Topics

مقام حیرت کے 16سال

 صرف تین چیزوں پر قابو پانے سے آدمی روحانی ہوسکتا ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حاضرین مجلس خواتین و حضرات ،مرا قبہ ہال کے انچارج صاحبان، عظیمیہ رو حانی لا ئبریوں کے لائبریرئین، پاکستان اور بیرون پا کستان سے آنے والے مہمان گرامی محترم دوست عزیزن گرا می قدر آپ کا اس اجتماع میں ہمت کے ساتھ بیٹھنا ، آپ کا مر کزی مرا قبہ ہال میں قیام، دور دراز سے سفر کی صعوبت بر داشت کر کے اللہ کے نام پر اور اللہ کے عرفان کی تلاش میں یہاں آنا یہ سب میرے لئے با عث افتخار ہے، باعث عزت ہے اور قابل ستائش ہے۔  سلسلہ عظیمیہ کی جو بنیا د رکھی گئی اور حضور قلندرا بابااولیا ء ؒ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں سلسلہ چلانا ہے جس وقت حضور قلندربابااولیا ء ؒ نے یہ بات فرمائی میرے ذہن میں اس وقت سلسلے کے بارے میں صرف اتنا تھا کہ سلسلے کے سربراہ کے لیے بس اتنا ضروری ہے کہ وہ دستار اور گدی سے واقف ہو، اونچی جگہ بیٹھنے والا بندہ ہو، اس کے آگے پیچھے بہت سارے لوگ ہوں جو لوگ سامنے ہوں وہ سر جھکائے ہوئے ہوں اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان کے اندر اتنی جرت نہ ہو کہ وہ آنکھ اٹھا کر مر شد کے چہرے کو دیکھ سکے،مرشد کی وراثت میں مریدین کا کو ئی حق نہ ہو ۔مقصد یہ ہے کہ میرے ذہن میں سلسلے کے بڑوں کے لئے ایک ماورائی ہستی کا تصور تھا ۔ یہ بات بالکل نہیں تھی کہ مر شد کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ اس کے اندر بھی کچھ ہو تا ہے اور یہ بات اس لئے ذہن میں نہیں تھی کہ زندگی میں کبھی یہ سنا ہی نہیں تھاکہ انسان کی اصل زندگی تو با طنی زندگی ہے اور یہ ظاہری زندگی تو سب مفروضہ فکشن کا نام ہے ۔میں نے یہ سب کچھ سوچ کر حضور کے سامنے عرض کیا کہ صاحب آپ نے ایسی عجیب بات فرمائی ہے کہ جس کا تصور بھی میرے ذہن میں نہیں بنتا اس لئے کہ اگر روحانی استادکے لئے یہ ضروری ہے کہ میں اچھا مقرر ہوں، تو تقریر مجھے نہیں آتی اگر مر شد کے لئے ضروری ہے اس کی معلومات عام لوگوں کی معلومات سے زیادہ ہو تو ، میں نے تو کبھی اسکول کے اندر قدم ہی نہیں رکھا  با ہر سے بہت اسکول دیکھیں ہیں لیکن اندر کبھی قدم ہی نہیں رکھا مر شد کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے اندر روح کی بالیدگی ہو اس کو روحانی پر واز حاصل ہو تو میں نے تو کبھی یہ بات سنی بھی نہیں ہے کہ روح بھی کبھی پر واز کر تی ہے ۔ جس ما حول میں، میں پیدا ہو ا جس ماحول میں، میں نے نشو ونما پا ئی وہاں پر روح کا کو ئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ تسلیم ہی نہیں کیا جا تا تھاکہ مادی جسم کے علاوہ کو ئی اور جسم بھی ہے۔ یہ میں نے اپنے ٹوٹے پھو ٹے الفاظ میں حضور کی خدمت میں عرض ومعروضات پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ بھئی بات یہ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازنا چا ہتا ہے،تو اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ نہیں دیکھتے کہ کس آدمی میں کیا صلاحیت ہے کس آدمی کے اندر کتنی سکت ہے ۔کو ئی آدمی کتنا کام کر سکتا ہے نہیں دیکھتے ، اللہ تعالیٰ کا ایک اپنا مزاج ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازتے ہیں تو نوازش اورکرامات کا یہ حصہ ہے کہ اس بندے کے اندر خود بخود تمام صلاحتیں پیداہو جا تی ہیں وہ اگرگونگا ہے تو بو لنے لگتا ہے بہرا ہے توسننے لگتا ہے اس کے اندر قوت پر واز نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بال وپر دے دیتا ہے وہ اگر بد صورت ہے تو لوگوں کو خوبصورت نظر آتا ہے اگر اس کا تکلم اچھا نہیں ہے تو اس کے تکلم میں ایسی شیر ینی  اور حلا وت اللہ تعالیٰ داخل کر دیتا ہے کہ سننے والے اس کے تکلم کاانتظار کر تے ہیں اس کو لوگ نا چاہتے ہو ئے بھی ایسے سنتے ہیں اس کے چہرے پر ایک ایسی انوارو تجلیات کی چادر تن جا تی ہے کہ لوگ چہرے کو تکتے رہتے ہیں سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں آپ کو یہ نہیں سو چنا چا ہئے آپ کا کام صرف اتنا ہے اللہ تعالیٰ نے کیو نکہ انتخاب کر لیا ہے اس لئے آپ را ضی بہ رضا ہو جائیں۔ تو راضی بہ رضا ہو کر خود کو مرشدکے سپر د کر دیا مر شد نے توجہ سے، تصرف سے گفتگو سے، تر بیت کی، اب تربیت کا محور یہ ٹہرا تو صدیو ں پرا نی جو خاندانی روایا ت ہیں ان روایات کو ختم کرکے نئی روایات میں زندگی گزریں او ر وہ نئی روایات کیا ہے وہ نظر نئی روایات آتی ہیں لیکن اصل میں اصلی روایات وہی ہیں کہ انسان جو بھی کچھ کریں وہ اللہ کے لئے ہو، اس میں اپنی ذات کا عمل دخل نہ ہو۔  اس بنیاد پرتربیت شروع ہو ئی ظاہر ہے صدیوں پرا نا شعور اس بات کو کیسے بر داشت کر لیتا صدیوں پرا نی روایات اور اس نئی زندگی کی روایات کے بیچ لڑا ئی شروع ہو گئی۔ شعور میں اور پیرو مر شد کی طرز فکر میں بہت لڑا ئی ہو ئی بہت تکلیف بھی ہو ئی ،  بہت زیادہ مزاحمت بھی کی گئی مزاحمت جب بڑھ گئی تکلیف اتنی زیادہ ہو گئی کہ احسا سِ تکلیف ختم ہو گیا تو ایک دن سامنے بیٹھا کرفرمایا کہ زندگی گزار نے کے دو طریقے ہیں ،  خوش رہو یا ناخوش رہو۔  خوش رہنے کے بھی دو طریقے ہیں ۔کچھ بنے کے بھی دو طریقے ہیں ،کسی سے کچھ حاصل کر نے کے بھی دو طریقے ہیں اور کسی کو کچھ دینے کے بھی دو طریقے ہیں اور وہ دو طریقے یہ ہے انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دو سروں سے اپنی بات منوا سکے ،انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے ، انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو وہ صدیوں پرانی روایات کو سینے سے لگا کر ان روایات کا تحفظ کر سکیں ، ان روایات کوجار ی و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا سے مقابلہ کر سکیں۔ ایک تو یہ طریقہ اس طریقے کو دنیا والے Independentدنیا کہتے ہیں خود مختار زندگی کہتے ہیں۔  یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ دوسروںسے منوایا جا ئے ، جو آپ خود ہیں و ہ دوسروں کو بنا دیں دوسرا طر یقہ وہ یہ ہے آپ اپنی نفی کر دیں یعنیIndependentزندگی کو داغ مفارقت دے کر Dependentہوں ۔دوسرو ں کے اوپرخود کو چھوڑنا آپ کی جو ساخت ہے آپ کی جو تخلیق ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس فطرت سے پیدا کیا ہے وہ فطر ت Independent نہیں ہے ۔آپ کی ساخت ہی اس بنیاد پر ہو ئی کہ آپDependent ہوکر زندگی گزاریں لہذا ضروری ہے کہ Independentخود مختار زندگی سے دست بردار ہو اور اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیں آپ کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے آپ کسی کو اپنا بنا لیں آپ کے اندر یہ صلاحیت بے حد تک موجود ہے آپ دوسرے کے بن جا ئیں بات اتنی گہری تھی ہے کہ آپ لوگ محسوس کر رہے ہونگے اب تک سمجھ میں نہیں آیا کیا بات ہوئی ۔  