Topics

پرخلوص دل-Pur Khuloos Dil


اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی نیابت عطا فرمائی تو فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ زمین پر فساد پھیلائے گا۔ یہ بتانے کے لئے کہ آدم کے اندر شر اور فساد کے ساتھ فلاح و خیر کا سمندر بھی موجزن ہے اللہ تعالیٰ نے آدمؑ سے کہا کہ ہماری تخلیقی صفات بیان کرو۔ جب آدمؑ نے تخلیقی صفات اور تخلیق میں کام کرنے والے فارمولے (اسماء) بیان کئے تو فرشتے برملا پکار اٹھے:

’’پاک اور مقدس ہے آپ کی ذات، ہم کچھ نہیں جانتے مگر جس قدر علم آپ نے ہمیں بخش دیا ہے۔ بے شک و شبہ آپ ہی کی ذات علیم اور حکیم ہے۔‘‘

تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائناتی پروگرام دو طرزوں (خیر و شر) پر بنایا ہے، اس لئے کہ فرشتوں نے جو کچھ کہا اس کی تردید نہیں کی گئی ہے۔ بات کچھ یوں بنی کہ آدم کو جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم منتقل نہیں ہوتا وہ سر تا پا شراور فساد ہے اور تخلیق کا علم منتقل ہونے کے بعد وہ سراپا خیر ہے۔

آدمؑ کے وجود سے پہلے فرشتے موجود تھے، جن میں شر اور فساد نہیں ہے۔ پس ایک مخلوق پیدا کی گئی جس میں شر اور خیر دونوں عناصر پورے پورے موجود ہیں تا کہ یہ مخلوق شر کو نظر انداز کرے، خیر کا پرچار کرے۔ خود بھی خیر(صراط مستقیم) پر قائم رہے اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی دعوت دے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کو عام کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے اور یہی وہ دعوت ہے جو تبلیغ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجئے حکمت کے ساتھ، عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کیجئے ایسے طریقے پر جو انتہائی بھلا ہو۔‘‘

قرآن پاک کی ان آیات سے ہمیں تین اصولی ہدایات ملتی ہیں:

۔ شر سے محفوظ رہنے اور خیر کو اپنانے کے لئے دعوت حکمت کے ساتھ دی جائے۔

۔ نصیحت ایسے انداز میں نہ کی جائے جس سے دل آزاری ہو، نصیحت کرتے وقت چہرہ بشاش ہو، آنکھوں میں محبت اور یگانگت کی چمک ہو، آپ کا دل خلوص سے معمور ہو۔

۳۔ اگر کوئی بات سمجھاتے وقت بحث و مباحثہ کا پہلو نکل آئے تو آواز میں کرختگی نہ آنے دیں۔ تنقید ضروری ہو جائے تو یہ خیال رکھیں کہ تنقید تعمیری ہو، دلسوزی اور اخلاق کی آئینہ دار ہو۔ سمجھانے کا انداز ایسا دل نشیں ہو کہ مخاطب میں ضد، نفرت، تعصب اور جاہلیت کے جذبات میں اشتعال پیدا نہ ہو اور اگر مخالف کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہونے لگے تو فوراً اپنی زبان بند کر لیجئے کہ اس وقت یہی اس کے حق میں خیر ہے۔



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