Topics

جھاڑو کے تنکے-Jharoo Ke Tinkey


کائنات کی ساخت ہمارے سامنے اس امر کی تشریح کرتی ہے کہ جو کچھ موجود ہے وہ پہلے سے کہیں قائم ہے اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کا تعلق ماضی اور حال سے نہ ہو۔ جب ہم ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل کسی شے کے آباؤ اجداد اور اسلاف کا اعتراف کرتے ہیں۔ بادام کے درخت سے اگر بات کرنا ممکن ہو جائے تو بادام کا درخت اس طرح شجرہ بیان کرتا ہے جس طرح ایک آدم زاد اپنا شجرہ بیان کر کے خاندانی وجاہت اور وقار کی گفتگو کرتا ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بکری کا خاندان بھی اپنی معین مقداروں اور فطرتی تقاضوں پر قائم ہے جس طرح خاندانوں، نوعوں اور مخلوق کے شجرے ہوتے ہیں یہی صورت حال نیکی اور بدی کی ہے۔ نیکی کا بھی ایک خاندان ہے یا نیکی ایک درخت ہے اور یہ درخت جب قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اندر ہزاروں شاخیں اور بے شمار پھول اور پتے لگتے رہتے ہیں۔ شاخوں، تنوں اور پتوں کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایک درخت اپنے خاندان، اپنے کنبہ، اپنی نسل کے لئے سایۂ رحمت بن جاتا ہے۔

بسا اوقات ہم ایک برائی کو بہت کم تر اور معمولی سمجھتے ہیں لیکن جب بہت کم تر اور بظاہر حقیر نظر آنے والی برائی بیج بن کر نشوونما پاتی ہے اور درخت بن جاتی ہے تو اس درخت کے پتے، کانٹے، کریہہ رنگ پھول، خشک سیاہ اور کھردرے پتے، بجھی بجھی سی اور بے رونق شاخیں پوری نوع کو غم آشنا کر دیتی ہیں۔ اور پھر یہ غم ضمیر کی ملامت بن کر مہلک بیماریوں کے ایسے کنبے کو جنم دیتا ہے جس سے آدمی بچنا بھی چاہے تو بچ نہیں سکتا۔ اگر ہم واقعتاً حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور تفکر کو اپنا شعار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں جاننا ہو گا کہ خیر و شر کے تمام مراحل ایک کنبہ کے افراد کی طرح زندہ اور متحرک ہیں۔ نیکی کا درخت رحمت و برکت کا سایہ ہے اور بدی کا درخت خوف اور پریشانی اور رنج و ملال کی کیفیات کو نوع انسانی پر مسلط کر دیتا ہے۔

ہر آدمی یہ جانتااور سمجھتا ہے کہ خاندان کے افراد جب تک مل جل کر یکجائی جذبات کے ساتھ رہتے ہیں ان کی ایک حیثیت ہوتی ہے، ان کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے، ان کی ایک اجتماعی قوت ہوتی ہے۔ جھاڑو کے تنکے الگ الگ کر دیئے جائیں اور ہر تنکے سے الگ الگ ضرب لگائی جائے، چاہے اس کی تعداد ایک ہزار تک ہو، چوٹ نہیں لگے گی اور نہ اس عمل سے کوئی مفید نتیجہ مرتب ہو گا لیکن ان ایک ہزار تنکوں کو ایک جگہ باندھ کر ضرب لگائی جائے تو جسم پر نیل پڑ جائے گا۔

اسی طرح ملت اسلامیہ کی شیرازہ  بندی کی طرف قرآن ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ ایک خاندان، ایک کنبہ اور ایک بڑے درخت کی طرح مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ سب متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو پکڑیں اور بکھر کر اپنی شیرازہ بندی کو ختم نہ کریں۔ قرآن پاک اس ہدایت کا تقاضا ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں کے درمیان جتنے بھی اختلافات ہوں، انہیں قرآن کی ہدایات کے مطابق اللہ کی رسی کو سہارا بنا کر ختم کر دیا جائے لیکن وائے نصیب!

بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں مسلمان متفق نہیں ہیں۔ ایک ایک آیت کی تاویل میں بے شمار اقوال ہیں۔ اور ان اقوال میں سے اکثر ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ تفاسیر کا مطالعہ کر کے کوئی صاحب نظر بندہ کسی ایک راستہ پر قدم نہیں اٹھا سکتا جب کہ مفسرین کرام کے پاس کوئی سند ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ان میں سے کون سا قول حق ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلافات کا درخت تناور، گھنا اور لمبا ہو گا کل جو درخت ایسا تھا جس کے نیچے بمشکل چند افراد قیام کر سکتے تھے آج اس درخت کے نیچے پوری قوم خواب خرگوش میں گم ہے۔

ہم جب اپنے اسلاف کے دور کو دیکھتے ہیں اور ان کے گرد و پیش کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان کے اندر اجتماعی حیثیت برقرار تھی اور قرآن پاک کے لطیف اشارات اور مخفی کنایات اور اسرار و رموز سمجھ لینے میں انہیں کوئی زحمت پیش نہیں آتی تھی۔

اور جب مسلمان قوم کی اجتماعی حیثیت متاثر ہوئی اور نیکی کے درخت کی جگہ برائی(اختلافات) کے درخت نے لے لی تو مسلمان خاندان افراط میں بٹ گیااور قرآن کی حکمت اور انوار سے محروم ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اللہ کی رسی کو باہم متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔

اللہ پروردگار کی بنائی ہوئی یہ ساری کائنات اور نوع انسانی اللہ کی تخلیق ہے ایک ماں کے ساتھ، نو یا بارہ بچے اس کی تخلیق ہے کوئی ماں یہ نہیں چاہتی کہ اس کی اولاد آپس میں لڑتی جھگڑتی رہے۔ ماں کا فطری تقاضہ ہے کہ اولاد باہم متحد ہو کر ماں کی ممتا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہے اور ماں کی مرکزیت کبھی ختم نہ ہو۔ تمثیلی اعتبار سے اللہ بھی ایک ماں ہے۔ اللہ کی ربوبیت، اللہ کی مامتا اور نوع انسانی کے ساتھ اللہ کی محبت چاہتی ہے کہ سارے انسان ایک کنبہ کے افراد بن کر اللہ کی سر زمین پر خوش ہو کر کھائیں پئیں۔ بلا شبہ مخلوق کی خوشی اللہ رب العالمین کی خوشی ہے۔

 

 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