اپنے آپ کو کیسے دوسروں کے سپر د کر دیں اپنی اناء کو اپنی ذات کو کس طرح ختم کر دیا جا ئے بہرحال میں نے غوروفکر کیا اوراللہ سے دعا کی اللہ تعالیٰ اس خود مختار زندگی سے مجھے نجا ت عطا فرما دے اور پا بند زندگی  Dependentزندگی ہمیں عطا کر دے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کے بھروسے سے میری سمجھ میں آگئی جب مر شد اپنا ہے،  جب یہ بات تسلیم ہے کہ مر شد ہی نے سب کچھ بتا نا ہے تو یہ بات بھی سامنے ہے کہ مجھے تو یہ علم آتا ہی نہیں یہ بھی پتا نہیں ہے میں کہاں سے آیا ہوں یہ بھی پتا نہیں مجھے کہاںجانا ہے اس کا بھی سراغ نہیں ملتا تو پھر یہ زندگی فی الواقع  کیا ہے؟ مفروضہ ہے؟ فکشن ہے؟ کیا ہے ؟بہر حال میں نے یہ بات طے کرلی مجھے اب  Independent زندگی نہیں گزارنی جو کچھ کہا جا ئے گا وہ ہو جا ئے گا بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے تر بیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ایسی ایسی با تیں سامنے آئیں جن با توںکو شعور نے قبول کر نے سے انکار کیا نہ صرف انکا ر کیا بلکہ شعور پر ایسی ضرب پڑی کہ انسان اس تکلیف کاادراک تو کرسکتا ہے لیکن الفاظ میں بیا ن نہیں کر سکتا کئی مر تبہ ایسا ہو تا تھا کہ ذہن کے اندر ایک لڑا ئی ہو تی تھی حضور نے کچھ فرمایا شعور کہتا ہے یہ بات بڑی غلط ہے اس کا نہ شعور سے تعلق ہے ،اس بات کو نہ دنیا داری سے کوئی تعلق ہے ،نہ کو ئی قاعدہ ضابطہ یہ بتا تا ہے کہ یہ صحیح غلط کا تجھے پتا ہی نہیں کیسے فیصلہ کیا جائے کہ تو صحیح ہے،  غلط ہے،  لہذا کچھ پتا ہی نہیںتو مر شد کا کہنا صحیح ہے اس مزاحمت میں ا س لڑائی میں بہت مر تبہ ایسا ہوا کہ میرے کندھوں پر وزن پڑ گیا اور وزن کا احساس منوں کے حساب سے کئی ٹن وزن کندھوں پر رکھا اور اس وزن سے میں گر جا تا تھا اور اس وزن کا اتنابوجھ ہوتا تھا ،اتنا بوجھ ہو تا تھا اس کا وزن اتنا زیادہ ہو تا تھا کہ میں کھڑے کھڑے بیٹھ جا تا تھا اور با وجود ہمت اور کو شش کے کھڑا نہیں ہو تا تھا مجھے فزیکلی محسوس ہوتا تھا کندھو ں پر زیادہ وزن ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہو تا تھا ایک بات انہوں نے فرما ئی آسمان کی اور شعور نے زمینی حواس سے جو سمجھنا چا ہا تو اس میں بھی شعوری مزاحمت اتنی زیادہ ہوجا تی تھی خودکشی کو دل چا ہتا تھا ،کپڑے پھاڑنے کو دل چا ہتا تھا، کبھی کبھی تو یہ دل چا ہتا تھا کہیں چھلانک لگا لوں چھت کے اوپر سے، کبھی دل چا ہتا تھاسمندر میں کو د جاؤں یعنی اس قسم کبھی بیزاری، اذیت ،تکلیف کہ جس کے بارے میں کوئی کسی سے تذکرہ بھی نہیں جا سکتا تھا اس لئے کہ کوئی ہم راز ہی نہیں تھا اب اگر پرو مر شد سے اس کیفیت کا تذکر ہ کیا جا تا ہے ۔تو یہ بات تو ظا ہر تھی ان ہی کی وجہ سے سب کچھ ہو رہا تھا تو یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اذیت اور تکلیف کے احساس سے شعور بے فکر ہو تا رہا کبھی کھا نے کی تکلیف، کبھی پہنے کی تکلیف ،کبھی نیند نہ آنے کی تکلیف ،کبھی منفی خیا لات کا دباؤ،کبھی شیطانی وسوسوںکا دور ،کبھی رحمان غالب آجا تا تھا کبھی شیطان غالب آجا تا تھایہ سلسلہ دس سال تک چلا ،  اگر دس سالہ زندگی میں خوشی اور غم دو نوں متوازی ہو تے ہیں کسی چیز کا غم نہیں ہو تا کسی چیز کی خوشی نہیں ہو تی تھی، لیکن دس سالوں میں ممکن ہے کہ دس ہفتے خوشی کے گزریں ہونگے با قی سب اذیت ہی ہو گی یہ بات سب جا نتے ہیں جب کو ئی آدمی اذیت سے گزرتا ہے اذیت کا دور خوشی کے دور میں نہ وہ بیان کر سکتا ہے نہ وہ تا ثر قائم ہو تا ہے ۔ ایک آدمی اگر پر یشان ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پر یشانی دور کر دی تو جب وہ پر یشانی دور ہو جاتی ہے تو اس پر یشانی کو بیان تو کر تا ہے لفظوں میں لیکن اس پر یشانی کا کو ئی تا ثر قائم نہیں ہو تا۔ دس سال یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، ان کے انعام سے سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی خصوصی توجہ اور نسبت سے ایسا ہو گیا اس دس سال کے بعد ذہن کی بنیاد یہ بنی کہ جو کچھ کہا جا تا تھا بس وہی سب کچھ تھا اور جو کچھ نہیں کہا جاتا تھا وہ کچھ نہیں تھا۔ ذہن کے اندر کو ئی خیال ہی نہیںآتا تھا ایسا لگتا تھا ذہن ما ؤ ف ہو گیا ہے جو بات جتنی کہہ  دی بس اتنی سمجھ میں آگئی نہ لفظوں کا کو ئی مفہوم ذہن میں آتا ہے نہ کو ئی معنی سمجھ میں آتے ہیں نہ اس کے پیچھے کسی حکمت کا پتا چلتا ہے انہوں نے کہا صاحب یہ ایک لو ٹا ہے بس ایک لوٹا ہے ،  لو ٹا کیا ہے یہ کچھ نہیں تو تر بیت کا یہ سلسلہ چلتا رہا چلتا رہا اور سولہ سال تک یہ سلسلہ رہا ۔دس سال تواذیت کا سلسلہ قائم رہااور چھ سال اس اذیت کو بھولنے کا سلسلہ قائم رہا سولہ سال کے عرصے میں ذہن کی رفتار بھی بڑھی، انداز تربیت میں بھی تبدیلی آئی اور تبدیلی یہ آئی یہاں کچھ بھی ہے جو بھی کچھ ہے وہ اللہ ہے، اللہ چا ہتا ہے بندہ پیدا ہو جا تا ہے ، اللہ چاہتا ہے وہ بندہ جوان ہو جا تا ہے اور اللہ چا ہتا ہے وہ بندہ اس دنیا سے رخصت ہو جا تا ہے پیدا ہوا جوان ہوا بوڑھا ہوا مر گیا ،  یہی پو ری کائنات کی زندگی ہے،  جب پیدا ہوا کچھ ساتھ نہیں تھاجب مرا کچھ ساتھ نہیں لے گیا محلات بنائے ،کارخانے لگا ئے ،دو کان کی، روز گار کے حصول میں جدو جہد کی ، دنیا بھی خراب کی ‘آخرت بھی خراب کی ،  اچھا آیا تھا برا چلا گیا یہ بات سولہ سال بعد ذہن میں آئی۔ ذہن میں تو سب کے آتی ہے سب جا نتے ہیں کہ کو ئی آدمی یہاں نہ کچھ لے کر آتا ہے نہ کچھ لیکر جا تا ہے ہر آدمی یہ جا نتا ہے لیکن اس بات کا یقین آدمی کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔  یہ یقین پیدا ہو نے کے لئے آدمی یہاں کچھ لیکر نہیں آتا اور کچھ لیکر نہیں جا تا اس یقین کو مستحکم ہو نے کے لئے سولہ سال زندگی  کےلگے ۔اور وہ سولہ سال کی زندگی انفرادی زندگی نہیں ہے ۔مرشد کی قربت کی زندگی ہے شب و روز مرشد کے ساتھ قربت رہی یہ بات سمجھ میں آئی کہ بھئی سچی با ت یہ ہے کہ انسان نہ پیدا ہو نے پر با اختیار ہے پتا ہی نہیں با اختیار تو جب ہو جب اس کو پتا ہو اسے پیداہونا ہے، کہاں پیدا ہونا ہے اسے علم ہی نہیں ہے کہ سید کے یہاں پیدا ہو نا ہے ،پٹھان کے یہا ں پیدا ہونا ہے،جاپان میں پیدا ہونا ہے،امریکہ میں پیدا ہونا ہے ، پاکستان میں پیدا ہونا ہے،  یا نہیں پیدا ہو نا پتا ہی نہیں ہے ۔ جب اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہاں پیدا ہو نا ہے تو با اختیار ہو نا الگ بات ہے سوال ہی پیدا نہیں ہو تا آپ پیدا ہوگئے جہاں اللہ نے چا ہاچمار کے یہاں چاہا چمار کے یہاں پیدا ہو گئے ،بادشاہ کے یہاں چاہابادشاہ کے یہاں پیدا ہو گئے ،چپٹی ناک سے پیدا کر دیا آپ چپٹی ناک سے پیدا ہو گئے، کھڑی ناک سے پیدا ہو گئے اللہ تو بہت بڑا ہے آپ کا رنگ کا لا ہو اللہ نے پیدا کیا کالا بنا دیا تو آپ کالے پیدا ہو گئے ،گورے بنا دیا تو آپ گورے پیدا ہو گئے آپ جتنا بھی غور کریں گے آپ کو یہ جواب ملے گا کہ پیدا ہو نے پر کو ئی شخص کو ئی فرد کسی بھی طرح با اختیار نہیں اب پیدا ہو گیا بے اختیار بندہ آدمی پیدا ہو گیا اب اس کو اس بات کا اختیار نہیں ہے وہ پیدا ہو نے کے بعد جوان ہو جا ئے اگر پیدا ہو نے کے بعد سال میں دو سال میں اس پر موت وارد ہو گئی ،جوانی کا تصور ہی نہیں ہوا آپ نے دیکھا ہو گا جوانی میں لوگ مر جا تے ہیں ، جوان ہو نے کے بعد بھی مر جا تے ہیں ،بو ڑھاپا آنے سے مر جا تے ہیں اور بوڑھا پا آنے کے بعدبھی نہیں مرتے تو اس کامطلب یہ نکلا آپ کو جس طرح پیدا ہو نے پر اختیار حاصل نہیں ہے تو اسی طرح مر نے پر بھی آپ کو کو ئی اختیار نہیں ہے یعنی زندہ رہنے پر بھی کو ئی اختیار حاصل نہیں ہے جب آپ کی موت آئے گی آپ مر جائیں گے حضور قلندر بابااولیا ء ؒ ارشاد فرمایا کر تے تھے کہ انسان عجیب بے قوف ہے موت سے ڈرتا ہے اور موت ہی انسان کی سب سے بڑی محافظ ہے ۔ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ …اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کردیا ہے زمین پر رہنے کے لئے ،  موت مر نے نہیں دیتی جب تک وقت کا تعین پو را نہیں ہو جا تا ملک الموت کی جہاں یہ ڈیوٹی ہے وہ روح قبض کر ے ملک الموت کی یہ بھی ڈیوٹی ہے کہ وقت معین سے پہلے کسی آدمی کودنیا سے با ہر نہیں جانے دیتا،  اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی محافظ موت ہے اورانسان اس سب سے بڑے محافظ سے ڈرتا ہے ہر آدمی موت سے ڈرتا ہے حالانکہ موت سے آپ ڈریں یا نہ ڈریں اگر اس کا وقت نہیں ہے تو آپ مر نہیں سکتے اگر وقت آگیا ہے تو آپ رک نہیں سکتے ایک ایسی حقیقت ہے دنیا کا کو ئی ایک فرد انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے با وجود سب جانتے ہیں وقت مقررہ تک یہاں رہنا ہے اور وقت مقررہ کے بعد یہاں سے جا نا ہے لیکن سب موت سے ڈرتے ہیں آپ اگر خیال فرمائیں تو حضور نے فرمایا کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں، Independent زندگی گزرنا ہے ایک Dependentزندگی گزارنا ہے ۔ Dependentزندگی کا مطلب یہ ہے جب آپ کو یہ اختیار ہی نہیں آپ پیدا ہو جا ئیں تو بھئی پیدا ئش کا مسئلہ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،  جب آپ کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ میری عمر کتنی ہے دو سال ہے ، اسی سال ہے ،نوے سال ہے سو سال ہے تو کیا ڈرنا، کیا حساب لگا نا بھئی اللہ تعا لیٰ نے بھیج دیا آگئے جب بلالیا چلے جا ئیں گے ۔ Dependentاور Independent زندگی یہ دو ایسے رُخ ہیں زندگی Dependentگزارے گا اللہ کے برگذیدہ بندے وہ ہی ہو تے ہیں جو Dependentہو تے ہیں اب اللہ کو تو کسی نے دیکھا نہیں اب اللہ کے روپ میں یا اللہ کی صفا ت میں مظاہراتی خدو خال میں مر شد کی ذات ہے اگر اللہ کی رسائی حاصل کر نی ہے تو اس دنیا کے بعد دو سری دنیا ؤ ں میں داخل ہو نا ہے اس لئے ضروری  ہے  Independent  جو ذہن ہے اس کو کھولنا ہے اور وہ خود کو مرشد کی ذات سے وابسطہ کردیں۔  مرشد کے ساتھ با لکل  Dependent  رہے یہ  Dependent  ہو نے کا عمل یا اس کی پریکٹس یا اس میں یقین کا درجہ حاصل کر نے کے لئے سولہ سال کا وقفہ لگتا ہے اور یہ سولہ سال کے وقفے میں ایک ہی بات سامنے رہی کہ کس طرح بندہ اپنے آپ کو مر شد کے نام پر فنا کر دیتا ہے روحانیت کا یہ اصل حصول ہے کہ مر شد کی ذات میں اگر فنائیت نہیں ہو گی ، تو مر یدمیں مرشدکی طرز فکر نہیں ہو گی اس لئے کہ مر شد کی طرز فکر اگر دودھ کی طرح ہے اگر گلاب کی طرح ہے ۔تو دودھ کے لئے بھی گر فت چا ہئے پیا لہ چا ہئے اگر مرشد کی ذات یہ ایک طرز فکر ہے تو اس طرز فکر کے لئے بھی ایک  pattern  چا ہئے پہلے سے ہی ایک  pattern  بنا ہواہے پہلے سے ہی پیا لہ بھرا ہو اہے ایک پیا لے میں مادیت کی زندگی جمع ہے اس پیا لے میں آپ گلا ب کیسے ڈال سکتے ہیں اس پیالے میں دودھ کیسے انڈیل سکتے ہیں ضروری ہے کہ پہلے ا س پیا لے کو خالی کیا جا ئے پھر اس پیا لے کو مانجھ کر، صاف کر کے قلعی کیا جا ئے اور اس کے بعد آپ اس میں دودھ ڈال دیں شہد ڈال دیں یا پانی ڈال دیں یہ آپ کی مر ضی ہے روحانیت کا اصول جو مجھے مرشد کریم قلندر بابااولیا ء ؒ نے بتا یا یہ فرمایا روحانیت نہ سیکھنے سے آتی ہے نہ سکھا  نے سے آتی ہے روحانی علوم  ا ب ت کی طرح نہیں پڑھا ئے جا تے، رو حانی علوم سیکھنے کے لئے قلم اور تختی کی ضرورت پیش نہیں آتی، روحانی علوم سیکھنے کے لئے ابھی تک کوئی قاعدہ مرتب نہیں ہوا، کوئی کتاب نہیں بنی یہ جو آپ کتا بیں پڑھتے ہیں اولیا ء اللہ کے واقعات ہیں ، اولیا ء اللہ نے تصوف پر بہت کچھ لکھا یہ دراصل اس بات کی کو شش ہے آپ  Independent  ذہن کو  Dependent  ذہن میں تبدیل کر دیں یہ ایک رہنمائی ہو تی ہے اس سے، کتابیں پڑھنے سے رو حانیت نہیں ملتی ۔ کتابوں سے آپ کے اندر وہ طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے ۔جس طرز فکر کی موجودگی میں آپ کے اندر ایسا  pattern  بن جا تا ہے کہ جس میں روحانی علوم پڑھائے جا تے ہیں ہماری صور ت یہ ہے کہ ہم نے چار لفظ پڑھ لئے پہلے تو روحانیت کے بارے میں پوری جان کا ری لے لی ،  اب حضور قلندر بابااولیاء ؒ کے اعجاز سے روحانی علوم کھولنے شروع ہو ئے اب یہ پتا چل گیا یہ عرش ہے،  یہ کر سی ہے ، حجاب عظمت ہے،  حجاب محمود ہے،  سدرہ المنتٰی ہے،  بیت المعمور ہے ، کہکشانی بیشمارنظام ہے ،  بیشمار دنیا یں ہیں،  بے شمار سورج ہیں، بے شمار چاند ہیں الگ الگ سیارے میں کہیں ٹرانسپرنٹ ہے کہیں چھوٹا ہے کہیں موٹا ہے ۔