Topics
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
لو
انزلنہ ھذا القرآن الا…
معزز
سامعین خواتین و حضرات السلام و علیکم …ابھی آپ نے چندتقریریر سنی جن میں آپ کو
یہ بتا یا گیا یہ جومحفل سجی ہے اس وقت یہ گو رنگی میں عظیمیہ روحانی لائبریری کا
احاطہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام
کے فضل و کرم سے علم کا ایک چشمہ کو
رنگی میں ابھر ا ہے جس طرح کہیں بھی بے آب وگیا میدان میں چشمہ نکل آتا ہے اور
اس چشمے سے نا صرف یہ کہ انسان فا ئدے اٹھا تے ہیں دو سری مخلوقات بھی اس چشمے سے
فا ئدہ اٹھا تی ہیں ایک یہ بات بھی آپ نے سنی ہو گی جہاں چشمہ ایک بار ابھر تا ہے
اس کے لئے کسی پبلیسٹی کی ضرورت نہیں پڑتی بتا نا نہیں پڑتا ڈھنڈورا نہیں کر نا
پڑتا چشمہ جو ہے وہ خود اپنی شناخت ہے اور چشمہ خود اس بات کی علامت ہے کہ لوگ
وہاں جا تے ہیں اور اپنی پیا س بجھاتے ہیں علم کی صورت بھی ایک چشمے کی طرح ہے جس
طرح ایک چشمے سے اللہ کی مخلوق فا ئدہ اٹھا تی ہے اسی طرح علم سے بھی نو ع انسانی
فا ئدہ اٹھا تی ہے اور نو ع انسانی اور حیوانات میں جب ہم عقل وشعور کا تذکر ہ کر تے ہیں تو وہاں ایک ہی بات نظر آتی
ہے عقل و شعور مکھی میں بھی ہے ، چیونٹی میں بھی ہے ، ہا تھی میں بھی ہے ، درختوں
میں بھی ہے پر ندوں میں بھی ہے ، اسی طرح انسانوں میں بھی ہے ،عقل و شعور کی بنیا
دپر حیوانات اور انسانوں کا مقابلہ کیا جا ئے تو یہ تو کہا جا سکتا ہے انسانوں میں
عقل و شعور زیادہ ہے۔ جا نوروں میں عقل و شعور کم ہیں لیکن ہمیں بہت ساری با تیں
ایسی بھی ملتی ہیں جہاں ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ حیوانات بھی بعض حا لات میں
انسانوں سے زیادہ عقل و شعور رکھتے ہیں مثلا ً کتے میں سونگھنے کی حس بہت زیادہ ہے
،مثلا ً اُلو رات کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح ہم دن میں دیکھتے ہیں اور ہم رات کے
اندھیرے میں اس طرح نہیں دیکھ سکتے جس طرح اُلو دیکھتا ہے،پر ندے جس طرح ہوا میں
اڑتے ہیں انسان جہاز بنا کر اس میں اڑتو سکتا ہے لیکن پر ندوں کی طر ح نہیں اڑ
سکتا تو اڑنے کا تذکر ہ آئے گا تو ہمیں بر ملا یہ کہنا پڑے گا کہ پر ندے انسانوں
سے زیادہ باصلاحیت ہیں پرواز کے جب عقل و شعور کا تذکرہ آتا ہے تو ہماری نظر شہد
کی مکھی پر جا تی ہے ہر شخص نے شہد کا چھتا دیکھا ہو گا ایک خانہ اگر چھتے میں تو
بیس ہزار خانے تقریبا ً ایک چھتے میں ہو تے ہیں وہ بیس ہزار خانے یکساں با لکل
برابر ہو تے ہیں پھر وہ شہد جمع کرنے کا جو نظام ہے جو سسٹم ہے وہ بھی آپ لوگوں
نے پڑھا ہوگا سنا ہو گا بتا یا جاتا ہے کہ جو مکھیاں شہد لا تی ہیں ان کی با قاعدہ
چیکنگ ہو تی ہے چھتے میں ایسی مکھیا ں سپا ہی ہو تی ہیں جوشہد لانے والی مکھی کو
چیک کر تی ہیں وہ یہ دیکھتی ہیں یہ جو مکھی شہد لیکر آئی ہے اس میں کو ئی خراب
بات تو نہیں ہے اس میں کو ئی زہریلا ما دہ تو نہیں ہے اگر وہ مکھی جو شہد لیکر
آئی ہے کو ئی ناقص چیز اس نے اٹھا لی ہے توساری مکھیاں مل کر اسے ہلا ک کر دیتی
ہیں اور چھتے میں نہیں جا نے دیتیں اس کے بارے میں یہی کہا جا ئے گاان کے اندر
سوچنے کی سمجھنے کی سونگھنے کی پر کھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے جس طرح انسان کے اندر پر کھنے کی، سونگھنے کی صلا حیت موجود
ہے ۔اس طرح شہد کی مکھی میں بھی یہ صلاحیت بدرجہ اتم بہت ہے ۔اس کے علاوہ درخت ،ہر
درخت پہلے ایک چھوٹا سا بیج ہو تا ہے اس بیج میں سے درخت نکلتا ہے اس درخت میں بھی
اپنی صلاحیت موجود ہے مثلاً کبھی آپ نے یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ آم کے اوپر امرود
لگے ہوں یا امرود کے اوپر بیر لگے ہو ئے ہوں اس کے بھی یہی معنی نکلتے ہیں کہ درخت
اس بات کو جا نتا ہے کہ میں آم کادرخت ہو ں میرے اوپر آم ہی لگنے چا ہئے، بیر کا درخت جا نتا ہے میں بیر
کادرخت ہو ں میرے اوپر ہی لگنے چا ہئے
امرود یا املی میرے اوپر نہیں لگ سکتی جس طرح انسان کا اپنا ایک معاشرہ ہے اس
معاشرے کی انسان پابندی کر تا ہے اسی طرح کبوتروں کا ایک معاشرہ ہے، کوؤں کابھی
ایک معاشرہ ہے ،کبوتروں کا بھی اپنا ایک مزاج ہے ایک طرز زندگی ہے ، کوؤں کابھی
اپنا ایک مزاج ہے ایک طرز زندگی ہے ۔جس طرح انسان انسانوں میں بیٹھتا اٹھتا ہے کو
ئی انسان بھیڑ بکر یوں میں جا کر نہیں بیٹھتا اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوے
کبوتروں میں نہیں بیٹھتے کبوتر کوؤں میں نہیں بیٹھتے یعنی کبوتراپنی نوع کے بارے
میں وہ تمام اطلاعا ت رکھتا ہے جو اطلاعا ت انسان اپنے بارے میں رکھتا ہے یہ اتنی
زیادہ با تیں ہیں اگر آپ غور کر یں تو گھنٹوں ہفتوں گزر جا ئیں گے اور یہ تقابلی
جائزہ جو ہے یہ ختم نہیں ہوگا زمین کے آپ
دیکھیں زمین کے طبق ہوتے ہیں اب زمین کے طبق میں آپ کو لوہا بھی ملے گا ، زمین کے
طبق میں آپ کو کو ئلہ بھی ملے گا ، کوئلے کی کان میں آپ کو ہیرا بھی ملے گا جہاں
مختلف قسم کے بے کار پتھر ہیں وہاں آپ کو جوہرات بھی ملیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ زمین بھی اپنے طبقات سے واقف ہے زمین کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اگر مخصوص پرو
سیس کے تحت مجھے جوہرا ت پیدا کر نے ہیں تو جواہرات ہی پیدا کرنا ہے ،لوہا پیدا کر
نے ہیں تو لوہاہی پیدا کرنا ہے ،ایسا نہیں ہو گا جہاں لو ہے کے پہاڑ ہونگے ۔وہاں
آپ کو چاندی بھی مل جا ئے سونا بھی مل جا ئے طبقات ہیں جنہوں نے پڑھا ہے زمینوں
کا، تو طبقات میں زمین تقسیم ہے اور ہر
زمین اپنی صلاحیت سے بھی واقف ہے اپنے علم سے بھی واقف ہے اور اپنی ضرورت سے بھی
واقف ہے لہذا یہ کہنا کہ انسان اللہ کی بنا ئی ہو ئی دو سری مخلوقات سے عقل و شعور
