Topics
جواب:
نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جب اس دنیا
میں پیدا فرمایااسی وقت سے حضور ﷺ کی سیرت
شروع ہوجاتی ہے۔ سیرت سے مراد یہ نہیں ہے کہ نبوت کے بعد جو کچھ حضور ﷺ نے فرمایا
یا جو کچھ رسول ﷺ کی زندگی سے لوگوں نے استفادہ کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کو ریکارڈ کیا۔ یہ بھی
سیرت ہے لیکن سیرت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبر دنیا
میں بھیجا۔ حضور پاک ﷺ نے خود ارشادفرمایا کہ أوّل ما خلق اللّه نوري … کہ اللہ نے
کائنات بنانے سے پہلے ، سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا۔ اب جب کائنات زیر بحث آتی
ہے تو کائنات سے پہلے اگر کوئی چیز زیر بحث آتی ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کا نور ہے ۔
جب کائنات کی بنیاد ہی رسول اللہ ﷺ کا نور بنی تو رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کو ہم کسی
بھی صورت سے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اس لئے کائنات، ساری کائنات کا دارومدار ہی اس
بات پر ہے أوّل ما خلق اللّه نوري …کہ
اللہ نے سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا۔ اور اس نور کے بعد ، اس نور سے ساری
کائنات بنی۔ تو جب ہم کائنات کا تذکرہ کرتے ہیں، کائنات اتنی بڑی کائنات ہے اس میں
کہکشانی نظام ہے ، ستارے ہیں سورج ہیں اربوں کھربوں اس قسم کی دنیا جس میں ہم
بیٹھے ہیں اربوں کھربوں ایسی دنیائیں ہیں۔ جب ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں تو رسول
اللہ ﷺ کا پہلے تذکرہ کرنا ہوتا ہے۔ تو
حضور پاک ﷺ کی جو زندگی ہے اور حضور پاک ﷺ کی جو سیرت ہے وہ اسی دن سے شروع ہوجاتی ہے
کہ جس دن سے رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں
تشریف لائے۔ جب ہم حضور پاک کا تذکرہ کرتے ہیں اور سیرت مطہرہ کا ذکرکرتے ہیں تو
اس میں ہم حضور ﷺ کے بچپن کا بھی ذکر کرتے
ہیں۔ سیر ت پاک کے مطالعے کے بعد یہ بات ذہن میں نہیں آتی اور نہ ہی کسی کتاب میں
یہ ملتی ہے کہ سیرت نگار حضرات نے رسول اللہ
ﷺ کی اسی زندگی کو قلم بند کیا ہے جو زندگی نبوت کے بعد کی ہے۔ رسول
اللہ ﷺ پیدا ہوئے۔ مائی حلیمہ صاحبہ تشریف
لائیں۔بکریوں کے تھنوں میں دودھ کا پیدا ہونا۔ رسول اللہ ﷺ کا جب وہ تشریف لے جارہے تھے وہاں حضور کا اس
اونٹنی پہ بٹھا کر مائی حلیمہ تشریف لے جارہی تھیں اس کا صحت مند ہونا۔ بادل کا
سایہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک شق
ہونا۔ اس کو دھونا۔ دھو کے پھر دوبارہ رکھنا۔ رسول اللہ ﷺ کے رضاعی بھائی کا ڈر کے خوف زدہ ہوکر ان کا
بھاگنا۔ اپنی ماں حلیمہ کو اور باپ کو بلا کر لانا کہ محمد کو کسی نے قتل کردیا
ہے۔ پھر اس کا آنا اور حضور کو دیکھنا ،
پھر حضور کا یہ فرمانا کہ فرشتے آئے تھے اور انہوں نے میرا سینہ شق کیا
اور دل نکالا اس کو دھویا اور دوبارہ رکھ دیا۔ تو یہ ساری چیزیں جو تھیں رسول اللہ
ﷺ کی سیرت میں شامل ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا صادق ہونا، سچا ہونا، امین ہونا، رحم دل
ہونا یہ بھی نبوت سے پہلے کی ہی باتوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ نبوت سے پہلے رسول
اللہ ﷺ کا بتوں کو برا سمجھنا۔ بت پرستی نہ کرنا یہ بھی ساری چیزیں جو ہیں نبوت سے
پہلے کی ہیں۔ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی اسی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے جو
زندگی نبوت کے بعد کی ہے پھر ایک بہت بڑا خلا اور گیپ رہ جائے گا۔ اس لئے کسی
آدمی کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا بچپن کیسا ہے ، اس کا خاندان کیسا ہے،
اس کا ماحول کیسا تھا، اور اس نے کس طرح دنیا میں مقام حاصل کیا۔کس طرح ترقی کی
وغیرہ وغیرہ۔ جب انہیں اعتراض ہوتا ہے عام طور سے کہ صاحب یہ مراقبہ جو ہے اس کو تو
سب مانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غار حرا میں مراقبہ کیا ۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ کہتے
ہیں کہ صاحب رسول اللہ ﷺ غار حرا میں مراقبہ نبوت کے بعد نہیں کیا۔ یہ بات صحیح
ہے۔ رسول اللہﷺ نبوت کے بعد غار حرا میں تشریف نہیں لے گئے اور اگر تشریف لے گئے
ہیں تو اس کی کوئی تحریری یا کتابی شکل میں ہمارے سامنے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اب اس
کو آپ دنیاوی نقطہ نظر سے مثال کے طور پر یوں ہے کہ ایک آدمی نے کسی سبجیکٹ میں
پی ایچ ڈی کیا۔ ہم نے اس آدمی کو پی ایچ ڈی دیکھا، ڈاکٹر دیکھا۔ تو ہم تو یہ بھی
کہہ سکتے ہیں کہ صاحب اس آدمی نے تو اے بی سی ڈی نہیں پڑھی تو ہم کیوں پڑھیں۔ تو
ایسا نہیں ہے۔ جب تک وہ پی ایچ ڈی آدمی نے اے بی سی ڈی نہیں پڑھی ، جب تک کہ پہلی
کلاس نہیں پڑھی، نرسری نہیں پڑھی، پرائمری کلاسیں نہیں پڑھی، میٹرک نہیں کیا، ایم اے نہیں کیا اس وقت تک وہ پی ایچ ڈی نہیں
ہوسکتا۔ تو جب بھی کسی کو پی ایچ ڈی کرنا ہوگا تو اس کو اسی روٹین سے گزرنا ہوگا
کہ میں نرسری کلاس میں داخل ہوں۔ آہستہ آہستہ پڑھوں۔ تو نبوت کی شان بھی یہی ہے
کہ جہاں تک نبوت کا تعلق ہے نبوت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوتی ہے۔ لیکن جب
ہم شعوری حواس کا تذکرہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے اس کا بنایا ہوا
کہ شعور بتدریج ترقی کرتا ہے۔ شعور کے اندر بتدریج طاقت آتی ہے۔ تو اسی شعور کے
اندر طاقت آنے کے لئے کہ شعور کے اندر کیا کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انوارکا انشراح
ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ کیا وہ
تفکر کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ نے جو کچھ کیا وہ بھی تفکر کیا۔ جناب حضرت
ابراہیم ؑ نے آپ نے سنا ہوگا چاند ستارے خدا ہیں، اور یہ خدا ہے، وہ خدا ہے اور
جب وہ چھپتے رہے تو وہ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ چھپنے والا خدا نہیں ہوسکتا۔
تو کوئی آدمی یہ کہے صاحب کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تفکر کیا تھا یہ تو نبوت سے پہلے
کا تفکر تھا تو ہم کیسے تفکر کریں تو یہ بات جو ہے میرا اپنا خیال ہے اس میں لوگ
چونکہ گہرائی میں نہیں سوچتے اس لئے اس قسم کی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ حضور
پاک ﷺ کے وصال تک ہر ہر لمحہ، ہرہر دن اور
ہر ہر مہینہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پاک سے
متعلق ہے۔ یہ جو بات انہوں کہا کہ صاحب رسول اللہ
ﷺ نے غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے، نبوت کے بعد حضور تشریف نہیں لے گئے۔