جس کو ہم کہتے ہیں صاحب بڑی روحانیت ہم نے سیکھی،  روحانیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پو ری پو ری طرح اس طرح تعلق قائم کر لیں آپ کی اپنی سوچ اپنی نہ رہے آپ کی سوچ اللہ کی سوچ بن جا ئے اور اس کو قرآن پا ک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے  وراسخون فی العم …جب لوگوں کے اندر الہٰی صفات کی منتقلی کا پٹرن بن جا تا ہے اور اللہ کی طرز فکر ان کے اندر مستحکم ہو جا تی ہے یعنی اپنی ذات کی نفی کر کے انسان کے اندر اللہ کے علاوہ کچھ نہیں رہتا استحکا م اس کوہو تا ہے  یقولون …ایسے لوگ کہتے ہیں اٰمنا …یہ بات ہم نے مشا ہدہ کر لی ہے اس بات پر یقین کا درجہ حاصل کر لیا ہے  یقولون…کہ یہاں رب کے علاوہ کچھ نہیں ہے خیال آرہا ہے وہ بھی رب کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،بھوک اگر لگ رہی وہ بھی رب کی طرف سے لگ رہی ہے ،پیاس اگر لگ رہی تو پیاس کا تقاضہ بھی اللہ کی طرف سے آرہا ہے ،انسان کے اندر اگر حرکت ہے وہ بھی رب کی طرف سے ہے انسان کی اگر وریدوں اور شریانوں میں خون اگر دوڑ کر رہا ہے وہ بھی رب کی طرف سے ہے اگر انسان کی وریدوں اور شریانوں میں خون دوڑ نابندہو گیاہے وہ بھی رب کی طرف سے ہے، دنیا کی کوئی مشین کو ئی طا قت ایک دفعہ اگر آدمی مر جائے تو رگوں میں وریدوں میں شریانوں میں خون نہیں دوڑا سکتی،  انسان کی پیدائش رب کی طرف سے ہے ، انسان کی موت رب کی طرف سے ہے ،یہ پتا ہی نہیں ہے انسان کو، انسان ہے کیا؟  اسے تو یہ بھی علم نہیں ہے انسان جب زمین پر چلتا ہے پھرتا ہے سوچتا ہے کہاں سے سوچتا ہے کہاں سے اس کو فیلنگ مل رہی ہے کو ن سی وہ بر قی رو ہے جس بر قی رو کی بنیاد پر وہ دوڑ بھی رہا ہے چل بھی رہا ہے سو بھی رہا ہے جاگ بھی رہا ہے شا دی بھی کر رہا ہے بچے بھی ہو رہے ہیں اورجب وہ بر قی رو کسی انسان سے رشتہ توڑ لیتی ہے وہ فنائیت کے ایسے درجے میں داخل ہو جا تا ہے نہ اسے بھوک لگتی ہے نہ اسے پیا س لگتی ہے ،نہ اس کے اندر کو ئی تقاضہ ابھر تا ہے پھر کیسے کو ئی انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کی زندگی میں اس کا کو ئی ذاتی اختیار ہوتا اگر انسان کے اندر اس کا کو ئی ذاتی اختیار کام کر تا ۔ انسان جس طرح ا س دنیا سے محبت کر تا ہے دنیا کی چپک انسان کو جس طرح اس دنیا میں ذلیل و خوار کرتی پھرتی ہے اور انسان مر نا تو بعد کی بات ہے مر نے کا تصور ہی نہیں کر سکتا ، اگر انسان کا اختیار ہوتا توکو ئی انسان کبھی بیمار نہیں ہو تا، کو ئی انسان کبھی لا غر نہ ہو تا، کو ئی انسان کبھی بو ڑھا نہیں ہو تا، کسی انسان کا بچہ نہ مر تا، کسی انسان کی ماں نہیں مرتی ، کسی انسان کا باپ نہیں مر تا، کو ئی انسان معذور نہ ہو تا۔ آپ جب اپنی زندگی کاتجزیہ کر یں گے تو حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کے ارشاد کے مطا بق کو ئی ایک آدمی اپنے ایک عمل میں Indepndent  نہیں ہے اس لئے کہ خیال آئے گا تو آپ کچھ کا م کر یں گے وہ خیال شیطانی وسوسے سے متعلق ہو،  وہ خیال رحمانی طرز فکر سے متعلق ہو یہاں ما شا اللہ سب پڑھے لکھے لو گ موجودہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلسل پینتیس سال کی جدو جہداور کو شش سے آنکھیں کھل گئی اور یہ بات سمجھ میں آجا تی ہیں اتنے بڑے ہجوم میں کیا کو ئی ایک آدمی اس بات کااظہا ر کر سکتا ہے کہ زندگی کا کوئی عمل خیال آئے بغیر کیا جاسکتا ہے کوئی ایک عمل اگر کیا جا سکتا ہے اگر انسان با اختیار ہے عمل کر نے میں،  اتنے بڑے مجمعے میں کتنے لوگ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ زندگی سو سال ،اسی سال، ستر سال کی زندگی میں کوئی ایک کام بغیر خیال آئے کیا جا سکتا ہے تو وہ برائے مہربانی ہاتھ اٹھا ئیں کو ئی ایک حرکت سو سال کی زندگی میں۔  سو سال کی زندگی کا اگر آپ حساب لگا ئیں گھنٹے اور منٹ سیکنڈ اور لمحہ کتنے بنتے ہیں کروڑوں سے تجاوز کرجائے۔  یعنی اگر انسان کی ستر سال کی زندگی ہے تو ستر سال کی زندگی میں کروڑوں عمل کئے ہیںکروڑوں کام کئے ہیں کروڑوں فیصلے کئے ہیں ان کروڑوں فیصلوں میں سے ان کو ئی ایک عمل آپ بتا ئیں جو اللہ کی طرف سے خیال آئے بغیر آپ کریں ۔کو ئی ایک بات بھی آپ نہیں بتا سکتے انسان مجبور ہے ،  انسان وہی کچھ کر تا ہے جو اسے اوپر سے اللہ  feedکر تا اہے انسان سو تا اس وقت ہے جب اس کے شعور میں یہ بات آجا تی ہے اگراب نہیں سویا گیا تو مزید حرکت نہیں ہو گی اسی طرح انسان کھا نے پرمجبور ہے، پینے پر مجبور ہے،شادی بیاہ پر مجبور ہے ۔ جو انسان مجبور ہے او ر اس کی اپنی ذات میں ایک عمل بھی ایسا نہیں ہے جس میں وہ  independent ہو۔ تو یہ کیسی بے وقوفی ہے انسا ن اپنے آپ کو بااختیار سمجھتا ہو اور با اختیار ہو کر وہ اللہ سے دور ہو رہا ہے۔  حضور قلندر بابااولیا ؒ کا ارشاد ہے کہ اگر انسان اس بات کو سمجھ لے اس حقیقت سے آشنا ہو جا ئے کہ یہاں کوئی بھی مخلوق انڈپینٹ نہیں ہے تو مسئلہ حل ہو جا ئے گا تو جب کو ئی مخلوق  Independent  ہے ہی نہیں سب  Dependent ہے جب  Dependent ہے تو کس پرDependent ہے وہ اللہ ہے وہ خالق ہے وہ مالک کل ہے وہ قادر مطلق ہے تو زندگی گزارنے کے حضور قلندر بابااولیاء  ؒ نے دو رُخ بتا ئے ایک  Independent  ہو نا یعنی اپنے اناء کے خول میں بند ہوکر زندگی گزرنا، کبر کرنا ، اقتدار کی خواہش ہو نا، اپنے آپ کو منوانا، ضد کر نا، بحث کر نا ،فساد بر پا کر نا ،بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو منوانا یہ منوانا میں بااختیار ہوں یہ سب کا سب عذاب ہے اور یہ طرز عمل کہ ہم اپنی زندگی میں با ختیار بھی اسی وقت ہے جب اللہ چاہے، اب اللہ تعالیٰ نے ہاتھ دئیے اس ہاتھ کو ہم کس طرح استعمال کرتے ہیں اگر اس کو آپ یہ کہیں گے صاحب اس میں ہم با اختیار ہیں اس میں خیال آتا ہے ،خیال کسے کہتے ہیں آپ کے اندرایک حرکت ہو تی ہے ایک مقنا طیس کام کر رہا ہے اس کے تحت آپ کام کر رہے ہیں اب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اختیار ات کو دو رُخ دے کر اچھا ئی اور برا ئی کا تصوردیا۔ اچھا ئی اوربرا ئی کوئی چیز نہیں ہے کتنے پیغمبر علیہ الصلوٰ ۃ والسلام تشریف لائے ان کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انہوں نے انسان کے اندر اچھائی اور برا ئی کا تصور منتقل کیا لیکن یہاں اس دنیا میں کو ئی کام نہ اچھا ہے نہ برا ۔کو ئی کام اچھا ہے تو اچھی نیت کی وجہ سے ،برا ہے تو برا نیت کی وجہ سے۔  اصل میں اچھا ئی اور برا ئی، عمل کا مطلب ہے اس عمل میں جو عمل آپ آسمان سے آئے ہوئے خیالات کے تحت انجام دے رہے ہیں اس کے معنی کیا پہنا رہے ہیں ایک آدمی تھپڑ مارتا ہے دوسرے آدمی کے اصلاح کے لئے خیر ہے دوسرا آدمی دو سرے کے اتنی زور سے تھپڑ مارتا ہے نفرت ، حقارت سے ، عمل ایک ہے تھپڑ مارنا چوٹ لگنا اس میں کو ئی فرق نہیں ہے دونو ں حال میں چوٹ لگے گی لیکن یہ عمل خیر اور عمل شر بھی اسی وقت تک ہے جب تک آپ کے اندر زندگی دوٖڑ رہی ہے ۔اور زندگی کے بارے میں کو ئی اختیار ہی نہیں ہے زندگی ہے کیا؟اس بات سے کو ئی واقف ہی نہیں ہے زندگی کیا ہے ؟اب کہتے ہیں زندہ ہے حرکت ہے ہر طرف آدمی چل رہا ہے ،پھر رہاہے ،کا روبار کر رہا ہے، بیاہ کر رہاہے ،بچے پیدا کر رہا ہے نئی نئی ایجادات کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ابھی تک یہ بات طے نہیں ہو ئی زندگی ہے کیا؟ زندگی کچھ نہیں ہے زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی جان ہے کہ جب تک اللہ تعا لیٰ میرے لئے ،آپ کے لئے ،بکر کے لئے ،زید کے لئے یہ چاہتے ہیں کہ اس کے اندر حرکت رہے تو ہم سب زندہ ہیں او جب اللہ تعالیٰ نہیں چا ہتے زندہ نہ رہے۔  روز آپ دیکھتے ہیں کتنی دنیا پیدا ہو ئی اور مرگئی جتنی دنیا اب ہے مر جا ئے گی ۔بعد میں جتنی دنیا پیدا ہو گی اس ہستی سے جومعبود ہے،  تو روحانی لوگوں کے لئے خصوصاً سالک لوگوں کے لئے، تصوف کے راستے پر چلنے والے لوگوں کے لئے ،عظیمی بہن بھائیوں کے لئے اور جو خود شنا سی کے ساتھ ساتھ خداشناس ہو نا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی زندگی کا تجزیہ کر یں اپنے اندر تلاش کر یں کیا واقعہ آپ با اختیار ہے کیا زندگی کے کسی بھی لمحے میں آپ کا اختیار عمل کر رہا ہے جب آپ سوچیں گے تو ایک ہی بات سمجھ میں آئے گی ۔وہی اختیار آپ کوملے گا جو اللہ چاہے گا، اب اختیار کیا ہے اللہ کا چاہنا ہے  اور جب اللہ کا چا ہنا ہی ساری زندگی ہے تو پوری زندگی اللہ کے سپرد کر دیں اور اللہ کے ساتھ سپردگی ہی روحانیت ہے اللہ کے ساتھ خود کو وابسطہ کر نا ہی روحانیت ہے ، اللہ کے ساتھ معاملات کو سمجھنا ،اللہ کے علوم کو سیکھنا ،  اللہ کے اوصاف کو تلا ش کرنا اپنے اندر ، زمین کے اوپر اور زمین کے اندر، آسمانوںپر، کا ئنات پر یہ سب روحانی راستے پر چلا نے کے لئے اسباق ہیں۔ ا نسان کے اندر اگر تفکر نہیں ہو گا انسان اگر خود کو اللہ کے ساتھ  Dependent نہیں کر ے گا تو اس کی حیثیت جانور سے بدتر ہو گی ، اشرف ہو نا تو بہت بڑی بات اس کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہو گی حضور قلندر بابااولیاء ؒ کے ارشاد کے مطا بق ہر روحانی مسافر کے لئے ضروری ہے کہ وہ  Independent  زندگی کواپنے اوپر مسلط نہ ہو نے دے  Dependent  زندگی اور اللہ کے ساتھ  Dependent  ہو کرزندہ رہے لیکن کیوں کہ وہی بات ہے اللہ تعالیٰ سامنے نہیں ہے سامنے پیرو مر شد ہے،  رسول اللہ  ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ان تعلیمات کے مطا بق خود کو اس طرح ڈھال لیں اس تعلیمات میں ان کی طرز فکر میں ان کی اپنی ذات بھی ہے ،مسلمان ہونے کے لئے شرط ہے کلمہ پڑھنا  ’لا الہ الامحمدرسول اللہ ‘  اب اس کا تر جمہ  ’’نہیں کو ئی معبود مگر اللہ ‘‘  کا کیا مطلب ہوا اس کا لا الہ الاللہ  نہیں کو ئی معبود مگر اللہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں جو معبود کا تصور ہے ہم اپنی ذات کی معرفت،  عبادت کا جو مظا ہرہ کرتے ہیں وہ ہم اس کے پیچھے ہیں لا اللہ ۔ہم جس کو معبود جانتے ہیں وہ معبود ہے یہ ہم خاندانی روایات کے مطا بق،شعوری وسوسوں کے مطابق جس طرح خدا تراش لئے ہیں اس خدا کی پہلے نفی کر یں جب تک آپ اپنے بنا ئے ہوئے معبودوں کی نفی نہیں کریں گے آپ ایک خدا کو تسلیم نہیں کر سکتے لا اللہ ۔نہیں کو ئی معبود یعنی شعوری اعتبار سے جس خدا کو ہم خدا جا نتے ہیں ہم اس کی نفی کرتے ہیں الااللہ…مگر واحد ذات اللہ کو ایک مانتی ہے اپنی نفی کر نا بھی  Dependent  ہو نا بھی لاالہ اللہ …یعنی رسول اللہ  ﷺ جو اللہ کے قاصد ہیں جس طرح اللہ کے قاصد نے، اللہ کے محبوب بندے نے اللہ کا تعارف کروایا اس کو تسلیم کر تے ہیں اور جس طرح دو سرے بندوں نے اللہ کو تعارف کر وایا اس کی نفی کر تے ہیں الا الہ الا اللہ …شعوری اعتبار سے آپ کتاب کو تسلیم کر تے ہیں تو حقیقی خدا کو تسلیم کر نے کے لئے شعوری خدا کی نفی کر نا۔  (بھئی مجھے بتا دیں مجھے وقت کتنا ہو گیا اب یہ کہتے ہیں پا نی پیئے تقریر میں خود ہی پلادیتی ۔) تو مقصد یہ ہے کہ کسی روحانی طلب علم کو طلباء اور طلبات کو یہ بات ذہن نشین کر نی ہے جب تک  Dependent  زندگی اختیار نہیں کی جا ئے گی تب تک آدمی روحانی علوم نہیں سیکھئے گا ابھی وہ تذکرہ ہو رہا تھا کہیں سوال جواب میں ورکشاپ میں استاد کہتا ہے الف بچہ کہتا ہے الف تو استاد جب کہتا ہے الف تو بچے کو پتا نہیں ہو تا الف کیا چیز ہے تو انہوں نے کہا یہ کھڑی لکیر الف ہے لیٹی ہو ئی لکیر ب ہے اگر بچہ  Dependent  نہ ہو تو وہ الف کو کبھی الف کہے گا ہی نہیں یعنی کو ئی بھی علم سیکھنے کے لئے لازم ہے کہ آپ استاد کے سامنے با لکل غیر جا نب دار ہو جا ؤ اپنی ذات کی نفی کر کے اگر آپ اپنی ذات کی نفی نہیں کر یں گے آپ علوم نہیں سیکھ سکتے تو جب دنیاو ی علوم نہیں سیکھ سکتے تو رحمانی علوم کیسے سیکھیں گے ۔تو ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہو ئے کسی روحانی انسان کے بارے میں بات کر تا ہوں وہ اپنی زندگی کے تمام عوامل اپنے خیالات اپنے تصورات اور اپنے احساسات کا ذمہ دار خود کو نہ سمجھیں اس لئے وہ عمل اس وقت کر ے گا جب اللہ کی طرف سے اسے کوئی خیال آئے گا اللہ کی طرف سے اس کو خیال ہی نہیں آئے گا وہ عمل کیا کر ے گا تو یہاں سب کچھ اللہ ہے پھر ایک آیت میں آپ کے سامنے پڑ ھتا ہوں اس پر غور فر ما ئیں  وراسخون …اور وہ لوگ جو علم میں راسخ ہو جا تے ہیں جو حقیقی علم حاصل کر لیتے ہیں اور ان کا ذہن حقیقی علم کو قبول کر لیتا ہے ان میں الہٰی علوم قبول کر نے کا  pattern  بن جاتا ہے  یقولون …وہ کہتے ہیں  امنا بہ…ہمارا یقین ہے ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں یہاں کو ئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو آزاد ہو خود مختار ہو ہر چیز اللہ کی طرف سے قولون…اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا انعام اکرام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سعید روحوں میں شامل کیا ،  وہ اس لئے کہ یہ اتنی دور داز سے آنا راتوں کو جاگنا سردی میں بیٹھنا یہ صرف سعید روحیں ہی کر سکتی ہیں گھر سے بے گھر ہو نا حضور قلندربابااولیا ء ؒ نے فرما یا کہ پیرومر شد اپنے تصرف سے، محنت سے ، نسبت سے مرید کو دھوکر،  صاف کر کے اجلا کرکے جو روشنیاں اس کے اندر منتقل کر تا ہے مرید اگر ایک منٹ کا غصہ کرے تو تین سال رو شنیاں ختم ہو جا تی ہیں اور مر شد کا سب سے بڑا کام جو وہ یہی ہے کہ وہ بار بار مر ید کے اندر کثافت کو دھو تا ہے رو شنیاں منتقل کر تاہے اورمرید ایک منٹ کے غصے سے وہ رو شنیاں ضائع کر دیتا ہے ۔مرید بھی نہیں تھکتا پیرو مرشد بھی نہیں تھکتا اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تی ہے تو کام بن جا تا ہے ورنہ اسی صفائی ستھرائی میں پیرومرشد مر جاتا ہے یا مرید فوت ہو جا تا ہے۔  ایک منٹ کا غصہ تین سال کی لطیف رو شنیوں کو کھا جا تا ہے ۔  