کی بنیاد پر ممتاز ہے ، صحیح بات تو یہ ہے اس لئے عقل و شعور ہر چیز میں ہے ابھی
ہمارے بھا ئی نے وہ آیت پڑھی تھی إنا عرضنا الأمانة على السماوات
والأرض والجبال …کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت سمٰوات پر،
زمین پر ،پہاڑوں پر پیش کی ۔سب نے یہ کہا صاحب اگر صاحب ہم نے یہ امانت اپنے
کندھوں پر اٹھا لی تو ہمارا تو وجود ہی نہیں رہا ہم ختم ہو جائیں گے یہ کہنا اما
نت کے اٹھا نے سے ہمارا وجود ہی ختم ہو جا ئے گا کیا عقل و شعور کی دلیل نہیں ہے
کیا اس بات کا سوال نہیں رکھتا کہ زمین میں بھی ،آسمان میں بھی،پہاڑ میں بھی کسی
چیز کو قبول اور رد کرنے صلا حیت بھی موجود ہے سمجھ بھی موجود ہے ۔نا کہ یہ اس
کوقبول کر نے کی صلاحیت موجود ہے یا رد کر نے کی صلاحیت مو جو د ہے وہ اس بات سے
بھی واقف ہے کہ ہماری اپنے ساخت کیسی ہے اپنی صلاحیت کتنی ہے ۔ثا بت ہو ا زمین جس
کو ہم بے جان کہتے ہیں زمین کے وہ ذرات جن کو ہم اپنے پا ؤں روندتے رہتے ہیں اس
میں بھی عقل ہے ان میں بھی شعور ہے ان میں
بھی سمجھ ہے بھئی ، میں یہ عرض یہ کر نا چا ہ رہا تھا انسان عقل و شعور کی بنیا د
پر کسی بھی طرح دو سری مخلوق سے ممتاز نہیں ہے پھر انسان کس طرح ممتا زہے انسان کس
طرح تمام مخلوقات میں اشرف ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ قرآن پاک
میں بیان فرما یا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فرشتے کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ میں زمین میں اپنا نا ئب بنا نے والا ہوں نائب سے مرا د یہ ہے کہ ایسا
بندہ تخلیق کر رہا ہے ہوں جو میری نیا بت کے فرائض پو رے کر ے اور میرے اختیارات
استعمال کر ے ۔ خلیفہ بنا ؤں گا خلیفہ کےمعنی نا ئب ایسا نا ئب جس کو اختیارات عطا
کر دئیے جا ئیں اور وہ اختیارات استعمال کر ے ۔فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ جو آپ
اپنا خلیفہ بنا رہے ہیں اس کی جو تخلیق ہے اس تخلیق میں جو چیزیں ہم دیکھ رہے ہیں
وہ یہ ہے کہ یہ فساد کرے گا خون خرا بہ کر
ے گا زمین کو ہلا کت سے قریب کر دے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو ہم جا
نتے ہیں وہ تم نہیں جا نتے اور پھر آدم کو یہ سب لوگ جا نتے ہیں آدم کو صفات کا
علم عطا کیا اللہ تعالیٰ نے تخلیقی فا رمولوں کا، تخلیقی ایکوئشن کا آدم کو علم
عطا کیا تا کہ آدم اللہ تعالیٰ کی خلافت اور نیا بت کے فرا ئض آسان طریقے سے
انجام دے سکیں ۔ فرشتے کو اس سے اعتراض تھا کہ یہ خون خرا بہ اور فساد کر ے گا اور
تیری حمد و ثنا ء کے لئے ہم کا فی ہیں اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہاکہ میں نے جو علوم
تجھے سکھا دئیے ہیں ان کو بیان کر آدم
علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے سکھا ئے ہو
ئے علوم تخلیقی علوم بیان کر نا شروع کر و، فرشتوں نے جب ان علوم کو سنا بر ملا
پکار اٹھے ہم آپ کی تسبیح بیان کر تے ہیں آپ کی پا کی بیان کر تے ہیں ۔ہمیں اتنا
ہی علم ہے جتنا آپ نے سکھا دیااور اس کے
بعد فرشتوں نے آدم کی نیابت اور خلا فت کو قبول کر کے آدم کی حا کمیت کو قبول کیا۔اس
سارے قرآنی واقعہ سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اس کے علاوہ دو سری بات سمجھ
میں نہیں آتی کہ جب تک آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی علوم منتقل نہیں کئے
فرشتوں نے آدم کو نہ سجدہ کیا نہ آدم کی حاکمیت کو قبول کیا آدم کی حاکمیت کو
قبول کر نا فرشتو ں نے قبول کیا ،زمین نے قبول کیا ،آسمانوں نے قبول کیا ،اس
بنیاد پر قائم ہے آدم کے پاس اللہ تعالیٰ خصوصی علم ہے ایسے خصوصی علم جو نہ
فرشتوں کو آتے ہیں نہ جنات کو آتے ہیں اور نہ آسمان اور زمین کی کسی مخلوق کو
عقل و شعور تو فرشتوں کے پاس بھی ہے عقل و شعور کی بنیا دپر فرشتے یہ کہہ رہے ہیں
یہ آدم جو ہے زمین پر فساد کرے گا خون خرا بہ کرے گا اور تسبیح اور حمد کے لئے ہم
کا فی ہیں لیکن جب علوم آدم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہو گئے اور آدم نے
ان علوم کو بیان کر دیا تو فرشتوں نے آدم کی حاکمیت کو قبول کر لیا اور ثابت
ہوگیا انسان کا شرف انسان کی فضلیت انسان کی نیا بت اور خلا فت کا تعلق عقل و شعور
سے نہیں ہے اس علم سے جو خصوصی علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو منتقل کیا ہے عقل و
شعور کے اعتبار سے کا ئنات میں کو ئی شئے ایسی آپ کو نہیں ملے گی جس میں عقل و
شعور نہ ہو کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں مکھی میں عقل و شعور نہیں ہے کیا کو ئی آدمی
یہ کہہ سکتا ہے چیونٹی میں عقل و شعور نے
نہیں اتنا عقل و شعور ہے کہ وہ برسات کے زما نے کے لئے پہلے ہی سے اپنے راشن کا
ذخیرہ جمع کر لیتے ہیں آپ لو گوں نے دیکھا ہو گا جا نور دھوپ سے با رش سے آندھی
سے طو فان سے اپنے بچاؤ کے لئے تدبیر کر تے ہیں جانور اپنے حساب سے تدبیر کر تے
ہیں انسان اپنے حساب سے تدبیر کر تے ہیں لیکن تدبیر دونوں کر تے ہیں تدبیر بجا ئے
خود اس بات کی علامت ہو تی ہے کہ اس کے اندر عقل و شعور ہے لہذ اعقل و شعور کی
بنیاد پر کو ئی انسان کسی دو سری مخلوق سے افضل نہیں ہے انسان اگر افضل ہے دو سری
مخلوق سے انسان صرف علم کی بنیاد پر جو لوگ علم حاصل کر لیتے ہیں ان کی زندگی ان
لوگوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہو تی ہے جو علم حاصل نہیں کر تے مثلا ً ریڈانڈین
ہیں اب ان کے یہاں علم نہ ہو نے کی وجہ سے ان کی یہاں کو ئی تہذیب ہی نہیں ہے جنگل
میں ایسے انسان آپ کو ملیں گے جن کو ستر پو شی کا ہی علم نہیں ہے جن کو یہی علم
