہیں پوری کر رہا ہے بھئی …آپ دیکھئے آکسیجن سانس کے ذریعے اندر جاتی ہے وہا ں جاکر کاربن ڈائی آکسائیڈ بن جاتی ہے لیکن کیا انسان ساری زندگی میں روز روز سانس نہیں لے لیتا وہ تو یہ کرروڑ دو کروڑ سانس جو انسان نے لئے ہیں اورسانس کے ذریعے جو آکسیجن جاری ہے ا س کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندہ رہنے کی جو توقع ہے وہ اللہ تعالیٰ پوری کر رہا ہے ۔ہمیں پیاس لگتی ہے اگر پانی نہ ہو تو ہماری تو ساری اندر کی مشین جل جائے گی آگ لگ جائے گی ۔ڈی ہائیڈرشن ہو جائے گا بلڈ پریشرہو جائے گا ۔خون کھول جائے گا جسم کے اندر اللہ تعالیٰ مسلسل پانی بنا رہے ہیں ہمیں پتا نہیں ہے پانی کس طرح بن رہا ہے کہاں سے کبھی بارش میں پانی آجاتا ہے ۔کبھی زمین کے اندر سے پانی آجاتا ہے ۔کبھی برف پگھل کر پانی بن جاتا ہے۔تو ا س کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کی ایک کروڑ مرتبہ کی یہ خواہش کے میں پانی پیوں اللہ تعالیٰ ہمہ وقت رکھے ۔ایسی صورت سے کھانا ہے بھوک لگتی ہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہم سے پوچھے بغیر کتنی نعمتیں زمین پر پیدا کر دیں پھل پیدا کر دئے،اناج پیدا کر دیئے ،گوشت پیدا کر دیا ،طرح طرح  کےکھانے بنا دئیے تو اس کا کیا مطلب بھئی ایک بچہ جو ۸۰ ،۹۰ یا ۱۰۰ سال تک زندہ رہتا ہے اس زندگی میں وہ جتنا بھی کچھ کھا تا ہے اللہ تعالیٰ اگر اس کے لئے فروٹ نہ بنائے،ساری زمین سمندر ہو جائے ، ساری زمین پتھر ہو جائے ،یا ساری زمین چلئے برف بن جائے کچھ بھی نہیں اُگے گا انسان کوکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ملے گا ،سمندر میں چلیں جائیں وہاں غذا کا انتظام ہے ، ریگستان میں چلیں جائیں وہاں غذا کا انتظام ہے،ذرا زمین کے نیچے جائیں وہاں غذا کا انتظام ہے،آسمانوںمیں چلیں جائیں وہاں غذا کا انتظام اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں سے بارش برساتا ہے ۔بارش نہ برسے گی کچھ بھی نہیں ہو گا اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اگر ایک لاکھ مرتبہ کھانے پینے سے متعلق اللہ تعالیٰ سے توقع قائم کر تا ہے تواللہ تعالیٰ وہ پوری کرتا ہے ۔اب دیکھئے اللہ تعالیٰ نے حلق بنایا ،حلق میں کھانے کی نالی بنائی ،سانس کی نالی بنائی ،اب میں کھانا کھاتا ہوں اب وہ بجائے کھانے کی نالی کے سانس کی نالی میں چلاجائے تو میرے زندہ رہنے کی توقع ٹوٹ جائے گی میں مر جاؤں گا لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا نظام ہے انسان ۸۰ ،۹۰ سال تک کھانا کھا تا رہتا ہے اور ایسا نہیں ہو تا کہ سانس کی نالی میں لقمہ چلا جائے اور سانس کی نالی بند ہو جائے اور آدمی کا دم گھٹ کر آدمی مر جائے ۔کیا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہیں ہے ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ ہمارے کھانے پینے کی توقعات کو پورا کر تا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد دیتا ہے کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ماں باپ میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو تا اولاد نہیں ہو تی ڈاکٹر کہتے ہیں نقص تو کوئی نہیں ہے پتا نہیں کیوں نہیں ہو ئی کیا یہ اولاد جو ہماری ہوتی ہے یہ ہم اللہ تعالیٰ سے توقع قائم کر تے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد دے ۔یہ توقعات اللہ ہی پوری کرتا ہے پھر یہ کیا اولاد ہماری سعادت مند اولادکواللہ تعالیٰ نے دماغ دیا اگر خدانخواستہ کسی کا بچہ دماغی طورپر ریٹئر ہوجائے ہنڈی کیمپ ہوجائے کوئی بندہ کیا کر سکتا ہے ۔