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو غصہ کر تے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت ہی نہیں کر تا یہاں صورت حال یہ ہے کہ غصے کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیںشوہر بیوی پر غصہ کر رہا ہے، بیوی شوہر پر غصہ کر رہی ہے ،اولاد ماںباپ سے ناراض ہے ،ماں باپ اولاد سے نا راض ہیں دو سری کمزوری جواللہ کو ناپسند یدہ ہیں اور جو رو حانیت کے لئے سب سے نا قابل برداشت ہے وہ اقتدار کی خواہش ہے ۔ہر آدمی اپنا اقتدار چا ہتا ہے ہر آدمی کرسی کے چکر میں ہے ۔یعنی اگر مسجد کا سکیرٹر ی بھی بن جا ئے نا تو وہ اس کر سی کو بھی نہیں چھوڑتا ،  لاکھوں روپے خرچ کر کے مسجد کی ہی کرسی حاصل کر لیتا ہے ۔  سچی بتادو بھا ئی اقتدار کا خواہش مند آدمی آپ یا د رکھیں اور اپنے ذہنوں سے یہ بات نکال دیں اقتدار کا خواہش مند آدمی کبھی رو حانی نہیں بن سکتا وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے میں نے سلسلے میں بھی یہ بات دیکھی ہے ذراسا نگران بن جائیں تو پتا نہیں کیا چیز مل گئی ان کو،  ذرا سی کو ئی ذمہ داری ہو ان کے سپرد ،  تو کہیں  گےصاحب ہماری تو بات ہی نہیں مانی گئی۔  نظام چلا نا الگ بات ہے اقتدار کے خواہش الگ بات ہے جو لوگ اقتدار کی خواہش کر تے ہیں وہ دنیا میں چند آدمی تو اکھٹے کر سکتے ہیں ہاتھ پیر تو چماو ا سکتے ہیں۔ رو حانیت میں اور تیسری بات حضور قلندر بابااولیا ء ؒ نے فرمائی جنس کا غلبہ اگر کسی عورت کے اوپر کسی مر دکے اوپر جنس غالب ہے یعنی وہ اعتدال سے ہٹ گیا ہے تووہ بھی کبھی روحانی نہیں ہو سکتا۔  اب یہ تین کمزوریاں ایسی کمزرویاں ہیں ،  یہاں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں میرا خیال ہے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا جب میں کم وپیش یہ کمزوریاں نہ ہوں سب سے خطرناک چیز تو غصہ ہے، کسی روحانی آدمی کو غصہ نہیں آتا حضرت علی کا آپ نے واقعہ سنا ہو گا کہ ایک غیر مسلم سے لڑا ئی ہو گئی حضرت علی نے اس کو گرا دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ کر سر قلم کر نا چا ہا رہے تھے،  تلوار سے کہ اس نے حضرت علی کے منہ پر تھوک دیا حضرت علی نے اس کو چھوڑ دیا اور کھڑے ہو گئے اس نے کہا اب تو آپ کو قتل کر دینا چا ہئے تھا تو انہوں نے کہا نہیں میں تجھے غصے کے تحت قتل نہیں کر نا چاہتا،  میرے سے تیری لڑا ئی اللہ کے لئے تھی اب جب تو نے میرے اوپر تھوک دیا مجھے غصہ آگیا غصے میں میں تجھے قتل کر تاتویہ میرے لیے ہوتا ، اللہ کے لیے نہیں ہوتا، تو یہاں سے چلا جا وہ آدمی اس بات پر مسلمان ہو گیا رسول اللہ  ﷺ کی سیرت طیبہ پر غور فرمائیں کہیں بھی غصہ آپ کو نظر نہیں آئے گا کیسے ہندہ جس نے آپ  ﷺ کے چچا کا کلیجہ چبا یا جب وہ اسلام میں داخل ہوئی،  اس کو بھی حضور نے معاف کر دیا مکہ میں کتنی حضور کو اذیتیں دی گئی کا نٹے بچھا ئے گئے،  سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوج رکھی گئی گر دن کے اوپر ، با ئیکاٹ کر دیا گیا ، کھا نا پینا بند کر دیا گیا مکہ شہر سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا لیکن جب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے حضور داخل ہو ئے تو تاریخ خاموش ہو گئی کہ کیسے بتائیں کہ ایک قطرہ خون کسی کانہیں بہا سب کو معاف کر دیا جو  خا نہ کعبے کے اندر ہیں اس کو معافی ،جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا وہ معاف ،جو کسی چھجے کے نیچے کھڑا ہو گیا وہ معاف ، جو کھڑا ہو ا اور اسلامی فو جیں اندر داخل ہوئیں وہ بیٹھ گیا وہ معاف ،کیسا ستم ہے یہ کیا   رسو ل اللہ  ﷺ کی امت ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں جہاں غصے کا کوئی نام ہی نہیں ہے معافی ہی معافی رحمت ہی رحمت امت کا یہ حال ہے کہ کو ئی گھر ایسا نہیں ہے جو غصہ سے خالی ہو ہر گھر میں لڑا ئی فساد لڑا ئی فساد غصہ اقتدار کی خواہش جو کام رسول اللہ  ﷺ نے نہیں کیا اور ان کی امت وہی کام کرے گی تو رسول اللہ  ﷺ کی قربت ان کو کیسے حاصل ہو گی تو روحانی آدمی کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہواپنے اوپر جتنا بھی جبر کرنا پڑے غصے سے خود کو آزاد کر دینا چا ہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ اقتدارکے خواہش ہو سلسلے میں اگر اللہ تعالیٰ کو ئی مقام عطا کر یں تو اس کو حق نہ سمجھا جائے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعزاز سمجھا جا ئے عزت سمجھا جائے اور اس اعزاز کی عزت افزئی یہ ہے کہ آپ اس طرح اپنے آپ کو پیش کر یں کہ آپ کو کچھ کہنا نہ پڑے لوگ آپ کو دیکھ کر آپ کے ذہن کو سمجھ لیں آپ کے مطا بق اگر غصہ آپ نے کیا،  غصہ رو حانیت کے خلاف ہے تو کبھی آپ کامیاب نہیں ہو نگے آج کی مجلس میں یہ طے کر کے اٹھنا ہے کہ اللہ کے بھروسے پر کو ئی آدمی ارادہ کر تا ہے جدوجہد کر تا ہے کو شش کر تا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں وعدہ فرمایا ہے  والذین جہا دُفی …کہ جو لوگ جدو جہد کر تے ہیں کو شش کر تے ہیں اپنے آپ کو بنانے کی الہٰی نظام کے تحت خود کو ڈھا لنے کے لئے عمل کر تے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدا یت بخشتا ہے ان کے لئے راستے کھول دیتا ہے ان کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے آپ جدو جہد کر یں کو شش کر یں اور ان تین   با توں کو ہمیشہ سامنے رکھیں غصہ نہیں کر یں،  اقتدار کی خواہش نہیں کر نی اور احترام کی زندگی گزارنی ہے  انااللہ لا یحب …اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بھی محبت نہیں کرتا جو اعتدال سے اور توازن سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیںاعتدال اور توازن کوئی ایسی بات نہیں ہے اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے اعتدال اور توازن یہ ہے کہ آپ کا ضمیر مطمئن ہواعتدال اور توازن یہ ہے کہ آپ کے اندر خود نمائی نہ ہو،اعتدال اور توازن یہ ہے کہ آپ کے اندر کبر نہ ہو،اعتدال اور توازن یہ ہے کہ جوآپ اپنے لئے چاہئیں وہ اپنے بھا ئیوں کے لئے چاہئیں ، اعتدال اور توازن یہ ہے کہ دین اور دنیا کو بیلنس کر یں ، اللہ تعالیٰ اس کو بھی پسند نہیں کر تے کہ آپ کھا نا نہ کھائیں کپڑے نہ پہنے گھر نہ بنائیں تو پھر تو دنیا کے بنا نے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا ۔