نہیں گھر بھی کو ئی چیز ہو تی ہے ۔ جب انسان نے علم سیکھا جیسے جیسے علم میں اضافہ
ہو تا رہا انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔جتنا علم بڑھتا رہا اس علم کی بنیا د پر
انسان دوسرے حیوانات سے ممتا ز ہوتا رہا اور جہاں انسان برادری کے پاس علم نہیں ہے
ان انسانوں کی زندگی حیوانوں سے مختلف نہیں ہے دونوں کی ایک ہی ہے یہ ہر آدمی
جانتا ہے معاشرہ جب بنتا ہے تو اس کی بنیاد علم ہو تی ہے ۔جب کوئی معاشرہ تشکیل پا
تا ہے اس معاشرے کے آداب و قواعد و ضوابط اصول جب بھی بنتے ہیں وہ علم کی بنیا د
پر عقل کی بنیاد پر نہیں بنتے اگر عقل کی بنیا د پر معاشرے بنتے تو کتے بلیوں کے
بھی معاشرے ہو تے تو اب یہ کر نا ہے انسان کی جو فضلیت ہے انسان کا جو شرف ہے اس
بنیاد پر ہے کہ ا س کو علم آتا ہے اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم منتقل
کر دئیے اور علم سیکھنے کی صلاحیت اس کے اندر ہے اب علم کی درجہ بندی اگر آج علم
نہیں ہوتا ہے ۔ نقشے نہ بنتے گھر نہ بنتے سڑکیں نہ بنتی شہرآبا د نہ ہو تے اگر
یہی علم لباس کے بارے میں منتقل نہ ہوتا نئے نئے لباس نہ بنتے ،نئی نئی فیکٹریاں
قائم کی جاتیں ۔ یعنی ایک علم و ہ ہے کہ جس کی بنیاد پر آپ دنیا میں با عزت ہو کر
باوقار ہو کر زندگی گزارتے ہیں آپ جا نتے ہیں کہ ا یک شہر ایسا ہے یا ایک محلہ
ایسا ہے کہ جس میں پڑھے لکھے لو گ بہت زیادہ ہیں اور ایک محلہ ایسا ہے کہ جس میں
جا ہل بہت زیادہ ہیں یقینا ہم اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے وہ محلہ جہاں پڑھے لکھے لوگ افرادزیا دہ
ہیں جہاں پڑھے لکھے لوگ افرادزیا دہ نہیں ہیں وہ معزز ہیں اس محلے سے جہاں پڑھے
لکھے لو گ زیادہ ہیں اسی صورت سے حکو مت کے معاملات آتے ہیں،کا رو با ر کے
معاملات آتے ہیں ،اقتدا ر کے معاملات آتے ہیں جہاں بھی عزت او ر مرتبت کا سلسلہ
سامنے آتا ہے وہاں عزت و مر تبت پرقابض و فا ئز وہ ہوتے ہیں جو علم سیکھ لیتے ہیں جو لوگ جا ہل
رہتے ہیں عزت و مر تبت سے دور ہو جا تے ہیں ان کی نہ کو ئی قدر و مر تبت ہو تی
ہے بھیڑ بکریوں کی طرح ان کا شمار ہو تا
ہے یہ وہ علم ہے جو ہم دنیا میں با عزت رہنے کے لئے سیکھتے ہیں کو ئی بھی علم ہو
بڑھئی کا علم ہو سکتا ہے ،لو ہارکا علم ہو سکتا ہے ،انجینئرنگ کا علم ہو سکتا ہے
،سائنسی علوم ہو سکتے ہے ،کسی بھی قسم کا علم ہو سکتا ہے جہاں علم ہو گا وہاں عزت
ہو گی، جہاں علم ہو گا وہاں مر تبہ ہو گا جہاں علم ہو گا وہاں توقیر ہو گی جہا
ں جہالت ہو گی وہاں ذلت ورسوائی ہو گی تو دنیا وی اعتبار سے بھی علم کی
فضلیت پو ری طرح واضح او ر صاف ہے کو ئی عقل کا اندھا اس بات سے انکا ر نہیں کر
سکتا کہ علم کی فضلیت ثابت نہیں ہے یاجہالت زیادہ اچھی ہے علم کے مقابلے میں ۔ یہ
دنیا وی علوم ہیں جو لوگ مہا رت حاصل کر لیتے ہیں وہ معزز ہو جا تے ہیں زمین پر
معزز ہو جا تے ہیں دوسرے اقوامیں میں معزز ہو جا تے ہیں آج امریکہ اس بنیاد پر
معزز ہے علم کی بنیاد پر معزز ہے علم پر انہوں نے ایسی ریسرچ کی، ایسی تلاش کی کہ اس ریسرچ کی بنیاد پرطرح طرح
کی ٹیکنالوجی انہو ں نے نکا ل دی کہ جس کی بنیاد پر ساری دنیا میں امریکہ عزت کی
نظروں سے دیکھا جاتا ہے نا صرف یہاں امریکہ عزت کی نظروں سے دیکھا جا تا ہے بلکہ
دنیا کا بڑا حصہ اس کا محتاج ہے یعنی علم کی بنیاد پر ایک قوم نے دوسری تمام قوموں
پر بر تر ی حاصل ہے اب سے با رہ سو سال پہلے یہی صورتحال مسلمانوں کی تھی مسلمانوں
میں علم را ئج تھے ہر ہر قسم کا علم مسلمان کے اندر موجود تھاریسرچ موجود تھی ایجا
دا ت موجود تھی مسلمان کے اندر جب تک علم کا ذوق رہا مسلمان جب تک علوم و فنون جب
تک حاصل کر تے رہے ساری زمین کے اوپر ان کی حکمرانی قائم رہی آپ تا ریخ اٹھا کر
دیکھ لیں ہر جگہ اسلام کا چر چہ ،ہر جگہ اسلام کا نعرہ ہر جگہ اسلامی علوم کی شان
ہی الگ تھی جدھر چلے گئے حکمراں ہو گئے جدھر قدم اٹھ گئے حکمراں ہو گئے علم کی
بنیاد پر جیسے جیسے مسلمان قوم علم سے دور ہو رہی ہیں ،اور وہ قوم جو مسلمانوں کی
محکوم تھی وہ علوم حاصل کر رہی ہیں مسلمان
پس پردہ ہو تا چلا گیا اور جن قوموں نے علوم حاصل کیا وہ حاکم بنتے چلے گئے اور ان
کی حیثیت جو ہے اعلیٰ اور ارفع ہو گئی ۔جس طرح دنیا وی علوم حاصل کر کے کو ئی
انسان بر تر ی حاصل کرتا ہے اسی طرح روحانی علوم کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے ۔اللہ
تعالیٰ نے جو آدم کو علوم سکھا ئے وعلم
الاسماء کلھا …اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیقی صفات یعنی وہ صفات جو کائنات کو تخلیق
کرتی ہوں تمام صفات آدم کو سکھا ئیں، اب
وہ علم یہ ہے کہ جس کو دیکھ کر، سن کر، سمجھ کر فرشتوں نے بھی آدم کی حاکمیت کو
قبول کیا ۔یہ وہ علوم ہیں دنیا سے ہٹ کر جن کو روحانی علوم کہا جا تا ہے جتنے
پیغمبر دنیا میں تشریف لا ئے انہوں نے دونوں علوم حاصل کر نے کے لئے نوع انسانی کو
دعوت دی دنیا وی علوم حاصل کر نے کی دعوت دی جیسے آپ نے سنا ہے سیدنا حضور الصلوٰ
ۃ والسلام نے فرمایاکہ اگرعلم چین میں ملے تو وہاں سے بھی جا کر حاصل کرو ظا ہرہے
چین میں علم القرآن تو سیکھنے نہیں جا ئے گا آدمی مکے سے مدینے سے قرآن سیکھنے
تو نہیں جا ئے گا، مقصد حضور پا ک ﷺ کا یہ ہے دنیاوی علوم بھی پو ری طرح سیکھو
اوررو حانی علوم بھی پو ری طرح سیکھو رو حانی علوم اور دنیا وی علوم کا مقصد ذخیرہ
قرآن پاک کا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا لا يغادر
صغيرة ولا كبيرة إلا أحصاها …کہ قرآن ایک ایسی
جامعہ مکمل علمی دستاویز ہے کہ جس میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر بات کو
وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے قرآن میں سائنسی علوم بھی ہیں ،قرآن میں ایجادات
بھی ہیں ،قرآن میں زمین کو تسخیر کر نے کے فارمولے موجود ہیں اور قرآن میں
آسمان کو تسخیر کر نے کے فا رمولے بھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا
…ہم نے انسان کے لئے زمین کو آسمانوں کو زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب کا
سب انسانوں کے لئے محکوم ہے انسانوں کے لئے مسخر کر دیا ہے ، مسخرکر نے سے مراد یہ ہے کہ آپ کی حاکمیت قائم
ہے زمین پر اور آسمان پر زمین اور آسمان پر اب حاکمیت آپ یوں کہیں گے روز سورج
نکلتا ہے اور آپ کو دھوپ دے کر شام کو غروب ہو جا تا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ
نے آپ کے لیے محکوم کر دیا ہے آپ کے لئے سورج کو محکوم کر دیا ہے اس لئے صبح
نکلتا ہے اور شام کو وہاں ہو تا ہے جہاں وہ غروب ہو تا ہے یہ حاکمیت انسان کی اپنی
جگہ قائم ہے لیکن اس میں انسان کا اپنا ذاتی وصف میں وہ زیر بحث نہیں ہے اب ذاتی
وصف زیربحث آتا ہے لوگوں نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے معجزہ طلب کیا آپ نے نظر اٹھا ئی اور
چاندکی طرف اشارہ کیا اور ایسے کر کے چاند کے ٹکڑے ہوگئے، پتھر نے بھی کلمہ پڑھنا شروع کر دیا، کچھ کلو
میٹر کے فاصلے پر اونٹ نے رو نا شروع کر دیا اور وہاں موجود تمام صحابہ اکرام نے اس اونٹ کے رو نے کو
سنا حضور پاک ﷺ تشریف لیجارہے تھے دیکھاوہ
رو رہا ہے ۔اس کے اوپر ہا تھ پھیرا اس سے پو چھا تیرا کیا حال ہے ؟اس کو مالک کو
بلایا اور اس کے مالک سے کہا کہ یہ تیرا اونٹ جو ہے یہ تیری شکا یت کر رہا ہے یہ
کہتا ہے کہ کام تو مجھ سے پو را لیتا ہے لیکن کھا نے پینے کو نہیں دیتا میں کمزور
ہوتا جارہا ہوں ۔ حضرت سلیمان کے واقعے
میں آپ غور کر یں ہوا پر ان کی حکومت تھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے ہوا کو
حضرت سلیمان کے تا بع کر دیا اور سلیمان کو یہ بتا دیا کہ ہوا تیرے تابع ہے اورتجھ
سے یہ سرکشی نہیں کر ے گی۔ پیغمبران علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے قصہ اگر آپ پڑھیں
تو لوگوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دئیے اب تولوگ کہانیاں پڑھتے ہیں ناول پڑھتے ہیں ایسی
کہانیاں پڑھتے ہیں جس میں کو ئی سر پیر ہی نہیں ہو تے جس میں سپنس Sispansہو
جس میں دہشت ہو یا جس میں جنسی لذت ہووہ ہمارا شعا ر بن گیا پڑھنے کا، پیغمبرا ن علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے اگر آپ
قصے پڑھیں تو اور اس کے اندر تفکر کریں تو ہر قصے میں آپ کوایک حکمت نظر آئے گی
ہر قصے میں آپ کو ایک بات کی نشا ندہی ہو گی اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو حکمت دے
کر یہاں بھیجا ہے او رحکمت اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو عطا کی وہ حکمت پیغمبروں نے
تمام نوع انسانی کو بتادی تاکہ انسان اپنے ازلی اشرف سے واقف ہو انسان کے اندر یہ
یقین متحرک ہو جائے انسان دراصل اللہ کے علوم کاامین ہے انسان کی فضلیت دراصل یہ
ہے کہ انسان کے پاس اللہ تعالیٰ کے وہ خصوصی علوم ہیں جو علوم انسان کے علاوہ کسی
دوسری مخلوق کے پا س نہیں ہیں ۔جب تک انسان اپنے ازلی شرف کو تلاش نہیں کرے گا، جب
تک انسان اپنے باپ آدم کے ورثہ علم
الاسماء کو حاصل کر نے کی جدو جہد نہیں کر ے گا اس وقت تک انسان محکوم رہے گا، ذلیل رہے گا، پست رہے گا،بے
سکون رہے گا ،پر یشان رہے گا۔ اس کے اوپر دہشت اور خوف کے سائے منڈلاتے رہیں گے
اور جب انسان اپنا ازلی شرف حاصل کر کے اپنے باپ آدم کے ورثے کو تلا ش کر لے گا،
تلاش کہاں کرے گا وہ تو موجود ہے ،قرآن آ دم ہی کا ورثہ تو ہے، قرآن پاک علم الاسماء
ہی تو ہے قرآن پاک وہ امانت ہی تو ہے جس امانت کو اٹھا نے کے لئے زمین آسمان کی
تمام مخلوقات نے انکار کر دیا اور انسان نے اس کو اپنے کندھوں پر اٹھا یا تو یہ
ساری تقریر سے یہ ساری بات سے ایک ثبوت ایک نتیجہ مرتب ہو تا ہے وہ یہ ہے کہ اگر
انسان اپنے باپ آدم کا ورثہ علم الاسماء سیکھ لے تو وہ اللہ کا نائب ہے اللہ کا
خلیفہ ہے اللہ کی نیابت میں داخل ہو کر اللہ کے اختیارات سے کا ئنات میں تصروف
کرسکتا ہے ۔لیکن اگر انسان اپنے باپ آدم کے ورثے کو حاصل نہیں کر تا تو انسان کی
حیثیت جا نوروں سے ممتاز نہیں ہے ۔بات وہی ہے عقل و شعور تو جانوروں میں بھی ہے یہ
با ت محسوس کر ے کہ انسان کا امتیاز یہ ہے کہ اس کو علوم حاصل ہیں اللہ تعالیٰ نے
انسان کو علوم سیکھنے کی صلاحیت دی چاہے وہ دنیا وی علوم ہوں یا روحانی علوم ہوں
چا ہے وہ آسمانی علوم ہوں۔علوم سیکھنے کی صلاحیت ۔۔آپ نے نہیں دیکھا ہو گا کہ
بکر ی نے کبھی میٹرک کر لیا ہو یا کسی گا ئے بھینس نے میٹرک کر لیا ہو کسی اور جا
نور نے پہلی دو سری کلاس میں داخلہ لیا ہو،
مطلب یہ ہے صلاحیت ہی نہیں ہے، علم سیکھنے کی صلاحیت ہے تو صرف آدم کو ہے۔
مگرکیو نکہ ا نسان نے اس صلاحیت کو دفن کر دیا انسان اس صلاحیت کو استعمال ہی نہیں
کر تا بھول گیا اپنے اسلاف کی قدرومنزلت ،
اپنے اسلاف کاعروج ، اپنے اسلاف کا دبدبہ اس کے ذہن سے نکل گیا ۔ کیوں نکل
گیا؟ اس لئے کہ اس نے علم سیکھنا چھوڑ دیا
ہے سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندربابااولیا ء ؒ
نے نو ع انسانی کی جو نبض دیکھی اس نبض میں یہ بات تشخیص ہو ئی کہ اگر
انسان اپنے علوم کو جو اس کا ورثہ ہے جو اس کے علوم ہیں دوبارہ حاصل کر لے دو بارہ
سیکھ لے تو پھر اس کو عروج حاصل ہو جائے گا ۔ دنیاوی علوم سیکھ لے تو دنیا وی علوم
سیکھ جا ئے گا روحا نی علوم سیکھ لے تو کائنات پر حکمرانی قائم ہو جائے گی ۔اور جب
کا ئنات پر حکمرانی قائم ہو جا ئے گی تو اس کے اندر سے پریشانیاں اس کے اندر سے
