Topics

مہمان نوازی-Mehman Nawazi


مہمان کے آنے پر سلام دعا کے بعد سب سے پہلے اس کی خیریت معلوم کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمان کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جواب میں سلام کیا۔‘‘

حضرت فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ن کے آپس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔

’’تو جلدی سے گھر میں جا کر ایک موٹا تازہ بچھڑا لائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘ (قرآن)

اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ مہمان کو زحمت نہیں، رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں مہمان آنے سے عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔

میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھا جائے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھیئے۔

جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا۔

’’یہ لوگ میرے مہمان ہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ ان کی رسوائی میری رسوائی ہے۔‘‘

’’لوط نے کہا، بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو۔ خدا سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو۔‘‘ (قرآن)

امام شافعیؒ جب امام مالکؒ کے یہاں جا کر بطور مہمان ٹھہرے تو امام مالکؒ نے نہایت عزت و احترام سے انہیں ایک کمرہ میں سلا دیا۔ سحر کے وقت امام شافعیؒ نے سنا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بڑی ہی شفقت سے آواز دی۔

’’آپ پر خدا کی رحمت ہو، نماز کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘

امام شافعیؒ فوراً اٹھے۔ دیکھا تو امام مالکؒ ہاتھ میں پانی کا بھرا ہوا لوٹالئے کھڑے ہیں۔ امام شافعیؒ کو کچھ شرم محسوس ہوئی۔ امام مالکؒ نے نہایت محبت کے ساتھ کہا۔ ’’بھائی! تم کوئی خیال نہ کرو۔ مہمان کی خدمت ہر میزبان کے لئے سعادت ہے۔‘‘

نبئ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم خود بنفس نفیس مہمانوں کی خاطر داری فرماتے تھے۔ جب آپﷺ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے ’’اور کھایئے‘اور کھایئے‘‘ جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا اس وقت آپ اصرار نہیں فرماتے تھے۔
مہمان کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا پیش کیجے۔ دسترخوان پر خورد و نوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمانوں کی تعداد سے زیادہ رکھیئے۔ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آ جائیں اور پھر ان کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑے۔ اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہو گا تو آنے والا بھی عزت اور مسرت کرے گا مہمان کے لئے خود تکلیف اٹھا کر ایثار کرنا اخلاق حسنہ کی تعریف میں آتا ہے۔
ایک مرتبہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا۔ ’’حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔‘‘
آپﷺ نے اُمہات المومنینؓ میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی۔ جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب آیا تو آپﷺ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ ’’آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے؟‘‘

ایک صحابی انصاری نے اس مہمان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کی بیوی نے کہا۔ ’’ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے۔‘‘

صحابئ رسول نے کہا۔ ’’بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ صبح جب یہ انصاری حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا۔ ’’تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔‘‘



 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