اگر آدمی کھا نے نہیں کھائے گا کپڑے نہیں پہنے گا گھر نہیں بنا ئے گا پھر دنیا ،  دنیا پھر کیا ہو ئی اللہ تعالیٰ نے یہ جو رو نق لگا ئی ہے اللہ تعالیٰ نے روئی اس لئے بنا ئی کہ کپڑا بنے ، اللہ تعالیٰ نے ریشم اس لئے بنایا کہ کپڑا بنے ، اللہ تعالیٰ نے لوم اس لئے پیدا کی کہ آپ اس سے اپنا بہترین لباس بنا ئے، اللہ تعالیٰ نے زمین پر وسائل اس لئے پھیلا ئے کہ آپ ان سے آرام و آسائش حاصل کر یں وسائل کونہ استعمال کر نا بھی نا شکری ہے کفران ِ نعمت ہے ،  ولقد اتنا لقمن حکمت …حضور قلندر بابااولیا ء ؒ نے اس آیت کی تشریح میں اور تفصیل میں بیان فرمایاہم نے لقمان کو حکمت دی ولقد اتنا…اب اس کا مزید ترجمہ تو یہ ہے کہ ہمارا شکر ادا کریں لیکن لقمان اللہ کی دی ہو ئی نعمت پر تسبیح لیکر بیٹھ جا تے ہزار دانے کی اور یہ کہتے  یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے ، یااللہ تیرا شکر ہے کیا انعام و اکرام اور حکمت کا تقاضہ پو را ہو جا تا ؟شکر سے مراد یہ ہے کہ جو نعمت آپ کو حاصل ہے آپ اس کو استعمال کریں۔  ولقد اتنا …ہم نے لقمان کو حکمت دی تاکہ وہ استعمال کر ے اپنے لئے اور لوگوں کے لئے اور لقمان علیہ السلام نے اللہ کی دی ہوئی حکمت کو استعمال کیا اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ عطا کرتے ہیں اس لئے عطا کرتے ہیں لوگ اسے استعمال کریں اس سے استفا دہ کر یں اور جو لوگ اللہ کی نعمت سے استفا دہ کرتے ہیں اس صورت سے انہیں فا ئدہ پہنچتا ہے مستفیض ہو تے ہیں آرام و آسائش سے اور جو لوگ اللہ کی نعمت کو استعمال نہیں کر تے وہ محروم رہتے ہیں اب میرے پاس ایک شال ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی اب میں سر دی میں کانپ رہا ہوں اورشال استعمال نہیں کر رہا اور اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں ،  یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے شال دی یا اللہ تیرا شکر ہے تو شکر کا مطلب ہی استعمال کر نا ہے حضور قلندر بابااولیا ء ؒ فرما تے ہیں اللہ کی نعمت کو اس طرح استعمال کرو کہ تمہارا ذہن اللہ کی طرف جا ئے  ولقد اتنا لقمان…کہ ہم نے لقمان کو حکمت دی اس لئے تا کہ وہ ہمارے لئے ہماری خوشی کے لئے اس کو استعمال کرے اگر آپ دنیا بیزار ہو جا ئیں گے تو دنیا میں کا رو بار نہیں کریں گے تو دنیا تو اندھیر ہو جائے گی۔اللہ تعالیٰ دنیا کو اندھیر نہیں کر نا چا ہتے ۔اللہ تعالیٰ دنیا کو اندھیر کر نا چا ہتے دنیا میں اتنے وسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔  نئی نئی ایجا دات جو ہو رہی ہیںاس کی کیا ضرورت ہے اللہ تعالیٰ یہ چا ہتے ہیں جو نعمتیں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہیں اس کو بھر پور انداز میں استعمال کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ہے ہماری ملکیت نہیں ہے ہمارا ذاتی تصرف اس کے اوپر کچھ نہیں ہے اللہ نے دی ہے اس لئے ہم استعمال کر رہے ہیں تو اللہ کی دی ہو ئی جو بھی نعمت آپ اللہ کے لئے استعمال کر تے ہیں اس سے اللہ راضی ہوتا ہے اس سے اللہ خوش ہو تا ہے اور اللہ کی دی ہو ئی نعمت کو آپ اگر اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کر تے ہیں تو اللہ اس سے خوش نہیں ہو تا آپ اللہ کی نعمت کو ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کر تے ہیں اس کا فا ئدہ بھی آپ کو حاصل ہو گا ۔ آپ اللہ کی نعمت کو اللہ کی ملکیت کے تصور سے استعمال کر یں اس سے کو آپ کو خود فا ئدہ ہو گا ۔اب دوسری بات تین با تیں تو میں نے آپ کو اقتدار کی، غصہ کی اور جنس کی بتا ئیں جو بھی کچھ یہاں دنیا میں ہے آپ اس کو بھر پور انداز میں استعما ل کر یں۔ لیکن ذہن میں اللہ نے ہمیں دئیے ہیں استعمال کر نے سے اللہ خوش ہو تا ہے اس لئے ہم استعمال کر تے ہیں پانچویں بات یہ ذہن نشین ہو نی چاہئے کہ انسان روحانی تر قی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ شعور کے خول میں بندہے ۔اس لئے کہ روحانیت محدود نہیں ہے ،  لاشعور کا مطلب ہے لامحدودیت لا محدودچیز حاصل کر نے کے لئے آپ کو محدودیت کے دائرے سے نکلنا ہو گا جب تک محدودیت کے دا ئرے سے آپ قدم باہر نہیں نکا لیں گے،  لا محدود دائرے میں داخل نہیں ہوسکتے ایک روحانی آدمی کو یہ سمجھنا چا ہئے اس کی سوچ اس کی فکر محکوم وہ شعوری اعتبار سے سونے چاندی کے ذخیروں میں گم نہ ہو وہ شعوری اعتبار سے محض دنیا کو اپنا مقصد نہ بنا ئے وہ شعوری اعتبار سے اتنا گمراہ نہ ہو جائے کہ فرعون، شداد اور نمرود کے اوصاف اس کے اندر داخل ہو جا ئیں ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے لامحدود بنا یا ہے روح جو آپ کے اندر کام کر رہی ہے وہ لامحدود ہے اور آپ کا وہ مادی وجود یہ بھی ہمیں سوچنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہو ئی نعمتوں سے ہمیں بھر پو ر استفادہ کرنا اور اللہ کی دی ہو ئی نعمتیں سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی اور ناصر ہو آپ سب حضرات کا بہت شکریہ آپ یہاں اتنی دور دراز سے تشریف لا ئے یہاں مرکزی مراقبہ ہال کے بچوں نے، خواتین نے، حضرات نے آپ کے آرام و آسائش کے لئے اپنی طرف سے بہت سے پرو گرام بنا ئے بہت سارا انہوں نے کام کیا یہ عرس کا جو مہینہ ہوتا ہے تو اس کی تیاری اگست کے آخر سے شروع ہو جا تی ہے ستمبر، اکتوبر ،نومبر ،دستمبر اور بیس جنوری اس کا مطلب ہے کہ چار ماہ بیس روزآپ کے عظیمی بہن بھا ئی جو کرا چی سے متعلق ہیں اور جن کی خدمات مرکزی مرا قبہ ہال کے لیے ہیں وہ آپ کے آرام و آسائش کے لئے آپ کو خوش کر نے کے لئے چار مہینے بیس دن رات دن محنت کر تے ہیں آپ لوگ تشریف لا ئے تزین و آرائش سے بھی آپ کوخوشی ہوئی،  پھول دیکھ کر بھی آپ کی رو ح میں سرور داخل ہو ا، انتظام دیکھ کر بھی آپ خوش ہوں اور یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہتی ہے کہ ساری دنیا کے مرا قبہ ہال کے نگران صاحبان اور ذمہ دار سلسلے کے حضرات بھی تشریف لا تے ہیں تو ہم یہ چا ہتے ہیں آپ اپنے مر کز میں آکر یہاں کی صفا ئی ستھرائی انتظام و انصرام،  آرام و آسائش کی جو ضرویات ہیں اس کو آپ دیکھیں تعریف ہی نہ کر یں بلکہ اس کو اپنے مراقبہ ہال میں اس کا اہتمام کریں۔ ایک ہماری بہن ہیں اس نے بڑی تعریف کی بڑا انتظام ہے،  بڑی صفا ئی ستھرا ئی ہے ،  تو میں نے کہا میرا خیال ہے تم پا نچ چھ دفعہ تعریف کر چکی ہو تو اس سے مجھے کیا خوشی ہے تعریف تم کر رہی ہو مجھے بھی نظر آرہا ہے صفا ئی ستھرا ئی ہے ۔تعریف کی بات یہ ہے جو چیزیں آپ کو یہاں اچھی لگیں آپ اپنے یہاں اس کا اہتمام کر یں مرکزی مرا قبہ ہال میں جو چیز دیکھنے اور سمجھنے کی اور سبق حاصل کر نے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کے فضل و کر م سے یہ سارا کام ٹیم ورک ہیں صفا ئی والے،  صفا ئی کر تے ہیں ،بجلی والے بجلی لگاتے ہیں ،کر سی والے کر سی بچھا تے ہیں ،لنگر کھلا نے والے لنگر کھلاتے ہیں ،  پکا نے والے پکاتے ہیں ایک ٹیم ورک ہے تو یہ ٹیم ورک بڑی جدوجہد اور کوشش کے ساتھ بار بار میٹنگ کرنے کے بعد عمل میں آیا ہے خصوصاً وہ افراد جو مراقبہ ہال کے انچارچ صاحبان ہیں یا جنہیں سلسلے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ۔