عدم تحفظ کااحساس اس کے اندر سے خوف اور اس کے اندر سے غم نکل جا ئے گا ۔انسان کے
پاس صرف محبت رہ جا ئے گی ،انسان کے پاس صرف سکون رہ جا ئے گااورانسان کے پاس صرف
اللہ کی دوستی رہ جائے گی ، اللہ انا
اولیا ء اللہ الا خوف علیہ یحزنون …اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ جو
بندے میرے دو ست بن جا تے ہیں ان کے اوپر سے غم اور خوف دونوں آپ غور فرما ئیں
اگر بندوں کے اندر سے غم اور خوف نکل جائے عافیت خوشی مسرت شادمانی کے علاوہ کیا
با قی رہ جا ئے گا ۔ یہ محسوس کر تے ہو ئے
کہ نوع انسانی نے علم کی طرف توجہ دینا چھوڑ دی ہے یا کم کر دی ہے عظیمیہ سلسلہ نے
ایک پروگرام بنا یا کہ نوع انسانی کو دنیا وی علوم کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کو یہ
بتا یا جا ئے کہ دنیا وی علوم سیکھنے کے ساتھ ساتھ قرآنی علوم کو بھی سیکھا جائے
اور جب قرآنی علوم سیکھیں گے د نیا وی علوم بھی ساتھ ساتھ سیکھیں گے تو ہمارے
اندر عزت اور توقیرکا جذبہ پیدا ہو گااور ہم اس بد حالی سے، بے سکونی سے ،پر یشانی
سے خوف اور ڈر کی زندگی سے وسوسوں سے ذلت اور رسوائی سے آزاد ہیں اب اس کام کو
عظیمیہ سلسلے والوں نے شروع میں تو اخباروں کے ذریعے پیش کیا۔ آپ نے اخبار میں
پڑھا ہو گا اخبار کا دامن جب کم نظر آیا روحانی ڈائجسٹ پرچہ نکالا روحانی ڈائجسٹ
اس طرح نکلا اس طرح شروع ہواکتنے سال اس کو خون دینا پڑاکتنے سال اس پر نقصان اٹھا
یالیکن بہرحال نظر اللہ کے بھروسے پر تھی کہ کسی طرح نو ع انسانی علوم کی طرف
متوجہ کرو ۔ خصوصاًرسول اللہ ﷺ کی امت
علوم کی طرف متوجہ ہو۔ سلسلہ جب بڑھاتو اللہ کا بہت بڑا کرم ہے جو لوگ تشریف لائے
انہو ں نے نہ صرف میرےساتھ ہمدردی کی بلکہ میرے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیا جسمانی
تعاون بھی کیا،مالی تعاون بھی کیا ، جب وہ اور تعاون پر آیا اور اچھے لوگ ملے
نوجوان بچے ملے تو بیٹھ کر یہ طے ہوا کہ حضور کے امتی علم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے
اب صورت یہ ہے کہ ان کے گھر تک علم پہنچا یا جائے ان کے محلوں میں ایسے سینٹر قائم
کئے جائیں تاکہ وہ اس طرف متوجہ ہو جائیں اور کیوں پہنچایا جا ئے اس لئے جو حضور
پاک ﷺ کی طرف سے ڈیوٹی لگی ہے وہ پوری ہو
جا ئے اور جب ہم مریں تو سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃو السلام کے دربار میں سرخرو ہو
کر حاضر ہو جائیں جو ڈیوٹی لگی ہے اس کو پو را کر یں باقی ما نے یا نہ مانے ۔ یہ
طے ہوا کہ محلے محلے حضور پاک ﷺ کا وہ علم
جس علم کی بنیا د پر ہم حضور کے امتی ہیں وہ علوم جس علوم کی بنیا د پر حضور
پاک ﷺ رحمت العالمین ہیں وہ ان کی امت تک
پہنچا ئے جا ئیں اور یہ سینٹر عظیمیہ روحانی لا ئبری کے نام پر قائم ہوئے اب تک یہ
بیس با ئیس یہ نوجوان بچے آپ کے بچے میرے بچے اللہ تعالیٰ انہیں مزید ہمت دے اللہ
تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول کر ے یہ ہم نے سینٹر قائم کئے اب آپ سب حضرات کا ،
والدین کا، والدین کے بچوں کا، بہنوں کا ،
بیٹیوں کا، ماؤں کا فرض ہے یہ جو
آپ کے گھر پرہم پورے علم کا ذخیرہ لے آئے ہیں آپ کے گھر پر آپ کے محلوں میں جو
ہم نے علم کا چشمہ ابال دیا ہے اس سے آپ فائدہ اٹھائیں جتنا آپ ان علوم سے فائدہ
اٹھا ئیں گے ظا ہر ہے اسی منا سبت سے آپ کی نسل خوشحال ہو گی پر سکون ہو گی آپ
کی نسل کے اندر جو محرومی ہے۔ آپ کی نسل کے اندر جو محکومیت ہے آپ کی نسل کے
اندر جو احساس کمتری ہے آپ انشا اللہ علوم حاصل کر نے کے بعد ختم ہو جائے گی ۔آپ
سب حضرات تشریف لا ئے بلا شبہ یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ آپ سب حضرات علم کے
متلاشی ہیں آپ سب حضرات اپنے آبا ؤ اجداداور اپنے اسلاف کا جو عروج کا زمانہ ہے
اسے واپس لا نا چاہتے ہیں اب صورت یہ ہے کہ اپ کے اندر جذبہ بھی ہے آپ کے اندر
تڑپ بھی ہے آپ کچھ کرنا بھی چا ہتے ہیں اب ہماری جدو جہد اور کو ششوں کے ،جدوجہد
یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ
ﷺ کی طرف سے اولیا ء اللہ کی طرف سے حضور قلندر بابااولیا ء ؒ کی طرف جو
علوم ہمیں حاصل ہو ئے ہیں وہ ہم آپ کتا بی شکل میں آپ کے سامنے پورے کے پورے رکھ
دیں او ر وہ ہم نے اپنا فرض پو را کر نے کی کو شش کی ہے انشا اللہ جیسے جیسے وقت
گزرے گا ہم آپ لوگوں سے پیسے نہیں ما نگتے ہم آپ لوگوں سے چندہ نہیں طلب کر
تے،ہم آپ لوگوں سے کو ئی جسمانی خدمت نہیں لینا چا ہتے ،ہم صرف یہ چا ہتے ہیں کہ
آپ قرآنی علوم سیکھیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں آدم کو اللہ تعالیٰ نے جو علوم منتقل
کئے آپ آدم کے وارث ہیں اپنے باپ آدم کے ورثے کو حاصل کر نے کی جدوجہد اور کو
شش کریں آپ دنیا وی علوم سیکھتے ہیں بڑی بڑی فیسیں ادا کر تے ہیں کتا بیں خریدتے
ہیں پنسیل خریدتے ہیں اسکول کی فیس دیتے ہیں ٹیوشن پڑھا تے ہیں کیوں اس لئے کہ آپ
کے پیٹ کا ایندھن پورا ہو تا رہے ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ انا اللہ
یرزق من یشاء…ہم یہ کہتے ہیں دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے
ساتھ ساتھ آپ اپنے اسلاف کا اپنے بزرگوں کا علم بھی حاصل کریں ۔اوروہ علوم روحانی
علم ہیں ، وہ علم قرآنی علم ہیں ،وہ علم آسمانی علم ہیں وقت کم ہے ورنہ میں آپ
کو بتایاکہ اس وقت دنیا میں جتنی بھی سائنسی ایجا دات ہیں ہر سائنسی ایجا دات کے
بارے میں قرآنی آیا ت موجود ہیں ۔امریکہ جا نے کا مجھے اتفاق ہوا ۔ آٹھ دس پرو
گرام انہوں نے نکا لے تھے تو وہاں میں نے اس پروگرام میں اس بات کا اظہار کیا کہ
میرے اندر ایک آواز ایک ہو تی ہے کہ یہ جتنی سائنسی ایجا دات ہیں جتنےسا ئنٹسٹ
