Topics

توبہ-Tuaba


خدا کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کیجئے۔ اس ہی کے سامنے گڑگڑایئے اور اسی عفو و درگزر کرنے والی ستار العیوب ، غفار الذنوب ہستی کے سامنے اپنی عاجزی، بے کسی اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کیجئے۔ عجز و انکساری خطا کار انسان کا وہ سرمایہ ہے جو صرف خدا کے حضور پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس قیمتی اور انمول سرمایہ کو اپنے ہی جیسے مجبور و بے کس انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ دیوالیہ ہو جاتا ہے اور ذلیل و رسوا ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ عزت کی روشن کرنیں ذلت کی کثافت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

توبہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں فی الواقع آدمی اپنی نفی کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کے سامنے وہ سب کہہ دیتا ہے جو وہ کسی کے سامنے نہیں کہہ سکتا۔ بے شک اللہ ہمارا محافظ اور دم ساز ہے۔ اس کی رحمتیں ہمارے اوپر بارش بن کر برستی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:

’’اور آپ کا پروردگار گناہوں کو ڈھانپنے والا اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو فوراً پکڑنے لگے تو عذاب بھیج دے مگر اس نے (اپنی رحمت سے) ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور یہ لوگ بچنے کے لئے اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے۔‘‘(الکہف)

’’اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے اور وہ سب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘(الشوریٰ)

صحیح طرز فکر یہ ہے کہ بندے سے خواہ کیسے بھی گناہ کیوں نہ ہو جائیں اس کا کام یہ ہے کہ وہ خدا ہی کے حضور خشوع و خضوع اور ندامت کے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرے۔ کوئی دروازہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں سے وہ سب کچھ مل جائے جس کی بندہ کو ضرورت ہے۔ صرف اللہ کی ذات ایسی یکتا اور غنی ہے کہ بندہ روزانہ لاکھوں خواہشات بھی اللہ کے ساتھ وابستہ کرے تو اللہ ان کو پورا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ، ہمارا پیارا اللہ، ہر وقت اپنی مخلوق کی خدمت میں مصروف ہے۔ بندوں کے وسائل کی فراہمی، ایک ضابطے اور ایک قانون کے تحت ہمارا بڑھنا گھٹنا، صحت یاب ہونا اللہ کے کرم کی وجہ سے ہے۔ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:

’’اے مومنو! خدا کے آگے سچی اور خالص توبہ کرو۔ امید ہے تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا۔ اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی۔ اس دن خدا اپنے رسول کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لا کر ان کے ساتھی بن گئے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔‘‘

گناہوں کی ہیبت ناک دلدل میں پھنسی ہوئی کوئی قوم جب اپنے گناہوں پر نادم اور اشک بار ہو کر خدا کی طرف جذبۂ بندگی کے ساتھ پلٹتی ہے اور اپنی لغزشوں، کوتاہیوں، چھوٹی بڑی خطاؤں کی گندگی کو ندامت کے آنسوؤں سے دھو کر پھر خدا سے عہد وفا استوار کرتی ہے تو اس والہانہ طرز عمل کو قرآن توبہ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے اور یہی توبہ استغفار ہر طرح کے فتنہ و فساد ، خوف و دہشت اور عدم تحفظ کے احساس سے محفوظ رہنے کا حقیقی علاج ہے اور اگر اس کے برخلاف بندہ گناہوں اور کوتاہیوں کی طرف توجہ نہیں دیتا، یہ شیطانی عمل آدمی کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور دین و دنیا میں رسوائیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں اور پھر جب یہ عمل اس کی زندگی پر محیط ہو جاتا ہے تو آدم زاد کے قلوب پر، کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیئے جاتے ہیں اور یہ انتہائی صورت بے شبہ عذابُٗ الیم ہے اور یہ عذاب مایوسی، بدحالی، خوف و ہیبت بن کر اس کے اوپر مسلط ہو جاتا ہے۔

سورۂ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہاری ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی خطاؤں سے درگزر کرتا رہتا ہے۔‘‘

قرآن پاک میں اس کا علاج بھی بتا دیا گیا ہے:

’’اور تم سب مل کر خدا کی طرف پلٹو، اے مومنو! تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

جس قوم میں خیانت اور بے ایمانی درآتی ہے اس قوم کے دلوں میں دشمن کا خوف بیٹھ جاتا ہے، وہ وسوسوں اور توہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ کا رواج ظاہر ا طور پر کتنا ہی خوش نما نظر آئے لیکن بالآخر اس کا نتیجہ قحط اور فاقہ کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

توبہ استغفار کے ساتھ اپنے اللہ خالق حقیقی کی طرف رجوع ہو کر یہ عزم کیجئے کہ ہم اپنے اور ملت کے اندر سے ان روگوں کو ختم کر کے دم لیں گے۔




Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