وہ اپنے شہروں میں اس بات کی کو شش کر یں ٹیم کے ساتھ خود کام کر یں سلسلہ عظیمیہ دراصل ایک قافلہ ہے قافلے میں چند لوگ نہیں ہو تے قافلے کا مطلب یہی ہو تا ہے کہ اس میں ہر طرزفکر کا آدمی موجود ہو تا ہے قافلے میں مو چی بھی ہو تا ہے ،درزی بھی ہو تا ہے کار پینٹر بھی ہو تا ہے ،معلم بھی ہو تا ہے ۔  شا گر د بھی ہو تا ہے نانبائی بھی ہو تا ہے ،یعنی زندگی میں کام آنے والے جتنے بھی لوگ ہیںوہ سب قافلے میں شریک ہوتے ہیں قافلہ سردارکی یہ ذمہ داری ہے کہ جو بھی سب سے آگے ہو تا ہے لیکن اسے اپنے آگے ہی نہیں دیکھنا ہو تا ہے پیچھے زیادہ دیکھنا ہو تا ہے اگر قافلے میں سے لوگ نکلنا شروع ہو گئے اور قافلہ سالار نے اس طرف توجہ نہیں کی تو نہیں کہا جا سکتا کہ قافلہ منزل پر پہنچے تو سو آدمی میں سے دو ہی رہے جا ہیں تو سلسلہ عظیمیہ کے نگران صاحبان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذہنو ں سے اقتدا ر کی خواہش کو نکال دیں دوسرے لوگوں پر اعتماد کر نا سیکھیں اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے ایک سسٹم ہے ایک آدمی تندور پر روٹی بھی لگا ئے سالن بھی پکا ئے بازار سے گو شت بھی خرید کے لا ئے ،بچوں کو تعلیم بھی دے ،علاج بھی کر ے تو یہ ممکن نہیں ہے اگر یہ ممکن ہو تا تو اس دنیا پرگروہی سسٹم نہیں ہو تا ۔  یہ دنیا یہاں کی دنیا ہو یا غیب کی دنیا یہ گر وہی سسٹم پرقائم ہے مثلا ً اگر ہم فرشتوں کے اوپر نظر ڈالتے ہیں تو فرشتوں کے بھی بے شمار گروہ ہیں ملا ئکہ عنصری ،ملا ئکہ ارضی ،ملائکہ سماوات ،حاملان عرش ، گروہ جبرائیل ، گروہ میکائیل، گروہ اسرافیل ، گروہ اعزائیل بیشمار گروہ فرشتوں کے ہیں جن کے ذمہ الگ الگ ڈیوٹیاں ہیں کسی گروہ کی ذمہ داری ہوا کے اوپر ہے ، کو ئی گر وہ بارش کے سربراہ ہے ،  کوئی گروہ علم کاسربراہ ہے جب سارا نظام ہی ٹیم ورک ہے تو ایک آدمی ہر کام نہیں کر سکتا یہ بھی لوگوں کے ذہن میں خیال آتا ہے اور یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں میرے بھی  ذہن میں یہ خیال آتا تھاپہلے کہ میں نے اپنا کام دوسروں کے سپرد کر دیا تو میری کیا حیثیت رہے جا ئے گی یعنی میری حیثیت کم ہو جا ئے گی میں نے اپنا کام دوسرو ں کے سپرد کر دیا۔ ہمیں اپنے قائم مقا م دس بیس نہیں تو دو چار آدمی ضرور چھوڑنے ہیں اگر اس طرح نہیں کیا گیا تو سلسلہ آگے نہیں بڑے گا ۔آم کے درخت سے آم کھا ئے جا تے ہیں ۔لیکن اگر آپ کی گٹھلی کو زمین میں نہ دبایا جائے تو دنیا سے آم ختم ہو جائے گا ۔ آپ ایک فرد ہے ایک تشخص ہے جیسے انسان ایک فرد بھی ہے ایک تشخص بھی ہے آپ کی گٹھلی خود آپ ہے گٹھلی جب زمین کے اندر جا تی ہے جب تک آپ کی گٹھلی اپنے وجود کو نیست و نابود نہیں کردیتی دو سرا آم کا درخت زمین پر نہیں اُگتا ۔ اسی صورت سے سلسلہ عظیمیہ کے ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے خود کو زمین کے اندر دفن کرکے نیست و نابود کردے تاکہ ان کی جگہ ایک دو تین چار درخت اور ہوں اس کا بھی ایک سلسلہ پھیلا ئے گا کسی دو سرے آدمی پر اعتماد کر نا اس طرف اشارہ نہیں ہے کہ آپ کی عزت کم ہو جا ئے گی آپ کو دوسرے لوگوں کو آگے بڑھانا ہے میری جدو جہد اور کو شش ہے کہ میں جب تک بھی یہاں ہوں اپنے قائم مقام لوگوں کو تیار کر وں، تقریر میں تحریر میں تصنیف میں اور سلسلہ عظیمیہ کی ترویج اور ترقی اور طرز فکر کی تبدیلی بھی انشا اللہ آپ دیکھیں گے نئی نئی کتا بیں بھی لکھیں گے نئے نئے لوگ تقریریں بھی کر یں گے اس لئے کہ اپنی نفی کر کے دوسرے لوگوں کو آگے بڑھنا ہے اب اپنے آپ کی نفی کرنے میں ظاہر ہے اقتدار کی خواہش کو ٹھیس پہنچتی ہے دوسرے لوگوں کو آگے بڑھا نے میں اپنی ذات کی نفی ہو تی ہے بہت ساری باتیں برداشت کر نی پڑھتی ہے غلط باتیں بھی ہو تی ہیں وہ بھی بر داشت کر نی پڑھتی ہیں ۔ غلطیاں کر نے کا موقعہ نہیں دینگے تو ان کی اصلاح کیسے ہو گی اگر ہم اپنے سے چھوٹوں پر ذمہ داریاں نہیں ڈالیں گے نہ وہ نقصان کر یں گے نہ وہ آئندہ نقصان سے بچ سکیں گے ہر نیا بچہ جو زمین پر پیدا ہو تا ہے سارے کا م فائدے کے نہیں کر تا جتنا زیادہ وہ نقصان کر تا ہے اسی حساب سے اس کا ذہن بنتا ہے اسی حساب سے اس کی عقل میں اضافہ ہو تا ہے اسی حساب سے وہ با شعور کہلا تا ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ ذمہ دار حضرات اپنے چھوٹوں کو آگے بڑھا ئیں میرے مرشد حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کے مر شد حضرت ابوالفیض قلندر سہروردی صاحب نے مجھ سے فرمایا تھا میں تمہیں ایک نصیحت کر کے جا رہا ہوں اس کو ہمیشہ یاد رکھنا فرمایا تھا کہ روحانی آدمی کی یہ ڈیوٹی ہے اگر وہ اوپر ہے تو نیچے والے کو اوپر کھنچے،  نیچے والوں کی یہ ڈیوٹی ہے اگر ان کا کو ئی بھا ئی با صلاحیت ہے یا نہیں ہے اس کو اگراوپر کھنچا جا رہا ہے تو وہ یہ نہ سوچے کہ میں اوپر کیوں نہیں گیا میں اس کی پش کر دینا چا ہئے اور یہ سلسلہ جب قائم ہو جائے گا ۔  تو بہت سارے ایسے لوگ جن کی صلاحیتیں کم ہو نگی وہ بھی اوپر پہنچ جا ئے گے لہذا سلسلہ عظیمیہ کی تر ویج اور ترقی کے لئے ضروری ہے ۔ ہر شخص اپنی نفی کر ے ہر شخص کے سامنے ایک ہی بات ہو نی چا ہئے کہ سلسلے کی ترویج اور ترقی کس طرح ہو۔ یہ بالکل نہیں سوچنا ہے کہ کس نے وہ عورت ہو، مر د ہو، کمزور ہو ،طاقت ور ہو اس لئے کہ ہر آدمی کی صلاحیت الگ الگ ہیںاگر کسی آدمی کی صلاحیت سے اگر آپ کو فا ئدہ پہنچ رہا ہے تو آپ اس کی ہمت افزائی کر یں ۔اس کی تعریف کر یں اگراس کی کو ئی بات بری بھی لگ رہی ہے تو اس کو برداشت کریں،  ایک دفعہ کر یں، دو دفعہ،  چا ر دفعہ کر یںتو وہ اس بات کو خود ہی چھوڑ دے گا میرا خیال ہے میں نے آپ کو کافی وقت لے لیا اور جو حضرات مقالے پڑھنے والے ہیں ان کا بھی تو دل چا ہتا ہو گا ہم بھی مقالے پڑھیں اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے آپ تشریف لا ئے آپ کا بہت بہت شکر یہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین دنیا کی تمام نعمتیں عطا کر ے اور سلسلے کی تر ویج اور تر قی میں آپ کو ہر ہر قدم پر کامیابی عطا فرما ئے رسول اللہ  ﷺ کی نسبت عشق سے حضور قلندر بابااولیا ء ؒکا فیض آپ اور ساری دنیا پر محیط ہو آمین یا رب العالمین۔ اختتام

Topics


Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01


اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں،  اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین

مرشد کا داس