ہیں وہ قرآن لئے بیٹھیں ہیں ۔وہ قرآن پڑھتے ہیں ، قرآن کی آیتوں پر ریسرچ کر تے ہیں نتیجے میں
کو ئی نہ کو ئی چیز ایجا د ہو جا تی ہے ۔او راس ایجاد کا سہرا وہ اپنے ما تھے پر
باندھ لیتے ہیں وہ یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے یہ ریسرچ قر آن سے کی ہے جہاز کا فا
رمولا معلوم کر نا چا ہیں اگر آپ ٹا ئم اسپیس کو لیس کر نے کا فارمولا تلاش کر نا
چاہیں قرآن میں موجود ہے اگر آپ جانوروں کی اور درختوں کی بولیاں سمجھنا چاہیں قرآن
میں موجود ہے ،اگر آپ ڈیپ فریزر کا فارمولا معلوم کر نا چاہیں حضرت عزیز کے واقعہ
میں موجود ہے ،اگر آپ پیما ئش کا تذکر ہ اٹھا لیں اور زمین کی پیما ئش کر نا چاہیں
قرآن پاک میں موجود ہے، آج سائنسدان کہتے ہیں ہر انسان پر روشنیوں کا بنا ہوا
انسان ہے سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃو السلام سے حضو ر نے فرمایا اللہ نو رالسموات
والارض …کہ زمین اور آسمان میں جتنی بھی چیزیں ہیں وہ نور کے غلا ف میں بن رہی
ہیں چو دہ سو سال بعد سائنٹسٹ نے ریسرچ کی اور یہ کہا کہ ہر انسان کا ایک جسم ہے
اور جسم کے اوپر روشنیوں کا ہالا ہے ہر جسم کے اوپر ایک اور روشنیوں کا جسم ہے اب
آیت پڑھیں اللہ نو رالسموات والارض …کہ یہ ساری جو دنیا ہے یہ انسان کا جو جسم ہے
،جو ز مین کا جسم ہے، جو آسمان کا جسم ہے ،وہ اللہ کے نور میں بند ہے اور اس اللہ
کے نور کی ایسی مثال ہے چراغ طاق میں، طاق میں چراغ وہ ایسا لگتا ہے جیسے …وہ ایسا
لگتا ہے جیسے چمکتا دھمکتا ستارہ وہ ایک درخت کے تیل سے روشن ہے …ایک درخت کی طرح
ہے جس کا نہ ہی شرق ہے نہ غرب ہے۔ اب آپ
غور کریں دنیا میں جو بھی کچھ چیز موجود ہے اگر آپ اس کے اوپر تفکر کریں آپ ایک
درخت پر تو آپ کو درخت کے علاوہ کچھ نظر
نہیں آئے گا کہ ا انسان کو آپ درخت نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح درخت پر پھل لگتے ہیں انسان پر پھل
نہیں لگ سکتے کیا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
نور بھی ایک درخت ہے ۔اور اس نور کے درخت
میں کا ئنات کے تمام افراد پھلو ں کی طرح لٹکے ہو ئے ہیں ۔قرآن پر اگرغور کیا جا
ئے قرآن کے اندر تسخیری فا رمولوں کا مطا لعہ کیا جا ئے با لکل وضاحت کے ساتھ یہ
بات سامنے آجا تی ہے کہ سائنٹسٹ قرآن لےکر بیٹھا او رقرآن کی آیتوں سے ریسرچ
کر کے نئی نئی ایجادات کیں بعد میں اس بات
کا ثبوت فراہم ہوا امریکہ میں جب میں نے ٹی وی پر تقریر کی تو بات سارے میں پھیل
گئی ۔لوگ آنے جا نے شروع ہو گئے ٹیلی فو ن پر آئے تو ایک صاحب نے بتا یا صاحب
ایک سائنٹسٹ بہت بڑا سائنٹسٹ پاکستان کا کسی طرح انہیں وہ علاقہ دیکھنے کی اجا زت
مل گئی کہ جہاں سے انہوں نے چاند گا ڑی بھیجی تھی وہاں انہو ں نے کہا مجھے بہت
ساری چیزیں دکھا ئی گئیں ۔تو ایک کمرہ بند تھا وہاں جا نے کی اجا زت نہیں تھی بڑی
جدو جہد اور کو شش اور اس شرط کے ساتھ اجازت دی جانے کی ، بندہ کو ئی ساتھ نہیں ہو گا ۔جب اس کمرے کو کھو
لا گیاتو وہاں ایک صندوق تھا لو ہے کا اس صندوق کو جب کھو لا گیا تو وہاں قرآن
پاک کھلا ہوا رکھا تھا کتنی ستم ظریفی ہے
کتنی بدنصیبی ہے کہ قرآن ہمارا ہے جس شخصیت پر ،جس ہادی پر، مقدس ہستی پر، قرآن
نازل ہوا ،وہ امر ہیں ہم ان کی امت ہیں ۔دعویٰ
ہمارا یہ ہے کہ اللہ ہمارا ہے اللہ نے جو علوم ہمارے اوپر نازل کئے ہیں اس علوم سے
غیر مسلم فا ئدہ اٹھا رہے ہیں ۔اور قرآن کے علوم سے فا ئدہ اٹھا کرانہوں نے ساری
د نیا پر حاکمیت قائم کر لی ہے قصور ان کا نہیں ہے قصور ہمارا ہے اللہ مسلمانوں کا
نہیں ہے مسلمان تو وہ ہیں تو اللہ کی کتاب کو پڑھیں انا اللہ لا یغد…اللہ نے قانون
بنا دیا جو قومیں اپنی تبدیلی چا ہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے وسائل پیدا کر دیتے ہیں
کہ ان کے اندر تبدیلی آجا تی ہے غیرمسلموں نے اپنے اندر تبدیلی چا ہی غیر مسلموں
نے اپنے اندر تفکر کیا ریسرچ کی زمین آسمان کے فا رمولوں کو تلا ش کیا اللہ
تعالیٰ نے ان کے اوپر علوم ظا ہر کر دئیے کیوں اس لئے کہ انسان ہر انسان اس کا کو
ئی بھی مذہب بر حال وہ آدم کی اولاد ہے اور آدم کی اولاد ہو نے کی حیثیت سے آدم
کے ورثے کا حق دار ہے اب اس آیت کو پھر
پڑھیں لا يغادر صغيرة ولا كبيرة إلا أحصاها
…قومیں اگر اپنی تبدیلی نہیں چا ہتی اللہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔مثلا ً
ایک قوم عروج نہیں چا ہتی ایک قوم دنیا میں حاکم بن کر نہیں رہنا چا ہتی اللہ
تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں ضرورت نہیں ہے اس لئے ضرورت نہیں ہے اللہ تعالیٰ
نے اس قوم کو نعمت عطا کی ہے ۔اس قوم نے
ناشکری کی ہے آپ کے پاس کا ئنات کی تفسیر کی کتا ب موجود ہے آپ کبھی پڑھتے ہی
نہیں ہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو اس کے اندر تفکرنہیں کرتے غور نہیں کر تے آپ نے اس
کتاب کو مسئلے مسائل حل کرنے کی کتاب بنا لی ہے کہ آیت الکرسی پڑھو نو کری مل جا
ئے گی ۔فلاں آیت پڑھ لو تو بخار اتر جائے گا،فلاں آیت پڑھ لو توگھر میں آسیب
نہیں ہو گا جا دو ٹونا کا علا ج ہو گا اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہے کہ وہ علاج آپ
کو ہوجا تا ہے قرآن اس میں بھی آپ کی رہنما ئی کر تا ہے لیکن اب جس محدود انداز سے
آپ قرآ ن سے استفا دہ کر تے ہیں ویسے ہی قرآن آپ کو فا ئدہ پہنچا تا ہے اگر اس
محدودیت سے آپ کائناتی تفکر کو اپنا نا لیں اور اپنے اسلاف اپنے بزرگوں کی طرح با
رہ سو سال پیچھے ہٹ کر قرآن کے اندر ریسرچ کر یں آپ کو عروج حاصل ہو گا آپ کی
نسلیں سدھر جا ئیں گی آپ اس ذلت مسکنت کی مار سے محفوظ ہو جا ئیں گے لیکن آپ نے
قرآن نہیں پڑھا اگر اور مزید قرآن کے علوم کی طرف سے لا پروائی جا ری رہی تو کچھ
نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پل بھر کے مسلمان ہیں ان کا کیا حشر ہو گااب غور کر یں
جہاں دیکھیں مسلمان کٹ رہا ہے، جہاں
دیکھیں مسلمان کٹ رہا ہے ،جہاں دیکھیں مسلمان کٹ رہا ہے ایسا لگتا ہے مسلمان نہیں
بھیڑ بکریاں ہو گئے اب افغانستان میں مسلمان کٹ گیا، کشمیرمیں مسلمان کٹ گیا،
کینیا میں مسلمان کٹ کر رہا ہے ، ایران عراق میں مسلمان کٹ رہا ہے جس طرف دیکھو
بھیڑ بکریوں کی طرح وہ مسلمان کو کاٹتے چلے جا رہے ہیں مسلمان بالکل جیسے بکرے
قربا نی کی، بکر ے جتنے چا ہے کاٹ دو ان کے اندر کوئی حس ہی نہیں ہے، یہ کیوں ہے اللہ نہیں چا ہتا مسلمان کٹے اگر
اللہ یہ چا ہتا مسلمان ذلیل وخوار ہو کر رہے اور کٹتا رہے تواللہ تعالیٰ نے ان کے
اپنے محبوب دوست رحمت العالمین کو جو بھیجا اس لئے بھیجا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ
کو جو قرآن کر یم عطا کی اس لئے عطا کی ہے یہ جو آج مسلمان کا حال ہے جو ذلت اور
پر یشانی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کے اندر تفکر کر نا چھوڑ
دیاخدا کر ے آج کے بعد یہاں جتنے لوگ موجود ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے نکلیں کہ
چو بیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ، آدھا گھنٹہ، بیس منٹ ایسے نکالیں کہ قرآن کی کو ئی
آیت پڑھیں اور پھر اس کا تر جمہ کر یں اور اس کے معنوں پرغور کریں خدا کرے ایسے
بندے یہاں موجود ہوں جو پیغمبروں کے قصے پڑھیں اور ان پیغمبروں کے قصے میں اللہ
تعالیٰ کی بیان کر دہ حکمت کو تلا ش کر یں حضرت سلیمان کا قصہ اگرآپ پڑھیں گے تو
آپ کو پتا چلے گا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے بندے ہواؤں پر ان کی حکومت
،جنات پر ان کی حکومت ،پرندوں پر ان کی حکومت ،فرشتوں پر ان کی حکومت تو جب حضرت
سلیمان کا قصہ پڑھیں گے تو اس قصے کے اندر آپ کو کا ئنات کی تسخیر سے متعلق
آیتیں ملیں گی آپ پڑھیں توصحیح طور پر غور کریں جتنا جتنا غور کریں گے، جتنا
جتنا تفکر کریں گے ،جتنا جتنا قرآن کا مطا لعہ کر یں گے ،اللہ تعالیٰ کی امداد
آپ کو نصیب ہو گی اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ئی مشکل کتاب نہیں بنا ئی خود اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں ولقدیسرنا القرآن…ہم نے قرآن کوآسان کر دیا ہے کوئی سمجھنے
والا اللہ تعالیٰ خود چا ہتے ہیں حضور پا ک
ﷺ کے امتی قرآن کو پڑھیں اس پر غورو فکر کریں روحانی علوم بھی۔ ہمیں اللہ
تعالیٰ کی اس دعوت کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اللہ تعالیٰ کی
اس دعوت پر لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ کے در پر دست سوال دراز کر نے آئے، خدا کے لئے پڑھو خدا کے لئے ، علم حا صل کرو۔پیسے نہیں خرچ کر سکتے عظیمیہ رو
حا نی لائبریری میں آکرپڑھو مفت ، پڑھو
اس بد نصیبی کے داغ کو دھو ڈالوجو قرآن کی محرومی کی وجہ سے پو ری قوم کے ماتھے
پر لگ گیا ہے۔ اس ذلت اور رسوائی سے نکل جاؤ کہ غیر مسلم اقوام کی مسلمان قوم محکم
بن جا ئے کتنا افسوس ہے کتنی بڑی تکلیف کی بات ہے کہ تسخیری فارمولے کی کتاب ہمارے
پاس ہے ہماری کتاب ہے اور ہماری کتاب سے غیر مسلم تر قی بھی کر رہے ہیں اور
ایجادات بھی کر رہے ہیں اور ہمیں محکوم بنا رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق
دے کہ ہم قرآن پاک کو پڑھیں تھوڑا تھوڑا پڑھیں تر جمہ پڑھیں اور اس پر غوروفکر کر
یں اس غورو فکر کے نتیجے میں جہاں ذہن اٹکے وہاں عظیمیہ روحا نی لائبریری میں
تشریف لا ئیں ۔ہم یہ نہیں کہتے ہم بہت بڑئے عالم و فاضل ہیں ہم بھی نہیں کہتے کہ
ہم نے کو ئی علم کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں لیکن اتنا ضرو ر ہے ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ
کی رحمت ضرور ہے ،ہمارے اوپر سیدنا حضور علیہم الصلوٰ ۃوالسلام کی رحمت ضرور ہے ،
ہمارے اوپر اولیاء اللہ کی رحمت ضرور ہے اس رحمت کے سہارے ہم آپ کے درپر یہ سوال
کر نے آئے ہیں کہ خدا کے لئے علم حاصل کرو جہاں علم حاصل ہو وہاں سے علم حاصل کرو
اب علم حا صل نہیں کیا تو اب جو چودہ سو سال کے بعد مسلمان قوم کا حال ہے اس سے
بھی زیادہ بدتر ہو جا ئیے گا۔ قرآن میں اس کی شہادت موجود ہے قوم عاد ،قوم ثمود ،
قوم نوح ،بر باد ہو گئی صفحہ ہستی سے نکل گئی کیوں اس لئے کے اللہ کے پیغام کو
نہیں سنا اس لئے کہ ان قوموں نے خود کو جانوروں کی صفت سے الگ کر نے کی کو شش نہیں کی بلکہ جا
نوروں کی صفوں میں شامل ہو گئیں ۔وقت بہت زیادہ ہو گیا آپ حضرات کا بہت شکریہ آپ
تشریف لا ئے میری درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے اپنا وقت ضائع کیا یہاں میری باتیں
سنیں میری گزارشات پر غور و فکر کیا یہاں سے جا نے کے بعد بھی اپنے گھروں میں۔
قرآن پاک پڑھیں اور غوروفکر کریں اور یہ بھی غوروفکر کریں کہ انسان صرف مادیت ہی
نہیں ہے انسان کے پیچھے ایک اور زندگی ہے اس مادیت کے پیچھے ایک اور ہے کون آدمی
اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ جو آدمی پیداہو تا ہے وہ مرتا بھی ضرور ہے اور جب
مر تا ہے ہا تھ بھی رہتے ہیں ،پیر بھی رہتے ہیں ، کان بھی رہتے ہیں ، آنکھ بھی
رہتی ہیں،دماغ بھی رہتا ہے لیکن ہاتھ ناک کان آنکھ دماغ سب کچھ ہونے کے با وجود
حرکت نہیں کر تے یہ اس بات کی شہادت ہے کہ جسمانی وجود کی اپنی ذاتی کو ئی حرکت
نہیں ہے اگر جسمانی وجود کی کو ئی حرکت ہو تی تو مرنے کے بعد کو ئی لا ش اٹھ کر
بیٹھ جا تی حرکت صرف روح کی ہے جب تک روح اس جسم کو سنبھالے رہتی ہے آدمی حرکت کر
تا ہے اور جب روح اس جسم سے اپنارشتہ توڑ لیتی ہے تو آدمی کی حرکت ختم ہو جا تی
ہے ہر آدمی نے مر دہ لوگوں کو دیکھا ہے باپ بھی مر تے ہیں دادا بھی مر تے ہیں
عزیز رشتہ دار بھی مر تے ہیں کبھی آپ نے دیکھا ہے کسی مردے نے اٹھ کر یہ کہا ہو
کہ بھئی تم مجھے گڈھے میں کیوں دفن کر رہے ہو ،کبھی کسی مردے نے یہ کہا ہے کبھی
نہالاتے وقت جو کروٹ دے رہے ہومجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے آرام سے کروٹ دو ، ثابت
ہوا مادی جسم کی کو ئی اپنی حر کت نہیں ہے مادی جسم کی کو ئی اپنی ذاتی زندگی کو
ئی معنی نہیں رکھتی روح اگر ہے تو مادی جسم کی حر کت ہے روح اگر نہیں تو حرکت تو
دور مادی جسم میں ہی ختم ہو جا ئے گا ۔ آپ قبر میں ڈال دیجئے ایک ہفتے کے بعد قبر
کھولئے وہاں وجود مٹی ہو جا تا ہے گل جا تا ہے سڑ جاتا ہے ۔اب ایک یہ بات پتا چلی
انسانی جسم جو مادی جسم ہے وہ ایک میڈیم ہے روح کے لئے، روح اپنا مظا ہرہ کسی نہ
کسی مادی جسم میں کرتی ہے یہ اصل روح ہے تو جب تک آدمی اپنی اصل سے واقف نہیں ہو
تا تو ظا ہر ہے وہ جاہل ہے ظاہر ہے اپنی اصل سے واقفیت کے لئے ، اپنی روح سے
واقفیت کے لئے ، اپنی انا سے واقفیت کے لئے جہاں عبادات ہیں نماز ہے حج ہے روزہ ہے
وہاں ایک آپ حضرات رات کو سونے سے پہلے مراقبہ کریں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں میں نے انسان کو خلا ء سے بنایا ہے پتلا بنایا ہے اور اس پتلے کے اندر
ونفخت…اپنی روح ڈال دی اگر کو ئی بندہ اپنی روح سے واقف ہو جا تا ہے روح اللہ کے
اندر سے آئی ہے توآدم کو بھی تو اللہ نے بنایا ہے اور جب آپ اللہ سے واقف ہو جا
ئیں گے تو روح بھی آپ کے سامنے آجائے گی اور قرآن کے اندر جو اللہ کی باتیں ہیں
وہ بھی روشن اور واضح ہو کر آپ کے سامنے آجا ئے گی اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق
عطا کرے کہ ہم سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃو السلام کے صحیح امتی بنے اللہ تعالیٰ
ہمیں تو فیق دے کہ ہم قرآنی علوم سیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت اور تو فیق دے کہ
ہم اپنی اصل سے واقفیت حاصل کر نے کے لئے جدوجہد اور کوشش کر یں والذین جھا دو
…اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو بندہ مجھے ڈھونڈنے کے لئے مجھے تلا ش کر نے کے لئے
میرے قریب آنے کے لئے جدو جہد کر تا ہے کوشش کر تا ہے میں نے اپنے اوپر لازم کر
لیا میں اسے راستہ دیکھا ؤں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں وفی انفسکم …دیکھئے اللہ تعالیٰ
اپنی قربت کا اظہار فرما رہے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بندوں میں تو تمہارے اندر ہوں
وفی الفسکون …میں تمہارے اندر ہوں افلا تبصرون …عجیب بات ہے تم مجھے دیکھتے ہی
نہیں وفیاافلا تبصرون …کہ میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے ہی نہیں ہو تو یہ
اندر دیکھنا اللہ تعالیٰ کو تلاش کر نا اللہ تعالیٰ کے لئے جدو جہد اور کو شش کر
نا اس کو روحانیت میں مرا قبہ کہا جا تا ہے یعنی غوروفکر کر نا کنسٹریشن کر نا ذہن
کو ایک نقطے پر مر کوز کر ناان سب کے معنی مفہوم یہ ہے کہ مرا قبہ آپ کر یں اللہ
کو تلا ش کر یں اپنے آپ کو تلا ش کریں سیدنا حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے صحیح امتی
ہونے کو تلاش کر یں اللہ تعالیٰ یہ تو فیق دی سب کو اس میں کو ئی ایسی بات نہیں ہے
کو ئی مخصوص لوگ ہیںوہی یہ کام کر سکتے ہیں روح ہر آدمی میں روح ہے ماشا اللہ
یہاں اتنے سارے لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں کیا کو ئی ایک فردیہ کہہ سکتا ہے اس کے اندر روح نہیں ہے کیا کو ئی ایک
فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ آدم کی اولاد
نہیں ہے کہ یہاں بیٹھا ہو اکوئی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ آدم کی اولاد ہو نے کی حیثیت سے اس
کو آدم کا ورثہ منتقل نہیں ہوا کیا کوئی ایک آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس اللہ کی کتا ب نہیں ہے کیا
کو ئی بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اپنے محبوب رسول اللہ ﷺکو آپ کا
سرپرست بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے ہم کیسے نا لا ئق ہیں کہ اپنے سرپرست کا ذکر
تو کر تے ہیں اپنے سر پر ست پر دورد بھی بھیجتے ہیں ،اپنی سرپرست کے لئے محفل بھی
سجائی جاتی ہے ،لیکن اپنے سرپر ست کی تعلیمات حاصل نہیں ہے ،اپنے سر پر ست کے ورثے
کو حاصل نہیں کر سکے اور یہی محرومی ہے جس کی وجہ سے مسلمان ذلیل ہے مسکین ہے پر
یشان ہے ،بدحال ہے اگر ہم اپنے سرپرست کی تعلیمات پر غور کر یں سیدنا حضور علیہ
الصلوٰ ۃ والسلام کی اخلاق حسنہ پر خود کو اس طرح ڈھا ل دیں کہ ہمارے اندر حضور
پاک ﷺ کا اخلا ق نظر آئے اگر ہم آپس میں
لڑنا بھڑنا چھوڑ دیں ،تفرقوںسے نجات پا جا ئیں ، کتنی عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں وتحصل و …کہ اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑلوآپس میں
تفرقہ نہ ڈالو حکم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپس میں تفرقہ نہ ڈالو ۔کسی بد نصیبی
ہے کہ مسلمان کی پہچان ہی تفرقوں سے ہے اللہ تعالیٰ ہمیں حضور پاک ﷺ کے ارشاد کے
مطا بق قل مسلمین اخوت … مسلمان آپس میں بھا ئی بھائی ہیں ،آپس میں پیار اور
محبت سے رہنے کا جذبہ عطا فرما ئیں تفرقوں سے محفوظ رکھیں اور قرآن پاک کی
تعلیمات پر عمل کر نے کی تو فیق عطا فرما ئے ۔آپ سب حضرات کا بہت شکر یہ آپ
تشریف لائے میں آپ کے لئے دعا کرو ں گا آپ میرے لئے دعا کر یں خدا حافظ ۔اختتام
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس