Topics
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین …
ٓآپ
اور ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ جو بھی بندہ اس دنیا میں پیدا ہوا کل نفس ذائقتہ
الموت …وہ اس دنیا سے چلا جا تا ہے کہاں چلا جا تا ہے یہ بھی ایک سوال ہے اب ظاہر
ہے ہم قبر میں ڈال کر آجا تے ہیں لیکن یہ کو ئی شہا دت نہیں ہے کہ وہ بندہ کہاں
چلا گیا اس لئے کہ قبر میں جو بندہ لیٹا ہوا ہے یہاں سورہا ہے کچھ عرصے کے بعد جب
ہم قبر کھو دتے ہیں تو وہاں اس کا نام و نشان نہیں ہو تا آدمی مرنے کے بعد کہاں
چلا گیا اس کا بھی علم نہیں ہے پیدا ہونے سے پہلے کہاں ہے اس کا علم نہیں ہے، میں نے جوان ہونا ہے یا نہیں ہو نا اس کا علم
نہیں ہے ، میں نے بوڑھا ہو نا یانہیں ہو
نا اس کاعلم نہیں ہے ، مر نا ہے اس کا علم
ہے لیکن مر نے کے بعدکہاں جا نا ہے اس کا علم نہیں ہے۔ تو انسانی زندگی غیب کے
علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انسان کی زندگی جوہے وہ خوف وشبہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے کسی کو
کچھ پتا نہیں۔ اب یہ بات بہت لمبی ہو گئی اب آپ کواس کا بھی علم نہیں ہے اب ہم یہ
نہیں کہہ سکتے کہ لازماً ہو اب ہم سو رہے
ہیں تو لازماً صبح کو ہم ضرور اٹھ جا ئیں گے ہو سکتا ہے اٹھ جا ئیں ہو سکتا ہے
اٹھے ہی نہیں ، ہو سکتا بھوک ہمیںلگے یانہ لگے۔ آج تک گر می ہمیں لگتی ہے گر می
کا احساس ہما رے جسم میں ہو تا ہے لیکن گر می کیا چیز ہے؟ اب ایک درخت ہے ہم نے دیکھا تنا ہو تا ہے شاخیں
ہو تی ہیں شاخوں میں سے شاخیں ہو تی ہیں پتے ہو تے ہیں پھول ہوتے ہیں پھل ہو تے
ہیں اس طرح کی کوئی بات ہم اپنے ذہنوں میں نہیں کہہ سکتے وہاںہم ایک اندھے لوگوں کی طرح ہیں لیکن
ایک بات ہم جا نتے ہیں نادیدہ شے جب تک ہمارے جسم میں ہے ہم ہیں ہم حرکت کر تے ہیں
، ہمیں بھوک پیاس کااحساس ہو تا ہے، گر می
سردی کا احساس ہو تا ہے۔جب یہ نادیدہ شے ہمارے جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے ہمیں کوئی
احساس نہیں ہو تا اب آدمی مرجا تا ہے آپ اسے جلا دیتے ہیں کبھی چھوٹے ٹکڑے کرکے
لیکن جب تک وہ نادیدہ شے ہمارے اندر ہے تو ہمیں سوئی چبھنے کا بھی احساس ہو گا
مچھر کے کاٹنے کا بھی احساس ہو گا گر می سر دی کا بھی احساس ہوگا بھوک پیاس کا جو
تقاضہ ہو تا ہے اور اسلا م میں رسول اللہ
ﷺ تمام پیغمبر ان علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اس نادیدہ شے کا نام رو ح رکھا
ہے اور جب تک جسم میں رو ح ہے، جسم میں حر
کت بھی ہے تصورا ت و خیا لا ت بھی ہیںاور جب رو ح جسم سے نکل جاتی ہے اب نہ کو ئی
تصور ہے نہ کو ئی احساس ہے ۔ نہ کو ئی اب اس کو اپنا کہتا ہے، آپ جسم بھی نہیں کہتے اس کو آپ Dead
body
کہتے ہیں انبیا ء اکرام علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ
ذہن اور فہم رکھنے والا انسان ہمیشہ اس بات کی تلاش میں رہتا ہے میں اس دنیا میں کہاں سے آیا اور کہاں چلا جاتا ہوں
، اس کے با وجود یہاں سے نہیں جا نا چا
ہتا میں کہاں چلا جا تا ہوں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس حقیقت سے نو ع انسانی کا
کو ئی فر د کبھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس
لئے انسان کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ کہیں سے آکے اس دنیا میں پیدا ہو تا ہے اور مر
نے کے بعد وہیں
چلا جا تا ہے جو لوگ صاحب عقل و شعور ہیں وہ اس بات کو تلاش کرتے ہیں کہ ہم کون
ہیں کیا ہیں ؟کہا ں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں ؟کہاں ہمیں جا نا ہے ؟۔ اسی بات کو
سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلا م نے فرمایا ہے کہ جس نے اپنی ذات کو، اپنی رو ح،
اپنے رب کو پہچان لیا اور جس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس نے اپنے خالق کو پہچان
لیا جس خالق نے آپ کو تخلیق کیا، سلسلہ
عظیمیہ کے پرو گرام کا مقصد صرف یہ ہے انسان کو اس کے اصل سے روشناس کر دیا گیا ہے
اس لئے اصل ہی اس کی عقل ہے اصل ہی اس کا علم ہے اصل ہی اس کا فہم ہے اور اصل ہی