اور معاشرے میں انہوں نے کام کیا۔ جب ہم یہ مراقبہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم نے
کبھی یہ نہیں کہا کہ بھئی آپ دنیا چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجائیں، جنگل میں بیٹھ
جائیں۔ وہاں پشاور میں وہاں ایک بہت بڑے اجتماع میں اسی طرح کا ایک اجتماع تھا
وہاں اس میں بڑے بڑے افسران تھے تو وہاں مجھ سے یہی سوال ہواتھا کہ صاحب آپ یہ
چاہتے ہیں کہ ساری دنیا گھر بار چھوڑ کر جنگل میں جاکر بیٹھ جائے ۔ بیوی کا خیال
کرے نہ بچوں کاخیال کرے بس مراقبہ میں آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہیں۔ میں نے اس کے
جواب میں ایک بات پوچھی کہ وہ یہ کہ بھئی ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بات فرمائی ہے
کہ میں دو گناہ معاف نہیں کروں گا۔ ایک گناہ تو یہ ہے کہ میں شرک معاف نہیں کروں
گا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اگر کوئی شریک ٹھہرائے گا تو وہ گناہ ناقابل معافی ہے۔
دوسری بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ میں حقوق العباد معاف نہیں کرتا۔ تو اگر کوئی
آدمی یہ دنیا چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجائے اور جنگل میں چلا جائے نہ وہ والدین کے
حقوق پورے کرے نہ بیوی بچوں کے حقوق پورے کرے نہ وہ معاشرے کے حقوق پورے کرے تو
بھائی یہ تووہ شرک کررہا ہے۔ تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم لوگوں کو شرک کی
طرف دعوت دے رہے ہیں۔ اور مفت میں کہ صاحب آپ لوگوں کو شرک کی طرف دعوت دیں اور
اپنی وہاں عاقبت خراب کریں اور دوزخ کے انگارے ہم کھائیں۔ مقصد یہ نہیں ہے ، مقصد
یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر آدمی کا یہ فرض ہے کہ وہ باپ کو جانتا ہو۔ اگر
کوئی آدمی اپنے باپ کو جانتا پہچانتا نہیں ہے یا اس کو باپ کا علم نہیں ہے تو اس
آدمی کی معاشرے میں قدر و قیمت نہیں ہے۔ معاشرے میں اپنا وجود قائم کرنے کے لئے
اور معاشرے میں خود کو ظاہر کرنے کے لئے اور معاشرے کا ایک معزز رکن بننے کے لئے
ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے باپ کو جانتاہو، اپنی ماں کو جانتا ہو۔ اگر
کوئی آدمی اپنے باپ سے ناواقف ہے ۔ کوئی کہتا ہے تمہارا باپ کون ہے اس کو پتہ
نہیں ا س کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔تو اسی صورت سے اگر کوئی آدمی اس دنیا میں
رہتے ہوئے اپنے اصلی باپ خدا سے واقف نہیں ہے تو ساری کائنات اس کو رد کردیتی ہے
اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔ اس کا کوئی وجود کائنات میں سوائے بوجھ کے کچھ نہیں ہے۔ جس
طرح ایک باپ سے واقف ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر مخلوق کو، مکلف مخلوق کو ، دو مخلوق
اللہ نے بنائے ہیں ، ایک جنات ایک انسان۔ ان کے لئے لازم ہے کہ اپنے رب کو جانتے
ہوں، اپنے باپ کو پہچانتے ہوں، اپنے پیدا کرنے والے خالق کو پہچانتے ہوں۔ تو کوئی
یہ کہے صاحب کہ باپ کو پہچاننے کے لئے تو ہمیں سب کچھ چھوڑنا پڑے گاایسا نہیں ہے۔
باپ نے یہ ساری کائنات آپ کے لئے بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو خالق ہیں، اور اصلی
باپ ہیں ، خالق ہیں، رب ہیں، رب العالمین ہیں انہوں نے یہ کائنات اس لئے نہیں
بنائی کہ آپ نہ روٹی کھائیں، نہ کپڑا پہنیں ، جنگل میں چلے گئے۔ ایسا نہیں ہے۔ اللہ
نے جو اپنا دسترخوان بچھایا ہے زمین میں اس لئے بچھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے
ہیں آپ اچھے سے اچھا کھانا کھائیں ، اچھے سا اچھا کپڑے پہنیں، اچھی سے اچھی رہائش
اختیار کریں ۔ لیکن ساتھ ساتھ جو باتیں اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں انہیں اختیار
کریں اور جو باتیں اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں انہیں چھوڑ دیں۔ اللہ کو جو تلاش
کرنا ہے جب تک کہ کوئی آدمی اس بات کی طرف اپنا ذہن نہیں لے جائے گاکہ اللہ ہے
کون ، اللہ ہے کون، اللہ کہاں رہتا ہے؟ تو اس وقت تک وہ اللہ کو تلاش نہیں کرسکتا۔
اب رہ گئی یہ کہ صحابہ کرام ؓ نماز سے مدد مانگتے تھے اور صبر سے ،ہ ٹھیک بات ہے
نماز، میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا اور ایک کتاب بھی لکھی روحانی نماز۔ آپ لوگوں
کوا فی الواقع اس لٹریچر پڑھنا چاہئیے۔
مسلمان لٹریچر نہیں پڑھتا۔ روحانی نماز میں نے کتاب لکھی۔ اس میں یہ بات بتائی ہے
کہ نماز دراصل مراقبہ ہے۔ مراقبہ کا مطلب ہے کنسٹنریشن۔ مراقبہ کا مطلب ہے کسی ایک
نقطہ پر ذہن کو مرکوز کرنا۔ یہ مراقبہ ہے۔ لیکن مراقبہ کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے
کہ آپ جنگل چلے جائیں۔ اور بستیاں غیر آباد ہوجائیں۔ بچے یتیم ہوجائیں۔ بیویاں
بیوہ ہوجائیں۔ نہیں یہ تو حق تلفی آپ کررہے ہیں۔ یہ تو اللہ کے راستے پر چلنے کے
بجائے آپ شیطان کے راستے پر چل رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا … لارہبانیۃ فی الاسلام …
اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ اسلام میں یہ بات نہیں ہے کہ آپ دنیا داری چھوڑ دیں۔
دنیا داری کرتے ہوئے ، تمام حقوق پورے کرتے ہوئے آپ کے اوپر یہ فرض ہے کہ آپ
اللہ سے واقف ہوجائیں۔ اب اللہ سے واقفیت کا جو طریقہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا … من
عرف نفسہ فقد عرف ربہ … پہلے ضروری ہے کہ آپ اپنے وجود سے واقف ہوں۔ کہ آپ یہ
دیکھیں کہ ہمارا وجود کیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی اپنے اندر غور کرے، اپنے وجود
کے بارے میں تفکر کرے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ میرا دل
برابر حرکت کررہا ہے۔ پھیپھڑے جو ہیں وہ بھی چل رہے ہیں۔ آنتیں بھی چل رہی ہیں۔
آٹومیٹک ہر کام ہورہا ہے۔ یہ کوئی مشین نہیں لگی ہوئی ہے۔ کوئی بجلی کا کرنٹ نہیں
آرہا ہے۔ کوئی تار نہیں ہے۔ پھر کیسے یہ سب چیزیں آٹومیٹک چل رہی ہیں۔ دیکھیں
ناں دل ہر وقت چلتا رہتا ہے۔اچھا اب آنکھیں ہیں آپ کی۔ آنکھیں دیکھتی ہیں۔
کیمرہ ہے … اللہ تعالیٰ نے آنکھیں جو ہیں
کیمرہ بنایا ہے۔ اور پلکیں جو ہیں شٹر ہیں۔ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے روشنی جاتی
رہتی ہے آٹومیٹک کیمرہ چلتا رہتا ہے۔ آپ کھانا کھاتے ہیں آپ کو ہضم کرنے کے لئے
کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ کھانا ہضم ہوجاتا ہے۔اگر آپ کھانے کا حساب کتاب کریں
ایک آدمی اگر دن میں دو سیر بھی کھانا کھاتا ہے تو ایک مہینہ میں ساٹھ سیر ہوگیا۔
ڈیڑھ من۔ایک سال میں کتنا ہوا جی؟ اٹھارہ من۔ تو ایک سال میں جتنا کچھ آدمی نے
کھایا اس کے حساب سے اس کا وزن اٹھارہ من ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا وزن ایک من سے
زیادہ ہوتا ہی نہیں۔ اس کا مطلب ہے یہ بھی ایک نظام ہے۔ جتنا کچھ آدمی کھاتا ہے
اس کے اندر سے جتنی انرجی کی اس کو ضرورت پڑتی ہے وہ باڈی حاصل کرلیتی ہے باقی
فضلہ بن کر نکل جاتا ہے۔یہ سب کچھ اس وقت آ پ کی سمجھ میں آئے گا ۔ اس وقت آپ
اس کی طرف متوجہ ہوں گے جب خود کو تلاش کریں گے۔ جب concentrate کریں گے اس بات پر کہ میں کون ہوں۔ کیسے بن گیا۔ آپ ماں کے پیٹ
میں نو مہینے رہتے ہیں۔ کہیں ہوا نہیں۔ ہوا کا کوئی وجود نہیں۔ پرورش ہورہی ہے۔ نو
پونڈ، سات پونڈ کا بچہ ہوتا ہے۔ ماں اپنے پیٹ میں لئے لئے پھرتی ہے۔ وہاں کوئی اس
کو پریشانی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس آپ کے پیٹ میں گیس بن جائے ۔ جس کا کوئی وزن
نہیں۔ نظر بھی نہیں آتی آپ کو ساری رات نیند نہیں آتی۔ ساری رات پیٹ میں درد
رہتا ہے۔ تو یہ سارا نظام اس وقت آپ کی سمجھ میں آئے گا جب آپ پہلے یہ سوچیں کہ
میں کون ہوں؟۔ اسی کو حضور ﷺ نے فرمایا … کہ پہلے خود کو پہچانو۔ پہلے جب خود کو
پہچانوگے پھر تمہارا ذہن اس طرف جائے گا کہ میرا رب کون ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی
فرماتے ہیں … لآیت لی اولی الالباب …یہ ساری نشانیاں اس لئے ہیں تاکہ لوگ غور و
فکر کریں۔ تو یہ مراقبہ جو ہے دراصل مراقبہ ایک اصطلاحی نام ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب
یہ ہے کہ غور و فکر کرنا، ذہن کو یکسو کرکے
اپنے رب کو تلاش کرنا۔ نمازمیں کیا ہوتا ہے۔ نمازمیں بھی رب کو تلاش کیا جاتا
ہے۔اگر نماز کا مفہوم ربط و تلاش کرنا نہ نکلے تو پھر نماز کا کیا مفہوم ہوا؟ نماز
کا تو مفہوم ہی یہ ہے کہ جب ہم نماز قائم کریں تو ہمیشہ اگر صحیح نماز ہم قائم
کرتے ہیں تو ہمیں اللہ نظرآنا چاہئیے۔ ہمیں اللہ نظر آنا چاہئے۔ ہمیں دیکھنا
چاہئیے کہ ایک ہستی ہے جس کے آگے ہم سجدہ کررہے ہیں۔تو اللہ ہمیں اس لئے نظر نہیں
آتا کہ ہم نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں کی کہ اللہ کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو یہ
مراقبہ رسول اللہ ﷺ کی ایسی سنت ہے کہ جو
نبوت سے پہلے غار حرا میں اس سنت پر عمل ہوا۔ اور نبوت پر فائز ہونے کے بعد اللہ
تعالیٰ نے اس سنت پر نماز کی صورت میں عمل کرنے کا حکم دیا۔ اب ہمارے ہاں صورت حال
یہ ہے کہ ہم نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں تو نمازمیں ہمیں یہ یقین ہوتا ہی
نہیں ۔ سترہ رکعت پڑھ جائیں آپ عشاء کی ، اس میں ایک رکعت میں بھی ذہن یکسو نہیں
ہوتا۔ تو اس ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ ہے ہمارے پاس بجز اس کے کہ ہم
رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو تلاش کریں جس
سنت پر عمل کرکے رسول اللہ ﷺ اور اللہ
تعالیٰ کا عرفان حاصل کرسکتے ہیں ۔ دیکھئے مکہ بیت اللہ شریف موجود تھا۔ بیت اللہ
شریف میں کیوں قرآن پاک نازل نہیں ہوا۔ غار حرا میں کیوں نازل ہوا؟ یہ سوال ہے
ایک آدمی کرسکتاہے۔ ٹھیک ہے بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔لیکن رسول
اللہ ﷺ کا تو ان سے کوئی تعلق ہی نہیں
تھا۔ غار حرا میں کیوں قرآن نازل ہوا۔ یہ ایک سوال ہے اس کو بتائیں؟۔ اگر غار حرا
کی کوئی حیثیت نہیں تھی نبوت سے پہلے تو غار حرا میں قرآن کیوں نازل ہوا۔پہلی
آیات کیوں نازل ہوئیں … اقراء باسم ربک الذی خلق … خلق الانسان من علق… تو یہ جن
بھائی نے بھی سوال کیا اس میں یہ ہے کہ یہ حجروں میں بند ہونا، جنگل میں مقید
ہوجانا ، مراقبہ کا مطلب ہر گز نہیں ہے۔ مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے حقوق
نبھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے دیکھئے معاشرے
میں کام کیا۔ لڑائیاں بھی لڑیں۔ حضور پاک
ﷺ نے شادیاں بھی کیں۔ رسول اللہ
ﷺنے قبیلوں کے فیصلے بھی کرائے۔ لوگوں کا علاج بھی کیا۔ دم درود بھی کیا۔
جو بھی معاشرے کی جو ضروریات تھیں سب کیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں چاہئے کہ دنیاوی
تقاضے پورے کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی اس
سنت پر عمل کریں جس سنت پر عمل کرکے رسول اللہ
ﷺ کے اوپر قرآن پاک کا نزول ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں اللہ
تعالیٰ کی کائنات میں غور و فکر کرکے۔ صحابہ کرام ؓ کے بارے میں یہ ہے کہ صحابہ
کرامؓ کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ بھئی انہوں نے مراقبے کئے یا نہیں کئے۔
تو صحابہ کرام ؓ کی نماز تو سارا ہی مراقبہ تھا۔ نماز کو اگر آپ concentration کہتے ہیں تو صحابہ کرامؓ
جب نماز قائم کرتے تھے ۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صاحب گھر میں آگ لگ گئی اور
پتہ ہی نہیں چلا۔ حضرت علیؓ کی نماز آپ نے سنی ہوگی۔ کہ صاحب ایک تیر لگ گیا کمر
میں۔ جب اس کو نکالنے لگے تو تکلیف ہوئی۔ تو لوگوں نے کہا ٹھہر جاؤ۔ جب حضرت علیؓ
کرم اللہ وجہہ نے وہ نماز کی نیت باندھ لی انہوں نے جناب و ہ تیر کھینچ بھی لیا اب
دیکھئے تیر میں وہ بھالا ہوتاہے وہ جب باہر نکلتا ہے تو پورا گوشت نکل کے باہر نکل
آ جاتا ہے۔ تیر نکال بھی دیا۔ مرہم پٹی بھی کردی۔ سب کچھ ہوگیا اور انہیں پتہ بھی
نہیں چلا۔ وہ کہاں بھئی پٹی ہوگئی نماز کے … سلام کے بعد۔ تو یہ نماز بجائے خود concentration ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب نماز میں کھڑے ہوجاتے تھے
سب کو پتہ ہے کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کتنی دیر ہوگئی۔اور پیر مبارک
میں ورم آجاتا تھا۔ اتنی استغراق یا concentration ۔ یہ سب مراقبہ کا مطلب ہے concentration استغراق اللہ کی ذات کے
اوپر مراقبہ کا یہ مطلب ہوا۔ دوسری بات جوانہوں نے ہمارے حضور قلندر بابا اولیاؒ
نے لوح و قلم میں لکھی ہے۔ وہ یہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے اندر کے لطائف اور
صحابہ کرامؓ کی جو روح تھی وہ رسول اللہ ﷺ
کی قربت کی وجہ سے اتنی روشن اور منور تھی کہ انہیں الگ سے concentration کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔نبوت کے انوار سے ان کے عین اتنے لبریز
تھے کہ انہیں اس بات کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے بعد
تابعین آئے۔ تابعین کے بعد تبع تابعین آئے اب جیسے جیسے یہ دور گزرتا چلا گیا تو
اسلام کے انوار کے ذخیرے میں کمی ہوتی چلی گئی۔ مثلاً بادشاہت آگئی۔ اسلام میں
بادشاہت نہیں ہے۔ لیکن بادشاہت آگئی۔ جب بادشاہت آگئی تو بادشاہوں نے اپنے مفید
مطلب اشیاء میں مصلحتیں شامل کرنا شروع کردیں۔ کون نہیں جانتا کہ ایک وقت ایسا بھی
آیا کہ اہل بیت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے قتل کیا جاتا تھا۔ تو اب جب تبع تابعین کے بعد
وہ لوگ جو روحانی لوگ تھے جن کو رسول اللہ
ﷺ کی ذات میں شغف تھا ۔ جو رسول اللہ
ﷺ کے علم کے وارث تھے ۔ وہ بیٹھے
سر جوڑ کراور انہوں نے کہا یہ تو جس طرح یہ چل رہا ہے حساب کتاب اس طرح تو کہیں
نام و نشان ہی نہ رہ جائے۔ انوار سے لوگ برابر دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور دنیا
داری میں زیادہ سے زیادہ گھستے چلے جارہے ہیں۔ انہوں نے بیٹھ کے ایک پروگرام
بنایا۔ اور پروگرام یہ بنایا کہ رسول اللہ
ﷺ کی قربت حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ
ﷺ کی ذات اقدس کے انوار اپنے اندر منتقل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں نبوت سے پہلے جو
طرز عمل اختیار کیا تھا اسے اپنایا جائے۔ اس کے بعد پھر یہ جیسے جیسے ……بڑھتا رہا
اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہے۔اور انہوں نے اس کو تصوف کو یا روحانیت کو آگے بڑھایا۔
اور اس بڑھانے کے نتیجہ میں یہ لوگ پیدا ہوئے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؑ ہیں۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؑ ہیں۔ حضور داتا گنج بخش ؑہیں۔ ہزاروں اللہ کے بندے ہیں۔
سب نے مراقبے کئے ۔ لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ مراقبہ کرنے کا مطلب یہ ہے صاحب
نماز سے بھی آزاد۔ کپڑوں سے بھی آزاد۔ کھانے پینے سے بھی آزاد۔ ایسا نہیں ہے۔ concentration ، ذہنی مرکزیت۔ تو ذہنی مرکزیت آپ چلئے آنکھیں بند کرکے نہ بیٹھیں۔نماز
میں ذہنی مرکزیت قائم کریں۔ اگر کرسکتے ہیں ۔ لیکن چونکہ نماز ایک اجتماعی فریضہ
ہے اس میں آپ کے ہاتھ بھی ہلیں گے،آپ کا منہ بھی ہلے گا، آپ کچھ بولیں گے بھی،آپ
کچھ دیکھیں بھی ، آپ کچھ سنیں گے بھی ،آپ کھڑے بھی ہوں گے، آپ جھکیں گے بھی،
آپ ادھر ادھر بھی دیکھیں گے، گردن بھی ہلائیں گے، تو اس میں انسان اتنا مصروف
ہوتا ہے تو اس میں concentration جو ہے اگر اس کو مسئلہ ہوتو اس کو concentration حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری قرار پایا کہ تمام ارکان
اسلام کو پورا کرتے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ
کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایک وقت ایسا نکالا جائے کہ جس وقت میں جسمانی حرکات
و سکنات معطل ہوں۔ ذہن کی حرکت جو خیالات ہیں ان سے آدمی آزاد ہوجائے۔ اور صرف
اور صرف یہ نقطہ کہ اس کا ذہن رسول اللہ ﷺ کے انوار میں جذب ہو اسی کا نام مراقبہ
ہے۔ یہ جن صاحب نے سوال کیا ہے یہ اگر تشنگی رہ گئی ہو تو دوبارہ کرسکتے ہیں۔
(اختتام)
Khutbat Khwaja Shamsuddin Azeemi 01
Khwaja Shamsuddin Azeemi
اللہ کا شکر ہے پہلی جلد جس میں 73 تقاریر کو شامل کیا گیا ہے۔حاضر خدمت ہے۔ بہت سی جگہ ابھی بھی غلطیاں ہونے کا امکان ہے۔ برائے مہربانی ان سے ہمیں مطلع فرمائے۔اللہ تعالی میرے مرشد کو اللہ کے حضور عظیم ترین بلندیوں سے سرفراز کریں، اللہ آپ کو اپنی ان نعمتوں سے نوازے جن سے اس سے پہلے کسی کو نہ نوازہ ہو، اپنی انتہائی قربتیں عطاکریں۔ ہمیں آپ کے مشن کا حصہ بنائے۔ ناسوت، اعراف، حشر نشر، جنت دوزخ، ابد اور ابد الاباد تک مرشد کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین
مرشد
کا داس