Topics

مردہ قوم-Murda Quam


اگر تو ان احکام پر جو آج تجھے دے رہا ہوں عمل کرے گا تو تیرا خداوند تجھے زمین کی قوموں میں سرفراز کرے گا، ساری برکتیں تجھ پر نازل ہونگی، تو شہر میں بھی مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی۔ تو گھر میں آتے وقت اور باہر جاتے وقت مبارک ہو گا۔ تیرے حملہ آور تیرے سامنے مارے جائیں گے، اگر وہ ایک راہ سے حملہ کرینگے تو سات راہوں سے بھاگیں گے۔۔۔۔۔۔خداوند تیری زمین کے پھلوں میں فراوانی دے گا۔ وہ اپنا خاص خزانہ تیرے آگے کھولے گا۔ آسمان تیری زمین پر بروقت مینہ برسائے گا۔ تو اوروں کو قرض دے گا پر تو قرض نہ لے گا۔ لیکن اگر تو نے خداوند کی آواز کو نہ سنا تو پھر تو شہر میں بھی لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی۔ تو اندر آنے اور باہر نکلتے وقت لعنتی ہو گا۔ خداوند تیرے کاموں پر لعنت، حیرت اور ملامت نازل کرے گا یہاں تک کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔ وباء تجھ سے لپٹی رہے گی۔ خداوند تجھ کو سوکھنڈی، تپ، جوش خون، سخت جلن، خشک سالی اور گرم لُو سے مارے گا۔ تیرا آسمان پیتل کا اور تیری زمین لوہے کی ہو جائے گی۔ خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک دھول برسائے گا۔ تو اپنے دشمن پر ایک راہ سے حملہ کرے گا اور سات راہوں سے بھاگے گا۔ خداوند تجھ کو دیوانگی، نابینائی اور گھبراہٹ سے مارے گا جس طرح اندھا (نابینائی کے) اندھیرے میں ٹٹولتا ہے تو دوپہر کو ٹٹولتا پھرے گا۔ تیرے بیٹے اور تیری بیٹیاں دوسری قوم کو دے دی جائیں گی تو دیکھتا رہ جائے گا اور ان کے انتظار میں تیری آنکھیں تھک جائیں گی، تیرے بازوؤں میں زور نہیں رہے گا۔ تیری محنتوں کا پھل ایک اجنبی قوم کھا جائے گی۔‘‘

(کتابِ موسیٰ۔ استثناء ۲۸/۱-۳)

دنیا میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ ظالم کو دیر سویر اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا ہو۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بدمعاش اور بدکار آدمی کو زندگی میں سکون قلب کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ مکافات عمل کا یہ قانون ہے کوئی بندہ اس وقت تک رنگ و بو کی اس دنیا سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا جب تک وہ مکافات عمل کاکفارہ ادا نہیں کر دیتا۔ کیا کوئی بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ خیانت اور بددیانتی سے اس کی مسرت میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا کوئی آدمی متعفن اور سڑی ہوئی غذا کھانے کے بعد بیماریوں، پریشانیوں اور بے چینیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیا سیاہ کارانہ زندگی میں رہتے ہوئے ارادوں میں کامیابی ممکن ہے، ایسی کامیابی جس کامیابی کو حقیقی کامیابی اور مستقل کامیابی کہا جا سکے؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ برے کام کا نتیجہ برا مرتب ہوتا ہے اور اچھے کام کا نتیجہ اچھائی میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس اصول کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانی فلاح خیر میں ہے اور شر کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہی قانون اجتماعی زندگی کا ہے۔ اجتماعی طور پر اگر کوئی معاشرہ سیاہ کارانہ زندگی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا نتیجہ بھی اجتماعی تباہی مرتب ہوتا ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ مسلمان من حیث القوم ادبار زدہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی حکومت ایک عالم کو محیط تھی۔ آج یہ ان لوگوں کا محتاج کرم ہے جو اس کی کفالت میں زندگی گزارتے تھے۔

آسمانی صحائف اور تمام اللہ کے فرستادہ پیغمبروں نے نوع انسانی کو یہی پیغام دیا ہے کہ راست بازی، دیانت اور حقیقت پسندی انسانی زندگی کی معراج ہے۔ جب کسی قوم کو یہ معراج حاصل ہو جاتی ہے تو اس کو سکون قلب مل جاتا ہے۔ سکون قلب ایک ایسی کیفیت ہے جس کی موجودگی میں انسان کے اندر سوئے ہوئے دو کھرب خلیے بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ قوم جس کے اندر سوئے ہوئے خلیے جس مناسبت سے بیدار ہوتے ہیں اسی مناسبت سے اس کے اندر نت نئی ایجادات کی صلاحیتیں کام کرنے لگتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں کیا ہیں؟ یہ صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، ایسی صفات جن کے اندر یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ انسان زمین اور آسمان اور پوری کائنات کا حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون سچا ہے، برحق ہے۔ جو قومیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صفات یعنی انسانی صلاحیتیں اپنے اندر پیدا کر لیتی ہیں وہ زمین پر حکمرانی کرتی ہیں۔ جو قوم ان صلاحیتوں سے کام نہیں لیتی یعنی وہ محکوم اور غلام بن جاتی ہے۔

آج کا دور ایک قوم کے لئے محکومیت اور طوق غلامی کا دور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جو قوم زندہ ہے اور اس کے خون میں زندگی رواں دواں ہے اور جو قوم زمین پر پھیلائے ہوئے اللہ تعالیٰ کے وسائل کو استعمال کرنے کی جدوجہد میں مشغول ہے وہ حاکم ہے اور دوسری قوم کے لئے جس میں انتشار ہے، اختلاف ہے، بے یقینی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کی ناشکری ہے وہ محروم اور ادبار زدہ ہے۔

آیئے! ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی زندگی کا تجزیہ کریں کہ ہمارا شمار حاکم قوم میں ہے یا ہمارا مقدر محرومیت بن گیا ہے۔




 

 

 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