اس کی روح ہے آپ نے نہیں دیکھا ہو گا کہ کوئی پیدا ہو نے والابچہ بچپن میں فو ت
ہو گیا وہ بڑا ہوجائے آپ نے کہھی نہیں دیکھا ہو گا اگربا رہ سال کا بچہ اس دنیا
میں فوت ہو گیاتو اس نے کسی اسکول میں جا کر تعلیم حاصل کی ہو کالج میں جا کر
تعلیم حاصل کی ہو ، انجینئر بنا ہو، ڈاکٹر
بنا ہو، استا د بناہو، مستر ی بنا ہو، استاد ہونا اسٹوڈنٹ ہو نا شاگر د ہو نا اسی وقت
ممکن ہے جب آپ کے اندر آپ کی اصل روح موجود ہے اور جیسے ہی رو ح اس جسم سے رشتہ
تو ڑ لیتی ہے انسان کی ساری صلاحتیں بھی ختم ہو جا تی ہیں سوچنا فکر کر نا فیصلے
کر نا توبڑی بات ہے وہ بو ل بھی نہیں سکتا اس میں قوت مدافعت بھی نہیں ہو سکتی
…لیکن اگر کسی زندہ آدمی کو وہ چتا پر رکھ دیں گے تووہ اٹھ جا ئے اب سب مسلمان
احترام انسانیت میں اس کو دفن کرتے ہیں۔
آپ نے کبھی نہیں سُنا ہوگا کہ ماں نے کبھی کہا کہ بیٹا میں نے تمہیں نو
مہینے پیٹ میں رکھا سوا دو سال میں نے دو دھ پلا یا ،بارہ سال تک تیر ی حفا ظت کی
نہلا یا دھولا یا پاک صاف رکھااب تو اتنا ہو گیا مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے بند قبر
میں سوچتا بھی نہیں ہے ،میں تیری ماں ہوں۔اب باپ نے کہا ہو، بیٹا ساری زندگی تیرے لئے تجھے پڑھایا لکھا یا
تیری شادی کی اپنی عاقبت خراب کی تیرے لئے تجھے اتنا بھی احساس نہیں ہے تو میرے
لئے قبر میں ذرا سا سوراخ ہی کھول کر چلے جا ئے کہ ہواآجا ئے آکسیجن ملے جب
ہمارے ماں باپ نے کو ئی احتجاج نہیں کیا آج ہم ماں باپ ہیں ہماری اولاد بھی ہمیں
دفنا کے آجائے گی کیوں اس لئے کہ یہ جو فزیکل باڈی ہے یہ جومادی جسم ہے اس کی
حیثیت کچھ بھی نہیں ہے سوائے فکشن کے سوائے مفہوم کے کچھ بھی نہیں ہے۔ روح ہے تو جسم کی حیثیت ہے روح اگر نہیں ہے تو
جسم کی حیثیت نہیں ہے آپ غور کرکے بتائیں اگر سائنٹسٹ کے اندر رو ح نہ ہو تو کیا
وہ کوئی چیز ایجاد کر سکتا ہے سائنٹسٹ کوبھی موت آتی ہے وہ بھی مرجا تا ہے ساری
تر قیا ں رکھی رہے جا تی ہیں۔ایک سائنٹسٹ کی اتنی قدرومنزلت ہو تی ہے کہ گورئمنٹ
سائنٹسٹ کو اتنی زیادہ تنخواہ دیتی ہے کہ اس کو آسائش و آرام مہیاہوتے ہیں تا کہ
یہ آرام و آسائش میں رہتے ہو ئے پر یشانیوں
ے بچ کر نئی نئی ایجا دات کر تے ہیں نئے نئے علوم پیدا کر تے ہیں۔ لیکن جب اس میں سے روح نکل جائے تو بیکار
ہوجاتا ہے۔ اس میں اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ یعنی اس کی اصل تو اس کی
روح ہے۔ جتنا بھی آپ غور فرمائیں گے ایک
ہی جواب آپ کو ملے گا جسم روح کے تابع ہے، رو ح فزیکل با ڈی کے تا بع نہیں ہے جب
روح فزیکل با ڈی کے تا بع نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے ہماری اصل جو ہے وہ رو ح ہے اس
بات کو سمجھنے کے لئے اس بات کو دیکھنے کے لئے مشاہدہ کر نے کے لئے اللہ تعالیٰ نے
ایک لاکھ چو بیس ہزار پیغمبر بھیجے ۔ ان پیغمبر وںمیں سے کچھ نے بیان کر کے، مرا
قبے کر کے اپنی امت کو بتا یا سب انسان اپنی اصل میں جھانکنے کی کوشش کر یں اپنی
اصل کودھونڈنے کے لئے جدو جہد کر یں۔
فزیکل با ڈی سے عارضی طو ر پر حواس منقطع کر کے اصل میں اپنے اصل حواس
کوتلاش کریں اوراصل کا مطا لعہ کریں اب جب ہم روح کو دیکھتے ہیں وہ روح جو غیب میں
ہے اس کو ماضی کامشاہدہ ہو تا ہے مستقبل کا بھی ۔ وہ یہ بات بھی جان لیتا ہے میں
پیدا ہو نے سے پہلے کہاں تھا اور اسے اس بات کا بھی علم ہو جا تا ہے کہ میں مرنے
کے بعد کہاں جاوٗنگا۔ آپ حضرات سوال کر
سکتے ہیں کہ اس کا فائدہ کیا ہے پہلی بات تو یہ ہے بات فا ئدے نقصان کی نہیں ہے
بات یہ ہے کہ زمین کے اوپر جو مخلوقات آباد ہیں ان مخلوقات میں انسان حیوانات
جمادات نبا تا ت ہیں یہ الگ بات ہے کہ انسان بھی خوش ہو تا ہے حیوانات بھی خوش ہو
تے ہیں انسان اور حیوانات کے درمیان اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اپنی
اصل کے علم سے واقف ہو تا ہے حیوانات اپنی اصل کے علم سے واقف نہیں ہوتے ۔
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس