Topics

طرز فکر-Tarz e Fikr


طرز گفتگو میں آدمی کی شخصیت کا عکس جھلکتا ہے۔ خوش آواز آدمی کے لئے اس کی آواز تسخیر کا کام کرتی ہے۔ جب بھی کسی مجلس میں یا نجی محفل میں بات کرنے کی ضرورت پیش آئے وقار اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کیجئے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ریکارڈ ہوتا ہے۔ آدمی جو بات بھی منہ سے بولتا ہے فرشتے اسے ماورائی کیمرے میں محفوظ کر لیتے ہیں۔

مسکراتے ہوئے، نرمی کے ساتھ، میٹھے لہجے اور درمیانی آواز میں بات کرنے والے لوگوں کو اللہ کی مخلوق عزیز رکھتی ہے۔ چیخ کر بولنے سے اعصاب میں کھنچاؤ(TENSION) پیدا ہوتا ہے اور اعصابی کھنچاؤ سے بالآخر آدمی دماغی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مخاطب یہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر رعب ڈالا جا رہا ہے اور وہ اس طرز کلام سے بد دل اور دور ہو جاتا ہے، اس کے اندر خلوص اور محبت کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔

شیریں مقال آدمی خود بھی اپنی آواز سے لطف اندوز اور سرشار ہوتا ہے اور دوسرے بھی مسرور و شاداں ہوتے ہیں۔ اچھی، میٹھی اور مسحور کن آواز سے اللہ میاں بھی خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’سب سے زیادہ کریہہ اور ناگوار آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘

آداب گفتگومیں باتوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ بری باتوں اور گالم گلوچ سے زبان گندی نہ کیجئے۔ چغلی نہ کھایئے۔ چغلی کرنا ایسا ہے کہ جیسے کوئی بھائی اپنے بھائی کا گوشت کھاتا ہو۔ دوسروں کی نقلیں نہ اتاریئے۔ اس عمل سے دماغ میں کثافت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے۔

شکایتیں نہ کیجئے کہ شکایت محبت کی قینچی ہے۔ کسی کی ہنسی نہ اڑایئے کہ اس سے آدمی احساس برتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور احساس برتری آدمی کے لئے ایسی ہلاکت ہے جس ہلاکت میں ابلیس مبتلا ہے۔ اپنی بڑائی نہ جتایئے۔ اس عمل سے اچھے لوگ آپ سے دور ہو جائیں گے۔ خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے منافق آپ کا گھیراؤ کر لیں گے اور ایک روز آپ عرش سے فرش پر گر جائیں گے۔ فقرے نہ کسئے، کسی پر طنز نہ کیجئے، بات بات پر قسم نہ کھایئے۔ یہ عمل آپ کے کردار کو گہنا دے گا اور آپ لوگوں کی محبت سے محروم ہو جائینگے۔



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