اب جتنی ہماری اولادیں ہیں صحت مند اولادیں ہیں اس میں آپ اس کواس طرح نہیں کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ توقع پوری کی کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد عطا کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ توقع پوری کی کے اللہ تعالیٰ نے ہماری اولاد کو باصلاحیت بنایا ، اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ توقع پوری کی کے اللہ تعالیٰ نے ہماری اولاد کو اچھا ذہن اچھا دماغ دیا پھر وہ ہماری اولاد جوا ن ہو تی ہے تو وہ جوانی آپ جوان کر دیتے ہیں ۔ماں کے پیٹ میں بچہ ہو تا ہے ابھی دنیا میں نہیں آتااللہ تعالیٰ ماں کے سینے کو دودھ سے بھر دیتا ہے ۔بتائیے دنیا کی کون ماں ایسی ہے جس کے اندر اتنی خواہش نہیں ابھرتی کے میرے بچے کی نشوونما اچھی ہو میرے بچے کوفوڈاچھا ملے میں اپنے بچے کو دودھ پلا ؤں ۔اگر اللہ تعالیٰ ماں کے سینے میں دودھ پیدا نہ کر ے تو بچے دودھ کہاں سے پئے گے اگر آپ کہتے ہیں جی بوتل کا دودھ پی لیں گے بھئی بوتل کا دودھ پی لے گے اگر اللہ تعالیٰ گائے بھینسوں میں دودھ پیدا نہ کرے تو آپ کی اولاد کو کیسے غذا فراہم ہوگی۔آپ کی اولاد کیسے جوان ہو گی تو ان اس کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ بحیثیت والدین کے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ ہماری اولاد کو صحیح غذا ملے اور اسکی صحیح نشوونما ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہماری یہ توقعات پوری کر رہے ہیں اور تا قیامت تک توقعات پوری ہو تی رہیں گی ۔تو اب اس کا نتیجہ ہوا کہ انسان مانے یا نہ مانے ،چاہے یا نہ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ۔اللہ تعالیٰ بحیثیت رب کے اس کو وسائل فراہم کرتے ہیں اور انسان ان وسائل کے تحت کسی بھی طرح نہیں رہ سکتا بس بات اتنی سی ہے کہ محتاج ہو نا اس کی مجبوری تو ہے لیکن اسی مجبوری کو ہم مجبوری نہ سمجھیں بلکہ اپنی خوشی سے ،اپنے ارادے سے ،اپنے عمل سے ،اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا ذہن لگا لیں ۔دنیا سے توقعات توڑلیں اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ توقعات قائم کریں ۔اس سے یہ ہو گا کہ مخلوق کا خالق سے ایسا رشتہ جوڑ جائے گا کہ مخلوق کسی بھی حال میں خالق کوبھلانہیں سکے گی ۔اور جب مخلوق خالق کو نہیں بھلا سکے گی تو اللہ تعالیٰ اتنا رحیم کریم ہے ،ستار العیوب ہے ،غفار الذنوب ہے ،لوگوں کے کام کر تے ہیں ،لوگوں کے عیب چھپاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو مہربان ہے اور مہربان ہی رہے گا ۔تو آج کی اس مجلس میں حضور قلندر بابا اولیاء کا عرس ہو رہا ہے یہ ا سلئے بزرگوں کے عرس ہو تے ہیں یہ بزرگ جو ہیں اصل میں اللہ کے ہاتھ ہیں ، اللہ کے پیر ہیں،اللہ کی نشانیاں ہیں ،رسول اللہ  ﷺ کی وارث ہیں ،یہ لوگ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ  ﷺ کے روحانی مشن میں رسول اللہ  ﷺ کی ان نعمتوںکو جو اللہ نے رسول اللہ پر پوری فرمادی ہیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اے انسان تیری حیثیت اللہ کی محتاجی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔اللہ چاہتا ہے تم پیدا ہو جاؤتو پیدا ہو گئے،اللہ چاہتا ہے تم جوان ہو جاؤ تو جوان ہو جاؤ گے،اللہ چاہتا ہے تم روانہ ہو جاؤ تو تم روانہ ہو جاؤ گے،اور جب تک اللہ تمہیں اس دنیا میں زندہ رکھنا چاہتا ہے مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ …اور جب اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا سے اٹھا لینا چاہتا ہے تو ایک سیکنٖڈ کے لئے بھی اس دنیا میں نہیں رہ سکتا ۔ معزز خواتین وحضرات میں نے آپ حضرات کے سامنے معروضات پیش کیں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے ۔میری دعاہے میںنے جو کچھ عرض کیا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور آپ کے اندر اس کو قبول کر نے کی جو صلاحیت ہے اس صلاحیت کوبیداراور متحرک فرمائے ۔آج کا دن بڑا مبارک د ن ہے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا اصل تعارف یہ ہے کہ جس طرح دنیامیں بہت سارے عہدے ہو تے ہیں ڈائریکٹر ،ڈپٹی ڈائر یکٹر ،سیکریٹری،انڈرس سیکریٹری ، وزیر ، وزیراعلیٰ ، وزیر اعظم اسی طرح اللہ کا ایک نظام ہے جس کو تکوینی نظام کہاجاتا ہے وہاں وہ پورا کا پورا سسٹم ہے اور اصل یہ ہے کہ وہاںکا عکس جو ہے وہ زمین پر قائم ہے اور اس سلسلے میں یہ جو تکوینی عہدے ہو تے ہیں یہ رسول اللہ  ﷺ کے براہ راست ماتحت کہاجاتے ہیں کیونکہ اب جیسے اس کے شعبے ہیں ابرار ، ،اخیار،اوتار،مقیبات،  مجائبہ،صاحب خدمت ،مخدوم شاہ ولات،غوث، قطب، ولی،قطب الاکبار،قطب ارشاد،قطب تقویم،قطب تفہیم ،قطب تعلیم ،ابدال،کوچک ابدال…الحمدا اللہ ہم حضور قلندر باباا ولیاءؒ کی اولاد نہایت خوش بخت ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اوربحیثیت وارث رسول اللہ  ﷺ کے قلندر بابا ا ولیاءؒ تکوینی اعتبار سے سب سے بڑے عہدے پر فائض ہیں اور یہ ہماری بڑی نصیب کی بات ہے کہ ہم نے بہت بڑے عالم و فاضل کی اولاد ہیں۔سلسلے کی حیثیت سے وہ اپنے باپ کی اولاد ہی ہو تی ہے تو ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم اپنے باپ کے ورثے کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کریں کوشش کریں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ارکان اسلام کی پابندی کے ساتھ ساتھ نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃکے ساتھ ساتھ مراقبہ کریں،  مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جو رسول اللہ  ﷺ نے غار حرا میں سات سال تک کیا ہے ۔مراقبہ کا مطلب یہ ہے غوروفکر کرنا اگر ایک آدمی یہ غوروفکر کرتا ہے جیسے میں نے آپ سے عرض کیا کہ سارے سمندر روشنائی بن جائیں سارے درخت قلم بن جائیں اب اس میں جتنے بھی گہرائی میں تفکر ہو رہا ہے ۔یہ سب کا سب مراقبہ ہے ۔آپ چاند پر غور کریں کہ چاند کی روشنی کہا ںسے آرہی ہے یہ بھی مراقبہ ہے ۔مراقبے کا مطلب ہے غوروفکر کرنا concentration کسی چیز پر concentrate کرنا جوہے وہ مراقبہ ہے ۔تو اب یہ جو سلسلہ عظیمیہ ہے اس میں آپ کو بتا یا جاتا ہے کہ آپ مراقبہ کریں اور مراقبے کے سلسلے میں قواعد و ضوابط یاد کریں  الحمد اللہ …اللہ تعالیٰ ان کے دل کو منور کیا ہے اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ ان کے اوپر حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا منشاء ہے اللہ تعالیٰ ا ن کے دماغ میں روشنی بھر دی ہیں۔آپ سب حضرات ان کے ساتھ مل کر سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے روحانی مشن کو آگے بڑھائیں اور جو بات آپ کی سمجھ میں آئے آپ کے آنے والے بھائیوں بہنوں کو بتائیں اور جو بات سمجھ میں نہ آئے آپ اس کوڈسکس کر یں،بیٹھیں تقریبات کریں میلاد النبی  ﷺ میں خواتین کواکٹھا کریں ۔ اپنے بھائیوں کو اکٹھا کریںاور وہاں حضور ﷺکے وارث عظیم برخیاء حضور قلندر بابااولیاؒء کی تعلیمات پرتوجہ فرمائیں انشا اللہ …اللہ تعالیٰ ہماری اس خدمت کو قبول فرمائے گا ۔اور ہمیں دین ودنیا کی بے شمار نعمتیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا ۔ہاں بھئی …اعوذ بااللہ…بسم اللہ…قل یا ایھاالکفرون…قل واللہ احد …بسم اللہ…قل ھواللہ احد…بسم اللہ…قل ھواللہ احد…بسم اللہ …قل اعوذ ابرب الفلق…بسم اللہ…قل عوذ بارب الناس…الحمد اللہ رب العالمین…بسم اللہ…انا اللہ وملائکتہ یصلون…والحمد للہ رب العالمین…یا اللہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اس کا ثواب آقا فیضان مدینہ خاتم النبیاء محمد رسول اللہ  ﷺکی بارگاہ اقدس میں قبو ل فرمایا اللہ اس کا ثواب اہل بیت،صحابہ اکرام،خلفائے راشدین،اولیاء اللہ کی خدمت میں اس کا ثواب ہو ۔یا اللہ ان تمام بزرگوں کے طفیل میں ہمارے والدین کو ہمارے عزیزاقارب جو اس دنیامیں نہیں ہیں ان کو بھی اس کا ثواب پہنچائے اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہوںکو معاف کریں اور ا ن کی مغفرت کرے ،یا اللہ …اس مجلس میں جتنی بھی خواتین و حضرات اور بچے شریک ہوئے ہیں یا اللہ ان کی شرکت کو قبول فرما،یا اللہ…ہم نے جو کچھ سنا ہے اس پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ،یا اللہ ہمیں توفیق دے کے ہم اپنی تمام توقعات صرف اور صرف آپ کے ساتھ وابستہ کریں اورمخلوق کو مخلوق کی طرح سمجھیں،یا اللہ ہمیں اپنے والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرما،یا اللہ ان بڑوںکوبزرگوں کو اولاد پرچھوٹوں پر مشفق بنا نا ،یا اللہ ہماری اولاد کو سعادت مند بنا دے ،یا اللہ ہماری اولادکے روز گار کے جو مسائل ہیں ان میں برکت عطا فرما ،یا اللہ بچوں کی شادی کے مسائل اس میں در پیش ہیں ان میں ہمیں آسانی عطا فرما اور ہمارے بچوں کے بچیوں کے مستقبل روشن فرما،یا اللہ ہماری اولاد کو علم وہنر سے آراستہ فرما ،یا اللہ ہمیں انسان بنا دے ،یا اللہ ہماری بہت سی صلاحیتیں بیدار ہیں ،یا اللہ ہمیں رسول اللہ  ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ،یا اللہ ہمیں اپنے حبیب محمد  ﷺکی محبت و عشق عطا فرما ، یااللہ ہر مسلمان کو رسول اللہ  ﷺ کی زیارت سے مشرف فرما،  یا اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ سارے کام کریں جو آپ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، یااللہ ہمیں تمام کاموں سے محفوظ فرما جن سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتے ہیں اور شیطان خوش ہو تا ،یا اللہ ہمیں شیطانی وسوسے سے محفوظ فرما ،اے اللہ ہمارے اندر یقین کی دنیا کو روشن کر دے، یا اللہ ہمیں روحانی صلاحیتوں سے بیدار کرنے کی مراقبہ کرنے کی توفیق عطا فرما،  یا اللہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کے مسائل مشکلات درپیش ہیں، یا اللہ اپنے حبیب محمد رسول اللہ  ﷺ اور ان کے وارث اولیاء اللہ کے  طفیل سے ہمارے لئے مسائل آسان کردے ،یا اللہ جو بےروزگارہیں انہیں روزگار عطا فرما ،یا اللہ جب بندوں کو آپ نے اپنی رحمت سے روزگار عطا فرمایا ہے جن کے پاس کاروبار ہو یا اللہ ان کے کاروباری مشکلات دور فرما ،یا اللہ ان کے کاروبار میں برکت عطا فرما ،یا اللہ جس گھر میں یہ مجلس منعقد ہو ئی صاحب کو اور ان سے متعلق جتنے بھی لوگ ہیں اس مجلس میں نامی گرامی قدرتعاون کیا ہے ،مدد کی ہے یا اللہ ان سب کے تعاون کو مددکو اپنے رسول محمد رسول اللہ  ﷺ کے توسط سے قبول فرما،یا اللہ ہمیں وہ زندگی عطا فرما جو آپ کو پسند ہو ،ہمیں وہ زندگی عطا فرما جو تیرے محبوب محمد  ﷺ کی ہے،یا اللہ ہمارے چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف فرما،یا اللہ ہمارے غلطی کو معاف فرما،یا اللہ دانستہ، غیر دانستہ جو بھی ہم سے خطائیں ہو ئیں ہیں یا اللہ اوپر سے تقاضے بھی ہو تے ہیں یا اللہ ہم بہت کمزور ہیں ،لاچار ہیں یا اللہ ہماری غلطیوں کو معاف فرمااور ہماری کمزوری سامنے رکھ کر اپنی نعمتیں ہمارے اوپر نازل فرما۔۔حاضرین مجلس میںطرف سے السلام وعلیکم  اور میری دعائیں آپ سب کے حق میں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔آمین آپ سب حضرات سے درخواست ہے خاص کہ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری آخرت اچھی فرمائے اور جس مشن کو لیکر چلا ہوںاللہ تعالیٰ اس میں کامیابی عطا فرمائے اور مرنے کے بعدرسول اللہﷺ کے دربار میں جب میری حاضری ہوتو اللہ تعالیٰ وہاں سرخرو فرما ئے ۔آپ سب حضرات کی تشریف آوری کابہت بہت شکریہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے ۔آپکا مستقبل روشن ہو ،آپ کی اولادکو صحت تندوستی علم ہنرعطا فرمائے ، میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی ہو،میاں بیوی ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ رہیں۔محبت یہ ساری کائنات محبت کے علاوہ کچھ نہیں ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔اختتام

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس