Topics
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
لا
اقسم ھذا لبلد …
عزیزان
گرا می قدر، محترم دو ستو ں ،عظیمی بچیوں اور بچوں اورمحترم بزرگوں السلام و علیکم
، میرے عظیمی بچے میرا تعارف کر وا رہے
تھے آپ نے پو راتعارف سنا اس تعارف میں سوائے تعریف اور توصیف کے کچھ نہیں تھا ، جہاں تک تعریف اور تو صیف کا تعلق ہے بلاشبہ
انسان کی کمزروی ہے کہ تعریف سن کر خوش ہو تا ہے اور جب کو ئی ایسی بات کہ آدمی
اپنی تعریف سن کر خوش نہ ہو یہ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور توصیف بیان
کی جا تی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو تے ہیں اور بندوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی
طرف سے منتقل ہو جائے گی لیکن بہر حال مجھے تو کچھ اچھا نہیں لگا پتا نہیں کیا کیا
کہتے تھے ہو نے والی بات، نہ ہو نے والی بات میں معذرت کے ساتھ محبت کے ساتھ آپ
کی خدمت میں حا ضر ہو گیا ہوں ۔یہ تقریب حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کے یوم وصال کے
سلسلے میں منعقد کی جارہی ہے ۔حضور قلندر با بااولیا ء ؒ ستا ئیس جنوری 79 19میں
اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ یہ پرو گرام منعقد ہو
رہے ہیں پہلے یہ پرو گرام کر اچی تک محدود تھا۔ پھر الحمد اللہ حضور قلندر
بابااولیا ء ؒ کا نام نا می اسم گرا می
ملکوں شہروں سے نکل کر دور درازتک اس کو رفعت بخشی اور اب یہ عرس کی تقریبات دنیا
کے تقریبا سارے ممالک میں منعقد کی جا تی ہے اور اس کا منشا ءیہ ہوتا ہے حضور
قلندر با بااولیا ء ؒ کی تعلیمات کو اجتما عی طور پر لو گوں تک پہنچا دیا جائے اس
میں ہمیں ا للہ تعالیٰ کا انعام اور شکر ہے کہ بڑی کا میابی ہو ئی اور یہ اب سلسلہ
عظییمہ اس طرح متعارف ہو گیا ہے جیسے دوسرے سلسلے مثلا،نقشبندیہ، چشتیہ ،سہروردیہ
،قادریہ،یہ سارے سلا سل ایک ہی ہیں صرف را ستے جداگا نہ ہیں لیکن سلسلے سارے ہی
ایک ہیں۔ اب مثلا ً یہ آپ کا ایک حیدرآباد شہر ہے ا ب اس شہر میں داخل ہو نے کے
لئے چھ سات سڑکیں تو ہو نگی کو ئی ادھر سے آرہی ہو گی کو ئی کراچی سے آرہی ہو گی
کوئی تو سڑکیں الگ الگ ہو نے سے منزل کا تعین جو ہے وہ ایک ہی ہو تا ہے منزل بدل
نہیں جا تی جس را ستے سے بھی آپ جا ئیں ظاہر ہے شہر میں پہنچ جائیں گے اسی صورت
سے یہ سلا سل جو ہیں اللہ اور اللہ کے رسول تک پہنچا نے کا ایک را ستہ ہے تو مختلف
لوگوں نے مختلف حا لا ت کے تحت زمانے کی تبدیلی کے تحت یہ را ستے معین کئے اب
دیکھئے آج سے بائیس سال پہلے اتنا شعور بالغ نہیں تھا جتنا آج نہیں ہمارے زمانے
میں سترہ اٹھا رہ سال کے بچے اگر بیٹھک میں بزرگ بات کر رہے ہو تھے تو انہیں سلام
کر نے کے لئے بلایا جا تا تھا وہ شر ما ئے شر ما ئے جا تے تھے السلام و علیکم کہہ کر بیٹھ جاتے تھے جلدی سے بھا گ جا تے تھے اب
صورت یہ ہے کہ پانچ سال کا بچہ آپ سے نا صرف یہ گفتگو کر تا ہے ایسے ایسے سوال کر
تا ہے کہ آپ کو جواب بھی نہیں آتا ہو، کمپیوٹر کی گیم کھیلتا ہے اور بہت سوال کر
تا ہے جو آدمی کہتا ہے یہ کس قسم کے سوال ہیں بھئی مطلب یہ ہے کہ زمانہ تبدیل
ہورہا ہے ۔ زمانے کی ایک خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ ٹھہرتا نہیں ہے زمانے کا
مطلب ہی یہ ہے کہ نہ ٹہرنے والی چیز مثلا ً حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک
اگر آپ زمانے کی تعریف کر یں تو آپ اس کا علاوہ کچھ نہیں کہے گی کہ زمانے کا
مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر ہو تا رہے اس میں تبدیلی ہو تی رہے۔ نئی نئی ایجا دات
سامنے آتی ہیں شعور میں ایسی بنیادی تبدیلیاں پیداہوتی ہیں کہ جب اس شعور کو
پچھلے شعور کو اگلے شعور کو بیٹھ کر سو چا جا ئے ۔ تو آدمی تو حیران اور گم ہے
مثلا ً پہلے کا آدمی جو یہاں سے انتقال فرما گئے ہمارے بزرگ یا ہمارے بچے یا
نوجوان بچے بھی اللہ میاں بلا لیتا ہے اگر انہیں یہاں لا یا جا ئے سو سال پہلے کے
بچوں کو وہ آپ کو یقین کر یں وہ دنیا کے حا لا ت دیکھ کر وہ بد حواس ہو جا ئیں گے
۔ یہ کیسا تیز رفتار زمانہ ہے اور اس زما نے کے آدمیوںکو اگر آپ اسٹون ایج میں
لے جا ئیں وہاں وہ حیران ہو جائیں گے یہ کس قسم کا زمانہ ہے بھئی ہر چیز پتھرکی ہے
برتن بھی پتھر کا اوزار بھی پتھر کے سو نا، لیٹنا ،بیٹھنا بھی پتھر کا گھر بھی
،پتھر کے فرش بھی ،پتھر کے سل بٹا بھی ،پتھر کاتوا بھی ، پتھر کا تو یہ ایک زمانے
کا تغیر ہے ۔تغیر کے ساتھ ساتھ آدمی کا شعور ہی متغیر نہیں ہوا اس شعور کو
سنبھالنے کے لئے اس شعور میں سکت پیدا کر نے کے لئے مثلا ً بات یہ ہے کہ حضرت آدم
علیہ السلام سے لیکر سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃوالسلام تک جتنے پیغمبران علیہ
السلام تشریف لائے ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جا تی ہے جب ہم اس
تعلیمات کو دیکھتے ہیں اس پر غو رو فکر کر تے ہیں تو ہمیں وہاں کو ئی نئی بات نہیں
ملتی بات ایک ہی نظر آتی ہے اللہ وحدہ لا شریک ہے اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہ
کی جا ئے بت پر ستی اللہ تعالیٰ کو ناپسندہو تی ہے، جھوٹ نہیں بو لو، کسی کاحق
نہیں ما رو، والدین کا احترا م کرو یعنی کسی بھی پیغمبر کی تعلیمات کو جب آپ
پڑھیں گے غور کر یں گے تو ہر پیغمبر نے ایک ہی بات کی ہے سوال یہ ہے کہ جب ایک
پیغمبر نے ایک ہی بات کی ہے تو ایک لاکھ چو بیس ہزار پیغمبر اللہ تعا لیٰ نے کیوں
بھیجے ؟سمجھنے کی بات کہ ہر پیغمبر نے ایک ہی بات کی ہے اللہ واحدہ لا شریک بت پر
ستی شرک ہے اور ایسا شریک ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کوکبھی معاف نہیں کر تا ساتھ ساتھ جو
مواحد ہے اللہ پر ست ہے جوبت پرستی سے نفرت کرتے ہیں ان کے لئے جو قاعدے اور ضا
بطے بنائے تو ہر پیغمبر نے یہ کہا نماز پڑھو ہر پیغمبر نے یہ بات کہی کہ علو م
سیکھو،ہر پیغمبر نے یہ کہا کسی کا حق نہیں ما رو پڑوسیوں کا آدب کرو احترام کرو ساتھ
ساتھ یہ کہ آدم زاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ علوم سیکھے انسانیت کے دائرے میں داخل
ہو جا ئے ایک ہی بات سب نے کہی لیکن ساتھ ساتھ جب ہم حضرت نوح علیہ السلام کی
تعلیمات کامطا لعہ کر تے ہیں جن کو آدم ثانی کہتے ہیں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام
کی جو تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں،حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو پڑھتے
ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو پڑھتے ہیں اور پھر سیدنا حضور علیہ
الصلوٰ ۃ والسلام کی تعلیمات کا مطا لعہ کر تے ہیں تو وہاں آپ کوایک بات نظر آئے
گی وہ یہ ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے دور کے مطا بق اللہ کا پیغام پہنچا یا ہے جیسے
جیسے انسانی شعور با لغ ہو تا چلا گیا اسی مناسبت سے پیغمبروں نے اللہ کی با توں
میں انہی باتوں میں جو مخصوص اللہ کی باتوں کو جومفہوم ہے انہی کو کھول کھول کر
بیان کر نا شروع کر دیا ۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات ہیں حضرت عیسیٰ
علیہ ا لسلام کی تعلیمات کوآپ پڑھیں بائبل پڑھیں اس میں ہر بات حضرت عیسیٰ علیہ
السلام مثال دے کر بیان کر تے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا جب آپ
مطا لعہ کریں گے تو وہاں ایک ہی بات ہو گی ایک قوم ہے یہودی قوم وہ بار بار اپنے
وعدے سے خلاف فرضی کر تی ہے بار بار کہتی ہے ہم ایسا کر یں گے بار با ر کہتی ہے ہم
ایسا نہیں کریں گے اب آپ نے کہاخدا لڑا ئی ہے تو خود جا کر لڑر لو جب فتح ہو گی
ہمیں بلا لینا ہم آجائیں گے تو وہ حضرت مو سیٰ علیہ ا لسلام کی تعلیمات کا جو خلاصہ ہے وہ یہی ہے کہ ایک نا فرمان ضدی قوم
اس طرح راہ راست پر لا یا جائے اس کے اندر اللہ کی ذات کا اخلاص منتقل ہو جا ئے ۔
اب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپ نے بر ملا اعلان فرمایا میں کو ئی نئی بات نہیں کہہ
رہا ہوں جو میرے بھا ئی پیغمبروں نے جو بات کہی وہی میں کہہ رہا ہوں لیکن جب رسول
اللہ ﷺ کی تعلیمات کا مطا لعہ فرما تے ہیں
تو ان کی تعلیمات میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عفو درگزر ہے معافی ہے جب اللہ کا اور
اللہ کے معاملات کا تعلق ہو تا ہے تو حضور پاک
ﷺ اپنی ذات کی نفی کر تے ہیں ۔ ہر عمل زندگی کے ہرکام میں جب رسول
اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطا لعہ کیا جاتا
ہے تو ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ حضور پاک
ﷺ کا ہر عمل اللہ کی معرفت ہے ان کا سوچنا ان کا کھا نا ان کا پینا ان کا
جاگنا حضورنے فر مایا کہ میرا مرنامیرا جینا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ،میری عبا دت
اللہ کے ہاتھ میں ہے میری تبلیغ اللہ کے ہاتھ میں ہے کیا مطلب ہوا کہ زمانہ متغیر
رہا آدم کا جو شعور تھا آج کا جو شعور ہے اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ ہے جیسے
جیسے شعوری ارتقاء ہوا اسی منا سبت سے تعلیمات میں بھی نئی نئی چیزیں نئی نئی مثا
لیں نئی نئی ایجا دا ت کا تذکر ہ ہو تا رہا مثلا ً اب حضرت سلیمان علیہ السلام کا
ذکر آپ پڑھیں وہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ اتنا شعور بڑھ گیا کہ حضرت سلیما ن علیہ ا
لسلام نے جنات پر حکمرا نی کی ،ہواؤں پر حکمراں تھے وہ ان کے دربا ر میں جس طرح
انسان بیٹھتے تھے ،جنات بھی بیٹھتے تھے حضرت دا ؤد علیہ ا لسلام کا جب ذکر کرتے
ہیں اس زمانے میں لوہے کا زمانہ جیسے پتھر اسٹون کا زمانہ تھا اس طرح آئرن ایج کا بھی زمانہ گزرا ہے لو ہے کا اس زمانے میں
دیکھئے حضرت دا ؤدعلیہ ا لسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک صلاحیت عطا کی کہ ان کے ہا
تھوں میں لیزر شعاعیں بھر دی موٹے سے موٹا لو ہا لیتے تھے اس کو اسے کر تے تھے اس
کو مرو ڑ توڑ کر زنجیریں بنا کر تلواریں بناتے تھے ان کو کوٹنے کی ضرورت نہیں پڑتی
تھی ان کے ہا تھوں میں اللہ تعالیٰ نے
ایسی شعاعیں دی ہیں کہ وہ لوہے کو اپنے ہاتھوں سے نرم کرلیتے تھے تو وہ لو ہے کا
زمانہ بن گیا جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا ہے زمانہ ترقی اور تر قی کرنا بھی چاہئے
اب دیکھئے نہ میرے دو بیٹے ہیں الحمد اللہ آپ کے بھی بیٹے ہیں ان کے بھی بیٹے ہیں
اور جب وہ بیٹے صاحب پیدا ہو ئے جبب وہ پیدا ہوا بچہ تو اس کا جو شعور ہے وہ سو
سال پہلے سے زیا دہ ہے یا کم ہے یعنی سو سال پہلے ایک بچہ پیدا ہوا اور سو سال کے
بعد ایک بچہ پیدا ہواتو وہ جو بچہ پیدا ہوا وہ آٹومیٹک سو سال کا شعور لیکر
پیداہوا ہے جب وہ یہاں آیا تو اس نے کیا دیکھا کہ ایک اماں ہے اس کے ایک ابا ہے
تو سو سال کا شعور بچے کا تو سو سال کا شعور اس کے باپ کا، سو سال کا شعور اس کی
والدہ کا ،سو سال کا شعور اس کے ماحول کا اب بچے کا شعور کتنا بنا چا ر سو سال بنا
اب وہ چار سو سال کے شعور میں اگر آپ آدم علیہ السلام کی با تیں کر یں مثلا ً
آدم علیہ السلام جڑیں کھا تے تھے ، آدم علیہ السلام پتے کھا تے تھے، آدم علیہ
السلام ستر پو شی کے لئے اس وقت کپڑا موجود نہیں تھا پتوں کا استعمال تھا تو وہ
چار سو سال شعوروالا بچہ کبھی آدم کے زمانے کو قبول نہیں کر ے گا یہی آج کے دور
میں ہے آج کا بچہ جو سائنسی دور کا بچہ ہے اسے آپ کہیں کہ وہ ہمارے یہاں مسجد
میں مولوی صاحب بات کر رہے تھے تو وہ بتا رہے تھے زلزلہ کس طرح آتا ہے توا نہوں
نے کہا کہ زمین جو ہے نہ پانی کے اوپر ہے پانی کے اوپر کس طرح ہے زمین کے اوپر ایک
تختہ ہے اس تختے کے اوپر ایک بیل کھڑا ہے اس بیل کے دو سنگ ہیں اس کے ایک سینگ پر دنیاہے تو پتا نہیں کب سے بچا رہ کھڑا
ہوا ہے بیل دنیا کو ایک سینگ پر لئے ہو ئے جب وہ تھک جا تا ہے تو اپنی گر دن یوں
کر کے ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر دنیا لیتا ہے جب ایک سینگ سے دو سرے سینگ پر دنیا
جا تی ہے تو اس سے زلزلہ آتا ہے ۔ وہ ہمارا چھوٹا بچہ ہے بہت ہی میرا خیال چار
سال کا ہو گا وہ میرے پاس بھا گا بھا گا آیا کہنے لگا ابا ابادیکھو دیکھو یہ
مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں اس نے تو لفظ
بھی برے استعمال کئے مولوی صاحب کیا بکواس کر رہے ہیں تو میں نے کہا اس طرح نہیں
کہتے تو کہنے لگا دیکھو تو سہی بھلا ایک سینگ
پر کیسے دنیا آسکتی ہے اور زلزلہ تو یوں آتا ہے یوں آتا ہے اس نے پڑھا
ہوا ہو گاکمپیوٹر میں دیکھ لیا ہوگا کمپیوٹر میں بیٹھا ہو اہو گا اگر وہ بیل والی
بات بچے کو کہی جا ئے ۔آپ یقین کر یں وہ مذاق اڑا تے ہیں کیوں مذاق اڑا تے ہیں
کیوں مذاق اڑاتے ہیں جی ان کا شعوربڑھ گیا ہے ان کا شعور اب بیل والا نہیں رہا ان
کا شعور سائنسی ہو گیاہے وہ شعور ہو گیا جس شعور سے نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں جہاز
بنتے ہیں کمپیوٹر بنتے ہیں ریڈیو بنتے ہیں لا سلکی نظام قائم ہو تا ہے دلوں کے
گردوں کے آپریشن ہو تے ہیں ٹرا نسفر ،وہ کیسے بچہ اس بات کو تسلیم کر لے گا کہ
ایک بیل کھڑا ہے وہ بیل بھی اس پر پا نی کے تختے پر کھڑا ہے تو یہ جو شعور جو ہے
یہ برا بر بات ہے جس طرح پیغمبرا ن علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اپنے اپنے زمانے کے مطا
بق دنیا میں تشریف لاتے رہے اور انہوں نے انسانی ذہنی ارتقاء کی بنیا دپر اللہ
کاپیغام پہنچا یا ان کو بتا یا کہ اللہ کیا ہے ۔ اب دیکھئے آج کے زمانے میں اب
آپ کہیں گے اللہ نے چا ند بنا یا تو ہم جب بچے تھے ہمیں تو اتنا ہی پتا ہے اللہ
نے چاند بنایا بس ختم ہو گیا ہماری دادی اماں کہا کر تی تھی اللہ بخشے کہ دیکھو وہ
چاند میں نشان ہے ایک ہاں جی دیکھو غور سے دیکھو بوڑھیا کیا کر رہی ہے ہمیں یقین
تھا کہ صاحب بوڑھیا کچھ کر رہی ہے آج کے بچے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ چاند پر چاندکہاں سے نکلتا ہے کہاں غرو
ب ہو تا ہے۔چا ند کی کیا حیثیت ہے چا ند کے اندر کیا ہے سورج کیاہے چا ند کو کہاں
سے روشنی ملتی ہے تو جس طرح یہ شعوری ارتقاء ہو تا رہتا ہے اسی مناسبت سے اللہ
تعالیٰ ایسے بندے پیدا کر تا رہتا ہے جو
شعوری ساکت کے مطا بق اللہ کی مخلوق کی رہنما ئی کر تے ہیں سلا سل پہلے بھی ہیں دو
سو سلاسل کا تذکر ہ ہے ساری دنیا میں دو سو سلسلے ہیں ہمارے یہاں چار مشہور ہیں ان
لوگوں کے جب ہم کا رنا مے پڑھتے ہیں تو حیرت ہو جا تی ہے کہ اس زمانے میں انہوں نے
کیسی کیسی اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے قربانیاں دے کر اسلام پھیلا یا اس زمانے
میں کیوں کہ شعور میں ارتقاء آگیا ہے شعور با لغ ہونے کے قریب قریب ہے تو اب جس
طرح پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ بھیجتے رہے جس طرح دور کے مطابق اللہ
کا پیغام پہنچا یا اب پیغمبری تو ختم ہو گئی رسول اللہ ﷺ خاتم النیین اللہ کا مشن توروک نہیں سکتا
پیغمبری ختم ہو گئی مشن تو چل رہا ہے نا ،
اب پیغمبروں کے جو وارث اولیا ء اللہ ہیں ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنا مشن چلا
یا یا پیغمبرروں نے اپنی ڈیوٹی اپنے شاگردوں کے سپر د کی، اب اس زمانے میں اگر
ہزار سال پہلے کی جو تعلیمات ہیں رو حا نی ان کو اگر پیش کیا جا ئے تو یہ تو سمجھ
میں نہیں آئے گا، ایک زمانے کے حساب سے تعلیمات وہی ہو نی چا ہئے جتنی ہماری
شعوری ساکت ہے جتنی ہماری شعور ی استعداد ہے اور ہماری شعور میں ارتقاء ہوچکا ہے
اس ارتقاء کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیدنا حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کی ڈیوٹی لگا ئی
کہ اب تمہیں اللہ کا پیغام سائنسی شعور کے مطا بق پیش کر نا ہے تا کہ زیادہ سے
زیادہ لوگ اللہ کی اللہ کے رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے آگا ہی حاصل کرکے اللہ کی
قربت حاصل کریں۔ سلسلہ عظیمیہ نیا سلسلہ
ہے بہت لوگ سوال کر تے ہیں کہ بھئی پہلے چار سلسلے ہیں تو مزید اس سلسلے کی کیا
ضرورت، ضرورت کی بات نہیں ہے بات یہ ہے کہ
جب انسانی شعور کے مطا بق تعلیمات کوپیش کر نا ہے رسول اللہ ﷺکی تو انہی تعلیمات کو جو قرآن اور حدیث میں
ہے سائنسی بنیادوں پر پیش کر نا ہوگا اگر آپ نے ان تعلیمات کو بیل کے حساب سے پیش
کیا تو آج کا نو جوان اس کو قبول نہیں کر تا حضور قلندر بابااولیا ء ؒ سیدناعلیہ
الصلوٰ ۃوالسلام کے علم لدنی کے وارث ہیں
حضور قلندر با با اولیا ؒ کے ڈیوٹی لگی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو سائنسی نقطہ نظر سے لوگوں کے سامنے
پیش کر یں تا کہ لوگ اپنی شعور استعداد کے مطابق ان تعلیمات کو قبول کر کے اللہ سے
قریب ہو جا ئیں ہر سال حضور قلندر با با اولیا ء ؒ کا جو یوم وصال منا یا جا تا ہے
اس میں بھی اسی بات کی کو شش کی جا تی ہے کہ انسانی شعوری ارتقاء کی بنیا دپر ہمیں
یہ سوچنا ہے کہ اللہ سے ہمارا کیا رشتہ ہے اللہ سے ہمارا رشتہ اب شروع سے آپ
دیکھئے ہمارا رشتہ اللہ سے اس طرح قائم ہے ۔ کہ ہم اللہ کی مر ضی کے بغیر پید ا
نہیں ہو سکتے کہ تو بعد کی بات ہے نہ ہم پیدا ہو گئے ہمیں عقل آگئی شعور آگیا
ہمارے پاس پیسے آگئے ہمارا گھر بن گیا ہم وزیر بن گئے کبیر بن گئے امیر بن گئے
غریب بن گئے فقیر بن گئے عقلمند بن گئے،بے وقوف بن گئے پا گل بن گئے ۔ جی اب
پیداہو نے میں آپ کو کیا اختیار ہے بتائیں کسی کو کو ئی اختیار حاصل ہے ؟کسی کو
پتا نہیں کو ئی چما ر کے یہاں پیدا ہو جا ئے، کسی کو پتا نہیں کو ئی بھنگی کے یہاں
پیدا ہو جا ئے ،کسی کو پتا نہیں کو ئی پٹھان کے یہاں پیدا ہو جا ئے ،کسی کو پتا
نہیں کو ئی سید کے یہاں پیدا ہو جا ئے کچھ پتا نہیں اگر پتا ہے تو بتا ؤ بھائی
…؟ماشا اللہ اتنے سارے لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں کسی کو اپنی پیدا ئش سے پہلے اس بات کا
علم تھا کہ میں کہاں پیدا ہو ں گا ؟کیوں ذرا زور سے بولوں نہ مجھے پتا چلے کہ آپ
کی سمجھ میں بات آرہی ہے پتا تھا ؟اچھا آپ پیدا ہو ئے کسی بچے کویہ پیدا ہو نے
کے بعد یہ پتا تھا کہ میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا بھئی وزیر بنوں گا، امیر بنوں گا
،فقیر بنوں گا حالات اچھے ہونگے خراب ہونگے میں پہلوان بنوں گا کمزور بنوں گا ۔پتا
تھاکسی کا کسی کو اس بات کا علم تھا جب وہ پیداہوا کہ میں رو ٹی کہاں سے کھاؤں گا
اسے پتا تھا جب میں پیدا ہو ں گا تو میری اماں کا سینہ جو ہے، اللہ میاں دودھ سے بھر دے گا ۔اور میں خوب
سسکاریاں لیکر خوب دوودھ پئیوں گا ۔اچھا یہ پتا تھا آپ بڑی ہونگے یا بچپن میں ہی
انتقال فرما جا ئیں گے ۔اب بتا ئیے اب ہم سہانپور میں پیدا ہوئے ، حضور قلندربابااولیاؒ سکندر آباد میں پیدا ہو
ئے پاکستان بن گیا کہاںپاکستان، کہاں ہندو ستان، میں صادق آباد میں، پہلی میری
سکونت ہو ئی وہ ابا جی آئے تھے کسی زمانے میں وہاں انتظام کر گئے تھے۔ حضور قلندر
بابااولیا ء ؒ جب پاکستان شریف لائے تو
روالپنڈی میں جا کر سیٹ ہو گئے کچھ ایسے حالا ت بنے کہ حضور قلندر بابااولیا ء ؒ
کرا چی تشریف لے آئے ڈان میں ایڈ یٹر ہو گئے میرے کچھ ایسے حالات بنے کہ میں صدق
آباد سے سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کر کرا چی آگیا پھر کرا چی میں ایسے حالات بنے کہ ان
سے ملاقات ہو گئی تو ہزاروں لا کھوں آدمی سے ملا قات ہو تی ہے کو ئی تقرب تھو ڑی
ہو جا تا ہے کہ عاشق ماشق ہو جا تے ہیں ۔وہ ہمیں پسند آگئے ہم انہیں پسند آگئے
تو تعلیمات کا دور شروع ہو گیا سارا خاندان مخالف ہو گیا کہ بھئی میں ایک بات کہتا
تھا بھئی جب میں سنیما دیکھنے جا تا ہوں تو کو ئی نہیں منع کر تے ہیں بھئی تو
سنیما دیکھتا ہے خبر دار تو ہمارے یہاں آئے نہیں اب میں نے اللہ کے بندے کا دامن
پکڑ لیا ہے اب مجھے بھی وہ پسند آگئے ہیں توتمہیں یہ ہے کہ اختلا ف پیدا ہو گئے
باوجود شدید اختلاف کے حضور قلندربابااولیا ء ؒکی جو غلا می کا جو پٹاگلے میں ہے
اور آج میں آپ کے سامنے ہوں کیا جب میں پیدا ہوا تھا جس دن، اس دن مجھے پتا تھا
کہ پا کستان بنے گا مجھے یہ پتا تھا کہ میں کراچی میں بھی آونگامیرے پیرومر شد
بھی کراچی میں ہو نگے اور ان سے کو ئی ایسا واقعہ یا ذریعہ نکلے گا کہ ان سے ملا
قات ہو جائے گی پھر ایسا وہ مجھ سے محبت فرمانے لگے گے اور سولہ سال شب رو ز ان کی
خدمت میں حاضری با دشا ہی ہو جائے گی تو اس سلسلے میں ہر بندہ یہی کہے گا کہ ہمیں
کچھ پتا نہیں کسی پیدا ہو نے والے بچے کو یہ پتا ہو تا ہے کہ اس کی ماں کون بنے گی
اور با پ کون بنے گا ؟یہ تو یہ صورت ہو گئی اب اس کے بعد آدمی بڑا ہو گیا ایک
آدمی کا اپنا خرچہ پورا نہیں ہو تا جب شا دی ہوتی ہے نہ ہر آدمی گھبرا تا ہے یا
ر کیسے ہو گا ؟کیا ہو گا؟ میں گزرا کہاں سے کرونگا اور خاندان والے اس کو زبر دستی
کر کے اصل میں وہ اس لئے کہ ہر ماں باپ شا دی سے گزرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم
پریشان کیوں نہ ہو ں اس کو بھی پر یشانی میں ڈال دیں تو شا دی ہو جا تی ہے تو آپ
کا تجر بہ نہیں ہے کہ ایک آدمی جس کا پورا خر چ بھی نہیں ہو تا شا دی کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو گھر بھی دیتے ہیںبچے
بھی ہو جاتے ہیں بچوں کی تقریبات بھی ہوجاتی ہیں بچے تعلیمات حاصل کر کے بڑے بڑے
کا رو بار بھی کر لیتے ہیں اور شا دی سے پہلے وہ ایک بندہ ڈرتا تھا کہ وہ شا دی ہو
کر کیا ہو گا ۔یہ کیسے ہو گیا بھئی …؟جیسے جیسے آپ کے اخرا جات بڑھتے ہیں اس کی
مناسبت سے اللہ تعالیٰ پتہ نہیں کہاں سے کس طرح وسائل بڑ ھتا چلے جا تا ہے آپ ایک
ہو تے ہیں ایک سے دو ہو تے ہے تو دو کا خرچہ اللہ میاں دیتا ہے اور دو سے جب دس ہو
جا تے ہیں تو ما شا اللہ اس زمانے میں بچے نو سے کم تو ہو تے ہی نہیں تھے بچے بھی
ہو گئے اللہ تعالیٰ نے بچوں کے لئے وسائل بھی فراہم کر دئیے اب کسی کو یہ پتا نہیں
کہ میں نے مرنا کب ہے کچھ لوگ یہ دعا ئیں کرتے یا اللہ ہماری مٹی عزیزکر دے اب ہم
بہت تھک گئے وہ مرکے ہی نہیں دیتے کچھ لوگ ایسے ہو تے ہیں ہو مر نے سے خوف زدہ ہو
تے ہیں ان کو موت ایسے دبوچھ کے لیجا تا ہے کہ رات سو رہے تھے صبح کو لے گیا یہ
ساری جو باتیں ہیں ان باتوں کو ذرا آپ غورو فکر کریں کیا ا س سے یہ نتیجہ مرا تب
نہیں ہو تا کہ انسان دروبست اللہ کا ہے اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں تم رات کو سو جاتے
ہومر جا تے ہو ہم تمہیں صبح کو دو با رہ زندہ کر دیتے ہیں کیا ہر آدمی مر نہیں جا
تا ہے رو زاورصبح کو نئی زندگی اسے نہیں مل جا تی تو میری والدہ صاحبہ کہتی ہے سو
یا مو یا برابر تو آپ کو کون زندہ کر دیتا ہے رو ز؟تو آپ کا اپنے پاس کیا ہے آپ
تو رو ز مر جا تے ہیں کون سورج نکال دیتا ہے روز؟ سورج نہ نکلے تو رات ہی رات ہو
گی کیسے پتا چلے گا آپ کو کب سو نا ہے کب جا گنا ہے کون بارش برستا ہے کس نے زمین
کو ایسا بنا دیا ہے اس نے دلدل نہیں بنا دیا کہ آپ چلیں تو اس کے اندر ڈھنستے چلے
جائیں زمین کو اتنا سخت نہیں کر دیا کہ آپ ٹھو کر کھا کرگر یں اور رو زآپ کا سر
پھوٹے اور خون نکلے کس نے آپ کے اندر خون کی ندیاں بہا دی ہیں ؟کئی ہزار میل رگیں
آپ کے جسم میں کام کر رہی ہیں اور خون ڈور رہا ہے کوئی ایک آدمی بتا ئے اس کے
جسم سے جو خون ڈور رہا ہے اس خون دوڑنے میں اس آدمی کا کیا عمل داخل ہے کو ئی ایک
بتا ئے کیا عمل داخل ہے آپ کے جسم میں کون دوڑ رہا ہے دل پمپ کررہا ہے پھیپھڑے
ہوا بھر رہے ہیں ۔ آکسیجن اندر جا رہی ہے آکسیجن جل کر کا ربن ڈائی آکسائیڈ بن
رہی ہے اس سے آپ کو زندگی حاصل ہو رہی ہے اس سے آپ کاکیا عمل داخل ہے آپ کو اگر
پا نی پینے کا خیال نہیں آئے پیاس نہیں لگے گی یا پیاس نہ لگے کو ئی ایک آدمی
بتائے وہ پانی پی سکتا ہے اگر آپ کو پانی پینے کا خیال نہ آئے کو ئی ایک آدمی
بتا ئے وہ پانی پی سکتا ہے زور سے بولو بھئی کیوں نہیں کیوں نہیں پی سکتا ۔جب آپ
بااختیار ہیں تو پا نی کیوں نہیں پی سکتے خیال ہی نہیں ہے اللہ تعالیٰ حلق بند کر
دیں کو ئی آدمی رو ٹی کھا سکتا ہے اتنا سا حلق ہے اتنا سا اگر اسے بند کر دیں
اللہ میاں ،اب میرے پاس ایک صاحب آئے تھے وہاں مرا قبہ ہال میں پتا نہیں ڈیڑھ سال
بتا یا دو سال بتا یا کہ میں جی کھا نا ہی نہیں کھا سکتا بھئی کیوں نہیں کھا سکتے
کہ میرے حلق سے اتر تا ہی نہیں ہے۔ٹھیک ٹھاک بندہ با لکل صحیح تو میں نے کہا بھئی
پھر بغیر کھا ئے تو گزارہ نہیں ہو تا کیسے زندہ رہتے ہو کیا کر تے ہو؟کہنے لگے ایک
تو پا نی پی لیتا ہوں پا نی سے گزارہ ہو جا تا ہے جیسے ایک منا سا بسکٹ ہے۔
اسے پانی میں گھول کر بالکل پتلا کر کے وہ تھوڑا تھوڑا کر کے پیتا ہوں اور
وہ با لکل دبلے پتلے سوکھے آدمی اب منہ دیکھئے بھئی اب جب میں نے منہ دیکھا وہ
چمچہ رکھ کر کہا آ کربھئی تو گلا تو اس کا ٹھیک ٹھا ک تھا با لکل کھلاہوا تھا تو
میں نے کہا نہیں تم رو ٹی کھا ؤ میرے ساتھ رو ٹی کھا ؤ وہ میں نے رو ٹی دی ٹکڑا
میں نے کہا کھا ؤ اس نے بہت کو شش کی وہ حلق سے نکلا ہی نہیں پھر میں نے تھوڑا زور
سے بو لا نہیں کھا ؤ میں نے زور سے اسے تھپڑ ما را کھا نا کھا ایک نفسیاتی علاج کہہ
لیں وہ تو جی اس کی تو آنکھیں با ہر
آگئی ۔بھئی یہ تو اللہ خیر کرے یہ تو مر جا ئے گا یہ کیا ہوگیا بھئی خیر میں سمجھ
گیا معاملہ خراب ہے اس کو پا نی وانی ا س کے حلق میں ڈالا، اس کے منہ کا نوالہ
نکال کر با ہر پھنکاتھوڑی دیر میں اب مجھے یہ فکرہو گئی آخر یہ کیا بات ہے یہ
کیوں رو ٹی نہیں کھا تا تو اس نے کہا ٹھیک ہے تو انہوں نے کہا ڈاکٹر کیا کہتے ہیں
سب ڈا کٹروں کی رائے ہیں تمہیں کو ئی بیماری نہیں ہے جب کوئی بیماری ہی نہیں ہے تو
کیا علاج کریں بھئی بس تم یہ ہی کھاؤ خیر میں نے اس سے بہت زیادہ التجا کی تھوڑا
تھوڑا وہ مانو س بھی ہو گیا تو میں نے بہت زیادہ جراح کی تو اس نے پتہ کیا بات بتا
ئی، بڑی سوچنے کی بات ہے اس نے کہا جی میں
کھا نا اس لئے نہیں کھا تا کہ میرے ذہن میں یہ بات ہے اگر میں کھا نا کھا ؤں گا
اور کھانا میری سانس کی نا لی میں جا ئے گا
میرا دم گھٹے گا میں مر جا ؤں گا ۔میں نے کہا بھا ئی وہ سانس کی نا لی الگ
ہو تی ہے کھا نے کی نا لی الگ ہو تی ہے بہت سمجھا یا اس کی سمجھ میں نہیں آیا
وہاں لطیف بھا ئی سے میں نے کہا تم یہ کرو اسے اپنی سوزکی میں بیٹھا ؤ اور دو تین
قصائیوں کی دوکان پر لیجا ؤ اور بکر ے کی وہ دکھا ؤ گردن کٹی ہو ئی اور دکھا ؤ
بھئی یہ سانس کی نالی ہے یہ کھا نے کی نالی ہے الگ الگ دو نا لیاں ہوتی ہیں پھر
اسے کسی گا ئے والی کی سری پا ئے پر لیجا ؤ اس میں بڑے بڑے ہو نگی وہ صاحب وہ
دیکھا کر لائے تو اس کے ذہن میں یہ یقین ہوگیا کہ واقعی کھا نے کی نالی تو الگ ہے
ہوا کی نا لی تو اس نے کھا نا شروع کر دیا تو ٹھیک ہو گیا اب وہاں پیر صاحب نے
ٹھیک کر دیا سوال یہ ہے کہ اگر میرے ذہن، میں آپ کے ذہن میں آپ کے ذہن میں یہ
خیال یقین بن جا ئے کہ ہم کھا نا کھا ئیں گے تو ہماری سانس کی نا لی بند ہو جا ئے
گی کیا ہم کھا نا کھا سکتے ہیں غور کریں اس کے اوپر تو کھا نا کھا نے کا کیا مطلب
ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کھا نا کھلا نا چا ہتا ہے اس لئے ہم کھا نا کھاتے ہیں جب
ہم یہاں پیدا ہو تے ہیں ۔تو کھانے کاہمیں انتظار نہیں کرنا پڑتا ہر چیز موجود ہوتی
ہے گندم موجود ہے ،دودھ موجود ہے، پا نی موجود ہے،رو ٹی موجود ہے ہر قسم کے پھل
فروٹ ، سبزیاں موجود ہیں اس موجودگی کا آپ کیا مطلب لیں گے کیا مطلب ہوا اس کا
؟جی…آپ کو کھلانا چاہتے ہیں آپ کو کھلا نے کا پہلے سے انتظام کیا ہوا ہے تو کھا
نا ہم کب کھا تے ہیں ؟جی جب خیال آتا ہے خیال کہاں سے آتا ہے تو کھا نا ہم کب
کھا تے ہیں جب اللہ چا ہتا ہے تو اللہ کے چا ہے بغیر ہم کھا نا نہیں کھا سکتے،
اللہ کے چا ہے بغیر ہم پانی نہیں پی سکتے ، ایک خیال بتا ؤ کروڑوں میں سے ایک خیال
بتا ؤ یہ ہمارا ذاتی خیال ہے ۔ایک بتاؤ کہ جی یہ ہمارا ذاتی خیال ہے ایک خیال تلاش
کر و یار اتنے سارے لوگ بیٹھے ہو ئے ہوکھا نا ،پینا، سو نا ،جا گنا بھئی یہاں تک
صورت ہے حضور قلندر با با اولیا ء ؒ فرمایا کر تے تھے یہ جو آنا جا نا لوگوں سے
ملنا محبت کر نا یا نفرت کرنا یہ بھی ایک خیال کے اوپر ہے فرمایا کر تے تھے دل ہلے
تو پیر چلے اگر آپ کا دل نہیں ہلے گا یہ جو پڑوسی برا بر میں رہ رہا ہے چھ چھ
مہینے ہو جاتے ہیں سلام دعا نہیں ہو تی اور جب آپ کادل ہوتا ہے میلوں میل آپ بھا
گے چلے جا تے ہیں آپ کو نہ رات کا احساس ہوتا ہے نہ گر می کا احساس ہوتا ہے نہ
سردی کا احساس ہو تا ہے کیوں خیال آیا اللہ کی طرف سے آپ کو خیال آیا کہ فلاں
آدمی سے ملنا ہے۔ تو پیغمبران علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ وہ اس ذات اللہ جو پرستش کے لا
ئق ہے عبادت کر نے کے لا ئق ہے وہ آپ کا آپ کی زندگی کا واحد کفیل ہے ۔ پیدا
ہونے سے پہلے آپ کی ماں کے سینے کوبھر دیتا ہے دودھ سے ،پیدا ئش سے پہلے نو مہینے
اللہ میاں رو ٹی کھلا دیتا ہے اگر ماں کے پیٹ میں بچے کو غذا نہ ملے تو کسی ڈاکٹر
سے آپ پوچھیں بچہ کمزور ہو جا تا ہے اگر بچے کو صحیح غذا نہ ملے ماں کے پیٹ میں
تو بچہ کمزو ر ہو تا ہے بیمار بھی ہو تا ہے اب کیا اس کانتیجہ مرتب ہوانتیجہ مرا
تب اس کا یہ ہوا کہ ہر انسان بلکہ ہرمخلوق بڑے بڑے درخت سب اللہ کے محتاج ہیں سب
اللہ کے محتاج ہیں اللہ زندگی دیتا ہے جب تک وہ چا ہتا ہے آدمی زندہ رہتا ہے اور
جب اللہ یہ چا ہتا ہے آدمی اس دنیا میں نہ رہے تو کوئی طا قت ایسی نہیں ہے جو
انسان کواس دنیا پر بر قرارر کھ سکے ۔رو حانی ڈائجسٹ میں وہ واقعہ آپ لوگوں نے
پڑھا ہوگا اس میں لکھا ہوا تھا ایک آدمی تھا اسے کچھ بصیرت حا صل تھی تو اس نے یہ
دیکھا کہ ملک الموت مجھے غورسے رہا ہے تو ڈ ر گیا خوف زدہ ہو گیا کہ بھئی یہ ملک
الموت موت نے میرا پیچھا کیوں پکڑا وہ جناب حضرت سلیمان علیہ السلام کادور تھا ان
کے دربار میں پہنچ گیا او اس نے یہ کہا کہ حضور مجھے یہاں نہیں رہنا، مجھے آپ
ہندوستان بھیج دیں ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے ہندو ستان چھوڑ دے لیجا کر انہوں نے
کہا ٹھیک ہے انہوں نے ہوا کو کہا بھئی ہوا اسے ہندوستان میں جا کر چھوڑ آ، ہوا نے اڑا اور ہندوستان کے کسی حصے میں جا پھینکا
وہ بڑا خوش ملک الموت سے تو نجات ملی وہاں دو چار دن میں وہ مر گیا اب وہ ملک
الموت جو ہے حضرت سلیمان کے پاس آئے تو سلیمان بھی گھبرا گئے یہ میرے پاس آیا
بھئی خیر تو ہے بلا واآگیا کہنے لگا نہیں حضور بلوا نہیں آیا میں آپ کا شکر یہ
ادا کر نے آیا ہوں انہوں نے کہا بھئی تو میرا شکر یہ کیوں کر نے آیا ہے کہنے لگے
نہیں آپ نے تو میرا بہت بڑا کام کر دیا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہندوستان کی
زمین مقرر کر دی تھی مجھے فکر ومتاالیٰ حین…ایک وقت مقرر کر دیا اس وقت مقررہ پر
تمہیں آنا ہی آنا ہے ہندوستان میں میں نے اس کی روح قبض کرنی تھی وہ یہاں پھیر
رہا تھا دمشق میں تو میں یہ سو چ رہا تھا اسے لے کیسے جا ؤپا نیوں کے جہازوں کا
معاملہ تھا لہذا ظا ہر ہے ہفتوں مہینوں میں پہنچے گا وہ زندگی اس کی دو دن کی تھی
اس لئے وہ آپ کے پاس آیا آپ نے ہوا کو حکم دیا ہوا نے اسے وہاں پہنچا دیا آپ
نے میرا کام آسان کر دیا اس لئے میں آپ کا شکر یہ کر رہا ہوں میں سوچ رہا تھا
میں ایسے ہندوستان کیسے لیجا ؤں ۔آپ ہمیں یہ بتا ئیں آپ لندن جا نا چا ہتے ہیں
آپ کے پا س ویزہ نہیں لگا ہوا یا امریکہ جا نا چاہتے ہیں پاسپورٹ پر ویزہ نہیں
لگا ہوا آپ کو لندن میں امیگریشن آفسر داخل ہو نے دے گا یا کوئی لندن کا آدمی
انگریز پاکستان میں آنا چا ہے اس کا ویزہ نہیں لگا ہوا کہ ہمارے امیگریشن والے اسے یہاں آنے دیں گے اس کا کیا مطلب ہوا
کسی ایک ملک سے دو سرے ملک میں جا نے کے لئے ویزہ ضروری ہے تو آپ یہاں سے دو سری
دنیا میں عالم اعراف میں جہاں مر نے کے بعد رہتے ہیں وہاں کے ویزہ ضروری نہیں ہے؟
ویزہ لگا نے والے ہمارے بھا ئی ملک الموت صاحب ہیں ۔اگرکو ئی بندہ ویزے کے بغیر
عالم اعراف میں داخل ہو جا ئے تو ملک الموت صاحب کی نوکری ختم ہوجا ئے گی اللہ
میاں کہیں گے یہ بغیر ویزے کے کیسے آگیا بھئی اس کا کیا مطلب ہوا اس کا مطلب یہ
ہوا انسان کا سب سے بڑا محافظ ، موت سے
بچانے کے لئے ملک الموت اگر یہ بندہ میرے ہاتھوں سے نکل گیا تو میری با ت مُسْتَقَرٌّ
وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ … اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ہم نے وقت مقرر کر دیا جگہ مقرر کر دی اور ہم جو ہیں اتنا ہمارا بڑا محسن ہے ملک
الموت تو ہمیں بچا ئے بچا ئے پھرتا ہے ویزہ نہیں لگا تا ہم اسی سے ڈرتے ہیں۔ حضور
پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک وقت ایسا آئے
گا کہ مسلمان کو دنیا کا لالچ ہو جائے گا اور موت سے انسان ڈرنے لگے گااور وہ
مسلمانوں کے لئے بدترین زمانہ ہے آج آپ دیکھ لیں اچھا بھئی ڈرنا کس بات سے ڈرنا،
ہم سب موت سے ڈرتے ہیں بچ سکتے ہیں کو ئی آدمی بچ سکتا ہے موت سے بھئی ڈرنا کس
بات سے جب بچ ہی نہیں سکتے تو ڈرنا کس بات سے تیار رہو اچھا ایک بات دو سری بات
ہمارے جتنے بھی دا نش ور ہیں مطب کے بڑے بڑے وہ یہ کہتے ہیں بھئی اللہ کو کو ئی
نہیں دیکھ سکتا کہتے نہ بھئی اللہ کو کو ئی نہیں دیکھ سکتا کب دیکھ سکتا ہے بھئی
مرنے کے بعد دیکھ سکتا ہے اگر آپ مر نے سے ڈر رہے ہیں ۔اس کا کیا مطلب ہوا ؟کیا
مطلب ہوا ہیں ذرا غور سے پھر ہم سب کیا ہیں یہاں جب اللہ کوہم دیکھنا ہی نہیں چا
ہتے تو ہماری کیا حیثیت ہو ئی بھئی وہ اللہ جو ہما را خالق ہے ما لک ہے ،ہماری ہر
ضرورت کی کفالت کر رہا ہے روز ہمیں موت دیتا ہے رو زہمیں زندہ کر تا ہے ماں کے دل
میں ممتا ڈالتا ہے باپ کے دل میں شفقت ڈالتا ہے میں نے آپ کو ایک مثال دی ایک
آدمی ہوتاہے شادی کے بعد دو ہوتے ہیںدو کے بعد آٹھ دس ہوجاتے ہیںدس سے بارہ ہو
جاتے ہیں بچے پڑھ بھی جاتے ہیںکہاں سے پیدا ہو جاتے تھے اب ہمیں ملنا چاہئے یا اس
کی قربت سے ہونا چاہئے ایک بچہ ایک ماں سے ڈرنے لگے کیا وہ نفسیاتی مریض نہیں ہو
جائے گا ۔ اگر بچہ ماں سے ڈرنے لگے ۔ہر وقت ڈرتا رہے ہر وقت ڈرتا رہے وہ عقل و
شعور سے نفسیاتی مریض ہو گا۔ جب بندہ اللہ
سے ڈرے گا وہ صاحب شعور ہو گا یا مریض ہو
گا ساری قومیں نفسیاتی مریض ہوں گی ہر بندہ ڈر رہا ہے اس نے کبھی چوری ہی نہیں کہ
وہ بھی ڈر رہا ہے بھئی کیوں ڈر رہا ہے؟ پتا نہیں کیوں ڈرر ہا ہے ؟ہر بندہ مستقبل
سے ڈر رہا ہے لیکن وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میری عمر اب چا لیس سال کی ہے یہ آپ
سب میں زیادہ کہوں گا نہ تو آپ کہیں گے ہماری اتنی عمر بتا دی اب تو مرد بھی برا
مانتے ہیں اگر ان کی عمر برا مان جا تے ہیں اچھا چا لیس سال کسی مرد کی عمر رکھ
لیں اچھا ہمارے یہاں یہ دستور ہو گیا ہے چالیس سال سے پہلے کسی مر د کی شادی ہی
نہیں ہو تی چا لیس سال آپ عمر رکھ لیں چالیس سال کی عمر کا آپ کا کیا تجربہ
ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین لباس
پہنا یا ،بہترین گھر دیا ، بچے دئیے والدین دئیے،پیسہ ٹکا دیا صحت و تندوستی عطا
کی چالیس سال اب عمر ساٹھ سال کی رکھ لیں بھئی ساٹھ سال جینا ہے آج کل عمریں کم
ہو گئی ہیں تو کتنی عمر رہے گئی با قی تو یہ چالیس سال کا جو تجربہ ہے اس کے بارے
میں آپ کبھی نہیں سمجھتے اس میں وہ دور بھی شا مل ہیں جو آپ کلرکی بھی نہیں
کرسکتے ، اس میں وہ زمانہ بھی شا مل ہے جب آپ اپنی سائیکل بھی نہیں چلا سکتے تھے
،اس میں وہ زمانہ بھی شا مل ہے جب آپ اپنی چل ہی نہیں سکتے تھے ،،اس میں وہ زمانہ بھی شا مل ہے جب
آپ کو اس کا پتا بھی نہیں تھا کہ کپڑے کیا ہو تے ہیںپیسے کیا ہوتے ہیں لباس کیا
ہو تا ہے سب آپ ہی زبر دستی اس کے پیچھے پیچھے پھر کر اس کولباس پہنا دیتے ہیں چا
لیس سال تک اللہ نے آپ کو صحت بھی دی، ہر نعمت آپ کو عطا کی ، آپ کو حافظہ دیا
آپ کو دماغ دیا، آپ کو ذہن عطا کیا آپ
تعلیم سے آراستہ ہو ئے بڑی بڑی کر سیوں پر جا بیٹھے آپ نے حکمرانی کی اب آپ کو
کس بات کی فکر ہے یہ علا مت کہ چالیس سال مسلسل آپ نے عیش و آرام کی زندگی گزاری
بھر پو ر زندگی گزاری اگلے بیس سال کے لئے آپ کو فکر ہے یہ کیا نفسیاتی مرض نہیں
ہے بھی آپ غور کر یں یہ نہیں تقریر سن کر کہ چلے جائیں باباجی نے تو بڑی اچھی
تقریرکی تھی تقریر اچھی وچھی نہیں ہو تی غور کر یں چا لیس سال کا آدمی بیس سال کے
آئندہ مستقبل کی فکر میں مبتلا ہے کیوں مبتلا ہے اللہ کی ذات پر یقین رکھنے کے
لئے چالیس سال کی جو زندگی ہے اللہ نے اسے عطا کی یہ ایسی ہی بات ہے ایک بچہ ہے
باپ اس کی خدمت کرتا ہے اس کو تعلیم دلا تا ہے اس کی تمام ضروریات پو ری کر تا ہے
اور بیس سال کے بعد وہ یہ کہیں کہ پتا نہیں ابا مجھے رو ٹی دیں گے یا نہیں کھا نے
کو ،پتا نہیں ابا مجھے جو تا دلا ئیں گے یا نہیں دلا ئیں گے ، پتا نہیں ابا مجھے
جیپ خرچ دیں گے نہیں دیں گے کیا چا لیس سال کے بعد بیس سال اور اس میں کو ئی فرق
ہے کو ئی بچہ اپنے باپ پر اس بات کا تصور کر ے کہ یہ مجھے رو ٹی کھلا ئے گا یا
نہیں کھلائے گا آپ اس کو کیا کر یں گے کیا کر یں گے ؟اس کا کیا کر یں گے ؟اس کو
صحیح عقل سمجھیں گے یا اس کوڈاکٹر کے پاس نہیں لیجا ئیں گے تو اس وقت یہ معاملہ ہو
تا ہے اس وقت آپ یہ ضرورت ہی نہیں پیش کرتے کہ ہما را علا ج ہو نا چا ہئے علا ج
کہاں ہو تا ہے علاج اس کے پاس ہوتا ہے جو بیماری کی تشخص کر تا ہے جو علاج کر نا
جا نتا ہے جو بیماریوں سے واقف ہو یہ تو یقین کا معاملہ ہے، اس یقین کے جو معالج
ہیں و ہ اللہ کے دو ست ہیں رسو ل اللہ ﷺ
کے ور۱ثت
یافتہ اللہ کے دوست ہیں خواجہ غریب نواز ہیں، لا ل شہباز قلندر ہیں، شاہ لطیف
بھٹائی ہیں ،داتا صاحب ہیں ،بابافرید ہیں ناناتا ج الدین نا گپو ری ہیں۔ حضورقلندر
بابااولیا ء ؒ ہیں۔ مسلمان آج مسلمان با لکل نفسیاتی مریض ہے 100فیصد اس کو ضرورت
ہے کہ وہ معالج تلا ش کرے کتنی عجیب با ت ہے وہ ساٹھ ستر سال تک آدمی کھا نا کھا
تا ہے ،شا دیا ں کرتا ہے، بچوں کی تقریب کر تا ہے ، بچوں کے بچوں کی تقریبات کر تا
ہے ،اور اس کو یہ فکر ہے یہ بے یقینی اور شک یہ ایسا نفسیاتی مریض ہے جو انسان کے
اندر ایک پھوڑا پیدا کرتا ہے۔ ایساپھوڑا جس کے اندر تعفن ،سڑان ،زہر آج کے امت
مسلمہ کی جو زبوحالی ہے ، بدحالی ہے ،جو بدتری ہے، بد قسمتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ
رسول اللہ ﷺ کا زبانی ذکر تو بہت کر تے
ہیں لیکن اندر یقین نہیں ہے ایک ایمان کے لئے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھیں لا
الہ اللہ …اللہ کے علاوہ کو ئی معبود نہیں کو ئی پر ستش کے لا ئق نہیں محمد رسول
اللہ ﷺ اور محمداللہ کے رسول ہیں یہ زبانی
اقرار ہو ا اور قلبی تصدیق کس طرح ہو گی۔ قلبی تصدیق اس طرح ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ آپ کے اندر داخل ہوجائے آپ
کاایمان اور یقین بن جا ئے جو رسول اللہ ﷺ
نے کیا ہے وہ ہم کر یں گے رسول اللہ ﷺ نے
جو نہیں کیا ہم اسے ہر گز نہیں کر یں گے۔ تقریریں ہو تی ہیں بڑے بڑے ٹینٹ لگتے ہیں
ڈیکوریشن ہو تا ہے لوگ آتے ہیں جمع ہوتے ہیں واہ واہ کیا اچھی تقریر کی کیا اثر
کیوں نہیں ہو تا اثر کیوں نہیں ہوتا یہاں سے جا کر بھول کیوں جاتے ہیں زبانی جمع
خر چ کر تے ہیں دل شامل ہے اقرار باللسان ہے تصدیق بالقلب نہیں ہے۔ تصدیق با لقلب کب ہو گا زبان تو آپ کو نظر
آرہی ہے دل نظر نہیں آرہا ہے ۔ یقین تو ہے کہ دل ہے نظر نہیں آرہا ہے اب دل کو
کیسے دیکھیں بھا ئی اب دل کودیکھنا ایک ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ہے ایک اور بھی
آنکھ ہے اندر وہ کون سی آنکھ ہے ۔ہر انسان اس بات سے واقف ہے کہ میری زندگی کا
دارومدار روح پر ہے کوئی ایک انسان یہ بتا ئے کہ کسی مر دہ آدمی نے کبھی کھا نا
کھا یا ہے؟ کیوں نہیں کھا یا؟ کیوں نہیں کھا یا بھئی زور سے بو لیں تو کیا مطلب
کھا نا کون کھا تا ہے بھئی…؟ مر دہ آدمی نے کھانانہیں کھا یا جب اس کے اندر رو ح
ہو تی ہے وہ کھا نا کھا تا ہے تو کھا نا کس نے کھا یا ؟کیوں بھئی زور سے بو لو نا
اب دیکھئے میں یہ چا ہتا ہوںآپ میری بات سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں میں خوامخواہ
بولتاتو نہیں چلا جا رہا ہوں، کھانا کس نے کھا یا ؟رو ح نے کھا یا اور اب روح نے
کھانا کھا نے کا ذریعہ اس جسم کو بنا یا اب اس کا کیا مطلب ہوا ن کہ رو ح نے جو
کھاناکھانے کا ذریعہ جسم کو بنایا تھا روح وہ اس جسم کو چھوڑ دیے نتیجہ یہ نکلے گا
کھا نا روح نے کھا یا جسم کے ذریعے کھا یا ذریعہ تو بعد میں ہو گا نہ بھئی میں لوڈ
اسپیکرسے بات کر رہا ہوں بجلی نکل گئی یہاں سے آپ کو آواز آئے گی تو آواز کس
نے پہنچائی اس لوڈ اسپیکر نے یا بجلی نے تو کھا نا کس نے کھا یا ، شادی کی آپ نے، بچے ہو ئے ۔مردہ آدمی کی شادی
کر کے دیکھا ؤ کبھی۔ تین ارب سال بتا تے
ہیں سائنس دان تین ارب سال اس دنیا میں بتا ؤ کسی مر دے کی شا دی ہو ئی ہو کسی مری
ہوئی ماں نے بچہ جنا ہو ،کسی مردہ ماں نے دودھ پلایا ہو ،کسی مر دہ ابا نے قاضی کے
سامنے کہا ہو قبول کیا میں نے وہ نکاح ہو تا ہے نا تو پڑھ کے مولوی صاحب کہتے ہیں
آپ نے قبول کیا جی کہو قبول کیا وہ کہے گا نہیں قبول کیا وہ کہیں گے نہیں ایسا
کہو قبول کیا میں نے تو یہ قبول کیا میں نے یہ مر دہ جسم کر تا ہے یا زندہ جسم کر
تا ہے؟زندہ جسم تو بھئی شادی کس کی ہو ئی یعنی روح نے ایک ذریعہ بنا یا روح کی تو
شا دی نہیں کہہ سکتے مثال کے طور پر آپ
کیا ہوئے مر دہ آدمی کھا نا نہیں کھا سکتا مر دہ آدمی پا نی نہیں پی سکتا مر دہ
آدمی بچہ نہیں جنتا مر دہ آدمی دفتر میں جا کر افسر نہیں بنتا مر دہ آدمی پا
ئلٹ نہیں بنتا مر دہ آدمی کیا کسان نہیں بنتا مر دہ آدمی سو داگر نہیں بنتا
توآپ کی حیثیت میری حیثیت کیا ہو ئی ہماری اصل کیا ہو ئی ہم اپنی اصل سے واقف ہیں
جو بندہ اپنی اصل سے واقف نہ ہو اسے آپ صحت مند کہیں گے یا بیمار کہیں گے اب جب
بیمار ہو گئے تو اب کیا کرنا ہے علاج کہاں سے کرو گے معالج سے علاج ہو گا معالج ہی
اولیا ء اللہ ہیں ۔جب تک ان اولیا ء اللہ کے پاس مریض بن کر آپ نہیں جا ئیں گے مر ض کی تشخص نہیں کروائیں گے
آپ مریض رہے گے، مر ض بڑھتا چلا جا ئے
گا۔بڑھتا چلا جا ئے گا اور اس طرح بڑھ جائے گا کہ دنیا سے نام مٹ جا ئے گا اِنَّ
اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ
… جو قومیں اپنا علاج نہیں کر تی اپنے بڑھنے کا تذکرہ نہیں کرتی اللہ تعالیٰ انہیں
شفا ء نہیں دیتا جوقو میں اپنی تبدیلی نہیں چا ہتی ایک مریض آدمی جب کسی ڈا کٹر
کے پاس جائے گا اور صحت مند ہو جائے گا اس کو آپ تبدیلی نہیں کہیں گے کیا کہیں گے
؟اب اس آیت کا تر جمہ پڑھیں جب کو ئی قوم اپنی تبدیلی نہیں چا ہتی اللہ بھی اس کی
طرف سے خاموش ہوجا تا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اب کسی مریض کا
علاج نہ کر وائیں اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اس کا نتیجہ کیا مر تب ہو گا، مر
جائے ختم ہو جا ئے قبر میں جا کر گھس جائے۔ آج کے مسلمان کی یہی حالت ہے کیوں کہ
،مسلمان اقرار بااللسان میں بہت آگے ہے اور تصدیق بالقلب میں بہت پیچھے ہے اس لئے
اس کو امرا ض ہیں کون سے امرا ض شک، وسوسے ،بے چینی ،بے سکونی ،اصطراب، پر یشانی
بے خوابی، بلڈ پر یشر، سرطان۔ سب کچھ اللہ نے دیا ہوا ہے کھا نا بھی ہے پینا
بھی ہے گھر بھی ہے رہا ئش بھی ہے گا ڑیاں بھی ہے لیکن سکون نہیں ہے کیوں سکون نہیں
ہے ؟جب سب کچھ ہے سکون کیوں نہیں ہے؟ یہ
شک ایک جڑ ہے جو ہر شخص میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایاالم ذلک الکتاب لا ریب فی…یہ
کتاب اس میں شک نہیں ہے کیا مطلب ہواا س کا یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک نہیں ہے ایک
آدمی جو شک او ر وسوسے میں مبتلا ہے وہ اس کتاب سے فا ئدہ اٹھا سکتا ہے اسی لئے
قرآن کی رو شنی سے ہم محروم ہیں فویل للمتقین …شرط ہے، شر ط یہ ہے اس کتاب میں شک نہیں ہے اس کتاب کے
لئے فا ئدہ اٹھانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر بھی شک نہ ہو یقین ہو اس کے
اندر بھی اللہ کی کتاب ہو ھدی اللمتقین …اور یہ کتا ب متقی لوگوں کو ہدایت بخشتی
ہے کہیں نہیں آپ نے پڑھا ہو گا ھدی للمسلمین…ھد ی اللمنافقین …ھدی القافرین …ھدی
المکنرین …کہی نہیں ۔متقین کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کو تصدیق القلب حاصل ہو تا ہے
وہ متقی ہو تے ہیں ور جو متقی نہیں ہیں اس آیت کے مطابق وہ شک اور وسوسے میں گرفتار
ہے اور شک میں وسوسے میں گر فتار بندہ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق
مریض ہے بیمارہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو قانون قدرت کے تحت اسے جو تعاون حاصل ہے اس سے
محروم ہے ۔رسو ل اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں
اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے نبوت کالیکن نبوت کا فیض ابھی جا ری رہے گا اور
وہ نبوت کا فیض ہے وہ ولن تجد لسنة الله تحويلا …اللہ
کا جو شعار ہے اللہ کی جو طرز فکر ہے اللہ کی جو عادت ہے اللہ کی جو مشیت ہے اللہ
کاجو قانون ہے اللہ کا جو نظام ہے اس میں نہ تعطل ہو تا ہے نہ تبدیلی ہو تی ہے
نبوت تو ختم ہو گئی اگر اللہ کے نظام میں تعطل اور تبدلی پیدا ہو جا ئے تویہ اس
آیت کے مطا بق توتعطل نہیں ہو سکتا ۔نبی اکرم ﷺ کے بعد ان کے دوستوں نے، ان کے
شاگردوں نے ،ان کی امتیوں نے مقدس اور پا کیزہ بندوں نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کاجھنڈا اٹھایا اور رسول
اللہ ﷺ کی تعلیمات پھیلانے کے لئے اپنی
زندگیاں واقف کر دی اوراس طرح سنت میں تعطل پیدا نہیں ہوا اب ایک ہی صورت ہے کہ جب
مرض کی تشخص جب ہو جا تی ہے اچھا پہلے تو آپ یہ بتائیں مرض کی تشخص ہو گئی یا
نہیں …؟ہاں بھئی سب بتائیں مجھے تو آواز دو چار بندوں نے دی ہے با قی بندے، تو جب مرض کی تشخص ہو گئی اب ہمیں کیا کرنا ہے
علاج کر وانا ہے علاج کے لئے ہمیں کیا کرنا ہے معالج ڈھونڈنا ہے اب معالج کون ہے
ڈاکٹرتو اس کا معالج ہے نہیں، میں چھوڑیں ڈاکٹر تو اس کا معالج ہے نہیں اب ایک ہی
ہے کہ اللہ کے دوست معالج ہیں اب اللہ کے دوستوں سے قربت حاصل کریں اور یہ سارے جو
میں نے نام گنوائے تھے یہ سارے معالج ہیں اب ان دوستوں کے پاس جو بیٹھے ہوئے ہیں
وہ دوستوں کے دوست ہیں دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے ۔ تو زیادہ سے زیادہ آپ
متوجہ ہوں امراض کی تشخص کے بعد علاج کروائیں اور علاج کیا ہے علاج یہی کہ آپ
ڈاکٹر کے پاس جا ئیں اس کی فیس اداکریں ۔جو کچھ وہ کہہ وہ کریں پرہیز کر یں تو یہ جو اولیا ء اللہ نے
ان کی فیس یہی ہے کہ جب آپ جا ئیں گے وہ آپ کو نصیحت بھی کر یں گے بھئی نماز
پڑھو روزہ رکھو بھئی حق تلفی نہ کر وبھئی یہ کرو وہ کرو تمہارا علاج ہوجا ئے گا تم
ٹھیک ہو جا ؤ گے ۔یہی ان کی طرز فکر ہے وہ پیسے ویسے نہیں ما نگتے پیسے تو ڈاکٹر
مانگتا ہے تو اب دیکھئے علاج مفت ہو جا ئے تو پھر بھی آپ علاج نہ کروائیں تو اس
سے بڑی محرو می دنیا میں کوئی ہو سکتی ہے،
سلسلہ عظیمیہ اس بات کی دعوت دیتا ہے اعلان کر تا ہے اللہ شاہد ہے یہ سلسلہ
چلا نے والے لوگ آپ کے امرا ض کی تشخص کر سکتے ہیں اور آپ کے امراض کا اللہ کے
حکم سے علاج کر سکتے ہیں ۔ قلندر بابا اولیا ء ؒ کا فیض عام ہے جس کا دل چا ہے اس
فیض سے فا ئدہ اٹھائیں اور یہ مر دنی اور بیماری اور زبوحالی بے کسی اور بے بسی پر
یشا نی سے نجات حا صل کر نے کے لئے عظیمیہ سلسلے کی جو خدمات ہیں ان سے آپ
استفادہ کر یں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق دے ۔تو ایک لطیفہ سنا تا ہوں ۔ہمارے
یہاں عید کو میٹھی عید کو لوگ آتے ہیں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو پھر وہاں مراقبہ
ہال میں آتے ہیں کئی سو افراد ہو تے ہیں تو اس میں دیکھنے کی چیز یہ ہو تی ہے اس
میں بچے چھوٹے چھوٹے تتلیوں کی طرح پھر تے ہیں نئی نئی فراخ مائیں خوب بنا سجا کر
لا تی ہیں انہیں تو میں نے کہا سب لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں بیٹھو کہی لطیفے شطیفے سنا ؤ
خیر وہ لطیفے بھی سنا ہی دئیے تو ایک صاحبہ نے ایک بڑا لطیفہ سنایا کہ ایک گھر میں
چور گھس گیا تھا تو بیوی نے کہا میاں جی میاں جی اٹھو گھر میں چور آگیا ہے تو
انہوں نے کہا بھئی دن کو تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا رات کو چو ر کیا لے کر جا ئیں
گا آنے دو خود ہی چلا جا ئے گا اس نے کہا ایسا نہیں ہے کچھ نہ کچھ تو ہو تا ہی
گھر میں اچھا بیوی ما شا اللہ بہت صحت مند تھی بیوی بہت تگڑی موٹی تا زی آپ کو یا
دہو گا ہمارے زمانے میں بائی اسکوپ آیا کر تا تھا وہ کندے پر رکھ کر پھر تے تھے
یاد ہے، کچھ لوگوں کو بائی اسکوپ ہو تا ہے
وہ بچے اس میں دیکھتے تھے اور کہتے تھے دیکھو با رہ من کی دھو بن دیکھو بھئی با رہ
من کی د ھو بن تو ہم دیکھا کر تے تھے وہ اسی قسم کی اس کی بیوی تھی خیر جناب وہ
بیوی نے کہامیاں تو اٹھتا ہی نہیں، وہ گئی اور ا س نے جاکر دھکا دیااور چو ر کے
اوپر بیٹھ گئی اور میاں سے کہا آپ جلدی جا ؤ پو لیس کو بلا ؤ میں نے اسے قابو کیا
خیر وہ اٹھے بھئی آنکھیں وانکھیں مل کے جوتا ڈھونڈنے لگے جوتا ملا نہیں وہ کہنے
لگی جا تے کیوں نہیں کیا ڈھونڈ رہے ہو، کہنے لگے میں جو تا ڈھونڈ رہا ہوں تو چور
نے کہا میرا پہن لو۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حا می اور ناصر ہو پھر انشا اللہ ملا قات
ہو گی حضور قلندربابااولیا ء ؒ کے عرس کے سلسلے میں آپ لوگ تشریف لائے یقینا آپ
کے اندر بہت ساری تبدیلی پیدا ہو ئی ہیں وہ آپ اپنے گھروں میں جا کر محسوس کریں
گے اور یہ تبدیلی کسی بزرگ کا فیض بنتاہے آپ کو اس بات کا علم ہو اکہ انسان کا
فزیکل باڈی جو ہے اس کی حیثیت رو ح کے تا بع ہے رو ح کے بغیر جسم کی کو ئی حیثیت
نہیں ہے جب پتا چل گیا فزیکل باڈی کی کو ئی اپنی ذاتی حیثیت نہیں ہے روح کی حیثیت
ہے تو اس سے یہ پتا چلا ہر انسان کی اصل
اس کی روح ہے اور ہر صاحب عقل اور صاحب شعور آدمی تو رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطا لق وہ اللہ سے بھی
واقف ہو جا تا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من
عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ… جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے نفس کو پہچان لیا
روح کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیااس بات سے یہ کلیہ اور قاعدہ بناکہ جب تک کو ئی انسان اپنی روح سے
اپنی ذات سے اپنی اصل سے واقفیت حاصل نہیں کر ے گا اللہ سے واقف نہیں ہو سکتا یہ
پھر میں آپ کو اس کو پھر غور سے سنیں من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ …جس نے اپنی روح
کو پہچانا اس نے ہی اللہ کو پہچان لیا یعنی جس نے اپنی روح کو نہیں پہچانااس نے
اللہ کو نہیں پہچا نا۔ اب یہ آپ کے لئے
میرے لئے سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہم اپنی روح سے واقف نہیں ہو نگے اللہ سے
واقف نہیں ہو نگے اور جب ہم اللہ سے واقف
نہیں ہو نگے تو دنیا میں آنے کا مقصد پو را نہیں ہو اانسان کا مقصد یہ ہے دنیا
میں آنے کا کہ وہ اپنے اللہ سے اپنے پروردگا رسے اپنے معبود حقیقی سے جو ستر ماؤں
سے زیادہ محبت کر نے والی ہستی سے واقفیت حاصل کر لے انسان کی زندگی کا مقصد اس کے
علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔جہاں تک کھانے پینے کا مسئلہ ہے ،بچوں کی پیدا ئش کا مسئلہ
ہے ،بچوں کی تر بیت کا مسئلہ ہے یہ سب کام حیوانات بھی کرتے ہیں ایک ماں اگر اپنے
بچے کو دودھ پلا تی ہے تو بلی اپنے چھ بچوں کو دودھ پلا تی ہے ،ایک ماں اپنے بچوں
کی تر بیت کر تی ہے تو ہر جانور اپنے بچے کی تر بیت کر تا ہے چڑیا اپنے بچے کو
دانا چوگنا سکھا تی ہے ،ماں باپ اپنے بچوں کے لئے سایہ کرنے کے لئے اوپر چھت بنانے
کے لئے مکان بنا تے ہیں کوئے پر ندے بھی اپنا گھونسلہ بنا تے ہیں ، ماں اگر اپنے
بچوں کو دودھ پلا تی ہے تو چڑیا اپنے بچوں کو چونگا دیتی ہے ،دودھ پلانا اتنا مشکل
کام نہیں ہے جتناکبوتری اپنے پوٹے میں سے غذا الٹ کر اپنے بچے کے اندر ڈالتی ہے
آپ غور کر یں کبو تری کو جب وہ کھانا کھلاتا ہے اپنے بچوں کو بد حال ہو جا تا ہے
پہلے پوٹے میں جمع کر تا ہے اب دیکھیں کو ئی آدمی تصور کرے کہ الٹی کر نے میں
کتنی تکلیف ہو تی ہے اب بتا ئیے ایک ماں سے کبو تری کی خدمات زیادہ نہیں ہو نگی تو
پھر یہ دودھ پلانا،گھر بنایا یہ جا نور کے کام بھی ہے جب تک انسان گھر بنا تا ہے
دودھ پلا تا ہے بچوں کی تعلیم و تربیت کر تا ہے وہ حیوان ہے اور جب کو ئی انسان
اپنی روح سے واقف ہو جا تا ہے اور روح سے واقف ہو کر اللہ کا عرفان حاصل کر لیتا
ہے وہ انسان ہے جب تک کو ئی انسان اپنی روح سے واقفیت نہیں ہو تا اس کا شمارکتے
بلیوں میں ہو تا ہے ،اس کا شمار چیل کوئے میں ہو تا ہے اور بہت اچھے الفاظ میں کہو
تو اس کا شمار کبوتروں میں چڑیوں میں ہو تا ہے اور جب کو ئی انسان اپنی اصل معلوم
کر لیتا ہے ، اس کی مثال آپ سمجھ چکے ہیں کو ئی مر دہ آدمی کھا نا نہیں کھا تا
کوئی مر دہ باپ یا ماں اولا د کی تر بیت بھی نہیں کرسکتی تو جب کو ئی انسان اپنی
اصل سے واقف ہو جا تا ہے تو اس کا شمار انسانوں میں ہو تا ہے ۔اور جب کسی انسان جو
حیوان ہیں جب اس کاشمار حیوانوں میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اتنے خوش ہو تے
ہیں کہ اس کو انبیا ء کی صف میں لیجا کر کھڑا کر دیتے ہیں ۔جب تک کوئی انسان اپنی
روح سے واقف نہیں ہوگا وہ حیوان ہے کتا ہے، بلا ہے، بیل ہے، گدھا ہے کچھ بھی ہے اس
لئے بیل ، بلے، گدھے کتے کے جو عادات ہیں وہ انسان کر رہا ہے اور وہی انسان جو
قدرت کی دی ہو ئی صلاحیت اور تو فیق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان یاد رکھیں واحد
مخلوق انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے روح کو جا ننے کی صلاحیت عطا کی ہے روح کو
پہچانے کی صلاحیت عطا کی ہے من عرف نفس … اور جو انسان اپنی روح کو نہیں پہچانتا
وہ انسان کہلا نے کا قرآن اور حدیث کے مطا بق مستحق نہیں ہے ۔ میرے عزیز دو ستوں
میرے بزرگوں میرے بچوں آج کی اس نشست میں جو با تیں ہو ئی ہیں میں نے یہاں اس کر
سی پر بیٹھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے کہ یا اللہ مجھ سے وہ با تیں
کہلوا جو میرے بچے سن کر قبول کر سکیں مجھ سے ایسے الفاظ بلواجو مشکل نہ ہوں جو
میرے بچوں کے ذہنوں میں اتر جائیں دلوں میں داخل ہو جا ئیں ان کے اندر نبوت کے
فوارے ابلنے لگیں میں سمجھتا ہوں میری دعا اللہ نے قبول فرما ئی اب یہ میرا آپ کا
سب کا کام ہے کہ ہم حیوانات کی گروہوں سے نکل کر انسان کی صفوں میں داخل ہو جا ئیں
۔اللہ تعالیٰ ہمارا منتظر ہے کہ حضور قلندربابااولیا ء ؒ فرماتے ہیں کہ انسان اتنا
اللہ کی طرف نہیں دوڑتا جتنا اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی طرف بلانے کے لئے بے قرار
ہے ۔ اختتام
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس